برمااور اسلام
روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی خبریں تو ہر ایک نے سنی اور دیکھی ہوں گی۔ امت مسلمہ اپنی لمبی نیند کے بعد اب جب بیدار ہو رہی ہے تو اس کی تاریخ کے بہت سے گوشے اس کی یادداشت سے محو چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں جب بوسنیا میں جنگ شروع ہوئی تو میرے گھر میں یہ جان کر تعجب ہوا کہ یورپ کے دل میں بھی مسلمان آباد ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔ اسی طرح میں نے بچپن میں اراکان کا نام تو سنا تھا کہ وہاں ظلم و زیادتی ہو رہی ہے لیکن بمشکل بتا سکتا ہوں گا کہ اراکان ہے کہاں۔ اب جب کے دل دہلانے والے واقعات نے ضمیر کو جھنجھوڑا تو اپنے مسلمان روہنگیا بھائیوں کو جاننے کی کوشش کی۔ آئیے! میرے ساتھ برِّ صغیر کے کچھ مشرق میں چلے چلتے ہیں، اور قدیم دور سے آج تک دیکھتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کی کیا کہانی ہے۔ ان کی تاریخ جان کر ذہن میں کئی سوالات ابھرے جنہیں آخر میں درج کروں گا جو کہ انڈیا میں جاری ہندتوا تحریک اور بر صغیر کے تمام خطے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ لیکن ان سب کا تعلق موجودہ عالمی نظام سے بھی بہت گہرا ہے۔ شروع برما سے کرتے ہیں جہاں روہنگیا مسلمان کی مظلوم اقلیت آج کل آباد ہے۔
میانمار (جدید برما)
برما جس کا نیا نام میانمار ہے، ۴ جنوری ۱۹۴۸ء کو برطانیہ سے آزاد ہو کر موجودہ شکل میں نمودار ہوا۔ اگرچہ تاریخی طور پہ یہ سرزمین کئی ممالک اور مختلف اقوام پر مشتمل تھی۔ اس کا نام سب سے بڑے قبیلے بامار کے نام پر پڑا جس کا دوسرا نام میانمار بھی ہے۔ ملک کے اس نام سے ہی دیگر اقلیتوں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ قبیلہ برما کے وسطی علاقے مانڈلے اور اس کے اطراف میں رہتا ہے اور خود تبت سے ہجرت کر کے یہاں پہنچا تھا۔ یہ قبیلہ اپنے ساتھ بدھ مذہب لایا جو آج برما کا قومی مذہب ہے۔ ہم اس تحریر میں نئے نام میانمار کے بجائے برما کا نام ہی استعمال کریں گے کیونکہ میانمار تاریخی واقعات کے بیان کے لیے نہیں استعمال ہو سکتا۔ برمی حکومت دونوں ناموں کے استعمال کو درست قرار دیتی ہے۔
برما میں اسلام
ابتدائی پگان1 دور (۶۵۲–۶۶۰ء) میں عرب مسلمان تاجر برما کی کئی بندرگاہوں پر اترے جن میں نمایاں تھاٹون Thaton2، مرتبان3 اور مرگوی Mergui4 تھیں۔ مسلمان تاجروں کی کشتیاں مدغشقر کے جزیرے سے چین جاتے ہوئے برما میں آتی جاتی رہتی تھیں۔ ۹ویں صدی عیسوی میں مسلمان دریائے ایاروادی، ساحل تِناسِرم اور اراکان میں پہنچے۔ یعنی کہ برما میں ان کی آبادی ۱۰۵۵ء میں بادشاہ (انوراٹھا) کی پہلی برمی ایمپائر قائم کرنے سے پہلے ہی موجود تھی۔ ۹ویں عیسوی صدی میں برما میں عرب مسلمانوں کی ان ابتدائی آبادیوں اور اسلام کی اشاعت پر عربی، فارسی، یورپی اور چینی دستاویزات شاہد ہیں۔ اور برمی مسلمان ان لوگوں کی اولاد ہیں جو وہاں آباد ہوئے اور مقامی نسلوں کے ساتھ شادیاں کیں۔ باگو (پیگو)، دالا، تھانلین (سیریام)، تانی تھائی (تینا سیرم)، مٹاما (مرتبان)، میک (مرگوی) اور پاتھین (پاسین) یہ سب شہر برمی مسلمانوں سے بھرے تھے اور ایسے دور بھی گزرے ہیں جب ان میں مسلمانوں کی تعداد مقامی برمیوں سے بھی زیادہ تھی۔
برما میں مسلمان بطور تاجر، سپاہی، کماندان، جنگی قیدی، پناہ گزین اور غلام آئے ہیں۔ البتہ ابتدائی مسلمان شاہی مشیر، شاہی منتظم، بندرگاہوں کے منتظم، والی اور حکیم بھی رہ چکے ہیں۔ روہنگیا کے علاوہ برما میں پانتھی اور کمان مسلمان نسلیں بھی بستی ہیں۔ روہنگیا نسل پر تو تفصیلی بات کریں گے اور ان ہی کی ذیل میں کمان نسل کی بھی بات ہو جائے گی۔ البتہ پانتھی مسلمانوں کا یہاں مختصر تذکر کر دیتے ہیں۔
پانتھی مسلمان
فارسی مسلمانوں کا شمال مشرقی برما اور اس سے متصل چین کے علاقے یانان میں آنے کے شواہد ۸۶۰ء میں ملتے ہیں۔ یانان کے راستے سے اسلام کا برما میں داخل ہونا یانان کے والی شمس الدین کے دور ۱۲۷۴–۱۲۷۹ء میں ہوا تھا۔ اس کا بیٹا نصیر الدین برما پر ۱۲۷۷–۱۲۷۸ء میں پہلے حملے کا کمانڈر تھا۔ آج تک برمی مسلمانوں کو اپنی زبان میں (پاتھی) کہتے ہیں جو کہ اصل میں لفظ (فارسی) کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
برما کے جنوب میں کئی آبادیاں خاص مسلمانوں کی تھیں جن میں مسلمانوں کی تعداد بدھوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق پاتھین Pathein کا شہر انہی پاتھیوں سے آباد تھا اور شہر کا نام اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ آج تک پاتھین مسلمانوں کے حلوے کے لیے مشہور ہے جو کہ برما کا روایتی کھانا تصور ہوتا ہے۔ یہ شہر ۱۳ویں صدی عیسوی میں تین ہندی مسلمان بادشاہوں کے حکمرانی میں رہ چکا تھا۔
جبکہ برما کے وسط میں مینڈالے Mandalay کے بادشاہ مِنڈ ُنMindon نے چین سے آنے والے مسلمان ہیو5 مہاجروں کو اجازت دی کہ وہ دار الحکومت مینڈالے میں مسجد تعمیر کریں۔ مینڈالے کے چینی مسلمانوں نے اپنے اصلی علاقے یانان Yannan کے سلطان سلیمان سے رقم طلب کی۔ چنانچہ ۱۸۶۸ء میں سلطان نے اپنی نگرانی میں یہ مسجد تعمیر کرائی جو کہ آج تک موجود ہے۔ ان چینی مسلمانوں کو برما میں پانتھی Panthay کہا جاتا ہے جو کہ برما میں چینیوں کی سب سے بڑی نسل شمار ہوتی ہے اور شمالی برما میں آباد ہے۔ پانتھی بھی فارسی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
روہنگیا مسلمان
یہ ہندی آریائی نسل کی مسلمان قوم ہے جو کہ بنیادی طور پہ برما کی ریاست اراکان (حالیہ راکھین) میں زمانہ قدیم سے رہتی چلی آ رہی ہے اور اراکان ہی ان کا آبائی وطن ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو برطانوی استعمار کے دوران یہاں آ کر آباد ہوئے۔ البتہ برمی حکومت کا سرکاری موقف یہ ہےکہ روہنگیا غیر قانونی مہاجرین ہیں جو کہ ۱۹۴۸ء میں برما کی آزادی کے بعد اور یا پھر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے بعد یہاں آئے۔ لیکن تاریخی حقائق جیسے کہ اوپر گزرا اور آگے بھی آئے گا اس موقف کو جھٹلاتے ہیں۔
انگریزی زبان میں روہنگیا (یا روینگا) کا نام سب سے پہلے ۱۷۹۹ء میں ایک برطانوی مضمون میں آیا کہ یہ لفظ اراکان کے مقامی مسلمان اپنے لیے استعمال کرتے تھے۔ روہنگیا کا مطلب روہنگ کا رہنے والا ہے، اور روہنگ اراکان کا قدیم اسلامی نام ہے۔ ۱۹۹۰ء میں روہنگیا کی تحریکات کی وجہ سے یہ لفظ زیادہ رائج ہوا اور ۲۰۱۲ء کے اراکانی فسادات کے بعد دنیا بھر میں عام ہو گیا۔ اگرچہ اراکان کے بہت سے مسلمان اس لفظ سے نا واقف ہیں۔
آبادی
۲۰۱۴ء کی مردم شماری کے مطابق برما کی کل آبادی تقریباً ۵ کروڑ ۱۵ لاکھ تھی جس کی اکثریت (۶۸ فیصد) بامار بدھ مت قوم کی تھی۔ رقبے اور دیگر ایشیائی ممالک کے لحاظ سے برما کی آبادی توقع سے بہت کم ہے جس کی ایک بڑی وجہ بدھ مت کا رہبانیت کا عقیدہ ہے جس میں وہ جنسی تعلق اور ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی کو روحانی ارتقا کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔
برما میں سرکاری طور پہ تسلیم شدہ ۱۳۵ مختلف نسلیں بستی ہیں لیکن برمی حکومت ان میں روہنگیا کو شامل نہیں کرتی جن کی آبادی برما کے اندر ۲۰۱۷ء سے پہلے ۱۳ لاکھ تھی اور بیرون برما ۱۰ لاکھ ہے۔ ان ۱۰ لاکھ کی اکثریت کو برمی حکومت نے زبردستی جلا وطن کیا اور حکومت کی باقاعدہ پالیسی رہی ہے کہ ان کی جگہ بامار قوم کو آباد کرے۔ پورے برما کو دیکھا جائے تو روہنگیا کی آبادی تقریباً ۵ء۲ فیصد ہے اور اگر بیرون برما پناہ گزینوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو ۴ فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
روہنگیا مسلمان صرف صوبہ اراکان کے شمال میں بستے ہیں جس کی کل آبادی تقریباً ۳۲ لاکھ ہے۔ برما میں اراکانی نسل کے بدھ فقط ۴ فیصد ہیں جنہیں راکھین بھی کہا جاتا ہے اور یہی نام صوبہ اراکان کا نیا نام بھی ہے6۔ انڈیا میں رہنے والے راکھین نسل کے لوگوں کو عموماً موگ اور ماگھ کہا جاتا ہے اور روہنگیا مسلمان بھی اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ اراکان کی ۴۰ فیصد آبادی روہنگیا ہے۔ اور اگر بیرون ملک پناہ گزینوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو ان کی فیصد ۶۰ ہو جاتی ہے۔ یعنی کہ وہ اس صوبے کی اکثریتی قوم ہے اور اس اعتبار سے صوبے کا نام روہنگیا ہونا چاہیے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برما میں کل مسلمان ۴ فیصد سے کچھ زیادہ ہیں۔ لیکن چونکہ حکومت روہنگیا کو شہری تسلیم نہیں کرتی اس لیے اس میں روہنگیا مسلمانوں کی شرح شامل نہیں۔ اگر روہنگیا کو بھی شامل کر لیا جائے تو تقریباً ۸ فی صد ہو گی۔ دسمبر ۲۰۱۷ء کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر ۷واں (سٹیٹ لیس) فرد روہنگیا ہے۔
روہنگیا پناہ گزینوں کی اکثریت بنگلہ دیش میں ہے لیکن تقریباً ۴ لاکھ افراد سعودی عرب ، ۲ لاکھ کے قریب پاکستان اور ایک لاکھ تھائی لینڈ میں پناہ گزین ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ تعداد ملیشیا، انڈیا، انڈونیشیا اور نیپال میں بھی موجود ہے۔ پاکستان میں رہنے والے روہنگیا برمی کے نام سے مشہور ہیں اور سب کراچی کے علاقوں اورنگی، کورنگی اور لانڈھی میں آباد ہیں۔ایک لاکھ سے زائد روہنگیا برما کے اندر ہی کیمپوں میں آئی ڈی پیز (Internally Displaced Persons) کے طور پہ محصور ہیں جہاں سے بغیر اجازت کے نہیں نکل سکتے۔
رقبہ
برما دنیا کا ۴۰واں بڑا ملک ہے۔ اس کا رقبہ پاکستان کا تین چوتھائی اور بنگلہ دیش کا ۵ گنا ہے۔ برما کی سرحد مشرق میں جنوب سے شمال کی طرف تھائی لینڈ، لاؤس اور چین سے ملتی ہے۔ جبکہ مغرب میں شمال سے جنوب کی طرف بھارت اور بنگلہ دیش سے۔ برما کا دار الحکومت نیپیدوا اور بڑا شہر یانگون (سابقہ رنگون) ہے۔
میانمار ۷ صوبوں اور ۷ ڈویژن میں تقسیم ہے۔ ڈویژن میں اکثریت بامار کی ہے جبکہ ہر صوبے میں کسی ایک خاص اقلیت کی اکثریت ہے۔ صوبے یہ ہیں: شان، کایا، کچھین، اراکان، کرین، مون، چھین اور یہ تمام اقلیتی نسلوں کے نام بھی ہیں۔ جبکہ ڈویژن کے نام یہ ہیں: مانڈلے، مگوے، ایراوادی، رنگون، تناسرم، سگائن۔
صوبہ اراکان کے ۵ اضلاع میں سے صرف شمالی ضلع سائٹوے Sittwe (سابقہ آکیاب) میں روہنگیا کی اکثریت ہے۔ سائٹوے شہر ہی اراکان کا دار الحکومت بھی ہے۔ اکثر مسلح تصادم ضلع مونگڈاؤ Maungdaw میں ہوتے رہے جس کی سرحد بنگلادیش سے متصل ہے۔
مذہب
برما کی ۸۸ فیصد آبادی بدھ مت ہے، ۶ فیصد عیسائی، ۴ فی صد تقریباً مسلمان ہیں اور ایک فی صد سے بھی کم ہندو۔ باقی دیگر قبائلی مذاہب ہیں۔ روہنگیا مسلمان سب سنی ہیں اور ان کے اکثر گاؤں میں مسجدیں اور مدارس ہیں۔
زبان
برمی برما کی سرکاری زبان ہے جو کہ اصلاً بامار نسل کی زبان ہے اور چینی تبتی زبانوں کے مجموعے میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں چونکہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی کہا جاتا ہے اس لیے ان کی زبان کو بھی برمی کہا جاتا ہے لیکن نہ یہ مسلمان برمی نسل سے ہیں اور نہ ہی ان کی زبان برمی ہے۔ بلکہ اکثر روہنگیا کو برمی زبان نہیں آتی۔ اس کے بر عکس روہنگیا کی زبان کو روہنگی کہا جاتا ہے جو کہ چٹاگانگ سے ملتی جلتی زبان ہے اور بنگالی زبانوں کے مجموعے میں سے ایک ہے۔ لیکن دونوں میں اتنا فرق ہے کہ روہنگیا اور چٹاگانگ کے لوگ ایک دوسرے کو نہیں سمجھ پاتے۔ روہنگی زبان عربی، برمی اور رومن حروف میں لکھی جاتی ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 Bagan جسے پہلے Pagan کہا جاتا تھا ایک قدیم شہر ہےجو کہ میانمار کے مانڈالے علاقے میں واقع ہے۔ یہ پاگان بادشاہت کا پایہ تخت تھا۔ جو کہ پہلی بادشاہت تھی جس نے علاقے کو متحد کیا اور جدید میانمار اسی کی بنیاد پر قائم ہے۔
2 جنوبی میانمار کی مون ریاست کا ساحلی شہر۔
3 حالیہ Mottama بھی مون ریاست کا ساحلی شہر ہے۔
4 حالیہ میک Myeik۔
5 (عربی میں خُوِذُو) جس کا چینی میں مطلب مسلمان ہے۔
6 اراکان راکھین کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا استعمال استعماری دور میں عام ہوا۔ لیکن چونکہ راکھین اس صوبے کی بدھ مت قوم کا نام بھی ہے جبکہ اراکان میں مسلمان روہنگیا قوم بھی بستی ہے اس لیے ہم اس تحریر میں اراکان کا نام ہی استعمال کریں گے۔