نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home خطبۂ امیر المومنین

وَالَّذِين جَاہَدُوا فِينَا لَنَہْدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا

خطبہ از: امیر المومنین فضیلۃ الشیخ ہبـۃ اللہ اخندزادہ

ادارہ by ادارہ
31 جولائی 2022
in خطبۂ امیر المومنین, مئی تا جولائی 2022
0

وَالَّذِين جَاہَدُوا فِينَا لَنَہْدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا

خطبہ از: امیر المومنین فضیلۃ الشیخ ہبـۃ اللہ اخندزادہ

امیر المومنین شیخ الحدیث والتفسیر، مولانا ہبۃ اللہ اخندزادہ (حفظہ اللہ ونصرہٗ) کی کابل، امارتِ اسلامیہ افغانستان میں علمائے کرام اور اکابرینِ ملت کے جلسے میں کی گئی تقریر کا اردو ترجمہ


الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ أما بعد،

فأعوذبااللہ من الشیطان الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ۝ 1

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’الدین النصیحۃ‘‘. قیل ’’لمن یا رسول اللہ؟!‘‘، قال: ’’للہ و کتابہ ورسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتھم‘‘. أو کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم. 2

صدق اللہ و رسولہ النبی الکریم و نحن علی ذلک من الشاھدین والشاکرین والحمد للہ ربّ العالمین!

جلسۂ ہٰذا اور مجلسِ ہٰذا کے قابلِ قدر بزرگان، حضرت شیخ صاحب اور آپ کے نائبین، اس کانفرنس میں شریک قابلِ قدر علمائے کرام، مجاہدینِ اولو العزم، متدین و مخلص عوامی قائدین، اسلامی امارت کے محترم اور قابلِ قدر ذمہ داران اور افغانستان کے لائقِ قدر، اہلِ شرف ، مسلمان عوام جو اس جلسے میں شریک ہیں، سبھی کو……

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

قابلِ قدر حضرات!

سب سے پہلے میں افغانستان کے اہلِ ایمان کو خصوصاً اور پوری دنیا میں بستے مسلمانوں کو عموماً افغانستان میں جو فتح رب ﷻ نے عظیم انعام کے طور پر عطا کی ہے،کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں اس جلسے میں موجود تمام شیوخِ کرام ، مجاہدینِ کرام ، متدین و مخلص مسلمانوں کو بھی اس فتح کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اس فتح میں، دورانِ جہاد جس جس نے قربانیاں پیش کی ہیں ، مجاہدین اور عوام میں سے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ﷻ ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے۔ مجاہدین اور افغانستان کے عوام نے جو زخم اور تکلیفیں اس جہاد کے دوران برداشت کی ہیں، اللہ ﷻ وہ سب اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ افغانستان کے اہلِ دین عوام نے پچھلے بیس سال میں جو بے شمار قربانیاں پیش کیں……مجاہدین کے شانے سے شانہ ملا کر جو قربانیاں دیں، جہاد کو آگے بڑھایا اور کوششوں کو فتح سے ہم کنار کیا ……میں ان کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرتا ہوں، رب ﷻ ان کی قربانیاں قبول کرے۔ اہلِ دین عوام اور مجاہدین میں سے شہید ہو جانے والوں کے یتیم بچوں کے حوالے سے پروردگارِ عالم سے مانگتا ہوں کہ ہمیں ان کی مدد کرنے والا اور ان کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔ اللہ ﷻ اسلامی امارت، پیچھے موجود مجاہدین اور مخلص مسلمانوں کو ان یتیم بچوں کی صحیح پرورش کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ اس بیس سالہ جہاد میں ہونے والے یتیموں، بیواؤں اور طرح طرح سے ہونے والے معذوروں کی قربانی، رب ﷻ قبول فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کی خدمت کر سکیں اور انہوں نے جو خدمت کی ہے اس کی قدر کر سکیں۔ اللہ ﷻ ان پر بھی رحم فرمائے اور قبول فرمائے جنہوں نے نمازیں پڑھنے کے بعد پہلا کام مجاہدین کے لیے دعا کا کیا، چاہے کبھی ایک بار ہی کیوں نہ کیا ہو۔ پوری دنیا میں جس کسی نے ہمارے جہاد کی حمایت کی ، چاہے وہ قولی حمایت ہو، بصورتِ دعا ہو، اخلاقی لحاظ سے ہمارے جہاد کی حمایت ہو، رب ﷻ ان سب کاوشوں کو ہمارے جہاد کے برابر اجر عطا فرمائے اور اس جہاد کا اجر غزوۂ بدر کے جہاد جیسا عطا فرمائے۔ میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سب کا ممنون ہوں۔

آج کے زمانے میں اللہ ﷻ نے ہمیں امن عطا فرمایا ہے اور بہترین امن عطا فرمایا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں ہمارے عوام قدرتی حادثات سے بھی گزرے ، جیسا کہ پکتیکا اور خوست میں زلزلہ آیا۔ جو جو اس حادثے سے گزرا ہے تو رب ﷻ سے دعا ہے کہ دنیا و آخرت میں اس کو اجر سے نوازے اور اللہ ﷻ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں اور ان کی خدمت کریں ۔ ان کو اپنی دعاؤں میں نہ بھلائیے اور نہ ہی ان کی مدد کرنا بھولیں۔ اپنی روٹی میں سے ایک نوالہ اگر خود کھائیں تو ایک نوالہ ان مصیبت زدگان کے لیے چھوڑ دیجیے۔

محترم مسلمان بھائیو!

علمائے کرام نے بہت اچھی باتیں کیں اور بہت اچھے مشورے دیے۔ افغانستان میں جہاد کی کامیابی محض افغانوں کے لیے کامیابی اور اعزاز کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک اعزاز ہے۔ (حالاً گزرے ) رمضان کے شروع کے دنوں میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور علمائے کرام نے مجھے رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد کے پیغامات بھجوائے، اور انہوں نے کہا کہ’رمضان مبارک ہو!شیخ صاحب!‘۔ دنیا بھر کے مسلمان اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ نے مجاہدین کو فتح عطا فرمائی اور اسلامی عقیدے و مذہب کی حامل جماعت کو غالب فرمایا۔یہ اس لیے ہے کہ مسلمان اسلام کو جانتے ہیں، انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے ، اسلام کے اخلاق اور احکام ان کو معلوم ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہر کسی کو اس کا حق دیتا ہے، اسلام کے تحت لوگوں کی زندگی پر امن اور محفوظ ہوتی ہے۔ جب مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ’السلام علیکم!‘، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ دینِ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ ہر ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ تم میری طرف سے محفوظ ہو، سالم ہو۔ اور ایمان کا درجۂ کمال تب حاصل ہوتا ہے جب ایک مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ نہ کسی کو زبان سے تکلیف پہنچائیں، نہ ہاتھ سے، مال بھی محفوظ ہو اور عزت بھی ۔ یہ اسلام کی تعلیم و تربیت ہے۔ پس جب لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلامی شعار کے حامل کسی گروہ کو فتح ملی ہے تو لوگ خوش ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ اس بندے نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جہاد کرے گا تا کہ اسلام ہر شے سے بالا ہو جائے اور اللہ کا کلمہ سب پر غالب آ جائے۔ یہ نعرہ ایک واجب اور لائقِ عزت نعرہ ہے۔ پس لوگ بہت خوش ہوتے ہیں جب اس نعرے کے تحت کوئی جماعتِ مجاہدین کامیاب ہو جائے۔ لوگوں میں یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ یہ نعرہ اب عملی صورت اختیار کرے گا۔

جہاد فی نفسہٖ لوگوں کا قتل اور بستیوں کا اجاڑنا ہے، قتل العباد وتخریب البلاد! ہم نے پچھلے بیس سالوں میں یہ دیکھا ہے کہ گھر برباد ہوئے اور انسان قتل ہوئے، تخریب ہوئی۔ لیکن اس سب میں جس اچھائی کی امید تھی وہ یہ تھی کہ اس سب کے نتیجے میں ایک ایسا نظام آئے گا جو اسلامی نظام ہو گا۔ اللہ پاک نے یہ جہاد کامیاب فرمایا جس پر آج پوری امتِ مسلمہ خوش ہے۔ اور پُر امید ہے کہ وہ شعار، وہ نعرہ جو مجاہدین بلند کرتے تھے یا اپنی باتوں میں یا مذاکرات میں جو وعدے کرتے تھے کہ شریعت، خالص اسلامی شریعت کا نفاذ کریں گے، اب اس کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب لوگ منتظر ہیں کہ اسلام کب آئے گا اور وہ نعرے کب عمل کی صورت اختیار کریں گے۔

دنیا کی حکومتوں میں سیاست اس طرح چل رہی ہے کہ ایک جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کی مقابل جماعتیں دوسرا راستہ اختیار کرلیتی ہیں اور اسی(دوسرے راستے کی ) طرف لوگوں کو بلاتی ہیں۔ کبھی اسلامی نعروں کے ذریعے دوسری جماعت کو گرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور پھر جب یہ دوسری جماعت اقتدار میں آتی ہے تو لوگ اپنی حکومت کو اپنے ذاتی مفادات کی بقا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کا کوئی غم نہیں ہوتا اور یہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر ایک بھی چیز عملاً نافذ نہیں کرتے۔ لہٰذا اب لوگ منتظر ہیں کہ دیکھیں جہاد کے دوران جو نعرے بلند کیے گئے تھے، وہ بھی عملی شکل اختیار کرتے ہیں یا نہیں؟!

مسلمانوں کی آرزو ہے کہ یہ نعرے عملی شکل اختیار کریں، چاہے یہ مسلمان دنیا بھر میں بستے ہوں یا افغانستان میں بستے ہوں، سبھی کی یہی آرزو ہے۔ یہ ان لوگوں کی آرزو ہے جن کے بچے اس جہاد میں شہید ہوئے ۔ جن کے گھر برباد ہو گئے، یہ ان کی تمنا ہے۔ میرے بیٹے کا معزز خون، میرے معصوم بیٹے کی روح جو اس راستے میں کام آ گئی ، یہ وہ خون ہے جو اللہ کے یہاں نہایت محترم ہے کہ اللہ ﷻ قرآن پاک میں ان کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ معزز لوگوں کو اس راستے میں قبول کرتے اور شہادت عطا فرماتے ہیں۔

یہ سب کچھ اس نعرے کے تحت ہوا کہ اسلام غالب آئے گا، شریعت غالب آئے گی، امن آئے گا۔ پس اب ان سب کے آنے کا وقت ہے۔ لفظِ امنیت میں، اس کی روح میں یہ پنہاں ہے کہ اسلام کے مقاصد عمل میں ظاہر ہو جائیں اور اسلام کے مقاصد کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہٹ جائیں۔ بیس سال قبل افغانستان میں کوئی شریعت اور دین کی بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جو اسلام کا نام لیتا وہ جیل جاتا ، مارا پیٹا جاتا یا تعذیب کا نشانہ بنتا۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ’دعوت الی اللہ‘ آزاد ہو گئی۔ شریعت کی طرف دعوت آزاد ہو گئی۔ شریعت کی حاکمیت کا راستہ ہموار ہو گیا اور موانع راہ سےہٹ گئے۔ لہٰذا اللہ ﷻ کی شریعت کو زمین میں نافذ، اور فوراً نافذ کرنے کے لیے ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ ہم نے نفاذِ شریعت کا وعدہ کیا ہے وہ عملاً ہو جانا چاہیے۔

دنیا میں بستے کافروں کی جنگ ہمارے ساتھ زمین کے کسی ٹکڑے یا پیسوں کی خاطر نہیں تھی۔ ان کی ہمارے خلاف جنگ نظریے کی جنگ تھی، عقیدے کی جنگ تھی۔ وہ ہمارے خلاف اس لیےلڑتے تھے کہ ہمارے نظریے اور عقیدے کو ختم کر دیں، جہاد اور شریعت کی آواز کو ختم کر دیں ۔ اور یہ جنگ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی یہ جنگ جاری ہے اور قیامت کے دن تک جاری رہے گی۔ ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ3……یہ دو جماعتیں ، دھڑے چل رہے ہیں، نہ میں ان کو اجازت دوں گا کہ یہ اپنا قانون مجھ پر نافذ کریں اور نہ یہ مجھے چھوڑیں گے کہ میں اپنا قانون ان پر نافذ کروں۔ اور یوں یہ مقابلہ تا مرگ جاری رہے گا۔ میں مروں گا تو کوئی اور میری جگہ آ جائے گا ،پھر اس کی جگہ کوئی اور ……اور اس کی جگہ پھر کوئی اور، یوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ میرے اور ان کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہیں ہے۔ اسلام اور کفر کا جو مقابلہ ہے ، نہ اس کو ختم کرنے کے لیے کوئی عہد ماضی میں ہوا ہے، نہ ایسا کوئی عہد ہے اور نہ اس کا امکان ہے کہ ایسا معاہدہ کبھی ہو گا۔

دیکھیے یہ لفظِ شریعت منہ سے بولنے میں بڑا میٹھا اور معزز ہے ، اس کو بولنے کا بہت مزا آتا ہے۔ لیکن جب اس کو عملاً نافذ کریں گے تو اس کے لیے آپ کو لڑنا پڑے گا، سختیاں برداشت کرنا ہوں گی، اور جہاں کہیں جائیں گے اس لفظِ شریعت کے ساتھ سر پر کفن باندھ کر جائیں گے۔ آج کی موجود دنیا آسانی سے آپ سے متفق نہیں ہو جائے گی کہ آپ اسلام کا نظام لانا چاہیں اور یہ دنیا والے آپ کو کہیں کہ لے آؤ۔ تا حال شریعت کا عملی پہلو، قصاص اور حدود اللہ نافذ نہیں ہوئیں۔ اگر ہم ان کا فوری نفاذ کرتے ہیں تو کافر اس پر ردِّ عمل دکھائیں گے ۔ لیکن بھائیو! میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ بس ایک ہی رب ﷻکی نصرت ہے، وہی ہمارا مدد گار ہے اور اسی کی رضا ہمیں مطلوب ہے۔ باقی دنیا کے افکار ہم اللہ کے مقابل قبول نہیں کرتے۔ مومن کے لیے یہ صحیح نہیں ہے کہ ان (دنیا والوں) کی وہ باتیں مانیں جن سے اللہ ہم سے ناراض ہو جائے۔ ہم اللہ ﷻ کو راضی کریں گے اور اس سے مدد طلب کریں گے جس نے دنیا کی سب سے متکبر قوت کو افغانستان میں شکست سے دوچار کیا اور بھگایا۔

قطر میں مذاکرات شروع ہوئے تو یہ ظاہر ہو گیا کہ امریکی یہاں سے اب جانے والے ہیں،شرطیں طے ہونے لگیں کہ یہ شرط ہو گی اور وہ شرط ہو گی۔ مجھ پر بھی یہ امر ظاہر ہو گیا کہ امریکی یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہاں اپنے غلاموں کو چھوڑ جائیں گے اور وہ غلام امریکہ کے جانے کے بعد ہم سے لڑیں گے اور پھرہماری آپس میں جنگ ہو گی۔ افغان آپس میں لڑیں گے اور ایک دوسرے کو ماریں گے، اس حوالے سے میں بہت فکر مند تھا۔ لیکن رب ﷻ نے ایسے نصرت فرمائی کہ امریکیوں کے جانے سے پہلے ہی یہ مسئلہ ختم ہو گیا۔ پروردگارِ عالم نے یہ مسئلہ ختم فرما دیا۔ افغانستان میں مسلمانوں کا قتل ہم نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنا مقصد و ہدف نہیں بنایا۔ اگر ہم مسلمانوں کو قتل کرنا اپنا مقصد بنا لیں گے تو ہماری جانیں قصاص میں چلی جائیں گی۔

ہاں، اگر ہماری جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں افغان مسلمانوں کو ضرر یا نقصان پہنچا یا یہ قتل ہوئے تو اس لیے کہ ہم کافروں کو یہاں سے بھگانا چاہتے تھے اور اس وقت جس طرح کا پر امن ماحول ہے، اس طرح کا ماحول لانا چاہتے تھے۔ جو افغان ان کافروں کے ساتھ کھڑے تھے ان کو بھی مارنا ہمارا مقصد نہ تھا لیکن یہ خود کافروں کے گرد ایک حصار کی مانند کھڑے ہو گئے، ان لوگوں نے اپنے آپ کو ان کافروں کے لیے ڈھال بنا لیا۔ ورنہ افغانوں کا قتل چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورتیں،کبھی بھی ہمارا مطمحِ نظر نہیں تھا۔یہ افغان ہیں اور ہم ان کی عزت کرتے ہیں لیکن کافروں کو ہم عزت نہیں دیتے۔

جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ کافر جا رہے ہیں تو ہم نے اپنے افغانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور تسلیم ہو جائیں۔ جو کچھ انہوں نے کیا ہم نے وہ سب معاف کر دیا، حالانکہ انہوں نے بہت سے جرائم میں حصہ ڈالا تھا۔ مجاہدین کی لاشیں ٹینکوں سے باندھ کر گھسیٹیں، مجاہدین کے سروں پر ٹینک چڑھائے، انہوں نے ایسے ظلم کیے جو تاریخ میں پہلے نہیں کیے گئے۔ انہوں نے یہ ظلم حفاظِ قرآن پر ڈھائے، مدرسوں کے طالب علموں پر اور اولیائے کرام پر کیے۔اگر مسجد و مدرسے کا طالبِ علم ولی نہیں ہے تو کوئی اور ولی ہے ہی نہیں۔ وہ اپنا سارا وقت اللہ کے ذکر میں گزارتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے ذاکرین اور اللہ کے اولیا پر ٹینک چڑھائے، خیر ہے۔ اگر اللہ کی شریعت مجھے اختیار دیتی ہے کہ اس سب کے باوجود میں ان کو معاف کردوں تو میں معاف کرتا ہوں۔ بہر کیف، میں نے علما سے بات کی اور کہا کہ جو لوگوں کے ذاتی حقوق ہیں،وہ میں معاف نہیں کرسکتا۔ مگر شریعت نے جو حق مجھے عام معافی کا عطا کیا ہے وہ استعمال کرتے ہوئے میں انہیں معاف کرتا ہوں۔ میں نے یہ فتویٰ ان علمائے کرام سے حاصل کیا اور یہ اب بھی میرے پاس موجود ہے۔

مجاہدین کا جہاد للہ فی اللہ جہاد تھا اور اگر مجاہدین کا جہاد اور اخلاص للہ فی اللہ نہیں تھا، اور یہ بات مجھ پر ابھی اسی وقت ثابت ہو جائے کہ یہ اس وقت للہ فی اللہ نہیں ہے، تو میں اس منبر پر کھڑا ہو کر قسماً کہتا ہوں کہ ایک رات بھی طالبان کے ساتھ نہ گزاروں۔ اس لیے کہ میں مسلمان ہوں، آخرت کی فکر مجھے دامن گیر ہے، اپنے مسلمان ہونے کی فکر مجھے دامن گیر ہے، میں کسی ایسی جماعت میں وقت گزاروں گا جو میری آخرت کے لیے فائدہ مند ہو۔ اگر مجھے کوئی اور مخلص اور نیک گروہ دنیا میں نظر آ جائے تو میں طالبان کے ساتھ نہ رہوں گا اور اس دوسرے گروہ میں شامل ہو جاؤں گا لیکن میں ایسی کوئی دوسری جماعت نہیں پاتا۔ ان کی حقانیت اور صالحیت کی نشانی یہ ہے کہ اس اعلان کے بعد انہوں نے عام معافی کو نافذ کیا جو اب بھی نافذ العمل ہے۔ یہ بھی ہماری اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا مقصد نہ پہلے کبھی افغانوں کو مارنا اور قتل کرناتھااور نہ ہی اب ہے۔ اگر ہم نے مارا ہے تو ایک عظیم مقصد کی خاطر، اسلام کے قیام کے مقصد کی خاطر، امن لانے کی خاطراور اللہ کی وہ حدود جنہیں اللہ نے امن کے لیے لازم کیا ہے، ان کو نافذ کرنے کی خاطر۔

امن و امان قائم ہوا جو مقاصدِ جہاد میں سے تھا، اسلامی نظام کے شعبہ جات، وزارتیں،عدلیہ، صوبائی دفاتر اور حکومت میں اکثریت مجاہدین ، علمائے کرام اور متدین افراد کی ہے۔جس طرح شہروں میں عام عوام کے لیے امن و امان کا ماحول بناناضروری ہے، اسی طرح حکومت و نظام کے اندر بھی امن لانا ضروری ہے۔حکومت میں ایسے لوگوں کی موجودگی ضروری ہے جو حکومتی اداروں کے اندر فساد ،رشوت خوری اور بدمعاشی کو ختم کرکے عدل نافذ کریں۔ حکومت میں قرابت داروں کو نوازنے کی روایت، قومیت اور علاقہ پرستی کے رحجان کو ختم کریں، لہٰذا حکومت میں امن لانا ضروری ہے۔ اگر حکومت و نظام میں رشوت خوری، خودغرضی،زور زبردستی، قرابت داروں کو نوازنے،قومیت اور علاقہ پرستی جیسے اعمال و افعال پائے جاتے ہوں تو پھر وہ حکومت نہیں رہتی،وہ افراد کی ذاتی اغراض کی محافظ بن جاتی ہے۔ایسی حکومت چند روز چلتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا حکومت کے اندر امن کا ماحول لانا ضروری ہے، تصرفِ امیر یا اس کے ماتحت افراد کا تصرف، ان سب کےتصرفات کا تعلق اُمت کے مسائل سے جڑا ہے، ہماری نظریں اُمت کے عام مسائل پر ہونی چاہییں نہ کہ اپنی ذاتی اغراض پر۔ ذاتی اغراض تو یہ ہیں کہ اپنے بیٹے، بھائی اور رشتہ داروں کو حکومت میں داخل کرکے حکومتی دفاتر کو اپنا گھر بنادیں اور عام عوام کے مسائل کو پسِ پشت ڈال دیں۔ یہ طریقہ تو پچھلی حکومت میں بھی رائج تھا لیکن امن نہیں تھا، امن و ثبات لانے کی پہلی شرط ذاتی خواہشات کو چھوڑنےاور ترک کرنے میں ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر خواہشات کو شریعت کے تابع کرنا ہوگا، اپنے آپ میں، اپنے ادارے اور گھرانے میں شریعت کو نافذ کرنا ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر تمہارے گھر میں شریعت نہ ہو تو تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو کہ اس ملک میں شریعت نافذ کرو گے؟! اگر تمہارا ادارہ، تمہارا اپنا جسم شریعت کے تابع نہ ہو تو تمہارے اس دعوے کو لوگ کب تک سچا مانیں گے کہ تم اس زمین پر اللہ کا دین اوراللہ کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہو۔ پھر تو یہ دعویٰ جھوٹا ہوا۔ لہٰذا شریعت کا نفاذ اپنے آپ سے شروع ہوتا ہے، سب سے پہلے میں اپنے آپ کو شریعت کے تابع کروں گا نہ کہ شریعت میرے تابع ہوگی کہ جو میں کروں وہی شریعت کہلائے؟ نہیں!میں اپنے آپ کو شریعت کے تابع کروں گا۔ یعنی میزانِ شریعت میں مَیں اپنےآپ کو ڈالوں گا۔

اب کیسی شریعت؟ شریعت کیا کہتی ہے؟ ایک مسئول کو کہا جائے کہ فلاں آدمی کو تعزیر دو، فلاں کو قیدی بناؤ، اِس کو مارو، اُس کو گرفتار کرو……اب کس بندے کو قیدی بنانا ہے؟ کس بندے کے ساتھ لب و لہجہ سخت رکھنا ہے؟ ان تعزیرات کے منازل و مراتب آپ کو معلوم ہونے چاہییں۔ بحیثیتِ اسلامی نظام کے ایک والی (گورنر) یہ تمام امور واضح ہونے چاہییں کہ یہ کس طریقے سے ہوں گے، کیونکہ آج آپ کے ذمہ اُمت کی سرپرستی ہے۔

سب انسان حقوق مانگتے ہیں، مرد، خواتین، سفید ریش بزرگ، جوان، عالم، یتیم اور بیوائیں سب حقوق مانگتے ہیں ،ان کی ضروریات کو آپ نے پورا کرنا ہے۔ اگر آدمی اپنی ذاتی اغراض میں لگ جائے کہ پہلے اپنی اغراض پوری کروں بعد میں باقیوں کو دیکھوں گا،تو پھر بے امنی پھیل جائے گی۔ یعنی اگر اپنی ذاتی خواہشات کو ہم گلے لگائیں گے توپھر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پچھلی حکومت و اداروں میں ذاتی خواہشات کا راج تھا، امن و امان نہیں تھا۔ مجاہدین نے اپنے شعار میں شریعت کو حاکم بنایا ہے،جب ذاتی خواہشات درمیان سے نکلیں تو امن و امان قائم ہوا، اس امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے شریعت پر عمل لازم ہے، خواہشات اورخود غرضی کو پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ جس طرح شیخ صاحبان نے آپ کے سامنے بیان کیا کہ ذاتی خواہشات اور خودغرضی کو ہم اس وقت پیچھے چھوڑ سکتے ہیں جب آپ اپنے امرا کی اطاعت کریں ، ان کے مقام و مرتبے کے مطابق۔ ضلعی مسئول کی اطاعت ان کے ماتحتوں پر واجب ہے، ان کی اطاعت اس حیثیت سے کریں جیسے امیر المو منین کی اطاعت کی جاتی ہے۔ضلعی مسئول والی (گورنر) کی اطاعت کرے، والی ( گورنر) وزیر کی اطاعت کرے اور اسی طرح ہر ایک اپنے اوپر متعین امیر کی اطاعت کرے اور ان کے منازل و مراتب کا لحاظ رکھے، پھر ذاتی خواہشات ختم ہوں گی۔

اور اگر اس طرح کی بےنظمی شروع ہوئی کہ ہر ایک کہے کہ میں ہی حاکم ہوں ، دوسرے امیر کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا رہے، ایک دوسرے کی شکایت کرتا رہے، ایک دوسرے کے ساتھ حسد وضد کرتا رہے، تو پھر دنیاوی امور میں اختلافات پیدا ہوجائیں گے اورا یک دوسرے سے کندھے ٹکراتے رہیں گے جس طرح پچھلی حکومت میں یہ سب ہوتا رہا۔ پھر جب ذاتی خواہشات و اغراض پیدا ہو جائیں تو اس بات کا امکان ہی نہیں کہ امن و امان قائم ہو گا۔ شریعت کی حاکمیت ان دو جماعتوں کی مسئولیت ہے، ایک وہ حاکم جو صاحبِ اقتدار ہےاور دوسرے علمائے کرام، یہ دونوں اگر ساتھ ملے ہوں، حکام علمائے کرام کے شرعی احکام و اخلاق، ان کے نصائح اور ہدایات پر عمل کریں اور علمائے کرام ان مسئولین کو ہر قیمت پر انحراف سے روکیں، چاہے نرم لہجے سے یا سختی سے۔ اگر علمائے کرام اپنی یہ ذمہ داری ادا کریں اور حکام اپنے آپ کو علما سےمستغنی نہ سمجھیں تو پھر شریعت کا صحیح طور پہ نفاذ ممکن ہے۔

لیکن اگر حکام علما سے مستغنی ہوگئے، علما کے لیے ان کے دروازے بند ہو گئے، مہینہ مہینہ علما کا ان سے ملنا مشکل ہوگیا، حاکم علما سے ملاقات نہ کرتا ہو کہ میرے پاس ٹائم نہیں، میں حکومتی امور میں مصروف ہوں، یہاں اگر حاکم اور علما کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا توپھر شریعت نافذ نہیں ہوگی۔

طالبان کی جہاد میں جو ذمہ داری تھی اس کو انہوں نے نہایت ہمت اور بطریقِ احسن تکمیل تک پہنچایا۔انہوں نے قربانیاں دیں، فدائی کارروائیاں کیں، اپنے گوشت اور ہڈیوں سے کفار کے ساتھ سخت مقابلہ کیا، رب ﷻ ان سب کی قربانیاں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ انہوں نے میدان جیت لیا، ان کے ذریعے اللہﷻ نے فتح عطا فرمائی، یہ ان کے خون کی برکت ہے۔ اب نفاذ ِشریعت کا وقت آیا ہے، طالب نہیں جانتا شریعت کیسے نافذ کرنی ہے ؟یہ علم عالم رکھتا ہے، شریعت کا حکم مولوی جانتا ہے۔ علما کو اس وقت نظام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، ان کو ایسی اطاعت کرنی ہو گی کہ اپنے عمل سے دوسروں کو درس دیں،صرف افغانیوں کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان اب افغانیوں سے ہدایت و رہنمائی چاہتے ہیں۔ دنیا آپ کی علمی و اخلاقی رہنمائی کی منتظر ہے، آپ کو چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا حال احوال و خیریت معلوم کریں۔آپ کوچاہیے کہ ان کو بتائیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، وہ آپ کے منتظر ہیں۔

آپ علمائے کرام صرف افغانستان میں شریعت کو کامیاب نہیں کریں گے، بلکہ دنیا بھر میں شرعی رہبری اور رہنمائی یہی افغانستان کے علما کریں گے۔ حاکم علما ہوں گے، وزارتوں میں علما بیٹھیں گے، عدالتوں میں علما بیٹھیں گے، صوبائی دفاتر میں علما بیٹھیں گے، ضلعی دفاتر میں علما ہوں گے۔ اس (جلسۂ ہٰذا کی) طرح مجالس ہوں گی اور ان مجالس سے میں آپ کی تشکیلات کروں گا کہ فلاں عالم فلاں علاقے میں چلا جائے، یہ عالم اور وہ عالم عدلیہ میں چلا جائے، اور یہ دونوں عالم وزارتوں میں جائیں گے وغیرہ۔اب جب میں اس طرح کی تشکیلات کروں گا، تو یہ بتائیےکہ آپ مجھ سےاپنے عذر بیان کریں گے یا اطاعت کریں گے؟ اطاعت کریں گے ناں! جی ہاں اطاعت کریں گے۔

دیکھیے! میرے ساتھ آپ سب اطاعت پر عہد کریں گے، اگر آپ میری نہیں مانیں گے، تو سنیےمیں کوئی سیاسی حکمران نہیں ہوں۔ میں جمہوری حکومت کا کوئی صدر نہیں ہوں۔ میں انتخابات و الیکشن والا فردنہیں ہوں، میں جھوٹے دعوے کرنے والا حکمران نہیں ہوں جو لوگوں کو جھوٹی امیدیں دلاتے ہیں اورجن کا اصل مقصد نام و نمود ہوتا ہے کہ دنیا میں عزت کمائیں۔ اگر مجھے آپ بڑا تسلیم کرتے ہیں تو میری اطاعت کریں گے۔ جب میں کسی سفید ریش بزرگ شیخ صاحب کو کہوں گا کہ آ پ کی تشکیل قندھار سے بدخشاں ہے…… تو میں آپ سے جواباً صرف اور صرف اطاعت کی توقع کروں گا۔

ایک مولوی صاحب کو میں نے قندھار بلایا کہ آپ کی کابل تشکیل کر دی گئی ہے آپ کابل چلے جائیں، انہوں نے کہا میں تھوڑا مریض ہوں، میری بیٹی بھی مریض ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اس کرسی پر بیٹھ جائیں میں آپ سے استفتاء کرنا چاہتا ہوں۔’جب میں کسی کا انتخاب کروں کہ اس کی فلاں جگہ تشکیل ہے پھر اس کا یہ عذر کیسا؟ کیا یہ عذر قابلِ قبول ہے؟مولوی صاحب میں آپ سے استفتاء کررہا ہوں؟ تھوڑی دیر وہ خاموش رہے پھر جواب دیا ، نہیں اس کا یہ عذر قابلِ قبول نہیں۔میں نے کہا جب قابلِ قبول نہیں تو پھر چلے جائیں تشکیل پر ،اور وہ اگلے دن چلے گئے۔ شاید ابھی ادھر بیٹھےہوں۔ اگر اس طرح کی وحدت حاکم اور علما میں نہ ہو ، تو شریعت کی حاکمیت قائم کرنا ناممکن ہے۔ شریعت کے نفاذ کا دارو مدار علما پر ہے،علما کو شریعت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، ہم عوام ……ہمارا کام، اور ہمارا جہاد یہ ہےکہ ہم ان علما کے فیصلوں پر عمل کریں ، فیصلہ اور حکم علما کا ہوگا اور عمل ہم کریں گے۔ اور اگر ان کے فیصلوں اور احکام پر ہم عمل نہیں کریں گے، یا ان کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیں گے، عدالتوں میں سفارشیں چلتی ہوں گی، کسی کا کوئی ساتھی یا ہم قوم قیدی بن جائے تو دوسری طرف سے اس کی رہائی کے لیے سفارشیں چل رہی ہوں، کہ مولوی صاحب اس کو قید نہیں کرنا…… یہ سب میں نہیں چاہتا…… میں قاضیوں سےکہتا ہوں کہ مزہ تواس عدالت کا ہوگا جیسی حضرت علیؓ کی عدالت تھی، جس میں حضرت علیؓ ایک یہودی کے ساتھ ڈھال کے مسئلے پہ قاضی کے پاس چلے گئےاور پھر قاضی نے فیصلہ بھی حضرت علی ؓ کے خلاف یہودی کے حق میں دے دیا۔ یہودی نے کہا کہ قاضی نے امیرالمومنین کا فیصلہ میرے فائدے میں کردیا۔ میں کہتا ہوں کہ میں اللہ سے یہ نہیں مانگتا کہ مجھے کوئی عدالت لے جائے، لیکن اگر اس طرح کی آزمائش مجھ پر یا میرے مسئولین پر آجائے اور وہ حضرت علیؓ کی مانند ان کے ساتھ عدالت چلے جائیں تو یہ میرا ہدف ہے، ایسی عدالت میں چاہتا ہوں۔ ربﷻ ایسا عدل لے آئے۔ کیونکہ عدل ایک حکومت کی بقا کا ذریعہ ہے۔ ظلم کی حکومت باقی نہیں رہتی۔ ایک مظلوم جیل میں بیٹھاہے،بغیر کسی جرم کے اس کو قید کرنا، اس کو زدو کوب کرنا اور اس پر تشدد کرنا،تو یہ ایسی بد دعاؤں کا ذریعہ ہے جن کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب و پردہ نہیں، ربﷻ اس کی بدعائیں سن کر قبول کرے گااور رب ﷻ ایک گھنٹے میں نہیں بلکہ ایک سیکنڈ میں پوری امارت کو گرادے گا،ربﷻ قدرت رکھتا ہے وہ بے نیاز ہے۔ اگر عدل ہوگا تو بقا ہو گی ، لیکن اگر عدل نہ ہو، ظلم کا دور دورہ ہو، خطائیں پیدا ہوجائیں، انتقام شروع ہوجائیں، بغیر عدالتی فیصلوں کے قتل شروع ہوجائے، تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ کیونکہ ظلم کے ساتھ بقا نہیں۔ علما کے حق پر مبنی فیصلے اور حکومت کا عملی نفاذ اس ظلم کو روک سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک آدمی پر پانچ روپے کا دعویٰ ہو اور اس کو اس کے سر اور کمر پر مارا جاتا ہو، جبکہ دوسرے آدمی پر دو سو مربع زمین کا دعویٰ ہو اوراس کو کوئی کچھ نہ کہتا ہو، کیونکہ اس کی سفارش کرنے والا کوئی موجود ہے، وہ حکومت میں اپنے لوگ رکھتا ہے، اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ جیساکہ پچھلی حکومت میں ہم نے دیکھا کہ جس کا زور چلتا وہی قدرت زیادہ رکھتااور بدمعاش کھلے عام گھومتے پھرتے ۔

مجھے خبر ملی ہے کسی نے مجھ سے کہا کہ ادھر کابل میں ایک بدمعاش کھلے عام قافلے کی شکل میں گھومتا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ لوگ اس کو گرفتار نہیں کرسکتے تو میں اس کو گرفتار کروں گا۔ اس سے ملت کو تکلیف پہنچتی ہے کہ یہ بدمعاش آج بھی بلٹ پروف گاڑیوں میں لشکر کی صورت میں بازار میں گھومتا پھرتا ہے،حالانکہ یہ وہ بدمعاش ہے جو کل تک ہمیں اپنے پاؤں تلے روندتا تھا، آج وہ بدمعاش اس امارت میں دوبارہ غروروتکبر کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ تو کوشش کیجیے ظالم کے ہاتھ میں اختیارات نہ دیں۔ ایک بازو بن کر متحد ہوجائیں تاکہ یہ مردار خور ہماری مقدس سرزمین پر دوبارہ نہ آسکیں،ان کو موقع نہ دیں۔ یہ امن و امان ربﷻ لے کر آئے ہیں۔ ’’الفتنة نائمة لعن الله من أيقظها.‘‘،(فتنہ سورہا ہے اس پر لعنت ہو جو اس کو جگائے)۔ اختلافات کافتنہ سورہا ہے ، وحدت و اتفاق کی فضاقائم ہوئی ہے، امن و امان قائم ہے، اللہ کی لعنت ہو اس پر جواس فتنے کو اٹھائےکیونکہ پوری ملت دربدر ہوجائے گی اور دوبارہ جنگ شروع ہوجائے گی۔ مفسدین اور زور وقوت دکھانے والوں کو نہ چھوڑیے گا، ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں، صف میں ایسے لوگوں کو نہ چھوڑیے گا جو لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا کا مصداق ہیں۔(اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تو سوائے فساد پھیلانے کے تمہارے درمیان کوئی اور اضافہ نہ کرتے)۔

علما، نیک افراد اور مدبرین کے ساتھ مشورہ کیجیے، برے لوگوں کے ساتھ مشورہ نہ کریں اور برے لوگوں کو اپنے ساتھ بھی نہ رکھیں۔ ان کو مضبوط نہ کریں، ان کی قدر نہ کریں، آج کل یہ جو سلسلہ جاری ہے قدر و اعزاز دینے کا، اس حوالے سے جس طرح شیخ صاحب نے کہا کہ ایک توبہ ہے اور ایک معافی ہے، ہاں میں نے معاف کیا ہے، کوئی مجاہد کسی نئے جرم کے بغیر……یعنی کسی نے نیا جرم نہ کیا ہو، پرانے جرم پر پچھلی حکومت کے کسی اہلکار کو ماردے تو میں اس کے خلاف عدالتی کارروائی کروں گااور اس عدالت کے لیے میں نے اصول و ضوابط بنائے ہیں اور فتویٰ دیا ہے۔ معافی کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قتل نہیں کیا جائےگا، اس کے پچھلے اعمال پر اس کا محاسبہ نہیں کیا جا ئے گا، لیکن اس معافی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم انہیں اپنے ساتھ بٹھا لیں، یا اپنی کوئی مسؤلیت ان کے سپرد کر دیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اس سے شہداء کی اولاد و والدین اور مجاہدین کے دل چھلنی ہوجائیں گے۔ دوسرا یہ کہ یہ لوگ ایک بار امتحان سے گزرے ہیں،اب ان سے احتیاط کیجیے۔

علمائے کرام کو کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ ﷻآپ سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔ آپ نصیحت کیجیے کہ ’الدين النصيحة‘! مگر نصیحت کس کو کریں گے؟آپ نے نصیحت ہمیں کرنی ہے، ہم آپ کی نصیحت کے محتاج ہیں۔ ’ولأئمة المسلمين‘ (اور نصیحت مسلمانوں کے اماموں کےلیےہے)۔ لیکن آپ سے ایک درخواست ہے، وہ یہ کہ جب ہمیں نصیحت کرنی ہو تو ایسے طریقے سے کریں جو پُر اثر ہو ۔ ایک نصیحت اعلانیہ ہوتی ہے ،اس کا مقصد مسئولین کے عیوب سے لوگوں کو باخبر کرنا، یا اعلانیہ طور پر تنقید و اعتراض کرنا ہوتا ہے۔ اعلانیہ نصیحت سوائے معیوب بات کے کچھ نہیں4۔یہ جو آپ میڈیا پہ کھڑے ہاتھ ہلاکر کہتے ہیں کہ یہ کام آپ نے کیوں نہیں کیا ؟ امیر المومنین صاحب آپ یہ کیوں کررہے ہیں ؟ یہ توشریعت کے خلاف ہے۔ دیکھیے یہ تو مجھے نصیحت نہیں ہے، نصیحت تو اسے کہتے ہیں جب میں اور آپ ایک ساتھ آمنے سامنے ہوں، پھر آپ مجھے نصیحت کریں۔ لیکن جب آپ عالمی میڈیا پر آکر بات کرتے ہیں، تو بجائے اس کے کہ وہ نصیحت اثر کرے الٹا اس کا نقصان ہوتا ہے، وہ نظام کو سست کردیتی ہے، بے اعتمادی جنم لیتی ہے اور اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے علما اور امارت کے درمیان فاصلہ ہے اورعلما امارت پر حملہ کررہے ہیں۔ آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر، قبول ہے ،لیکن آپ سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ جب سلطان کو نصیحت کرنی ہو تو اس کو ہاتھ سے پکڑ کر تنہائی میں لے جاؤ اور اس کو نصیحت کرو۔ اگر تمہیں وہ منکرپر امر کرےتو اس کی اطاعت نہ کرو۔ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق (مخلوق کے کسی ایسے حکم کی تابعداری جائز نہیں جس سے خالق کی نافرمانی ہو)۔ اگر وہ تمہاری نصیحت قبول نہیں کرتا اور معصیت میں مبتلا ہے تو تم اس پرصبر کرو۔

آپ کو معلوم ہے کہ حجاج بن یوسف مدینہ کا حاکم تھا،جس نے امت کو ہلاک کیا۔ ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ اور تابعین کو اس نے حکماً پھانسی دی۔ مزاحمت اور جنگ میں جن کو شہید کیا وہ اس کے علاوہ ہیں۔ حضرت انسؓ جو رسول اللہﷺ کے خادم تھے، آپؓ بزرگ صحابی تھے جو مدینہ منورہ میں رہ رہے تھے۔ آپؓ عبدالملک بن مروان کے پاس شام جاتے ہیں ،اور اس کو صرف اس قدرکہتے ہیں کہ ’یہ حجاج لوگوں پر سختی کرتا ہے‘۔ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کو شہید کیا اور آپؓ نے صرف سختی کا لفظ استعمال کیا! وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرامؓ کا مقصد یہ تھا کہ فتنہ و انتشار سے بچا جائے۔ حجاج بن یوسف کے مقابل آپؓ نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ حجاج نےاس وقت تک ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا تھا، مگر اگرمسلمانوں کے اندر فتنہ، بغاوت اور اختلاف پھیل جاتا تو پھر ایک دن کے اندر ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان شہید کیے جاتے۔ لہٰذا جب معصیت دیکھیں تو اس پر صبر کیجیے، مقابلے میں نہ آئیں، خدانخواستہ اگر مقابلہ شروع ہوگیا تو لوگوں کے درمیان فتنہ پھیلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ شروع میں مصیبت کم ہوگی لیکن آہستہ آہستہ بڑھتی اور پھیلتی جائے گی۔ علمائے کرام تمام مسئولین کو نصیحت کریں، مسئولین بھی اپنے درمیان ایک دوسرے کو تواصو بالحق وتواصو بالصبر کی نصیحت کریں، اپنے درمیان دینی مذاکرے کریں ، اپنے آپ کو ایک جسم کی مانند دکھائیں، ایک دوسرے کے خلاف مت بولیں، ایک دوسرے کی شکایتیں نہ کریں…… کیونکہ یہ اعمال امارت کو کمزورکردیتے ہیں۔یاد رکھیے کہ یہ اب ایک اسلامی سلطنت ہے، سلطان کے تحت تمام امرا ہیں، ان کی قدر کیجیے۔

دشمن کے کاموں کا ادھر خاتمہ ہوا۔جس طرح احزاب میں دشمن نے شکست کھائی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ آج کے بعد ہم ان پر حملہ آور ہوں گے،یہ ہم پر حملہ نہیں کرسکیں گے‘۔ تو یہاں بھی احزاب نے شکست کھائی، ان کی ادھر جنگ ختم ہوگئی اور ان شاء اللہ آئندہ کوئی بھی کافر یہ ہمت نہیں کرسکے گا کہ افغانستان پر حملہ کرے۔ لیکن فتنے اور پراپیگنڈے کے حملے وہ کرتے رہیں گے۔ یہاں فتنہ انگیزی کی کوششیں وہ جاری رکھیں گے، حکومت اور رعیت کے مابین فاصلہ پیدا کریں گے، ایسے موضوعات اُٹھائیں گےجن سے اختلافات پیدا ہوں، حکومت کے اندر ایسا ماحول بنادیں گے کہ ایک دوسرے پر تنقید کرے گااور دوسرا تیسرے پر ، اس طرح حکومت کمزور ہوجائے گی اور ان اختلافات کے نتیجے میں امارت ختم ہوجائے گی۔

لیکن اگروحدت باقی رہی، علما اور حکومت کے درمیان فاصلہ ختم ہوگیا، تو وہ عناصر جو فاصلہ پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں ان کا سد باب ہو گا،حکومت اور رعیت کے مابین فاصلہ ختم ہوجائے گا۔ آج یہ ساری کاوشیں پراپیگنڈے کے ذریعے ہورہی ہیں، امارت پر تنقید کی جاتی ہے اورامارت کے مسؤولین کو غلط الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کس قدر افسوس کی بات ہےکہ ان کا میڈیا افغانستا ن سے چل رہا ہے۔ یہ میرا ملک ہے، یہ میرا نظام ہے، میں آزاد ہوں! آپ سے میں ایک سوال پوچھتا ہوں میں ناسمجھ بندہ ہوں، حکومت چلانا تو میں نہیں جانتا،لیکن کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ میں اپنی رائے پہ چلوں یا یہ کہ دوسروں کے اشاروں پر چلوں؟ یہی پسند ہے ناں کہ میں اپنی رائے پہ چلوں! آج اللہﷻ کا عظیم فضل و احسان ہے کہ افغانستان مستقل اپنی رائے پہ چل رہا ہے، دوسروں کے اشاروں پر کام نہیں کررہا ۔ مملکت اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ آزادی اور خود ارادیت حاصل نہ کرلے۔ آج دنیا یہ نہیں چاہتی کہ افغانستان اور حکومتِ افغانستان اپنے مستقل ارادے پر چلیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک ان کےاشاروں پہ چلے۔ وہ ہمیں مشورے دیتے ہیں کہ فلاں کام کرو،فلاں نہ کرو…… فلاں کام کیوں نہیں کررہے؟! بھلاتمہارا ہمارے کام سے کیا کام؟ ہماری فکر، ہمارے اصول اور ہماری حکومت سے تمہارا کیا کام ہے؟ تم کیوں مداخلت کررہے ہو؟ میں یہ نہیں چاہتا کہ یہاں میرے ملک میں تمہاری فرمائشیں پوری ہوں اور نہ ہی تمہاری فرمائشیں ادھر پوری ہوں گی! میں ایک قدم بھی تمہارے ساتھ آگے نہ بڑھوں گا، نہ میں تم سے تعامل کرتا ہوں، نہ ہی شریعت پر سمجھوتہ کروں گا! ابھی تم نے ہمارے اوپر آگ والے بم برسائے ہیں، اگر ہمارے اوپر ایٹم بم بھی استعمال کرللو تو بھی ہم کبھی تمہاری بات نہیں مانیں گے……!

ہمارے اور اللہ کے درمیان ایک تعلق ہے، ہم نے کلمہ پڑھا ہے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا! ہم اپنی موت و زندگی کا مالک و خالق اللہ کو مانتے ہیں، تمہیں نہیں !دنیا کی کسی قوت کے سامنے بھی ہم تسلیم نہیں ہوتے، اگر تسلیم ہوتے ہیں تو صرف اللہ کے سامنے ! جس قوت کے سامنے بھی ہم تسلیم ہوں گے وہ اللہ کی ہدایات کے تحت ہی تسلیم ہوں گے۔ جب اللہ کی ہدایت نہ ہو تو ہم ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے۔ ہم سے ہرگز کوئی یہ امید نہ رکھے۔ میری تو یہ رائے ہے۔

ابھی تو یہ مجھ پر دنیا کے دوسرے کونے سے نعرے بلند کررہے ہیں ، باتوں کے ذریعے تسلیم کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ یاتو پورا ایٹم بم گراکر ہم سب کو پگھلادیں کہ آخر ہم نےتو مرنا ہی ہے۔ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور ان کا دل نکالا گیا اور مثلہ کیا گیا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ اگر مجھے ان کی بہن کے غم کا خیال نہ ہوتا تو میں کبھی ان کو نہ دفناتا، میں ان کو ایسے چھوڑ دیتا تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو بھیڑیوں کے پیٹ سے مظلومیت کے عالم میں اٹھاتے‘۔ تاکہ اللہ کو آپؓ کی مظلومیت معلوم ہو۔ ہم آج یہ چاہتے ہیں کہ ربﷻ کے سامنے ہماری اس دین پر مظلومیت ظاہر ہوجائے۔ جب تم ہم پرظلم کروگے تو اس سے ہمارے درجات بلند ہوں گے۔ شہادت سے ہمارے درجات کم نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم ناکام ہوتے ہیں۔ یہ تو ہماری کامیابی ہے۔ اگر یہ ایٹم بم ہمارے اوپر استعمال کریں ، ہمیں پگھلادیں، تو بھی یہ ہمارا اللہ کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم ایک قدم بھی ان کے ساتھ ان چیزوں میں نہیں اٹھائیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔ ہم دوسروں کی فرمائشوں اور مطالبات پر نہیں چلیں گے۔

ربﷻ ایک عجیب آزادی و استقلال لائے ہیں اور ایسی آزادی و استقلال کئی صدیوں میں افغانیوں پر نہیں آئی ہوگی ۔ ہم ا س پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ گزشتہ دس ماہ کے لیے یہ آزادی لے آئے۔ یہ دس مہینے اللہﷻ نےان علما اور مجاہدین کے ہاتھوں پورے افغانستان میں امن و امان قائم کیا، یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، یہ افتخار کی بات ہے۔ جو ربﷻ نے مجاہدین کے حصے میں ڈالا ہے۔ لیکن اس کی بقا اسی میں ہے کہ سب متحد ہوجائیں۔

میرے محترم مسلمان بھائیو!

قیادت علما کی ہے، علما کوشش کرتے ہیں کہ یہ قوم اجتماعیت علما کی ایک تصویر ہو۔ علم کو ترقی دیں ۔ جہاں تک اقتصاد کی بات ہے تو اس کا تعلق ملک کے امن سے ہے، جب ملک میں امن پائیدار ہو گا تو ان شاء اللہ خود بخود اللہ پاک اقتصاد کو بھی برابر کردیں گے۔ اور اقتصاد اس سے برابر ہوگا جب اس ملک کے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ آپ خارجی امداد پر بھروسہ و اکتفا نہ کریں، نہ خارجی امداد ہمیں اٹھا سکتی ہےاور نہ ہی ہمارے اقتصاد کو بڑھا سکتی ہے۔ اقتصاد اگر ٹھیک ہوسکتا ہے ، اگر کوئی ہمیں محتاجی اور غربت سے نکال سکتا ہے تو وہ ہماری اپنی ہمت ہے، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں۔ تاجر اپنے ملک میں لوٹ آئیں آخران کو کس چیز کا ڈر اور خوف ہے؟ آئیے اپنے ملک میں سرمایہ کاری شروع کریں، اپنے ملک کو آباد کریں، کارخانے بنائیں! آپ ابھی تک کافروں کے انتظار میں ہیں کہ وہ آپ کی سڑکیں اور گلیاں پکی کریں اور وہ آپ کے ملک کو آباد کریں ۔ آئیے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اپنے اموال جمع کرکےچھوٹی چھوٹی کمپنیاں بنائیں، یہ ملک سارا آباد ہے۔

جولوگ بیرونِ ملک رہتے ہوئے افغانستان کے خلاف منصوبے بنارہے ہیں، ان سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں فتنہ بجھ گیا ہے، جنگ کی آگ بجھ گئی ہے، اب مزید بجھی ہوئی آگ میں پھونکیں نہ مارو۔ اگر اس بجھی ہوئے آگ کو دوبارہ بھڑکایا تو سب افغانی تمہارے خلاف ہوں گے۔ ہم نے آپ کے بارے میں عام معافی کا اعلان کیا ہے، آئیے اپنے ملک میں روزوشب گزاریں، وہ عزت جو اپنے ملک میں ملتی ہے کسی دوسرے کے ملک میں نہیں ہے، کافر کے ملک میں آپ کی عزت نہیں ہے، تو کیوں اپنی بے عزتی کروارہے ہیں؟ اُدھر نہ تمہارے بیٹےکی، نہ گھرانے کی اور نہ ہی تمہاری کوئی عزت ہے،تو آجاؤ واپس اور اپنے ملک میں رہو! ہمارا تمہارے ساتھ کسی بھی قسم کے حساب کتاب کا ارادہ نہیں ! لیکن یہ یاد رکھنا! یہاں آکر شر مت پھیلانا، امن خراب کرنے کی منصوبہ بندی مت کرنا،کیونکہ اگر امن خراب کرو گے تو پھر عمومی مصلحت کے مطابق سزا کے مستحق ٹھہروگے۔

اس ملک کا شعار دینِ اسلام ہے۔ ہم نے اپنے مخالفین کو جو ہمارے خلاف لڑرہے تھے اور جنہوں نے ہمیں مجروح اور شہید کیا، اس سب کے باوجود ہمارا ان سے انتقام لینے کا کوئی ارادہ نہیں، اگرچہ ہمارے لوگوں کو انہوں نے قتل کیااور انتقام لینے کا ہماراحق بھی بنتا ہے، لیکن ہم ان کو معاف کر چکے ہیں۔ جب ہم ان کے بارے میں یہ رویہ رکھتے ہیں تو بھلا دوسرے مسلمانوں کے بارے میں کیسے غلط ارادہ رکھ سکتے ہیں ؟یا اس ملک کے کسی عام فرد کے بارے میں کیسے ظلم کا ارادہ رکھ سکتے ہیں؟! ہمارے ملک کے جو پڑوسی ممالک ہیں وہ بھی کبھی یہ نہ سوچیں کہ ہم ان کے بارے میں کوئی برا ارادہ رکھتے ہیں۔ہمارا کوئی برا ارادہ نہیں۔ اسلام سلامتی کا دین ہےاور ہم سلامتی چاہتے ہیں، امن چاہتے ہیں، صلح چاہتے ہیں، سکون والی زندگی چاہتے ہیں، اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔ بس ہمارا موقف واضح ہے۔ نہ دوسرے کے اشارے پہ کام کرنے والے ہیں اور نہ دوسرے کے تسلط کو تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے مستقل ارادے پہ چل رہے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اطمینان کے ساتھ کرے،ہمارا وہی موقف ہے جو پہلے تھا۔ ہم آزاد اور مستقل ارادہ رکھتے ہیں ، ربﷻ ہمیں ایسے ہی مستقل رکھے۔

پوری ملت سے میری درخواست ہے کہ بس مزید تفرقہ بازی چھوڑ دیجیے، ان جزوی باتوں کو چھوڑدیں۔ ایک یہ بات کرتا ہے دوسرا دوسری بات کرتا ہے، آئیے افہام و تفہیم کریں، ربﷻ نے ایک عجیب موقع فراہم کیا ہے، آئیے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ کسی بے کار چیز کی وجہ سے ہمارا نظام خراب نہ ہوجائے۔ آئیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، آپس میں افہام و تفہیم پیدا کریں…… آپ علما ہیں ، مجاہدین ہیں، حاکمین ہیں ……نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں۔ حکم تو اللہ کا ہے، ہماری شریعت کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہﷺ اور فقہِ حنفی کا ہے۔ ہم عدالت میں جو بھی فیصلہ کرتے ہیں ، اس کا لائحہ پہلے سے بنا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم خادمِ شریعت ہیں۔ اللہ اس شریعت کو افغانستان میں حاکم بنادے۔

میرے بھائیو!!یہ میری طرف سے نصیحت نہیں بلکہ ایک یاد دہانی ہے۔ اس علما کی مجلس کو خدا تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت کا ذریعہ بنائے،آمین۔ یا اللہ اس مجلس اور ان علما کی برکت سے پورے افغانستان کی سرزمین پر اسلامی نظام لے آ۔ ان علما نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ایسی مجلس کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم امارت کے پشت پر کھڑے ہونے کا اعلان کریں، کیونکہ کفار کی مستقل کوشش ہے کہ امارت کی رسمیت کا انکار کریں۔ ہم امارت کی بیعت کریں گےاور یک زبان امارت کے حق میں نعرہ بلند کریں گے۔یہ ان علما کی محبت ہے، تمام مسلمانوں کی امارت سے محبت ہے، لیکن کافر اس پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ کفار کے ارادے بہت مختلف ہیں۔ میں نے علما کی اس مجلس کے حوالے سے شوریٰ میں بات رکھی، شوریٰ کے ارکان بھی اس مجلس میں دلچسپی رکھتے تھےمگرسکیورٹی کا مسئلہ تھا، سکیورٹی بھی فراہم کر دی گئی میرا مشورہ تھا کہ یہ مجلس قندھار میں منعقد کی جائے لیکن علما نے کہا کہ نہیں ہم کابل میں یہ مجلس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کی رائے سے متفق ہو گیا اور آج یہ مجلس علما کے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’ آپ آئیں گے یا نہیں؟‘ میں نے کہا کہ یہ تو ایجنڈے میں شامل نہیں ، میں نے کیا کرنا ہے…… بس مجلس کابل میں منعقد کر لیں۔ مگر انہوں نےکہا کہ نہیں آپ اس میں ضرور شرکت کریں گے۔ ان کے اصرار پر میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ییہ علما کی مجلس ہے اور میں اس میں اجر کی نیت سے شریک ہو رہا ہوں، اگر سفر کیا ہے تو وہ بھی اجر کے لیے اور اس مجلس میں شرکت کی ہے تو بھی محض علما کی صحبت میں بیٹھنے کی خاطر۔ اگر یہ مجلس بدخشان میں بھی منعقد کرتے تو بھی میں اس میں شریک ہوتا، نورستان میں منعقد کرتے تو پھر بھی میں ان کے پاس چل کے جاتا ۔ میرا مقصد علما کی مجلس میں بیٹھنا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ یہ سعادت میرے حصے میں آئی، اللہﷻ آپ سب کا یہ بیٹھنا اور توجہ کے ساتھ علما کے بیانات اور نصائح سننا قبول فرمائے، آمین!

وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العلمين!

٭٭٭٭٭


1 (سورۃ العنكبوت: ۶۹)

2 رواہ مسلم

3 یہ (مومن اور کافر) دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا کیا ہے۔

4 (مفہومِ قولِ صحابی حضرتِ ابو درداء رضی اللہ عنہ)

Previous Post

بدنظری اور عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور اس کا علاج

Next Post

ہم تیرے ﷺدشمن ماریں گے!

Related Posts

خطبۂ امیر المومنین

علمائے کرام، مجاہدین اور تاجروں کی ذمہ داریاں

30 ستمبر 2022
اداریہ

ہم تیرے ﷺدشمن ماریں گے!

31 جولائی 2022
تزکیہ و احسان

بدنظری اور عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور اس کا علاج

31 جولائی 2022
تزکیہ و احسان

دِل کی حفاظت

31 جولائی 2022
حلقۂ مجاہد

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | مئی تا جولائی ۲۰۲۲

31 جولائی 2022
حلقۂ مجاہد

شَہادت کی قبولیت کی شرائط | ۶

31 جولائی 2022
Next Post

ہم تیرے ﷺدشمن ماریں گے!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version