تو جو بات یہاں پر ہمیں اپنے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، اگر اس سے کوئی مستثنیٰ ہے تو وہ صرف ایک قسم کا شہید ہے اور وہ ’شہید البحر‘ ہے، وہ سمندر میں شہادت پانے والا ہے۔ اس کے قرض سمیت سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ تو کوئی وہ شہادت پا سکے تو پاسکے، دوہرے شہید کا اجر ہوتا ہے اس کے لیے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اور اس میں غیر معمولی ترغیب ہے مسلمانوں کے لیے کہ وہ سمندروں کی جنگ کی طرف توجہ دیں، اس کی طرف رخ کریں اور مسلمانوں نے ہر دور میں سمندری جنگ کی۔ حضرت معاویہؓ اس پوری مہمات کے بانی سمجھے جاتے ہیں، اور وہ حضرت عمرؓ کے دور میں بھی اصرار کرتے رہے کہ مجھے جانا ہے، مجھے بھیجنے دیں لشکر، اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے دور میں بالآخر ان کو اجازت ملی اور انہوں نے لشکر بھیجا، قبرص کو فتح کیا اور ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث صادق آئی یعنی ان کے اوپر بھی منطبق ہوتی ہے کہ میری امت کو جو پہلا گروہ جنگ کرے گا سمندر کے راستے سے تو وہ جنتی ہے، تو اس میں حضرت معاویہؓ بھی شامل ہیں، ان کے مناقب میں یہ شامل ہے۔
تو پیارے بھائیو! جو بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، کہ حقوق العباد کا معاملہ اتنا خطرناک ہے کہ شہید کے لیے بھی اس میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ تو ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے معاملات کو دیکھے۔ حقوق العباد میں سب سے پہلا حق کس کا آتا ہے، والدین کا آتا ہے۔ وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا……اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اللہ فرماتے ہیں دوسری بات جو اللہ کے شرک سے بچنے کے بعد آتی ہے، وہ کیا ہے، وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا……اور والدین سے اچھی طرح پیش آؤ۔ پیارو! یہ ایک آیت اتنی بھاری ہے، ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے ہم نے کتنا حق ادا کیا ہے۔ کہ…… اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا…… اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں، فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ…… تو ان کو اف تک نہ کہو، وَّلَا تَنْهَرْهُمَا…… اور ان کو جھڑکو مت، وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا…… اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ…… اور رحمت کے ساتھ ان کے سامنے اپنے کندھے جھکا لو، وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا…… اور کہو کہ اے میرے رب! جس طرح انہوں نے مجھے پالنے میں نرمی اور شفقت سے کام لیا، تو بھی ان پر رحمت کا معاملہ فرما۔
تو پیارو! یہ اف کیا، ہم تو پتہ نہیں کیا کچھ کرتے رہیں ہیں۔ حدیث کہتی ہے کہ والد کو غصے سے دیکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اللہ کی نافرمانی میں داخل ہے۔ تو ہم نے کیا نہیں کیا۔ اور جہاد کے نام پر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بخش دیا جائے گا، ہمیں اجازت شریعت نے صرف اس بات کی دی ہے کہ والدیں کا وہ حکم نہ مانیں جو خلافِ شرع ہو۔ اگر وہ جہاد سے روکیں تو نکل جائیں پھر بھی جہاد پہ، لیکن اس کی اجازت نہیں ہے کہ جہاد کے نام پہ ان سے بدتمیزی کریں، ان سے سختی سے بات کریں، ان کے سامنے آواز بلند کریں، ان کی شان میں گستاخی کریں۔ واللہ! یہ اللہ کے یہاں مروانے کا باعث بن سکتا ہے، اور شہادتوں کے بعد بھی اللہ کے یہاں پکڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ تو یہ ہماری پہچان نہیں بننی چاہیے کہ مجاہدین ہوتے ہی بدتمیز ہیں، مجاہدین ہوتے ہی والدین کے نافرمان ہیں، اور ان کی شان میں گستاخی کرنے والے ہوتے ہیں۔ تو اللہ کے یہاں اس کا جا کے جواب دینا ہے۔
والدین کے حوالے سے اس ایک حدیث پہ غور کرلیں نا اگر، غالباً طبرانی کی روایت ہے کہ علقمہ نامی ایک صحابی کا واقعہ آتا ہے، رسول اکرم ﷺ کے سامنے لوگ آکے بتاتے ہیں کہ ان کی زبان سے کلمہ نہیں جاری ہو رہا، تو رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کو بلاؤ، تو والدہ کو بلایا جاتا ہے۔ آپ ان کی والدہ سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے بیٹے کا کیا حال ہے، اس کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ تو وہ کہتی ہیں کہ وہ اتنی عبادت کرتا ہے، اتنی عبادت کرتا ہے کہ ہم نے اس سے زیادہ نماز اور روزے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ تو رسولﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیسا معاملہ ہے، تو وہ کہتی ہیں کہ میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہے، میں اس سے ناراض ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ لکڑیاں جمع کرو، آگ لگاؤ اور پھر حکم دیتے ہیں کہ علقمہ کو لے کے آؤ اور اس آگ کے اندر جلاؤ۔ تو والدہ کہتی ہیں کہ یہ کیسی بات کر رہے ہیں، میرے سامنے آپ میرے بچے کو آگ میں ڈالیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ آج اس کو آگ میں ڈلتا نہیں دیکھ سکتی تو کیا آخرت کی آگ میں ڈلتا دیکھ سکتی ہیں؟ یعنی آپ کی ناراضگی تو اس کو جہنم میں پہنچا دے گی۔ تو وہ والدہ کہتی ہیں کہ میں اللہ کو، اور اے نبیﷺ آپ کو اور تمام حاضرین کو گواہ بناتی ہوں کہ میں نے اپنے بچے کو بخش دیا۔ اِدھر وہ بخشتی ہیں اُدھر رسول اللہ ﷺ ایک صحابی کو بھیجتے ہیں کہ جا کر دیکھو کہ وہ کس حال میں ہے۔ صحابی وہاں پہنچتے ہیں اور کمرے میں داخل ہونے لگتے ہیں تو انہیں حضرت علقمہؓ کی زبان سے کلمے کی آواز آتی ہے اور ساتھ ہی ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔ پیارو! کلمہ نصیب نہیں ہوتا اگر والدین کو ناراض کرکے انسان دنیا سے جا رہا ہو۔ اتنا خطرناک مسئلہ ہے، تو ہلکا نہ سمجھیں ان مسائل کو اور اس میں تقصیر نہ شہادت سے ہوگی اور نہ کسی اور چیز سے اس کو بخشش ملے گی۔
اسی طرح دیگر رشتہ داروں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ یہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھی…… وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى…… والدین کے بعد اگلا حق اللہ نے بتایا کہ قریبی رشتہ داروں کا حق بنتا ہے۔ اس میں سب شریک ہیں، اس میں نانی نانا بھی داخل ہیں، دادی دادا بھی داخل ہیں، اس میں خالہ خالو، چچا چچی بھی داخل ہیں، اس میں بھائی اور بہنیں بھی داخل ہیں، ان کا حق ہے میرے اوپر جس کے بارے میں اللہ نے قیامت کے دن مجھ سے سوال کرنا ہے۔ اس حق کو ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے، ان کے حق میں تقصیر کی اجازت ہمیں کسی طرح بھی نہیں ملتی ہے۔ ان تک دین پہچانا بھی ہمارے اوپر فرض ہے، ان کو راحت پہچانا، ان کی خدمت کرنا، ان کی حفاظت کرنا۔
قریبی رشتہ داریوں میں سب سے قریب کا رشتہ تو مرد کے لیے اس کی بیوی کا رشتہ ہوتا ہے۔ تو حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ اتنی تاکید کیا کرتے تھے بیوی کے حق کے بارے میں کہ صحابہ کہتے تھے کہ جب تک آپؐ زندہ تھے تو یوں تھا کہ جیسے ایک تلوار ہمارے سر کے اوپر لٹک رہی ہے، جو محافظ ہے خواتین کے حقوق کی، اور جب آپﷺ فوت ہوئے تو اس کے بعد وہ سلسلہ منقطع ہوا اور ہم ڈرتے تھے کہ اب وحی آئے گی اور ہمیں خواتین کے حقوق کے بارے میں کوئی مزید تاکید کرے گی۔ تو وہ مجاہد اپنی آخرت برباد کر رہا ہے جو مجاہد ہے لیکن اپنے گھر کے اندر بدسلوک ہے، وہ مجاہد ہے اور اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بری طرح پیش آتا ہے اور اس کے جائز شرعی حقوق پورے نہیں کرتا، تو وہ کدھر چلا ہے، وہ کس طرح اپنے آپ کو جنت کا مستحق اتنے آرام سے سمجھ رہا ہے۔ اس کو ساری آزمائشوں اور سختیوں سے پھر گزرنا ہوگا قیامت کے دن، اگر اس نے اس حق کو پورا نہ کیا۔
اسی طرح اولاد کا حق ہے۔ اولاد کا بھی یہی معاملہ ہے کہ، ٹھیک ہے والدین کا حق بہت غالب ہے اولاد پر لیکن اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ پہلا حق اس میں سے دین سکھانا ہے ان کو، اس سے غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ایک پورا اسوہ ہے اولاد سے محبت کے حوالے سے، اولاد سے شفقت کے حوالے سے، کہ جس کو دیکھ کر اعرابی حیران ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ آپ سر پر کیوں ہاتھ پھیر رہے ہیں، یہ آپ اتنا چومتے کیوں ہیں حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کو، تو رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ تو یہ تو رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔ اور آپ کا بچہ آپ کی گود میں فوت ہوتا ہے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو صحابہ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا……؟ تو آپﷺ فرماتے ہیں کہ یہ وہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔ تو اولاد کا حق ہے جس کو پورا کرنا ہے، رشتہ داروں کا حق ہے جس کو پورا کرنا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ جہاد نہیں کر رہے، ان کے باقی سارے حقوق معاف نہیں ہو جاتے۔ صرف یہ کہہ کے کہ وہ میرا بہت برا رشتہ دار ہے کہ وہ جہاد نہیں کرتا، تو پیارے! باقی اس کے حق تو نہیں معاف ہوئے، وہ رشتہ دار تو پھر بھی ہے۔ چچا تو چچا ہی رہے گا، نانا نانا رہیں گے، دادا دادا رہیں گے، بھائی بھائی رہے گا، اس کے باقی سب حقوق اپنی جگہ باقی رہیں گے جو دنیا میں ہیں۔ تو یہی معاملہ والدین کا اور سب کا ہے۔
اسی طرح کمزوروں کے معاشرے میں اگلا حق جو ہے، وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ…… آیت کہتی ہے کہ اگلا حق اس کے بعد یتامیٰ اور مساکین کا ہے۔ یتیموں کا حق ہے، مسکینوں کا حق ہے، کہ جس کی اتنی فضیلت بتائی گئی کہ یتیم کے سر پہ صرف ہاتھ پھیر دو تو جتنے بال ہاتھ کے نیچے آئے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اتنے گناہوں کی بخشش فرماتے ہیں۔ اس حد تک توجہ دلائی گئی ہے یتیموں کے حق کے بارے میں۔ مساکین کا حق، کمزوروں کا حق، حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے پسند ہے یہ بات کہ میں مساکین کی مجالس میں بیٹھا کروں، مساکین کے ساتھ اٹھا بیٹھا کروں، تو ان کے ساتھ دل لگتا ہے، انہی سے محبت ہوتی ہے۔ تو مساکین کا، کمزوروں کا خیال کرنا، یہ تکبر والے تو مجاہدین نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آخرت برباد کرتا ہے جو اپنی طاقت کو اس لیے استعمال کرتا ہے کہ کمزوروں کو دبائے، کمزوروں کے اوپر رعب جھاڑے، یہ اپنی آخرت برباد کر رہا ہے۔ مجاہد تو وہ ہے کہ جو مومنین کے لیے بالکل نرم ہو، ان کے سامنے کندھے جھکانے والا ہو۔
اسی طرح پڑوسی کا حق ہے۔ پیارو! اتنا حق ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام مستقل آ آ کے پڑوسی کے حق کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ اب یہ بھی کہہ دیں گے کہ أنه سيورثه یعنی وراثت میں بھی اس کو حصہ دینے کا کہہ دیں گے۔ اس حد تک حق ہے پڑوسی کا، اور پڑوس کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ چالیس گھر تک جاتا ہے پڑوس۔ تو یہ اتنا بھاری حق ہے کہ ہم لوگ دب جائیں اس کے نیچے اگر اس حق کو پورا کرنے کی کوشش کریں، دب جائیں ان حقوق کے نیچے۔ یہ تو اس معاشرے نے، اس دجالی تہذیب نے یہ فہم ہی چھین لیا ہے ہم سے کہ یہ کتنی خطرناک باتیں ہیں، ان حقوق کو اور رشتوں کو کاٹ دیا ہے۔
اور اس میں صرف پڑوسی نہیں ہے۔ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ…… قرآن کہتا ہے کہ قریب کا پڑوسی بھی اور دور کا پڑوسی بھی، دونوں کا آپ پہ حق ہے۔ اسی طرح وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ…… کوئی اگر رستے کا ساتھی بن جائے، کوئی کسی سواری میں آپ کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جائے، تو احادیث اس بات پہ بالکل واضح ہیں کہ ایک منٹ کا بھی رستے میں کسی کا ساتھ ہوگا ناں، اس کا آپ کے اوپر حق ہے۔ وہ سفر میں جتنی دیر کے لیے آپ کے ساتھ رہا، اس کے بقدر اس کا آپ کے اوپر حق بنتا ہے، اس حق کا جواب اللہ کے یہاں دینا ہوگا کہ سفر میں اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا۔ رستے میں کوئی ساتھی بن گیا، مرکز میں کوئی ساتھی بن گیا، سفر میں کوئی ساتھی بن گیا، اس کے ساتھ کس طرح پیش آئے۔ وَابْنِ السَّبِيْلِ…… اسی طرح آیت کہتی ہے کہ مسافر کا حق ہے۔
پیارے بھائیو! تو انہی سارے حقوق کو سامنے رکھیں۔ جس طرح زبانیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں بعض ساتھیوں کی عامۃ المسلمین کے لیے اور بالخصوص اپنے گھر والوں کے لیے، اپنے رشتہ داروں کے لیے۔ یہ معاملہ اتنا سہل نہیں ہے جتنا ہم نے سمجھا ہے، اس کی خطرناکی کو ذہن میں رکھیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭