نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | چھٹی قسط

ابو البراء الابی by ابو البراء الابی
31 جولائی 2022
in حلقۂ مجاہد, مئی تا جولائی 2022
0

یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


دسویں وجہ: کسی ضابطے کے بغیر جذبات میں آنا

تھوڑی مدت کے لیے جذباتی اور اشتعال انگیز ہو جانا۔ اور جلد ہی ایسے ٹھنڈا پڑ جانا جیسے کاغذ جلدی آگ پکڑتا ہے لیکن جلد ہی بج کر اس کا شعلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص نیک بننے کے بعد کسی چیز کا وقوع جلد چاہتا ہے وہ جلد ہی اپنے مقصد سے الٹا پھر جاتا ہے اور انحطاط کا شکار ہوتا ہے۔ ایسا شخص ہر چیز میں جلد باز ہوتا ہے۔ جلد بازی میں وہ غلو کا بھی شکار ہوتا ہے، اور پھر کوتاہی کا بھی۔ کیونکہ وہ تھکے گا اور پھر جی بھر جائے گا اور اکتا جائے گا۔ اور اس کے بعد انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔

یہ تسلیم ہے کہ ہر کام میں چستی آتی ہے۔ اور ہر چستی میں سستی آتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ﷠ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:

لكل عمل شرة، ولكل شرة فترة، فمن كانت فترته إلى سنتي فقد اهتدى، ومن كانت فترته إلى غير ذلك فقد هلك.

(بروایت ابن حبان ، صحیح از البانی)

”ہر کام میں چستی ہوتی ہے، اور ہر چستی میں سستی آتی ہے۔ پس جو سستی کے دوران میری سنت کے موافق ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہے۔ اور جس کی سستی کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہوا۔“

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ

(سورۃ النساء: ۱۷۱)

’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو۔‘‘

یہودیوں نے حضرت عیسی ﷤ کے معاملے میں یہاں تک غلو کیا کہ حضرت مریم ﷥ پر تہمت باندھی۔ پھر عیسائیوں نے اتنا غلو کیا کہ حضرت عیسی ﷤ کو خدا بنا ڈالا۔ افراط و تفریط دونوں برے ہیں اور ایسا کرنے والے کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس لیے (تابعی) حضرت مطرف بن عبد اللہ الشخیر ﷫نے فرمایا:

’’نیکی دو برائیوں کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘

اور شاعر نے اسی مطلب کو ادا کیا کہ: کسی بھی معاملہ میں غلو نہ کرنا۔ بلکہ میانہ رہو۔ کیونکہ ہر معاملہ کے دو آخری طرف برے ہیں۔ (از تفسیر قرطبی)

حضرت عمر ﷜ نے فرمایا:

إن لهذه القلوب إقبالا و إدبارا. فإذا أقبلت فخذوها بالنوافل وإن أدبرت فألزموها الفرائض.

”دل کا اقبال بھی ہوتا ہے اور ادبار بھی۔ تو جب وہ آگے بڑھے تو نوافل کی کثرت کرو، اور جب پیچھے ہٹے تو فرض پر قائم رہو۔“

نبی اکرم ﷺ نے خوارج سے خبردار کیا۔ صحیحین میں آیا ہے کہ جب حرقوص نامی ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے ہاں داخل ہوا اور کہا: یہ تقسیم اللہ تعالی کی خاطر نہیں کی گئی اور پھر چلا گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يخرج من ضئضئ هذا أقوام تحقرون صلاتكم إلى صلاتهم، وعبادتكم إلى عبادتهم،…. يخرجون من الدين، ينسلخون من الإسلام، كما يخرج السهم من الرمية.

”اس شخص کی نسل سے ایسے قومیں پیدا ہوں گی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنی عبادت کو ان کی عبادت کے سامنے حقیر پاؤ گے۔۔۔ وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار میں سے نکل جاتی ہے۔“

اعتدال اور میانہ روی دین ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا (سورۃ البقرۃ: ۱۴۳)

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے۔‘‘

امت محمد ﷺ میانہ روی اور اعتدال کی امت ہے۔ وہ نہ غلو اور اکڑ پن کی امت ہے اور نہ ڈھیلے پن اور کمزوری کی امت۔ بلکہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے۔ آپ اسی طرح نماز پڑھیں گے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھی۔ اور اسی طرح روزہ رکھیں گے۔ اسی طرح زکاۃ دیں گے۔ جو رسول اللہ ﷺ شریعت لائے ہیں اس سے آگے نہ بڑھیں۔

صحیحین میں ذکر ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے تین لوگ آپ ﷺ کی بیویوں کے پاس آئے اور ان سے ان کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہیں بتایا گیا تو جیسے کہ انہوں نے اسے کم جانا۔ ایک نے کہا: میں رات کو نہ سویا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں عمر بھر روزہ نہ چھوڑوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں کبھی بھی شادی نہ کروں گا۔ جب نبی اکرم ﷺ کو خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا اور پھر کہا:

ما بال أقوام يقولون ويقولون ويقولون، أما والله إني لأعلكم بالله وأخشاكم له و أتقاكم له. ولكني أصوم وأفطر، وأقوم وأنام، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني.

”میں کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ ایسے اور ایسے اور ایسے کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم میں تم میں سے سب سے اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہوں۔ سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ سب سے زیادہ تقویٰ والا ہوں۔ لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات تہجد پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں۔ خبردار جو میری سنت کو چھوڑے گا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔“

امام احمد ﷫ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے:

إياكم والغلو فإنما أهلك من كان قبلكم الغلو في الدين.

”خبردار غلو نہ کرنا۔ تم سے پہلے لوگوں کو دین کے معاملہ میں غلو نے ہلاک کیا۔“

اور صحیح مسلم میں آپ ﷺ کا فرمان ہے:

هلك المتنطعون.

”متنطع ہلاک ہوئے۔“

یعنی کہ شرعی دلیل کے بجائے اپنے اوپر سختی کرنے والے۔

اسی طرح سنن ابی داؤد میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ:

ولا تشددوا على أنفسكم فيشدد الله عليكم، وإن قوما شددوا على أنفسهم فشدد الله عليهم. فتلك بقاياهم في الصوامع.

”اپنے اوپر سختی مت کرو، یہ نہ ہو کہ اللہ آپ پر سختی کرے۔ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی کی۔ اب دیکھو یہ ان کی بقایا جات (عیسائی) عبادت خانوں میں ہیں۔“

یہ وہ راہب ہیں جنہوں نے اپنے اوپر سختی کی اور بدعت گڑھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ (سورۃ الحدید: ۲۷)

’’اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی، ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘

اللہ نے ان پر فرض نہ کی تھی بلکہ انہوں نے بدعت نکالی لی اور رہبانیت اختیار کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دین ہے لیکن وہ دین نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

إن هذا الدين يسر ولن يشاد الدين أحد إلا غلبه.

”یہ دین آسان ہے۔ جو بھی دین میں شدت اختیار کرے گا، اس پر دین غالب ہو گا۔“

اور آپ ﷺیہ بھی فرماتے تھے:

بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا

”خوشخبری دیا کرو اور نفرت مت دلایا کرو اور آسانی دلاؤ تنگی مت دلاؤ۔“

مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَکُنْ إِثْمًا

”رسول اللہ ﷺ کو جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کو کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔“

امام ابن القیم ﷫ فرماتے ہیں:

”سالکین کے لیے سستی کا آنا نا گزیر ہے۔ اب جس کی سستی قریب قریب اور صحیح سمت میں ہو، اور اسے فرض چھوڑنے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی حرام کے ارتکاب کا۔ تو امید یہ کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے بہتر طور پہ واپس لوٹے گا۔“

غلو بری اور قابل مذمت صفت ہے۔ صحیح فطرت اور صحیح عقل اسے قبول نہیں کرتی۔ دیکھیے کہ شریعت نے غلو اور اہل غلو کی مذمت کی ہے بصرف نظر کہ غلو کا کیا موضوع تھا اور وہ کس پہلو میں تھا۔ مثلاً تعظیم کے حقدار شخص کی تعظیم اور احترام میں غلو شرک تک جا پہنچتا ہے۔ بلکہ شرک کی اکثر صورتیں اسی پہلو میں غلو کا نتیجہ ہیں۔

غلو کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ قائد، عالم یا جماعت جو بھی کہے اسے درست تسلیم کر لیا جائے۔ چنانچہ بزبان حال جیسے کہ اس کی عصمت کے قائل ہوں چاہے زبان سے نہ کہیں اور بسا اوقات زبان سے بھی کہتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان کے ساتھ کسی اجتہاد یا رائے میں مخالفت کرے ، یا ان کے ساتھ کسی بات میں بحث کرے تو وہ اس پر جنگ برپا کر دیتے ہیں۔ اور اس پر اہل علم کی تحقیر یا گمراہی کا الزام لگاتے ہیں۔

ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس معاملہ میں حتمی رائے رکھے جس میں حتمی رائے رکھنا جائز نہیں۔ جیسا کہ بعض حتمی طور پہ کہتے ہیں: کہ فلان ذات اعلیٰ کے ہاں ہے۔ یا فلان اللہ کا ولی ہے۔ اگر یہ ولی نہیں ہے تو میں کسی اور ولی کو نہیں جانتا۔ یہ فلان سے اللہ نے محبت کی تو لوگوں نے بھی محبوب بنایا۔ جبکہ لوگوں کی تعریف میں اہل سنت کا منہج میانہ رو ہے۔ اگر تعریف کرنی ہی ہو تو کہے: کہ فلان کو ہم اولیا ء اللہ میں سے گمان کرتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جن سے اللہ نے محبت کی تو لوگوں نے بھی محبوب بنایا۔

میں اہل غلو میں سے ایک استاد غلو کی جدید مثال دیتا ہوں۔ اہل غلو کا سرخیل عدنانی کہتا ہے:
”آپ کیا جانے ابو بکر کون ہیں؟ اگر آپ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو وہ حسینی قریشی ہیں۔ پاکباز اہل بیت کی نسل سے۔ با عمل عالم، اور مجاہد عابد ہیں۔ ان کے پاؤں دھونے اور چومنے سے اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح انہیں امیر المؤمنین کہنے سے۔ اور ان پر جان، مال اور اولاد فدا کرنے سے۔ جو میں گواہی دے رہا ہوں اللہ اس پر گواہ ہے۔“

”آپ کیا جانے ابو بکر کون ہیں؟ اگر آپ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو وہ حسینی قریشی ہیں۔ پاکباز اہل بیت کی نسل سے۔ با عمل عالم، اور مجاہد عابد ہیں۔ میں نے ان میں ابو مصعب کا عقیدہ، ثابت قدمی، اقدام اور اقبال پایا ہے۔ ابو عمر کی بردباری، عدل، راست بازی اور عاجزی کے ساتھ۔ ابو حمزہ کی عقلمندی، ذہانت، اصرار اور صبر کے ساتھ۔ مشکلات نے انہیں آزمایا ہے۔ اور فتنوں نے انہیں جلا بخشی ہے۔ جہاد کے آٹھ سال کے دوران اسی مٹی نے انہیں مانجھا۔ یہا ں تک کہ وہ صائب الرائے ہو گئے اور تجربہ کار بن گئے۔ ۔۔ میں جو گواہی دے رہا ہوں اس پر اللہ گواہ ہے۔ میں یہ گمان کرتا ہوں کہ اللہ عز و جل نے انہیں چنا ہے اور ان کی حفاظت کی ہے اور انہیں ان مشکل دنوں کے لیے بچا رکھا ہے۔ پس اے دولہ کے فرزندوں تمہیں ابو بکر مبارک ہو۔“ (بحوالہ بیان: دولۃ الاسلام باقیہ از ابو محمد عدنانی)

غلو کے مظہر میں سے یہ عقیدہ رکھنا بھی ہے کہ دین کے ستارے ان کے مرنے یا ان کے چلے جانے سے ڈوب جائیں گے۔ اگرچہ اہل علم کی موت ایسا نقصان ہے جس کا بھرنا ممکن نہیں۔ اہل علم کی موت علم اٹھائے جانے کی علامت ہے۔ لیکن امت میں خیر باقی ہے۔ امت نے تو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ ﷢ کو کھویا۔ لیکن دین با حفاظت باقی رہا۔ امت کاایک گروہ کامیاب رہے گا۔ نہ ان کا ساتھ چھوڑنے والے سے انہیں نقصان ہو گا اور نہ مخالفت کرنے والے سے۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم نہ ہو جائے۔

گیارہویں وجہ: نتائج حاصل کرنے میں جلدی کرنا

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہیں:

وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰۤى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ١ٞ (سورۃ طہ: ۱۱۴)

’’اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لیے جلدی نہ کیا کرو۔‘‘

بلکہ صبر کریں یہاں تک کہ قرآن آپ ﷺ تک پہنچ نہ جائے۔ اور جو آپ کو کہا جا رہے اس کے بارے میں آپ واضح ہو جائیں۔

نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ١ؕ

(سورۃ الاحقاف:۳۵)

’’پس (اے محمدﷺ) جس طرح اور عالی ہمت پیغمبر صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تم بھی صبر کرو اور ان کے لیے (عذاب) جلدی نہ مانگو۔‘‘

سید قطب ﷫ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”واقعی اس دعوت کا راستہ انتہائی دشوار ہے، اور تکالیف سے بھرا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے محمد ﷺ کی ذات کی طرح دعوت کے لیے اپنے آپ کو فارغ اور وقف کرنے والی ذات، جو ان کی طرح ثابت قدم اور پر عزم ہو، اور ان کی طرح پاک صاف ہو۔ اسے بھی دعوت کے ضدی مخالفین پر صبر اور جلد بازی سے بچنے کے الٰہی ارشاد کی ضرورت پڑی۔

ہاں، اس راستہ کی مشقت کے لیے ہمدردی کی ضرورت ہے۔ اور اس کی تکالیف کو صبر کی ضرورت ہے۔ اور اس کے کڑوے پن کو خدائی شفقت کے سر بمہر میٹھے رس کی ضرورت ہے۔“

نتائج حاصل کرنے کے لیے جلد بازی نہ کریں۔ اور پھل پکنے سے پہلے سمیٹنے کی کوشش نہ کریں۔ ایک مقررہ وقت اور لکھی گئی مدت تک صبر کریں۔ تاکہ اپنی دعوت پر اپنا اجر، ثواب اور پھل حاصل کر سکیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ۰۰۱۶ (سورۃ القیامۃ: ۱۶)

’’اور (اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کے لیے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرلو۔‘‘

وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ (سورۃ الاسراء: ۱۰۶)

’’اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ کر سناؤ۔‘‘

کیونکہ قرآن تربیت کرنے کے لیے نازل ہوا۔

حضرت خباب بن ارت ﷜سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس وقت بطور شکایت کے عرض کیا جب کہ آپ ﷺ اپنی چادر اوڑھے ہوئے کعبہ کے سائے میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے: آپ ﷺ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ ہمارے لیے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟

کَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَکُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّی يَسِيرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِهِ وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ. (متفق علیہ)

”تم سے پہلے بعض لوگ ایسے ہوتے تھے کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، وہ اس میں کھڑے کردیے جاتے پھر آرا چلایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور یہ عمل ان کو ان کے دین سے نہ روکتا تھا۔ نیز لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت کے نیچے اور پٹھوں پر کی جاتی تھیں اور یہ بات ان کو ان کے دین سے نہ روکتی تھی۔ اللہ کی قسم! دین پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک چلا جائے گا اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور اپنی بکریوں پر بھیڑیے کے خوف کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔ لیکن اس معاملہ میں تم عجلت چاہتے ہو۔“

فتح حاصل کرنے اور پھل سمیٹنے میں جلدی کرنے سے جتنا بچ سکتے ہو بچو۔ یہ شرط نہیں ہے کہ ہم فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ ہم اپنے آپ کو اس کو پانے کے لیے کام پر آمادہ کریں۔ فتح براہ راست نہیں آتی۔ بلکہ اس سے پہلے کئی مخصوص مرحلے گزرتے ہیں۔

ہمیں راستہ سے اکتانا نہیں چاہیے۔ ایسا نہ ہو اس وجہ سے ہم انحطاط کا شکار ہو جائیں۔ اور آدھے، ٹیڑھے اور باطل حل تلاش کرنے لگ جائیں۔ جو کہ بسا اوقات ہمیں طاغوت کے سامنے تسلیم تک پہنچا دیں۔

انبیاء ﷩میں سے ایسے تھے جن کا صرف ایک مؤمن پیروکار تھا۔ اور بعض کے فقط دو یا تین تھے ۔ اور بعض کا کوئی بھی پیروکار نہ تھا۔ لیکن اس وجہ سے وہ والعیاذ باللہ دعوت و جہاد کا راستہ چھوڑ کر الٹے سیدھے راستے نہیں اپناتے تھے۔ اس دعویٰ اور احساس کے تحت کہ فتح و تمکنت جلدی کیوں نہیں آتی۔۔۔!

اہم بات یہ ہے کہ ہم دین کی خدمت کے لیے کام کریں۔ فتح نہ دیکھنے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

شیخ ابو قتادہ ﷾ فرماتے ہیں:

”بڑی اور عظیم فتح سلسلہ وار چھوٹی فتوحات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ فتح اور شکست کے معاملے میں کوئی چیز اچانک اور انہونی نہیں ہوتی جو کہ فتحیاب اور شکست خوردہ کو یکدم
پیش آئے۔ وہ جو بھی بات کرتے ہیں اور جو بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں اس میں چاہتے ہیں کہ دشمن پر ایک ایسی ضرب لگائیں جس کے لیے انہوں نے پوری اور مکمل تیاری کی ہو۔ دشمن کی آنکھوں سے دور۔ اور اس اچانک اور یکدم ضربے سے دشمن کا خاتمہ ہو جائے۔ جس سے بہت سا خون بہنے سے اور جانیں ضائع ہو جانے سے بچ جائیں۔ ہمارے مشائخ اس فکر کا بہت پرچار کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے کشمکش سے تربیت اور اعداد کے نعرے کے تحت اپنے آپ کو نکال لیتے ہیں۔ یہ فکر لوگوں کو بھی پسند آتی ہے اور قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ بہت خوبصورت، بہت زبردست اور بہت حسین ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انتہائی انتہائی کمزور بھی۔“

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِؕ۰۰۱۰ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۣؕ۬ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُؕ۰۰۱۱ (سورۃ البروج: ۱۰، ۱۱)

’’جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا (اور) عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا۔ (اور) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

یہ ابطال جیت گئے اگرچہ ان کے لیے خندقیں کھودنے کے بعد انہیں جلا دیا گیا۔ یہاں کامیابی ان کے لیے ذکر کی گئی ہے۔ اپنے ایمان کی بلندی، راسخ عقیدے، ثابت قدمی کی وجہ سے کامیاب ہو گئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی کامیابی کو (بڑی کامیابی) قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نصرت لا محالہ آنی ہے۔ یہ اللہ پر کوئی مشکل نہیں کہ مسلمانوں کو فتح اور کامیابی عطا کرے۔ لیکن فتح کی تاخیر میں اللہ کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی قوت ایمانی اور ثابت قدمی جانچ لیں۔ جب یہ ہو جائے تو اللہ کی فتح آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَ لَوْ يَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ(سورۃ محمد: ۴)

’’اور اگر اللہ چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔‘‘

صاحب عمدہ لکھتے ہیں:[میرے خیال میں اب ان حضرت کی کتاب سے لوگوں کی رہنمائی نہیں کرنی چاہیے۔خود کوئی استفادہ کرے تو الگ بات ہے]۔

”عجلت پسندی بنانے کے بجائے بگاڑتی زیادہ ہے۔ جو کسی چیز کو قبل از وقت لینا چاہے اس کی سزا اسے وہ چیز محروم کرنے سے دی جاتی ہے۔ عجلت پسندی محرومی کی علت ہے۔ یہ فقہی قاعدہ ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آپ پھل کو پکنے سے پہلے توڑو گے تو نہ خود فائدہ اٹھایا اور نہ اسے پکنے تک رہنے دیا تاکہ بعد میں فائدہ اٹھا سکتے۔ عجلت پسندی شیطان کے لیے ایک دروازہ کھول دیتا ہے تاکہ وہ بندہ کو بتدریج حق سے دستبردار ہونے کی طرف دکھیلے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں راستہ مختصر کر رہا ہوں۔ حالانکہ وہ راستہ بھٹک دیتا ہے اور پھر جاتا ہے۔ اس دستبرداری اور پھر جانے کو عموماً چھپانے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حکمت، سیاست اور دعوت کی مصلحت ہے۔ پس مسلمان بخوبی جان لے کہ حق کا اتباع اور اس پر صبر فتح کا مختصر ترین راستہ ہے۔ اگرچہ یہ راستہ لمبا ہو اور اس میں رکاوٹیں زیادہ ہوں، اور اس کے راہی کم ہوں۔ حق سے پھر جانے سے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس سے راستہ آسان ہو جائے اور اس پر چلنے والے کو فتح قریب نظر آئے۔ لیکن یہ سب وہم و خیال ہے۔“

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

بنگلہ دیش میں دینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے والوں كا قتل

Next Post

شَہادت کی قبولیت کی شرائط | ۶

Related Posts

سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post

شَہادت کی قبولیت کی شرائط | ۶

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version