دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ خدمات کی یاد میں منعقد اجتماعِ عام کے شرکاء کو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کا پیغام (ماخوذ از عمرِ ثالث بحوالہ مجلہ قندھار چودھواں شمارہ )
الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ قائد المجاھدین و علیٰ آلہ وصحبہ أجمعین!
محترم علمائے کرام، اس مبارک اجتماع کے شرکاء اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اُمتِ محمدیؐ جس طرح کے حساس اور خوف پھیلانے والے شرائط و حالات سے گزر رہی ہے، اس کے اندر اس طرز کے بڑے اجتماعات کا انعقاد نا صرف ایک فائدہ مند اور قیمتی اقدام ہے، بلکہ مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل و مشکلات پرگفتگو کریں۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے منصوبین حضرات کو اس بڑی کامیابی پر اجر دے۔
حالیہ حالات ہمیں اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو درپیش موجودہ مسائل کے حل کے لیے اس طرز کے عالمی اجلاس منعقد کیے جائیں۔دارالعلوم دیوبند کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ برِّصغیر میں کئی رکاوٹوں اور بندشوں کے باوجود دارالعلوم دیوبند کی برکت سے احیائے علوم ِ دین اور اسلامی اقدار باقی ہیں اور دارالعلوم دیوبند نے عالمِ اسلام کو ایسی قیمتی اور عظیم شخصیات پیش کی ہیں جن کے علمی، اصلاحی اور دعوتی کارنامے نہیں بھلائے جاسکتے۔
اجلاس میں شریک میرے مسلمان بھائیو!
عالمِ کفر کے حملوں اور مسلمانوں کے ساتھ تکبر بھرا رویہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور دنیا کے ہر حصے میں مسلمانوں کے ساتھ بغض بھرا رویہ رکھا گیاہے۔ عالمِ کفر برائے نام اقوامِ متحدہ کے ادارے کو اپنے اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے، اس ادارے نے جب بھی مسلمانوں کے مفاد میں کوئی فیصلہ کیا ہے وہ سالوں تک صرف کاغذ وں میں ہی رہاہے اور عمل کی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا ، لیکن جن مسائل سے ان (عالمِ کفر)کے اپنے مفادات وابستہ ہوں وہ بہت جلد عملی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی حیثیت دوسروں کے زیرِ سایہ ہے اور تقریباً نیچے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی جغرافیائی حیثیت اقتصادی نگاہ سے بہت اچھی ہے اور خام مواد کے بے شمار وسائل رکھتی ہے لیکن اس سب کے باوجوددنیا میں ان کی اتنی کم حیثیت ہے جس کی وجہ سےان کے مسائل حل نہیں ہوپاتے۔
عالمِ کفر کے اہداف اور مقاصد سب پر عیاں ہیں۔ ان کو دنیا میں اپنا حریف اسلامی نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ، اس لیے وہ افغانستان کے اندر اسلامی نظام کوکسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتے اور امارت اسلامیہ جو ملک کے ۹۵ فیصد حصے پر حاکم ہے اس کو حکومت کے بجائے ایک گروپ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
افغان مجاہد عوام کی قوت و ہمت سےسوویت یونین کو شکست ہوئی، وہ سوویت یونین جو امریکہ اور عالمِ مغرب کی سرحدات تک پہنچ گیا تھا۔ وہ سوویت یونین جس نے ویتنام میں امریکہ کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ جس نے وسطی ایشیا کو ہضم کرلیا تھا اور جس کے گرم پانی تک پہنچنے میں ایک قدم زمین باقی تھی۔ آج کی اصطلاح میں ان دنوں ترقی یافتہ امریکہ کا وجود متزلزل تھا، شکست کی کڑواہٹ سے اس کا حلق کڑوا تھااوروہ زبوں حال بیٹھاتھا۔
لیکن اس بے بس عوام نے اپنے قوی ایمان کی برکت سے کمیونیزم کے گھٹنے ٹکا دیے اور شکست نہ ماننے والی سوویت یونین کو دنیا کے نقشے سے ہٹا دیا اور پوری دنیا کو اس سے نجات دلادی۔
اسلام اور کمیونیزم کی لڑائی میں ہمارا ملک داخل ہوگیا اور کئی بھاری مشکلات اور سختیوں سے گزرنے کے بعد ہماری مظلوم عوام نے اپنی سرزمین پر اپنے پسندیدہ اسلامی نظام کو نافذ کردیا۔ لیکن اس بے انصاف اور بے وفا دنیا نے ہمارے کارناموں کو عبث سمجھا اور اب یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اس منفرد مقصد سے بھی کنارہ کش کردیں۔
وہ اس جہاد پروردہ افغانستان میں اسلامی حکومت کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ اقوامِ متحدہ کی صورت میں افغانستان پر ظالمانہ پابندیاں لگا کر ہمیں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ عالمِ کفر انتہائی کبروغرور کے ساتھ امارت اسلامیہ کی مخالفت پر کمربستہ ہے۔امارت اسلامیہ کے ساتھ ان کے تمام اختلافات کسی دلیل کے مطابق بھی جائز نہیں ہیں۔ دلیل اور منطقی دنیا کے دعویدار برائے نام اصول و ضوابط پر چلنے والے صرف زور زبردستی کےگھوڑے پر سوار ہیں۔
ہم پوری دنیا کے ساتھ باہمی تعاون اور عالمِ اسلام کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کی فضا میں تعلقات کے خواہاں ہیں اور ہم نےہر کسی کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
ہمارے ملک میں کچھ عرصہ کے لیے اسی عالمی استعمار کے سبب گھریلو لڑائیوں اور بھائیوں کے قتل کی آگ بھڑک اُٹھی تھی، یہاں وہ واقعات پیش آئے تھے جس نے ہمارے ملک کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالا تھا۔ یہاں بلاوجہ اور بے بنیاد لڑائیاں جاری تھی، لیکن یہی امریکہ اور مغربی دنیاجس نے آج افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور افغانوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کا جھوٹا نعرہ بلند کیا ہے، مسلمان بہتر جانتے ہیں کہ یہ صرف منہ کی باتیں ہیں، یہی تو تھے جنہوں نے افغانستان کے سخت دنوں میں اپنے آپ کو گونگا بنالیا تھا۔
لیکن جب آج ہم نے اسلام کو واقعی اور اصلی شکل میں اختیار کرکے اسلامی نظام کو نافذکیا ، امن و امان قائم کیا اور بھائیوں کے قتلِ عام کو روکا، صلح لانے کے لیے اپنا مبارک خون بہایا اور اس ملک میں ایک ایسی حکومت قائم کردی جس سے پورے عوام خوش ہیں اور اس نظام سے محبت اور ہمدردی رکھتے ہیں، تو عالمِ کفر کبھی اس کو متشدد اسلام اور کبھی طالبان کی تعبیر کردہ اسلام کے عنوانات سے بدنام کرنے کے لیے مختلف قسم کے پروپیگنڈے کررہا ہے۔
ہم یہ بات دعوے کے ساتھ کرتے ہیں کہ امارت اسلامی افغانستان لوگوں کی پسندیدہ حکومت ہے، اور ہمارے اس دعوے کی حقیقت کے لیے منشیات پر پابندی جس کی روک تھام کے لیے پوری دنیا ورطۂ حیرت میں پڑی تھی اور شکایت کرتی تھی ،ایک بڑی دلیل ہے۔باوجود اس کے کہ ہمارے ملک کےزیادہ تر بزرگوں کے لیے پوست کی کاشت ہی اس جنگ زدہ ملک میں سرمائے کا ذریعہ تھا لیکن جب امارت اسلامیہ نے اس کی کاشت پر پابندی لگادی ، تو سب نے یک زبان ہوکرہماری بات مان لی۔ دنیا والوں نے بجائے اس کے کہ ہمارے اس اقدام کو سراہتے اور اس کے بدلے ان بزرگوں کے ساتھ تعاون کرتے، اپنے زہر آلود پرپیگنڈوں کو مزید تیز کردیا۔
ملک میں ہمارے اوامر اور احکامات کو انتہائی تیزی کے ساتھ مانا جاتا ہے اور ہمارے نظام کی ہر بات کو ہماری عوام لبیک کہتے ہیں ، لیکن جو راہ سے ہٹے ہوئے اور مغرب زدہ افغان ہماری مخالفت کرتے ہیں وہ ایک یا دو فیصد بھی نہیں ہیں لیکن ان کی آواز اور پروپیگنڈہ اس لیے زیادہ بلند اور تیز ہے کیونکہ وہ اسی مغربی دنیا کی گود میں بیٹھے ہیں، مغرب اور امریکہ نے ان کے لیے اپنا میڈیا وقف کردیا ہے۔
ہم نے اپنی عوام کے لیے اسی نظام کو اختیارکیا ہے جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا اساسی قانون قرآنی اصول ہیں اور یہی اصول مومنین کی ایمانیات ہیں۔ امارت اسلامیہ نے ملک و قوم کی صلح کے لیے کافی خون بہایا ہے اور دنیا کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کیا ہے۔ ہم ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ ہم ہر گز اسلامی اصولوں کو پاؤں تلے نہیں روندیں گے اور قرآنی احکام پر کسی کے ساتھ بھی سودا بازی نہیں کریں گے۔
ہماری مظلوم عوام کو روسی حملہ آروں نے کافی ستایا ہے۔ انسان خور کمیونیزم نے ہمارے ملک کو کھنڈروں میں تبدیل کیا ہے، ہمارا ملک ویران اور کھنڈر بنا ہوا ہے۔ ہماری عوام کو بیس سالہ جنگ نے متاثر کیا ہے۔ ہمارے ملک کے مظلوم عوام کو بہت زیادہ اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ﷻ یہ لڑائیاں ختم کردے تاکہ ہم اس ملک کو دوبارہ آباد کرکے اپنے مظلوم عوام کے لیے ان کے کھنڈر گھروں کو دوبارہ آباد کردیں۔
ہم سب سے زیادہ صلح کے خواہاں ہیں کیونکہ عالمی استعمار کی دہشت گردی نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ عالمی کفری افواج ہمیں اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے نہیں چھوڑتیں۔ ہمیں اس کے لیے فارغ نہیں چھوڑا کہ ہم اپنے یتیموں کے آنسوؤں کو پونچھیں۔ ہمیں اس کے لیے نہیں چھوڑا کہ ہم اپنی بیواؤں اور مساکین کے سر چھپانے کی جگہ بنائیں۔ ہم اسلامی نظام، آزادی اور حریت کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت اور آزادی کی خاطر ہم اپنے سر قربان کرنے کےلیے تیار ہیں، لیکن عالمِ کفر چاہتا ہے کہ ہم اپنے اس ہدف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ وہ اپنی اس دشمنی اور بے رحمانہ منصوبوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ ہمارے سروں سے آزادی کی فکر نکال دیں ۔لہٰذا ہم اصطلاحاً کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے سپر پاور ہمارے خلاف متحد ہوگئے ہیں اور مختلف بہانے بناکر ہمارے اوپر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
(یہ کفار)دہشت گردی کے نام پر اور انسانی حقوق کا خیال نہ رکھنے والے بوسیدہ نعروں کے ذریعے صرف ہم نہیں بلکہ ہر جگہ کے مسلمانوں کو تکلیف دے رہے ہیں اور انہیں رسوا کررہے ہیں۔کل تک یہ برائے نام سپر پاور کہلانے والے ممالک دنیا میں کمزور و ضعیف لوگوں کو نشانہ بنارہے تھے، ان کے ممالک پر حملہ آور ہوئے، کل تک سوویت یونین کئی ممالک پر قابض تھا۔ اور ابھی بھی یہ وسطی ایشیائی ممالک پر قابض ہے۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ نے دنیا بھر میں اپنی استعماریت کا جال بچھایا تھا اور برصغیر پر قابض ہوگیا تھا۔ آج امریکہ پوری دنیا پر قابض بننے کے منصوبے بنارہاہے اور ہمیں اپنے ممالک میں اپنی پسند کی حکومت بنانے نہیں دیتا، اور دنیا پر قابض ہونے کے چکر میں کہیں بھی عوام کو سکون سے رہنے نہیں دیتا اور مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کے لیے الگ راستے اپنائے ہوئےہیں۔ اسلامی نظام اور جہاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے یہ تمام متحد ہوگئے ہیں اور برائے نام اقوامِ متحدہ کے ادارے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
اسلامی ممالک کو اقوامِ متحدہ کے رکن بننے نے کیا فائدہ دیا ہے؟ان کا کون سا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے حل ہوا ہے؟
تو مسلمان امت کی اس زبوں حالی کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ ان سخت حالات میں مسلمانوں کی وحدت اور ان کا متحد ہونا ضروری ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے کون سا راستہ اپنانا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیےاس طرح کے اجلاس اور اجتماعات بہت اہمیت کے حامل ہیں تاکہ اپنے مسائل، مشکلات اور تکالیف پر تبادلۂ خیال کریں۔
آج جب صفحۂ ہستی پر مسلمان ایک امت کی حیثیت سے رہ رہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے اسلامی تشخص کو بچائیں اور اس بات کو سمجھیں کہ مسلمانوں کو کیوں سکون کی زندگی گزارنے کے لیے نہیں چھوڑا جارہا ۔ مسلمانوں نے کسی کے ملک پر قبضہ نہیں کیاہے بلکہ یہ دوسری حکومتیں ہیں جو ان پر حملہ کررہی ہیں۔ یہ جو جھگڑے اور لڑائیاں چل رہی ہیں یہ مسلمانوں کے ممالک میں ہورہی ہیں۔ ہمارے ملک پر سوویت یونین نے قبضہ کیا، ہم اس کے پیچھے نہیں گئے بلکہ وہ ہمارے پیچھے آیا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے بھی ہماری سرزمین کو کروز میزائل سے نشانہ بنایا۔ مسلمانانِ فلسطین کو بھی ان کے اپنے ملک میں تکالیف دی جارہی ہیں اور یہودی ان علاقوں میں داخل ہوئے ہیں۔ چیچنیا اور کشمیر کا حال بھی اس سے مختلف نہیں اور پوری اسلامی دنیا میں یہی معاملہ چل رہا ہے۔
تو اس قسم کے حالات میں بدرجۂ اتم مسلمانوں کو وحدت اور متحد ہونے کی ضرورت ہے لیکن بد قسمتی سےمسلمان اپنے مابین لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایک ملک میں جزوی اختلافات کی وجہ سے دسیوں اسلامی پارٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ اس تقسیم اور علیحدگیوں نے ہمارے اندر وحدتِ امت اور مسلمانوں کی مشکلات کے حل کی فکر کو مردہ کر دیا ہے ، لہٰذا یک جان دوقالب بننے کے لیے مضبوط اقدامات اٹھانے چاہیے۔
آخر میں ایک بار پھر امید کرتا ہوں کہ ہمارے مسلمان، مظلوم، اور محصور عوام جو عالمی بدمعاشوں کی دھمکیوں کا سامنا کررہے ہیں اور جن پرایمان و اسلام کے جرم کی پاداش میں سختیاں کی جارہی ہیں، انہیں اپنی دعاؤں میں نہ بھلایا جائے گا۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی سربلندی کی امید کے ساتھ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا بھائی، خادم اسلام
(ملا محمد عمر مجاہد)
٭٭٭٭٭