تمام تعریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوبؐ کا امتی بنایا، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو اپنے فضلِ محض سے معاف کر دے، اپنے دین کی خدمت کی مبارک محنت کا کام لے لے اور جنت الفردوس میں اپنے حبیب کے قدموں میں جگہ عطا فر ما دے۔ بے شک مانگنے والے کو نہ مانگنا آتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی اہلیت ہم میں پائی جاتی ہے!
LGBTQ: قیامت سے پہلے قیامت!
……بین الاقوامی کوششوں سےلے کر پاکستان میں قانون سازی تک……
دنیا میں بدکاری اپنی تمام اقسام کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے ۔ مرد و عورت کے مابین بدکاری، نہایت قبیح گناہ و جرم ہے اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ’زنا، شراب اور سُود وہ تین معاملات ہیں جو تمام شریعتوں میں حرام رہے ہیں اور یہ تین جرائم عقلاً بھی جرائم ہیں کہ بعض جرائم و گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر انسان کی ذاتی زندگی پر یا معاشرے میں محدود ہوتا ہے، لیکن ان تین سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں اور فساد کا شکار ہو جاتے ہیں‘۔
لیکن عورت و مرد کے مابین اس بدکاری سے بھی زیادہ فحش کام مرد کا مرد سے بد فعلی کرنے کا ہے۔ قومِ سدوم کی طرف اللہ پاک نے اپنے طاہر و مطہر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کو بھیجا، یہ قوم یہی بد فعلی کا جرم کیا کرتی تھی اور اسے عین فطرت کہا کرتی تھی۔ فطرت تو ایسی چیز ہے جس کی طرف ہر انسان کا خودبخود رجحان ہوتا ہو، کھانا پینا، سونا، مرد و عورت کا قربت کا تعلق وغیرہ۔ اگر یہ بد فعلی (فأعوذباللہ) فطرت ہوتی تو تخلیقِ کائنات کے اول دن سے ہی مخلوق میں پائی جاتی، لیکن اللہ پاک قرآنِ مجید میں قومِ لوطؑ کے بارے میں فرماتا ہے:
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ (سورة الشعراء: ۱۶۵)
’’کیا دنیا کے سارے لوگوں میں تم ہو جو مردوں کے پاس(شہوت رانی کے لیے) جاتے ہو۔‘ ‘
شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’یہاں عالمین کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ تاریخ میں پہلی قوم جس نے یہ بد فعلی شروع کی وہ قومِ لوطؑ تھی اور یہاں صرف مراد انسان نہیں ہیں بلکہ جنات بھی ہیں‘۔ ہم تفاسیر کے مطالعے سے جانتے ہیں کہ جس زمین (earth) پر ہم انسان رہتے ہیں تو ہم سے قبل اس پر جنات آباد تھے۔ جنات کی تاریخ انسانوں سے نجانے کتنی پرانی ہے۔ پھر علمائے کرام نے بعض روایات کو جمع کر کے جو انسانیت کی عمر کا اندازہ لگایا ہے تو آدم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کا درمیانی فاصلہ بھی چند ہزار سال کا ہے۔ یعنی جنات کا اس دنیا میں نجانے کتنے ہزار برس بسنا اور پھر اس کے بعد کم از کم تین چار ہزار سال انسانوں کا اس دنیا میں بسنا ، ان ہزاروں سالوں میں نہ جنات میں سے کسی نے ایسی بد فعلی کی اور نہ انسانوں میں سے کسی نے۔ پھر لوط علیہ السلام کی قوم وہ پہلی قوم ہے جس نے تاریخِ مخلوق میں اس رُو سیاہی کا اضافہ کیا۔
لوط علیہ السلام سے لے کر ماضی قریب کا زمانہ بھی محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم پانچ ہزار سال کا ہے۔ آج جب دنیا دینی و سائنسی ، حتیٰ کہ توہم پرست روایتوں کے مطابق بھی اپنے آخری سانسوں کے قریب ہے تو اس دنیا میں ایک نئی فطرت ایجاد ہو گئی ہے۔ پہلے فطرت کے نام پر اس لعنت کا نام محض ہم جنس پرستی تھا جیسا کہ لوط علیہ السلام کی قوم میں یہ رُو سیاہی تھی۔ پھر اس ہم جنس پرستی میں عورتیں عورتوں کے ساتھ رُو سیاہی میں شریک ہو گئیں۔ اس ایل اور جی کے بعد اس میں bisexuals کا ثم transgenders اور پھر queers کہلانے والوں کا اضافہ ہو گیا۔ اللہ کی سچی کتاب تو محض مردوں کے مردوں سے شہوانی تعلق کے متعلق فرماتی ہے کہ یہ پہلی بار قومِ سدوم نے کیا۔ آج یہ کون سی اور کیسی فطرت ہے جس کا مخلوق کو آخر الزمان میں معلوم ہوا ہے۔ بخاری و مسلم کی مختلف احادیث میں وارد ہے کہ
’’زنا کا علی الاعلان ہونا قیامت کی علامات میں سے ہے۔‘‘ اور ’’قیامت سے پہلے زنا پھیل جائے گا۔‘‘
ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر زنا اس قدر عام ہو گیا کہ لوگ کھلے عام اس کی تشہیر کرنے لگے، تو اللہ انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا کر دے گا جو پہلے کسی قوم پر نہ آئی ہوں گی۔‘‘
کل تک ہم ایڈز کو روتے تھے 1، آج کورونا نے کیسے اپنی لپیٹ میں دنیا بھر کو لیا۔ چند برس پہلے کیا کوئی کورونا کے نام سے بھی واقف تھا؟ پھر کورونا کے بعد منکی پاکس (monkey pox) کے بارے میں تو مستند لوگوں اور ذرائع کے یہاں بھی یہ بات عام ہے کہ اس کا شکار ہونے والوں میں اکثریت ہم جنس پرست لوگوں کی ہے، سبحان اللہ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے!
یہ آج کی دنیا میں بدکاری کا یہ زور، انسانوں کا ہر غیر فطری طریقے سے شہوت بجھانے کے لیے نہیں، اس کو آتش فشاں بنانے کے لیے دوسرے انسانوں کے ساتھ منہ کالا کرنا، حتیٰ کہ اپنی ملعون شہوت کا نشانہ بے زبان جانوروں تک کو بنانا کیسا عظیم ظلم ہے؟!
لیکن ظلم فوق ظلم وہ اقدام ہے جس نے راقم السطور کو اس موضوع پر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ یورپ کے کچھ خسیس و اسفل انسان جو اپنے آپ کو اس ایل جی بی ٹی کیو کا حصہ کہتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، حالانکہ وہ ہم جنسی کی لعنت کو حلال کہنے اور جاننے کے بعد بدترین مرتد و زندیق ہیں، کے لیے دنیا کی ہم جنس پرست کمیونٹی چندہ جمع کر کے ایک نیا حرم، ایک نیا کعبہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں، فالعیاذ باللہ، نقلِ کفر کفر نہ باشد!
دھنک رنگوں کا ایک کمرہ بنایا جا رہا ہے اور ان بد فطرت و اسفل انسانوں کا کہنا ہے کہ چونکہ دنیا بھر میں ’اہلِ ایمان ہم جنس پرستوں‘ کو مکہ میں جا کر عبادت کرتے ہوئے جان کا خطرہ ہے اس لیے ہم یورپ کے کسی ملک میں ایک نیا کعبہ تعمیر کر رہے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلك، ان ناجائز کفری اقدامات کی تصویریں انٹرنیٹ پر موجود ہیں، بے شک ان کودیکھنا اور یہاں یا کہیں اور شریک(share) کرنا خود ایک اذیت ناک عمل ہے، إنا للہ وإنّا إلیہ راجعون!
پھر برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی نژاد ایک ’مسلمان‘عورت کی گفتگو بھی سنی جو کہتی ہے کہ ’اگر پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی LGBTQ رائٹس کی حمایت کرتے کیونکہ آپؐ نے بھی ہیومن رائٹس کی ہمیشہ حمایت کی!‘۔
؏قیامت آ گئی لوگو نظر ادھر بھی تو ہو!
پھر ایک قیامت تو وہ ہے جس کا ذکر ہم نے پچھلی سطور میں کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ حشر سامانی یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسا نظریاتی ملک بھی ہے، جسے مملکتِ خداداد کہتے ہیں۔ یہاں کا آئین ’اسلامی‘ ہے، اس میں اختیار و اقتدار کا مالکِ اعلیٰ اللہ ہے۔ پارلیمان کے ماتھے پر کلمۂ طیبہ درج ہے۔ عدالتِ عالیہ کی پیشانی پر ’فاحکم بین الناس بالحق‘ درج ہے۔ یہاں اسلامی نظریاتی کونسل بھی ہے اور وفاقی شرعی عدالت بھی۔ اس ملک کی مقننہ بھی ٹرانس جینڈر بل منظور کرتی ہے۔اس بل میں کہنے کو پہلی شق تو پیدائشی مخنث لوگوں کے لیے ہے اور یہ شق کہنے کو واقعی انسان کی توجہ اس طرف دلواتی ہےکہ یہ بے چارے بھی تو انسان ہیں، کون سا اپنے اختیار سے ایسا ہوئے ہیں، اللہ ہی کی مخلوق ہیں تو ان کے لیے حقوق کیوں نہیں؟
اس کا جواب تو یقیناً شریعت کی کتابوں میں موجود ہے۔ شریعتِ اسلامی کو نافذ کرنے والا خلیفۂ راشد، امیر المومنین اگر دریائے فرات کے کنارے کسی کتے کے پیاسے مر جانے کو اپنی مسئولیت گردانتا ہو تو یہ کہاں ممکن ہے کہ شریعتِ الٰہی ایسے افراد کو حق نہ دیتی ہو۔ مزید حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ان افراد میں سے جو مرد کی جسمانی ساخت کے لحاظ سے مائل ہیں ان کا حکم مردوں جیسا اور جو عورتوں کی طرح ہیں ان کا حکم عورتوں جیسا۔ الغرض، شریعتِ مطہرہ نے تو ہر ایک کے لیے اس کا حق مقرر کیا ہے۔ بلکہ تاریخ کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ بادشاہوں اور سلاطین کے محلات میں اکثر ذمہ داریاں مخنثوں ہی کے پاس رہتی رہی ہیں۔ یہ حقوق کا نیا راگ تو اسی جدید تہذیب کی پیداوار ہے۔
لیکن اس قانون میں جو اگلی دو تعریفیں ہیں ان کا تعلق اسی LGBTQ تحریک سے ہے جو عالمی طور پر دجالی اشاروں سے برپا ہے۔دوسرا گروہ ان بد بخت انسانوں کا ہے جو مرد ہو کر عورتوں کے اعضا اور عورت ہو کر مردوں کے اعضا آپریشن سے لگواتے ہیں، یعنی ٹرانس جینڈر، لعنۃ اللہ علیہم! ان بے غیرت لوگوں کو ہمارے معاشرے میں (بے ادبی کے لیے معذرت)’کھسر*‘ کہا جاتا ہے اور یہ اکثر وہ مرد ہوتے ہیں جو پیشے کے طور پر عملِ قومِ سدوم بھی کرتے ہیں اور زمانے بھر کے وارداتیے ہوتے ہیں۔ قانون اگلے گروہ کی تعریف یہ کرتا ہے کہ وہ مرد جو اپنے آپ کو عورت سمجھتا ہو یا وہ عورت جو اپنے آپ کو مرد سمجھتی ہو، غالباً انہی کو queer کہا جاتا ہے۔
یہ قانون LGBTQ میں سے Ts اور Qs کے لیے تو تحفظ کا ضامن ہو گیا۔ باقی رہے گئے LGBs تو یہ تو سب ہی بد فطرت ایک ہی کھاتے کے ہیں، ان کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ یہ قانون پہلی بار ۲۰۱۸ء میں منظور ہوا تھا جسے نون لیگ، ق لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی چار ’خاتون‘ سینیٹرز نے تیار کیا تھا۔ نجانے خاتون کہلانے والیاں کس کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں، اگر یہ مغربی ایجنڈا نہیں ہے تو زیادہ تشویش کی بات ہے کہ یہ براہِ راست ابلیسی ایجنڈے پر کام کرتی ہیں۔ یہ بل منظور بھی تحریکِ انصاف کی حکومت کے زمانے میں ہوا جس کا سربراہ ہاتھ میں موٹے دانوں والی تسبیح گھماتا تھا، جس کی بیوی کہتی تھی کہ مسلم دنیا میں دو ہی لیڈر ہیں ایک اردگان اور دوسرا عمران خان (شاید دونوں اسی قسم کے قوانین والے ہیں اس لیے )۔ وہ عمران خان جس کو مولانا طارق جمیل کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اب بھی ہے کہ پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت آنے کے بعد مولانا نے نئی حکومت کو ’ہارس ٹریڈنگ‘ کے زمرے میں تنقید کا نشانہ بول ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بنایا کہ انسانوں کی خرید و فروخت کرنے والے قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ اللہ راقم سمیت تمام مسلمانوں اور مولانا موصوف پر رحم فرمائے، ہارس ٹریڈنگ پر قیامت کے روز کیا جواب دیا جائے گا،اس سے پہلے اس ہم جنس پرستی اور قومِ سدوم کو خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرتے قانون سازوں کے بارے میں تو جواب سوچ لیا جائے۔
اس قانو ن کے بارے میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے ہر مکتبۂ فکر سے مشاورت کے لیے وفاقی محتسب کے دفتر میں خصوصی سیل قائم کیا گیا تھا۔ یہ بل پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا جس کے بعد اس کو پارلیمان نے مشترکہ طور پر منظور کیا تھا۔‘
سبحان الله علیٰ مایصفون! یہ ہے وہ پاکستان کا پارلیمان جس کے ممبروں کو پاکستان کا ۷۳ء کا اسلامی آئین ’ارکانِ شوریٰ‘ کہتا ہے اور جس پارلیمان کو ’مجلسِ شوریٰ‘ کہتا ہے، بے ادبی معاف یہ پنجابی کا ’شورا‘ تو ہو سکتا ہے، شوریٰ نہیں۔
فرحت اللہ بابر نے یہ بھی کہا کہ ’جب یہ بل پیش ہو رہا تھا تو اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا جو کہ سینیٹ کے ریکارڈ پر ہے‘۔ اب اس اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا رونا، رونا۔
اس وقت (ستمبر ۲۰۲۲ء کے آخری عشرے میں)یہ بل وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اس پر جو بھی فیصلہ دے، دو باتیں بہر کیف وفاقی شرعی عدالت کے متعلق مستحضر رہنی چاہییں، پہلی بات یہ کہ یہ عدالت بھی سپریم کورٹ ہی کے تحت ہے اور دوسری بات یہ کہ وفاقی شرعی عدالت نے سُود کے مسئلے پر بھی ایک فیصلہ دے رکھا ہے جس کا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا ہے، پاکستان میں سود حلال ہے اور اللہ کی شریعت کی طرف منسوب وفاقی شرعی عدالت اس کو حرام کہتی ہے لیکن بے بس ہے!
جماعتِ اسلامی کے ارکانِ سینیٹ نے اس بل کو اب چیلنج کیا ہے، جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب امیر العظیم صاحب نے اس کے متعلق کہا کہ ’یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ جماعتِ اسلامی اس بل پر کبھی خاموش تھی۔ ہم کبھی بھی اس بل پر خاموش نہیں رہے۔ ہم نے اس وقت بھی مخالفت کی تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ ایکٹ میں الفاظ کا گورکھ دھندہ استعمال کیا گیا تھا جس نے قوم کو کچھ کنفیوز کر دیا تھا۔ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ بل خرابیوں کی جڑ بنے گا مگر جب حکومتی ڈیٹا سامنے آیا کہ ہزاروں لوگوں نے اپنی جنس تبدیل کر لی ہے اور اس کی خرابیاں سامنے آئیں اور قوم پر حقیقت آشکار ہو گئی کہ یہ بل خرافات کا باعث بن رہا ہے اور قوم کو ہوش آیا تو جماعتِ اسلامی اب قوم کی نمائندگی کر رہی ہے‘۔
امیر العظیم صاحب کے اسی بیان میں موجود چند نقاط کے حوالے سے امیر العظیم صاحب، جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلِ حدیث اور اس طرح کی دیگر پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کے حضرات کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ چند گزارشات پیش ہیں:
الفاظ کا گورکھ دھندہ محض اس ایکٹ میں استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ یہ گورکھ دھندہ پورے آئینِ پاکستان میں استعمال کیا گیا ہے۔
اس آئین میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کہا گیا ہے۔
اس آئین میں قرادادِ مقاصد بھی موجود ہے، جس کی رو سے یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔
لیکن یہاں عملاً کیا واقعی اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ ہے۔ (سبحان اللہ، یہ الفاظ محض بحث کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، ورنہ، اللہ اکبر! اللہ تو مالک الملک ، الخالق و المالک ہے، وہی پادشاہ ہے اور باقی سب کی حیثیت تو دراصل ہے ہی نہیں) یہاں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اگر اللہ ہو تو کیا اس طرح کے قوانین کے بل پیش کرنے کی کوئی جرأت بھی کر سکتا ہے؟
اس آئین میں قرادادِ مقاصد موجود ہے لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ (جو تشریح و تنفیذ ِآئین کا قانونی ادارہ ہے)کہتی ہے کہ قراردادِ پاکستان کی حیثیت بھی آئین کی دیگر دفعات اور شقوں جیسی ہے۔ اور سپریم کورٹ سولہ آنے کھری بات کہتی ہے، اسی لیے تو پارلیمان میں اس قسم کے قانون پاس ہو سکتے ہیں!!!
پچھلے صفحات پر بھی یہ عرض کیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی حقیقی حیثیت نظامِ پاکستان میں کیا ہے؟ آپ حضرات ایک بار پھر انہی اداروں سے اس آئین کو کالعدم اور باطل قرار دلوانے یا اس میں تبدیلی کروانے جا رہے ہیں؟ بالفرض یہ تبدیلی ہو بھی گئی تو اس سےپہلے کے جو فیصلے وفاقی شرعی عدالت نے دیے(اور اسلامی نظریاتی کونسل کی قانونی حیثیت میں گزارشات) ان کا کیا ہو گا؟ کیا ایک من پاک دودھ میں ایک قطرہ ناپاکی کا اس دودھ کو ناپاک کرنے کے لیے کافی نہیں، تو پھر آئینِ پاکستان کیسے پاک و پوتر ہے جس کی اساس انگریز کے تقسیمِ برِّ صغیر سے پہلے کے انڈیا ایکٹ ہیں؟ اور آئندہ اس قسم کے قوانین جو بالیقین منظور ہوں گے کے سدِ باب کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟
ہم اللہ کے بندے ہیں، اس کے غلام ہیں، اس کے دین و شریعت کے نام لیوا ہیں۔ ہم عوامی خواہشات کو سامنے رکھ کر نہیں چلتے ۔عوام کو ہوش آئے یا نہ آئے ۔ ہم قوم کے نمائندے نہیں ہم تو ’خیر امت اخرجت للناس‘ ہیں، ہمارا تو ہر حال میں کام’تامرون بالمعروف‘ اور ’تنھون عن المنکر‘ ہے۔ ہم معروف کام کیسے ’منکرات‘ کے گڑھ پارلیمان میں بیٹھ کر کر سکتے ہیں؟
ضرورت بس اس امر کی ہے کہ اس آئین و قانون اور کلمہ پڑھی ریاست کی حقیقت سمجھی جائے۔ یہ آئین ہی فقط گورکھ دھندہ نہیں، یہ سارا نظام ہی گورکھ دھندہ ہے۔ ہماری اسلامی سیاسی پارٹیاں آج سے دو دہائی قبل جس قسم کی پارلیمانی اکثریت ، ایم ایم اے کے زمانے میں دیکھ چکی ہیں شاید ویسی اکثریت آئندہ انہیں کبھی مستقبل میں نہ ملے۔ سو جب ماضی میں اتنی بھاری اکثریت کے ساتھ نفاذِ شریعت کی طرف پیش قدمی نہ ہو سکی تو آئندہ نفاذِ اسلام کی توقع اسی نظام کی کھینچی حدود میں رہ کر کرنا دانش مندی کی بات نہیں!
راقم السطور کی باتیں تو نہایت اجمالی نوعیت کی ہیں۔ طالبِ حق حضرات کو آئینِ پاکستان کی حقیقت کے حوالے سے شیخ ایمن الظواہری کی آئینِ پاکستان کے شرعی محاکمے پر مبنی کتاب ’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘ سے کثیر رہنمائی مل سکتی ہے۔
اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، وما علینا إلا البلاغ!
حرم کی فضاؤں میں لیکن دھواں ہے!
پچھلے ماہ سوشل میڈیا پر آنے والی وہ ویڈیو آپ نے دیکھی ہو گی جس میں مکہ مکرمہ کا ایک منظر ہے۔ مسجد الحرام سے ملحق بلند منزلہ ہوٹل جس پر گھڑی نصب ہے اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا منظر مسجد الحرام کی پڑوسی عمارت کا ہے اور دوسرا منظر حدودِ حرم ہی میں ایک عرب طرز کی محفلِ موسیقی کا ہے۔
ساتھ ہی ہمیں خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی ایک ویڈیو رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں سعودی عرب کے بچوں اور جواں سال خواتین کو موسیقی کے سکولوں میں جاتے اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ بچے عود نامی گٹار نما ایک عربی ساز بجا رہے ہیں اور خواتین کو مغربی پیانو سکھایا جا رہا ہے۔ موسیقی کا ایک استاد کہتا ہے کہ’ ہمارے معاشرے میں موسیقی سکھانا کوئی آسان کام نہیں ہے، پہلے یہ زیادہ مشکل تھا کہ معاشرے میں موسیقی کے حوالے سے مباحث پائے جاتے تھے کہ یہ حرام ہے یا حلال، یہ ایک ممنوع عمل (taboo) تھا۔ اب حکومت کی سرپرستی ہمیں حاصل ہے اس لیے ہم یہ کام (اعلانیہ) کر رہے ہیں‘۔ پیانو پر مغربی دھنیں سیکھتی لڑکی کہتی ہے کہ ’میری نسل کے لیے موسیقی سیکھنے کی سہولت موجود نہیں تھی، میں بہت خوش ہوں کہ موسیقی کو ایک علم یا فن کے طور پر سکھایا جا رہاہے۔ ابھی میں موسیقی کی بنیادی تعلیم حاصل کر رہی ہوں، اس موسیقی کو میں ذاتی زندگی میں بھی جاری رکھ سکتی ہوں یا میں اس موسیقی کے فن کو میلوں میں استعمال کر سکتی ہوں بلکہ میں اس کو بطورِ پیشہ بھی اختیار کر سکتی ہوں‘۔
یہ ہے وہ سرزمین جہاں کعبۃ المشرفۃ ہے، بیت اللہ، اللہ جس کو کسی گھر کی حاجت نہیں اس اللہ کا گھر! وہ سرزمین جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، ساری زندگی رہے، یہیں وصال فرمایا، یہیں صحابہ کی تربیت فرمائی۔ اس سرزمین سے فیضِ خداوندی، فیضِ نبوت و علم دنیا میں پھیلا۔ یہیں سےجہاد فی سبیل اللہ کا آغاز ہوا جس کی انتہا دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں اسلام کو نافذ کر دینا ہے، وہ جہاد جو قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ جس سرزمین کے بچے حسن و حسین تھے، یہاں عبد اللہ نام کے ابنِ عمر، ابنِ عباس، ابنِ مسعود، ابنِ زبیر، ابنِ عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہم پیدا ہو کر فکرِ اسلام کی تربیت پا کر محدث و فقیہ و مفسر و قاضی و سپہ سالار و خلیفۃ المسلمین بنتے تھے۔ یہاں کے علاقۂ طائف سے تعلق رکھنے والا کوئی ابنِ قاسم سندھ کی کسی بیٹی کی ایک آواز پر تڑپ اٹھتا تھا۔ یہاں کی بیٹیاں تو بتول و عائشہ و اسماء و سمیہ و خولہ و عفراء تھیں، رضی اللہ عنہن۔ ہائے افسوس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن میں آج کے حسن و حسین عود و رباب سیکھ رہے ہیں۔ جزیرۃ العرب کی بیٹیاں موسیقی سیکھ کر میلوں ٹھیلوں پر پیانو بجانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔
جہاد فی سبیل اللہ کو فساد بتانے کے لیے……امت کے نونہالوں کے لیے سعد بن ابی وقاص اور ابو عبیدہ ابن الجراح و حمزہ ابن عبد المطلب کو بطورِ ’ہیرو‘ پیش کرنے کے بجائے سپر مین، بیٹ مین اور سپائڈر مین جیسے بدکار کرداروں سے روشناس کروانے کے لیے…… امت کے جوانوں کو جہاد سے جدا کر کے موسیقی، کانسرٹوں، شرابوں اور حشیش و افیون اور شیشوں اور حُقّوں پر لگانے کے لیے سعودی وزارتِ دفاع کے تحت ’مرکز الحرب الفکري‘ قائم ہے۔
اور ہم ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کی جالیوں کی مدحتوں میں مگن ہیں۔ کعبے میں کھڑے کسی سدیس نما امامِ کعبہ کی خوش الحان قرأت کو سن کر اش اش کر رہے ہیں۔ ہمارے مشائخ و قراء بھی بس اسی قسم کے دین پر راضی ہیں کہ حدودِ حرم میں زنا بھی ہے، شراب و کباب بھی اور موسیقی کی محفلیں بھی۔ بس نہیں ہے تو اللہ کا دین نہیں ہے، نفاذِ شریعتِ محمدیؐ نہیں ہے۔ لوگ خوش ہیں کہ سعودیہ میں حدود نافذ ہیں، چور کے ہاتھ کٹتے ہیں اور قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ چور تو آلِ سعود ہیں جنہوں نے دینُ اللہ وہاں چوری کر لیا ہے۔ چور تو وہ جعلی مشائخِ جبہ و دستار ہیں جو ورچوئل رییلٹی میں حجرِ اسود دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ کیسا ظلم کا نظام ہے کہ جو ایک بھوکے برمی اور بھوکے حبشی کو چند ریالوں کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے اور اللہ کے دین کے دشمن چوروں کی گردنیں نہیں کاٹتا۔ یہ شریعتِ محمدیؐ نہیں شریعتِ سعودی ہے، جس کا ماخذ و مصدر واشنگٹن اور ریاض کے ہوائے نفس پر قائم محلات ہیں۔
چھوٹا منہ بڑی بات ہے، لیکن ہمارے بعض حضرات نے حرمِ مکی میں بیس سے دس رکعت تراویح کا مسئلہ دیکھااور اس پر اظہارِ تشویش بھی کیا لیکن اس حرم اور ابھی ہونے والے حج پر مقرر کیے اماموں کا دین نہیں دیکھا۔ہم کیسی بحثوں میں الجھے رہے اور حرم لٹتا رہا۔ اقبال نے کہا تھا:
؏ حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے!
شریعت معطل رہی، بلکہ شریعت کی جگہ کفر نافذ رہا۔ نیتن یاہو اور اس کے یہودی حرمین کی سرزمین پر دندنداتے رہے۔ جو بائیڈن کے استقبال میں آلِ سعود کی بیٹیاں برہنہ ٹانگیں لیے اھلاً وسھلاً مرحبا کی صدائیں بلند کرتی رہیں اور اہلِ صلیب کے سرغنے بائیڈن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتی رہیں۔ مشرقی ترکستان کی بیٹیوں کو مکہ و مدینہ سے پکڑ پکڑ کر ظالم چین کے حوالے کیا جاتا رہا۔ کعبۃ اللہ کے گرد ہر گزرتے دن کے ساتھ صلیبیوں اور صہیونیوں کا گھیرا تنگ ہوتا رہا۔
عجب اک تصور امیرِ حرم نے، بتوں سے عداوت کا کل شب دیا ہے
کہ خود بت کدے میں چراغاں ہے کل سے، حرم کی فضاؤں میں لیکن دھواں ہے
اردگان اور اس قسم کی ’اسلامی ‘پارٹیوں کی سیاست
زمانے سے ہمارے لوگ اردگان کو ایک اسلامی لیڈر جانتے ہیں۔ رات میں کھلے عام شراب پینے پر پابندی، آیا صوفیا کی بطورِ مسجد بحالی، چند سکارف والیوں کی حکومتی ایوانوں میں آمد وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جن کے سبب اردگان کو امتِ مسلمہ کا لیڈر کہا جاتا ہے۔ انہی اقدامات میں اسرائیل کے ساتھ نسبتاً درشت تعلق اور جہادِ شام میں شامی مجاہدین اور مہاجرین کو پناہ دینا بھی شامل ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب اقتدار کی سیاست اور اقتصادیات کا کھیل ہے۔ ایک گھناؤنا کھیل جس میں امتِ مسلمہ، امتِ مسلمہ کے مفادات، اسلامی تحریکات اور جہاد فی سبیل اللہ کی کوئی حیثیت ہے تو بس شطرنج کی بساط پر پڑے پیادوں کی سی جنہیں کہیں بھی، کبھی بھی جھونکا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی سیاست ہے جس کا مقصددینُ اللہ کے شعائر کو استعمال کرنا تو ہے، لیکن دینُ اللہ اور اس کے شعائر کا نفاذ نہیں۔ اللہ کے دین کے نفاذ میں بے شک مراحل ہیں، لیکن ایسے بھی کیا مراحل اور ایسی بھی کیا حکمتیں کہ اللہ کی شریعت کے بہت سے اساسی احکام پاؤں تلے دو دہائیوں سے زیادہ تک روندے جاتے رہیں اور اسلام کا عملی نفاذ نہ ظاہر میں نظر آئے اور نہ ہی باطن میں؟
شیخ ڈاکٹر عبد اللہ نفیسی ایک کویتی مفکر ہیں۔ شیخ عبد اللہ نفیسی اپنے ایک انٹرویو میں طیب اردگان سے اپنی ایک ملاقات کا حال سناتے ہیں کہ وہ استنبول میں اردگان کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ استنبول کی گلیاں اور سڑکیں ساری دنیا جانتی ہے کہ برہنگی کی بدترین شکل ہیں۔ شیخ نفیسی نے اردگان سے کہا کہ اس فحاشی و عریانی کے سدِّ باب کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں (آخر کو آپ ایک اسلامی پارٹی سے وابستہ ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں)؟ اردگان نے جواب دیا ’کچھ بھی نہیں!‘۔ شیخ نفیسی کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کر وہ حیرت سے سُن ہو گئے اور انہوں نے پوچھا ’کیوں‘؟ جواباً اردگان نے کہا ’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو مکہ میں ایسے گھر موجود تھے جن پر جھنڈے نصب تھے اور معلوم تھا کہ یہ قحبہ خانہ ہیں۔ لیکن آپ علیہ السلام نے ان کی طرف توجہ نہ کی بلکہ توحید کی دعوت اور بتوں کو گرانے اور دیگر چیزوں کے انہدام کی طرف توجہ دی۔ ہمارے سامنے بھی زیادہ بڑے مسائل ہیں، فوج کی اصلاح، عدل و انصاف کی فراہمی اور اقتصاد‘۔
بلاشبہ اگر ایک اسلامی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو اس کا سامنا بڑے چیلنجز سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ اسلام کا مقصدِ اقتدار کیا ہے؟ کیا لادین فوج کی اصلاح، عدل و انصاف کی فراہمی اور اقتصاد کی ترقی اسلام کے اہدافِ محض ہیں؟ نہایت مختصر الفاظ میں اسلام کا عالی شان ہدف تو اتباعِ شریعتِ مطہرہ ہے، اقتدار بھی اپنی اسلامی پارٹی کے اقتدار میں رہنے کی خاطر نہیں بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہے۔ علمائے امت نے کتاب و سنت کی روشنی میں لکھا ہے اور بیان کیا ہے کہ دنیوی نعمتوں اور معاملات کو اللہ جلّ شانہ نے اتباعِ شریعت سے جوڑ رکھا ہے۔ جس قدر اتباعِ شریعت ہو گا اسی قدر عدل و انصاف، امن و خوشحالی اور معیشت و اقتصاد مضبوط ہو گا۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (سورۃ الاعراف: ۹۶)
’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ لیکن انھوں نے (حق کو) جھٹلایا، اس لیے ان کی مسلسل بدعملی کی پاداش میں ہم نے ان کو اپنی پکڑ میں لے لیا۔‘ ‘
پس اللہ نے تو زمین و آسمان کی نعمتوں کو ایمان اور اپنی خشیت سے جوڑ دیا ہے۔ پھر اگر پالیسیاں دنیا کے بہترین دماغ ہی کیوں نہ بناتے ہوں لیکن اعمال ’بد‘ ہوں تو اس کی پاداش میں اللہ پکڑ لیتے ہیں، آخرت کی پکڑ تو ہے ہی ہے، دنیا میں بھی اچھی پالیسیوں کے برے نتائج کی صورت پکڑِ خداوندی ظاہر ہوتی ہے۔
اور جو پہلی بات طیب اردگان نے سیرت سے مثال کے طور پر بیان کی تو یہاں یہ نقطہ بھی سمجھنے کا ہے کہ شاید جنابِ اردگان اور ان کے ہم نوا ابھی مکی دور ہی میں گرفتار ہیں۔ عجیب بات ہے کہ پورے ملک میں قوت و شوکت ہونے کے باوجود یہ لوگ مدینہ طیبہ جہاں اسلام اولاً اور کاملاً نافذ ہوا کی کوئی مثال دینے سے کیوں قاصر ہیں؟ کیا مدینہ میں ، جہاں جدید فکر والے حضرات کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم head of state تھے، میں بھی قحبہ خانے اور جھنڈوں والے گھر موجود تھے؟ کیا وہاں حرمتِ شراب کے حکم کے بعد دن میں شراب حلال اور رات کو حرام ہو جایا کرتی تھی؟ کیا عورتیں مدینے کی گلیوں میں بے حجاب نہیں بے لباس گھومتی تھیں؟ کیا مدینے کا نظامِ اقتصاد سود پر مبنی تھا؟ نفاذِ شریعت میں مراحل اور مدارج کی بحث کو مانتے ہوئے عرض ہے کہ کیا مدینہ کے بعد اسلام جس جس شہر میں پہنچا تو کیا وہاں قحبہ گری، سودی لین دین، شراب فروشی و نوشی وغیرہ کو تدریجاً چند سالوں میں بند کیا گیا یا ضدِ شریعت معاملات کو فیصلۂ قطعی کر کے اسی لمحے روک دیا گیا؟
اردگان اور ان جیسوں کی فکر کی اصلاح تو خدا جانے کب ہو، لیکن اردگان کو اسلامی لیڈر جاننے والوں کے سامنے اردگان کے حال ہی میں دو اہم فیصلوں کے متعلق چند امور پیش کرنا ضروری ہے۔ اردگان نے اگست ۲۰۲۲ء کے وسط میں پہلا فیصلہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا کیا اور دوسرا فیصلہ شام میں بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور شامی مہاجرین کو دوبارہ شامی قصاب بشار کے علاقے میں بھیجنے کا۔
پہلے یہ جاننا اچھا ہے کہ ترکی نے اسرائیل سے تعلق کیوں توڑا تھا اور شام میں ترکی کا مفاد کیا تھا۔ اسرائیل سے ترکی نے تعلقات تب توڑے تھے جب بیت المقدس کو ٹرمپ نے اسرائیلی دار الحکومت قرار دیا تھا، اور فلسطین میں ہونے والے مظاہرات میں ساٹھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے شہید کیے گئے تھے۔ شام میں ترکی تزویراتی گہرائی کے نظریے کے تحت اور خطے میں برتری کی خاطر، بشار الاسد کی جگہ کسی ترکی نواز حکمران کی تنصیب کی خاطر، نیز شامی جہادی کل کلاں شام سے بڑھ کر ترکی سے بھی دو دو ہاتھ نہ کریں، ان کی روک تھام کی خاطر ترکی شامی سیاست میں اترا تھا۔
یہ فیصلے کیوں کیےگئے ،برطانوی جریدے ’دی گارڈین‘ اور امریکی تھنک ٹینک ’کونسل فار فارن ریلیشنز‘ کے تجزیات (راقم کے اضافوں کے ہمراہ )کے مطابق:
۲۰۲۳ء کے وسط میں ترکی میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے اردگان کو عوام کے سامنے اچھی کارکردگی کے ساتھ جانا ہے اور اقتصادی صورتِ حال اورمہاجرین کا ترکی سے اخراج، ترکی کی عوامی سیاست کے اہم مسائل ہیں۔
ترکی کو توقع ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے نتیجے میں واشنگٹن میں موجود اسرائیل حامی اور اسرائیلی لابی کے ادارے امریکہ کی جانب سے ترکی کو ایف سولہ طیارے خریدنے اور دیگر درآمدات میں معاون ثابت ہوں گے، جیسا کہ ترکی و اسرائیل کے ماضی میں تعلقات کے نتیجے نوّے کی دہائی میں ہوا۔ نتیجتاً اقتصاد بہتر ہو گا۔
اسرائیل سے قطع تعلقی کے سبب اسرائیلی سیاحوں نے استنبول کی تفریح گاہوں اور ساحلوں کے بجائے اپنا سیاحتی اڈا قبرص اور یونان کو بنا لیا۔ اس سے اقتصادی نقصان بھی ہوا اور سفارتی و سیاسی بھی۔ اس قطع تعلقی کے دوران قبرص اور یونان سے اسرائیل کے سٹریٹیجک اور دفاعی تعلقات میں بہتری آئی ہے اور قبرص سے ترکی کی پرانی مخاصمت ہے۔
اسرائیلی ساحلوں پر سال ۲۰۱۰ء میں قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت ہوئی اور اس گیس کو اسرائیل یورپ کو بیچنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اقتصادی حوالے سے بہترین راہداری ترکی ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک ہی اس کے نتیجے میں اقتصادی فائدے کے متمنی ہیں۔
ترکی کی سیاست کا مقصد وہی ہے جو اس ’خیال‘ کی اولین سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ مسئلۂ فلسطین آج بھی ویسا ہی ہے۔ ہر چند ہفتوں بعد فلسطینی مسلمانوں پر بمباریاں کی جاتی ہیں۔ اور اردگان کی محض فلسطینی مسلمانوں اور امتِ مسلمہ سے نہیں بلکہ اسلام سے خیانت اس کا ارضِ فلسطین کو تقسیم کر کے ’دو ریاستی حل‘ کا وکیل و حامی ہونا ہے۔ نیز اردگان کے اسرائیل سے حالیہ تعلقات کی بحالی کے سبب اسرائیل کو توقع ہے کہ فلسطینی مزاحتمی و جہادی تنظیم ’حماس‘ پر ترکی کی جانب سے دباؤ ڈالا جائے گا، حماس اس وقت پچھلے تقریباً دس سال سے استنبول سے فعالیت کر رہی ہے۔
اردگان اور اس قسم کی اسلامی پارٹیاں جس رفتار سے انہی باطل نظاموں میں رہتے ہوئے شریعت لا رہی ہیں اور جس طرح اسلام پر عامل ہیں تو اس پر مولانا امیر محمد (المعروف مولانا بجلی گھر2) رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بیان کردہ قصہ یاد آ گیا۔ مولانا مرحوم نے فرمایا کہ ’ضیاء الحق نے مجھے کہا کہ ’’مولانا! میں پاکستان میں نفاذِ شریعت (والا)قانون لا رہا ہوں‘‘۔ اس پر میں نے اسے کہا کہ یہ کس قسم کی شریعت تم لا رہے ہو(کس رفتار سے لا رہے ہو)؟ اگر شریعت کراچی سے رکشے میں بیٹھ کر روانہ ہوئی ہوتی تو بھی اب تک پشاور پہنچ چکی ہوتی!!‘۔
جھوٹ کے سر پیر نہیں ہوتے: کابل کی چودہ سالہ لڑکی کی جھوٹی کہانی
شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار، متحدہ عرب امارات کے میڈیا ادارے ’دی نیشنل‘ نے چند ہفتے قبل کابل میں بستی ایک چودہ سالہ لڑکی پر ایک ویڈیو رپورٹ بنا کر نشر کی۔ اہلِ صدق و امانت میں سے کئی لوگوں نے اس ویڈیو پر جوابی تبصرے لکھے اور نشر کیے۔ دشمن کے اس پروپیگنڈے کے رد کے لیے راقم نے بھی اپنا تھوڑا سا حصہ ڈالنے کا ارادہ کیا۔ وما علیناإلا البلاغ!
رپورٹ کے مطابق ہدیٰ نامی یہ بچی کابل کی ایک معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر نجم السماء شفا جو کی بیٹی ہے۔ اس بچی نے اپنی ساری زندگی کابل میں امریکی سائے کے تحت قائم کٹھ پتلی اور کرپٹ حکومت کے تحت گزاری ہے۔
یہ بچی اس رپورٹ میں امریکی لہجے کے قریب قریب انداز میں انگریزی بول رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ طالبان کے ’قبضے‘ کے بعد سے یہ سکول جانے سے قاصر ہے۔ افغانستان میں موجود اپنے ایک دوست کی معلومات کے مطابق راقم جانتا ہے کہ افغانستان میں سرکاری سکول تو لڑکیوں کے لیے بوجوہ قریباً ایک سال سے بند ہیں لیکن نجی سکول اب بھی کھلے ہیں۔ فتحِ کابل سے پیش تر چند سال قبل جہادِ افغانستان کے فریضے کی ادائیگی کے لیے ، افغانستان میں اپنے قیام کے دوران راقم کو ذاتی طور پر افغانستان کے کئی صوبے، شہر اور قصبے دیکھنے کا موقع ملا اور افغانستان کے سرکاری ہی نہیں نجی سکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں اور ان میں زیرِ تعلیم طلبا کو دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ افغانستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی پڑھنے پڑھانے اور بولنے کا معیار(حالانکہ اصلاً انگریزی نہ دنیوی معیار ہے نہ اخروی) ویسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان کے اردو میڈیم اداروں میں ہے۔ بلکہ افغانستان کے اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی ہی کیا دیگر علوم و فنون کا معیار پاکستان کے اوسط درجے کے سمجھے جانے والے اداروں سے بھی کم ہے۔ اتنی لمبی بات کا مقصد یہ ہے کہ یہ بچی جو امریکی لہجے کے قریب قریب انگریزی بولنا بلا جھجک جانتی ہے کو میڈیا اور اس کے ماں باپ نے کیسا استعمال (بمعنیٰ استحصال)کیا ہے کہ یہ بچی یقیناً کابل کے مہنگے ترین اور اعلیٰ ترین امریکی یا غربی نظامِ تعلیم سے وابستہ کسی ادارے میں پڑھتی رہی ہے اور کہتی ہے کہ چونکہ سکول بند ہیں لہٰذا میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی، حالانکہ ایسے ادارے کھلے ہیں؟!
کہتی ہے کہ طالبان کے ’قبضے‘ کے بعد سے وہ باہر گھوم نہیں سکتی۔ حالانکہ ویڈیو رپورٹ کے بیشتر مناظر میں یہ بچی کابل کی شاہراہوں، سڑکوں، بوتیک، آئس کریم پارلر، ریستوران وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر کابل کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے کہتی ہے کہ اسے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ طالبان کہتے ہیں کہ باہر جاتے ہوئے تمہارے ساتھ کوئی محرم ہونا چاہیے۔ حالانکہ پچھلے نقطے میں بیان کردہ تمام ہی جگہوں پر یہ لڑکی گھوم رہی ہے (گویا اجازت ہے تو گھوم رہی ہے ناں) اور وہ بھی بنا محرم کے، کہ محرم اس ویڈیو میں کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ یہاں دو نقاط مزید ہیں:
پہلا یہ کہ محرم کا حکم طالبان نے خود ایجاد نہیں کیا، یہ اللہ کی شریعت کا حکم ہے۔ اب اس لڑکی کو پٹیاں پڑھانے والوں میں یہ تو کہنے کی جرأت نہیں ہے کہ اللہ نے ہم پر (نعوذباللہ) یہ محرم کے ساتھ سفر کی مشکل ڈالی ہے، لہٰذا بر ابھلا طالبان کو کہتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جس اللہ کی شریعت کا محرم کے ساتھ سفر کرنے کا حکم طالبان نے نافذ کیا ہے، اسی حکم کی تشریح فقہا کے اقوال کے مطابق طالبان نے بیان بھی کی ہے کہ اگر تقریباً ستّر کلومیٹر سے زیادہ کا سفر ہو تب محرم کی ضرورت ہے۔ بلکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے محرم محرم محرم کی رٹ لگائے سوالوں سے ایک بار جھنجھلا کر یہ بھی کہا کہ اپنےشہر یا علاقے کے اندر رہتے ہوئے، ضروری کاموں کے لیے یہ محرم کے ساتھ ہونے نہ ہونے کی بحث نجانے کہاں سے آ گئی ہے؟
کہتی ہے کہ طالبان اس عورت پر پتھر پھینکا کرتے تھے جو حجاب نہیں اوڑھتی تھی اور میں اس سے بہت ڈرتی ہوں۔ آج کل کے طالبان تو سمارٹ فونوں اور سوشل میڈیا کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں، یقیناً انہوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہو گی۔ سو یہ لڑکی یہ ویڈیو بنواتے اور اس ویڈیو میں بے حجاب ہوتے ہوئے کیوں نہیں ڈری؟ اور ایسا واقعہ کب ہوا ہے کہ طالبان نے ایسی کسی عورت پر پتھر پھینکے ہوں جو بے حجاب گھومتی ہو۔ پھر یہ کہ بچی بھی آدھا سر اور آدھا منہ کھول کر باہر گھوم رہی تھی اور اس بچی کی ماں بھی ویڈیو میں منہ کھول کر بغیر عبایے وغیرہ کے نظر آتی ہے، ان کو کیوں کسی نے پتھر نہیں مارے؟
اس بچی کو تو اس کے ماں باپ اور میڈیا نےاستعمال کیا ہے، لیکن اس میڈیا ادارے کے عہدیداروں کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے کس قسم کے لوگوں کو رپورٹر رکھا ہوا ہے جنہیں جھوٹ بھی صحیح سے بولنا نہیں آتا۔ یہ لوگ بس مغربی اداروں کا نمک کھا رہے ہیں اور اس کو حلال نہیں کر رہے۔
اسی کے ساتھ چنداور لوگوں کی منافقت بھی مجھے یاد آ گئی۔ کسی افغان عورت نے ایک بار ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ افغانستان چھوڑ کر یورپ یا امریکہ محض اس وجہ سے جانا چاہتی ہے کہ افغانستان میں وہ اپنی بچیوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتی۔ تبصروں میں ایک اور عورت نے لکھا کہ بالکل اسی علت کے سبب اس کی بہن افغانستان چھوڑ کر جا چکی ہے۔ جیسا کہ پہلے راقم لکھ آیا ہے کہ افغانستان میں بالغ لڑکیوں کے لیے صرف سرکاری سکول بوجوہ بند ہیں، نجی سکول تو کھلے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیس زیادہ ہو گی یا یورپ جانے کا خرچہ؟
٭٭٭٭٭
1 گو کہ ہر ایڈز شدہ کو ناجائز فعل کے فاعل کے طور پر جاننا ناجائز بات اور خود ایک جرم ہے کہ اس بیماری کا شکار تو معصوم بچے بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ اندرونِ سندھ کے علاقوں میں ہوا، یہاں عمومی بات کی جارہی ہے۔ اسی طرح دیگر بیماریوں کا معاملہ بھی ہے۔
2 حضرت مولانا امیر محمد صاحب، بجلی گھر نامی علاقے کی مسجد کے امام و خطیب تھے، اس علاقے کی نسبت سے آپ کا نام ’مولانا بجلی گھر‘ مشہور ہو گیا۔