نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

شَہادت کی قبولیت کی شرائط | ۷

احمد فاروق by احمد فاروق
30 ستمبر 2022
in اگست و ستمبر 2022, حلقۂ مجاہد
0

اس کے بعد علما کا معاملہ ہے۔ شیخ عزامؒ کہتے ہیں کہ علما سے زیادہ زہریلا گوشت کسی کا نہیں ہے، جو گوشت کھانا چاہتا ہے غیبت کرنا چاہتا ہے تو وہ بدترین گوشت چن رہا ہے اگر علما کو ہی چنتا ہے غیبت کرنے کے لیے۔ تو یہ طریقہ اور یہ رویہ کہ تمام علما پہ عمومی لعن طعن شروع کر دینا۔ ہمارے علما ایسے ہیں، ہمارے علما ویسے ہیں، سب کچھ علما نے خراب کیا، ساری خرابی علما سے پھیلی، سارے علما جہاد پہ نہیں آتے۔ تو بھئی وہ اور بھی تو بہت سی نیکیاں کرتے ہیں، اللہ جانتے ہیں کہ کس کا اللہ کے یہاں جاکر کیا مقام ہونا ہے۔ میں اپنی آخرت کی فکر کروں، تواضع اور عاجزی اختیار کروں، کیوں میں دوسروں کے اوپر زبان کھولتا ہوں۔ اللہ جانتے ہیں کہ کس کے پاس کیا عذر ہے، کون کمزور ہے، کس تک بات ہی نہیں پہنچی ہے، بلاوجہ سب کے اوپر چڑھائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تو علما کے معاملے میں اپنی زبان کو روکنا، زبان کو لگام دینا، اس کو کچھ ادب اور احترام سکھانا۔ اور اپنی مجلسوں میں جو ساتھی ایسا کام کر رہا ہو، للہ اس کو روکیں، اس کی آخرت خراب ہو رہی ہے۔ مجاہد اور شہید ہونے کے باوجود بھی اگر وہ جنت میں نہ پہنچ سکے سیدھا، تو اس سے بڑی کیا بدقسمتی ہوگی۔ منع کریں اس کو کہ اپنی زبان کو اس طرح نہ کھولے علما کے بارے میں۔

یہی دینی تنظیموں کا معاملہ ہے، حتیٰ کہ جمہوریت میں اتری ہوئی دینی تنظیمیں ہیں۔ ہم میں سے کتنے ساتھی ایسے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں کہ جو کل تک خود انہی تنظیموں میں تھے۔ کیا ان تمام تنظیموں پہ ایک زبان سے ان کے تمام مخلصین اور صالحین اور فاجرین سب کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دینا، یہ کون سے دین نے سکھایا ہے۔ تو ان کے بارے میں یوں عمومی کیوں زبان کھولتے ہیں جو پورے پورے طبقوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ کیوں نہیں ان کے مخلص اور غیر مخلص میں فرق کرتے؟ کیوں نہیں ان کے اندر قیادت اور نیچے والوں میں فرق کرتے؟ کتنے مخلصین وہاں موجود ہیں، ہم سے زیادہ ہوسکتا ہے مخلص لوگ موجود ہوں، اللہ کے یہاں ہم سے اونچے مقام پانے والے موجود ہوں۔ تو دینی تنظیموں کو بھی مباح نہ سمجھیں کہ ان کے بارے میں جو کہہ دیں اس کی اجازت ہے۔ ان کے افراد کے بارے میں جو کہا جائے، ان کی قیادت کے بارے میں جو کہا جائے، اس کی کھلی چھٹی ہے۔ بس ہم ہیں دنیا کے واحد لوگ جن کے اوپر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور ہم نے ہی جنت میں جانا ہے۔ اللہ جانتا ہے بھائی جان! یہ آخرت کے دن فیصلہ ہوگا۔

اسی طرح مجاہدین کے دوسرے مجموعوں کے بارے میں بات، انصار کے بارے میں بات، یہاں موجود طالبان کے مقامی مجموعات کے بارے میں بات، خود اپنی ایک دوسری تنظیم کے بارے میں بات۔ ان تعصبات میں پڑ کے دوسروں کی غیبتیں کرنا، فلاں تنظیم ایسی ہے، فلاں کے لوگ ایسے ہیں، فلاں گروپ ایسا ہے، فلاں میں یہ کمزوری ہے، فلاں میں وہ کمزوری ہے، کیا فائدہ ہوگا اس کا؟ اپنی آخرت خراب کرنی ہے تو کریں شوق سے کریں، اپنی نیکیاں ضائع کرنی ہیں کریں۔

تو پیارو! اپنی زبانوں کو ان سب چیزوں میں روکنا ہوگا۔ ان میں سے سب کی غیبتیں کر کر کے ہم اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور اپنی شہادت کی قبولیت کے راستے کے اندر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اور آخری اس میں سے بات عام مسلمان کی بات ہے۔ ایک حدیث سناتا ہوں، وہ ایک حدیث جس کے پاس دل میں کوئی خوفِ خدا ہو ناں، تو اس کو روک دینے کے لیے کافی ہے۔

حدیث یہ کہتی ہے کہ حضرت سہل بن معاذؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ غزوت مع نبي اللہ صلى الله عليه وسلم غزوۃ کذا وکذا…… کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فلاں جنگ کے اندر، غزوے کے اندر شریک ہوا۔ فضيق الناس المنازل وقطعوا الطريق…… تو جب لشکر اترا تو جو اترنے کی جگہیں تھیں، آرام کی جگہیں تھیں وہاں پہ لوگوں نے تنگی پیدا کردی۔ تنگی کیسے پیدا کر دی، عون المعبود میں اور دیگر شروعات میں لکھی ہے یہ بات کہ اس کا مطلب یہ ہے، ضيق المنازل سے، جگہ تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس کو ایک بستر کی جگہ چاہیے تھی ناں لیٹنے کے لیے، اس نے اس سے زیادہ جگہ لے لی۔ اتنی چھوٹی سی بات ہے، بہت چھوٹی سے چیز ہے ناں، مراکز میں بھی ہو جاتا ہے کہ کوئی ساتھی اس کا خیال نہیں کرتا، اتنی بڑی چادر بچھالی، اتنی بڑی جگہ گھیر لی کہ اس کو اس سے آدھی بھی نہیں چاہیے تھی لیکن اس نے پروا نہیں کی اس بات کی، یا جلدی سوگیا ایسے کسی ٹیڑھے اسٹائل سےکمرے کے وسط میں سو گیا کہ باقی سب تنگ ہوتے رہیں ساری رات، ان کے لیے جگہ ہی ٹھیک طرح سے نہ بچے۔ تو اتنی چھوٹی سے بات ہوئی، لوگوں کے لیے جگہ تنگ کی اترنے کی، جہاں پہ لوگوں نے آرام کرنا تھا، وقطعوا الطريق…… اور رستے کو بھی کاٹ دیا، یعنی اس طرح بیٹھ گئے کہ لوگوں کا رستہ خراب ہو گیا۔ تو مجاہدین کیا یہ کام نہیں کرتے ہیں، یہ جو کھڑے ہو جاتے ہیں بازار کے اندر اپنی بڑی بڑی گاڑیاں لے کے، دو مجاہدین کی گاڑیاں آمنے سامنے کھڑی ہیں، آپس میں گپے مار رہیں ہیں۔ اور پارک کرتے ہوئے بھی یہ نہیں دیکھا کہ لوگوں کا رستہ کتنا تنگ ہوا۔ گپیں مار رہے ہیں، لوگ پیچھے سے ہارن بجا رہے ہیں۔ کماندان صاحب ہیں، ان کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، ان کی گاڑی کھڑی ہوئی ہے، ان کو کون چھیڑے گا۔ اسی طرح گاڑی رستے میں جاتے جاتے…… بھئی ایک ہے جو یہاں کا عرف ہے، اس حد تک اگر کوئی دوسرے کی گاڑی کو نیچے اتارے تو وہ تو عرف ہے یہاں کا کہ سڑک ہی تنگ ہوتی ہے، ایک نہ ایک نے اترنا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اپنی کالے شیشوں والی گاڑی سے یہ حق سمجھنا کہ میری ہی گاڑی ہمیشہ اوپر رہے گی اور دوسرے کی گاڑی ہمیشہ نیچے اترے گی، تو یہ رستہ کاٹ رہے ہیں ناں آپ یا نہیں کاٹ رہے؟ اتنی چھوٹی سی چیز ہوئی تو کیا ہوا، فبعث نبي الله صلى الله عليه و سلم مناديا…… تو رسول اللہ ﷺ نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا۔ اس نے کیا اعلان کیا، ينادي في الناس…… اس نے جاکے لوگوں میں یہ اعلان کیا؛ إن من ضيق منزلا…… کہ جس کسی نے بھی لوگوں کے آرام کی جگہ کو تنگ کیا، أو قطع طريقا…… یا رستہ کاٹا اور ایک روایت میں جو صحیح روایت ہے، شیخ البانی روایت کرتے ہیں؛ أو آذا مومنا…… یا کسی مسلمان کو اذیت دی۔ جس نے لوگوں کے اترنے کی جگہ تنگ کی، رستہ کاٹا یا کسی مسلمان کو اذیت دی، فلا جهاد له…… تو اس کا کوئی جہاد نہیں ہوا۔ اس کا سب جہاد جہاد نہیں ہے، اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوا، اتنی سی چیز سے بس۔ تو ہم نے عامۃ المسلمین کے حقوق کو کچھ بھی نہیں سمجھا۔ اگر اتنی سی چیز سے جہاد جہاد نہیں رہتا تو پھر اس سے آگے کی چیزوں کو، یعنی کوئی بازار کے وسط میں جا کر دھماکہ کردے تو اس کا جہاد جہاد رہے گا؟ وہ اللہ کے یہاں کون سی نجات پانا چاہتا ہے۔

تو اللہ نے بحیثیت مجموعی مجاہدین کو اس سے محفوظ رکھا ہے۔ اللہ اس سے محفوظ ہی رکھے، لیکن اگر کوئی ایسا کرے تو وہ مجاہد ہے ہی نہیں، اس کا جہاد فلا جهاد له…… اس کا جہاد جہاد نہیں رہا۔ اگر اتنی چھوٹی سی چیز کے اوپر ضائع ہو جاتا ہے عمل، اتنی چھوٹی چیز کے اوپر اتنی سخت وعید آتی ہے۔ یہ صحیح حدیث ہے بھائیو! کوئی اپنی طرف سے بنائی ہوئی بات نہیں ہے۔ تو اس لیے یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ حساسیت ہے اور حدیث ہے بھی خالص جہاد کے پس منظر میں۔ مجاہد کو کیوں اتنی سخت بات کی تاکید کی گئی کیونکہ اس کے پاس قوت ہوتی ہے، اسلحہ ہوتا ہے، اگر وہ اپنی قوت کا غلط استعمال شروع کر دے تو وہ نفع سے زیادہ نقصان پہنچائے گا امت کو، اور امت کو جتنی اذیت اس کے ہاتھ سے پہنچے گی اتنی ہوسکتا ہے کسی کافر کے ہاتھ سے بھی نہ پہنچے۔ اس لیے اس کو اتنا حساس کر دیا گیا کہ دل کو اتنا نرم کرو، اتنا نرم کرو مومنین کے لیے۔

تو پیارے بھائیو! ایک اور حدیث ہے جس میں یہ بات آتی ہے غالباً حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہ أنہ رأى له فضلا…… وہ مجاہد بھی تھے، سپہ سالار بھی تھے اور ان کے ہاتھ پہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتنی عجیب فتوحات دی ہیں اس امت کو۔ حدیث کہتی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے باقی صحابہ پر کچھ فضیلت جانی، اس وجہ سے کہ وہ میدانِ جہاد میں ہیں اور اللہ ان کے ہاتھ سے فتوحات دے رہے ہیں، اور ان کا جو مقام ہے وہ آیا ہے کہ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ…… یعنی اس پہ کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی ہے ظاہر سی بات ہے۔ لیکن جو ہمارے لیے سبق کی بات ہے، رسول اکرم ﷺنے اس پہ ٹوکا اور یہ بات فرمائی؛ حدیث کی مختلف روایات ہیں مختلف الفاظ آتے ہیں کہ إنما تنصرون وترزقون بضعفائكم…… یہ جو تمہیں رزق مل رہا ہے اور تمہیں جو نصرت اتر رہی ہے یہ تمہاری وجہ سے نہیں ہو رہا، یہ جو تمہاری روٹی ٹکر لگا ہوا ہے ناں یہاں پہ، یہ جو کھانے بیٹھ کے مراکز کے اندر کھا رہے ہو اور یہ جو فتوحات جہاں پہ بھی ملتی ہیں اور جو کارروائیاں خیریت سے ہو جاتی ہیں، یہ تمہاری وجہ سے نہیں ہے، کسی تکبر اور بڑائی میں مبتلا نہ ہونا۔ یہ تمہارے ضعفا کی وجہ سے ہے، یہ ان بوڑھوں کی وجہ سے ہے جو کہیں بیٹھے ہوئے تمہارے لیے دعا کر رہے ہیں پیچھے، وہ تمہارے والدین کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، یہ علما کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، یہ صالحین کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، یہ ان معصوم بچوں کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، ان خواتین کی، تمہاری ماؤں کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، تمہاری بہنوں کی دعاؤں کی وجہ سے ہے۔ ان کی دعاؤں، ان کی نمازوں، ان کی نیکیوں کا بدلہ ہے اور ان کا اخلاص، یہ تین چیزیں ہیں جس کی وجہ سے تمہیں رزق مل رہا ہے، تمہارا کھانا پینا جاری ہے اور جس کی وجہ سے تمہاری نصرت ہو رہی ہے۔ تو مجاہد کو جتنا حساس ہونا چاہیے، مجاہد کو جتنا حقوق العباد کا خیال کرنا چاہیے اس کا مطالبہ باقیوں سے نہیں ہے، اس درجے کا جو مطالبہ مجاہد سے ہے وہ باقی سب سے بڑھ کے ہے۔

تو پیارے بھائیو! للہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اعمال کی حفاظت کرے۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ یہ ساری تھکن برداشت کرے، یہاں پہ کیریر چھوڑ کے آئے، والدین کو بھی چھوڑ کے آئے، دنیا کی سب راحتیں چھوڑ کے آئے، ڈرون کے نیچے بیٹھے ہیں، کچھ نہیں پتہ کب جاکے کون سا میزائل لگ جائے اور کچھ نہیں پتہ کس کی شہادت کب اس کو بلالے، کچھ نہیں پتہ کون کب گرفتار ہو جائے، اس سارے کے بعد بھی کامیابی نہ ملے، جنت نہ ملے تو کیا ملا پھر؟ کیا حاصل ہوا اس ساری تھکن کا؟ تو ہم تو اسی لیے نکلے تھے ناں کہ اللہ کو راضی کر لیں، جنت پالیں۔ تو پیارے بھائیو! جو جنت چاہتا ہے وہ حقوق العباد کے معاملے میں، حقوق اللہ کی معافی کی گنجائش تو ہے شہادت سے، حقوق العباد کی معافی نہیں ہوگی، حقوق العباد کے معاملے میں نرم ہوں۔ اپنے بھائیوں کا، اپنے ساتھیوں کا، مجاہد ساتھیوں کا اور عامۃ المسلمین کا سب کا حق پہچانیں اور ان کی تحقیر نہ کریں اس بنیاد پہ کہ وہ جہاد میں نہیں آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہی کی وجہ سے ہماری ساری گاڑی چل رہی ہو انہی کی دعاؤں کی برکت سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دیں۔

تو جب اتنی چھوٹی چیزوں میں پیارے بھائیو! حساسیت سکھائی ناں، تو پھر جو اس سے آگے کی چیزیں ہیں؛ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ والی حرکتیں جو ہیں، کہ کھیتیاں اور نسلیں جو ہیں وہ برباد کرنا شروع کر دے۔ جو مجاہد یہ کام کرے، جس کے ہاتھ سے ناحق خون بہے، جس کے ہاتھ سے ناحق مال لٹیں اور جو مسلمانوں کو سراسر اذیت پہنچانے کا باعث بنے تو ظاہر ہی بات ہے وہ اپنی آخرت برباد کر رہا ہے۔ باقی چیزیں چھوڑیں، مغفرت بھی اس کی ہوگی یا نہیں ہوگی یہ بھی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔

یہ ایک آیت جوہے سورۂ بقرہ کی، اس کے اوپر جا کے غور کر لیں۔ دو متضاد کردار ہیں جو قرآن نے ذکر کیے ہیں۔ ایک کردار مفسد کا، ایک کردار مجاہد کا۔ تو مفسد کا کردار ذکر کرتے ہوئے مفسریں نے لکھا ہے کہ یہ قبیلۂ ثقیف کے ایک منافق اخنس کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور قسمیں کھا کھا کے کہا کہ میں تو مسلمان ہوں اور میں مخلص ہوں اور اپنی اچھی نیتوں کا، اعلیٰ ارادوں کا اس نے اظہار کیا، اپنے آپ کو بہت بڑی چیز دکھایا۔ لیکن جب واپس نکلا وَاِذَا تَوَلّٰى…… جب وہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے باہر نکلا تو جاکے سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا…… زمین میں اس لیے بھاگ دوڑ کی، ساری بھاگ دوڑ کا محور کیا تھا کہ فساد مچائے، وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ…… اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرے۔ تو کیا کیا اس نے؟ اس نے جاتے جاتے ہی، حالانکہ تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے آپ کو بہت بڑا مسلمان کہہ رہا تھا، جاتے جاتے اس نے مسلمانوں میں سے بعض کی کھیتیاں بھی جلا دیں اور ایک قبیلے کے مویشیوں کو بھی قتل کرکے ضرر پہنچاتا ہوا نکل گیا، تو یہ ایک کردار ہے۔

بعض علما کہتے ہیں، وَاِذَا تَوَلّٰى…… خاص بات یہاں بالخصوص صاحبِ امر لوگوں کے لیے ہے۔ بعض علما کہتے ہیں، جس طرح علامہ رازی فرماتے ہیں کہ تَوَلّٰى سے یہاں مراد ہے کہ حاکم بنے جب وہ، تو وہ کیا کرے؟ وہ حرکتیں کرے جو برے حکمران کرتے ہیں۔ جہاد کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ جہاد کے نتیجے میں بالآخر حکومت ہی ملتی ہے۔ اگر جہاد کامیاب ہو جائے تو اسلامی نظام ہی قائم ہوتا ہے۔ یعنی حکومت ہی قائم ہوتی ہے کسی نہ کسی صورت کی۔ تو اگر اللہ کے لیے جہاد ہوگا تو اسلامی شریعت آئے گی اور اگر کسی اور کے لیے جہاد ہوگا تو پھر کچھ اور آجائے گا۔ تو یہ ذہن میں رکھنے کی بات ہے کہ قرآن نے مفسد کی کیا نشانی بتائی، کہ وَاِذَا تَوَلّٰى…… جب اس کو حاکمیت مل جائے، طاقت اور قوت مل جائے، والی بن جائے وہ، تو سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا…… تو زمین میں بھاگ دوڑ اس لیے کرتا ہے کہ فساد مچائے اور فساد کی علما نے دونوں تشریحات کی ہیں؛ زبان سے فساد، کہ غیبتیں کرے، چغلیاں کرے اور مجاہدین کے درمیان مسلمانوں کے درمیان تفریق لے کے آئے، اِس کے خلاف زبان کھولے، اُس کے خلاف زبان کھولے۔ اور دوسرا اپنے عمل سے فساد۔ عمل سے فساد کیا ہے، وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ…… کہ کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرے۔ اس کو بس دھماکوں سے، تباہی سے، چیزیں گرانے سے ہی غرض ہو۔ اس کو اس سے غرض نہ ہو کہ وہ دھماکہ کس پہ ہو رہا ہے، اس کو اس پہ خوشی ہوتی ہے کہیں ہو جائے بس، کچھ ہو جائے۔ تو یہ جس کا نظریہ ہے کہ اس کو اس سے غرض نہیں ہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق بھی ہوا کہ نہیں ہوا، شریعت کے مطلوب کے مطابق بھی ہوا کہ نہیں ہوا، بس تخریب ہونی چاہیے اور بس۔ تو پھر یہ جہاد نہیں ہے، یہ فساد ہے۔ اور اس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اگلی صفت کیا بتاتے ہیں؛ وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ…… کہ اس کا کردار ایسا ہے کہ جب اس کو کہا جاتا ہے کہ اِتَّقِ اللّٰهَ…… اللہ کا خوف کرو، اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ…… تو اس کی جھوٹی عزت آڑے آجاتی ہے۔ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ…… تو اس مفسد کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جس نے قوت کو، طاقت کو، جس نے مجاہدین کے مراکز میں تربیت لی اس کو، جو اس نے یہاں پہ بارود سیکھا، جو اس نے یہاں پہ اسلحہ سیکھا، اس کو فساد کے لیے استعمال کیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کسی دینی تنظیم سے، وہ القاعدہ سے جڑا ہے یا وہ تحریکِ طالبان سے جڑا ہے یا وہ امارتِ اسلامیہ سے جڑا ہے، ان چیزوں سے بخشش نہیں ہوگی۔ اگر وہ مفسد ہے تو مفسد ہی ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا۔

اور دوسرا کردار وہ ہے کہ علما کہتے ہیں کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں، اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ؁ اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس نے اپنی جان ہی بیچ دی ہے اللہ کو راضی کرنے کی خاطر، اور اللہ تعالیٰ بندوں پر بہت رحم کرنے والے، رعفت و رحمت کرنے والے ہیں۔ تو پیارے! کیا کیا تھا حضرت صہیبؓ نے؟ اپنا سارا مال بیچ کر، دے کر مشکرین کو ان سے جان چھڑائی اور ہجرت کی۔ سارے مال کے بدلے میں ہجرت قبول کی انہوں نے۔ اور اسی طرح حضرت عمار بن یاسرؓ نے اپنا پورا خاندان کٹوایا۔ تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں کہ جن کی ’میں‘ ختم ہو چکی ہے۔ نفس بیچ دیا ناں، يَّشْرِيْ نَفْسَهُ…… جس نے اپنا آپ بیچ دیا، میں بیچ دی تو اب وہ اپنے آپ کو کوئی چیز نہیں سمجھتا کہ وہ علما پہ بھی منہ کھولے اور وہ فقہا پہ بھی منہ کھولے اور وہ اپنے والدین کے خلاف بھی بدتمیزی کرے، وہ اپنے ساتھیوں پہ بھی منہ کھولے، وہ دوسری تنظیموں کا بھی استہزا کرے اور وہ عامۃ المسلمین کی بھی تحقیر کرے۔ یہ وہ کرتا ہے جس کی میں باقی ہو، جس نے میں ہی بیچ دی وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگا اور اللہ کی جنتوں کا مستحق ہوگا، اس کی شہادت ان شاء اللہ قبول ہوگی۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ مجھے اور آپ کو یہ ساری صفات، جو جہاد کی قبولیت کی شرائط ہیں اللہ وہ بھی پوری کرنے کی توفیق دے اور جو شہادت کی قبولیت کی شرائط ہیں اللہ وہ بھی پوری کرنے کی توفیق دے اور اپنی رحمت سے اپنے فضل سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ مقبول شہادت ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین!

سبحانك اللھم وبحمدک ونشھد أن لا الہ إلا أنت نستغفرک ونتوب إلیک

وصلی اللہ علی سیدنا ومولٰنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

٭٭٭٭٭

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | ساتویں قسط

Next Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوند زادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | اگست و ستمبر ۲۰۲۲

Related Posts

سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوند زادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | اگست و ستمبر ۲۰۲۲

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version