آج دنیا تہذیبی اعتبار سے دیوانگی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ ظلم و جور جس پیمانے پر برپا ہے غزہ اس کی ہو لناک مثال ہے۔ بے شمار ممالک میں ( بھارت، کشمیر کی طرح) انسان بھنبھوڑے جارہے ہیں۔دیکھ کر بر داشت کرنے والے بھی کچھ کم پاگل نہیں کہ ۸ ارب انسان اور الیس منکم رجلٌ رشید کا سوال چلا چلا کر پوچھتا ہے۔ ظلم کا ہاتھ توڑنے والا کوئی ایک بھی نہیں؟ یقینا مغربی نوجوان، طلباء بالخصوص آواز اٹھانے کی حدتک غزہ پر دیوانہ وار متحرک رہے ہیں۔ اب بھی لندن تھرا رہا ہے مظاہرین کے قدموں تلے۔ ایڈنبرا یونیورسٹی کے میڈیکل گریجویٹ طلباء نے اپنی سالہا سال کی محنت کا ثمر سمیٹنے کا دن، کانووکیشن کو فلسطین کی نذر کیا۔ جھنڈے لہراتے، کفیہ اوڑھے، نعرے لگاتے پوری انتظامیہ، مہمانوں کے سامنے سٹیج پر سے احتجاج کرتے نکل گئے۔ پروگرام درہم برہم۔ نہ مستقبل کی پروا، نہ ڈگریوں کا غم۔ مگر یہ اتمام حجت ہے پورے نظام کے ہلاکت خیز، بے رحم ،بے انصاف ہونے پر۔ عملی تبدیلی دو سال میں نہ آسکی دنیا بھر کے باضمیر افراد کی کوششوں کے باوجود۔ ہر دن ظلم کی وہ تاریخ رقم ہو رہی ہے کہ جہنم کا غضبناک ہو کر دھاڑنا، شدت غضب سے پھٹ پڑنا سمجھ آتا ہے۔ (الملک: 7،8) حاملہ ماں کو غزہ میں شہید کر کے چاک پیٹ میں بچے کا سر قلم کرنا، یہ امریکہ، اسرائیل اور یورپی چمکتی دمکتی دنیا کا کر یہہ چہرہ ہے۔ جس فلسطینی صحافی نے یہ خبر بیان کر کے دنیائے صحافت سے سوال کیا ہے، وہ (خاکم بدہن) نشانہ قرار پائے گا! یہ ہے شاندار میڈیا کہ یہ ہولناک خبر کہیں رپورٹ نہیں ہوئی!
غزہ آزمائش کی آخری انتہاؤں پر ہے۔ اعداد و شمار، اموات کے آنکھوں میں دھول جھونکتے 60 ہزار تک سسک سسک کر پہنچے ہیں۔ ورنہ 23 لاکھ آبادی 2 سال میں مسلسل بمباریوں کا لقمہ بنی ہے۔ حقیقی تعداد 4 لاکھ ہے! رہے مسلمان تو وہ بھی باقی دنیا کی طرح چھٹائی، صفائی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ’اللہ اہل ایمان کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک سے الگ کر کے رہے گا۔‘ (آل عمران: 179) جنت کے آباد کارہر انسانی کھیپ (Batch) میں سے چھانٹے جاتے ہیں ان کی کار کردگی ؍ عمل، ایمان کی بنیاد پر۔ وہ قبر میں اتر جاتے ہیں اور بغرضِ امتحان اگلی کھیپ ان کی جگہ لیتی ہے۔ امتحان کی نصابی کتابیں (صحائف)، اساتذہ (انبیاء و رسل) آتے رہے، اور یہ آخری نبی ﷺ کی آخری امت ہے۔ غزہ نے حق واضح کر دیا۔ باضمیروں نے دنیا بھر میں لبیک کہا۔ مسلمان حسب قرآن و سنت ہوتا ہے۔ مکمل بے نیازی برتے تو منافق۔ ہمیں اپنی فکر کرنی ہے۔ پیمانہ واضح ہے!
غزہ بھوک سے ختم ہو رہا ہے۔ اب پانی پر سسکانے کی باری ہے۔ پانی کے نظام پر میزائل مار دیا۔ پانی لینے والے 40 شہید ہو گئے ۔زیادہ تر بچے تھے۔ اور چاروں طرف 2 ارب مسلمانوں کی آبادی تماش بین ہے۔بے حس و حرکت یا در پردہ شریک ِجرم! پناہ بخدا! اہل غزہ کے لیے اللہ نے غزوۂ احد(پورا نبویؐ دور ہی!) کی صورت عظیم مدرسۂ تربیت عطا کیا جسے سورۃ آلِ عمران نے صبر و استقامت کے اسباق اور عظیم کرداروں کی تشکیل کا نصاب بنا دیا۔احد واحزاب میں آزمائشوں کی شدتیں، مسلمانوں کو روم و ایران کی فتوحات اور پھر، تھمتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا، کے لائق بنا گئیں۔
فَاَثَابَكُمْ غَمًّـۢا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورۃ آل عمران: ۱۵۳)
’’ اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے جاتی رہے یا جو مصیبت تم پر واقع ہو تم اس پر ملول، اندوہ زدہ نہ ہو۔ اور اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
سفر جو اپنا قدم قدم پر صعوبتوں سے بھرا ہوا ہے
یہی تو جنت کا راستہ ہے، یہی تو جنت کا راستہ ہے!
گریٹر اسرائیل کی تیاری پورے زور و شور سے جاری ہے۔ امریکہ، یورپ سر پرستِ اعلیٰ اور مسلم ممالک فدوی ہیں۔ شام بشار الاسد کے شکنجے سے تو آزاد ہو گیا ہے، مگر سر جھکائے بڑے عرب ممالک اور امریکہ کی معیت میں انہی کے ہم قدم ہے۔ اللہ کی امان ہو!
یہ تو جنگوں کی دنیا تھی جس میں بین الاقوامی سطح کالینڈ مافیا، ہمہ نوع اسلحے سے لیس دندناتا پھرتا ہے۔ اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی سطح پربھی اسفل السافلین ہونے کی انتہا دنیا کو متعفن کر رہی ہے۔ اس کا بدترین پہلو دنیا کی قیادت، حکمران، بڑی سرمایہ دار سیاسی شخصیات کے کردار کی گراوٹ ہے۔امریکہ کے اپسٹین سکینڈل کی شرمناک کہانیاں ایک ایکسرے ہے جس کا۔ ابلیس کے وعدے کے مطابق بدترین گناہ نہایت مزین، خوبصورت اصطلاحات میں ملفوف، میڈیا کی چکا چوند اور کالی ہمہ نوع سکرینوں سے کو رونا کی طرح امڈتی و بائیں ہیں یہ۔ وہ بگاڑ جو نظر بھی نہ آئے اور اندر ہی اندر روحانی موت واقع ہو جائے۔ نہایت متعدی اخلاقی امراض جس سے آبادیوں کی آبادیاں روحانی سطح پر کھوکھلی ہو کر فنا ہو جائیں۔ سیکولرازم، لبرلزم، روحانی نظامِ حیات نگل گیا۔ اللہ، رسول، آخرت پر ایمان نہایت دھندلا پڑ گیا یا جاتا رہا۔ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی (کالی سکرینوں، سوشل میڈیا، لنڈے کا نظامِ تعلیم و تہذیب کے ہاتھوں)خاندانی نظام کمزور پڑ گیا۔ ان کی بدبودار اصطلاحوں نے محبت، ایثار، شفقت، رفاقت، تحفظ عطا کرنے والے سبھی رشتوں کو ’پدرسری، پدرشاہی نظام‘ کا نام دے کر باپ، بھائی، ماموں، چچا، دادا، نانا، کو جلاد صورت بنا کر نفرت بھردی۔ آزادی کی نیلم پری رنگ برنگی، حسن جوانی، خوداختیاری جیسی پرکشش پکاریں، جو ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری۔ امریکہ میں 4 لاکھ 63 ہزار لڑکیاں اور عورتیں ’ریپ‘ ہوئیں جنہوں نے2024ء میں رپورٹ کیا۔ رپورٹ نہ کرنے والی تعداد مزید!(بحوالہ RAINN) نیز 20 لاکھ خواتین (گھریلو) تشدد کا شکار۔ 10 لاکھ جنسی تشدد کا شکار انگلینڈ اور ویلز میں۔ماڈلنگ، شوبز، فیشن کی دنیا، فلمیں، ڈرامے، برانڈز میں سپر ماڈلنگ کی چکا چوند! اگر آخرت پر بات نہ بھی ہو تو صرف دنیاوی نکتۂ نگاہ سے یہ بہت تیز رفتاری سے ’ترقی‘،’ مقبولیت ‘فولورز (کا دھوکا) لے کر آتی ہے۔ رولر کوسٹر پر چڑھی بہت کم وقتی Thrill ،سنسنی خیزی کے ساتھ بہت سے حادثات، ناگواریاں، چاہنے والے (بد معاشوں کے) ہجوم، مال دولت (ہوائی حرام روزی ) کی بنا پر بہت سے دھوکے اور پھر ٹائیں ٹائیں فش۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ نارمل، باشعور، خاندانی والدین بہن بھائی اسے قبول نہیں کرتے۔ لڑکی اپنے نارمل حلقوں، خاندان میں اچھوت بن جاتی ہے۔ برہنگی اس راہ کے سفر کا یونیفارم ہے۔ جسے بہر طور میلی آنکھ ہی سے دیکھا جاتا ہے یا للچائی نگاہ سے۔ ’ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ‘۔ احترام، تقدس، وقار، عزت جاتی رہتی ہے، ’فولونگ‘ بڑھ جاتی ہے خواہ آوارہ لڑکوں کا سڑکوں پر ’فولو‘ پیچھا کرنا یا سوشل میڈیا پر۔ دجالی دور کا سب سے بڑا فتنہ پیسے دولت شہرت کی چاہ ہے جو بھوکے بھیڑیوں والی تباہی لڑکیوں، لڑکوں کے ریوڑوں میں پھر رہی ہے۔ ملک میں تعلیم کا زوال، لڑکوں کی عدم سنجیدگی ،غیر ذمہ داری، کند ذہنی، منشیات کی طرف جانا، بلا سبب نہیں ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ اگر ایک نوجوان دس منٹ تک ایک سجی سنوری لڑکی کو دیکھتا ر ہے اور اس پر اس کا جسمانی رد عمل نہ ہو تو اسے ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔
اسلام کے سبھی ضابطے اور قوانین خالقِ انسان اللہ جو العلیم، الخبیر، اللطیف، الحکیم ہے، نے بنائے ہیں۔وہی مردوزن کی نفسیات کا خالق ہے۔ اس نے ان کے اندر بے پناہ باہمی کشش کا ہارمونی نظام تخلیق کیا ہے۔ نظامِ زندگی کو زبردست ضابطوں میں جکڑا ہے تا کہ مضبوط پر سکینت، اعلیٰ کردار سازی کی فضا معاشرے کے بنیادی یونٹ،’ گھر‘ کی بن سکے۔ مرد کو قوی محافظ، غیرت مند، صالح اور عورت کے لیے کریم و شفیق بنایا ہے جس نظام میں اسفل کردار چو ہے، سانپ، بچھو کی طرح پنپنے ہی نہیں دیا جاتا۔ عورت اللہ نے انسانیت کی ماں بنائی ہے۔ (حرافہ، قتالہ، حسن بیچنے والی نہیں!) عظمت کا مقام تو یہ ہے پہلی وحی کا عظیم ذمہ دارانہ منصب ؍ بوجھ لے کر نبیٔ کریم ﷺ، اس پر فکر بانٹنے، راز دان بنانے، سکینت پانے سب سے پہلے خاندان، دوست، کسی مرد کے پاس نہیں، ہماری ماں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ سکینت، یقین، اعتماد سے مالا مال ہو گئے۔ یہ ہے مسلمان عورت۔ ہمارا رول ماڈل۔ اس پر بچیوں کی تربیت کیجیے۔ اللہ ہماری بیٹیوں کو ایمان کا فخر اور کردار کی پاکیزگی و مضبوطی عطا فرمائے۔ (آمین) باقی سب بھیانک المیے ہیں اسلام سے دوری اور باپ بھائی جیسے کریم مضبوط رشتوں سے محرومی کی بنا پر !پے در پے لڑکیوں کے ہوتے المناک حادثے، نہ اُگلے بن پڑے نہ نگلے، والے واقعات! بر وقت باراتیں نہ اٹھیں توبعد از خرابی ٔ بسیار جنازے اٹھانا پڑتے ہیں۔17سالہ بھی بالغ جوان لڑکی ہوتی ہے بچی نہیں جیسے میڈیا لکھتا رہا۔
خود کردہ را علاجے نیست!
٭٭٭٭٭