پاکستان میں اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب لوگوں کے گھروں کے اندر کیمرے لگا کر ان کی ذاتی ویڈیوز بنا کر انہیں ذلیل کیا جانے لگا ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ متاثرہ شخص کون ہے اور اس کے سیاسی نظریات و تصورات کیا ہیں، ہر انسان کا یہ شرعی، قانونی اور آئینی حق ہے کہ اس کی ذاتیات میں مداخلت نہ کی جائے اور اس کی ذاتی زندگی کے ان پہلوؤں میں، جن کی تشہیر کوئی بھی ذی فہم انسان نہیں چاہتا، تجسس اور دخل اندازی نہ کی جائے۔ دشمنی کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، ایسا بھی کیا کہ انسان کسی کو گرانے کے لیے خود اس حد تک گر جائے کہ اسفل السافلین کے مقام تک جا پہنچے اور پھر یہ سمجھے کہ اس سے بدلہ نہ لیا جائے گا۔ مکافات عمل اسی دنیا میں ہوتا ہے، انسان جوبوتا ہے وہی کاٹتا ہے لیکن پھر بھی ہوسکتا ہےکہ دنیا کی زندگی میں وہ بازپرس سے بچ جائے اور اپنے ’کارنامے‘ اور اپنے دشمن کی ذلت پر خوش ہو کر بغلیں بجاتا پھرے، مگر قبر اور پھر آخرت میں ایک ایک بات کا بدلہ لے لیا جائے گا اور وہاں کوئی عذر کام نہ آئے گا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف سے منسلک سینیٹر اعظم سواتی نے، جنہیں کچھ عرصہ قبل خفیہ اداروں نے گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا، زاروقطار روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ان کی اہلیہ نے فون کیا مگر وہ بات نہیں کر پارہی تھیں اور فون پر مسلسل رورہی تھیں ۔ پھر انہوں نے اپنی بیٹی کو فون کیا۔ اعظم سواتی نے اپنی بیٹی سے ماں کے رونے کی وجہ دریافت کی تو بیٹی نے بتایا کہ بابا! آپ کی ایک غلط ویڈیو آئی ہے۔ جس پر اعظم سواتی نے بیٹی سے کہا کہ بیٹی! تمہیں معلوم ہے مجھے ایجنسیوں نے اٹھایا تھا، انہوں نے مجھ پر تشدد بھی کیا اور انہوں نے میری ویڈیو بھی بنائی۔ تمہاری ماں یہ جانتی ہے کہ میں نو بجے سوجاتا ہوں اور ساڑھے تین بجے تہجد کے لیے اٹھتا ہوں، لہٰذا یہ جعلی ویڈیو ہوگی۔ اس پر بیٹی نے کہا کہ بابا! یہ کسی اور کے ساتھ آپ کی ویڈیو نہیں ہے بلکہ امی کے ساتھ ویڈیو ہے(جو کوئٹہ میں بنائی گئی تھی)۔
کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہمیں اعظم سواتی کے سیاسی نظریات سے اتفاق ہے، لیکن کیا جو شخص آپ سے سیاسی یا نظریاتی اختلاف رکھتا ہو وہ انسان نہیں ہوتا، کیا وہ عزت دار نہیں ہوتا، کیا اس کی فیملی لائف نہیں ہوتی، کیا اس کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی اور کیا محض اس اختلاف کی وجہ سے اس پر ہر طرح کا ظلم جائز اور روا ہوجاتاہے کہ اسے سر عام اس کی اولاد کے سامنے اس طرح ذلیل کرکے رکھ دیا جائے کہ وہ دوبارہ سر اٹھا کر جینے کے قابل نہ رہ سکے؟ پاکستان میں فوج اور آئی ایس آئی وہ درندہ ہے جو پاکستانی عوام کا خون چوس چوس کر اس قدر قوی ہوگیا ہے کہ اب اس ملک کی معیشت اور اس کی سیاست پر محض اسی کا قبضہ ہے۔ آئی ایس آئی اور فوج کا حکمران طبقہ ہو یا ان کا ماتحت طبقہ ، خود کو کسی عظیم سیارے کی عظیم مخلوق سمجھتا ہے اور اپنے سوا تمام دیگر کو حقیر کیڑے مکوڑے۔جس طرح نمرود نے تکبر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انا احی و امیت، یہ بھی گویا اسی کے پیروکار ہیں اور ان کی تکبر سے اکڑی گردنوں میں گویا طوق ہیں کہ وہ جھکنا جانتی ہی نہیں ہیں اور عملاً ان کا رویہ اور ان کی زبان اور ان کا لب و لہجہ بھی یہی بتاتا ہے کہ لوگوں کی عزت اور ذلت، ان کی زندگی اور موت کے یہی ٹھیکہ دار ہیں ۔ اللہ نے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اور یہ جب جس کو چاہتے ہیں مروا دیتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں اٹھا کر لاپتہ کردیتے ہیں، اپنے خفیہ سیلوں میں لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور علاوہ ان لوگوں پر ظلم ڈھانے کے جن سے یہ ان کے سچے پکے مسلمان ہونے کے سبب بغض رکھتے ہیں، وہ جنہیں کسی وقت یہ خود اپنے مہروں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اہم کرسیوں پر بٹھاتے ہیں، پھر اختلاف پر اعظم سواتی کی طرح ان کی زندگیوں کو عبرت کا ایسا نشان بنا دیتے ہیں کہ آئندہ کوئی ان سے اختلاف کی جرأت نہ کر سکے۔ فوج اور آئی ایس آئی کو یہ جرأت اور یہ قوت دینے والے خود یہ جمہوری حکمران ہیں، اس کو خدا بنا کر پوجنے والا خود یہی جاگیردار، حکمران اور بیوروکریٹ طبقہ ہے۔ مگر سانپ کو دودھ پلا کر پالنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سانپ کی فطرت ڈسنا ہے اور یہ ڈستے ہوئے کسی دوست دشمن کی تمیز نہیں کرتا۔
دنیا میں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ کورونا کا معاملہ ابھی پوری طرح ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ نت نئے دیگر وائرس اپنے پر پھیلانے لگے جن میں سے ایک بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کے نتیجے میں پھیلنے والا monkey pox بھی ہے، پھر پاکستان میں سیلاب ہے تو امریکہ میں طوفان، افریقی ممالک میں قحط ہے تو سپین میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہ ہوتی ہوئی زیتون کی فصل، روہنگیا کا مسئلہ جلاوطنی اور بے گھری ہے تو ترکستانیوں کا مسئلہ وطن سے باہر نہ نکلنے کی اجازت اور وطن کے اندر جبری گمشدگی ، لاپتگی، بدترین تشدد اور نسلوں کی تباہی، فلسطینی اسرائیلیوں کے ہاتھوں تباہ حال ہوئے پڑے ہیں اور شامی بشار کی افواج، روس، ترکی اور امریکہ کی بمباریوں کی وجہ سے، کشمیری اور ہندی مسلمان ہندوؤں کے مظالم سے بدحال ہیں تو دنیا بھر کے عوام، بلا تخصیص، مہنگائی کے ہاتھوں پریشان۔ پھر جہاں یہ سب نہیں ہے وہاں ازخود اقدام کرکے جنگ چھیڑ دی گئی ہے اور اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر[اس حد تک کہ اس جنگ میں جھونکنے کے لیے باقاعدہ فوج کافی نہ ہوئی تو جبری بھرتیاں شروع کردیں اور اس کے لیے تمام اخلاقی حدود اور معاشرتی اقدار (اگر کوئی ہوں تو) کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’کشادہ دلی‘ سے اجازت دے دی کہ ہر قسم کے مجرم حتی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسا گھناؤنا جرم کرنے والوں کو بھی جنگ میں شرکت کی اجازت ہے] ناصرف لاکھوں کروڑوں زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ جنگ کی وجہ سے یوکرین کی برآمدات پر پابندی ساری دنیا میں گندم کی کمی اور اس کی قیمت میں زیادتی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ قدرتی آفات اور انسان کے اپنے اعمال کے نتائج کے سبب آنے والے بدترین حالات دلوں کو نرم کردیں اور انسانی ہمدردی کے جذبات اجاگر کریں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ بےحسی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ معیارات اس حد تک تبدیل ہوچکے ہیں کہ اب تعجب پر تعجب ہونے لگا ہے۔ ایک طرف تو امریکی طوفان آئن کے تباہ کن اور عبرت انگیز مناظر نظر آتے ہیں کہ جہاں لوگ خود پانی میں گھرے ہیں اور پائنچے چڑھائے (معذرت، پائنچے تو ان کے یہاں ہوتے ہی نہیں ہیں بلکہ پائنچوں کے مقام سے کافی دور تک بھی کچھ نہیں ہوتا) کتوں کو گود میں اٹھا کر محفوظ مقام تک پہنچا رہے ہیں؛ ظاہر ہے کہ کتوں کو ہی گود میں اٹھائیں گے کہ بچے تو اسقاط کرا دیے جاتے ہیں؛ اور دوسری طرف ایک زندہ انسان سیاسی ریلی کے کنٹینر کے پہیے تلے کچلا جاتا ہے اور اس پر اس قدر بھی افسوس نہیں کیا جاتا جتنا حادثاتی طور پر کسی بلی کے مرنے پر کیا جاتا ہے۔
بعض مناظر جیسے ذہن سے چپک کر رہ جاتے ہیں حالانکہ وہ اتنے اہم یا توجہ طلب نہیں ہوتے۔ پاکستان میں سیلاب نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو صفر پر لاکھڑا کیا۔ کتنوں کی زندگیاں گئیں اور اموال، مویشی، فصلوں اور زمینوں کے نقصان کا تو کہنا ہی کیا۔ اصحاب اقتدار کہتے ہیں کہ اتنا نقصان اس لیے ہوا کہ بارشوں کی یہ شدت ناقابل پیشین گوئی تھی، پھر ان علاقوں میں بارشیں برسیں جو مون سون کے علاقے نہ تھے اور جو مون سون کے علاقے تھے وہاں ملک بھر میں سیلاب کے بعد بھی قحط ہی رہا، ہوسکتا ہے کہ کسی درجے میں یہ عذر درست بھی ہو مگر پھر بھی اصحاب اقتدار کی دانستہ کوتاہیوں، کرپشن اور محض اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کی حرص و ہوس میں قومی اثاثوں کی لوٹ کھسوٹ جیسے حقائق سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ جو منظر نگاہوں سے گزر کر دل میں کانٹا سا گاڑ گیا وہ شیری رحمان کا سیلاب پر تبصرے کے وقت حلیہ اور کسی بھی قسم کی (حتی کہ بناوٹی) ہمدردی سے عاری لب و لہجہ تھا۔ میک اپ سے بری طرح لتھڑے چہرے اور بے ڈھنگے فیشن زدہ حلیے میں اپنے آپ کو اپنی سیاسی پارٹی کو ، جمہوری حکومتوں کو سیلاب میں لوگوں کے جان و مال کے نقصان کے ہر قسم کے الزام سے بری کرتے ہوئے سارا ملبہ قدرت اور موسمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر ڈال دیا۔ ان حکمرانوں کے رویے، ان کی باتوں، ان کے حلیوں اور ان کے تجزیوں میں کہیں بھی غریب، مسکین، سیلاب میں گھرے، بے گھر عوام سے ہمدردی کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ کوئی ہمیں کچھ بھی کہے مگر ہمارے لیے مثال ہمارے لیے قدوہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیارے واجب الاحترام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں۔ ایک طرف سیدنا عمرؓ ہیں کہ ملک میں قحط ہے تو اپنے لیے اچھا کھانا از خود ممنوع کررکھا ہے، ایسا حال ہے کہ جسم پر بس ہڈیاں اور ماس باقی رہ گیا ہے کہ میرے ملک کے لوگ اس برے حال میں ہیں تو میں حکمران ہو کر، مسئول ہوکر پیٹ بھر کر کھانا کیسے کھاؤں۔ بیمار ہوئے ہیں تو حال یہ ہے کہ بیت المال میں شہد موجود ہے، جو ان کے علاج کے لیے درکار ہے مگر نہیں لے رہے کہ عوام کو یہ میسر نہیں ہے۔ سیدنا عمرؓ کے اسوے تک نہ بھی پہنچنے کی کوشش کریں مگر انسانی ہمدردی اتنا تو مطالبہ کرتی ہی ہے کہ ایک ایک سیاسی ریلی اور جلسے پر کروڑوں لگا دینے والے اپنے اضافی اخراجات کو کم کریں اور دیکھنے والوں کو یہ نظر آئے کہ یہ سیلاب سے تباہ شدہ ملک کا حکمران طبقہ ہے جو انہی بھوکے ننگے لوگوں کے ووٹوں سے برسراقتدار آتا ہے۔
اس دنیا کی زندگی تو بس چند روزہ ہے، ساٹھ برس یا کہ ستّر، اس میں روٹی کپڑا اور مکان جیسا کیسا بھی ملا یہ گزر ہی جائے گی، اصل تو وہ زندگی ہے جو آنے والی ہے، اگر اس دنیا سے اعمال کی کرنسی ساتھ لے گئے تو آگے اچھا مکان(تاحد نظر کشادہ قبر اور بعد ازاں جنت کے محلات)، لباس ایسا کہ دنیا کا قیمتی سے قیمتی ترین لباس اس کے سامنے ناک صاف کرنے کے رومال کے برابر بھی نہ ہو اور طعام ایسا کہ جو جی چاہے اور جب چاہے اور جیسا چاہے، نہ کمانے کی فکر نہ وزن بڑھنے کی ۔ جیسے چاہو جیو تو وہاں ہوگا، کوئی پابندی کوئی حدود و قیود نہ ہوگی۔ پس جس نے اس زندگی کے روٹی کپڑے اور مکان کا انتظام کرلیا وہی کامیاب ہے اور اُس زندگی میں وہی ان نعمتوں سے بہرہ ور ہوگا جس نے اِس دنیا کی زندگی میں اپنے رب کو اس کے بنائے اصولوں کو اس کے عطا کیے دین کو اس کے بھیجے عظیم الشان نبی کی تعلیمات کو اور اس کی کتاب اور اس میں درج احکامات کو اپنی پسند، اپنی مرضی، اپنی خواہش، اپنی چاہت اور اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنی چاہت کو اپنے رب کی چاہت کے پیمانے میں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
٭٭٭٭٭