نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

اریب اطہر by اریب اطہر
13 اگست 2025
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, اگست 2025
0

ایبٹ آباد میں قائم دارالامان میں قیام پذیر خاتون نے انتظامیہ پر تشدد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون کو قابو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس دوران خاتون کہہ رہی ہے یہاں میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مجھ پر تشدد کیا گیا ہے۔

پولیس کی موجود گی میں جب خاتون سے یہ سوال پوچھا  گیا کہ کس نے ان کے ساتھ زیادتی کی تو وہ کہتی ہیں یہی لوگ ہیں، یہاں زنا کاری ہورہی ہے، میرے ساتھ بھی ظلم ہوا۔ اس ویڈیو میں تو خاتون کو گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالنے والی لیڈیز پولیس تھی۔ مگر ایسی ہی ایک ویڈیو 2018ء میں منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک خاتون ہاتھ جوڑ کر لوگوں سے مدد مانگتی نظر آتی ہے اور کہہ رہی ہوتی ہے خدا کے واسطے مجھے ان لوگوں سے بچالو یہ مجھ سے غلط کام کرواتے ہیں۔ اس کی منت سماجت کے باوجود درجنوں شہریوں کے سامنے ڈیرہ غازی خان دارالامان کے مرد اہلکار اس عورت کو گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔

26 جون 2021ء کو ڈان نیوز کی ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی رکن اسمبلی مدیحہ نثار کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پشاور میں یتیم بچوں کے لیے قائم دارالامان جنسی اور جسمانی زیادتی کا اڈہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالامان کو ڈونرز کی جانب سے دی جانے والی اشیا بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں۔

مدیحہ نثار نے مطالبہ کیا کہ دارالامان کی پارلیمانی سطح پر انکوائری ہونی چاہیے۔ جس پر صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد نے کہا کہ صرف ایک دارالامان کی نہیں پورے صوبے کے دارالامانوں کی انکوائری ہونی چاہیے۔

کاشانہ سکینڈل کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ اس میں دارالامان کی سپریٹینڈنٹ افشاں لطیف جس شخص پر الزامات لگاتی ہیں وہ تحریک انصاف کے وزیر تھے ۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجاتی ہے اور وہی شخص پہلے استحکام پاکستان پارٹی اور پھر ن لیگ میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔ دارالامان میں ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے اس سکینڈل کو جتنی کوریج سوشل میڈیا پر دی گئی اس لحاظ سے اس پر عدالتی کاروائی ہونی چاہیے تھی یا کمیشن بننا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کوئی خفیہ طاقت اسے صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی استعمال کرنا چاہتی ہے اور اصل مسئلے اور مظلوموں کو انصاف دلوانے سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

دار الامان کے حوالے سے عدالتی فیصلہ

گزشتہ سال دسمبر میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کے تمام دارالامان سے مرد ملازمین کو ہٹانے کا حکم دے دیا تھا۔ عدالت نے حکومت پنجاب کو شیلٹر ہومز کی مانیٹرنگ کیلئے ڈیٹا بیس اور سافٹ وئیر بنانے کے ساتھ ساتھ تمام دارالامان کے داخلی راستے اور احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم بھی دیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر کی درخواست میں دارالامان میں بچیوں کے لیے حفاظتی اقدامات نہ ہونے، خواتین کے حقوق اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ پر عمل درآمد نہ کرنے کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے 36 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، عدالت نے حکم دیا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو بچوں کی حفاظت کے اداروں کیلئے ریگولیشنز بنائے جائیں، اداروں کی رجسٹریشن یقینی بنائی جائے، تحصیل اور ضلعی سطح پر بھی مرد ملازمین ہٹائے جائیں، چائلڈ پروٹیکشن یونٹس قائم کیے جائیں اور دارالامان و شیلٹر ہومز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹ پر تمام معلومات فراہم کی جائیں۔

پاکستان میں موجود دار الامان اور شیلٹر ہومز کی تعداد

صوبہ پنجاب میں دارالامان کا نیٹ ورک نسبتاً زیادہ منظم ہے۔ محکمہ سماجی بہبود و بیت المال پنجاب کے تحت صوبے کے بڑے شہروں اور کئی اضلاع میں دارالامان قائم ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، بہاولپور، اور دیگر اضلاع میں دارالامان موجود ہیں۔ تاہم، کچھ چھوٹے یا دور دراز اضلاع میں ایسی سہولیات محدود یا غیر فعال ہو سکتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں 36 دارالامان فعال ہیں۔

سندھ میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، اور لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں میں دار الامان موجود ہیں۔ سندھ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے ’’ویمن پروٹیکشن سیلز‘‘ اور دارالامان کو فروغ دیا ہے۔ تاہم، دیہی علاقوں میں ان کی تعداد محدود ہے۔

خیبر پختونخوا میں دارالامان پشاور، مردان، ایبٹ آباد، اور سوات جیسے اضلاع میں موجود ہیں۔ کے پی کے حکومت نے 2017ء میں ’’ویمن ایمرجنسی شیلٹرز‘‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا، لیکن ان کی ضلع سطح پر دستیابی محدود ہے۔

بلوچستان میں دارالامان کی سہولیات بنیادی طور پر کوئٹہ، گوادر، اور تربت جیسے شہروں تک محدود ہیں۔

دارالامان میں کس قسم کی خواتین، بچوں، اور بچیوں کو رکھا جاتا ہے؟

  • ایسی خواتین جو اپنے شوہر، سسرال، یا دیگر رشتہ داروں سے جسمانی، نفسیاتی، یا جنسی تشدد کا شکار ہوں، گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ 2009ء کے تحت ایسی خواتین کو قانونی تحفظ اور پناہ دی جاتی ہے۔
  • ایسی خواتین جو جبری شادی یا غیرت کے نام پر قتل کے خطرے سے دوچار ہوں، مثال کے طور پر ’’سیاہ کاری‘‘ یا ’’کاروکاری‘‘ کے الزامات کی وجہ سے خواتین دارالامان میں پناہ مانگتی ہیں ۔
  • عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا شکار خواتین کو دارالامان میں رہائش، قانونی امداد، اور نفسیاتی بحالی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
  • وہ لڑکیاں جو گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں اور بعد ازاں اہلخانہ اغوا کا مقدمہ قائم کرتے ہیں اس صورت میں بھی مذکورہ لڑکی کو عدالت دارالامان بھیجتی ہے۔
  • ایسی خواتین جن کے پاس کوئی خاندانی سہارا یا رہائش نہ ہو ۔
  • جن بچوں کے والدین فوت ہو چکے ہوں یا جنہیں خاندان نے چھوڑ دیا ہو۔ لیکن اس اصول پر تب عملدرآمد ہوتا ہے جب کوئی کیس میڈیا پر ہائی لائٹ ہوجائے اور حکومت پھر ایسے بچے یا بچی کو دارالامان بھیجتی ہے۔
  • ایسی بچیاں یا بچے جو گھر، اسکول، یا دیگر مقامات پر جنسی استحصال یا تشدد کا شکار ہوں، مثال کے طور پر ایک رپورٹ کے مطابق قصور سکینڈل (2006ء-2014ء) جیسے واقعات کے متاثرین کو دارالامان یا اس سے ملتی جلتی پناہ گاہوں میں رکھا گیا ۔

زیادہ تر کیسز میں عدالت ہی کسی بچے بچی یا خاتون کو دارالامان بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ کچھ دارالامان خصوصی اداروں (جیسے بھکر میں گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ فار سلو لرنرز) کے ساتھ مل کر معذور بچوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

شرائط رہائش

عمر کی حد:

عام طور پر دارالامان میں 18 سے 60 سال کی خواتین کو رکھا جاتا ہے، لیکن کچھ اداروں میں عمر کی پابندی لچکدار ہوتی ہے۔

قانونی تقاضے:

دارالامان میں داخلے کے لیے پولیس رپورٹ، عدالت کا حکم، یا سماجی بہبود کے ادارے کی سفارش درکار ہوتی ہے ۔

مدت قیام:

رہائش کی مدت عارضی (چند دنوں سے چند ماہ) یا طویل مدتی ہو سکتی ہے، جو کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ کچھ خواتین کو مستقل بحالی (جیسے نوکری یا دوبارہ شادی) تک رکھا جاتا ہے۔

سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ ، صوبائی حکومت اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے اپنے لمبے چوڑے وفد کے ہمراہ ان جگہوں کا دورہ روٹین کا حصہ ہے ۔ کئی دفعہ تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جہاں ان لڑکیوں اور بچیوں کو بھی اس وفد کے سامنے لایا جاتا ہے۔

بچے بچیوں اور خواتین کے وہاں غیر محفوظ ہونے کے ایشو سے متعلق سب سے پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ وہ نو مسلم جو اسلام قبول کرتے ہیں اور بعد ازاں انکے اہلخانہ الزام عائد کردیتے ہیں کہ انکی عمر کم ہے یا ان سے جبراً اسلام قبول کروایا گیا، ایسے نو عمر افراد یا خواتین کو بھی عدالت دارالامان بھیج دیتی ہے۔ آپ خود ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ جو لڑکی یا خاتون اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب کی ناراضگیاں، دشمنیاں مول لے کر ، اسلام قبول کررہی ہے اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالامان میں آکر معلوم ہو کہ یہاں اس کی عزت بھی محفوط نہ رہ سکے گی تو اس پر کیا گزرے گی؟ اور اس کا قصوروار کون ہوگا ؟ اور یہ ایک واحد مصیبت نہیں ہے جو نو مسلموں کو کلمے کے نام پر بنے اس ملک میں بھگتنی ہے ۔ عیسائیت ترک کر کے مسلمان ہونے والے عبدالوارث گل ایسے نومسلموں کی کہانیاں نہایت دکھ اور کرب سے سناتے ہیں ۔ جنہیں صرف اپنے عزیز و اقارب اور برادری کی طرف سے ہی ظلم و جبر کا سامنا کرنا نہیں پڑتا بلکہ اپنی دستاویزات ، جائیداد، شناختی کارڈ ، پاسپورٹ اور دیگر معاملات میں ریاستی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس نے کوئی جرم کیا ہو۔

اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں قائم مختلف دارالامان پر لگنے والے ان سنگین الزامات اور ان مسائل کے باوجود اسے مذہبی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیونکر نظرانداز کیا جاتا ہے؟ میں نے اپنے ایک عزیز سے، جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ماتحت ایک فلاحی ادارے میں کام کرتے ہیں، یہی سوال کیا کہ آپ حضرات کی تو پہنچ ہوسکتی ہے ایسے اداروں تک تو آپ کی جانب سے کوئی کوشش کیوں نہیں ہوتی اس برائی کی روک تھام کے لیے؟ تو ان کا جواب بھی کچھ حیران کردینے والا اور افسوسناک تھا ۔ وہ کہتے ہیں:

’’ہماری مذہبی جماعت کو مختلف جگہوں پر رسائی دے کر جن فلاحی کاموں کی اجازت دی جاتی ہے اس سے مقصود اس نظام کا ہم پر احسان کرنا ہوتا ہے۔ یہ تعین ہمارا نظام ہی کرتا ہے کہ کہاں ہمیں رسائی ملے گی کام کی اور کہاں نہیں؟ یہ نظام ایسی جگہ ہمیں کیونکر رسائی دے گا جہاں انہیں اپنے جرائم کے بےنقاب ہونے کا خدشہ ہو؟ جن سہولیات اور اشیاء کا دینا حکومت یا ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ خردبرد ہوجاتی ہیں اور وہاں مذہبی فلاحی تنظیموں کو آگے کیا جاتا ہے کہ وہ سامان فراہم کریں۔ وہ بھی خرد برد ہوجاتا پے۔ مثال کے طور پر جیلوں میں مذہبی فلاحی اداروں سے دوائیں ، اور دیگر اشیاء تقسیم کروائی جاتی ہیں۔ اب جو دوائیں جیل انتظامیہ فراہم کرنے کی پابند ہے وہ خردبرد ہونگی ، اور پھر جن دواؤں کو فلاحی تنظیموں سے تقسیم کروایا جائے گا اس کا بھی زیادہ حصہ خردبرد ہوجائے گا۔ اسی طرح قیدیوں کے جرمانے اور دیت کے لیے جرائم میں ملوث قیدیوں کی معاونت کے لیے ان مذہبی فلاحی اداروں پر کوئی روک ٹوک نہیں لیکن یہ فلاحی ادارے کسی ایسے شخص کی مدد نہیں کرسکتے جس کا جرم اسلام پسندی ہو ، جہاد یا کسی جہادی تنظیم سے تعلق ہو۔‘‘

میں نے موقع غنیمت جانا اور ان صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ موجودہ جمہوری نظام میں اپنی مذہبی سیاسی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ تو ان کا جواب خاموشی تھا ۔ کہنے لگے:

’’ایسا لگتا ہے یہ نظام ہماری توانائی، ہمارے وقت کا ایک بڑا حصہ ایسے کاموں میں لگوارہا ہے کہ اب ہمارے پاس اپنی جماعت کے کارکنوں کی کردار سازی ، عقائد کی پختگی اور ملکی و غیر ملکی حالات و واقعات کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ جو چیزیں کبھی ہمارے لیے معیوب اور ناقابل برداشت تھیں وہ کبھی سافٹ امیج اور کبھی ووٹ حاصل کرنے کے لیے درست لگنے لگی ہیں۔ ہماری پسند ناپسند ، دوستی دشمنی کے پیمانے اور معیار بدلنے لگے ہیں۔ کبھی ہم ووٹرز کو سمجھایا کرتے تھے کہ ہمارا امیدوار دیکھو کتنی بڑی علمی شخصیت ہے اور مقابلے میں فلاں امیدوار جاگیردار ہے آپ اسے ووٹ دوگے؟ آج ایسے افراد ہماری صفوں میں مقام پانے لگے ہیں۔ اور اتنا سب کچھ کرلینے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اس نظام کے اندر کوئی ترقی کی ہو۔ ہم نے عوام کی اصلاح کرنی تھی اس نظام کی اصلاح کرنی تھی اس کام سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں اور یہ نظام ہمیں بدلنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ یہ واقعی افسوس ناک ہے ۔‘‘

٭٭٭٭٭

Previous Post

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

Next Post

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

Related Posts

فراستِ مومن
نقطۂ نظر

فراستِ مومن

17 اگست 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
اوطان کی جنگیں
نقطۂ نظر

اوطان کی جنگیں

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

سلطان ٹیپو کی وصیت

17 اگست 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اکتیسویں نشست

17 اگست 2025
علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
Next Post
اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version