بات کا آغاز ایک چبھتے ہوئے جملے سے کرتے ہیں، کیونکہ اس سے کم کچھ نہیں چلے گا۔ اگر پاکستان میں بہادری کا کوئی دارالحکومت ہوتا، تو وہ راولپنڈی کے جنرل ہیڈکوارٹرز میں نہ ہوتا۔ یہ اس سویلین بحری جہاز کے ڈیک پر ہوتا جو غزہ کی طرف جا رہا ہے، جس پر پانچ پاکستانی،جن میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل ہیں، اپنے کمزور اور فانی جسموں کو اسرائیلی جنگی مشین کے سامنے لے جانے کی جرأت کر رہے ہیں، جو اپنی خون کی پیاس کے لیے بدنام ہے۔ یہ لوگ نادان نہیں ہیں۔ وہ ماضی کے فریڈم فلوٹیلا کے خوفناک انجام سے بخوبی واقف ہیں، جسے ایک ایسی ریاست نے بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا جو امدادی کارکنوں پر اسی آسانی سے گولی چلاتی ہے جیسے وہ امریکی ڈالروں سے خریدے گئے بموں کو پناہ گزین کیمپوں پر گراتی ہے۔ اور پھر بھی وہ جا رہے ہیں۔ نہ ٹینکوں کے ساتھ، نہ ڈرونز کے ساتھ، بلکہ آٹے اور ادویات کی بوریوں کے ساتھ۔ اور اس خوفناک عدم توازن میں، ان کی بہادری ہر اس تمغے کو شرمندہ کر رہی ہے جو کبھی کسی جرنیل کے سینے پر سجایا گیا۔
یہ تقریباً مضحکہ خیز ہے، اگر یہ اتنا المناک نہ ہوتا، کہ ان کا موازنہ پاکستانی جرنیلوں سے کیا جائے۔ یہ خود ساختہ بہادری کے دیوتا، جو ہر پریس بریفنگ میں ’’غیرت‘‘ کی قے کرتے ہیں، امریکی قالینوں پر اپنے بوٹ چمکانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ غزہ کے لیے ایک گولی، حتیٰ کہ ایک آواز بھی نکالنے کو تیار نہیں۔ اس کے بجائے، وہ واشنگٹن کے سب سے متعصب صہیونیوں کو تمغے بانٹتے ہیں، جیسے ہولوکاسٹ خود غزہ میں نہیں بلکہ راولپنڈی کے ضیافتی ہالوں میں دوبارہ جنم لے رہا ہو، جہاں جرنیل اپنے آقاؤں کے ساتھ جام ٹکراتے ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے تو انتہائی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے ’’ہولوکاسٹ ڈونلڈ‘‘ کہلائے جانے والے شخص کے لیے نوبیل امن انعام کی تجویز بھی دے دی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان جرنیلوں کی حسِ مزاح بھی ان کی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ آپریشن کر کے نکال دی گئی ہے۔
دریں اثنا، پانچ عام شہری، محض پانچ،پچیس کروڑ کی آبادی والے ملک سے، موت کے منہ میں جانے کو تیار ہیں تاکہ کم از کم یہ کہہ سکیں: ’’ہمارے نام پر نہیں‘‘۔ ان کا عمل ایک لحاظ سے حقیر بھی ہے اور دوسرے لحاظ سے بے پناہ عظیم بھی ہے۔ حقیر، کیونکہ وہ امریکی ہتھیاروں اور اسرائیلی جنون سے جاری نسل کشی کو ختم نہیں کر سکتے۔ عظیم، کیونکہ وہ پورے ریاستی نظام کے اخلاقی دیوالیہ پن کو بے نقاب کر رہے ہیں جس کی بہادری کی واحد تعریف اپنے ہی لوگوں کو کچلنا اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے جرم میں طلبہ کو جیلوں میں ڈالنا ہے۔
تصور کریں: ایک طرف عام شہری جو خستہ حال جہازوں پر امدادی سامان لے جا رہے ہیں، دوسری طرف،کلف لگی وردیوں میں جرنیل، واشنگٹن میں اپنے آقاؤں کی ناراضگی کے خیال سے کانپ رہے ہیں۔ ایک طرف، بغیر کسی انعام کی امید کے خطرہ، دوسری طرف، بزدلی میں لپٹی ’سلامتی‘ اور استعمار کی خدمت کے لیے سجائے گئے تمغے۔ اگر منافقت اولمپک کا کھیل ہوتی، تو پاکستان کے جرنیل پوری میڈل ٹیبل سمیٹ لیتے۔
اور میڈیا؟ ہاں، ہمارا بہادر ’’آزاد پریس‘‘۔ کہاں ہےاس فلوٹیلا، پاکستانی عزم کے اس اقدام، کی بھرپور کوریج ؟ کہیں نہیں! حاشیوں میں دبی دبی سرگوشیاں، پوری احتیاط کے ساتھ کہ کہیں وردی پوش بزدلوں کو شرمندہ نہ کر بیٹھیں، جن کا اگر حقیقی بہادری سے سامنا ہو گیا تو کہیں ان کے درآمد شدہ سگار ان کے حلق میں پھنس کر ان کا دم ہی نہ نکال دیں۔ بہرحال، کرکٹ اسکورز اور مشہور شخصیات کی شادیوں کی رپورٹنگ کرنا اس بات کو تسلیم کرنے سے زیادہ محفوظ ہے کہ پانچ عام پاکستانی شہری فلسطین کے لیے وہ کر رہے ہیں جو پوری عسکری اسٹیبلشمنٹ نے دہائیوں میں نہیں کیا۔
یہ کوئی حادثاتی خاموشی نہیں ہے۔ جرنیلوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اصلی دشمن نہ اسرائیل ہے، نہ امریکہ، نہ ہی ہندوستان، بلکہ اصل دشمن خجالت ہے۔ صرف اپنے ایمان کے ساتھ تھوڑا سا سامان لے جانے والے عام شہریوں سے پیچھے رہ جانا ان مردوں کے لیے ناقابل برداشت ہے جو اپنے رئیل اسٹیٹ کے پورٹ فولیو کے وزن سے عزت کی پیمائش کرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کہانی کو دبا دیا جائے، اسے غائب کر دیا جائے، تاکہ لوگ یہ کڑوا سوال نہ پوچھیں کہ: ’’اگر پانچ آدمی جا سکتے ہیں، تو پچاس ہزار کیوں نہیں؟ اگر ایک سینیٹر اپنی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے، تو پوری فوج کیوں نہیں؟‘‘ یہ وہ سوالات ہیں جو تخت ہلا دیتے ہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ انہیں پوچھا ہی نہ جائے۔
امریکی، بلاشبہ، اس سب سے راضی ہیں۔ ان کے پاگل صہیونی حکمران، وہ مسکراتے ہوئے آرام دہ کرسی پر بیٹھے نسل کشی کے منصوبہ ساز، جو اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کے چیک اسی آسانی سے لکھتے ہیں جیسے وہ کافی آرڈر کر رہے ہوں، یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ پاکستان کی فوج ایک فرمانبردار ریاست کا کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ راولپنڈی کبھی بھی غزہ کو حقیقی مادی امداد بھیجنے کی جرات نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ، اقوام متحدہ میں چند مگرمچھ کے آنسو، اس کے بعد واشنگٹن کو یقین دلانے کے لیے ایک خاموش فوجی پریڈ کہ کچھ خاص نہیں ہو رہا۔ استعمار کو یہ جان کر اچھی نیند آتی ہےکہ اس کے کلائنٹ جرنیل سلوٹ مارنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس لڑنے کا وقت ہی نہیں۔
لیکن فلوٹیلا کچھ بدل رہا ہے۔ یہ ہتھیاروں کی طاقت نہیں ہے، اسرائیل ان جہازوں کو ایک دن میں ڈبو سکتا ہے، اور امریکہ تالیاں بجائے گا۔ یہ شرم کی طاقت ہے۔ ان پانچ پاکستانیوں نے غیرت پر بیان بازی اور اس پر عمل کے درمیان ایک خلیج کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سب سے اوپر بزدلی کا راج ہے، وہاں اب بھی زندہ ضمیر لوگ موجود ہیں جو تاریخ کے تقاضے پر ڈٹ جاتے ہیں۔
زیادہ رومانوی ہونا بھی ٹھیک نہیں۔ وہ فلسطین کو آزاد نہیں کروا سکتے، اورنہ ہی نسل کشی کرو روک سکتے ہیں۔ لیکن ان کا عمل ایک ایسی علامتی طاقت رکھتا ہے جو ان کی زندگیاں مجموعی طور پر بھی نہیں رکھتیں۔ وہ یہ احساس دلا رہے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ بڑے ہتھیار والوں کی نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھار صاف ضمیر والوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھا رہے ہیں کہ پاکستانی جرنیلوں کی حیثیت اپنی تمام اکڑ کے باوجود محض استعمار کے سکیورٹی گارڈز سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ عزت کے اصل محافظ وہ نہتے شہری ہیں جو خطرے میں جہاز چلا رہے ہیں۔
یہاں ایک ہلکا سا مزاح کا پہلو بھی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ یہ جرنیل اپنی پلازما اسکرینوں پر فلوٹیلا کی فوٹیج دیکھ رہے ہیں۔ ذرا ان کی گھبراہٹ تصور کریں: ان بلڈی سویلینز نے وہ کرنے کی جرات کیسے کی جو ہم نے نہیں کیا؟ وہ ہمیں شرمندہ کرنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ مردانگی دکھا رہے ہیں اور ہم صہیونیوں کے تمغے پالش کر رہے ہیں؟ یہ اس طرح کی کامیڈی ہے جو المیے کی سرحد پر کھڑی ہے، جیسے ایک شیر کو چوہے سے بھاگتے ہوئے دیکھنا۔
یوں یہ تضاد بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ ایک طرف پانچ مرد جن کے پاس کھونے کو اپنی جان کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف پوری فوجی مشینری جس کے پاس ضمیر کے سوا باقی سب کچھ ہے۔ پانچ مرد، جو جانتے ہیں کہ وہ اپنی موت کی جانب بڑھ رہے ہیں، پھر بھی وہ اس قربانی میں اپنے لیے معنی ڈھونڈتے ہیں۔ پانچ مرد، جن کی بہادری نے پہلے ہی اپنی قوم کے نام نہاد محافظوں کی بزدلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کا سفر اہم ہے۔ یہ صرف غزہ کو امداد پہنچانے کی بات نہیں ہے۔ یہ دراصل بہادری کے تصور کو ان سے چھین لینے کی بات ہے جنہوں نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ پچیس کروڑ کی قوم کو یاد دہانی کروانے کے لیے ہے کہ اصل عزت نہ پریڈ میں ہے، نہ تمغوں میں، نہ کرائے کے اتحادوں میں، بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہے، چاہے اس کی قیمت موت ہی کیوں نہ ہو۔
آخر میں فلوٹیلا تباہ ہو سکتا ہے، یہ رضاکار قتل ہو سکتے ہیں، اور اسرائیل اپنی خوفناک فہرست میں ایک اور ’’فتح‘‘ درج کر سکتا ہے۔ لیکن اخلاقی کھاتہ کھلا رہے گا، اور اس میں ان پانچ پاکستانیوں کے نام ہمارے جرنیلوں کے کندھوں پر سجے ستاروں کی پوری کہکشاں سے زیادہ روشن ہوں گے۔
جرنیلوں کے پاس ان کی بندوقیں ، ان کے تمغے، ان کے سرپرستی کے نیٹ ورکس، ان کے امریکی ویزے ہو سکتے ہیں، لیکن جو ان کے پاس نہیں ہے، اور جسے وہ جھوٹ اور ڈھونگ سے حاصل نہیں کر سکتے ، وہ ہے بہادری! پانچ مرد جو اندھیروں میں جہاز رانی کر رہے ہیں، انہیں ننگا کر چکے ہیں۔ اب کوئی پروپیگنڈا، صہیونیوں کو دیے گئے تمغوں کی کوئی مقدار یا ’’اسٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی گونجدار تقریریں، ان کے ننگے پن کو دوبارہ ڈھانپ نہیں سکتیں۔
آخری بات یہی ہے۔ قومیں اپنے جرنیلوں سے نہیں پہچانی جاتیں۔ وہ اپنے جوانمردوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ اور اس وقت پاکستان کے جوانمرد نہ راولپنڈی میں ہیں، نہ اسلام آباد میں اور نہ ہی ان عالیشان کنٹونمنٹس میں جو زمین پر دیمک کی طرح بکھرے ہوئے ہیں، بلکہ وہ کھلے سمندر میں ہیں۔ جہاں دوسرے بم لے کر جاتے ہیں وہاں وہ روٹی کے کر جا رہے ہیں، جہاں دوسرے خجالت لے کر جاتے ہیں وہاں وہ امید لے کر جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کا کوئی مستقبل ہے، جسے مستقبل کہا جا سکے، تو وہ انہی کے ساتھ ہے، نہ کہ ان بزدل جرنیلوں کے ساتھ جو ہتھیار ڈالنے کو حکمت عملی سمجھتے ہیں۔
یوں فلوٹیلا روانہ ہوتا ہے، خطرے کی طرف، تاریخ کی طرف، ایک ایسی قوم کے ضمیر کی طرف جو بہت پہلے بہادری بھلا بیٹھی تھی۔ شاید اب، آخر کار، وہ اسے دوبارہ پہچان سکے۔
[یہ مضمون ایک معاصر آن لائن جریدے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)
٭٭٭٭٭