ادھر قطر پر حملہ ہوا اور اُدھر قطر کی جگہ سعودیہ کے ساتھ پاکستان کا فوراً دفاعی معاہدہ ہوگیا۔ کیا ایسے معاہدے اس قدر جلدی ہوا کرتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ جب سے راحیل شریف کا سعودیہ میں ’’روزگار‘‘ لگا تھا، اُسی وقت سے اس پر اتفاق ہوچکا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا جب سعودی حوثی جنگ شروع ہوئی تھی تو سعودیہ نے پاکستان سے پوچھے بغیر اپنے اتحاد میں پاکستان کو شامل قرار دیا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک پریشان کن خبر تھی، اس لیے کہ اسے سرے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
اُس وقت ایران طاقتور تھا۔ شام، لبنان، یمن اور عراق ہر جگہ اس کی ملیشیائیں سرگرم تھیں۔ پاکستان کے لیے سعودیہ کے ساتھ مل کر حوثیوں کے خلاف جنگ لڑنا مشکل تھا۔ لہٰذا پارلیمنٹ کو بیچ میں ڈالا گیا اور اعلان کیا گیا:
’’ہم ہر مشکل میں سعودیہ کے ساتھ ہیں، لیکن یمن کے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
اس پر ابنِ سلمان سخت ناراض ہوا، دھمکیوں تک نوبت پہنچی، پاکستان کو قرض جلد ازجلد واپس کرنے کی بات بھی کی گئی اور یہ سب میڈیا پر آگیا اور یہ سب ریکارڈ پر موجود ہے۔
پاکستان سعودیہ کی ناراضگی کے سامنے زیادہ دیر مزاحمت نہ کرسکا۔ حوثیوں کو دبانا امریکہ اور اسرائیل کی بھی ضرورت تھی۔ بالآخر بائیڈن انتظامیہ بھی اس معاہدے کے حق میں ہوگئی اور یوں تینوں حکومتوں میں اتفاق ہوگیا۔
لیکن یہ میدان آسان نہ تھا، پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحد ہے اور وہ ایران کی دشمنی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا، لہٰذا موقع کا انتظار رہا۔
ایران اسرائیل جنگ میں ایران کمزور ہوا۔ شام، لبنان اور عراق کی ملیشیائیں ختم یا بہت کمزور ہوئیں۔ البتہ حوثی اب بھی باقی ہیں اور سعودیہ و اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اسرائیل پر ان کے حملے بھی جاری ہیں اور آپ دو دن پہلے حوثی لیڈر کا بیان سن لیں جس میں اُس نے سعودیہ کو کھلی دھمکیاں دی ہیں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہمیشہ ایک تھے اور ہیں۔ حوثیوں سے آج بھی خطرہ موجود ہے۔ ایران کمزور ہوچکا ہے اور امریکہ نے اس کا مزید گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ ایسے میں قطر پر حملے کے بعد پاکستانی عوام اور اہلِ دین کی آنکھوں میں دھول جھونکنا مزید آسان ہوگیا، اور یوں امریکہ ہی کی رضامندی سے فوراً بریکنگ نیوز آگئی کہ سعودیہ پاکستانی فوجی معاہدہ طے ہوگیا، ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا!
یہ معاہدہ اسرائیل و امریکہ کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مقصد وہی ہے جو امریکہ و اسرائیل سعودیہ میں چاہتے ہیں۔ یعنی:
سعودی باطل نظام کو مضبوط بنانا اور اسے حوثیوں اور اپنے ہی عوام (مجاہدین) سے محفوظ رکھنا۔
یہ ہمارا خیال ہے اور اس پر کئی دلائل موجود ہیں:
- سعودیہ کو اپنی پوری تاریخ میں امریکہ یا اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں رہا۔ کوئی ایک حملہ دکھا دیں جو اِن دونوں نے سعودی نظام کے خلاف کیا ہو؟ سعودیہ دراصل امریکہ کے زیرِ قبضہ ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ٹرمپ کے بیانات سب کے سامنے ہیں۔ اگر سعودیہ امریکہ کا غلام نہ ہوتا تو مفت میں اتنا بڑا سرمایہ (خراج) کیوں دیتا؟ سعودیہ ہی نہیں، قطر و امارات سب امریکی غلام ہیں۔
- اسرائیل کا نیتن یاہو آج ابنِ سلمان سے جتنا خوش ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ حماس کو ختم کرنے سے لے کر جزیرۂ عرب کو ’’مستقبل کا یورپ‘‘ بنانے تک سارا کام ابنِ سلمان اسرائیلی منصوبوں کے مطابق ہی کر رہا ہے۔ یہ کوئی خفیہ بات نہیں، اُس کے اپنے بیانات اور اقدامات اس پر شاہد ہیں۔
آخر میں پاکستانی عوام کے نیک جذبات کو سامنے رکھ کر عرض ہے:
ابنِ سلمان حرمین شریفین کا کتنا محافظ ہے؟! بیت اللہ کے مجسمے بنا کر اُن کے گرد امریکی فاحشاؤں کو نچوانا، حرمین کی زمین پر بدکاروں کو لا کر نمائشیں کروانا، سعودی نوجوانوں کو تباہی کے راستے پر ڈالنا، کیا یہ سب دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حرمین کی حفاظت کی فکر ہے؟ حرمین شریفین کی تقدس کا سب سے پہلا دشمن تو یہ ظالم خود ہے!
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو حرمین کی سرزمین کو ’’یورپ‘‘ بنانے کی مہم میں شریک کرلیا گیا ہے، نہ کہ دین و مقدسات کی حفاظت کے لیے! اور یہ سب کچھ امریکہ و اسرائیل کی خواہش اور منصوبے کے تحت ہے۔
ہم سے کوئی یہ نہ کہے کہ ہم حوثیوں کے خلاف نہیں۔ ایران اور حوثیوں کے متعلق ہمارا موقف سب کو معلوم ہے۔ ہم روافض کے دشمن ہیں۔ لیکن روافض دشمنی میں اسرائیل و امریکہ کے ایجنٹ بن جانا، حرمین کی سرزمین پر یہود کے ایجنٹوں کو مضبوط کرنا، یہ ہمارے لیے ناممکن ہے، یہ امت کے ساتھ ظلم ہے! یہی وہ جرمِ عظیم ہے جس کی ذمہ داری پاکستانی فوج کو دی گئی ہے۔
پاکستانی فوج وہاں تین کام کرے گی:
- حوثیوں کے خلاف سعودی نظام کا دفاع۔ (جو دراصل اسرائیل و امریکہ کے مفادات کا دفاع ہے۔
- جزیرۂ عرب کے مجاہدین کے خلاف سعودی و امریکی نظام کا دفاع۔
- ابنِ سلمان، امریکہ اور اسرائیل جو حرمین کی سرزمین پر بے دینی پھیلا رہے ہیں اور اسلام کی روح ختم کر رہے ہیں، ان کی مہم کو کامیاب بنانا۔
یہ سب پاکستانی جرنیل کریں گے، راحیل شریف برسوں سے کر رہا ہے۔ ان کا فائدہ جرنیلوں کو ہی صرف ڈالروں میں ہوگا، جبکہ امتِ مسلمہ پر امریکی اسرائیلی تسلط مزید بڑھے گا اور ارضِ حرمین شریفین میں شریعت کے خلاف جنگ مزید زور پکڑے گی۔
٭٭٭٭٭