غیرتِ دین، شجاعت، ہمت، ولولے اور دین پر عمل کے حوالے سے اس گئے گزرے دور میں بھی کبھی کہیں کوئی ایک نر بچہ وہ کر دکھاتا ہے کہ دوست کیا دشمن بھی اسے داد شجاعت دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ فلسطین کی الاقصی بریگیڈ کے نوجوان رکن ابراہیم نابلسی کی شہادت کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی فوج کے گھیرے میں وہ تن تنہا مجاہد کس بے جگری، کس بہادری ، کس ہمت اور جانفشانی سے آخری سانس تک لڑا اور اپنی جان اپنے رب کے سپرد کردی۔ وہ ابراہیم کہ جو آج کی دنیا کے معیار سے ابھی بچہ ہی تھا، ان کی عمر ابھی انّیس برس بھی نہ تھی کہ اسرائیلی فوج نے انہیں شہید کیا۔ اسرائیل کی بہترین اور جدید ترین اسلحے سے مسلح فوج بچوں سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ کبھی وہ سکول سے لوٹتے بچوں کا پیچھا کرتے کرتے ان کے گھروں میں داخل ہوکر انہیں اس قدر ہراساں کردیتی ہے کہ وہ خوف سے اپنی جان ہار جاتے ہیں، کبھی یہ فوج سڑک پر کھیلتے معصوم فلسطینی مسلمان بچوں کے کھلونے اٹھا کر لے جاتی ہے ، اور کبھی فلسطین کی عام آبادی پر وحشیانہ بمباری کرکے معصوم بچوں، خواتین اور املاک کو نشانہ بناتی ہے۔ ایسی ہی وحشیانہ بمباری میں چند ماہ قبل دس سالہ اریج کی آنکھ ضائع ہوگئی۔ یہ بچی اپنے گھر کے باہر کھیل رہی تھی اور موبائل سے اپنی سیلفی بنا رہی تھی کہ اسرائیلی فوج نے اس علاقے کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح گیارہ سالہ رہاف سلیمان وہ باہمت بچی ہے کہ اسرائیلی بمباری میں جس کی دونوں ٹانگیں اور دایاں بازو ضائع ہوگئے اور پھر بھی یہ کہتی ہے کہ میں اپنے سارے کام، لکھنا، ڈرائنگ کرنا دائیں ہاتھ سے کرتی تھی، امید ہے کہ اب میں بائیں ہاتھ سے یہ سب کرنا سیکھ لوں گی۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اب بھی اس نے اپنے خوابوں کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے پھسلنے نہیں دیا۔ اس بمباری میں رہاف کا بھائی بھی زخمی ہوا۔ مگر اسرائیلی فوج کو اپنے مظالم پر نہ کوئی افسوس ہے نہ ندامت۔ وہ جان بوجھ کر عام مسلمان فلسطینی شہریوں کو ہراساں کرتے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان پر بم برساتے ہیں تاکہ یہ مسلمان نسلیں ان کے ظلم کے خلاف اٹھنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ مگر فلسطینی مسلمانوں میں الحمدللہ دینی غیرت تاحال موجود ہے اور وہ نہتے ہوتے ہوئے پتھروں کے ساتھ سرتا پا لوہے میں غرق اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ جوں جوں اسرائیلی الیکشن قریب آتے جاتے ہیں اسرائیل کے بہیمانہ ظلم اور وحشیانہ بمباریوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ہر اسرائیلی سیاست دان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے اس کے ہاتھ زیادہ سے زیادہ فلسطینی خون سے رنگے ہوئے ہوں۔ یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی سیاست دانوں کا ووٹ بینک فلسطینیوں کے خون سے بڑھتا پھیلتا ہے۔ پھر اسرائیلیوں میں سے وہ جو اپنے آپ کو پرامن اور خداپرست کہتے اور سمجھتے ہیں، خود کوغیر صہیونی بھی کہتے ہیں اور اسرائیل کے صہیونی ایجنڈے پر تنقید بھی کرتے ہیں، وہی فلسطینی مسلمانوں پر بدترین تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ اسرائیلی فوج کی netzah yehudah کے نام سے موسوم بٹالین جو ہیرادی (قدامت پرست) یہودی فوجیوں پر مشتمل ہے، کے مظالم اس قدر واضح ہیں کہ ایک اسرائیلی وزیر تک نے اس بٹالین کو اس کے ظلم کی وجہ سے تحلیل کرنے کی قرارداد پیش کی۔ مذکورہ بٹالین مغربی کنارے کے مسلمانوں پرمظالم، تشدد اور بدترین جرائم میں ملوث پائی گئی؛ حالانکہ لفظ ہیرادی کا لفظی ترجمہ خاشعین، یعنی اللہ کے خوف سے لرزنے والا ہے!
ایک طرف تو ریاست اسرائیل کے مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں پر تشدد کا یہ حال ہے اور ان کے عوام کا حال یہ ہے کہ جب اسرائیل فلسطین پر بمباری کرتا ہے تو اسرائیلی مرد اور عورتیں کافی سفر کرکے ایک ایسے بلند مقام پر اکٹھے ہوجاتے ہیں جہاں سے فلسطین کا منظر واضح دکھائی دیتا ہے، یہ لوگ وہاں کھاتے پیتے مزے اڑاتے ہیں اور فلسطین پر برسنے والی بموں کی برسات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی عورتوں کی حجاب جلانے والی عورتوں سے ’ہمدردی‘ کا یہ حال ہے کہ وہ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کھڑی ہیں!نا صرف اسرائیلی عورتیں بلکہ بھارتی اداکارائیں اور مغربی ممالک کی بہت سی عورتیں بھی ان عورتوں کا ساتھ دینے کے نعرے بلند کررہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کافر عورتوں کو مسلمان کہلانے والی عورتوں سے یکایک اس قدر ہمدردی کیسے پیدا ہوگئی؟ وہ کیسے ان کا ساتھ دینے کے لیے کھڑی ہوگئیں؟ کیا واقعی انہیں ان کے ساتھ ہمدردی ہے اور ان کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں؟ اس قدر کہ مغربی ممالک کی عورتیں مکمل برہنہ ہوکر اپنے جسموں پر ان عورتوں کے حق میں نعرے لکھ کر سڑکوں پر نکل آئیں!!! نہیں! ایسا نہیں ہے۔ یہ ساتھ دینے کی آوازیں صرف اس وجہ سے بلند ہورہی ہیں کہ یہ عورتیں اپنے حجاب جلا رہی ہیں، اپنے کھلے بال لہراتے باہر نکل رہی ہیں، اپنی دینی اور معاشرتی اقدار سے بغاوت کررہی ہیں، …… اور کفر یہی تو چاہتا ہے کہ مسلمان عورت برہنہ ہو کر دنیا کے سامنے پھرے اور اسلام نے جن اخلاق و اقدار کا پابند اسے ٹھہرایا ہے انہیں چھوڑ کر توڑ کر مغربی عورت کی طرح شتر بے مہار ہوجائے۔ اسلامی معاشروں میں اگر کچھ فیملی سسٹم برقرا رہے، معاشرے کی کچھ اقدار ہیں تو اسی وجہ سے کہ مسلمان عورت شتر بے مہار نہیں بنی، اس نے اپنے آپ پر available ’دستیاب‘ کا ٹیگ نہیں لگا رکھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حجاب کا اختیار عورت کو دیا جائے کہ وہ اسے پہننا چاہتی ہے یا نہیں، اور اسے اس پر زبردستی لاگو نہ کیا جائے اور یہ احتجاجات اس زبردستی کے خلاف ہیں، تو پھر پوری دنیا میں حجابی عورتوں کے حجاب جو زبردستی اتروائے جارہے ہیں، بہت سے ملکوں نے عوامی مقامات، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے اور حجاب پہننے پر بھاری بھاری جرمانے اور سزائیں عائد کررکھی ہیں، بھارت جہاں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں، وہاں میسور (کرناٹکا) اور دیگر ریاستوں میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے …… تو اگر یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حجاب کی پابندی کروانا ایک زبردستی ہے تو حجاب اترواناکیا زبردستی نہیں ہے؟ اگر ایک کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے تو دوسری کے خلاف کیوں نہیں ! صرف اس وجہ سے کہ لباس کا اتارنا مغربی ایجنڈے کے حق میں ہے اور لباس کا پہننا اس کے خلاف! عریانیت کو آزادی سے موسوم کیا جاتا ہے اور لباس پہننے کو ظلم و زیادتی سے! اور پھر یہ بات کہ نسوانیت یا feminism کی حقیقت کو اگر دیکھیں تو یہ کہاں لکھا ہے کہ نسوانیت کی علم بردار عورتیں مکمل برہنہ ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں؟ نسوانیت کی تحریک تو عورتوں کے لیے مردوں کے برابر حقوق اور مواقع کا مطالبہ کرتی ہے (جائز اور نا جائز کی بحث سے قطع نظر)، پھر اگر مرد بھی اسی طرح مکمل برہنہ ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تو یہی عورتیں یہ کہیں گی کہ یہ جنسی ہراسگی ہے!!!خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!
دہائیوں قبل، جب ہم سکول میں پڑھا کرتے تھے تو کرسمس اور سردیوں کی چھٹیوں کی آمد پر کلاس میں جوش و خروش کا عالم تھا۔ ایسے میں ایک طالبہ نے ’انکشاف‘ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو اپنے گھر میں کرسمس مناتے ہیں۔ معصوم ذہنوں کو ہیر پھیر اور منافقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہٰذا ذہنوں میں کلبلاتا سوال فوراً ہی زبانوں پر آیا کہ کیا تم لوگ مسلمان ہو؟ ہاں ہاں ہم مسلمان ہیں،ہم عید بھی مناتے ہیں اور کرسمس بھی اور کرسمس کے دن ہمارے ابو سینٹا (کرسمس فادر) کا روپ دھارتے ہیں اور بہت سی چاکلیٹیں اور تحفے ہمارے لیے لاتے ہیں۔ اچھا! کیا تمہارے ابو عیسائی ہیں؟ کہنے والی نے کچھ نروس ہوتے ہوئے کہا، نہیں! وہ بھی مسلمان ہیں۔ دہائیوں بعد بھی وہ تاثرات، معصوم ذہن کا وہ انتشار اور حیرت کا وہ جھٹکا اپنی جزئیات کے ساتھ ذہن و دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہے۔ بچوں کا ذہن اور دل معصوم اور شفاف ہوتا ہے، آپ اس کی سلیٹ پر جو تحریر کریں، صحیح ہو یا غلط، وہ ثبت ہوجاتا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس ثبت شدہ کو کھرچنے کی کوشش کی جائے اور اس کے اوپر ایک نئی تحریر لکھی جائے مگر اس ثبت شدہ کو محو کرنا ممکن نہیں؛ وہ محفوظ رہتا ہے اور کسی نہ کسی موقع پر اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ لہٰذا مسلمان بچوں کے ذہن میں بھی اگر اللہ کی محبت، اسلام کی قدر اور اسلامی اقدار اور شعائر کا احترام نیز کفر و شرک سے نفرت اور ان کے شعائر سے بے زاری ڈال دی جائے تو وہ اس کے خلاف کچھ بھی سننا برداشت نہیں کرتا۔ اس دور میں بچے بچیوں میں معصومیت اس لیے باقی تھی کہ صرف ایک پی ٹی وی دیکھنے کو ملتا (جو اس دور میں آج کے مقابلے میں صاف ستھرے تفریحی پروگرام پیش کرتا تھا) اور انٹرنیٹ یا موبائل وغیرہ کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ یوں کالج تک پہنچتے بھی حال یہ تھا کہ چودہ فروری کا دن آیا تو کالج جاتے ہوئے دیکھا کہ جابجا سرخ پھولوں اور غباروں کی بہار نظر آرہی ہے، وجہ سمجھ نہ آئی، پھر بریک کے وقت میں معلوم ہوا کہ آج کالج کے گراؤنڈ میں جانے پر پابندی ہے، اردگرد دیگر طالبات سے وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ آج کالج کی چاردیواری کے پار سے غبارے اور اس قسم کی چیزیں اندر پھینکے جانے کا احتمال ہے، لہٰذا حفظ ما تقدم کے طور پر طالبات کے لیے کالج گراؤنڈ میں جانے پر پابندی ہے۔
بڑھتے بڑھتے آج یہ حال ہوا کہ مسلمان معاشروں میں مغربی اور مشرکوں کے تہوار جس جوش و خروش، جس اہتمام اور جس باقاعدگی اور باضابطگی کے ساتھ منائے جاتے ہیں ویسے شاید ان ملکوں میں بھی نہیں منائے جاتے کہ جو ان کا گڑھ اور ان تہواروں کا مسکن ہیں۔ رواں اور گزشتہ سال سرزمین حرمین میں جس طرح سے ہیلووین کا شیطانی تہوار منایا گیااور شیطان کو چڑھاوے چڑھائے گئے اور شیطان کے نام پر شیرینی تقسیم کی گئی اور شیطانی حلیوں کو اپنایا گیایہ کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ ایک طرف سعودی شاہی خاندان خود کو خدام حرمین کہلاتا ہے اور دوسری جانب حرم اور تاریخ اسلام سے منسوب قابل احترام مقامات کی حرمت پامال کرنے میں کوئی کسر اس نے اٹھا نہیں رکھی۔ان خدام حرمین نے حرم مکہ میں حج کے لیے آنے والے تمام حاجیوں کی درخواستیں منظور یا نا منظور کرنے کا ٹھیکہ ایک ایسی کٹّر مسلمان دشمن انڈین کمپنی کو دے دیا ہے کہ جس کا بی جے پی سے منسلک ہونا کسی طور ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ نتیجتاً بالخصوص مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے فریضۂ حج کی ادائیگی نہایت مشکل ہوچکی ہے۔ نیز ظلم کی کون سی قسم ہے کہ سعودی شاہی خاندان کا دامن جس سےپاک ہو؟ علمائے حق تو ان کے ظلم و ستم کی پاداش میں قید و بند یا سزائے موت کی صعوبتیں جھیل ہی رہے ہیں، اب وہ علما کہ جنہیں جدیدیت پسند سمجھا جاتا ہے، انہیں بھی قید میں ڈالا جارہا ہے۔ علما سے ایسی دشمنی کہ وہ اپنی ذات تک کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے مختار نہیں۔ مشہور قاری شیخ عبداللہ باسفر کو محض اس وجہ سے بارہ سال قید کی سزا سنا دی گئی کہ انہوں نے ترکی میں آیا صوفیہ میں نماز کی امامت کی پیشکش قبول کی۔ نیز امام کعبہ شیخ صالح الطالب کو دس سال قید کی سزا محض اس لیے سنائی کہ انہوں نے عوام کو سعودی عرب کی مغرب زدگی سے متنبہ کیا۔ سعودی عرب کے یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان اسلام کے خلاف باقاعدہ صف آرا ہے۔ اسلام اور اہل اسلام سےدشمنی اور دشمنان اسلام سے گاڑھی دوستی کے دعوے؛ اسرائیلی وزیر اعظم سے محبت کی پینگیں بڑھانا اور مسجد اقصیٰ اور فلسطینی مسلمانوں کے حال سے مکمل صرف نظر؛ اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کو مسجد نبوی سے جدا کرنے یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اور بظاہر اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں مانع صرف یہ بات ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جانب اپنے ناپاک ہاتھ بڑھانے کے لیے انہیں پوری مسجد نبوی تباہ کرنی پڑے گی۔ سعودی عرب کا متکبر شاہی خانوادہ، بالخصوص محمد بن سلمان یہ بات جان لے کہ اگر وہ تمام دنیا کی قوت، طاقت، پیسہ اور افرادی قوت بھی ساتھ ملالے تو بھی قیامت تک وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جانب جو بری نگاہ سے دیکھے گا اللہ رب العزت کی سب سے زیادہ غیور ذات اسے اس کے لشکروں سمیت بدترین انجام سے دوچار کرے گی۔ اللہ نے ان کی رسی کو ڈھیل دے رکھی ہے تو یہ منہ زوری دکھائے چلے جارہے ہیں اور جب اللہ رب العزت ان کی لگامیں کھینچیں گے تو یہ جہنم میں منہ کے بل جاگریں گے۔
ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم ہر حد کو پار کرتا جارہا ہے۔ ہندوؤں کی مسلمان دشمنی کے سامنےچادر اور چاردیواری کا تصور سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر پورے پورے محلوں میں خواتین کی بے حرمتی کرنا، مردوں عورتوں پر تشدد کرنا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا معمول بن چکا ہے۔ ہندو انتہا پسند اپنی نوجوان نسل کو ہر طرح کے ہتھیار اور لڑائی کے ہر حربے کی تربیت دیتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر عام ہونے والے ایک کلپ میں ایک ہندو اعلانیہ نہایت کم قیمت پر تلواریں بیچتے دیکھا جاسکتا ہے اور علی الاعلان وہ یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہر گھر میں یہ تلوار موجود ہونی چاہیے۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف تلواریں تیز کررہے ہیں، محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً، مسلمانوں کے گھر اور ان کی مساجد ڈھا رہے ہیں، بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کررہے ہیں اور مسلمانوں کی دینی شناخت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور یہ سب وہ ہندوستان میں ہی نہیں کررہے بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ان کی ایک مناسب تعداد جمع ہوجاتی ہے وہاں وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ برطانیہ میں تو ہندو براہ راست برطانوی سیاسی پارٹیوں کے منشور پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ برطانیہ کہ لیبر پارٹی کے ایک امیدوار نے جب کشمیر کے حق میں آواز اٹھائی تو ہندو ووٹروں نے لیبر پارٹی کا بائیکاٹ کرکے اس پر اس قدر زور ڈالا کہ پارٹی کو اپنی پالیسی بدلتے ہی بنی کیونکہ برطانیہ کی کوئی سیاسی پارٹی بھی اپنے مضبوط ہندو ووٹ بینک سے ہاتھ دھونا گوارا نہیں کرسکتی۔ مسلمان ممالک اول تو خود ہی کفار و مشرکین کے سامنے بچھے چلے جارہے ہیں، جس کی ایک مثال قطر ورلڈ کپ ہے، اور مغربیت کی لہر میں ایسے بہے چلے جارہے ہیں کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں، اور اگر کچھ کسر باقی ہے تو اہل کفر اس کے بھی درپے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یہ کہتا ہے کہ میں نے سی آئی اے کے سربراہان سے یہ کہا کہ اسلامی ممالک میں اسلام کی بنیادیں کمزور کرنے کے لیے تمہیں سی آئی اے کے چھپ کر وار کرنے کے خاص طریقے کے استعمال کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم وہاں میڈیا جنگ لڑو۔ ان کی نئی نسلوں کو بیورلی ہلز کے شاندار مکانات، ہالی ووڈ کی چکاچوند دکھاؤ، کہ یہی سب سے مخرب اخلاق مواد ہے نسلوں کی تباہی کے لیے، مسلمانوں کے بچے یہی سب دیکھیں گے اور اسی طرح کے بہترین لباس، بہترین مکانات اور عیش و عشرت کی خواہش کریں گے اور تمہارا مقصد حل ہوجائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کفر کی منصوبہ بندی تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر ہمہ پہلو ہے، کیا مسلمانوں کو بھی اس کا ادراک ہے کہ وہ چومکھی جنگ کی زد میں ہیں؟ تمہارے اپنے اور پرائے سب ہی تمہارے خلاف اپنے اپنے داؤ کھیل رہے ہیں، کیا تم نے بھی ان کے داؤ انہی پر الٹانے کے لیے کچھ تیاری کررکھی ہے؟ کیا تم نے اپنی نسلوں کے ایمان ان کے اخلاق اور ان کی آخرت بچانے کے لیے کچھ منصوبہ بندی کی ہے؟ ذرا سوچو تو!!!
٭٭٭٭٭