یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
حساب ابھی باقی ہے……شیخ حامد کمال الدین نے لکھا
Biden: This was an attack against the civilized world
دیکھا ہے تمہارا civilized چہرا بھی……
یہ امت اپنا بدلہ نہیں بھولتی، سب گِن گن کر رکھ رہی ہے۔
کوئی زندہ قوم اپنے بڑوں کا خون نہیں بھولتی حالیہ #بیت_المقدس کارروائی …… ایک فلسطینی پوتا #خيري_علقم ۱۹۹۸ء میں صہیونی حائیم فلرمین کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے دادا #خيري_علقم کا بدلہ لینے میں کامیاب۔ اس کے ساتھ ۱۲ صہیونیوں کو لقمۂ اجل بنا کر جام شہادت نوش کرگیا!
ایک لا حاصل میراتھن…… فیض اللہ خان نے لکھا
زندگی کی میراتھن میں، خواہشات کے جال میں، عارضی سکون کی تلاش میں کہیں ایمان پیچھے نہ رہ جائے۔ سائنس کیا کہتی ہے؟ دنیا ترقی کے کون سے مدارج طے کرچکی اس ہنگامے میں یہ بھول گئے کہ غیب پہ ایمان لائے تھے…… جنت دیکھی نہ جہنم، خدا دیکھا نہ فرشتے، عذاب دیکھا نہ ثواب کا بدلہ، مقصد حیات اس کی عبادت تھی، توحید کا پیغام آگے پہنچانا تھا۔ مگر ہم اسلام کو مغرب کی عینک سے دیکھنے لگے۔ سائنس کے زاویوں پہ پرکھنے لگے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جستجو نے تنہا کردیا ہے۔ آدمیت، احترام، غم گساری، مادیت کے فریب میں مبتلا ہے عجب فسوں ہے۔ سحر نے سب کو جکڑ رکھا ہے ، حقوق خدا کے یاد رہے نہ بندگان خدا کے۔ دنیا پانے کی حسرت دلوں میں ٹیس بن کر ابھرتی ہے ایسے میں وہ ابدی صدا سنائی دیتی ہے کہ کامیاب درحقیقت وہ ہے جو آتشِ دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کردیاگیا یا پھر تم ہر گز نیکی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک قیمتی ترین چیز قربان نہ کردو۔ خواہشات کے حصار میں گھرے لوگ اور ان کی دنیا میں موجود نظریاتی انسان کتنے قیمتی ہوتے ہیں اور پھر ان میں سے جسے خدا نے اپنے کام کے لیے چن لیا اس کی خوش بختی پہ سوائے رشک کے کچھ نہیں کیا جاسکتا ، ہجرت کا یہ دلکش سفر نصیب سے ہی نصیب ہوتا ہے……
اصحاب کہف تا اخدود ، سیکھنے سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر دنیا کہاں چھوڑتی ہے اس دن کی تیاری کے لیے جہاں کا بلاوا کب کیسے کہاں آجائے؟ علم نہیں ۔
واقعی کامیاب وہ ہے جو آتش دوزخ سے بچا لیا گیا اور بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے حق کی تلقین و صبر کی تاکید کرتے رہے۔
خدا کے بھیجے گئے پرچے اور اس کے سوالات جوابات کے ساتھ موجود ہیں بس کمی ہم میں ہی ہے جو حل شدہ پرچہ چھوڑ کر لا حاصل میراتھن میں پڑ گئے ، خواہشات نفس کی پیروی میں برباد ہوگئے۔
سات لاکھ قبطی……خالد محمود عباسی صاحب نے لکھا
پاکستان کی کہانی چند لاکھ قبطیوں اور پچیس کروڑ بنی اسرائیل کے گرد گھومتی ہے۔
یہ غلام جسے موسیٰ سمجھ کر امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں وہ ہر دفعہ سامری ثابت ہوتا ہے۔ ایک سامری کی جگہ دوسرے کی تعیناتی قبطیوں کے عیش کو برقرار رکھنے کے لیے غلاموں کا کچومر نکالنے کے لیے ہی ہوئی ہے۔
آزاد قوموں کے معاہدات(افغانستان چین تیل نکالنے کا معاہدہ)……ہارون بلخی نے لکھا
قرارداد کی شرائط
انجینئرز و مزدور افغان ہوں گے، اگر باہر سے آئیں گے تو تنخواہیں افغان مارکیٹ کے مطابق دی جائیں گی۔
۳۰۰۰ افغانوں کے لیےکام کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
تمام اخراجات اور پروسس کاعمل افغانستان میں کیا جائیگا ۔
قرارداد ایک سال تک آزمائشی رہے گے، اگر راضی رہے، تو جاری، ورنہ لغو کی جائے گی۔
اب عاصم منیر کی باری؟؟؟……مہتاب عزیز نے لکھا
کے پی کے پولیس کے اہلکار پولیس لائن دھماکے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر افسران کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے اب بھی سراپا احتجاج ہیں۔
اے پی ایس سانحے کے بعد فوج نے اچانک ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ شروع کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل باجوہ نے ’’آپریشن رد الفساد‘‘کا آغاز کیا۔ ان آپریشن میں دعوے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے کیے گئے۔ لیکن عملاً پاکستانی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
آج ایک ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے، متوسط طبقے کے پاکستانی کے لیے جینا عذاب بن چکا ہے۔
دوسری جانب پرویز مشرف، پرویز کیانی، راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ ادوار کے سارے کے سارے جنرل کرنل آج کروڑوں اربوں کھربوں کے مالک ہیں۔
اب پشاور پولیس لائن مسجد کے بعد ایک بار پھر فوجی آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
لیکن کے پی کے پولیس کے اہلکار دہشت گردی کے خلاف احتجاج میں وہ نعرے لگا رہے ہیں جن کے بارے میں ’’آئی ایس پی آر‘‘ بتاتا تھا کہ انہیں لگانے والے ’’را‘‘ کے فنڈڈ ایجنٹ ہوتے ہیں۔
پھر ریاستی رٹ چیلنج ہو جائے گی…… اسماعیل بہزاد نے لکھا
کل اگر نقیب اللہ محسود کی برادری بندوق اٹھا کر راؤ کا سینہ اس کے ساتھیوں سمیت چھلنی کر دے، تب ریاست کی غیرت جاگ جائے گی ۔ لفافیے انہیں دہشت گرد کہیں گے۔ مراثی میڈیا کو ظلم کی ایک داستان مل جائے گی۔ تبصرے اور ٹاک شو ہوں گے۔ ’’قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے تھا‘‘ کے راگ الاپنے لگیں گے۔
جملہ بازی……حافظ طیب نے لکھا
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ
پاکستان نور ہے اور نہ خدا کے رازوں میں سے کوئی راز ہے۔ یہ لاقانونیت، بدانتظامی، کرپشن، منہ زور اداروں، بیروزگاری اور بھک مری کے عذابوں میں مبتلا دنیا کا ایک خطہ ہے۔ہماری بربادی میں ان روحانی پیشن گوئیوں اور جملے بازیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
خیمے صرف دو ہیں اور بالکل واضح ہیں……ابو سفیان المغربی نے لکھا
سیکولرازم ہر دین کا احترام کرتا ہے سوائے اسلام کے،
ہر رائے کو آزادی دیتا ہے سوائے فتوے کے،
ہر لباس کا احترام کرتا ہے سوائے پردے کے،
اور ہر تعلق کا احترام کرتا ہے سوائے ایک سے زائد شادی کے جائز تعلق کے!
سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ ہو…… ڈاکٹر سید محمد اقبال نے لکھا
روزانہ تقریباً دس مرتبہ یہ مطالبہ سن رہا ہوں کہ طالبان اپنی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ کرنے کو یقینی بنائیں۔
اگر طالبان پاکستان سے یہ سوال کرے کہ تم نے بیس سال تک اپنی زمین اور ہوائی اڈے کس منطق اور اصول کے تحت امریکہ کے ہاتھوں ہمارے خلاف استعمال کر کے ہمارے لوگوں کو شہید اور شہروں کو تاراج کروایا اور کس قانون اور استثنیٰ کے تحت ہمارے سفیر کو ننگا کر کے امریکہ کے حوالے کیا تو پاکستان اس سوال کا کیا جواب دے گا ……؟
اگر ہم چاہیں تو…… عابی مکھنوی نے لکھا
ہم نے مشرقی پاکستان کو الگ کیا ، وہ ترقی کر گیا ۔ اس طرح تھوڑا تھوڑا کر کے ہم پورے پاکستان کو ترقی دے سکتے ہیں۔
سجیلے جواں…… محمد طلال نے لکھا
ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مارکیٹیں خالی پڑی ہیں لوگ اسٹریٹ کرائم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے کچھ بہادر سپوت جامعہ حفصہ کی بہنوں کو ستانے، اذیت دینے میں مشغول ہیں……!
لیکن طالبان کا اس مغرب زدہ نظام تعلیم پر پابندی لگانا زیادتی تھی!!!
انصار عباسی نے لکھا
تشدد کرنے والی لڑکیوں کی زبان کی گندگی دیکھیں یا اُن پر منشیات کے استعمال کا الزام، جو اس واقعے کا سبب بنا ۔ یہ اس گلے سڑے تعلیمی نظام کی خرابیوں کی چند نشانیاں ہیں جو ہماری نسلوں کو بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ہمارے اکثر انگریزی میڈیم اسکولوں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کا بچوں کو ماڈرن ( مغرب زدہ) بنانے اور ماڈرن دکھانے پر سارا زور ہے جبکہ تربیت اور کردار سازی کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔
٭٭٭٭٭