زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)
فکری غلامی اور صلاحیتوں کی کمی – اسلامی نظام کے عدم نفاذ کے دو بڑے اسباب:
مجاہدین کی قربانیوں اور جہاد کے بعد، نوآبادیاتی اور استعماری طاقتوں کے نکلنے کے باوجود، افغانستان اور عالمِ اسلام کے دیگر خطوں میں اسلامی نظام کیوں قائم نہ ہو سکا؟ اس کے دو بڑے اسباب تھے جنہیں ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:
پہلا سبب:
نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنے جانے سے پہلے ایسے افراد کو تیار کیا تھا جو ان کے وفادار اور ان کے نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھنے والے تھے۔ ان کے پاس انتظامی تجربہ اور مغرب سے وفاداری دونوں موجود تھیں۔ استعمار کے انخلاکے بعد یہی لوگ اقتدار میں لائے گئے۔ ان لوگوں نے مجاہدینِ آزادی کے ساتھ غداری اور خیانت کی، اور ایسی حکومتیں مسلط کیں جو اسلامی نظام کے راستے میں خود استعمار سے بھی زیادہ مکار اور منافق ثابت ہوئیں۔ ان کے طویل اقتدار کے باوجود نہ اسلامی نظام نافذ ہوا، نہ حقیقی آزادی حاصل ہو سکی۔
دوسرا سبب:
دینی اور جہادی حلقوں نے خود اسلامی نظام چلانے کی صلاحیت حاصل نہ کی تھی، اور نہ انہوں نے جنگ کے بعد کی صورتحال کے لیے افراد تیار کیے تھے۔ آج بھی ہمارے اکثر فاتحین، جو زیادہ تر دینی مدارس سے وابستہ ہیں، اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ کیونکہ ان کے نصاب میں نہ تو انتظامی اور حکومتی علوم شامل ہیں، نہ معاشرتی و سیاسی قیادت کے لیے تربیت، نہ کفری ادیان و افکار کا علمی رد، نہ اسلامی نظام کی تعریف و تفہیم، نہ جہادی فکر کی تشریح، نہ دشمن کی شناخت، نہ دعوت و تبلیغ اور جہادی ادب و تحریر کا علم، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیاسی و عسکری قیادت، دعوت، تبلیغ اور سفارت کاری پر کوئی نصاب۔ اس کے علاوہ امت کے عظیم رہنماؤں، فاتحین اور علماء کی تاریخ اور کارناموں سے سبق سیکھنے کے لیے بھی کوئی مواد فراہم نہیں کیا جاتا۔
اگر اسلامی نظام کے دینی تعلیمی نصاب میں شرعی اور لغوی علوم کے ساتھ ساتھ وہ ضروری عصری علوم شامل نہ ہوں جن کا اوپر ذکر ہوا، تو ایسے نصاب سے فارغ التحصیل افراد سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک مضبوط اسلامی نظام کو کامیابی سے چلا سکیں گے؟
لہٰذا، اگر ہم پھر سے ماضی کی ناکامیوں سے دوچار نہ ہوں، ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کو مکمل طور پر ذہن نشین رکھیں، اور یہ حقیقت سمجھیں کہ ہمارا جہاد، قربانیاں، شہادتیں، قید و بند اور مشکلات سب اس مقصد کے لیے تھیں اور ہیں کہ اسلام کو سربلند کیا جائے، شریعت کا نفاذ ہو، مسلمان ظلم سے نجات پائیں، اور شریعت کے سائے میں امن و سکون کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کر سکیں۔
ہمارے فاتحین کو چاہیے کہ وہ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے اپنے تعلیمی نصاب میں وسعت پیدا کریں، اور عصرِ حاضر کے تقاضے اس میں شامل کریں۔ بصورتِ دیگر، نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم ایک ایسی پسماندہ اور دین و دنیا کے بارے میں سطحی سوچ رکھنے والی قوم کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے، جو دوسروں کی محتاج ہو گی، یا پھر ماضی کی وہی ناکامیاں اور تلخ تجربے دوبارہ دہرائے جائیں گے۔
دینی مدارس کے لیے نصاب سازی کوئی معمولی یا سادہ معاملہ نہیں کہ چند افراد، جو خود نصاب سازی کے ماہر بھی نہ ہوں، جمع ہوں اور محض اپنے ذوق یا ذاتی تجربات کی بنیاد پر چند لغوی اور دینی کتابوں کو بغیر کسی تنقیدی جائزے کے نصاب کا حصہ بنا دیں، یہ دیکھے بغیر کہ آیا یہ کتابیں عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی دینی، فکری، اخلاقی، ادبی اور معاشرتی ضروریات پوری کرتی ہیں یا نہیں؟
ہر دور کے دینی مدرسے کے لیے نصاب تیار کرنا، درحقیقت، اس زمانے اور اُس ملک کے تمام مسلمانوں کو دین کی تعلیم دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا، مضامین کے انتخاب اور ان کے باہمی توازن کے لحاظ سے انتہائی دقت و احتیاط سے کام لینا چاہیے، اور یہ نصاب زمانے کی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے عوام کی ہمہ جہت اور فکری تربیت کا لحاظ کرتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کے تحت تشکیل دینا چاہیے۔
دینی مدارس کا نصاب ایسے ماہر علماء کے ذریعے تیار ہونا چاہیے، جو شریعت کے مقاصد اور اہداف سے واقف ہوں، زمانے کی نبض پر دسترس رکھتے ہوں، اور امت کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں۔ یہ ماہرین تعلیم و تالیف کے میدان میں جدید تدریسی طریقوں، معاصر کتابوں اور علوم سے بھی آشنا ہوں، اور انہیں زبان، جدید ادب اور معاصر تحریر و ابلاغ کے فنون پر بھی عبور حاصل ہو۔ کیونکہ زبان اور ادب مفاہیم کے ابلاغ و فہم کے بنیادی ذرائع ہوتے ہیں۔
مزید برآں، ان علماء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم پر بھی عبور حاصل ہونا چاہیے، تاکہ وہ دینی و دنیاوی علوم کے درمیان ایسا ربط قائم کریں جس میں دینی علوم، دنیاوی علوم کی راہنمائی کریں۔ یوں اس فکری اور انقلابی دور میں مدارس کو ایک ایسا مضبوط، عصری تقاضوں کے مطابق، دین کے مقاصد کو واضح کرنے والا، اور دورِ حاضر کے چیلنجز کا مؤثر جواب دینے والا نصاب فراہم کیا جا سکے، جس سے ایک ایسی نسل تیار ہو جو حقیقی معنوں میں اسلامی نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
علمی طور پر جہادی کارناموں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت
آج جبکہ ہمارے عوام نے، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں، دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت (امریکہ) کو شکست دی اور پورا ملک اُس کے تسلط سے آزاد ہوا، تو لازم ہے کہ قوم میں جہادی سوچ اور جذبے کو مضبوط کیا جائے، اُسے پروان چڑھایا جائے، اور جہادی کارناموں کو منظم انداز میں محفوظ رکھا جائے۔
کیونکہ جہادی فکر کو زندہ رکھنا اور اس کی ترویج نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک ضرورت بھی۔ اگر یہ فکر ہم سے چھن گئی، تو ہمارا دین، وطن اور قوم بڑے نقصانات اور خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
اسی اہمیت کے پیشِ نظر، اسلامی نظام کے ذمہ داروں کی خدمت میں ایک ابتدائی تجویز کے طور پر جہادی فکر اور کارناموں کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کی خاکہ درج ذیل سطور میں پیش کی جا رہی ہے:
جہادی فکر اور کارناموں کی حفاظت اور فروغ کے لیے ایک ابتدائی خاکہ:
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک طرف اگر جہاد کی کامیابی، وطن کی آزادی، اور اس میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے مسلح قتال اور سیاسی عمل ضروری ہیں، تو دوسری طرف جہاد کی فکری، سیاسی، عسکری اور سماجی کامیابیوں کو محفوظ رکھنا، انہیں ضائع ہونے سے بچانا، اور مزید فروغ دینا بھی نہایت ضروری ہے۔
خصوصاً فتنوں کے اس دور میں، یہ مقدس جہادی فکر اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے قیمتی نتائج ایک عظیم امانت ہیں، جنہیں ایک منظم اور مؤثر طریقے سے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا لازم ہے۔
جس طرح مسلح جہاد کو کامیابی سے آگے لے جانے کے لیے مکمل اسلحہ جاتی تیاری اور تربیت یافتہ، تجربہ کار مجاہدین کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح جہادی فکر اور عمل کے نتائج کو محفوظ رکھنا اور انہیں فروغ دینا بھی ایک مسلسل اور مربوط عمل ہے، جس کے لیے ایک منظم اور وسیع نظام اور اسلامی فکر پر تربیت یافتہ، صابر، پُرعزم، زمانے کی ضروریات سے باخبر اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ٹیم کی ضرورت ہے، ایسی ٹیم جو ابھی تک منظم انداز سے اسلامی نظام کے ڈھانچے میں موجود نہیں۔
لہٰذا، ان مذکورہ بالا مقاصد کو منظم اور مؤثر انداز میں حاصل کرنے کے لیے ایک مستقل تحقیقی اور علمی ترقیاتی مرکز کا قیام ضروری ہے، جس پر اسلامی نظام کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں توجہ دی جانی چاہیے۔
منصوبے کی تفصیلات:
مرکز کا نام: جہادی فکر اور عمل کو محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کا تحقیقی و علمی مرکز (یا کوئی اور موزوں نام منتخب کیا جائے)
مرکز کی شاخیں:
یہ مرکز درج ذیل تین اہم شاخوں پر مشتمل ہو گا:
- جہادی فکر اور عمل کے نتائج کو محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کی شاخ
- تحقیقی مرکز اور ماہرین (تخصص رکھنے والوں) کا بورڈ
- ادبی تحریر اور صحافت کی تربیت کے لیے معاصر اکیڈمی
شاخوں کے کام کی تفصیل:
- جہادی فکر اور عمل کے نتائج کو محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کی شاخ:
- ہمارے جہاد سے متعلق لکھی گئی کتب، تحقیقات، اعداد و شمار، رسائل اور دیگر تفصیلی معلومات کو جمع کرنا، منظم کرنا، محفوظ رکھنا اور فروغ دینا۔
ان معلومات کو محفوظ رکھنا، درحقیقت مکمل جہادی فکر کو محفوظ رکھنا ہے، اور اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ ہماری قیمتی فکری اور علمی میراث کے ضائع ہونے کے مترادف ہے۔ یہ عظیم علمی و تاریخی سرمایہ مستقبل میں اس قوم کے اسلامی تشخص کو مضبوط بنانے، اس کی حفاظت، تاریخ نویسی اور نئی نسل کی تربیت کے لیے مختلف طریقوں سے کام آ سکتا ہے۔
- جہاد سے متعلق تمام تصویری، ویڈیو اور صوتی مواد کو جمع کرنا، منظم کرنا، فنی انداز میں محفوظ بنانا اور اسے فروغ دینا۔
یہ بصری اور سمعی ذخیرہ مستقبل میں جہاد، دعوت، تعلیم، ثقافت، تاریخ نویسی اور میڈیا کی سرگرمیوں میں مختلف انداز سے استعمال ہو سکتا ہے۔
- امریکی قبضے کے خلاف جہاد میں شہید ہونے والے تمام افراد کا منظم اور تفصیلی اندراج کرنا، اور ’’کتاب الشہداء‘‘ کے نام سے اسے کئی جلدوں میں ڈیجیٹل (کمپیوٹری) اور طباعتی شکل میں مرتب کرنا۔
یہ عمل ایک طرف تو شہداء کی مکمل فہرست اور ان کی قدردانی کا ذریعہ ہو گا اور دوسری طرف نئی نسلوں کو جہاد اور شہادت کے مفاہیم سے جوڑنے کا وسیلہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر شخص اپنے شہیدوں پر فخر کرے گا، ان کے نام تلاش کرے گا، اور یہ کتاب سیاسی، ملی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مستند اور معتبر دستاویز ثابت ہو گی۔
- سینکڑوں ہزاروں زندۂ جاوید جہادی داستانوں، معرکوں اور مجاہدین کے کرامات پر مبنی واقعات کو مستند طور پر جمع کرنا، تحریر کرنا، اور ڈیجیٹل و طباعتی شکل میں جلدوں کی صورت میں ترتیب دینا۔
یہ وہ داستانیں ہیں جو اب تک یا تو ان بہادر مجاہدین کے دلوں میں زندہ ہیں یا ہمارے عوامی حافظے میں محفوظ ہیں۔ اگر ہم ان سینکڑوں ہزاروں واقعات کو محفوظ نہ کریں تو ایک طرف ہم اپنے مسلمان عوام کی جہادی تاریخ اور شجاعت کو محفوظ نہ رکھ سکیں گے، اور دوسری طرف ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایسا فکری، ادبی، علمی اور تاریخی سرمایہ چھوڑنے میں ناکام رہیں گے جو انہیں اغیار کے افکار کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
جہادی داستانوں کی کتاب نہ صرف ہماری قوم کے لیے اس دور کی جہادی تاریخ کی ایک معتبر دستاویز اور عکس ہو گی، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے جہادی ثقافت کا ایک بڑا خزانہ اور رہنما بھی ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ، یہ کتاب دنیا کی بڑی طاقتوں کی شکست اور ان کے ارتکاب کردہ جرائم کے ایسے ناقابلِ تردید شواہد پر مشتمل ہو گی جن سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔ یہ دشمنوں کو یہ پیغام دے گی کہ وہ کبھی بھی اس سرزمین اور اس قوم کو زیرِنگیں نہیں لا سکتے۔
’’کتاب الاستشہاد‘‘ کی تدوین:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جہاد میں استشہادی کارروائیاں دیگر تمام کارروائیوں کے مقابلے میں زیادہ اہم تھیں اور ان کا دشمن پر بڑا عسکری اور نفسیاتی اثر ہوا۔ ان کارروائیوں کے بارے میں ایک جامع اور با مقصد کتاب مرتب ہونی چاہیے جو ایک طرف استشہادی مجاہدین کی تاریخ کو محفوظ کرے، ان کی قدر شناسی کرے، اور دوسری طرف استشہاد کی فقہ، فکر اور عملی پہلوؤں کو اجاگر کرے۔
ممکن ہے کہ افغان عوام مستقبل قریب میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اسلحہ، وسائل اور جنگی ساز و سامان حاصل نہ کر سکیں، لیکن اگر وہ اپنے جہادی اور عسکری عمل میں استشہاد کی فکر اور روح کو زندہ رکھیں، تو دنیا کی کوئی طاقت یہاں جارحیت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گی۔ استشہادی فکر اور عمل افغانوں کے لیے ایک ایسی ناقابلِ تسخیر اسٹریٹیجک طاقت بن جائے گی جو ہمیشہ مؤثر رہے گی۔
’’کتاب الاستشہاد‘‘کی تجویز کردہ تین بنیادی حصے درج ذیل ہوں:
- فقہی اور شرعی حصہ: جس میں استشہاد کی دینی حیثیت، اصول اور شرائط بیان کیے جائیں۔
- عملی حصہ: جس میں انجام دی گئی سینکڑوں استشہادی کارروائیوں کی تفصیلات اور ان میں حصہ لینے والے مجاہدین کا تعارف شامل ہو۔
- عسکری اور اسٹریٹیجک تجزیہ: جس میں ان کارروائیوں کا عسکری و تزویراتی (strategic) نقطہ نظر سے تجزیہ اور اثرات کی تشخیص کی جائے۔
اسلامی و جہادی فکر اور نوجوان نسل کی تربیت کے لیے نصاب کی تدوین اور علمی سرگرمیوں کا انعقاد:
اسلامی اور جہادی فکر کے فروغ، نیز آنے والی نسلوں کی اسلامی و جہادی تربیت کے مقصد سے تعلیمی نصاب کی تدوین اور وقتاً فوقتاً علمی و تحقیقی سیمینارز، کانفرنسیں، تربیتی نشستیں اور کورسز کا انعقاد بھی اسی مرکز کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
یہ سرگرمیاں اس لیے ناگزیر ہیں کیونکہ جس قدر آج دنیا بھر میں جہادی فکر کے خلاف منفی پروپیگنڈا، شکوک و شبہات پھیلانے کی کوششیں اور اس فکر کو مسخ کرنے کی سازشیں جاری ہیں، اُسی قدر ضروری ہے کہ علمی و فکری بنیادوں پر اس فکر کی حفاظت، پرورش اور اس کے حقانیت کی وضاحت کے لیے موثر سرگرمیاں کی جائیں۔
- تحقیقی مرکز اور ماہرینِ بورڈ کی ذمہ داریاں:
دنیا کے تمام ممالک میں ریاستی نظام بہتر حکمرانی، عوامی امور کی منظم دیکھ بھال اور سیاسی، عسکری، اقتصادی، سماجی، تعلیمی، فکری اور ثقافتی مسائل و چیلنجوں کے حل کے لیے تحقیقی مراکز قائم کرتے ہیں۔ ان مراکز میں مختلف شعبہ جات کے ماہرین متعلقہ موضوعات اور مسائل پر غور کرتے ہیں اور ان کے حل کے لیے اداروں کے اشتراک سے قابلِ عمل منصوبے اور پالیسیاں تیار کرتے ہیں، جنہیں متعلقہ حکومتی اداروں کو عمل درآمد کے لیے سونپا جاتا ہے۔
اسی طرح امارتِ اسلامیہ پر بھی، جو موجودہ غیر یقینی حالات میں جہاد، حکومت اور قوم کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے اور ملک کی آزادی و ترقی کے لیے کوشاں ہے، لازم ہے کہ وہ مختلف علمی و تکنیکی شعبہ جات میں اپنے ماہرین اور تجربہ کار افراد سے مشورے کرے اور علمی بنیادوں پر مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرے۔
لہٰذا، ایک منظم اور باصلاحیت علمی و فکری مرکز کا قیام امارت اسلامیہ کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
تحقیقی مرکز نہ صرف خود مختلف تجاویز اور حل کے طریقے تیار کرے گا، بلکہ ملک اور بیرونِ ملک مختلف ہمدرد شخصیات اور اداروں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز، مشوروں اور آراء کو وصول کرنے کے لیے ایک باقاعدہ اور ذمہ دار ادارہ بھی ہو گا، جس کے ذریعے یہ امور متعلقہ ذمہ دار اداروں تک پہنچائے جائیں گے۔
فی الحال ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسا کوئی واضح اور متعین مرکز یا جگہ موجود نہیں ہے جہاں لوگ اپنی تجاویز اور مشورے جمع کرا سکیں۔
ماہرین کا بورڈ ایک علمی اور غیر سیاسی ادارہ ہو گا، جس میں مختلف شعبوں کے اہل اور تجربہ کار ماہرین شامل ہوں گے۔ یہ بورڈ تحقیقی مرکز کا ایک ذیلی ادارہ تشکیل دے گا اور اس کے تمام امور کی نگرانی اور تنظیم مرکز کی عمومی انتظامیہ کے ذمے ہو گی۔
تحقیقی مرکز کے کاموں کی تفصیل اور ماہر بورڈ ارکان کے تعین کے لیے ایک مخصوص لائحہ عمل میں واضح طور پر معیار بیان کیے جائیں گے۔
- اہل افراد تیار کرنے کے لیے ادب و انشا پردازی اور صحافت کے کام:
آج کی دنیا میں نہ صرف پیغام رسانی کے ذرائع بدل چکے ہیں، بلکہ ذہن سازی کے طریقے، فکری ادب اور بیانیاتی ماحول بھی مختلف ہو چکے ہیں۔
آج دنیا کی غالب قومیں جدید میڈیا اور ترقی یافتہ مواصلات و صحافت کے ذریعے دیگر اقوام کو اپنے تابع بنا رہی ہیں، ان کے نظریات، عقائد، اخلاقیات اور ترجیحات کو بدل رہی ہیں اور انہیں اپنے پیچھے چلا رہی ہیں۔
اسی میدان میں استعمال ہونے والے جدید فنی ہتھکنڈوں اور مخاطب سازی کے نئے طریقوں نے سابقہ توازن کو بگاڑ دیا ہے اور اثر اندازی کے نئے اصول متعارف کروا دیے ہیں۔
یہ تمام امور ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم بھی اس میدان میں پیچھے نہ رہیں، بلکہ اپنے دینی و سیاسی افکار کو مؤثر اور ابلاغی انداز میں عوام تک پہنچائیں۔
بدقسمتی سے ہمارے دینی تعلیمی نصاب میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں میڈیا رائٹنگ، جدید اسالیبِ اثر و خطاب، سیاسی و سماجی علوم، زبان و ابلاغی ادب، موجودہ فکری و اعتقادی تحریکوں کی پہچان، عالمی میڈیا کا فہم، نفسیات، اور جہادی و انقلابی جدوجہد کے فنی طریقوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص گنجائش نہیں رکھی گئی۔
اسی کمی کی وجہ سے ہمارے دینی میدان کے تعلیم یافتہ افراد موجودہ حالات کے ساتھ مؤثر طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتے، جس کا فائدہ دشمنوں نے خوب اٹھایا اور عالمِ اسلام کے نوجوان نسلوں کو اپنے نظریاتی اثر میں لے لیا۔
اس خلا کو ایک حد تک پُر کرنے اور ساتھ ہی اپنے تحقیقی مرکز اور صوبوں میں اس کی شاخوں کو فعال بنانے اور چلانے کے لیے باصلاحیت، ماہر افراد پیدا کر سکیں، اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تحقیقی مرکز کے تحت جدید میڈیا و صحافت کے لیے ایک دو سالہ اکیڈمی یا تخصص کا انتظام کیا جائے۔
اس صحافتی اکیڈمی میں دینی مدارس کے باصلاحیت، ذہین فارغ التحصیل علماء کو مخصوص معیار کے مطابق شامل کیا جائے اور دو سال کے عرصے میں انہیں علمی و عملی تربیت دی جائے اور بعد ازاں انہیں مختلف امور کے لیے مقرر کیا جائے۔
دینی علوم کے فارغ التحصیل طلبہ کو اس اکیڈمی میں درج ذیل مضامین پڑھائے جائیں:
- جدید صحافت
- مادری زبان اور ادب
- فن خطابت
- غیر ملکی زبانیں (عربی و انگریزی)
- کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی
- اسلامی تاریخ، افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ
- دنیا شناسی اور عالمِ اسلام کی موجودہ صورت حال
- جدید صحافت اور موجودہ صحافتی ذرائع
- میڈیا سے متعلق فکری اور عقیدتی رجحانات
- بین الاقوامی سیاسی، عسکری اور اقتصادی معاہدات
- عمرانیات (سوشیالوجی)
- نفسیات
- انتظامی علوم
- قوانین
- بین الاقوامی تعلقات
جب نوجوانوں کی ایک نسل ان علوم کو حاصل کر لے گی اور ان مہارتوں میں تربیت پا لے گی، تو ہمارے ادارے ایک حد تک اپنے ضروری کاموں کے لیے تربیت یافتہ ماہر افراد کے حامل ہوں گے اور جہادی فکر و ثقافت کے فروغ کا عمل بھی پیشہ ورانہ انداز میں سر انجام پائے گا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭