محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلك واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’Islamic Boycotts in the Context of Modern War ‘ کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)
بائیکاٹ کا طریقۂ کار
بائیکاٹ کی فرضیت اور اہمیت سمجھ لینے کے بعد اب اس کے عملی نفاذ کے طریقۂ کار کی طرف بڑھتے ہیں ۔ ہر عبادت کی طرح، یہاں بھی پہلا قدم نیت کی اصلاح ہے:
اعادۂ نیت: بائیکاٹ معاشی جنگ کا حصہ ہیں
نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
إن اللہ عزوجل لا یقبل من العمل إلا ماکان له خالصا وابتغي به وجھہ۔1السلسلة الصحیحہ ۔۲۲۱۷
’’بیشک اللہ عزوجل صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو اسی کے لیے خالص ہو اور اس کی ذات کی تلاش کے لیے کیا گیا ہو۔‘‘
مزید فرمایا:
إنما الأعمال بالنیات2صحیح البخاری
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘
خالص اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر بائیکاٹ کے لیے نیت کی اصلاح کے ساتھ ساتھ بائیکاٹ کی حقیقت اور اس کے مقاصد کو سمجھنا بھی مددگار ثابت ہو گا۔ بائیکاٹ معاشی جنگ کے ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے، اور معاشی جنگ مکمل جنگ کا صرف ایک پہلو ہے، جس میں انٹیلی جنس جنگ، نفسیاتی جنگ، سیاسی جنگ، براہ راست جنگ اور الیکٹرانک جنگ وغیرہ شامل ہیں۔کسی بھی جنگی مہم کو ایک ہتھیار کے استعمال تک محدود کر دینا اتنا ہی مضحکہ خیز عمل ہے کہ جیسے کوئی شخص صرف ہتھوڑے کے ذریعے مکان تعمیر کرنے کی کوشش کرے اور دیگر اوزاروں کے استعمال سے انکاری رہے۔
اس دور میں بائیکاٹ کفار کی منظورِ نظر غیر متشدد طرز کی مزاحمت کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ جو مسلمان بھی بائیکاٹ کا حصہ بننا چاہیں، ان کو چاہیے کہ وہ خود کو اس قسم کی سوچ سے آزاد رکھیں۔ اللہ عزوجل اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (سورۃ البقرۃ: ۱۲۰)
’’اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔‘‘
یقیناً یہودونصاری اسی مسلمان سے خوش ہوتے ہیں جو ان کے لیے اپنی مزاحمت کو پُرامن مظاہروں اور بائیکاٹ تک محدود رکھے۔ عدمِ تشدد کا یہ فلسفہ ، گاندھی (کفار کا جدید پیشوا) کی پیروی میں، جمہوریت کے مذہبِ جدیدہ کا ایک بنیادی اصول ہے۔ خلیج کے بعض نمایاں منافقین اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے پُرامن ذرائع کا انتخاب کرنا چاہیے۔
جو مسلمان بائیکاٹ میں حصہ لیتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ ان نظریات کو مسترد کریں۔ ”ہم اپنے ڈالروں سے ووٹ(حمایت)نہ دیں گے۔“، جیسا کہ مغرب میں بعض لوگ کہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے اہداف واضح ہیں:
- دشمن ریاستوں (خصوصاً قابض صہیونی اور امریکی ریاست) کی مسلم علاقوں پر قبضے اور لوٹ مار کی کی معاشی صلاحیت اور سیاسی عزم کو ختم کرنا۔
- ان وسائل کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا جو کفار کی جنگی مہمات کو سہارا دیتے ہیں۔
- ان منافق و مرتد حکومتوں کا خاتمہ جو کفار کی آشیرباد سے مسلم علاقوں پر مسلط ہیں۔
- مسلم علاقوں کو کفار پر معاشی انحصار سے آزادی دلانا۔
- کفار کے تباہ کن ثقافتی اثرات کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی شناخت کو زندہ کرنا۔
نیت کے درست ہونے سے ایک ادنیٰ سا عمل بھی اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان پیسہ کمانے کی نیت سے محنت کرتا ہے تو اس کو حاصل ہو جائےگا جس کی اس نے محنت کی، یعنی پیسہ، لیکن اگر وہ اس نیت سے محنت کرے کہ اس پیسے سے ضروریاتِ زندگی کے حصول کے بعد زیادہ بہتر طور پر اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کر سکے گا، اہل و عیال کے حقوق جن کا اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے حکم بھی ہے کو زیادہ خوش اسلوبی سے ادا کر سکے گا، اور مزید یہ کہ امت مسلمہ کو فائدہ پہنچا سکے گا ، تو اس کا یہی عمل عبادت بن جائے گا جس پر ان شاء اللہ عند اللہ ماجور ہو گا۔
یہی معاملہ بائیکاٹ کا بھی ہے۔ اگر ہم اس کو محض قومی آزادی کی جدوجہد کے طور پر لیں تو اس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ صرف ایک قوم کی آزادی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن اگر یہی کام ہم اس نیت سے کریں کہ اس سے اپنے مومن بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے خدائی حکم کی تعمیل ہو گی اور یہ کفار کے خلاف ہماری جدوجہد ہوگی، تو اس پر ہم اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔
نیت کے درست ہونے کے اس کے علاوہ بھی کئی فوائد ہیں۔ کسی بھی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اگر اس کے بارے میں ذہن صاف ہو۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ بائیکاٹ کس طرح بڑے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، تو ہمارے بائیکاٹ کو جاری رکھنے اور اس کی شدت کو بڑھانے کے عزم میں مزید اضافہ ہو گا۔
اگر ہم بائیکاٹ کو ایک جنگی چال کے طور پر دیکھنا شروع کریں تو یہ ہماری سوچ کو بدل سکتا ہے۔ فی الحال مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کفار کے ساتھ تعلق کو دوطرفہ مفادات کا تعلق سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہمارے تعلقات غیر متوازن اور یکترفہ استحصال پر مبنی ہیں اور یہی عدم توازن ان کفار کی طاقت کا منبع بھی ہے۔ شعوری بائیکاٹ اس ناانصافی کی یاددہانی بھی ہے اور اس کو درست کرنے کی سمت اقدام بھی۔
ترجیحات کا تعین
آج جب ہم بائیکاٹ کے عملی نفاذ کی بات کرتے ہیں تو کئی طرح کے چیلنجز ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ذہنی اور مادی غلامی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دشمنانِ اسلام کی مصنوعات پر انحصار تقریباً ناگزیر ہو چکا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ترجیحات کا تعین کیا جائے ۔ یہ اس فقہی اصول کے بھی عین مطابق ہے کہ:
إذا تزاحمت المفاسد والضطر إلی فعل أحدھا قدم الأخف منھا۔
”جب دو برائیاں آمنے سامنے ہوں، اور ایک کو اختیار کرنا ناگزیر ہو، تو کم تر برائی کو ترجیح دی جائےگی۔“
ہماری موجودہ حالت میں، یہ ناممکن ہے کہ ہر اس چیز کا بائیکاٹ کیا جاسکے جو بائیکاٹ کے لائق ہے۔ کئی صورتوں میں یہ کوشش فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے بائیکاٹ سے مراد عموماً دو میں سے کمتر برائی کا انتخاب ہو گا۔
بائیکاٹ کے دوران اکثر مسلمان ان کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں جو فلسطین پر صہیونی قبضے کی کھلے عام حمایت کرتی ہیں۔ یہ بڑا محدود اثر رکھتا ہے۔ بلکہ بائیکاٹ کا اصل مقصد تو، اول، دولت کے ان ذرائع کو ختم کرنا جو ہمارے مظلوم بہن بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے لیے ایندھن کا کردار ادا کر رہے ہیں، دوم، اللہ کے کلمے کی سربلندی کا اظہار کرنا ہے۔ اور یہ مقاصد محض اپنے زیرِاستعمال مشروبات کے برینڈ بدل لینے سے حاصل نہیں ہوں گے۔
صہیونیوں کے زیرِتسلط اس موجودہ عالمی نظام کے تمام پہلو بشمول مالیاتی ادارے، تعلیمی نظام، صنعتیں، تجارت، سب باہم مربوط ہیں اور اکثر اقوام اور ادارے اس نظام کا حصہ ہیں۔ لہذا بائیکاٹ کا ہدف انفرادی ممالک یا اداروں سے بڑھ کر اس پورے عالمی دجالی نظام کو بنانا چاہیے کہ یہ ممالک اور ادارے تو صرف اس کے پرزے ہیں۔
صہیونیوں کے زیرِتسلط عالمی مالیاتی نظام
دنیا کے معاشی نظام پر اپنی برتری قائم کرنا وہ سب سے مؤثر ہتھیار ہے جس کے ذریعے صہیونی اور ان کے اتحادی دنیا کی اکثر اقوام پر اپنا اثرورسوخ اور تسلط قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک مسلمان خود کو اس نظام سے الگ نہیں کرتے اور اس کا مقابلہ نہیں کرتے، اس وقت تک وہ کفار کی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
اس سے پہلے کہ اس نظام سے نکلا اور اس کا مقابلہ کیا جائے، اس کی حقیقت جان لینا ضروری ہے۔ مختصراً، یہ نظام ایسے اداروں پر مشتمل ہے جو افراد اور تنظیموں کے مابین معاشی تعلقات کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جو ان اداروں کی چودھراہٹ کے آگے سرِتسلیم خم کر دیں، ان کو نوازا جاتا ہے اور جو انکار کریں ان کو سزا دی جاتی ہے۔ ان اداروں میں مرکزی بینک، ترقیاتی بینک، سٹاک ایکسچینج، بینکوں کے مابین لین دین کے نیٹ ورکس، فارن ایکسچینج، انشورنس کمپنیاں، کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں، اور اقوام متحدہ کا ادارہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس نظام میں وہ تمام ادارے بھی شامل ہیں جو ان تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کے ضوابط کو مانتے ہیں، چاہے وہ قومی حکومتیں ہوں یا کارپوریٹ کمپنیاں۔ یہ تمام ادارے مل کر ایک طرح کا ”مالیاتی اتحاد“ قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں سب کو ایک دوسرے کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
پیپسی اور کوکاکولا بظاہر ایک دوسرے کے حریف دکھائی دیتی ہیں، لیکن یہ دونوں کمپنیاں اپنی رقوم بینکوں میں رکھتی ہیں، اور یہ بینک اِنٹر بینک لینڈنگ مارکیٹ یعنی بینکوں کے مابین لین دین کی مارکیٹ میں ایک دوسرے کو قرض دیتے ہیں۔ مثلاً پیپسی کے بینک کو اگر کسی وقت سرمایا درکار ہو تو کوکاکولا کا بینک اسے قرض دے کر اس کی مدد کر سکتا ہے۔ اور دیگر صورتوں میں پیپسی کا بینک کوکاکولا کے بینک کو قرض دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر انڈونیشیا کا مرکزی بینک مالی بحران کا شکار ہو جائے تو دیگر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف یا بی آئی ایس”بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ“ کے ذریعے سرمایہ فراہم کر کے اس کی مدد کریں گے۔
اگر کوئی فرد، کمپنی، یا ملک اس نظام کے اصولوں کو ماننے سے انکار کر دے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ یہ سزائیں سرمائے، وسائل اور عالمی مارکیٹوں تک رسائی محدود کرنے، کریڈٹ ریٹنگ گرانے، سرکاری جرمانے اور کالعدم قرار دیے جانے کی صورت میں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض خفیہ ذرائع کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، جیسے کسی کمپنی کے حصص یا کسی کرنسی پر مفروضی حملے کرنا۔ مفروضی حملہ یعنی کسی کرنسی یا کمپنی کے حصص کو کثیر تعداد میں خریدنا اور پھر یکدم فروخت کر دینا تاکہ لوگوں میں خوف پیدا ہو، قیمتیں گر جائیں، اور افراتفری پھیل جائے۔
اس طرح، جو افراد (یعنی بینکر حضرات) دنیا میں پیسے کی ترسیل پر قدرت رکھتے ہیں وہ ملکی معیشتوں اور بالآخر پورے عالمی صہیونی معاشی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ اگر بائیکاٹ کی وجہ سے کسی ایک ملک یا کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑ جائے، تو صہیونی اور ان کے غلام و اتحادی دوسرے ممالک یا کمپنیوں سے وسائل جھونک کر اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔ یہ پورا نظام ایک جسم کی مانند ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس کو اسی طور سے دیکھا جائے۔ صرف قابض صہیونیوں ، امریکیوں، یا دیگر کچھ کمپنیوں پر توجہ مرکوز رکھنا ایسے ہی ہے جیسے دوران لڑائی دشمن کے صرف بازوؤں یا ٹانگوں پر وار کیا جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ (سورۃ التوبۃ: ۳۶)
’’اور تم سب مل کرمشرکوں سے اسی طرح لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘
بائیکاٹ کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس پورے عالمی صہیونی معاشی نظام اور اس سے جڑے ہر فرد یا ادارے کو نشانہ بنایا جائے، جیسے کفار ہر اس شے یا فرد کا ”قوت“ سے بائیکاٹ کرتے ہیں جو کسی بھی طرح شریعت و قیام خلافت کی جدوجہد سے تعلق رکھتا ہو۔
مزید وضاحت کے لیے، ایک عام مثال کو لے لیجیے۔ ایک مسلمان Danone دہی (مغربی برینڈ) کا بائیکاٹ کرتا ہے اور اس کی جگہ Almarai (ایک سعودی کمپنی) کا دہی خریدنا شروع کرتا ہے۔ اب بظاہر تو یہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ اس دہی کی خریداری سے رقم اب مغرب کے بجائے ایک سعودی کاروبار کو جائے گی(جو کہ صہیونیوں کو اسلحہ فراہم نہیں کرتی)۔ مگر، درحقیقت Almarai امریکہ میں زمینیں رکھتی ہے جہاں وہ اپنے جانوروں کے لیے چارہ کاشت کرتی ہے۔ خودکار دودھ دوہنے والی مشینیں بھی انہی ممالک سے آتی ہیں جو صہیونیوں کے مددگار ہیں۔ یہ کمپنیاں بینک اکاؤنٹ اور انشورنس کا استعمال بھی کرتی ہیں ، اور جو رقوم ان اکاؤنٹس میں جاتی ہیں وہ اسی عالمی صہیونی معاشی نظام کا حصہ بن جاتی ہیں۔
مسلم ممالک میں موجود ان تمام کمپنیوں کے مالکان کا طرزِ زندگی بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ مغرب سے خریدی گئیں مہنگی گاڑیوں اور نجی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے محلات میں سارا سامانِ آرائش مغرب سے درآمد ہوتا ہے۔ ان کی جائیدادیں یورپ و مشرقی امریکہ میں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے یورپ و امریکہ کی مہنگی نجی یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں۔ ان کا ذاتی سرمایہ یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں رہتا ہے، جس سے ان معاشروں میں رقم کی فراہمی مستحکم ہوتی ہے اور یہ سب اس معاشی نظام کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔
حتیٰ کہ اگر یہ اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ مسلمان ممالک میں رکھیں تب بھی ہوتا یہ ہے کہ یہ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں، حکومت ان ٹیکس کے پیسوں سے مغربی ممالک سے اسلحہ کی خریداری کرتی ہے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے مغربی مشاورتی اداروں کی خدمات حاصل کرتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ زیادہ تر ڈالروں اور یورو کی شکل میں ہوتے ہیں، کو بڑھانے کی تگ و دو کرتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر قومی کرنسی کو مستحکم کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا مرکزی بینک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر کے ساتھ منسلک رکھتا ہے، اس کے لیے اسے بڑے پیمانے پر ڈالر خریدنے پڑتے ہیں۔ جب سعودی ریال کی قیمت گرتی ہے تو بینک امریکی ڈالروں کے عوض کھلی منڈی(اوپن مارکیٹ) سے سعودی ریال خرید لیتا ہےتاکہ ریال کی قیمت برقرار رکھی جا سکے۔ ڈالرز کی یوں خریداری سے امریکی مالیاتی نظام کو تقویت ملتی ہے جو امریکہ اور اس کی معیشت کی طاقت کا باعث ہے۔ یہ وہی معیشت ہے جس پر قابض صہیونی کی بقا منحصر ہے۔
دنیا کا تقریباً ہر ملک ہی اس نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ صدام حسین اور معمر قذافی کا قتل بھی اسی نظام کے اصولوں کی پاسداری سے انکار کی پاداش میں تھا۔ جیسا کہ ایران، جنوبی کوریا اور روس کی بین الاقوامی تنہائی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ نظام بیشتر دنیا کو اپنا غلام بنا چکا ہے، جو اس کے خلاف بھی کھڑے ہیں وہ بھی اسی کے سائے میں جی رہے ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ Danone کا بائیکاٹ اور Almarai کی خریداری بالکل بے فائدہ ہے، بلکہ اس سے بائیکاٹ کے کئی فوائد حاصل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، اس سے کہیں زیادہ فائدہ تب حاصل ہو گا جب ہم اس نظام کے خلاف جدوجہد کریں اور مکمل طور پر اس سے آزاد ہونے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر یہ نظام اتنا ہی ہمہ گیر اور غالب ہے ، تو ہم اس کو للکارنے کی یا اس سے نکلنے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟
٭٭٭٭٭
- 1السلسلة الصحیحہ ۔۲۲۱۷
- 2صحیح البخاری