نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

نظریۂ جہاد اورفتح و شکست کے پیمانے

عاصم عمر سنبھلی by عاصم عمر سنبھلی
9 فروری 2023
in جنوری 2023, فکر و منہج
0

’’کیا جہادکے ذریعہ عالمی کفریہ نظام کو شکست دی جاسکتی ہے؟کیا جہاد کے ذریعہ اسلام کو غالب کیا جاسکتا ہے؟ یہ کیسا جہاد ہے ،جس میں مجاہدین کو فتح ہی نہیں ملتی،حالانکہ صحابہ کو تو فوراًفتح مل جاتی تھی؟ چنانچہ احیائے اسلام یا اسلام کی حاکمیت قائم کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے یا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے!‘‘

یہ وہ اعتراضات ہیں جو جہاد کو ناپسند کرنے والوں کی جانب سے مجاہدین کے جہاد پر کیے جاتے ہیں۔ہمیں اعتراض کرنے والوں کے بارے میں توکوئی شبہ نہیں کہ اس طرح کے اعتراضات کرناان کی نوکری بچائے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔البتہ سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن کو صاف کرنے کے لیے ہم یہاں اس اعتراض کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگوں میں فتح و شکست کس کو کہا جاتا ہے؟

جب لوگ مجاہدین پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کوفتح نہیں ملتی تو ان کے ذہن میں فتح سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ہر معرکے میں کوئی شہر،ملک یا علاقہ فتح ہونا چاہیے۔ حالانکہ ہر معرکہ میں علاقہ فتح نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ ہر جنگ کے اہداف پہلے سے طے ہوتے ہیں ان اہداف کو حاصل کرلینے کا نام فتح ہوتا ہے۔اس کی مختلف مثالیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و سرایہ میں آپ کو مل سکتی ہیں۔ہر جنگ میں ایسا نہیں ہواکہ صحابہ کرام یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاقے فتح کیے ہوں۔اور نہ ہی ایسا ہوا کہ مدینہ ہجرت کرتے ہی اور جہاد کا حکم نازل ہوتے ہی مکہ فتح ہوگیا ہو۔

بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پرجہاد کو فرض قرار دیا اور قتال کے ذریعہ کفار کا غلبہ ختم کرکے اسلامی نظام نافذ کرنے کا حکم فرمایا۔

وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ (سورۃ الانفال: ۳۹)

’’اور ان(شریعت کے دشمنوں)سے لڑو۔یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا کا سارا دین اللہ کا ہوجائے۔ ‘‘

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ مقصد مکہ کی فتح کے بغیر نہیں حاصل ہوسکتا تھا، کیونکہ مکہ جزیرۃ العرب کا سیاسی و مذہبی مرکز تھا نیز کفارِ مکہ اس علاقے کی سپر پاور تھے۔ عرب کی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت ان کے ہاتھ میں تھی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے قرآن میں یوں بیان فرمایا:

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ۝ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّہِ أَفْوَاجًا۝ (سورۃ النصر۱۔۲)

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سب سے پہلا ہدف کفارِ مکہ کی عسکری قوت و شوکت کو توڑ کر جزیرۃ العرب میں کلمۂ توحید کو غالب کرنا تھا۔

کیا مدینہ ہجرت کرتے ہی،پہلے سال ہی مکہ فتح ہوگیا؟ نہیں بلکہ سن ۸ ہجری میں مکہ فتح ہوا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوفتح مکہ کی منزل تک پہنچنے کے لیے جنگ کی کتنی بھٹیوں سے گزروایا،کتنے شریعت کے پروانے اس راستے میں شہید ہوئے!

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو لے کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کا آغاز کیا۔ اور کفر و اسلام کا پہلا بڑا معرکہ غزوۂ بدر ہوا۔ جنگِ بدر میں کوئی علاقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح نہیں کیا بلکہ اپنے دشمن کے اس غرور و تکبر کو توڑا جس میں وہ مبتلا تھا کہ وہ جب چاہے مدینہ پر حملہ کرکے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانثاروں کو ختم کرکے اس دنیا سے نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹاکر رکھ دے گا۔ چنانچہ اس کو فتح کہا گیا ہے ۔

ایک مقصد جس کو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کیا وہ یہ تھا:

وَیُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ ۝(سورۃ الانفال:۷)

’’اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کا حق ہونا ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔‘‘

کہ مسلمانوں کے کم تعداد اور کم وسائل ہونے کے باوجود ان کو فتح حاصل ہوئی جو ہر صاحبِ بصیرت کے لیے بہت غور و فکر کا مقام تھا۔یہ اسلام کے حق پر ہونے کی دلیل تھی ۔

کبھی اس کوبھی فتح کہا جاتاہے کہ مادی نقصان اٹھانے کے باوجود کوئی قوت اپنے عزم و حوصلے اور نظریے کو برقراررکھ کر پھر سے فاتح کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔

جیسا کہ جنگِ اُحد میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اگلے دن غزوہ حمراء الاسد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زخمی صحابہ کو لے کر کفارِ مکہ کا پیچھا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔جس کی وجہ سے کفارِ مکہ پر رعب طاری ہوگیا اور یوں فاتح ،مفتوح اور مفتوح فاتح بن گئے۔حالانکہ اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کا کوئی علاقہ فتح نہیں کیا۔

کبھی اپنے علاقے کو بچالینا ہی فتح کہلاتا ہے۔جیسا کہ جنگِ خندق میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے فتح دی، لیکن اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی علاقہ نہیں ملا۔بلکہ مدینہ منورہ کو بچالینا ہی فتح کہلایا۔

کبھی اس کو بھی فتح کہا جاتا ہے کہ آپ طاقت ور دشمن کے مقابلے اپنی قوت کو محفوظ بچاکر نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔تاکہ دوبارہ پلٹ کر حملہ کرسکیں۔ جیسا کہ جنگِ موتہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کیا۔اس جنگ میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ دشمن کے گھیرے میں آئے مجاہدین کو منظم انداز میں پسپائی کے ذریعہ واپس نکال لائے تھے، جس پر بارگاہِ نبوت سے ان کو ’’اللہ کی تلوار ‘‘کا خطاب ملا۔اس میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کوئی علاقہ فتح نہیں کیا تھا۔بلکہ کئی نامور جرنیل صحابہ اس میں شہید ہوگئے تھے۔معلوم ہوا کہ ہر معرکے میں علاقے فتح نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی فتح صرف علاقے قبضے میں لے لینے کا نام ہے۔بلکہ ہر معرکے کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللّٰہ علیہم اجمعین اور آج کی جنگوں میں فرق
نظامی جنگ میں فتح

اب ایک فنی اور عسکری فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہے ماضی اور حال کی جنگوں کا فرق!صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں جو جنگیں تھیں وہ زیادہ تر نظامی جنگیں تھیں جن کو اصطلاح حرب میں’Conventional War‘کہا جا تا ہے۔ان جنگوں میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ معرکے میں فتح کے بعد دشمن کا علاقہ ہاتھ آجاتا تھا۔ لیکن ان میں بھی ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا۔

جب کہ آج مجاہدین جو جنگیں لڑ رہے ہیں وہ نظامی نہیں ہیں بلکہ چھاپہ مار جنگ ہے۔ جس کوعربی میں حرب العصابات یا عرف میں گوریلا جنگ کہا جاتاہے۔یہ جنگ اس وقت لڑی جاتی ہے جب دو متحارب فریقوں میں طاقت کاتناسب بہت غیر متوازن ہو،جیسا کہ مجاہدین اور ان کے دشمن میں ہے۔کہ ایک طرف وہ تمام ممالک(براہ راست یا بالواسطہ) ہیں جو اقوامِ متحدہ کے دین(چارٹر )کو اپنے ملکوں میں نافذ کیے ہوئے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ان کے مقابل مٹھی بھر وہ شریعت کے پاسبان ہیں جو ان کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

حرب العصابات میں فتح

حرب العصابات میں مجاہدین کی کارروائی کا ہدف دشمن کے لڑنے کے جذبے کو کمزور کرنے اور اس کے نظام کو مفلوج کرنا ہوتا ہے۔ اس جنگ میں علاقے فتح کرنے سے پہلے دشمن کے لڑنے کے حوصلے کو شکست دینے کی جنگ ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے ذریعہ دشمن کو نفسیاتی طور پر پریشان کیا جاتا ہے ، دشمن دھیرے دھیرے اپنا پورا زور اس چھوٹی قوت کو ختم کرنے پر لگاتا ہے۔ لیکن یہ اس کے وارو ں سے بچتے ہوئے اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ بہادر سے بہادر اور طاقت ور سے طاقت ور فوج ذہنی طور پر اتنی مفلوج ہوجاتی ہے کہ اس کے لڑنے کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔یہی گوریلا کی فتح ہوتی ہے۔جیسا کہ روس کے خلاف مجاہدینِ افغانستان نے کیا،عراق میں امریکہ کے خلاف القاعدہ نے کیا،صومالیہ میں مجاہدین کئی قوتوں کا ایسا ہی حشر کرچکے ہیں،اور اب الحمد للہ امریکہ اور اس کے اگلے پچھلے تمام اتحادیوں کا یہی حشر طالبان نے کیا ہے۔

ماضی او ر حال کا فرق دشمن کے اعتبار سے

ماضی کی جنگوں اور اس دور کی مجاہدین کی جنگ میں ایک اور فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ یہ کہ ماضی میں مثلاًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں،ان کا دشمن الگ الگ تھا۔ ا س کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ِ مبارک میں تین بڑی عسکری قوتیں تھیں:

  1. مشرکین ِعرب1
  2. روم
  3. فارس

یہ تینوں قوتیں الگ الگ تھیں،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکینِ عرب کو الگ مارا،روم یا فارس نے ان کی عسکری مدد نہیں کی۔پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور میں روم و فارس سے الگ الگ لڑائی کا آغاز ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتوحات تک ایسا ہی رہا،یہ دونوں مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر میدان میں نہیں آئے۔

اس کے برخلاف آج مجاہدین کو جس دشمن کا سامنا ہے وہ الگ الگ نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی شیطانی دجالی حکومت ہے جو اقوامِ متحدہ کی شکل میں ہے ۔ یہ ایک دجالی دین ہے ،جس کو یہود نے خلافت توڑنے کے بعد نافذ کیا ہے۔اس اقوامِ متحدہ کے دین کو اپنے ملکوں میں نافذ کرنا اور اس کی حفاظت کرنا اس کے تمام رکن ممالک پر فرض ہے۔ چنانچہ اس میں صرف کفریہ ممالک شامل نہیں بلکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نام نہاد مسلم فوجیں بھی اسی اخلاص و تندہی کے ساتھ اس کی حفاظت کے لیے دنیا بھر میں بھاگی پھرتی اور اس کے لیے جانیں قربان کرنے کو نیا ز مندی و سعادت سمجھتی ہیں۔

چنانچہ مجاہدین کا مقابلہ ایک متحدہ دشمن سے ہے بلکہ ایک متحدہ دین یا نظام سے ہے جس کی حفاظت کے لیے مختلف فوجیں باری باری میدان میں اترتی ہیں،کبھی جمع ہوکر آتی ہیں جیسا کہ افغانستان میں آئیں، اور کبھی ایک ایک کرکے جیسا کہ آپ نے صومالیہ میں دیکھا۔

صومالیہ میں مجاہدین نے وہاں کی مرتد فوج کو جو شریعت کے نفاذ کی دشمن ہوگئی تھی،اس کو شکست دی،توسوڈان کی فوج کو اس نظام کی حفاظت کے لیے بھیج دیا گیا،اللہ کی مدد سے ان مجاہدین نے اس فوج کو بھی شکست دی، تو پھر امریکی فوج کو بھیج د یا گیا،پھر اس کو بھی مار مار کر بھگایا……دوسری مثال عراق کی آپ کے سامنے موجود ہے۔اسی طرح افغانستان میں دیکھ لیجیے……اللہ کی مدد سے۴۵ ملکوں کابیڑاغرق کیا،تو اب مسلمانوں جیسے نام رکھنے والوں کو آگے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہی معاملہ ہر جگہ ہونا ہے۔2

چنانچہ اقوامِ متحدہ کے اس ابلیسی نظام کو بچانے کے لیے سب ایک ہیں…… حتیٰ کہ وہ بھی جن دو ملکوں کی ظاہراً آپس میں دشمنی نظر آتی ہے،وہ بھی ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرنے کے پابند ہیں…… نظام سے لڑنے والوں کے خلاف!

چنانچہ مجاہدین کی جنگ کسی تنہا فوج یا قوت سے نہیں، بلکہ یہ عالمی جنگ ہے، جس میں دنیا کا ہر ملک شامل ہے جب کہ مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر سے اہلِ ایمان کو بھی اس میں شامل کردیا ہے،اللہ کی شان دیکھیے ،کہ اس نے کس طرح اس جنگ کے میدان کو سجایا ہے۔ حالانکہ اگر وعدے کرکے یہ سب کچھ کیا جاتا توشاید ایسا نہ ہوپاتا……جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنگِ بدر کے بارے میں فرمایا:

وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیعَادِ وَلَکِنْ لِیَقْضِیَ اللَّہُ أَمْرًا کَانَ مَفْعُولًا لِیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَإِنَّ اللَّہَ لَسَمِیعٌ عَلِیمٌ۝(سورۃ الانفال:۴۲)

’’اور اگر تم آپس میں ایک دوسرے سے وعدے کرتے تو ضرور وعدے کی خلاف ورزی کرتے(یعنی جنگ نہ کرتے)لیکن ایک کام کا جس کافیصلہ ہوچکا تھا اللہ فیصلہ کر رہا تھا، تاکہ جس کو ہلاک ہونا ہو وہ دلیل پر ہلاک ہو اورجس کوزندہ رہنا ہو وہ دلیل پر زندہ رہے۔‘ ‘

آپ ذرا نقشہ دیکھیے!اپنے رب کی قدرت،اس کی طاقت،اس کی بادشاہت اور اس کی حقانیت پر ایمان میں اضافہ ہوجائے گا۔

بہر حال سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ مجاہدین بہت کم وسائل سے ایک عالمی جنگ لڑرہے ہیں جو آئندہ دنیاکانقشہ ہی بدل کر رکھ دے گی،طاقت کے محور اور مرکز تبدیل ہو جائیں گے۔اب آپ اس میں مجاہدین کی کامیابی کا تناسب دیکھیے۔ہم آپ کو اس دور میں لیے چلتے ہیں جب ابھی افغان جہاد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

آپ ذرا ۷۰ء کی دہائی میں جائیے،دنیا میں مسلمانوں کا کہیں شمار بھی تھا؟ عالمی سیاسی بساط پر ہر طرف کفر ہی کفرتھا،وہ جیسا چاہتے آپس میں بندر بانٹ کرتے رہتے،کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دنیا کی یہ موجودہ سرحدیں بنانے میں کسی عالمِ دین،کسی مفتی،کسی شیخ الحدیث یا کسی صحیح العقیدہ مسلم رہ نما سے مشورہ بھی لیا گیا؟

جو کچھ کفر کے ایوانوں میں بیٹھے عالمی یہودی و برہمن سود خوروں نے طے کیا، اپنے ازلی غلاموں کو باہر نکل کر حکم کردیا کہ آئندہ ایسا ہوگا،چنانچہ ان غلاموں نے اپنے آقاؤں کے حکم کو مسلم عوام پر مسلط کردیا اور اسی کو یہ باور کرایا کہ امت مسلمہ کی خیر اسی میں ہے ، اور اسی میں اسلام کی فلاح و بہبود ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا سے ستر کی دہائی تک جو حالت اس امت کی رہی وہ بزرگوں سے سنی یا اس دور کے داعیان دین کی کتابوں میں پڑھی ۔جس کااندازہ کیا جاسکتا ہے کس مایوسی،پژمردگی اورکم ہمتی کا دور تھا۔

چنانچہ مسئلۂ فلسطین ہو یا کوئی اور مسئلہ اس امت کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، یہاں تک کہ جن علاقوں میں بے پناہ مظالم ڈھائے گئے،و سط ایشیاکے غیور مسلمانوں کو دین سے پھیر دیا گیا، دین پر مکمل پابندی لگادی گئی،کسی کی مجال نہ تھی کہ وہاں جاکر دین کی دعوت دے سکے،کیونکہ دین کی دعوت دینا جہاد تھاجہاں موت انعام میں ملتی ہے۔

ہم شاید ابھی بھی اس جملے کا مطلب نہ سمجھ سکیں لیکن اس کامطلب ہمارے اسلاف سمجھتے تھے امت یعنی امت بحیثیت امت کے کیا ہوتی ہے،اس کے ماننے والے آپس میں کس طرح جڑے ہوتے ہیں،آپس میں ان کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہوتے ہیں۔مشرق کے مسلمان پر تکلیف ہو تو مغرب والوں کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ اگر کسی جگہ مسلمان پر ظلم ہو تو اس کے لیے کس کو بولنے کا حق ہے؟امت بحیثیت امت کیا ہوتی ہے؟ایک مسلمان دنیا میں کس طرح رہتا ہے،اس کے پشت پر اس کے والی وارث کون ہوتے ہیں؟

اللہ نے اس دنیا میں بھیجا کیوں ہے ؟کیا صرف تماشائی بننے کے لیے، کیا صرف جیسے تیسے زندگی کی سانسیں پوری کرنے کے لیے؟کیا صرف کافرو ں سے زندگی کی بھیک مانگ کر زندہ رہنے کے لیے؟اور ان کے مظالم پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے یا تقدیر کا لکھا کہہ کر ’وہن ‘کو صبر کا نام دینے کے لیے؟

۷۰ء کی دہائی تک یہ سارے تصورات و احساسات عوام تو عوام خواص کے ذہنوں سے بھی مٹ چکے تھے،گویا مسلمان صرف شخصی زندگی میں مسلمان بن کر رہ سکتا تھا اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں تھا؟ اس کا اللہ صرف اس کی ذاتی زندگی میں اس کامعبود تھا اور اس سے باہر اس کے لیے اور معبود تراش دیے گئے تھے جن کی عبادت اس پر فرض قرار دی گئی تھی،اور اس کویہ سمجھا دیا گیا تھا کہ تمہارا اِلہٰ بھی اسی پر راضی و خوش ہے؟معاذ اللہ!

امت کہاں تھی، سب کچھ کافر ہی تھے۔مسلمان کے قاتل بھی کافر،اس کے منصف بھی کافر، والی و وارث بھی کافر،اس کے سیاہ سپید کے مالک بھی کافر ……وہی مسجدِ اقصی ٰکے والی ،وہی حرمین شریفین کی سیاست کے بے تاج بادشاہ!

کافر کفر کے لیے اکٹھے تھے،ساری دنیائے کفر کافر کے حقوق کے لیے ایک تھی،لیکن کسی مسلمان کو اجازت نہ تھی کہ وہ اسلام کے لیے اکٹھا ہوسکے،اس کواقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت حرام قرار دے دیا گیا تھا،اور اس اقوامِ متحدہ کے دین کی محافظ فوجوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اس کوجبراً نافذ کردیا تھا،کسی مسلمان کو یہ اجازت نہ تھی کہ وہ کسی مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اکٹھا ہوسکے یا لوگوں کو جمع کرسکے،البتہ اقوامِ متحدہ کا چارٹر کا حوالہ دے کر اس کے ایک شہری کی حیثیت سے آواز اٹھائی جاسکتی تھی، گویا اس کے نزدیک دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوامِ متحدہ کی ’شریعت ‘نے آکر منسوخ کردیا تھا اور اب جو اس دین میں حلال تھا وہ سب کے لیے حلال،اور جو حرام کردیا گیا اس کوحرام ماننا لازم تھا اور اسی کے مطابق اپنے ملکوں میں آئین و دستور بنانا لازم تھا۔جن کوبنیادی انسانی حقوق کا نام دیا گیا تھا۔

گویا عالمی کفری قوتیں دنیا کی بساط پر خود ہی منصوبے بناتیں اور خو د ہی اپنی مرضی کے مطابق کھیلتی رہتی تھیں،نہ کوئی چال پر اعتراض کرنے والا تھا نہ کوئی مخالف چال چلنے والا ،نہ کوئی چال پلٹنے والا اور نہ کوئی ایسا مردِ جری تھا جو بنی بنا ئی ساری بساط ہی کو اُلٹ دے۔لیکن آج دیکھیے!کہ دنیاکی سیاست کا محور کیا ہے؟دنیا میں طاقت کا توازن کیا ہے؟دنیا میں اسلام اور اسلامی نظام، دنیا میں مسلمان اور امت کیا پہلے جیسی ہے؟ کیا اب اگر کوئی مسلمان امت سے جڑنا چاہے، امت کا حصہ بن کر جینا چاہے تو نہیں جی سکتا ؟عالمی کفری طاقتوں کی عالمی پالیسیوں کا بنیادی مرکز اور نکتہ کیا ہے؟

یہ تمام تیاریاں،جدیدٹیکنالوجی ،نئے بنتے بکھرتے پٹتے مار کھاتے عالمی اتحاد، عالمی نظام کی اقتصادی حالتِ زار،ترقی یافتہ ملکوں کی عوام کا گھروں سے بے گھر ہونا اور بے روزگار ہوکر سڑکوں پر چلاّنا……اور وہ جو دنیا کے رازق بن بیٹھے تھے …… جن کا دعویٰ تھا کہ جو ان کے نیو ورلڈ آرڈر کو سجدہ کرے گااس کو رزق دیا جائے گا اورر جو انکار کرے گا ، رزق سے محروم کردیا جائے گا……ان کی معاشی ابتری اور پھکڑ پن دیکھیے کہ اپنی عوام کو روٹی دینا بھی مشکل ہوگیا ہے……

کاش کہ ہماری امت دیکھ سکتی!کاش کہ علمائے حق اپنے بچوں اور شاگردوں کی ان قربانیوں اور کامیابیوں کو ایک شفقت بھری نظر سے دیکھ سکتے !اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ دجالی میڈیا کے فریب سے باہر نکل کر تھوڑی دیرکے لیے حقیقت کی آنکھوں سے غور کرسکتا !!!

دنیا اور دنیا کی سیاست تبدیل ہوچکی ہے……عالمی خفیہ قوتیں اپنی چھ سو (۶۰۰)سالہ پناہ گاہ سے نکلنے پر مجبور کردی گئی ہیں جس کو وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے دیرینہ دشمن جبریل و میکائیل علیہما السلام اس دور دراز عالمی قوت کی پناہ گاہ میں نہیں پہنچ سکیں گے!اور ان دونوں کا رب جانتا ہے کہ اب وہ کہاں جمع ہورہے ہیں ؟اور اس کے بندے بھی ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اللہ ہی اپنی تدبیروں میں غالب ہے لیکن نادان سمجھتے نہیں ہیں!

الحمد للہ!آج ہمیں یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں لگتا کہ بساط ِ دنیا پر ایک قوت موجود ہے ،ایک قوت میدا ن میں اور اُتری ہے،ایک کھلاڑی ان کے سامنے آکر یوں بیٹھا کہ ان کی چالوں کے مقابلے چالیں چلتا ہے، اور ان کواپنی مرضی کے مطابق اپنے میدا ن میں کھیلنے پر مجبور کرتا ہے،ان کے مہروں کو بھی مارتا ہے اور ان کے بادشاہ کی گردن تک بھی اس کے ہاتھ اب پہنچے لگے ہیں،اور اب !الحمد للہ !ثم الحمد للہ! ایسا وقت بھی آگیا کہ اب بنی بنائی بساط الٹنے لگی ہے!

یہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل سے،جو تنہا آج بھی دنیا کی بساط کا مالک ہے!جو آج بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا کے تمام فیصلے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے،صرف اس کی مدد سے اس نئی قوت کو دنیا ’مجاہدین‘یا ’عالمی جہادی قوت‘ کے نام سے جانتی ہے!!! شاید ابھی اپنے پہچان نہیں پائے کہ دو صدی کی غلامی اور کفرکے چڑھتے سورج کی چکاچوند نے آنکھوں پر اثر ڈالا ہے لیکن جلد پہچان جائیں گے!!! جب کہ دشمن بہت اچھی طرح پہچانتا ہے،اور اب تو اس کی وہ خوش فہمیاں بھی دور ہو چلیں جوچودہ سال پہلے (۲۰۰۱ء میں)تھیں۔وللّٰہ الحمد واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون!

یہ سب کچھ اس امت کو ایک امت بنانے کے لیے ،امت کو اس کاکھویا مقام واپس دلانے کے لیے، امت کے لوٹے وسائل پر ایک مسلمان کا قبضہ واپس دلانے کے لیے ،اس کی عزت ،اس کی غیرت ،اس کی آبروکی حفاظت کے لیے ہے!……یہ خون کے بہتے دریا،یہ اُجڑی ویران بستیاں، یہ ہجرتیں و فرقتیں…… عورتوں کا بیوہ ہوجانا،بچوں کا یتیمی کے دُکھ جھیلنا،دیوانوں کاپھانسی کے تختے کو مسکراتے ہوئے چوم لینا،ٹارچر سیلوں میں ڈرل مشینوں اور استریوں سے جسموں کو داغا جانا، صرف ایک مقصد کے لیے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ایک بن جائے…… اس دین کو اس طرح پکڑلے جس طرح پکڑنے کا اس کے رب نے حکم فرمایا ہے:

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ۝(سورۃ آل عمران: ۱۰۳)

’’ اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی)رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔‘‘

الحمدللہ یہ سفر کامیابی سے جاری ہے ،آج ایک مسلمان ، امت سے جڑ چکا ہے،وہ دیکھیے !دور پار!فریقہ و امریکہ میں، ایک مسلمان جو ابھی چند سال پہلے ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا،اور انہی کافروں کی فوج میں ملازم بھی تھا، وہ بھی ایک مسلمان بن کر اپنے رب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، مشرق میں افغانستان میں کیے جانے والے ظلم کا حساب لینا چاہتا ہے……

لہٰذا اپنی اس گن (gun)کو جو امریکی نظام نے اس کو دی تھی ،اسی سے وہ امت کے دشمنوں کے سینے چھلنی کردیتا ہے کہ تم میری امت کے قاتل ہو،وہ امریکی بن کر مرنے پر راضی نہیں ہے۔وہ امت کا حصہ بننا چاہتا ہے!بحیثیتِ امریکی اس کوکوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ اس کی عزت تھی ،وہ دنیا کی سپر پاور کا ایک شہری تھا،وہ اس ملک کا کارڈ رکھتا تھا،جس کوحاصل کرنے کے لیے دنیا کی عبادت کرنے والے،اپنا ایمان،اپنی غیرت،اپنی حمیت بلکہ وطنی عزت کا بھی سودا کردیتے ہیں ،لیکن جو اللہ کا بندہ بن کر جینا چاہے آج اس کے لیے میدان کھلا ہے،جو کہ ۷۰ء کی دہائی میں نہیں تھا……

ہمارے کتنے بزرگ دلوں میں حسرت لیے چلے گئے کہ کاش امت بن کر جینے کا یہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے،ان کی تحریروں میں وہ درد آج بھی آپ محسوس کرسکتے ہیں……لیکن آج اس تمنا کو پورا کرنے کے لیے ایک مسلمان کے سامنے ایک پلیٹ فارم موجود ہے جس کو لاکھوں شہداء کی قربانی سے تیار کیا گیا ہے! امت مسلمہ مشرق تا مغرب ایک امت ہے! امریکہ تا فجی ایک امت ہے! آج مسلم نوجوان اپنا امریکہ و برطانیہ کا کارڈ اس امت کے مستقبل پرقربان کرجاتا ہے،وہ ان سرحدوں کو اپنے پاؤں تلے روندتا جا رہا ہے جس کوانسانیت کے عالمی سوداگروں ،عالمی بینک کاروں نے نسل در نسل محنت کرکے بنایا تھا۔

دیکھیے! کل تک کا مسلمان صرف پاکستانی،ہندوستانی، مصری وسعودی تھا…… لیکن آج کا نوجوا ن اسلامی ہے……ایک کلمہ کی سرحدوں کو ماننے والا،جولکیریں کلمے نے طے کی ہیں ان کواپنے خون سے امت کو سمجھانے والا،اس کے علاوہ ہر لکیر کو مٹانے کا عزم لیے……وہ ایک مسلمان ہے!وہ کہتا ہے کہ اگر شام میں کسی مسلمان کا خون گرتا ہے تو یہ میرا خون ہے!افغانستان میں ایک مسلمان کا خون گرتا ہے تو یہ میرا خون ہے!وہ کہتا ہے کہ اگر ہندوستان میں کسی مسلمان کا خون گرتا ہے تویہ میرا خون ہے،اگر چہ مولویانِ برہمن اس کوکہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان پہلے ہندوستانی ہے ،حالانکہ یہ خود کو دھوکہ دیتے ہیں یا اس مال کا احسان چکاتے ہیں جو برہمن کی جانب سے ان کوعطا کیا جاتا ہے،ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دور گزر چکے!امت آج کہیں اور کھڑی ہے!نوجوان کو اب مولویانِ برہمن ہندوستانی لکیروں میں قید نہ کھ سکیں گے،امت امت بن کر جیے گی!اس کا جینا اور اس کا مرنا اسی کلمے کی خاطر ہوگا!

یہ تو بکھرے،منتشر اور ظلم رسیدہ مسلمانوں کو امت بنانے کے اعتبار سے کامیابی ہے،جب کہ کامیابی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو الحمد للہ ہر آنکھیں رکھنے والے کو نظر آرہا ہے ۔

سرحدوں کے بت کا جنازہ:

یہ کامیابی ہے اقوامِ متحدہ کی بنائی سرحدوں کے تقدس کے جنازے کی۔ اس سرحدی کالی ماتا کے بت کے زمیں بوس ہونے کی جس کو دانش ورانِ افرنگ نے پنجۂ یہود میں جانے بعد اپنے ہاتھوں سے تراشا تھا……

سرحدوں کا تقدس جدید جاہلی نظام میں کتنا اہم ہے، سیاسیات کا ہر طالبِ علم اس سے واقف ہے۔یعنی جب اللہ کے دشمن ،یہود نے ملعون مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ خلافت کاخاتمہ کیا تو اس کامقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو امت کی لڑی سے نکال قومیتوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے بجائے ان قومیتوں کا دین(جس کو شیطانی دماغ تیار کرچکے تھے)نافذ کردیا جائے……جس میں کلمے کے تصور کے بجائے سرحدوں کا تصور ہو،جس طرح مشرق و مغرب کلمہ پڑھنے والا ایک جسم کا حصہ تھا اسی طرح اب ایک سرحد کے اندر رہنے والے ایک جسم کا حصہ قرار دیے گئے،خواہ ان کے دین مختلف کیوں نہ ہوں……اب اسی کے لیے دوستی تھی اور اسی کی خاطر دشمنی……اسی کی خاطر معصوم انسانوں کی جانیں لی جاتی رہیں اور فوجیں اسی سرحد کی مقدس کالی دیوی پر اپنے خون کی بَلی چڑھاتی رہیں……اس کالی دیوی کی خاطر جو بھی جان کی بَلی دے دے وہ شہید کہلانے لگا،خواہ وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو، لیکن جو کلمۂ توحید کی خاطر جان دے وہ دہشت قرار دیا گیا!!!

یہ سرحد وں کی کالی دیوی تباہی و بربادی میں ہندوؤں کی کالی ماتا سے کم نہ تھی۔ کیونکہ پوری تاریخ ِہنود میں کالی ماتا کے نام پر اتنی بَلیاں نہیں چڑھائی گئی ہوں گی جتنی بَلیاں صرف ان گزشتہ پچاسی سالوں میں اس سرحدی کالی ماتا پر چڑھائی گئی ہیں!

لیکن تعریف بیان کیجیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی جو آج بھی اپنے کمزور بندوں کی مدد پر قادر ہے،الحمد للہ!!!تیس سالہ جہادی ضربوں نے اس نظامِ ابلیس کو آج اس مقام تک پہنچادیا ہے کہ خود اپنے بنائے معبودوں کو اپنے ہاتھوں گرانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ان میں سرحدوں کے تقد س کا نظریہ دینے والی کالی دیوی بھی ہے جس کابت آج گرتا نظر آرہا ہے۔

اللہ کی شان دیکھیے کہ اس دیوی کے بت کو گرانے والا کلہاڑا بھی بتوں کے بڑے امریکہ کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے کہ یہ الزام بھی اس بڑے ہی کے سر آئے گا کہ یہ مقدس دیوی کے بت پر سب سے پہلے کلہاڑا چلانے والا یہ بڑاہی تھا۔

قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَاإِبْرَاہِیمُ۝ قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوہُمْ إِنْ کَانُوا یَنْطِقُونَ ۝ (سورۃ الأنبیاء:۶۲، ۶۳)

’’(جب ابراہیم آئے تو بت پرستوں نے)کہا کہ ابراہیم!بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے؟ (ابراہیم نے)کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت)نے کیا (ہوگا)اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ لو ۔‘‘

افغانستان میں شریعت کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کے دوران کتنی مرتبہ تمہارے اس بڑے بت نے اس کالی دیوی کی گردن پرکتنی بار کلہاڑا چلایا جب سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے امریکی فوجی پاکستانی علاقوں میں گھس آتے اور پاکستانی فوج کے خون سے ہولی کھیل کر چلے جاتے۔اپنے بوٹوں سے کالی دیوی کے تقدس کو پامال کرتے چلے جاتے۔

حقیقتیں تو بہت ہیں بس مختصر یہ کہ اس دیوی کے تقدس کا حال کہاں تک پہنچ چکا ہے ؟اس کی مکمل تصویر دیکھنی ہے تو سعودی عرب کا یمن پر حملہ کرناہی دیکھ لیجیے!یہ توآغاز ہے !اس کے بعد ان سرحدی لکیروں کی عبادت کرنے والے خود ہی اس کو کیسے پامال کرتے ہیں ،دیکھتے جائیے!کیونکہ کلمے کی صدا لگانے والوں سے جنگ کو جاری بھی تو رکھنا ہے! امت کو امت بننے سے روکنے کے لیے جنگ بھی تو کرنی ہے!الحمد للہ یہ اس بت کی تباہی ہے جس کو اِنہوں نے خود ہی تراشا تھا ۔

بات ذرا لمبی ہوگئی کہ الفاظ جذبات کی رو میں بہتے چلےگئے کہ اپنوں کی جدائی کے زخم ابھی ہرے ہیں ،پھر جب ان پرنئے نشتر لگائے جاتے ہیں تواور تازہ ہوجاتے ہیں…… ورنہ بات تو صرف اتنی ہی سمجھانی تھی کہ موجودہ عالمی جہادی تحریکات ، الحمد للہ فتح کی جانب گامزن ہیں۔وقتی اتار چڑھاؤ جنگ کا حصہ ہوا کرتے ہیں ۔ جو ہر دور میں جنگ کے ساتھ لگے رہتے ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی سچی کتاب میں بیان فرمایا۔

وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاس(سورۃ آل عمران:۱۴۰)

’’یہ تو دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پھیرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو الحمد للہ صورتِ حال اسی جانب جارہی ہے جس جانب محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہید ؒ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کا منصوبہ بناتے وقت بیان کی تھی۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عالمی جہادی قافلے کو صحیح منہج پر باقی رکھا جائے،جس کاپہلا ہدف نظام کفر ِ اور اس کی محافظ قوتیں ہیں۔اگرچہ عالمی کفری قوتیں اس وقت یہ سازش کر چکی ہیں کہ عالمی جہاد کا رخ نظامِ کفر اوراس کی محافظ قوتوں سے ہٹاکر دیگر اہداف کی طرف موڑ دیا جائے۔ تاکہ عالمی یہودی قوتیں اور اس کی محافظ فوجیں اپنے اپنے ملکوں میں مزے سے رہیں اور مجاہدین چھوٹے چھوٹے اہداف پر اپنی توانائیاں لگاتے رہیں یہاں تک کہ نظام باطل دوبارہ مضبوط ہوجائے۔

لہٰذا ہر مجاہد کو قرآن کے اس اصول فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْكُفْرِکو سامنے رکھنا چاہیے جس کو شیخ اسامہ بن لادن شہید ؒ نے ’سانپ کے سر ‘سے تعبیر کیا تھا۔عالمی نظام کو چلانے والی قوتیں اور ہرملک میں اس کی محافظ قوتیں مجاہدین کا ہدف ہونا چاہییں۔تب جاکر یہ جہاد کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔اب کفر کے بس کی بات نہیں کہ اس جہاد کو روک سکے ،اس لیے وہ کوشش کر رہا ہے مجاہدین کے جہاد کے رخ کو نظام سے ہٹاکرکہیں اور موڑ دے۔

جو کوئی بھی مجاہدین کے اس جہاد کو انصاف کی نظر سے دیکھتا ہے وہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے فتوحات مل رہی ہیں ۔

٭٭٭٭٭


1 ملاحظہ:ہم نے یہاں یہود اور بعض قبائلِ عرب کو مشرکینِ عرب ہی ساتھ شامل کردیاہے۔

2 حضرت الامیر شہید نے یہ مضمون جب ضبطِ تحریر میں لایا تو اس وقت امریکہ افغانستان میں مکمل طور پر شکست کھا کر بھاگا نہیں تھا۔بہر کیف حضرت الامیر نے جیسے فرمایا اسی طرح افغانستان میں ہوا، امریکیوں کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے انخلا کے بعد افغانستان کو ایک کٹھ پتلی نام نہاد ’مسلمانوں‘ کی حکومت کے ذریعے کنٹرول کرے گا، لیکن وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ۝(سورة آلِ عمران: ۵۴) ،’’ اور ان کافروں نے تدبیر کی، اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ ‘‘۔(ادارہ)

Previous Post

رِدّۃٌ ولا أبا بکر لھا! (یلغارِ ارتداد، لیکن مقابلے کے لیے ابو بکر ؓنہیں!)

Next Post

برِّ صغیر کے حکمرانوں کے خلاف لڑنا مسلمانوں پر کیوں واجب ہے؟ | حصۂ رابع (آخری)

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post

برِّ صغیر کے حکمرانوں کے خلاف لڑنا مسلمانوں پر کیوں واجب ہے؟ | حصۂ رابع (آخری)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version