نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

مدارس اور دینی جدوجہد کی تحریک

عبد الہادی مجاہد by عبد الہادی مجاہد
26 ستمبر 2025
in ستمبر 2025ء, فکر و منہج
0

زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)


باب سوم: مدارس کے موجودہ تعلیمی نصاب میں معاصر فکری ادب کی کمیایک ناقابلِ تلافی خسارہ

مدارس کے موجودہ نصاب میں فکری ادب کا فقدان

موجودہ دینی مدارس کے نصاب میں افکار و عقائد کی جنگ سے متعلق ضروری عصری اسلامی مفاہیم اور فکری ادب کی کمی کو بعض سطحی نظر رکھنے والے لوگ شاید قبول نہ کریں۔ وہ یہ استدلال کریں گے کہ ہم تو مدارس میں عقائد کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، اور قرآنِ کریم و احادیث میں ہمارے عقیدہ کی تفصیلات موجود ہیں۔

عمومی طور پر یہ بات درست ہے کہ مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر دور کے جاہلیت کی نوعیت الگ ہوتی ہے، ہر زمانے کے کفار کے عقائد، تصورات اور نظریات مختلف ہوتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے اور دشمنی کے طریقے جداگانہ ہوتے ہیں۔ یہ جدا نوعیتیں اور مختلف اندازِ دشمنی اسلام کے خلاف فکری میدان میں مقابلے کے لیے نئے اسالیب اور تازہ فکری ادب کا تقاضا کرتی ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے نصابِ تعلیم اور مدارس میں نہ تو معاصر جاہلیتوں کا کوئی ذکر ہے، نہ کفر کی موجودہ صورتوں، اقسام اور فلسفوں کی وضاحت ملتی ہے، اور نہ ہی ان کے مقابلے کے لیے کسی تدریس یا تیاری کا اہتمام موجود ہے۔

عقیدے اور اقدار کی جنگ کیوں اہم ہے؟

عقیدے، فکر اور اقدار کی جنگ اس لیے اہم ہے کہ اگر کوئی اس میدان میں کمزور پڑ جائے یا شکست کھا لے، تو وہ زندگی کے تمام شعبوں، سیاسی، عسکری، اقتصادی، تعلیمی، سماجی، اخلاقی، قانون سازی اور بین الاقوامی تعلقات میں معیار طے کرنے کے میدان، سب میں ناکام ہو جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دشمن کی صف میں شامل ہو جاتا ہے، اس کے راستے پر چل پڑتا ہے اور اپنا تشخص کھو بیٹھتا ہے۔

لیکن اگر کوئی ایک مرتبہ عقائد کی جنگ میں ڈٹ جائے، ثبات اور استقامت کا مظاہرہ کرے، تو پھر چاہے وہ لوگ تعداد میں بہت کم ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے عمل، نظریات، عقائد، صبر، استقامت اور دعوت میں برکت ڈال دیتا ہے۔ پھر اگر وہ دنیا سے رخصت بھی ہو جائیں، اللہ تعالیٰ ان کی فکر اور نظریات کو اس طرح عام کر دیتا ہے کہ بعد میں انہی بنیادوں پر نظام قائم ہوتے ہیں، حکومتیں وجود میں آتی ہیں، تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں اور انسانیت کی فکری تشکیل انہی پر کی جاتی ہے۔

ہم قرآنِ کریم میں اصحابِ کہف کا واقعہ پڑھتے ہیں۔ وہ چند محدود نوجوان تھے، لیکن انہوں نے جاہلیت کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ قبول نہ کیا، بلکہ اپنے نظریات اور عقائد پر مضبوطی سے جمے رہے۔ انہوں نے شہروں، تمدن، آسائش، نعمتوں، عیش و عشرت، عہدوں اور مناصب کو چھوڑ دیا، مشکلات، تنہائی، خوف، بھوک، بے بسی اور پہاڑ کے غار میں رہنے کو اختیار کیا، لیکن اپنے عقائد سے دستبردار نہ ہوئے اور نہ ہی عقیدے کی جنگ ہارے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی عمل کے نتیجے میں انہیں ایسی عزت بخشی کہ قیامت تک ان کی تعریف کی جاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًى۝ وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا؀

’’وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، اور ہم نے ان کی ہدایت اور بڑھا دی۔ اور ہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے، جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکاریں گے، اگر ایسا کریں تو یقیناً ہم نے سخت بے جا اور باطل بات کہی ہوگی۔‘‘

جب اصحابِ کہف عقیدے کی جنگ میں اپنے موقف پر ثابت قدم رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد بھی بڑی بڑی اقوام کو ان کے عقائد کی طرف متوجہ کیا اور وہ توحید قبول کرکے مسلمان ہوگئے۔

اقدار اور عقائد کی جنگ ہر دور میں مختلف شکلیں اختیار کرتی رہی ہے۔ جس طرح ماضی کا فرعون آج کے فرعون سے مختلف تھا، اسی طرح آج کا فرعونی نظام بھی ماضی کے فرعونیت سے مختلف ہے۔ اور اسی طرح آج کے فرعونی نظام کے خلاف مقابلہ بھی ماضی کے فرعون کے خلاف مقابلے سے مختلف ہونا چاہیے۔

ماضی کی جاہلیت بھی آج کی جاہلیت سے مختلف تھی۔ پرانی جاہلیت محدود اور سادہ تھی، اس کے اثرات چند افراد تک محدود تھے، لوگوں پر اس کے اثرات ڈالنے کے وسائل سادہ تھے، اور اس کا مقابلہ بھی آسان اور سادہ طریقوں سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن آج کی جاہلیت اتنی طاقتور، ہمہ جہت اور پیچیدہ ہے کہ نہ تو ہر کوئی اسے سمجھ سکتا ہے، اور نہ ہی ہر کوئی اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آج کی جاہلیت کے پاس اتنے وسائل اور مواقع ہیں کہ وہ دنیا کے ہر کونے تک اپنے فکری اثرات، عقائد، ثقافت اور اقدار پہنچا سکتی ہے اور لوگوں پر نافذ کر سکتی ہے۔

جیسے آج کی جاہلیت اور عالمی فرعونیت کا دائرہ اثر وسیع، وسائل ترقی یافتہ اور افراد ماہر ہیں، اسی طرح ہمارے فکری اور عقیدوی مقابلے کے لیے ہمارے فہم، صلاحیتوں اور سرگرمیوں کے دائرے بھی وسیع ہونے چاہئیں، اور ہمارے منصوبے، سوچ اور تدابیر ہر پہلو سے دقیق اور مکمل ہونی چاہئیں۔

اگر ہمارے فکری اور عقیدوی وسائل اور سرگرمیاں دشمن کے وسائل اور سرگرمیوں کے برابر نہ بھی ہوں، تو بھی اس کا نتیجہ یہ نہیں ہو سکتا کہ دشمن نے ہماری فضا اور وسائل پر قبضہ کرلیا ہو، حکومتیں اپنے تابع کرلی ہوں، نظام اپنے مطابق ترتیب دے دیے ہوں، اور تعلیم، تربیت اور نصاب اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیے ہوں۔

دشمن نے تو لوگوں کی ذہنی تربیت اپنے مختلف ذرائع جیسے انٹرنیٹ، ٹیلیویژن، نصاب، جامعات، رسائل، اخبارات، فلسفیانہ مباحث، مستور نظریات، غیر ملکی شہری اور ادبی انجمنیں، سیمینار، کانفرنسیں اور خطرناک و زہریلے تصورات کے ذریعے کی ہو، لیکن ہمارے دینی مدارس اور مکاتب کے نصاب میں نئی نسل کو موجودہ جاہلیت سے روشناس کروانے کے لیے کوئی فکری یا ادبی مواد ہی موجود نہ ہو تو نتیجتاً، لاکھوں طلباء اور طالبات اس میدان میں اندھیرے میں چھوڑ دیے جائیں گے۔

آج جب ہم اپنے دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ وہاں نہ تو موجودہ دور کی جاہلیت کے خلاف کوئی کتاب ہے، نہ کوئی مضمون، نہ اس پر ردعمل، نہ اس کے خلاف فکری تیاری، نہ مدارس کی غیر نصابی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں اس کے لیے کوئی جگہ رکھی گئی ہے، اور نہ ہی کسی معتبر ادارے یا حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی ارادہ یا سنجیدہ اقدام موجود ہے۔

یہ بالکل فطری سی بات ہے کہ ہماری اس غفلت سے دشمن بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اپنے افکار کو پھیلانے کے لیے ہماری عوام اور نسلِ نو کے ذہنوں میں اپنے نظریات پھیلائے گا۔

اسلام کے خلاف جاہلیت کی فکری اور عقیدوی جنگ کی طویل تاریخ

آج کی عقائد کی جنگ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ جنگ قدیم زمانے سے جاری ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک مکمل عقیدوی، اخلاقی اور تشریعی دین کے طور پر نازل کیا، تو تب سے ہی زمین پر موجود جاہلیتوں کے خلاف یہ مقابلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں قریش اور اردگرد کے دیگر عرب قبائل نے اس نئے دین کے خلاف جنگ شروع کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل اور جادوگر قرار دیا۔ یہ اس لیے نہیں کہ انہوں نے واقعی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں پاگل یا جادوگر ہونے کی کوئی نشانی دیکھی ہو، بلکہ وہ نبوت کے اعلان سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سچّے، امین، مہربان اور سمجھدار شخص کے طور پر جانتے تھے۔ لیکن نبوت کے اعلان کے بعد یہ تمام الزامات لگائے گئے تاکہ آپ کی بابرکت شخصیت کو بے وقعت دکھایا جائے، لوگوں کا اعتماد متزلزل کیا جائے، اور اس زمانے کی معاشرت میں آپ کی شخصیت پر ایسا داغ لگایا جائے کہ عرب اور دیگر لوگوں کو آپ کی حقانیت سے انکار کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

قریش اور دیگر مشرکین نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کے خلاف مختلف منفی پروپیگنڈے کیے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جسمانی اذیت بھی پہنچائی۔ انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، ان کے خلاف لشکر اکٹھے کیے، اور بڑی بڑی جنگیں کیں۔

اس زمانے کی جاہلیت نے پورے بیس سال تک اپنے تمام وسائل، مذہبی عقائد، اقتصادی طاقت اور حکمرانی کا استعمال کیا اور اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت ترین کوششیں کیں۔

یہودیت نے بھی عرب جاہلیت کے ساتھ اتحاد کیا اور عربوں کو یہ کہا کہ ’’تمہارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے‘‘۔ عربوں کا ماننا تھا کہ یہود اہلِ کتاب ہیں، دین میں ماہر ہیں، وحی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے یہاں انبیاء آئے ہیں، اور وہ آسمانی کتابوں سے واقف ہیں، لہٰذا ہم ان سے رائے لیں گے اور صحیح رہنمائی حاصل کریں گے۔ لیکن حقیقت میں یہود نے عرب جاہلوں کو سچی بات نہ بتائی، بلکہ انہیں کہا کہ ’’تمہارا دین صحیح ہے، اپنے دین پر قائم رہو اور اسلام قبول نہ کرو‘‘۔

یہودیت نے خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف فکری اور عملی طور پر بڑے منصوبے تیار کیے۔ یہود کا سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ مسلمانوں کو دینِ اسلام کے حوالے سے شکوک میں مبتلا کریں۔ انہوں نے کوشش کی کہ دین کو دین کے خلاف شبہ و تردید کا ذریعہ بنایا جائے۔

شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ایک خطرناک کوشش کے طور پر ان کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چلو صبح کے وقت ہم مسلمان بن جائیں تاکہ مسلمانوں میں شک ڈال سکیں، کیونکہ مسلمان ہم پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اہلِ کتاب ہیں، ہمارے ہاں موسیٰ اور ہارون اور دیگر انبیاء آئے ہیں، ہمارے ہاں تورات موجود ہے، ہمارے ہاں وحی کا سلسلہ جاری ہے، اور عرب ہمیں مذہبی تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تو صبح کے وقت ہم مسلمان بن جائیں گے، مسلمان کہیں گے کہ یہ لوگ بھی مسلمان ہو گئے اور ہمارے ساتھ ہیں، لیکن شام کے وقت ہم اس دین سے نکل جائیں گے۔ اور جب ہم اسلام سے نکلیں گے تو لوگوں سے کہیں گے کہ یہ وہ دین نہیں جسے ہم نے اپنی کتابوں میں دیکھا تھا۔ اس طرح ہم مسلمانوں کے دلوں میں دینِ اسلام کے بارے میں شک و شبہات پیدا کر دیں گے۔

یہودیوں نے عملی طور پر بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ وہ دیگر قبائل اور اقوام جیسے قریش، غطفان اور دیگر جاہلیت کے عناصر کے ساتھ مل گئے اور اسلام کے خلاف بڑی فکری، دینی، عقیدوی اور عسکری جنگیں لڑیں۔

یہود خندق کی جنگ میں مشرکین کے ساتھ شامل ہوئے، اور دیگر مواقع پر بھی لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی عملی کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش ناکام بنادی۔

اسی طرح، نصرانیت(عیسائیت یا صلیبیت) بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف سرگرم رہی۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد صلیبی جنگوں کے دوران نصرانی ممالک کے بادشاہ خود بھی جنگ میں شامل ہوتے تاکہ اپنی افواج کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔

نصرانیت کبھی بھی اسلام کے خلاف خاموش نہیں رہی۔ دو سو سال تک اس نے پرانے طریقوں سے صلیبی جنگیں لڑیں، اور آج بھی وہی صلیبی جنگیں نئے اور معاصر انداز میں جاری ہیں، جس کے ذریعے عالمِ اسلام کے کئی ممالک اور حکومتیں خطرناک حد تک ان کے زیرِ اثر آچکی ہیں۔

مجوسیت (زرتشتی مذہب) بھی اسلام کے خلاف خاموش نہیں تھی۔ مجوسیت نے مختلف شکلوں میں دوبارہ ابھرنے کی کوشش کی، جس میں سب سے خطرناک شکل ’’زندِیقیت‘‘ (الحاد و کفر) کی شکل میں نمودار ہوئی۔

زندیقیت کی فکر اور تحریک اتنی طاقتور ہو گئی کہ عباسی خلافت کو مجبور ہونا پڑا کہ اس کے مقابلے کے لیے ’’دیوان صاحب الزنادقة‘‘ کے نام سے ایک خصوصی وزارت قائم کرے۔ اس وزارت کا کام زندیقیت کے خلاف حکمت عملی بنانا اور زندیق لوگوں کے خلاف عسکری اقدامات کرنا تھا۔

جب فارس اور خراسان کے علاقوں میں زنادقہ ابھرے، جیسے کہ ایک شخص ’’استاد سیس‘‘ کے نام سے سامنے آیا، اس نے الحاد اور زندیقیت کا پرچار شروع کیا اور لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرکے قدیم فارسی ادیان جیسے مزدکیت اور زرتشتی مذہب کی طرف پھیرنے کی کوشش کی۔

تب صاحب الزنادقة اپنے دیوان یا وزارت کے اہل علماء، مفکرین اور پولیس کو بھیجتا تاکہ ان کے شکوک و شبہات کا جواب دیا جائے، اگر علمی اور فکری مباحثے کے ذریعے اصلاح نہ ہوتی تو پھر ان زندیق افراد کو قتل کر دیا جاتا۔

مجوسیت نے بھی اسلام کے خلاف مختلف شکلوں میں مسلسل کوشش کی کہ فارس کے علاقے میں دوبارہ زندہ ہو اور وہاں حقیقی اسلام کو لوگوں کی زندگی سے ختم کر دے۔ اگرچہ مجوسیت اپنی پرانی شکل میں دوبارہ مکمل طور پر واپس نہیں آئی، لیکن وہاں ایک نیا مذہب نمودار ہوا، جو تشیع کے نام سے جانا گیا، اور یہ وہ مسلک نہیں تھا جس پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو چھوڑا تھا اور جس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی تھی۔

اہلِ تشیع نے ان صحابہ کرام کے خلاف دشمنی اختیار کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر تمام انسانوں کے لیے ایمان کا معیار قراردیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا (سورۃ البقرۃ: ۱۳۷)

’’اگر وہ بھی وہی ایمان لائیں جیسا تم (صحابہ کرام) لائے ہو، تو یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صحابہ کرام کو مخاطب فرمایا اور ان کے ایمان کو دوسروں کے لیے معیار کے طور پر پیش کیا ہے اور کہا کہ اے رسول اللہ کے صحابہ! جیسا تم نے ایمان لایا، اگر لوگ انہی (مؤمن بہ) چیزوں اور انہی معیاروں و کیفیت کے مطابق ایمان لائیں تو یہ ایمان صحیح اور قبول شدہ ہے۔

صحابہ کرام کا یہ مرتبہ اور امتياز اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ایک خاص تعظیم اور وقار دیتا ہے، جو دیگر لوگوں کو نہیں ملا۔ مگر اس سب کے باوجود، تشیع کی فکر اور مذہب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں منفی رویہ اختیار کیا ہے۔

قدیم اور جدید جاہلیت کے درمیان فرق

قدیم جاہلیت کی مختلف شکلیں جیسے عربوں کی جہالت، یہودیت، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر زمانوں کی جاہلیتوں نے اسلام کے خلاف مختلف انداز میں جدوجہد کی۔ انہوں نے فکری مقابلے کیے، مسلمانوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی اور اسلام پر اعتراضات اٹھائے۔ لیکن یہ سب کام نسبتا سادہ شکل میں تھے، جس کا مقابلہ اُس وقت کے مسلمان اور علماء آسانی سے کر سکتے تھے۔ علماء نے ان افکار، عقائد، نظریات اور شکوک کے خلاف کتابیں لکھیں اور مسلمانوں کو اپنے زمانے کے کفار، گمراہ لوگوں، ان کے جدلیاتی مباحث اور فلسفوں سے آگاہ کیا۔

اس مسلسل علمی اور تعلیمی کوشش کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ مسلمانوں پر جہالت کی ایسی لہر نہ آئی جس سے یکبارگی لاکھوں مسلمان اپنے دین کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوں، اور یہ کہنے لگے ہوں کہ ہم دین کو اپنی زندگی یا معاشرے میں نافذ نہیں کرنا چاہتے، جیسا کہ آج کے سیکولر حکمران، ان کے آلہ کار اور ان کے نظام عمل پیرا ہیں۔

آج لاکھوں مسلمان اس کیفیت میں ہیں کہ زبان سے تو وہ مسلمان ہیں، لیکن دین کو حاکم ہونے نہیں دیتے۔ وہ اپنے اقتصادی نظام کو یا تو کمیونسٹ بنیادوں پر، یا سرمایہ دارانہ نظام پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اسلام سے نسبت رکھنے والے لوگ عقیدتاً مسلمان ہیں، لیکن اخلاقاً خود کو لبرل اور ہر دینی قید و بند سے آزاد سمجھتے ہیں۔ اسی طرح، وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن نظام اور حکمرانی میں جمہوریت چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو حق نہیں دیتے کہ وہ ان پر حاکم ہو۔

حکام اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن شریعت، قانون سازی، سیاست، معیشت، عسکری اور انتظامی امور میں دین کو حلال اور حرام کا اختیار نہیں دیتے، بلکہ اسے اپنے یا پارلیمان کے اختیار میں رکھتے ہیں۔

آج عالمِ اسلام کے حکام کی یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے احکام کو نہ تو وہ خود نافذ کرتے ہیں، اور نہ ہی کسی اور کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ انہیں نافذ کرے۔ اور یہ کام اس لیے کرتے ہیں کیونکہ مغربی ممالک بھی ان سے یہی چاہتے ہیں۔

۲۰۱۳ء میں مغربی افریقہ کے ملک مالی میں ’’انصار الدین‘‘ کے نام سے ایک جہادی گروہ ابھرا، اس نے مشہور شہر ٹمبکٹو میں اسلامی پرچم بلند کیا، اسلامی نظام اور عدالتیں قائم کیں، اور وہاں اسلام کے نفاذ کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ اس لہر کے اثر میں وہاں بسنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس گروہ کے ساتھ شامل ہو گئی، اور قریب تھا کہ وہاں حقیقی معنوں میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔

لیکن تب فرانس نے عملی مداخلت کی، اور اس وقت کے فرانس کے صدر ’’فرانسوا اولاند‘‘ (François Hollande) نے اعلان کیا کہ نہ صرف مالی میں اسلام کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جائے گی، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں شریعت کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ واحد چیز جس پر ہم مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی صلح یا سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ شریعتِ اسلامی کا نفاذ ہے۔

مغرب اور معاصر جاہلی نظام شریعت کے نفاذ کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟

مغربی ممالک اور عالمِ اسلام میں موجود معاصر جاہلی نظام، جو کہ مغربی فکر کے پیروکار اور اس کے نفاذ کنندہ ہیں، اس لیے شریعت کے نفاذ کی اجازت نہیں دیتے کہ شریعت کا عملی ہونا عالمِ اسلام کی زندگی کے تمام شعبوں میں امت کو دوبارہ مضبوط کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ شریعت کے نفاذ سے اسلام کے تصور، عقیدہ، اخلاق، سیاست، حاکمیت، عسکریت، امن، معیشت اور معاشرت کے ہر شعبے میں فساد کا سدّباب ہوتا ہے۔

جب فساد کا سدباب کیا جائے گا تو امتِ مسلمہ مضبوط ہوگی، اتحاد پیدا ہوگا اور صالح قیادتیں جنم لیں گی۔ اس صورت میں مغربی ممالک کے منصوبے عملی شکل اختیار نہیں کریں گے اور ان کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ شریعت کسی بھی اسلامی ملک میں نافذ ہو۔

پہلے جب عالمِ اسلام پر مجوسیت، نصرانیت، یہودیت اور عربوں کی جاہلیت کے اثرات تھے، تو مسلمانوں کے پاس مقابلے کے لیے یہ دو بنیادی عناصر موجود تھے:

  1. دینی علم اور مفاہیم
  2. علماء اور داعیان دین

اس وقت دین کا علم صرف علماء تک محدود نہیں تھا بلکہ مجموعی طور پر پوری امت میں دین کی سمجھ موجود تھی۔ لوگ دین کو عمل، دعوت اور دفاع کے لیے سیکھتے تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ کفری افکار کے شر سے کیسے بچا جائے۔

علمائے اسلام صرف تدریس، فتویٰ اور امامت تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ ہر طرح کے کفریہ اور منحرف افکار کا مقابلہ کرتے، ان پر کتابیں لکھتے، لوگوں کو ان کے حقائق سے آگاہ کرتے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچاتے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں کفریہ افکار مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر نہیں پھیلتے تھے۔ اگر پھیل بھی جاتے، تو حکومت تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے اور اگر کسی جگہ حاکم بھی ہوجاتے، تو زیادہ عرصے تک اقتدار میں نہ رہ پاتے۔

قدیم جاہلیت کے مقابلے میں، گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو فکری، فلسفیانہ اور تمدنی جنگ جاری ہے، وہ بہت وسیع، عمیق، چومکھی، ہمہ جہت اور منصوبہ بند ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو زندگی کے متعدد شعبوں میں مغلوب کیا گیا ہے۔

مغرب کی مادی اور الحادی فکر سے پیدا ہونے والی اس جنگ میں، نہ صرف نصرانی مغرب بلکہ اسلامی مشرق میں بھی دین کے خلاف میدانِ جنگ میں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو جدید اور خطرناک وسائل کے ساتھ لا کھڑا کیا گیا۔ یہ خطرناک اور ایمان ہلا دینے والی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب مغربی دنیا میں انقلابِ فرانس کے بعد مغربی فلسفہ غالب ہوا اور وہاں دین کو محدود کردیاگیا۔ اس کے بعد استعمار اور سیکولر حکومتوں و پارٹیوں کے دور میں عالمِ اسلام پر غلبہ حاصل کیا گیا اور زندگی کے ہر شعبے میں شریعت کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔

مغربی فکر، ثقافت اور فلسفے کی یہ جنگ عالمِ اسلام کے خلاف نہ صرف لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے میں کامیاب ہوئی، بلکہ لاکھوں ایسے لوگ جو اسلام سے منسوب تھے، خود بھی اس جنگ میں مغربی فلسفے کے حق میں اور اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ یہ در حقیقت مغربی جدید فلسفے اور اسلام کے درمیان ایک خطرناک تصادم ہے، جس کا مقابلہ اسلامی فکر، مسلسل جدوجہد اور گہری بصیرت کے بغیر ممکن نہیں۔

عالمِ اسلام میں مغرب سے درآمد شدہ جدید فلسفہ اور فکری مکاتب صرف علمی اور ثقافتی مفاہیم تک محدود نہیں رہے، بلکہ ان سے عقائد بنائے گئے، ان عقائد کی بنیاد پر نظام قائم کیے گئے، اور ان نظاموں نے لوگوں کو اپنے مطابق منظم کرنے کے لیے قوانین بنائے۔ انہوں نے فوجیں تشکیل دیں، غیر اسلامی اقتصادی نظام متعارف کرائے، کچھ نے کمیونزم کے نفاذ کے لیے تمام وسائل استعمال کیے، اور دیگر نے مغربی لبرل فکر اور نظام کے نفاذ کے لیے یہی حربے اپنائے۔

گزشتہ ایک صدی کے دوران اغیار کے افکار بڑے پیمانے پر افغان عوام میں پھیلائے گئے اور اس کے خطرناک نتائج بھی مرتب ہوئے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے دینی اور علمی مراجع نے تعلیمی نصاب کے ذریعے مؤثر اور مسلسل مزاحمت نہیں کی، اور ہمارے مدارس کے نصاب میں ایسے مضامین شامل نہیں کیے گئے جو پڑھنے والے میں نئی جاہلیت کے خلاف مؤثر فکری مقابلے کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ وہ معاشرے میں کمیونزم اور لبرل افکار کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔

افغانستان میں مغرب کے جدید فلسفے اور فکری مکاتب کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہوا، لیکن اس ٹکراؤ کے دوران ہماری طرف سے کوئی مؤثر مقابلہ نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس، محراب، منبر، خانقاہ اور دینی حلقے فکری محاذ آرائی کے لیے کتابیں نہ لکھ سکے، اور مدارس، مساجد، منابر، مجالس، علمی اور دینی اجتماعات میں مغربی فکری، اخلاقی اور دینی اقدار کے مقابلے میں کوئی نصاب تیار نہ ہوا، اور آج تک یہ خلا پُر نہیں ہوا۔

ہم اب بھی، چالیس سالہ جہاد کے بعد، مدارس میں نہ تو کمیونزم کے خلاف کچھ پڑھاتے ہیں، نہ لبرلزم، ہیومنیزم، ریشنلزم یا عقل پرستی، اور نہ ہی نیشنلزم کے خلاف کچھ پڑھاتے ہیں۔

افغانستان میں مغربی فکری ادبیات کے پھیلاؤ نے لاکھوں انسانوں کو مختلف درجات پر زندگی کے مختلف شعبوں میں مغرب کے راستے پر ڈال دیا، لیکن ان لوگوں کے بارے میں نہ ہمارے نصابوں میں معلومات ہیں، نہ شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں، اور نہ ان کے خلاف کوئی فکری مزاحمت موجود ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے معنوی اور اخلاقی اقدار کی جنگ کے کئی محاذوں پر بہت کچھ دشمن کے ہاتھوں دے دیا، جن میں ایک مثال یہ ہے:

سوویت یونین کے حملے اور قبضے کے دوران، ہمارے فوجی بجائے اس کے کہ روسیوں کے خلاف لڑتے، افسوسناک طور پر ذلت کے ساتھ ان کے ساتھ اور اپنے ہی عوام کے خلاف لڑے، اور اسلام کی بجائے کیمونزم کی حمایت کی۔

امریکی حملے اور قبضے کے دوران بھی افغان فوج کے نام پر قائم عسکری اور سکیورٹی ادارے بیس سال تک امریکیوں کے لیے اپنے ہی عوام کے خلاف لڑتے رہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی مدارس کے نصاب کو عملی شکل دینا چاہتا ہے، اس کے پاس اس مقابلے کے لیے مضبوط ارادہ، مؤثر حکمت عملی اور فعال میکانزم موجود نہیں ہیں، اور اگر ارادہ بھی موجود ہے تو عمل درآمد کے لیے موزوں افراد دستیاب نہیں ہیں۔

ہمارے مدارس زیادہ تر زید اور عمرو کی لڑائی میں مصروف ہیں، اور آج تک یہ سوچنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ مغرب کے وہ فکری مکاتب اور الحادی افکار جن کا مقصد اللہ تعالیٰ سے الوہیت اور پیغمبر سے رسالت سلب کرنا اور مسلمانوں کو بے دینی کی طرف راغب کرنا ہے، ان کے خلاف مدارس میں فعال کام کیا جائے۔

گزشتہ صدی کے دوران ہمارے ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زندگی کے مختلف شعبوں میں اغیار کے راستے پر گامزن ہوئی، اور زیادہ تر معاشرتی ڈھانچہ دینی نہ رہ سکا۔ فکری لحاظ سے لوگ اس قدر مغرب سے متاثر ہوئے کہ دینی عالم، روحانی رہنما، عوامی مصلح اور رہنما کی باتیں مغربی افکار کے مقابلے میں بے وقعت لگتی تھیں۔

افغان معاشرے میں وہ لوگ جو خود کو روشن خیال کہتے تھے، اپنے ادبی اور فکری اجتماعات اور اداروں کے ذریعے الحادی افکار پھیلاتے، اور ملحد شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں اور فلسفیوں کا تقدس حد درجہ تک مانتے، لیکن دینی عالم، مجاہد اور اسلام کے دفاع کرنے والے کی تنقیص کرتے اور ان کے دینی و سماجی افکار کو رد کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے۔

یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم، اس اسٹریٹجک فکر کے فقدان کی وجہ سے، اپنے فکری خطابات اور تعلیمی نصاب کے ذریعے ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکے، ان کے شبہات اور سوالات کا جواب نہیں دے سکے، اور اسلام کے فوائد اور مغربی فکر کی کمزوریوں اور نقصانات کو واضح نہیں کر سکے۔

سچ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مدارس کے بیشتر طلبہ اور فارغ التحصیل مغربی افکار اور شبہات کے مقابلے میں اپنی دینی فکر، عقیدے اور اسلامی تمدن کے ذریعے فکری اور علمی دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور یہ اس لیے نہیں کہ ہمارا دین یا فکر کمزور ہے، بلکہ اس لیے کہ طالب علم کو مغربی فکر اور تمدن کے مقابلے کی تعلیم ہی نہیں دی گئی۔ کیونکہ ہم نے اب تک اپنے نصاب میں اس قیمتی اور فکری جنگ کے لیے کچھ شامل ہی نہیں کیا۔

ہم نہ صرف مغربی فکر کے مقابلے کے لیے مدارس میں کچھ نہیں پڑھاتے، بلکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، صحابہ کرام رضي الله عنہم اور اسلام کی عظیم تاریخ بھی نہیں پڑھاتے۔ اور اگر کہیں پڑھائی بھی جاتی ہے تو ابتدائی سطح پر ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ طالب علم صرف خط و املاء سیکھتا ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں اگر طالب علم کو سیرت پڑھائی بھی جائے، تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، سیاست، سفارتکاری، جنگ و امن، معاشرتی تنظیم اور امورِ حکومت کے بارے میں کیا سمجھے گا؟

علمِ سیرت اور تاریخ، جو درحقیقت علم سیاست ہی ہے، اسے مدرسے کے ابتدائی درجات میں نہیں بلکہ تیسرے درجے سے لے کر ساتویں درجے تک پڑھایا جانا چاہیے، جب طالب علم فکری بلوغت تک پہنچ چکا ہو اور اس میں نصیحت سننے، اس سے نتیجہ اخذ کرنے اور حالات سے صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہو۔ یہ تعلیم تدریسی طور پر تقسیم شدہ شکل میں اور زمانے کی حقیقی مثالوں اور واقعات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو، تاکہ اسلام کی تکاملی سمت اور مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب و عوامل واضح ہوں۔

فکری اور تمدنی جنگ میں شکست خوردہ ہونا عسکری، سیاسی، فکری، ثقافتی، سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی شکست کے اسباب و عوامل پیدا کرتا ہے، قومیں اپنے تاریخی اور اقداری ورثے سے دور ہو جاتی ہیں اور دشمن کے زیرِاثر و تابع بن جاتی ہیں۔

ہمیں بحیثیت ایک متدین اور انقلابی قوم مکمل سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی عوام اور نسلِ نو کو دشمن کے ساتھ فکری جنگ میں دینی مفاہیم کی کمی سے بچائیں اور اس خلا کو پُر کریں۔

ہمارے دینی مدارس کے نصاب ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ طالب علم کو یونان کی قدیم منطق اور فلسفے کی چودہ کتابیں اور عربی زبان کے صرف و نحو کی سولہ کتابیں، اور وہ بھی غیر تطبیقی انداز میں پڑھائی جائیں، لیکن دشمن کے ساتھ فکری مقابلے کے شعبے میں سولہ سالوں میں بھی معاصر اسلامی مفاہیم، اسلامی دعوت، جدید اسلامی تحریریں، اسلامی نظام و سیاست، عالمی اور افغان حالات کی پہچان، دشمن کی پہچان اور دشمن کی زبان کے متعلق ایک بھی کتاب نہ پڑھائی جائے۔

آج افغانوں کی نئی نسل کمیونزم، لبرل ازم، جمہوریت، الحاد، قوم پرستی، ہیومنزم (انسان پرستی)، استعمار، استشراق، تنصیر، گلوبلائزیشن، ویسٹرنائزیشن، فیمنزم، شریعت کی بجائے وضعی قوانین کے اطلاق اور درجنوں دیگر کفری و گمراہ کن نظریات اور فکری مکاتب کے خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہی فتنے ہماری عوام کے لاکھوں افراد کو داخلی اور خارجی طور پر اسلام سے دور کر چکے ہیں اور شعوری طور پر انہیں مغربی صف میں کھڑا کر دیا ہے یا ان کے ساتھ روحانی اور فکری تعلقات قائم کرلیے ہیں۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کے طالب علموں کو اس بارے میں کیوں کچھ نہیں پڑھایا جاتا، جبکہ دین کی حفاظت اور اسلامی نظام کے قیام کی توقع بھی انہی طالب علموں سے کی جاتی ہے؟

یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے طلبہ علم اور نوجوان علماء فکری میدان میں کافی حد تک مقابلے کے تصورات کی کمی کا شکار ہیں، میں ایک مثال پیش کرتا ہوں:

2020ء میں نے افغانوں کے ایک اعلیٰ اور مشہور مدرسے میں سیاسی علوم کے تخصص کی کلاس میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی مشہور کتاب (الاسلام والنظريات السياسية) پڑھائی۔ یہ کتاب حکمرانی و سیاست کے شعبے میں اسلام اور دیگر سیاسی نظریات کا تقابلی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں مختلف افکار اور نظریات جیسے کمیونزم، لبرل ازم اور دیگر قدیم اور معاصر فکری و سیاسی مکاتب کا جائزہ لیا گیا ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ میری تخصص کی کلاس کے سامعین، جو مدارس کے فارغ التحصیل تھے اور دس بارہ سال درس حاصل کر چکے تھے، میرے مضمون اور باتوں سے کتنے واقف ہیں۔ اس سلسلے میں میراکلاس کے ایک شریک اور فارغ التحصیل عالم سے درج ذیل مکالمہ ہوا:

سوال: آپ تو افغان ہیں اور افغانوں نے تقریباً دو دہائیوں تک کمیونزم کے خلاف جدوجہد کی ہے، تو کیا آپ کمیونزم کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

جواب: نہیں، میں اسے نہیں جانتا۔

سوال: کمیونسٹوں کے بارے میں آپ نے کیا پڑھا یا سنا ہے؟

جواب: میں نے اپنے والد اور دیگر بزرگوں سے سنا ہے کہ کمیونسٹ افغانستان میں ایک جماعت تھے، یہاں انہوں نے سوویت یونین کی حمایت سے حکومت کی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔

سوال: آپ اچھی طرح سے سوچیں اور کوشش کر کے کمیونسٹوں کے بارے میں چند نکات بتائیں، کہ کمیونسٹ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اخلاقیات، نظام، معیشت اور انسان کی تخلیق کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں؟

میرے بار بار پوچھنے پر انہوں نے جواب میں کہا:

جواب: اس بارے میں میں نے کچھ نہیں سیکھا۔

سوال: چلیں میں اس بات کو چھوڑدیتا ہوں کہ کمیونزم کیا ہے اور کمیونسٹ کون ہیں؟ کیونکہ آپ اس زمانے میں ہیں کہ کمیونزم اب اس طرح یہاں یا کسی اور جگہ حکمران نہیں جیسا کہ سوویت یونین کے وقت تھی۔ لیکن آپ اس وقت مسلح جہاد بھی کر رہے ہیں، تو یہ مجھے بتائیں کہ آپ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور جنگ اور جہاد کا آپ کا مقصد کیا ہے؟

جواب: میں اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف لڑ رہا ہوں اور میرا مقصد اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔

سوال: اشرف غنی کی حکومت کس طرح کا نظام چاہتی ہے؟

جواب: وہ جمہوریت چاہتے ہیں۔

سوال: جمہوریت کیا ہے؟

جواب: یہ مغرب کا نظریہ اور طریقہ ہے۔

سوال: مجھے چند نکات بتائیں کہ وہ کیا کہتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے جس کے خلاف آپ لڑ رہے ہیں؟

جواب: یہ ایک گمراہ طریقہ ہے، لیکن میں اس سے آگے نہیں جانتا۔

میں ان طلبائے دین کو قصوروار نہیں سمجھتا، کیونکہ تعلیمی نصاب میں ان مضامین کی کمی نے انہیں موجودہ فکری جنگ میں باطل فکری مکاتب سے ناواقف اور ان کے خلاف جدید اسلامی تصورات کی کمی کا شکار کر دیا ہے۔

ہمارے مدارس کے طلبہ، جو صرف و نحو کے پیچیدہ مسائل سیکھ سکتے ہیں، وہ جدید کفر کے بارے میں بھی آسان اور اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ وہ جہاد، شہادت اور جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، تو پھر اس کے لیے بھی تیار ہیں کہ کوئی انہیں کمیونزم اور دیگر مغربی نظریات کے بارے میں سمجھائے، تاکہ وہ ان سے واقف ہوں اور پھر ان کا مؤثر انداز سے مقابلہ کریں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس نے نصاب کے ذریعے انہیں اس میدان میں کچھ بھی نہیں سکھایا۔

جدید فکری جنگ میں مفاہیم کے فقدان کا خطرناک نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ایک بڑے حصے کے دینی علماء اور طلبہ معاصر انسان کے فکری اور مفہومی مکالمے اور مناقشے سے عاجز ہو گئے، اور اس عاجزی کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں میں سے:

  • کچھ کمیونزم کی صف میں چلے گئے،
  • کچھ نے لبرلزم، نیشنلزم، معاصر الحاد اور قوم پرستی قبول کی،
  • اور ایک اور بڑا حصہ شریعت کی زندگی کے بجائے روایتی زندگی کو ترجیح دینے لگا۔

مسلمانوں کی نئی نسل کے ذہن میں جو مغربی طرزِ زندگی اور فکر کی وجہ سے شریعت اور اسلامی نظام کے بارے میں شبہات اور بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علماء اور طلبہ ایسے لہجے اور مفاہیم کے ذریعے انہیں مخاطب کریں کہ دوبارہ اسلامی شریعت پر ان کا اعتماد بحال ہو اور وہ صحیح معنوں میں اسلام کی آغوش میں واپس آجائیں۔

جدید فکری اورنظریاتی جنگ میں فکری شبہات کا جواب دینے میں ہمارے طلبہ اور علماء کی عاجزی اس لیے نہیں کہ وہ مخلص نہیں ہیں۔ کوئی شخص جو شہادت، بموں پر چڑھنے، بھوک و قحط برداشت کرنے، برف میں سفر کرنے اور جیل کے حالات سہنے کے لیے تیار ہے، وہ اس لیے بھی تیار ہے کہ کوئی اسے فکری میدان میں ماہر بنائے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نصاب میں اس خطرناک فکری جنگ کے بارے میں کوئی مواد موجود نہیں۔ اور چونکہ مدرسہ میں اس کام کے لیے ضروری علوم اور فعال پروگرام موجود نہیں، اس لیے لاکھوں مسلمان فکری میدان میں غیر مسلموں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، اور غیر مسلموں نے یہ خلا نصاب، ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبار، سیمینار، مجلے، یونیورسٹی، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے بھر دیا، اور مسلمانوں کی نسلِ نو اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کی صالحیت، تطبیق اور عملاً نفاذ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوگئی ہے۔

یہ صورتحال ایک ایسی حالت پیدا کر چکی ہے کہ اسلام سے منسوب عوام کی ایک بڑی تعداد خود اپنی اجتماعی زندگی، سیاست اور نظام کے معاملات میں اسلام نہیں چاہتے۔ ایسے لوگ کہتے ہیں:

  • میں مسلمان ہوں، لیکن میں اسلامی حکومت کے خلاف ہوں اور اسے نہیں چاہتا۔
  • میں مسلمان ہوں، لیکن اخلاق کے معاملے میں میرے ساتھ کسی عالم یا کسی اور کا کوئی سروکار نہیں۔
  • میں مسلمان ہوں، لیکن اسلامی حدود مجھ پر لاگو نہیں ہونی چاہئیں۔
  • میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں، لیکن اس کے احکام، دین کے تقاضے اور حکومت قبول نہیں کرتا۔
  • میں مسلمان ہوں، لیکن عسکری اور دفاعی میدان میں کفار کے ساتھ مجاہدین کے خلاف معاہدے کرتا ہوں اور ان کے دائرہ کار میں عمل کرتا ہوں۔

چونکہ ہم ایک قوم کے طور پر اس طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مدارس میں اسلامی فکری ادب کے مفاہیم داخل کیے جائیں اور اپنے طلباء اور اساتذہ کو ان سے آگاہ کیا جائے، تاکہ مقابلے کے میدان میں یہ بڑی کمی پُر کی جا سکے۔

اور یہ ایک ایسی کمی ہے جسے دشمن نے اپنے مفاد کے لیے بروئے کار لانے کے لیے لاکھوں پیشہ ور افراد ملازم رکھے ہوئے ہیں اور انہیں جدید ترین وسائل فراہم کر رکھے ہیں۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

Next Post

عمر ِثالث | دسویں قسط

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | دسویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | بتیسویں نشست

26 ستمبر 2025
Next Post
عمر ِثالث | ساتویں قسط

عمر ِثالث | دسویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version