ترکی اور شام کے بعض علاقوں میں آنے والے شدید زلزلے ا ور اس کے مابعد اثرات سے بیشتر لوگ واقف ہی ہیں۔ اموات کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، زخمیوں کی تعداد اس سے سوا ہے اور تاحال ملبے میں دبے تمام لوگوں کو باہر نہیں نکالا جاسکا اور نہ ہی یقینی طور پر معلوم ہے کہ کتنے افراد تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔ یقیناً یہ بہت بڑی آزمائش ہے متاثرین اور ان کے لواحقین کے لیے اور بحیثیت امت ہم سب کے لیے۔ دب کر مرنے والوں کو حدیث میں شہید کا درجہ دیا گیا ہے؛ اللہ شہداء کی شہادت قبول فرمائے، زخمیوں کو شفائے کاملہ وعاجلہ نصیب فرمائے، بچھڑے ہوؤں کو جلد اپنے پیاروں سے ملائے اور جن کے اپنے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، انہیں صبر جمیل اور بہترین بدل عطا فرمائے، آمین۔ ہمارے دل ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کے دکھ اور تکلیف پر غم زدہ ہیں، ہم مادی طور ان کی مدد پر قادر نہیں مگر وہ ہماری دعاؤں میں ضرور شامل ہیں اور ہم اللہ رب العزت سے ہی ان کی مدد و نصرت کی درخواست کرتے ہیں کہ وہی ہر بے سہارا کا سہارا اور ہر مسکین کا پرسان حال ہے۔
قدرتی آفات بعض پر اللہ رب العزت کا غضب ہوسکتی ہیں اور بعض کے لیے امتحان۔ ہم اللہ رب العزت کے غضب اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اسی کی پناہ چاہتے ہیں جس کی پناہ سے بڑھ کر کوئی پناہ محفوظ و مضبوط نہیں۔ مصیبت اور تکلیف کے اس وقت میں جس جس نے جہاں جہاں اخلاص کے ساتھ جتنی خدمت کی، اللہ ہر اس فرد کے عمل کو قبولیت عطافرمائیں کہ اللہ رب العزت ہی اس سے واقف ہیں اور وہی بہترین قدردان ہیں اور وہی بہترین جزا دینے پر قادر ہیں۔ ناگہانی موت اور ناگہانی آفات سبھی سے اللہ کے نبی نے پناہ مانگنا سکھایا ہے؛ صبح و شام کے اذکار بھی عافیت کی دعاؤں سے بھرپور ہیں؛ اللہ ہم سب کو اپنے ذکر اور اپنے نبی کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
لوگوں میں بعض ایسے سیاہ بخت بھی ہیں کہ جن کے دل اپنے مخالفین (اور اللہ کے دین کے محافظین) پر ٹوٹ پڑنے والی اس آفت پر نہال ہیں؛ جنہوں نے دانستہ یہ کوشش کی کہ متاثرین کو بروقت امداد نہ مل پائے اور گرنے والی عمارتوں کے ملبے پر کھڑے ہوکر بھی جن کے دل نرم نہ پڑے، جو یہ سوچتے ہوں کہ’ لو! یہ ہے انجام ان لوگوں کا جو خود کو خدا پرست اور اللہ کے دین کا محافظ سمجھتے ہیں …… بڑے آئے تھے ہم سے ٹکر لینے……‘ ، پس ایسے لوگ جان رکھیں کہ ؎تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا! اللہ جس کے لیے اپنی رسی دراز کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے، مگر یہ مہلت اس کے لیے ایسی مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے کہ پھر جہنم کی گہرائیوں میں آگ ہی آگ اور اللہ رب العزت کا دائمی غضب ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔
کہنے کو تو محض دو منٹ تک زمین ہلتی رہی؛ دو منٹ ہماری عام روزمرہ زندگی میں کیا معنی رکھتے ہیں؟ منٹ کیا بلکہ گھنٹوں پر گھنٹے اور دنوں پر دن گزرتے چلے جاتے ہیں اور خواب غفلت میں پڑے حضرت انسان کو ادراک ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ چاہتا ہے کہ اسے ادراک ہوــ مگر محض دو منٹ تک زمین ہلنے سے کتنوں کی زندگیاں زیر و زبر ہوگئیں۔ سر بہ فلک عمارتیں لمحوں میں مٹی کا ڈھیر ہوگئیں اور کتنی ہی زندگیوں کو نگل گئیں۔ عبرت سی عبرت ہے۔ ان عمارتوں کے مکینوں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ آنے والی صبح ان کے لیے موت کا پیامبر بن کر آئے گی۔ انہوں نے بھی رات سونے سے پہلے اگلے دن کی منصوبہ بندی کی ہوگی؛ ظاہر ہے کہ جس نے خیر کا ارادہ کیا ہوگا وہ اپنی نیت کا پھل پالے گا اور جس نے شر کا ارادہ کیا ہوگا وہ اپنی نیت کا پھل پائے گا۔ کیا اس ماں نے کبھی سوچا ہوگا کہ اس کی بچی اپنی ماں کے مردہ بطن سے اس حال میں دنیا میں آئے گی کہ اس کے خاندان کا ایک فرد بھی زندہ نہیں بچا ہوگا؟ سردی کی شدت میں کئی کئی دنوں تک ملبے میں دبے رہنے کے بعد زندہ بچ نکلنےوالوں میں بے شک اللہ کی عظیم نشانی ہے۔ پس اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دینے پر قادر ہے۔
کوئی فوت ہوجاتا ہے تو ہم اسباب پر بحث کرتے ہیں؛ مگر اصل بات تو ہمیشہ ہی یہ ہوتی ہے کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو ظاہری سبب خواہ ہو یا نہ ہو ، کوئی اسے روکنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اور جب وقت مقررہ نہ آیا ہو تو موت کے سارے اسباب پورے ہونے کے بعد بھی انسان زندہ بچ جاتا ہے۔ زلزلے میں جہاں کئی قوی الجثہ ، مضبوط جسم اور مضبوط اعصاب کے حامل لوگ وفات پاگئے وہاں اس نومولود نے موت کی اس وادی میں زندگی کی ابتدا کرنی تھی، اسی طرح ایک اور (غالباً چند ماہ یا سال بھر کے) ننھے بچے کو اس حال میں اللہ نے بچانا تھا کہ وہ اپنی فوت شدہ بہن کی بانہوں میں تھا۔
یقیناً ضرورت ہے اس بات کی کہ ان بلند وبالا عمارات کے تعمیر کرنے اور کروانے والوں کا کڑا محاسبہ کیا جائے؛ دنیا میں محاسبہ اور سزا بہرحال آخرت کے محاسبے اور سزا سے ہلکی ہے۔ ضرورت ہے کہ آئندہ عمارتیں اس طرز پر تعمیر کی جائیں کہ وہ زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کو سہہ سکیں اور اس طرح سے جانی و مالی نقصان کے امکانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ضرورت ہے اس بات کی کہ ریاستی سطح پر، بڑے پیمانے پر آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بقدر استطاعت انتظامات کیے جائیں مگر ان سب اقدامات سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے ……
کہ اس زلزلے میں زندہ بچ جانے والے اور دیگر افراد امت اپنی اپنی آخرت کی فکر کریں کہ اسی طرح ایک دن دبے پاؤں قیامت کا زلزلہ بھی آجائے گا؛ ہوش مندوں نے اس کی تیاری کررکھی ہوگی جبکہ بے ہوشوں کو اس وقت ہوش آئے گا جو بےسود ہوگا۔ عمل کی مہلت اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر اس نعمت کو اعمال خیر میں سبقت لے جانے میں کھپایا جائے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، پس ہم میں سے ہر ایک اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی بخشش اور جہنم کی آگ سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی کوشش پر جت جائے۔ ماہ مبارک میں اپنی جان عبادات میں اور اپنا مال واجب و نفل صدقات وخیرات میں لگائے اور یوں اپنی قبر اور اس آخرت کو سنوارنے کا انتظام کرے کہ جو قریب ہی آلگی ہے۔
٭٭٭٭٭