ماہِ جنوری ۲۰۲۳ء میں ’پیغامِ پاکستان‘ کی یاد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (حفظہ اللہ) نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی اور ریاستِ پاکستان اور اس کے حکمرانوں کی شرعی حیثیت کے متعلق گفتگو کی جس میں آپ نے ریاستِ پاکستان کو اسلامی ریاست بیان فرمایا اور اس کے خلاف مسلح جدوجہد کو ناجائز اور بغاوت قرار دیا نیز افغانستان کے دار الحکومت کابل میں تحریکِ طالبانِ پاکستان کے قائدین سے ہونے والے مذاکرات کا بھی کچھ حال بیان فرمایا۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے اس بیان کے جواب میں امیر تحریک طالبان پاکستان مفتی نور ولی محسود (ابو منصور عاصم)حفظہ اللہ نے ایک صوتی بیان جاری کیا جس میں مفتی نور ولی صاحب نے اپنے مقصدِ جہاد اور ریاستِ پاکستان اور اس کے حکمرانوں کے شرعی حکم وغیرہ سے متعلق اپنا موقف بیان کیا۔ مفتی نور ولی محسود صاحب حفظہ اللہ ہی کے مثل علماء و قائدینِ جہاد کا موقف روزِ اول سے واضح ہے اور ماضی و حال میں ریاستِ پاکستان اور جہادِ پاکستان کے حوالے سے اپنا شرعی منہج قرآن و حدیث اور فقہائے امت کے اقوال و تعبیرات کی روشنی میں بیان کرتے رہے ہیں اور اپنا خون نظامِ اسلامی کے نفاذ کے لیے بہاتے رہے ہیں ۔ (ادارہ)
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ
أمابعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ(سورة التوبۃ: ۱۱۹)
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔ ‘‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمدللہ ہمارا تعلق اہل السنۃ والجماعۃ سے ہے ، ہم علماء و رجال دین کی قدر دل و جان سے کرتے ہیں، چہ جائیکہ ان کی توہین و تحقیر کریں۔ حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، جو موجودہ دور میں چوٹی کے عالم ہیں، ان کا علمی مقام اپنی جگہ مسلم ہے، مگر مفتی صاحب نے جو بیانیہ ہمارے حوالے سے دیا ہے ہم اس کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ادب اور احترام کی وجہ سے ہم خاموش رہے تو کہیں ہم مسلمانوں کی لاتعداد قربانیوں کے ساتھ خیانت کرنے والوں میں شمار نہ ہوجائیں۔
مفتی صاحب نے جو یہ بات کہی ہےکہ ’’پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اس کے خلاف مسلح جنگ کھلی بغاوت ہے‘‘، اس بارے میں عرض ہے کہ موجودہ جنگ کی ابتدا ہم نے نہیں کی ہے، بلکہ ہم نے تو امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف حملہ آور امریکہ اور اس کےاتحادیوں کےخلاف اپنے مقدس جہاد کی ابتدا کی تھی، مگر پاکستان کی حکومت اور افواج نے اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان سے ڈالر بٹورنے کے لیے ہماری آزاد سرزمین پر ہمارے یہاں پناہ گزین مہاجرین کے خلاف آپریشن شروع کیے، جس کے رد عمل میں ہمارے استفتا کے بغیر پاکستان کے مؤقر دینی اداروں کے ساتھ تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زائد جید اور ممتاز علمائے کرام نے افواج پاکستان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا جو بعد میں ’وانا آپریشن سے متعلق علماء کا متفقہ فتویٰ‘ کے نام سے بار بار شائع ہوا۔ چنانچہ ہم نے اس فتوے اور اس جیسے اکابر کے دیگر فتاویٰ جات کی روشنی میں اپنے جہاد کا رخ پاکستان کی طرف بھی موڑ لیا۔ تو جب پہل ہماری طرف سے نہیں تو ہمیں کیوں مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے؟اور ساتھ میں یہ بات بھی ہے کہ بغاوت تو امام برحق یا امام عادل کے خلاف ناحق قیام کی صورت میں ہوتی ہے، جیسا کہ البنایۃ شرح الھدایۃ میں باب البغاۃ کے تحت ہے:
فأھل البغی ھم الخارجون علی امام الحق بغیر حق
’’پس باغی وہ ہوتے ہیں جو امام برحق کے خلاف بغیر حق کے خروج کرتے ہیں۔ ‘‘
جب کہ ہمارے نزدیک پاکستان کے حکمرانوں کو امام عادل کی حیثیت دینا قطعاً درست نہیں ہےکیونکہ انہوں نے عالم اسلام اور کفر کے درمیان جاری جنگ میں دہشت گردی کے نام پر عالمی دہشت گردوں، امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیا۔ افغان ملت اور عراقی عوام کے خلاف امریکی بربریت کا ساتھ دیا، امیر المومنین ملا اختر منصور رحمہ اللہ کو امریکی مفادات کے لیے شہید کروایا، سفارتی اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئےطالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف صاحب کو بڑی بے عزتی کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکی خوشنودی کے لیے سابق طالبان وزیر دفاع ملا عبید اللہ اخوند صاحب کو گرفتار کرکے شہید کیا۔ ہر دل عزیز شخصیت ، افغان جہادی رہنمااستاد یاسر صاحب کو گرفتار کرکے سالہاسال سے لاپتہ کیا، افغان طالبان کے خلاف امریکہ کو فضائی، زمینی اور بحری راستے اور اڈے دیے اور انہیں لاجسٹک سپورٹ مہیا کی۔ پاکستان کی سرزمین سے افغان مسلمانوں پر ستاون ہزار حملوں کی سہولت کاری کی، جس کے نتیجے میں اس وقت کی واحد اسلامی حکومت سقوط سے دوچار ہوئی اور لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ چھ سو سے زائد عرب مجاہدین و مہاجرین کو ڈالروں کے بدلے امریکہ کے سپرد کیا۔ قوم کی بیٹی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ دونوں اطراف سے مجاہدین کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ کے کہنے پر اپنی مشرقی سرحد سے مغرب کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ فوج کو لاکھڑا کیا۔ امریکی حکم پر اپنے مسلمان عوام کے خلاف المیزان آپریشن سے لے کر رد الفساد تک بے شمار آپریشن کیے۔ پاکستان کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے جامعہ فریدیہ کے مہتمم و خطیب لال مسجدمولانا عبداللہ صاحب، مفتی نظام الدین شامزئی صاحب، شہید اسلام مولانا یوسف لدھیانوی صاحب، شیخ ولی اللہ کابلگرامی صاحب، غازی عبدالرشید صاحب، شیخ نصیب خان صاحب، مولانا سمیع الحق صاحب اور ڈاکٹر عادل خان صاحب رحمہم اللہ جیسے دسیوں علمائے حق کو شہید کروایا، اپنی قوم کی باحیا طالباتِ جامعہ حفصہ کو فاسفورس بموں سے بھون ڈالا، قبائل میں سیکڑوں مدارس و مساجد کو مسمارکیا، لاکھوں قبائلی مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کرکے آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کیا۔ حدود آرڈیننس جیسے قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ ایسے قوانین کا اجرا کیا جن سے وطن عزیز میں فحاشی و عریانی کو فروغ ملے، چنانچہ ٹرانس جینڈر بل، میراتھن ریس اور زنا بالرضا کی حوصلہ افزائی جیسے امور اس کی واضح مثالیں ہیں۔
ہم کس طرح پاکستان کے حکمرانوں پر امام عادل کا اطلاق درست مان سکتے ہیں؟ ان پر تو مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ کا فتوی پوری طرح منطبق ہوتا نظر آتا ہے :
’’ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ سے علماء یا حکام مسلمین مراد ہیں، یعنی ایسے حکام جو مسلمان ہوں اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق احکام جاری کریں۔ ایسے مسلمان حاکم جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے خلاف حکم جاری کریں، وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ میں داخل ہیں اور خدا اور رسول کے خلاف حکم جاری کرنے والوں کو قرآن پاک میں طاغوت فرمایا گیا ہے، اور طاغوت کی اطاعت حرام ہے۔پس جو شخص ایسے حکام کو، جو الٰہی شریعت اور آسمانی قانون کے خلاف حکم کرتے ہیں وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ میں داخل قرار دے وہ قرآن پاک کی نصوص صریحہ کی مخالفت کرتا ہے، انگریزی قانون کے ماتحت خلاف شرع حکم کرنے والے خواہ غیر مسلم ہوں خواہ نام کے مسلمان ہوں، طاغوت ہیں، اولوا الامر میں کسی طرح داخل نہیں ہوسکتے۔‘‘ (کفایت المفتی ، ج۱، ص ۱۳۹)
رہی یہ بات کہ ریاست پاکستان اسلامی ہے تو اگر ریاست سے مراد ملک اور وطن ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک اور وطن ہے اور اگر ریاست سے مراد حکومت ہو تو نہ یہ حکومت اسلامی ہے اور نہ یہ خودمختار ہے، بلکہ حکومت پاکستان غیر شرعی، ظالم اور امریکہ اور مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی اور غلام ہے۔ پاکستان کی فوج برطانیہ کی تیار کردہ فوج کا تسلسل ہےجو ہمیشہ مسلمانوں اور اسلامی اقدار کے خلاف کرائے کی فوج کے طور پر استعمال ہوئی ہے، اس حوالے سے پاکستانی فوج کی تاریخ ایک سیاہ اور شرم ناک تاریخ ہے جس کے بیان کا فی الحال موقع نہیں۔ کسی حکومت کے اسلامی ہونے کے لیے مفتی اعظم مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ ، احسن الفتاوی، ج۶، ص۲۱ میں فرماتے ہیں:
’’جب تک کوئی حکومت اسلامی احکام کو نافذ نہ کرےاس وقت تک وہ اسلامی حکومت نہیں۔ ‘‘
محدث العصر، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اولوا الامر کی اطاعت و توقیر و تعظیم کا حکم دیا ہےان سے مراد وہی امراء ہیں جو حدود اللہ قائم کرتے ہیں، امر بالمعروف نہی عن المنکر کرتے ہیں، خود عالم دین ہیں یا کم از کم تعلیم دین اور اقامتِ شرعیہ کا فریضہ ادا کرنے پر قائم ہیں، ان کی اطاعت شریعت و دین کا جزو ہے۔ اگر کوئی امیر یا حاکم وقت خلاف شریعت حکم دے تو خود اس کی شرعی حیثیت ختم ہوجاتی ہے، تو اس کی اطاعت تو کیا بلکہ مخالفت کرنی ہوگی۔‘‘(فتاوی بینات، ج۲، ص ۲۹۱)
مفتی نظام الدین شامزئی صاحب اپنے فتوے میں لکھتے ہیں:
’’اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین و وسائل و معلومات ان کو فراہم کررہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہوچکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہیےکہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کریں چاہے اس کے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیا جائے۔‘‘
اسی طرح مفتی نظام الدین شامزئی صاحب اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:
’’اور یہ جو منافق ہم پر مسلط ہیں، سب سے پہلے ان کے خلاف اٹھ کر مسلح جہادکرنا ہوگا، میں قلم کا جہاد نہیں کہہ رہا ہوں، میں زبان کا جہاد نہیں کہہ رہا ہوں، بہت کرچکے، ہم بہت کرچکے قلم کا جہاد، بہت کرچکے زبان کا جہاد، اب ان کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اگر مسلمان نوجوانوں میں قوت ہے تو اٹھ کر ان کا گلا دبادیں، یہ سروں کی فصل پک چکی ہے اور یہ گرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
طالبان باغی نہیں، بلکہ کھلے باغی تو پاکستانی سکیورٹی ادارے ہیں کہ وہ شریعت کے مقابلے میں مجاہدین کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔
مولانا یوسف لدھیانویؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’طالبان محض اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے لڑرہے ہیں، اس لیے وہ ان شاء اللہ حق پر ہیں اور باقی لوگ ان کے مقابلے میں باغیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘(آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج ۷، ص ۵۳۵)
دوسری بات یہ کہ ہم نے آپ حضرات کو یہ بات نہیں کہی تھی کہ ہم آئندہ ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ ہم اس بات کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ ہم نےیہ بات نہیں کہی۔
الحمدللہ جہاد پاکستان ہم نے شرعی دلائل کی روشنی میں شروع کیا تھا۔ پانچ سو سے زائد جید علمائے کرام کے فتوے سے یہ مقدس جہاد شروع ہوا تھا، جس میں ہزاروں جوان شہید ہوئےاور ہزاروں جوانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں اور ہزاروں جوان آج بھی میدان جنگ ، میدان جہاد میں مصروف عمل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی اسلام دشمن فوج کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ اور خود بھی اپنا مبارک لہو بہا کر ان سے اپنی پاک جہادی اور اسلامی سرزمین آزاد کرانے میں مصروف عمل ہیں۔ الحمدللہ ہمارا مقدس جہاد امید کے ایک معیاری پڑاؤ میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک محاذ پر جہادی عمل کے ذریعے شیطانِ اکبر اور اس کے اتحادیوں کو تاریخی شکست دی جاچکی ہے جبکہ دوسرے محاذ پر بھی ہم منظم ہوچکے ہیں اور بڑی مستعدی کے ساتھ ہم نے اس پر کام شروع کررکھا ہے۔ جس سے ہم پرامید ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اقدس سے ہمیں قوی امید ہے کہ ہمیں پاک سرزمین پر فتح سے نوازیں گےجیسے افغان سرزمین پر ہمیں نوازا۔ جہاد ایک معجز فریضہ ہے جس کے نتیجے میں اس چیز کو وجود ملتا ہے جو بظاہر ناممکن ہو۔
تیسری بات یہ کہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان سے عوام الناس کو یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ گویا تحریک طالبان پاکستان، گناہوں کی وجہ سے افواج پاکستان کی تکفیر کرتی ہے، حالانکہ حقیقت ایسی نہیں۔ دیگر مسائل کی طرح تکفیر کے موضوع میں بھی تحریک طالبان پاکستان کا مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کا ہےکہ گناہوں پر ہم کسی کی تکفیر نہیں کرتے۔
مفتی صاحب کے بیان میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’آپ نے بچوں عورتوں اور علماء تک کو نہیں بخشا‘‘، اس بیان پر ہمیں انتہائی افسوس ہے۔ شاید مفتی صاحب کو حقائق کا علم نہیں۔ ہم نے تو بچوں عورتوں اور علماء کو شہید نہیں کیا۔ لگتا ایسا ہے کہ مفتی صاحب کے سامنے دشمن نے بعض واقعات کو اس رنگ میں پیش کیا ہےکہ گویا وہ تحریک طالبان پاکستان کے کام ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بچوں عورتوں اور علماء کے قاتل یا تو براہ راست پاکستانی سکیورٹی ادارے ہیں یا پاکستانی اداروں کے زرخرید لوگ ہیں۔ ہم نے تو ان مظلوموں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر نہ صرف یہ کہ اپنی جانوں کے نذرانےپیش کیے بلکہ ایسی قربانیاں دیں جن کی نظیر ماضی قریب میں کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر تحریک کی طرف منسوب،یعنی تحریک طالبان پاکستان کی طرف منسوب، کسی شخص نے ناجائز قتل کیے ہوں تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اس سے پہلے بھی براءت کا اعلان کرچکی ہےاور اب بھی کرتی ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے اہداف، تحریک طالبان پاکستان کے لوائح میں واضح اور متعین ہیں۔ اگر شرعی عدالت میں اس کا یہ جرم ثابت ہوجائے تو ہم اسے شریعت کے مطابق سزا دینے میں بالکل نہیں ہچکچائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مفتی صاحب کی یہ بات کہ ’’علماء نے روس اور امریکہ کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا، لیکن آپ نے اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا‘‘۔ اس بارے میں عرض پیش خدمت ہے کہ جب افغانستان پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے امریکہ و نیٹو نے حملہ کیااور اس کے نتیجے میں آزاد قبائل کی طرف افغان مجاہدین وغیرہ ہجرت پر مجبور ہوئے اور پاکستانی عوام، بالخصوص آزاد قبائل نے انہیں پناہ دی تو افواج پاکستان نے امریکی حکم پر مہمان مجاہدین اور قبائلی عوام کے خلاف ظالمانہ آپریشنوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان آپریشنوں کے خلاف اس وقت ملک کے جید وممتاز پانچ سو سے زائد علمائے کرام نے ایک فتوی جاری کیا تھا جس میں علمائے کرام نے افواج پاکستان کے آپریشنوں کو ناجائز وحرام کہا تھا، افواج پاکستان کو قطاع الطریق اور ڈاکو کہا تھا، ان کے مارے جانے کی صورت میں انہیں مردار کہا تھا، ان کی نماز جنازہ کے بارے میں قطاع الطریق اور راہ زنوں والے احکامات جاری کیے تھےجبکہ بالمقابل قبائلی مجاہدین و عوام کے اقدام کی تائید کی تھی، مارے جانے کی صورت میں انہیں شہید کہا تھا۔ ہم اس فتوے کی بات کرتے ہیں جو ’وانا آپریشن سے متعلق علمائے کرام کا متفقہ فتوی‘ کے نام سے مشہور ہے۔
آخر میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جن علماء کو ہمارے جہاد میں شکوک و شبہات ہوں اور دلائل کی روشنی میں ہمارے ساتھ افہام و تفہیم کے لیے مکالمہ کرنا چاہیں تو ثالث کی موجودگی میں ہم ہر وقت اس کے لیے تیار ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین۔
٭٭٭٭٭