شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی اورمفتی نور ولی محسود حفظہ اللہ کے بیانات کے تناظر میں
تنقیحات اور گزارشات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ، وبعد
حالیہ عرصے میں پاکستان میں ریاستی مسلح اداروں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی کے بعد ریاستی اداروں کی طرف سے ملک کے مؤقر علمائے کرام کی مجلس منعقد کی گئی جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ نے بذریعہ مواصلات ویڈیو خطاب کیا، اور تحریکِ طالبان پاکستان کے امراء کے ساتھ افغانستان میں ہونے والی مذاکراتی مجلس کی کچھ روداد بیان فرمائی، اور ساتھ ہی اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کے آئین میں قراردادِ مقاصد کے شامل ہونے کے بعد اب اس ریاست کے اسلامی اور’مسلمان‘ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ چنانچہ اس اسلامی ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانا حرام ہے اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں چند دن بعد مفتی نور ولی محسود صاحب نے وضاحتی بیان دیا اور اپنے طرزِ عمل کے حوالے سے شرعی دلائل دیے۔
یوں ان دنوں وطنِ عزیز میں دوبارہ سے یہ بحث چھڑ گئی کہ اس ریاست کی حیثیت کیا ہے، اور یہاں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کی حیثیت کیاہے؟ ریاستِ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے یہ کوشش سامنے آئی کہ وہ نفاذِ شریعت کے لیے برسرِ پیکار مجاہدین اور ملک کے مؤقر علمائے کرام کو آمنے سامنے کردیں، اور خود اپنے طرزِ عمل کو درست کرنے کی بجائے دینی طبقے میں انتشار اور باہمی منافرت کو عام کریں، اور نتیجے میں وطنِ عزیز پاکستان کو… جو گزشتہ آٹھ دہائیوں سے مسلسل زوال پذیر ہے، اسلام اور شریعت کی بہاروں سے محرومی ایک طرف، دنیوی اسباب ومعیارات کے مطابق بھی تنزلی اور انحطاط کا شکار ہے… مزید کمزوری اور اضمحلال کی حالت کی طرف دھکیل دیں، اور اسے عالمی طاقتوں کا باجگزار اور غلام بنا دیں۔ اس کیفیت نے مجبور کیا کہ وطنِ عزیز کے دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے سبھی عوام وخواص کے سامنے اپنے وطن میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے متعلق کچھ گفتگو کی جائے اور متنازعہ امور کی تنقیح اور ان سے متعلق چند گزارشات رکھی جائیں۔
بندہ ابتداء میں ہی واضح کردینا چاہتا ہے کہ اس تحریر کا داعی اپنے وطن کے ناگفتہ بہ ماضی وحال اور اس وطن میں مغربیت اور اسلام کی کشمکش میں اسلام کی دگرگوں حالت کا غم ہے اور آگے مستقبل میں درپیش خدشات وخطرات کا احساس ہے، اور بندہ یہ تحریر کسی جماعت یا گروہ کی پالیسی کے بیان کے طور پر نہیں، بلکہ وطنِ عزیز کے ایک باشندے اور اس کے دینی طبقے کے ایک فرد کے طور پر ضبط میں لا رہا ہے۔ دوسری یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اس تحریر میں ریاستِ پاکستان کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے اور یہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کی حیثیت کے تعین کے بارے میں علمی ونظری بحث ہے جس کے مخاطب وطنِ پاکستان سے اخلاص رکھنے والے تمام افراد ہیں خواہ وہ کسی بھی طبقے اور جماعت سے ہوں، حتی کہ ریاستی اداروں کے افراد ہوں۔ عملی اقدامات سے اس تحریر میں تعرض نہیں کیا گیا ہے، گو یہ سبھی کے سمجھنے کی بات ہےکہ فکرونظر وہی کام کی ہوتی ہے جو عمل کی بنیاد ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان میں جاری اصل معرکہ؛ سیکولر نظریہ حیات اور اسلامی نظریہ حیات کے درمیان ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے خطوط طے کرنے سے قبل لازم ہے کہ اس ریاست کی حیثیت متعین کی جائے۔ حیرانگی ہمیں اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو مغرب کی تقلید میں اس وطن کو غیر اسلامی اور لبرل وسیکولر بنیادوں پر کھڑ اکرنا چاہتے ہیں، اور جو اپنے دل ودماغ میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اس ملک کو سیکولر اسٹیٹ کے طور پر قائم کیا تھا، وہ اس ملک میں نفاذِ اسلام کی ہر غیر جمہوری تحریک (خواہ پر امن ہی کیوں نہ ہو) کی مخالفت کے لیے ریاست کے ’اسلامی‘ ہونے کے دلائل جمع کرتے ہیں اور علمائے کرام کے فتاویٰ لیتے پھرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ یہ ریاست اسلامی ہے یا غیر اسلامی، ان کا کردار تو واضح ہے کہ وہ اس ملک کو سیکولر ولبرل ملک بنادینا چاہتے ہیں۔ تاہم چونکہ اس بات کا انھیں خوب ادراک ہے کہ وہ یہ کام کھلے بندوں نہیں کرسکتے، اس لیے منافقت سے کام لیتے ہیں، زبان سے تو اسلام کا نام لیتے ہیں اور کام غیرِ اسلام کے کرتے ہیں۔ یہ وہی طرزِعمل ہے جو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان قائم کرنے والے مسلم لیگ کے حقیقی کرداروں کو بے دخل کرکے انگریزی نظام کے بیوروکریٹس، جرنیلوں اور انگریز کے وفادار جاگیرداروں نے اختیار کیا۔ ان حکمرانوں اور جرنیلوں نے نام تو اسلام کا لیا، مگر اپنے مفادات کے حصول کے پیچھے عالمی طاقتوں کے ہاتھ کھلونا بنے اور ملک کو تباہی کی راہ پر دھکیل دیا۔
یہ بات اس لیے لکھ دی کہ پاکستان میں ریاست سے متعلق بنیادی طور پر دو بیانیے پائے جاتے ہیں۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور مذہب انسان کو پابند نہیں بناتا کہ وہ حکومتی وریاستی امور کو بھی مذہب کے تابع کرے۔ یہ دراصل سیکولر بیانیہ ہےاور اس بیانیے کا حامل پاکستان کا انتہائی محدود طبقہ ہے،مگر افسوس کا مقام ہے کہ یہ طبقہ عالمی طاقتوں کی حمایت کے سبب پاکستان پر ’قابض‘ ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طبقے نے دین سے نسبت رکھنے والے ایک طبقے کو بھی اپنے ساتھ فکر ونظر میں شامل کرلیا ہے۔دین سے نسبت رکھنے والے اس طبقے کے سرخیل جاوید احمد غامدی صاحب ہیں، جو مذکورہ سیکولر نظریے کو اسلام میں ثابت کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے دیگر ادیانِ سماویہ کے حاملین نے اجتماعیت میں سیکولرزم کو بطورِ دین قبول کرلیا ہے اور مذہب اب ان کے یہاں محض نجی زندگی کا معاملہ ہے۔
یہ بیانیہ پاکستان کے سیکولر طبقے میں ہی مقبول ہے، دینی طبقے میں بالعموم اس بیانیے کی کوئی مقبولیت نہیں، ہاں روایتی دینی طبقے کے معدودے چند افراد ضرور غامدی صاحب کی اتباع میں اس بیانیے کے حامل بن گئے ہیں، جن میں مولانا سرفراز خان صفدر کے خاندان کے عمار خان ناصر، جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے زاہد صاحب اور کراچی کے رعایت اللہ فاروقی صاحب کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ یہ بہت محدود افراد ہیں اور چونکہ انھوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے اصولوں سے ہی انحراف کیا ہے اور قرآن وسنت کی تاویلات میں صحابہ کرام واسلاف کی پیروی اور فقہائے کرام کے اجتہادات1 سے ہی روگردانی کی ہے، سو ان کابیانیہ اور افکار ونظریات پاکستان کے دینی طبقے کے یہاں مردود ہیں۔ ہمیں اس بیانیے پر مزید کچھ لکھنے کی حاجت نہیں کہ خود شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ نے غامدی صاحب کے جواب میں اس بیانیے کی خطا اور بطلان واضح کیا ہے۔ ہم نے صرف یہاں یہ اشارہ دے دیا کہ وطنِ عزیز پاکستان میں ایک محدود طبقہ ریاست کے حوالے سے یہ سیکولر نظریہ یا ’سیکولر اسلامی‘ نظریہ رکھتا ہے، اور پاکستان میں اگر روزِ اول سے کوئی معرکہ بپا ہے تو وہ اس سیکولر نظریے اور حقیقی اسلامی نظریے کے درمیان بپا ہے۔ یہ سیکولر نظریہ اور سوچ پاکستان کی اساس اور بنیاد سے ہی متصادم ہے، اور اسے کسی طور پر پاکستان کا دینی طبقہ اور غالب اکثریت قبول نہیں کرسکتی۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فکر کی حد تو اسے قبول نہیں کیا گیا، مگر عمل کی زندگی میں یہی نظریہ کارفرما ہے، اور اسی کا حامل طبقہ مقتدر ہے۔ پاکستان کی غالب اکثریت کے یہاں غیر مقبول ہونے کے باوجود اس طبقے کا عملی غلبہ کیسے ممکن ہوا، آگے چل کر دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے دینی طبقے کا بیانیہ
مذکورہ بالا بیانیے کے مقابلے میں جو بیانیہ پاکستان میں پایا جاتا ہے ، وہ دینی طبقےکا بیانیہ ہے کہ دینِ اسلام میں ریاست کااسلام سے تعلق ناگزیر ہے، اسلام کسی بھی دوسرے مذہب کی طرح نہیں کہ جو صرف انسان کی نجی زندگی سے متعلق ہو، بلکہ اسلام میں نظمِ اجتماعی سے متعلق بھی ہدایات موجود ہیں جن پر عمل اختیاری (optional) نہیں، بلکہ لابدی وضروری (compulsory) ہے۔کوئی بھی مسلمان اس سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا کہ اسلام اپنی نہاد میں ہی ریاستی غلبے کا تقاضا کرتا ہےاور وہ اپنے ماننے والوں کو اس کی گنجائش نہیں دیتا کہ وہ آدھے دین پر عمل کریں اور آدھے کو چھوڑ بیٹھیں، نجی زندگی میں تو دین پر عمل کریں اور اجتماعی زندگی میں آزاد ہو بیٹھیں۔ برصغیر پر برطانوی قبضے کے بعد مسلمانوں نے فرنگیوں سے آزادی کی جدوجہد اسی نظریے کے تحت شروع کی، اسی نظریے نے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کی اور اسی نظریے کے تحت قائدِ اعظم محمد علی جناح کو برصغیر کے دینی طبقے کی حمایت حاصل ہوئی۔ تاریخ کا ہر ادنی طالبعلم جانتا ہے کہ اگر ’پاکستان کا مطلب کیا؛ لا الہ الا اللہ‘ کا نعرہ نہ لگتا، تو برصغیر کا یہ نقشہ نہ ہوتا جو آج دنیا میں ہے۔یہ نعرہ اسی بات کا بیان تھا کہ ایک ملک ایسا چاہیے کہ جہاں اسلام بطورِ دین رائج ہو، جہاں کی اکثریت نہ صرف مسلمان ہو، بلکہ اسلام عملاً حکومت کرتا ہو۔ یہی بات علامہ محمد اقبال نے الہ آباد میں کہی، اسی بات پر علامہ شبیر احمد عثمانی نے تحریکِ پاکستان چلائی، اور اسی بات کا وعدہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے حضرات علمائے کرام سے فرمایا۔ یہ بیانیہ ہی اہلِ پاکستان کا بیانیہ ہے جو اول الذکر بیانیہ کی ضد، بلکہ اس سے باغی ومتصادم ہے۔
دینی بیانیے کی ’دو‘ تعبیرات
یہاں تک تو معاملہ واضح رہا اور باطل اور حق میں تمیز رہی، اور یہی معرکہ قیامِ پاکستان کے بعد مقتدر طبقے اور علمائے کرام کے درمیان جاری ہوا۔ اس کی روداد کی تفصیل کا یہاں وقت نہیں۔ علامہ عثمانی کی اپنی وفات تک کی کوششیں، قراردادِ مقاصد کی منظوری، پھر ۱۹۵۳ء میں علمائے کرام کی تجاویز، پھر تحریکاتِ اسلامی کا قیام، یہ سب اسی معرکے کی مختلف شکلیں تھیں۔ علمائے کرام کا اس پر اتفاق تھا کہ وطنِ عزیز پاکستان کو حقیقی معنوں میں دار الاسلام بنانا ہے، اور یہاں اسلامی قوانین اور شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ یہ وقت تھا جب ’اسلامی جمہوریت‘ کی اصطلاح انجان تھی، اور پاکستان کے کبار علمائے کرام نے ریاست ودستور کی آئینی وقانونی حیثیتوں پر کلام نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی تک قدیم فقہائے کرام کے بیان کردہ حکومت وسلطنت کے پیراڈایم میں ہی دین کے غلبے کی تصویر دیکھتے تھے۔ ملک فتح ہوگیا، اب حکمرانوں کو ہر حال میں اسلام کو نافذ کرنا چاہیے، اگر مسلمانوں کا مقتدر طبقہ شرعی قوانین جاری نہیں کرتا تو مسلمان امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اصولوں کے تحت منکر کے ازالے اور معروف کے غلبے کی جدوجہد کریں گے، جس میں ہاتھ، زبان اور دل کے سبھی مراتب شامل ہوں گے۔ یہ وہ وموٹی سی تعبیر تھی جو تمام علمائے کرام اور اہلِ دین کے یہاں متفق علیہ تھی۔
پہلی تعبیر؛ ریاست وحکومت کے جدید فلسفے اور اس کے تحت واقع حقیقتوں کو تسلیم کرکے اس کے دائرے میں اسلامی احکام کا احیاء
تاہم رفتہ رفتہ اہلِ دین کے بنیادی بیانیے کی دو تعبیرات سامنے آنے لگیں۔ علمائے کرام کا ایک طبقہ جو اصول اہل السنۃ والجماعۃ سے متمسک تھا اور فقہائے کرام کے اجتہادات سے بھی تمسک رکھتا تھا، مگر اس نے جب دیکھا کہ موجودہ زمانے کی عمرانی وسیاسی ترتیب (social and political order) تاریخِ اسلامی کی چودہ صدیوں میں فقہائے کرام کے اجتہادات کے مطابق نہیں ہے، اور فقہائے کرام کے اجتہادات کے مطابق اسے ڈھالنا بظاہر ممکن نہیں ہے یا بعض کے یہاں لازم نہیں ہے تو ان حضرات نے موجودہ زمانے کی عمرانیات کو حقیقتِ واقعہ کے طور پر تسلیم کیا، اور اس کے لیے فقہائے کرام کے اجتہادات میں سے جزئیات کے تحت گنجائش نکالنے کی سعی کی اور اس کے لیے شرعی جواز کی صورت بیان کی۔ ایسا کرتے ہوئے ظاہر ہے کہ چودہ سوسالہ اسلامی معاشرت وثقافت اور اسلامی نظام اور فقہائے کرام کے اجتہادات کی مخالفت تو لازم آئی، مگر ان علمائے کرام کا مطمحِ نظر اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کی راہ دکھانا تھا۔ سمجھانے کے لیے مثال کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ ’قومی ریاست‘ (nation state) کا وہ تصور جو مغرب نے ایجاد کیا اور اسی کے تحت مغربی طاقتوں نے اس کے اصول وضع کیےاور تمام ریاستوں کو ایک نظمِ اجتماعی میں پرویا،اس تصورِ ریاست سے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ نا آشنا تھی، حالانکہ مسلمانوں نے ان چودہ سو سالوں میں دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی بھی کی اور وہاں اسلام کو بھی غالب کیا۔ اسی طرح جمہوریت(democracy) کا فلسفہ جسے مغربی فلسفیوں نے متعارف کروایا اور جو انقلابِ فرانس کے بعد مغرب میں رائج ہوا اور مغربی طاقتوں نے پھر بزورِ شمشیر مسلمانوں کے ملکوں میں رائج کیا، وہ قطعاً مسلمانوں کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ مسلمانوں کے یہاں خلافت، امارت، امامت، دار الاسلام ودار الحرب، حکمرانوں اور رعایا کے حقوق، جہاد وخروج کے سبھی ابواب فکر ونظر میں بھی موجود تھے اور عمل کی زندگی میں بھی زندہ تھے، یعنی عملاً بھی رائج تھے اور ان سے متعلق جزئیات بھی کتبِ فقہ میں موجود تھیں، مگر وہ سب کچھ یہ نہیں تھا جو آج کی دنیا میں فلسفہ وعمل میں رائج ہے ۔
اب جبکہ مسلمان مغلوب ہوچلے اور کفار اور ان کے فلسفے اور نظام عملاً رائج ہوگئے تو اس سب کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ اہلِ دین میں دو طبقات پیدا ہوں؛ ایک طبقہ جو مغرب کے رائج کردہ نظمِ اجتماعی کو کلی رد کرکے اس کی جگہ قدیم فقہاء کے اجتہادات کے مطابق اسلامی نظامِ حکومت وسلطنت کو زندہ کرنے کا عزم کرے، اور دوسرا طبقہ جو موجودہ اسٹرکچر کو فقہ الواقع کے طورپر تسلیم کرلے، اور اسے تبدیل کرنے کی بجائے اس میں ہی اسلامی احکام وقوانین کے احیاء کی کوشش کرے۔
اب مغربی غلبے کے بعد دنیا کے فقہ الواقع میں اسلامی احکام وقوانین کی گنجائش پیدا کرنا ظاہر ہے کہ ایک ’جدید اجتہاد‘ تھا۔ چنانچہ بعض علمائے کرام نے موجودہ عمرانی صورتحال میں ریاست وحکومت کے تصورات کے حوالے سے جدید اجتہاد کیا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں اور فقہائے کرام کی ’بعض‘ جزئیات کی مدد سے ریاست وحکومت کے احکام متعین کیے، مگر اس کے نتیجے میں جو ’اجتماعی شکل‘ پیدا ہوئی وہ یقیناً اس اجتماعی شکل کے مخالف تھی جو ساڑے چودہ سو سالوں میں فقہائے کرام کے اجتہادات میں موجود ہے۔
ہم یہاں اس کے صحیح یا غلط ہونے کی بات نہیں کر رہے، بلکہ صرف یہ واضح کر رہے ہیں کہ یہ اجتہاد علمائے کرام کے ایک طبقے کا اجتہاد تھا، امت کے تمام علماء کا متفقہ نہ تھا، نہ ہی ان کی اکثریت کا بیانیہ تھا۔گویا یہاں سے اہلِ دین طبقے کا نفاذِ اسلام کا بیانیہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک طبقہ علماء کا وہ تھا جس نے اول موجودہ ریاستی ڈھانچے کو اس کے جدید فلسفے کے مطابق سمجھا اور اسلام میں اس کی گنجائش پیدا کی۔ پھر دستور اور حکومت سازی کے جمہوری فلسفے کو جانچا اور فقہی اصولوں کے مطابق اس کی صورت بندی کی۔
ریاست اور حکومت کی تفریق کے مغربی فلسفے کو قبول کیا گیا، ریاست کو ’شخصِ معنوی‘ تسلیم کیا گیا اور اس کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا حکم اس کے دستور کے تعین پر رکھا گیا، حکومت سازی کے لیے جمہوری راستے کو شرعی راستہ بیان کیا گیا، غیر شرعی قوانین کی شرعی قوانین میں تبدیلی کے لیے صرف آئینی جدوجہد کو صائب قرار دیا گیا اور ریاستی آئین ودستور کی مخالفت کو غیر شرعی قرار دیا گیا۔ یہ اجتہاد صرف پاکستان کی سطح پر نہیں کیا گیا، بلکہ سقوطِ خلافتِ عثمانیہ کے بعد وجود میں آنے والی سبھی مسلم ریاستوں کے متعلق کیا گیا۔ اس اجتہاد کے حامل طبقہ علماء میں جہاں شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب شامل ہیں، وہاں ان سے قبل امت کے کئی کبار علماء شامل رہے جن میں شیخ مصطفیٰ زرقاء2، دکتور وھبۃ الزحیلی حفظہ اللہ3 وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں اور ریاست وحکومت سے متعلق ابحاث کو ان کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
بلکہ پاکستان کی سطح پر بھی اس جدید اجتہاد کا سنگِ بنیاد مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی4 نے رکھا، یہاں تک کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب کشمیر جنگ کا آغازہوا تو اس وقت بھی مولانا مودودی نے انھی اصولوں کے تحت اس جنگ میں پاکستانی اداروں اور عوام کی شرکت کو ممنوع قرار دیا تھا، جس کے جواب میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے مکاتیب موجود ہیں5۔ پھر مولانا مودودی کا یہ قول بھی ان کے طبقے میں معروف ہے کہ ’قراردادِ مقاصد پاس ہونے کے بعد اب ریاستِ پاکستان نے گویا کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہوگئی ہے، اس کے ادارے اب ’اسلامی‘ ادارے بن گئےہیں اور اب انھی کے ذریعے یہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کی جائے گی‘۔
یہ نفاذِ اسلام سے متعلق دینی طبقے کے بیانیے کی ایک تعبیر ہے، اور اس تعبیر کے حامل شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب جیسے امت کے کبار علماء ہیں اور آپ کی اتباع میں پاکستان کے جامعۃ الرشید سمیت بعض مدارسِ دینیہ بھی شامل ہیں۔ اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تعبیر امت کے سبھی علماء کے یہاں متفقہ نہیں ہے، بلکہ علمائے امت کی اکثریت اس تعبیر سے موافقت نہیں رکھتی۔
دوسری تعبیر؛ اسلام کو اسی حالت میں قائم کیا جائے گا جس پر یہ عروج کی تیرہ صدیوں میں قائم رہا
علمائے کرام کی اکثریت نے جدید فلسفہ ونظام کے رواج کو حقیقتِ واقعہ ضرور تسلیم کیا، مگر اسے فکر وفلسفہ میں جائز نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کی کوئی اسلامی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی، اور نفاذِ اسلام کے لیے اسی تعبیر کو پسند کیا جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے یہاں موجود تھی۔ وہ تعبیر یہ ہے کہ مسلمانوں پر نصبِ امام واجب ہے، امام پر فرض ہے کہ وہ شریعت کے قوانین کو اپنے دائرہ اختیار میں بھی نافذ کرے اور دوسرے خطوں میں اسلام کے غلبے کے لیے جہاد کرے، پھر جہاں جہاں شرعی قوانین کا اجراء ہوجائے، وہ خطہ دار الاسلام قرار پائے گا۔جو حاکم شریعت کو نہ مانے یا نافذ کرنے سے انکار کرے تو اس کا حکم کفر وفسق کی صورت میں متعین کیا جائے گا اور اس کے مطابق اس کی معزولی کا شرعی حکم متعین کیا جائے گا۔ اگر کوئی خطہ کفری قوانین کے اجراء کے سبب دار الاسلام نہ بن پائے تو وہاں اسلامی احکام کے اجراء کے لیے زبان وہاتھ (دعوت وجہاد) میں حسبِ مصلحت کوئی انتخاب کیا جائے گا، اور اگر کوئی خطہ دار الاسلام تو ہے، مگر حاکم اسلامی احکام سے انکاری ہے تو پھر خروج کی بحث پر اس کی شروط کے ساتھ عمل کیا جائے۔ یہ وہ اسلامی احکام ہیں جو فقہائے امت کے چودہ سو سالہ ذخیرہ فقہ میں مدون ہیں، اور اس کے مطابق موجودہ ریاستوں اور حکومتوں کے حکم کے تعین کی بنیادیں اور صورت وہ نہیں ہوسکتی جو اول الذکر تعبیر میں ظاہر ہوتی ہے۔ موجودہ ریاستوں کے لیے دار الاسلام یا دار الحرب کا حکم متعین کیا جائے گا، اور اس کی بنیاد وہاں جاری قوانین ہوں گے، پھر حکمرانوں کا حکم ان کے اعتقادات اور افعال کی بنیاد پر ایمان، فسق اور کفر کا متعین کیا جائے گا، اور اسی کے مطابق پھر اصلاح باللسان یا تغییر بالید کے جواز و عدمِ جواز یا حرمت ووجوب کا فیصلہ کیا جائے گا۔
امت کے عامہ علمائے کرام آج بھی اسی تعبیر کو درست وصائب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دستور وآئین کی عبارتیں کوئی خاص درجہ نہیں رکھتیں، نہ ہی ریاستوں کی تعریف کے مغربی معیارات اور جمہوری اقدار ان کے نزدیک شرعی حکم کی تعیین میں کوئی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہاں، ایک وضاحت… موافق ومخالف ہر فرد کے سامنے… کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ مذکورہ بالا تفصیل سے یہ لازم نہیں آتا کہ مسلمان آئین سازی اور قانون سازی کے لیے موجودہ اسٹرکچر میں کوئی کوشش نہ کرے۔ یہ وضاحت اس اعتراض کے جواب میں ذکر کردی کہ مبادا کوئی کہے کہ علمائے کرام نے آخر اسلامی آئین سازی کے لیے کیوں کوشش کی، اور جمہوری راستے سے اسلامی نظام کے قیام اور حفظِ حقوقِ مسلمین کی سعی کیوں کی۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ سعی کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس سعی کے علاوہ کسی سعی کو نادرست سمجھتے تھے، اور نہ اس کی دلیل ہے کہ وہ نفاذِ اسلام کو اسی ریاستی وجمہوری اسٹرکچر میں بند دیکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب علمائے کرام نے نفاذِ قوانینِ اسلامی ونظامِ اسلام کے لیے جدوجہد کی، آئین سازی کے عمل میں قرار دادِ مقاصد کی منظوری کی سعی کی، ۲۲ نکات مرتب کیے، تو اسی جدوجہد میں شامل رہنے والے علمائے کرام نے ان سب کی بنیاد پر ریاست کے ’مسلمان‘ اور ’اسلامی‘ ہوجانے کا فیصلہ نہیں کر دیا۔ حضرت علامہ یوسف بنوری نے، جو خود ۲۲ نکات کے مرتب کرنے والوں میں شامل تھے، جب دیکھا کہ حکمران طبقہ اسلام بیزار ہے، شرعی قوانین کے نفاذ سے انکاری ہے ، آئین ودستور کی اسلامی شقوں کو منافقت کے طور پر استعمال کرکے لادینیت اور غیر شرعی قوانین کو رائج کر رہا ہے تو انھوں نے برملا لکھا کہ قراردادِ مقاصد سمیت یہ اسلامی آئین سازی کے ادارے محض دھوکہ وفریب ہیں6۔ پھر یہ بھی کئی مرتبہ فرمایا کہ جس ملک میں بھی شرعی قوانین باوجود قدرت کے جاری نہ ہوں، تو اسے دار الاسلام نہیں کہا جاسکتا۔ یہ مسلمانوں کا ملک ضرور ہے، لیکن اسے اسلامی ملک یا دار الاسلام نہیں کہا جاسکتا۔7 یہ تعبیر آپ کے شاگردوں نے بھی اختیار کی اور آپ کے ادارے ’جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن‘ کے بیشتر کبار علماء اسی پر کاربند رہے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی نے بھی بارہا یہ بات بیان کی کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ضرور ہے،مگر اسے اسلامی ریاست یا دار الاسلام نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہاں قوانینِ اسلامی رائج نہیں اور ریاستی ادارے اسلامی احکام کی پابندی کو تسلیم نہیں کرتے۔8
جامعہ ربانیہ کراچی کے مہتمم شیخ نور الہدیٰ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں حکومت مخالف مجاہدین کے حامیوں میں سے تھے اور یہ بات ہر خاص وعام جانتا ہے۔ شیخ نور الہدیٰ نے ایک مجلس میں استاد احمد فاروق سے بیان فرمایا جو انھوں نے بندہ سے ذکر کیا، کہ ایک روز شیخ نور الہدیٰ صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن تشریف لے گئے اور وہاں آپ کی فرمائش پر دار الافتاء میں اس وقت کے رئیس مفتی عبد المجید دین پوری اور دیگر اساتذہ کرام جمع ہوگئے۔ شیخ نور الہدیٰ نے چالیس منٹ تک اس بات پر تقریر کی کہ ریاستِ پاکستان کو دستور وآئین اور قوانین کی بنیاد پر کسی طور اسلامی نہیں کہا جاسکتا اور اسے حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست اور دار الاسلام بنانے کے لیے دعوت وجہاد کی ضرورت ہے۔ شیخ نور الہدیٰ نے فرمایا کہ ’میری چالیس منٹ کی تقریر میں کسی ایک نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، جب میں نے دیکھا کہ میں مسلسل بول رہا ہوں او رکوئی اعتراض نہیں کرتا، تو میں خاموش ہوگیا اور ان سے مخاطب ہوا کہ بھئی! اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو کوئی تو دلیل دو‘۔ اس پر مفتی عبد المجید دین پوری گویا ہوئے کہ ’ہم کب کہتے ہیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی آپ کی طرح مرنے کو تیار نہیں ۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن اس کہنے کا مطلب ان حالات میں موت کے سوا کچھ نہیں‘۔یہ واقعہ جب شیخ نور الہدیٰ سنا رہے تھے تو اس وقت مفتی عبد المجید دین پوری کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا جاچکا تھا، تو شیخ نور الہدیٰ نے واقعہ سنانے کے بعد مسکرا کر استاد احمد فاروق سے کہا کہ ’دیکھو! مفتی صاحب تو شہید ہوچلے، اور میں ابھی تک زندہ ہوں‘۔ یہاں اس واقعے سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ علامہ یوسف بنوری اور آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد اسی تعبیر پر قائم رہی اور ہے۔ پھر حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کے نام اور مقام سے تو سبھی واقف ہیں۔ آپ کی منشور تقریروں میں یہ بات موجود ہے کہ قرار دادِ مقاصد اور ۷۳ء کا آئین لفظوں میں بہت اچھا ہے، مگر عمل کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ گویا عملی حکم کے تعین میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ آپ کے جہاد سے متعلق مواقف پر آگے بات کریں گے۔
اسی طرح شیخ سلیم اللہ خان صاحب کے نام سے کون واقف نہیں، جو خود شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کے استاذ ہیں، آپ بھی اسی تعبیر کے قائل تھے، اور پاکستان کے آئین کو اس کے اسلامی ہونے کے لیے کافی نہیں سمجھتے تھے، اور نہ ہی جمہوری راستے کو نفاذِاسلام کا راستہ سمجھتے تھے۔ آپ اپنی وفات تک مجاہدین کے ساتھ رابطے میں رہے، اور اپنی دعاؤں اور نصیحتوں سے مجاہدین کو مستفید کرتے رہے۔ نوائے افغان جہاد کے مدیر شہید حافظ طیب نواز کی شیخ صاحب سے ملاقاتیں رہتی تھیں، اور شیخ صاحب نوائے افغان جہاد … جو افغانستان سمیت دنیا بھر میں نفاذِ دین کی تحریکات کی نمائندگی کرتا تھا… ہر ماہ پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ جس شخص نے بھی آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں آپ کی صحبت اٹھائی، وہ جانتا ہے کہ شیخ صاحب جمہوری جدوجہد کے خلاف جہاد کی حمایت کرتے تھے، اور جس کسی نے آپ کے آخری سالوں میں آپ کی ختمِ بخاری کی تقریر پڑھی ہو، وہ آپ کے مسلک کو سمجھ سکتا ہے۔ اسی مسلک کی پاداش میں آپ کے خانوادے کے بعض افراد کو بھی خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا، اوربعد میں مولانا ڈاکٹر عادل خان کو شہید تک کروادیا گیا۔ حافظ طیب نواز نے اپنی ایک ملاقات کا حال بندے سے بیان کیا کہ حضرت شیخ صاحب نے بڑی محبت دی اور افغانستان اور پاکستان کے مجاہدین کے لیے استقامت کی دعا دی۔ دورانِ مجلس وفاق المدارس کے بعض امور پر بھی گفتگو ہوئی، تو حافظ صاحب نے از راہِ شکوہ شیخ صاحب سے فرمایا کہ مولانا حنیف جالندھری صاحب حکومت کے صریح اسلام مخالف فیصلوں میں بھی مصالحت سے کام لیتے ہیں جس پر ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ اس پر شیخ صاحب نے حافظ صاحب سے فرمایا کہ ’آپ درست کہتے ہیں‘۔ پھر ٹھہر کر فرمایا کہ ’بھئی! مگر جو صلاحیت مولانا حنیف صاحب میں ہے، کوئی دوسرا مولوی اس صلاحیت کا حامل نظر بھی تو نہیں آتا‘۔ یعنی مقصود یہ تھا کہ جس طرح ہوشیاری سے مولانا حنیف صاحب مدارس کے تحفظ اور اہلِ مدارس کے حقوق کے تحفظ کی محنت کرتے ہیں، کسی دوسرے میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔ پھر تعبیر کا یہی اختلاف تو تھا جو جدید معیشت کے معاملے میں ’اسلامی‘ بینکاری کے مسئلے پر بھی شیخ صاحب اور آپ کے متبعین کی طرف سے سامنے آیا اورجس پر شیخ صاحب نے ملک کے بیشتر علماء ومفتیانِ کرام کو متفق کیا تھا۔
اسی طرح حضرت عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا خانوادہ بھی اسی تعبیر پر قائم رہا۔ آپ کے بیٹوں بالخصوص مولانا عطاء المومن شاہ صاحب بخاری کی تقاریر اور جدوجہد سے سارا معاشرہ ہی واقف ہے۔ آپ اہلِ پاکستان کو آئین وقانون اور جمہوری راستوں کی جھنجھٹ سے ہٹا کراسلامی نظام کے قیام کی دعوت دیتے تھے۔ جمعیت کےمعروف خانوادے کے ایک عالم نے… جو مجاہدین کے ساتھ شریکِ عمل تھے… بندہ سے خود بیان کیا کہ کسی جگہ مولانا عطاء المومن صاحب عام خطاب کے لیے مدعو تھے،وہاں یہ صاحب بھی تشریف لے گئے۔ بعد میں جاننے والوں نے مولانا عطاء المومن صاحب سے ان کا تعارف کروایا کہ یہ مجاہدین کے حامی ہیں۔ مولانا عطاء المومن صاحب نے بڑی شفقت سے ملاقات کی، اور فرمایا کہ ’پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے دو ہی راستے ہیں، ایک یہ جو ہم کر رہے ہیں کہ دعوتِ عامہ ہموار کررہے ہیں، اور لوگوں کو اسلامی نظام، امارت وخلافت کے مفاہیم سمجھا رہے ہیں، اور دوسرا آپ لوگوں کا راستہ جو قوت سے انھی مفاہیم کر زندہ کرنے کی محنت کر رہے ہیں‘۔
جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے علمائے کرام بھی اسی تعبیر پر قائم رہے۔ انھوں نے کبھی قرار دادِ مقاصد کی بنیاد پر ریاستِ پاکستان کے اسلامی ہونے اور پھر یہاں ’صرف‘ جمہوری جدوجہد کے جائز ہونے کا فتویٰ نہیں دیا، بلکہ پاکستان میں اٹھنے والی ہر دینی تحریک اور نفاذِ اسلام کی ہر جدوجہد کا ساتھ دیا، خواہ وہ زبان سے ہو یا قوت سے ہو۔ شہید مولانا سمیع الحق، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ وغیرہ کے مواقف خاص وعام میں معروف ہیں۔
معاصر علماء میں ایک بڑا نام مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب کا بھی ہے، اور آپ کے علمی مقام کے سبھی علماء معترف ہیں۔ آپ بھی پاکستان کی ریاست کو آئین کے سبب اسلامی نہ کہتے تھے۔ بندہ سے خانوادہ بخاری کے ایک عالم نے خود بیان کیا جو مفتی صاحب کے شاگرد ہیں، کہ آپ نے مفتی صاحب سے پاکستانی فوج کے ادارے کے اسلامی ہونے، نہ ہونے کا سوال کیا، تو مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب نے جواب میں فرمایا کہ ’جب اس ریاست کو ’اسلامی‘ نہیں کہاجاسکتا، تو اس کے اداروں کے اسلامی ہونے سے متعلق سوال بنتا ہی نہیں‘۔
اسی تعبیر پر پختونخواہ کا سب سے بڑا دینی حلقہ بھی قائم ہے جوکئی سالوں تک پاکستان میں نفاذِ شریعت کی تحریک بھی چلاتا رہا۔ مولانا ولی اللہ کابلگرامی کی تقاریر اور تحریرات بالخصوص کتاب ’إعلام الأعلام بمفھوم الدین والإسلام‘ اس پر شاہد ہیں اور ان کے پورے حلقے کی قربانیاں اس ضمن میں ناقابلِ بیان ہیں۔
مولانا حامد میاں صاحب فرزندِ مولانا محمد میاں صاحب مؤرخِ اسلام اور آپ کے متعلقین وشاگردبھی اسی تعبیر کےقائل ہیں اور ملک میں نفاذِ اسلام کی غیر جمہوری تحریکات کی پشتیبانی کرتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے شہید مولانا عبد اللہ غازی اور آپ کا خانوادہ بھی اسی تعبیر پر قائم رہا ہے اور لال مسجد کی پوری تحریک اس کا بیّن ثبوت ہے۔ لاہور کے جامعہ حمیدیہ کے مہتمم مفتی حمید اللہ جان جو جامعہ اشرفیہ لاہور میں کئی سال رئیس دار الافتاء رہے، وہ شخص تھے جنھوں نے ۲۰۰۸ء یا ۰۹ء میں جامعہ اشرفیہ میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کے حوالے سے ہونے والے اجتماع میں برملا حکومتی مواقف کی مذمت کی اور دہشت گردی اور خود کش حملوں سے متعلق حکومتی بیانیے کی تردیدکی، یہاں تک کہ مذکورہ اجتماع بغیر کسی اجتماعی اعلامیہ کے برخاست ہوگیا۔ آپ زندگی کے آخری کتنے ہی سالوں میں موجودہ ریاستی وجمہوری نظام کے خلاف اسلامی نظامِ خلافت اور اس کے احیاء کی تحریک چلاتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے جاملے۔
یہ علمائے کرام کی طویل فہرست ہے، جن میں سے ہم نے چند ایک وفات شدہ علمائے کرام کے نام یہاں ذکر کیے ہیں، وگرنہ بقیدِ حیات علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد اب بھی اسی تعبیر پر قائم ہے جن میں سے کسی کا نام ظاہر کرنا قرینِ مصلحت نہیں ہے، کیونکہ پاکستان کے ریاستی اداروں میں دین دشمن عناصر کتوں کی طرح ایسے لوگوں کی بو سونگھتے پھرتے ہیں جو نفاذِ اسلام کی جدوجہد اس طریق پر کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کے مغربی آقاؤں کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں او رمسلمان ایک قوت بن کر ابھرتے ہیں۔
اسی طرح مشائخِ طریقت میں سے بھی کتنوں کی تائید اس تعبیر کو حاصل رہی ہے۔ خواجہ خان محمد صاحب کندیاں والے، سید نفیس الحسینی شاہ صاحب خلیفہ مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ، پیر عزیز الرحمن ہزاروی خلیفہ مولانا شیخ الحدیث اور مولانا حکیم اختر صاحب خلیفہ مولانا شاہ ابرار الحق کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اسی فہرست میں بندہ اپنے اور بےشمار علمائے کرام اور مجاہدین کے شیخ حضرت والا قاری نور محمد صاحب خلیفہ مولانا عبد المالک صدیقی کا نام بھی ذکر کرنا چاہتا ہے جنھوں نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے خلاف جہاد اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کی ہر جدوجہد کی بھرپور تائید کی، اور اپنی مقبول دعاؤں میں انھیں یاد رکھا، یہاں تک کہ پاکستان کے خفیہ اداروں نے ان جیسے فرشتہ صفت انسان کو بھی ایک ہفتے کے لیے لاپتہ کیا اور تعذیب کانشانہ بنایا۔ حضرت والا بیعتِ اصلاح لیتے وقت بیعتِ جہاد بھی لیا کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اس بات پر بیعت کرو کہ جب جہاد فرضِ عین ہوگا تو پھر جہاد کرو گے۔ اور بیعت لینے کے بعد فرماتے تھے کہ اگر اب جہاد فرضِ عین نہیں تو کب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات علمائے کرام اور مشائخِ عظام کو اپنی بارگاہ میں عالی مقام عطا فرمائیں اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنائیں، آمین۔
میں نے جو نام یہاں ذکر کیے ہیں، وہ اس بات کی دلیل میں ذکر کیے ہیں کہ یہ سب حضرات ریاست وحکومت سے متعلق نفاذِ اسلام کے بیانیے میں اول الذکر تعبیر سے موافق نہیں تھے، بلکہ سلطنت وحکومت سے متعلق اسی تعبیر کے قائل تھے جو چودہ صدیوں میں مسلمانوں کے یہاں رائج رہی، اور نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو ریاست وحکومت کے موجودہ فلسفے میں بند نہیں کر تے تھے۔
پھر یہی وہ تعبیر ہے جو خود ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے اہل السنۃ والجماعۃ کی غالب اکثریت کی تعبیر ہے۔ ان کے علماء ومجاہدین نے امیر المؤمنین ملا محمد عمر کی قیادت میں اسی تعبیر کو زندہ کرنے کی جدوجہد کی، اور آج امیر المؤمنین شیخ ھبۃ اللہ اخند زادہ حفظہ اللہ کی امارت میں عملاً زندہ کر رکھا ہے۔ انھیں بھی کہا گیا کہ وہ ریاست کو آئین وقانون کی انھی تعبیرات پر چلائیں جو آج کی دنیا میں غالب ہیں اور جمہوری اقدار پر اسلام کو زندہ کریں، مگر انھوں نے قوت سے کفر اور ان کے آلہ کاروں کو شکست دی اور عملاً وہی اسلامی نظام قائم کیا جو مسلمانوں کی سابقہ تاریخ میں زندہ رہا۔ اس موضوع پر ان کے علمائے کرام کی کتب بھی موجود ہیں، جن میں سے امارتِ اسلامیہ کے وزیرِ عدلیہ شیخ عبد الحکیم حقانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب ’الإمارۃ الإسلامیۃ ونظامھا‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں تک ہم نے صرف اتنا بیان کرنا چاہا کہ دینی طبقے کے یہاں نفاذِ اسلام سے متعلق دو تعبیرات پائی جاتی ہیں جو انھوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے اصولوں کے تحت اخذ کی ہیں۔ لہٰذا جو علمائے کرام اول الذکر تعبیر کو درست سمجھتے ہیں، انھیں اس دوسری تعبیر کے حامل اور اس کے تحت جدوجہد کرنے والے کو غلط، باغی اور حرام کا مرتکب کہنا درست نہیں، جس طرح ثانی الذکر تعبیر کے حاملین کو اول الذکر طبقے کے متعلق بدگمان ہونا اور انھیں مخاصم سمجھناٹھیک نہیں۔ آئندہ ہم یہ بیان کریں گے کہ ہر ایک تعبیر کے تحت نفاذِ اسلام کی جدوجہد کیسے متعین ہوتی ہے، اور جمہوری جدوجہد، دعوت وتبلیغ یا جہاد وخروج کے متعلق اہلِ دین کے یہاں مقبول آراء کیا ہیں۔
نفاذِ اسلام کا طریقِ کار
اس سے قبل جس قدر بحث کی گئی،وہ اس بنیادی نکتے پر تھی کہ موجودہ دور اور اس کی واقعاتی حقیقت میں سلطنت وحکومت سے متعلق اہلِ دین کے یہاں دو تعبیرات پائی جاتی ہیں، لہٰذا ایک تعبیر کو پکڑ کر دوسرے کا سرے سے انکار کردینا یہ کوئی علمی طریقہ نہیں ہے۔لہٰذا وہ علمائےکرام جو موجودہ ریاستی اسٹرکچر کی اسلامائزیشن میں یقین رکھتے ہیں، انھیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اہلِ دین کا ایک بڑا طبقہ بلکہ اکثریت اس پر یقین نہیں رکھتی۔ لہٰذا دوسرے پر بغاوت کا حکم عائد کرنے سے قبل یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ ریاست وحکومت سے متعلق شریعت کی کون سی تعبیر رکھتا ہے اور اس کی تعبیر مذاہبِ فقہاء سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ چنانچہ انھی ممالک میں وہ لوگ جو جنگ وجدل کی فضا عام کرتے ہیں اور ان کے شرعی دلائل اصولِ اہل السنۃ والجماعۃ سے موافق نہیں اور نہ ہی مذاہبِ فقہاء کے مطابق ہیں، سو ضرور ان پر بغاوت اور ظلم کا حکم عائد کیا جائے، جیسا کہ ’داعش‘ جیسی خوارج کی جماعت۔ لیکن وہ تمام اہلِ دین جو شریعت کے اصولوں اور فقہائے امت کے مذاہب کے مطابق موجودہ ریاستی وحکومتی اسٹرکچر کو اسلامی تسلیم نہیں کرتے، ان پر بغاوت کا حکم عائد کرنا نہ صرف نا انصافی،بلکہ شریعت کے احکام سے بھی عدول ہے۔
اب اس نکتے پر بات کرتے ہیں کہ اہلِ دین کی دونوں تعبیرات کے مطابق موجودہ ریاستوں میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا کیا طریقِ کار ہوسکتاہے اور ہونا چاہیے۔
نفاذِ اسلام کا آئینی وجمہوری طریقِ کار
سب سے پہلے جو بحث سامنے آتی ہے،وہ ہے موجودہ ریاستی ڈھانچے میں آئینی وجمہوری جدوجہد کے ذریعے نفاذِ اسلام کی کوشش کی جائے۔ اول الذکر تعبیر والے حضرات کے یہاں صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے موجودہ ریاستوں میں نفاذِ اسلام کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو چونکہ ان کے نزدیک ریاستِ پاکستان اپنے آئین کی بدولت ایک اسلامی ریاست ہے، اور اس کے اندر نفاذِ اسلام کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب مسئلہ صرف تنفیذ کا ہے جو حکومت کا کام ہے،لہٰذا ایسی حکومت کے قیام کی کوشش کی جائےجو نفاذِ اسلام کے وعدے کو حقیقت کا روپ دے دے۔ اور حکومت سازی کا پروسیس آئین کے مطابق جمہوری انتخابات اور پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنا ہے۔ حکومت اگر خلافِ شریعت قانون پاس کرے تو اسکی روک تھام کے لیے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل تھی اور اب وفاقی شرعی عدالت موجود ہے، وہاں درخواست دائر کی جائے، وہ اگر کسی قانون کو شریعت کے مخالف پائے گی تو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ بھیج دے گی، جس پر سپریم کورٹ چاہے تو فیصلہ کرکے قانون کو کالعدم کر دے گی۔اس راستے سے اسلامی قوانین کا اجراء بھی ہوگا اور غیر اسلامی قوانین کی روک تھام بھی ہوگی۔ نفاذِ اسلام کا یہ طریقِ کار ہے جو ریاستِ پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق ہے۔ اس راستے کو شرعی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک کام یہ کیا گیا کہ قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا کر ریاست کو اسلامی کیا گیا، اور دوسرا جمہوری نظامِ حکومت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ہم آہنگ کرکے ’اسلامی جمہوریت‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا۔
جمہوری طرزِ سیاست اور علمائے کرام کی آراء
اس طریقِ کار کی مشروعیت کے حوالے سے ہم نے اولالذکر تعبیر کے حامل علمائے کرام کے اجتہاد کا خلاصہ پیش کردیا ہے۔ اسی طریقِ کار پرایک زمانے سے ہمارے ملک کی جمہوری دینی جماعتیں کار بند ہیں اور ان کی پشت پر مذکورہ بالاعلمائے کرام موجود ہیں۔ جہاں تک اس طریقِ کار کی افادیت اور عدمِ افادیت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ وطنِ عزیز کا ہر صاحبِ فہم ودانش کرسکتا ہے کہ ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں کس قدر اسلام کا نفاذ ممکن ہوپایا ہے۔ یہاں اس موضوع پر کلام ہمارا مقصودنہیں۔ ہمیں یہاں اس موضوع پر بات کرنی ہے کہ ہمارے ملک کے اہلِ دین کے یہاں جمہوری طرزِ سیاست کی حیثیت کیا ہے؟ اور اس سے متعلق اہلِ دین کے یہاں کتنی آراء پائی جاتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ بنیادی طور پر جمہوری وانتخابی سیاست کے حوالے سے ہمارے اہلِ دین کے یہاں تین آراء پائی جاتی ہیں:
اول: موجودہ ریاستی اسٹرکچر میں آئینی وجمہوری جدوجہد ہی نفاذِاسلام کا واحد راستہ ہے۔ اور یہ نفاذِ اسلام سے متعلق بیانیے کی اول الذکر تعبیر کا لازمی نتیجہ ہے، اور اس کے حاملین ’اسلامی ریاست‘ کو ’دار الاسلام‘ کے متبادل کے طور پر اور ’اسلامی جمہوریت‘ کو ’اسلامی خلافت وامارت‘ کے متبادل کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ (اس فکر کا لازم المذھب یہ ہے کہ اگر کوئی صریح کفر کا مرتکب شخص بھی حاکم بن جائے تو بھی اس کے خلاف مسلح جدوجہد جائز نہ ہوگی، کیونکہ ریاست اسلامی اور اس کا آئین اسلامی ہے، اگرچہ حاکم آئین کی خلاف ورزی کرکے حاکم بن بیٹھا ہے،تاہم مسلح جدوجہد کرنا بھی ریاست کے آئین کے خلاف ہے، سو ایسا جائز نہ ہوگا۔چاہیے جمہوری طریقے سے اس حاکم کی معزولی کی کوشش کی جائے۔ حالانکہ یہ تو امت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ حاکم اگر کافر ہوجائے تو مسلمانوں پر قدرت کے مطابق مسلح خروج واجب ہوجاتا ہے۔ )
دوم: جمہوری جدوجہد کے ذریعے نفاذِ اسلام کی کوشش کرنا جائز ضرور ہے، مگر ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اگر اس طریقِ کار سے نفاذِ اسلام کی منزل حاصل ہوجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کے علاوہ شریعت کے بتائے سبھی طریقوں پر عمل کرنا حسبِ مصلحت جائز یا واجب ہوگا۔
سوم: جمہوری جدوجہد میں شرکت ہی جائز نہیں، کیونکہ یہ غیر شرعی طریقِ کار ہے جو اسلامی تعلیمات کے مخالف ہے اور اس کی اسلامی احکام میں کوئی نظیر نہیں ملتی، لہٰذا اس سے اعراض واجب ہے۔ اس کی بجائے حسبِ مصلحت اور حسبِ قدرت ’دعوت وجہاد‘ کے ذریعے کوشش کی جائے۔
آخری دونوں آراء بالعموم دوسری تعبیر والے حضرات کے یہاں پائی جاتی ہیں اور یہ دونوں آراء ہی موجودہ آئینی وجمہوری ریاستی نظام کے فلسفے سے متصادم ہیں، اور ہمارے معاشرےکے علمائے کرام کی اکثریت کے یہاں آخر الذکر دونوں آراء رائج ہیں۔ سوکیا ان دو آراء کے حامل حضرات کوبھی ’ریاست کا باغی‘ اور ’غیر ریاستی عناصر‘ کہا جائے گا، حالانکہ وہ شریعت کے مسلمہ اصولوں پر کھڑے نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ حضرات علمائے کرام ’اسلامی جمہوریت‘نامی کسی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگرچہ فلسفے کی حد تک یہ اصطلاح بڑی جاذبِ نظر ہے، مگر حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ وجود اسی جمہوریت کا ہے جو مغرب نے رائج کر رکھی ہے۔ لہٰذا جن ریاستوں کو ان کے آئین کی بنیاد پر اسلامی کہا گیا ہے، وہاں آج تک نہ قانون سازوں کے انتخاب کی وہ شرائط نافذ ہیں جو اسلامی جمہوریت کے فلسفے میں بیان کی جاتی ہیں اور نہ قانون ساز اداروں کی صلاحیتوں پر کوئی قدغن لگی ہوئی ہے کہ وہ صرف غیر منصوص مسائل میں قانون سازی کرسکیں۔ نتیجے میں انھی ’اسلامی‘ ریاستوں کے قانون ساز اداروں میں روز بروز بے دینوں کی اکثریت ہوتی جارہی ہے، اور خلافِ اسلام قوانین کے اجراء کا عمل پہلے کی نسبت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ خود پاکستان میں حقوقِ نسواں بل کے بعد ٹرانس جینڈر بل، تبدیلی مذہب بل وغیرہ کا پاس ہونا ہر اہلِ دین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
جہاں تک پرانے علمائے کرام کا جمہوری سیاست میں شامل ہونے کا تعلق ہےتو ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اسی کو برحق راستہ سمجھتے تھے اور اس کے علاوہ کی نفی کرتے تھے۔ بلکہ اکابر تو اس وقت جمہوری سیاست میں داخل ہوئے جس وقت مزعومہ اسلامی ریاست بھی موجود نہ تھی، بلکہ برطانوی قبضے والا ہندوستان تھا۔ ان اکابر نے ابتداءً اس جمہوری سیاست کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ پھر جب کانگریس نے عدمِ موالات کے بعد اس جمہوری سیاست میں شمولیت کی تائید کی تو اس وقت بھی علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے اکثر علماء نے اس شرکت کی مخالفت کی9۔ بعد میں جب علامہ عثمانی مسلم لیگ کی حمایت میں جمہوری سیاست میں شریک ہوئے بھی تو یہ واضح کیا کہ وہ اصلاً اس راستے کے مخالف رہے ہیں، مگر اب مجبوری اور اضطرار کی حالت میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی بات کا تذکرہ ’مکالمۃ الصدرین‘ میں بھی کیا جب آپ نے وفدِ جمعیت سے فرمایا کہ جنگ کے لیے اس وقت کون سا طریقہ اختیار کرنا ہے، آئینی یا انقلابی، اور جواب آیا کہ اب چونکہ سامانِ حرب اور قوت نہیں ہے، تو ہم نے مجبوراً آئینی راستہ اختیار کیا ہے10۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ممبر مجلسِ قانون ساز ہوتے ہوئےبھی جب آپ نے دیکھا کہ مجلس قانون ساز میں اسلامی قانون سازی کے عمل کا امکان نہیں تو عوامی ایجی ٹیشن پیدا کرنے کے لیے ڈھاکہ پہنچے اور حکومت کو چیلنج کردیا کہ وہ اسلامی قانون سازی کرے، نہیں تو ہم مخالفت میں کھڑے ہیں11۔ انھوں نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اب بس یہی راستہ ہے کہ ووٹ بینک بڑھایا جائے اور انتخابات میں شرکت کرکے پارلیمان میں اکثریت حاصل کی جائے اور پھر حکومت بنا کر اسلامی قانون رائج کیا جائے، چاہے اس میں صدیاں گزر جائیں اور اس دوران کتنے ہی منکرات اور صریح خلافِ اسلام قوانین کی… نظامِ جمہوری کی حمایت کے نام پر… ناچاہتے ہوئے حمایت کرنی پڑے۔ یہی معاملہ دیگر کبار علمائے کرام کا بھی رہا۔ تذکرہ الظفر میں مولانا عبد الشکور ترمذی نے لکھا ہے کہ جب ۷۰ء کے الیکشن میں ناکامی ہوئی تو مولانا ظفر احمد عثمانی نےمرکزی جمعیت علمائے اسلام کو انتخابی سیاست سے الگ رکھنے اور مسلمانوں میں تبلیغِ احکام کی محنت کرنے کا فیصلہ کیا12۔ یہی وہ پیغام تھا جو علامہ بنوری بینات کے منبر سے مسلمانوں میں عام کر رہے تھے، بلکہ ۷۰ء کے الیکشنوں میں جب اخبارات نے مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی باہمی مخالفت کو خوب اچھالا تو علمائے کرام کو شدید صدمہ پہنچا کہ اس انتخابی سیاست نے بالآخر اہلِ دین کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کیا،جس کا اظہار علامہ بنوری نے بصائر وعبر میں کیا13۔یہی علماء تھے جنھوں نے اسلامی جمہوریت کی بھی صراحتاً تردید کی کہ ایسا کوئی فلسفہ اسلام میں ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ مولانا عبد الشکور ترمذی خلیفہ مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی رشید احمد لدھیانوی خلیفہ مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری14، مولانا یوسف لدھیانوی خلیفہ مولانا شیخ الحدیث15، شیخ سلیم اللہ خان صاحب16 اور مکتبہ اہل حدیث کے مولانا عبد اللہ بہاولپوری اور مولانا عبد الرحمن کیلانی جیسےکبار علماء کی عبارتیں اس باب میں صریح ہیں کہ مسلم ملکوں میں رائج موجودہ انتخابی سیاست مغربی جمہوری سیاست ہے، اسے اسلامی نہیں کہا جاسکتا۔ پھر ان میں سے بعض نے جمہوری انتخابی سیاست میں سرے سے شامل ہونے سے منع کیا، اور بعض نے اجازت دی، مگر محض جواز کی حد تک۔
لہٰذا یہ سبھی علمائے کرام جو موجودہ جمہوری وانتخابی سیاست کو شرعی اصولوں کی بنیاد پر ناجائز کہتے ہیں، یا پاکستان میں محض اسے نفاذِ اسلام کا طریقِ کار تسلیم نہیں کرتے، کیا انھیں بھی اس دلیل کی بنیاد پر کہ وہ اس ریاست، اس کے آئین کو اورجمہوری سیاست کو اسلامی نہیں مانتے، ریاست کا ’باغی‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟
نفاذِ اسلام کے لیے دعوتی وتبلیغی محنت
پاکستان میں نفاذِ اسلام کا ایک راستہ یہ ہے کہ زبان وقلم سے نفاذِ اسلام کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جائے۔ اس کی بھی دو سطحیں ہیں۔ اول الذکر تعبیر والے حضرات کے یہاں زبان وقلم سے ووٹ بینک بڑھانا مراد لیا جاتا ہے کہ اہلِ پاکستان کو اس بات پر تیار کیا جائے کہ وہ دینی جمہوری جماعتوں کے ممبر بنیں اور انتخابات میں انھیں ووٹ دیں، اور وفاقی شرعی عدالت جیسے آئینی اداروں کا راستہ دیکھیں۔ اس عنوان میں ہمیں یہ مقصود نہیں کیونکہ یہ جمہوری طریقِ کار کا لازمی حصہ ہے، اس سے جدا کوئی چیز نہیں۔
یہاں ہمارا مقصودپاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے غیر جمہوری طریق پر دعوتی وتبلیغی محنت کرنا ہے۔ علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ جو جمہوری سیاست پر یقین نہیں رکھتا وہ پاکستان میں موجودہ ریاستی وجمہوری نظام کے مقابلے میں حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے لیے اہلِ پاکستان میں بیداری پیدا کرتا ہے اور انھیں اس پر تیار کرتا ہے کہ وہ جمہوری نظام کی تبدیلی کے لیے خود کو اور دوسروں کو تیار کریں۔ یہ دعوت وہ ریاستی اداروں میں شامل افراد تک بھی پہنچاتا ہے، تاکہ ان ریاستی اداروں میں اگر یہ دعوت مقتدر لوگوں میں مقبول ہوجائے تو وہ اپنی قوت سے جدید نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور اس کی جگہ اسلامی نظامِ خلافت وامارت کو قائم کریں۔ علامہ یوسف بنوری اور مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب کی طرف سے ’مجلسِ دعوت واصلاح‘ کا قیام ہو، یا مولانا ظفر احمد عثمانی کا مرکزی جمعیت علمائے اسلام کو تبلیغِ احکام کی طرف متوجہ کرنا ہو، مولانا ولی اللہ کابلگرامی کی رہنمائی میں ’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی‘ ہو یا مولانا عطاء المومن شاہ صاحب بخاری کی قیادت میں ’مجلسِ احرار‘ کی کوششیں ہوں، مولانا شیر علی شاہ صاحب اور مفتی حمید اللہ جان صاحب کی رہنمائی میں چلنے والی ’تحریکِ طلبہ وطالبات‘ ہو، یا لال مسجد کی تحریک، پاکستان کی سطح پر یہ وہ تحریکات ہیں جو علمائے کرام نے غیر جمہوری طریقے سے جاری رکھیں اور ان کا مقصد معاشرے اور ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں در آنے والے ملحد وبےدین افراد کی سرکوبی اور اہلِ صلاح کی کثرت کی کوشش تھی اور نظامِ اسلامی کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ ان تحریکات کا یہ مقصد نہیں تھا کہ دینی جماعتوں کا ووٹ بینک بڑھا کر انتخابی سیاست میں انھیں کامیاب کرنے کی کوشش کرنا اور اسی کے ذریعے اسلامی قانون سازی کی کوشش کرنا۔
موجودہ ریاستی اسٹرکچر میں بظاہر اس قسم کی تحریک کی گنجائش نکل آتی ہے، مگر آج کے دور میں جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ اس شدت سے بلند کیا ہے تو اس کی زد میں ایسی تمام تحریکات آچلی ہیں، اور ان تحریکات سے وابستہ افراد بھی ریاستی اداروں کے تشدد کا نشانہ بنے جس کی بڑی مثال مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت ہے۔ سو کیا یہ علمائے کرام جو دعوت وبیان سے موجودہ ریاستی آئین ودساتیر اور قوانین کے غیر شرعی ہونے کو بیان کریں اور اس نظام کی تبدیلی اور اس کی جگہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے رائے عامہ ہموار کریں، سب کو ریاست کا ’باغی‘ اور ’غدار‘کہا جاسکتا ہے۔
نفاذِ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد
سب سے زیادہ جس مسئلے پر اختلاف سامنے آتا ہے، وہ موجودہ ریاستوں میں نفاذِ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کی مشروعیت کا مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ ریاستوں میں جہاں قوانینِ وضعیہ جاری ہیں اور اجرائے احکامِ اسلام نہیں ہے، وہاں مسلح جدوجہد کرکے ایسی حکومت قائم کی جاسکتی ہے جو بزورِ قوت اسلامی احکام جاری کرے اور شریعت نافذ کرے؟ اس معاملے میں اہلِ دین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ہماری نظرمیں اس اختلاف کا سبب بھی تعبیر کا وہ اختلاف ہے جس کا ذکر ہم پہلے سے کرتے آرہے ہیں۔ پہلی تعبیر والے حضرات جن کے یہاں ’اقتدارِ اعلیٰ‘ اللہ تعالیٰ کو تفویض کرنے والے آئین کے اسلامی ہونے سے ریاست اسلامی ہوجاتی ہے، وہ ایسی ریاست میں انتقالِ اقتدار کے لیے کسی بھی مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ وہاں کا اسلامی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بالاصل ان کے یہاں فقہاء کی بیان کردہ خروج کی ابحاث بے سود ہیں، کیونکہ جمہوری آئینوں میں انتقالِ اقتدار کے لیے کسی بھی مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں، یہ عمل تو روحِ جمہوریت ہی کے خلاف ہے۔ سو جب ایسے جمہوری آئین کو تسلیم کرلیا تو اب مسلح جدوجہد کی مشروعیت خارج از امکان ٹھہری۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اس تعبیر کے حامل علمائے کرام مسلم ریاستوں میں مسلح جدوجہد کی کسی صورت کو جائز نہیں سمجھتے۔
لیکن اس موقع پر ہم بعض اشکالات کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں جو اس تعبیر کے مطابق بھی موجودہ ریاستی نظام سے متعلق ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ اول؛ جب ریاست نامی معنوی شخص قرار دادِمقاصد جیسی شقوں کوآئین کا حصہ بنا کر اسلام قبول کرلیتا ہےیا اسلامی ہوجاتا ہے، تو کیا یہ سود جیسے کتنے ہی صریح محرمات کی حلت کی شقیں شامل کرکے ارتداد و زندقہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا اور غیر اسلامی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کیونکہ آئین تو دراصل عمل کا نام نہیں، اعتقاد کا نام ہے۔ لہٰذا اقتدارِ اعلیٰ کا اللہ تعالیٰ کو تفویض کرنا گویا کلمہ شہادت کی ادائیگی ہے، لیکن آگے اسلام کے متفق علیہ محرمات کو حلال سمجھنا صریح کفر ہے۔ سو سبھی علمائے کرام کے یہاں متفقہ مسئلہ ہے کہ کوئی مسلمان ساری زندگی عبادات پر مواظب رہے، مگر کوئی اعتقاد کفر کا رکھے تو وہ اسلام سے خارج ہے۔ سو ایسی حالت میں جب ریاست غیر اسلامی ہوگئی تو کیا اب اس میں مسلح جدوجہد جائز ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح اگر یہ ریاست کا شخصِ معنوی باوجود مسلمان ہونے کے فساد فی الارض اور اللہ ورسول کے خلاف محاربے کا مرتکب ہو تو کیا ایسے میں اس کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہوگی، جبکہ اسلام میں باجماعِ علماء فساد فی الارض اور محاربے کے مرتکب ’مسلمان‘ کے خلاف بھی قتال مشروع ہے۔ اس کا جواب پہلی تعبیر کے مطابق دیا جانا ضروری ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ پہلی تعبیر کے اصولوں کے مطابق ان کا جواز دینا پڑے گا، واللہ اعلم۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خروج کی ابحاث کا تعلق حکمران سے ہوتا ہے، نہ کہ سلطنت سے۔ لہٰذا دار الاسلام میں بھی خروج علی الحاکم فقہاء کی بیان کردہ شروط کے مطابق ہوسکتا ہے۔ سو اس کی تطبیق پہلی تعبیر کے مطابق کیسے ہوگی، کہ موجودہ اسلامی آئین تو ریاست میں مسلح جدوجہد کے ذریعے انتقالِ اقتدار کو حکومت کے خلاف جرم نہیں، بلکہ ریاست کے خلاف جرم اور بغاوت قرار دیتا ہے۔ یہ وہ مغالطہ ہے جس کا جواب آج تک نہیں دیاجاسکا، اور جو کوئی موجودہ ریاستوں میں مسلح جدوجہد کے ذریعے حکومتِ اسلامیہ کے قیام کی کوشش کرتا ہے تو اسے ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ جو لوگ نفاذِ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کے قائل ہوتے ہیں، وہ کسی ریاست کے خلاف جنگ نہیں لڑتے، بلکہ وہاں کی حکومتوں اور افواج کے خلاف جنگ لڑتے ہیں، تاکہ ریاست کو حقیقی معنوں میں دار الاسلام بناسکیں۔ سو ان لوگوں پر ریاست کے باغی ہونے کی فردِ جرم شریعت کی رو سے کیسے عائد کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی پہلی تعبیر کے مطابق دیا جانا ضروری ہے۔ یہ علمی اسلوب میں ہم نے بات کردی، کہ ان سوالات کے جوابات کے تعین پہلی تعبیر کے بیانیے میں ضروری ہے۔
گو یہ جملہ معترضہ لکھنا ضروری ہے کہ اسی ریاستِ پاکستان کی آدھی تاریخ جرنیلی انقلابات سے بھری ہوئی ہے جس میں جرنیلوں نے ببانگِ دہل ریاستی آئین کی دھجیاں اڑائیں، اور مسندِ اقتدار پر براجمان ہوکر سالوں حکومت کے مزے لوٹے، لیکن کہیں ان پر بغاوت کی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ یہ فردِ جرم صرف انھی مخلص مسلمانوں پر عائد کی گئی جنھوں نے پاکستان کو اس کی اصل بنیاد پر کھڑا کرنا چاہا جس پر یہ قائم کیا گیا تھا، اور اس فردِ جرم کے تحت کتنے مخلص نوجوان باضابطہ فوجی عدالتوں کی کارروائی کے ذریعے پھانسی دے دیے گئے، کتنے ماورائے عدالت موت کی نیند سلادیے گئے،کتنے جعلی مقابلوں میں شہید کر دیے گئے اور کتنے آج تک لاپتہ ہیں۔ علمائے کرام کے لیے یہ بہت زیادہ ڈر کا مقام ہے کہ ان کے کسی بھی فتویٰ کو آڑ بنا کر ریاستی ادارے یہ گھناؤنے جرائم کر رہے ہیں، کہیں بروزِ قیامت اس کا جواب نہ دینا پڑ جائے۔ ان مغرب نواز لبرل وسیکولر عناصر نے جو کرنا ہے وہ کریں گے، حقیقت میں وہ کسی فتویٰ کا اعتبار نہیں کرتے، لیکن اپنے برے افعال کے لیے علمائے کرام کا سر استعمال کرتے ہیں اور علمائے کرام کو پل بنا کر اس پر سے جہنم کے گھڑوں میں گرنا چاہتے ہیں۔ یہ دین بیزار عناصر تو علمائے کرام کے فتاویٰ دکھا کر مسلمانوں کے گھرانوں کوبھی اجاڑنا چاہتے ہیں۔ بندے کی اہلیہ پر بھی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے باقاعدہ علمائے کرام کے فتاویٰ دکھا کر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرے، کیونکہ ان کے نزدیک اس کا شوہر ریاست کا باغی ہے اور انھوں نے سبھی مکاتبِ فکر کے علمائے کرام کے فتاویٰ جمع کر رکھے تھے جن میں بعض کے یہاں ایسے شخص سے علیحدگی واجب اور بعض کے یہاں جائز لکھی تھی۔ حالانکہ بندہ ان علمائے کرام سے بھی یہی گمان رکھتا ہے کہ اگر وہ عالمی طاقتوں کے آلہ کار ریاستی اداروں کے عناصر کی حقیقت جان لیں تو کبھی ان کے ہاتھ میں ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیں جو ان ریاستوں میں مسلمانوں کی کمزوری پر منتج ہو، الا یہ کہ اکراہ کی حالت میں کوئی فتویٰ دے دیں، جس کا حکم سبھی علمائے کرام کے یہاں معلوم اور عذر مقبول ہے۔
یہاں تک پہلی تعبیر کے مطابق موجودہ ریاستی ڈھانچے میں نفاذِ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کی مشروعیت پر بات ہوئی۔ اب دوسری تعبیر کے مطابق بات کرتے ہیں جو یہاں کی اکثریتِ علماء کی تعبیر ہے۔ ان کے یہاں چونکہ فقہاء کے سابقہ اجتہادات من وعن آج کے دور میں بھی معتبر ہیں تو وہ انھی اجتہادات کی روشنی میں آج کے دور میں بھی مسلح جدوجہد کے احکام متعین کرتے ہیں۔ اس کے مطابق نہ مطلق جواز دیا جاسکتا ہے اور نہ مطلق منع کیا جاسکتا ہے۔ جو شروط فقہائے کرام نے خروج کے حوالے سے بیان کردی ہیں، انھی کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق خروج کی تین حالتیں ہیں؛ وجوب، جواز اور حرمت۔
اگر حکمران صریح کفر کا مرتکب ہو یا احکامِ دینیہ میں تبدیلی کا مرتکب ہو تو اسے معزول کرنا واجب ہوتا ہے چاہے خروج کرنا پڑے۔ہاں! اس خروج کے لیے علمائے کرام نے قدرت کی شرط عائد کی ہے۔ اگر قدرت کے بغیر کوئی جنگ کرے، تو بھی اس کے خلاف حکامِ مذکورہ کی تائید جائز نہیں، اگرچہ خود مسلح خروج کرنے والے کی تائید بھی واجب نہیں۔ اگر قدرت نہ ہو، تو فی نفسہ خروج کاحکم تو ساقط ہوجاتا ہے، مگر خروج کی تیاری اور اعداد کا حکم واجب کے درجے میں آجاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کے اوپر کفر کی حکومت اسلام میں کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔17 سو خروج کی تیاری واجب ٹھہرتی ہے، یہاں تک کہ تیاری پوری کرکے خروج کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ذمہ واجب ہوتا ہے کہ وہ کفر کی حکومت کی معزولی کے لیے ہر ممکن وسیلہ استعمال کرکے کوشش کریں، یہاں تک کہ اگر وہ بدون قتال کے معزول نہ ہوتو تیاری کرکے جنگ کریں۔ یہ جنگ کرنے والے کسی بھی حال میں ’باغی‘ نہیں کہلائے جاتے، بلکہ یہ مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، اور مسلمانوں پر مسلط ایسے حکام واجب العزل ہوتے ہیں۔
اگر حکام ظلم وعدوان کا مرتکب ہوں تو جن کے خلاف ظلم وعدوان کا ارتکاب کیا گیا ہو، ان کےحق میں حکام سے اپنے سے ظلم وعدوان کو رفع کرنے میں اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے مسلح جنگ جائز ہوتی ہے، اور یہ بھی ’باغی‘ کے حکم میں نہیں آتے۔ اسی طرح دوسرے مسلمانوں کے لیے ان مظلوم مسلمانوں کے خلاف حکام کی مدد جائز نہیں ہوتی، بلکہ مسلح جنگ کرنے والوں کو ملامت کرنا بھی جائز نہیں ہوتا۔
اگر حکام شخصی زندگی میں فسق وفجور کے مرتکب ہوں، تو ان کے خلاف مسلح جنگ جائز نہیں، بلکہ اکثریتِ متاخرین کے یہاں حرام ہے۔ گو اسلاف میں اس کے جواز کے اقوال موجود ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے اوپر بھی باغی کا حکم عائد کرنے میں علمائے کرام ایک قول پر متفق نہیں، کوئی عائد کرتا ہے، اور کوئی عائد نہیں کرتا۔
اگر حکام عادل ہوں اور شریعت کے موافق حکومت کرتے ہوں تو ان کے خلاف کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد بغاوت کے زمرے میں آتی ہے، اور ایسے باغیوں کے خلاف حکام کا ساتھ دینا مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے۔
یہ وہ احکام ہیں جو فقہائے کرام کی کتب میں مذکور ہیں اور ہم نے یہاں خلاصہ کے طور پر لکھ دیے ہیں۔ ان کی وضاحت کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا رسالہ ’جزل الکلام في عزل الإمام‘ کافی وشافی ہے، اور اسی کی تلخیص حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے تکملۃ فتح الملھم میں ذکر کی ہے۔
سو جو علمائے کرام فقہائے کرام کی اس تعبیر کے حامل ہیں، وہ موجودہ ریاستوں کی حکومتوں پر بھی انھی احکام کی تطبیق کرتے ہیں۔ اگر حکام صریح کفر کے مرتکب ہوں، سیکولرزم کے قائل بلکہ داعی ہوں، تغییر شرع کے مرتکب ہوں اور شرعی قوانین کی جگہ مغربی قوانین رائج کریں تو ان کے خلاف علمائے کرام خروج کا فتویٰ دیتے ہیں،چاہے وہ کسی ایسی ریاست کے حکام ہوں جس کے آئین میں قراردادِ مقاصد موجود ہو۔ یہ خروج کرنے والے مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، برحق ہیں، اور ان مجاہدین کے خلاف حکام کی حمایت حرام ہوگی۔ ہاں! خروج کی قدرت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے مذکورہ بالا تفصیل کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
یہ وہ دلیل تھی جس کی بنیاد پر مولانا ولی اللہ کابلگرامی اور آپ کے مکتبِ فکر کے علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد نے تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی شروع کی اور وہ مسلح جدوجہد کے ذریعے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے قائل تھے۔ یہی وہ جرم تھا جس کی پاداش میں آپ اور آپ کے رفقاء علمائے کرام کی بڑی تعداد کو ریاستی اداروں نے شہید کرڈالا۔ یہی دلیل تھی جس کی بنیاد پر حضرت مفتی نظام الدین شامزئی نے پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف خروج کا فتویٰ دیا تھا جو اس وقت عام نشر ہوا تھا۔ اسی دلیل پر شیخ نور الھدیٰ نے بھی پاکستان میں مسلح جدوجہد کا فتویٰ دیا تھاجو مجاہدین کے رسالوں میں نشر ہوا۔ یہی فتویٰ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے استاذ الحدیث شیخ نصیب خان کا بھی تھا۔ بندے کو جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے ایک فاضل عالم نے بتایا کہ وہ نفاذِ شریعتِ محمدی والے خالد امیر صاحب کے ساتھ کسی قید خانے میں تھے، وہاں خالد امیر صاحب نے انھیں بتایا کہ امارتِ اسلامیہ کے اول دور میں وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رشید احمد لدھیانوی کے پاس گئے اور ان سے امیر المؤمنین ملا محمد عمر کے لیے سفارش کروائی کہ انھیں افغانستان میں معسکر چلانےکی اجازت دی جائے جہاں سے وہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کی تیاری کرسکیں۔ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی نے یہ ساری بات سن کر باقاعدہ امیر المؤمنین کے لیے سفارش لکھی اور آپ کی سفارش پر خالد امیر صاحب کو افغانستان میں معسکر کھولنے کی اجازت ملی۔ ان حضرات علمائے کرام کے علاوہ بعض علمائے کرام کی رائے ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ یہ پاکستان کے وہ علمائے کرام ہیں جن کا تصلبِ دینی اور فکر وفقہ معتبر ہے اور ان سے صراحتاً نفاذِ شریعت کی مسلح جدوجہد کی حمایت ثابت ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلح جدوجہد کی خفیہ تائید علمائےکرام کی اکثریت نے پہلے پہل بھی کی تھی اور آج بھی وہ اس پر قائم ہیں۔
اسی طرح جو حکام مسلمانوں کے کسی قبیلے، گروہ یا علاقے پر صریح ظلم وعدوان کے مرتکب ہوں،جیسا کہ مغربی طاقتوں کی ایماء پر قبائلِ پاکستان میں ریاستی اداروں نے ظلم وستم کی سیاہ تاریخ رقم کی، تو اس کے خلاف مسلح دفاع اور جنگ علمائے کرام کے یہاں جائز ہے، اور مسلح جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کے خلاف حکام کی حمایت ناجائز ہے۔ پاکستان میں پرویز کے دور میں جب امریکہ کا ہراول دستہ بن کر افواجِ پاکستان نے قبائل میں جنگ شروع کی تو مذکورہ دلیل کی بنیاد پر لال مسجد میں علمائے کرام کے اجتماع میں ’وانا آپریشن‘ کے خلاف فتویٰ دیا گیا تھا، حکمرانوں اور افواج کی حمایت کو حرام قرار دیا گیا تھا، اور اس پر پانچ سو سے زائد علمائے کرام کے برضا ورغبت دستخط تھے جن پر کسی بھی قسم کا کوئی جبر نہ تھا۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج پاکستان کے حالات بدل گئے ہیں، کیا آج کے حکمرانوں اور جرنیلوں نے اسلام کے در پر سر جھکا دیا ہے، اور نفاذِ شریعت سے مخلص ہوگئے ہیں،یا ابھی تک وہی پرویزی روش کارفرما ہے اور عالمی طاقتوں کی ایماء پرغیر شرعی لبرل قوانین کا بزور رائج کرنا اور شریعت کا نام لینے والے مسلمانوں پر ’دہشت گردی‘ کی امریکی جنگ کا جاری رکھنا ہی ان کا طرزِ عمل ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ حسی مسئلہ ہے اور اس کی دلیل مشاہدہ ہے۔ پھر یہ مسئلہ تو سبھی اہل السنۃ کے علماء کے یہاں مسلم ہے کہ عالم ومجتہد کی موت سے اس کا اجتہاد زائل نہیں ہوجاتا اور اس کی تقلید ناجائز نہیں ہوجاتی، سو مذکورہ بالا علمائے کرام کا فتویٰ کیا آج بھی معتبر نہیں ہوگا؟
اس ساری تفصیل سے ہمارا مقصود یہ ثابت کرنا تھا کہ موجودہ آئینی وجمہوری ریاستوں میں جہاں حقیقتاً شریعتِ اسلامیہ معطل ہے اور حکومت سیکولر بنیادوں پر وجود میں آتی ہے، چاہے آئین میں اقتدارِاعلیٰ اللہ تعالیٰ کو تفویض کیا گیا ہو، اور جمہوری اصولوں میں چند کاغذی تبدیلیاں کرلی گئی ہوں، تو ایسی ریاستوں میں حکومتِ اسلامیہ کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کرنا فقہائے اسلام کے احکام کے مطابق ناجائز نہیں ہے اور نہ ہی بغاوت ہے، بلکہ حسبِ حالات جائزاور واجب ہوگا، اور یہ پاکستان کے علمائے کرام کی اکثریت کا مسلک ہے جو ہماری تصریح میں دوسری تعبیر کے حامل ہیں۔
مسلح جدوجہد کے حوالےسے ضروری وضاحت
مسلح جدوجہد کےحوالے سے ہم نے یہاں جو حکم بیان کیا، وہ اصولی حکم ہے۔ اور یہاں تک ہمارا مقصود یہ ثابت کرنا تھا کہ موجودہ ریاستوں میں جہاں بھی حکومت شریعت کے خلاف کفری قوانین رائج کرے گی اور ریاست کے محافظ ادارے ایسی حکومتوں اور کفری قوانین کا دفاع کریں گے تو علمائے کرام کی اکثریت کے نزدیک ان کے خلاف نفاذِ شریعت کے لیے اٹھنے والے گروہ ’باغی‘ نہیں کہلائے جاسکتے، بلکہ اس جنگ میں شریعت مخالف حکومتوں اور شریعت دشمن افواج کی حمایت ’حرام‘ ہوگی۔ جو علمائے کرام پہلی تعبیر کےحامل ہیں، ان کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ وہ …جمہوری آئین کو بنیاد بنا کر… کیسے ایک ایسی حکومت اور ریاستی مسلح اداروں کی تائید کر رہے ہیں جوصریح خلافِ شرع امور کے مرتکب ہو رہے ہیں اور شریعت کے نفاذ کو قصداً روکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے تو فقہائے اسلام کے بیان کردہ احکام کی کھلی مخالفت لازم آتی ہے۔
البتہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اصل ’واجب‘ کفری قوانین رائج کرنے والی حکومت کی جگہ شرعی حکومت قائم کرنا ہے،اور یہ ’واجب‘ اگر اسلحہ اٹھائے بغیر پُر امن جدوجہد سے پورا ہوجائے تو اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، اور اسی طرح اگر اسلحہ اٹھانے کے بعد بھی یہ حاصل نہ ہو، تو ایسی جدوجہد عمل کی دنیا میں بے فائدہ ہوگی۔ پھر اگر مسلح جدوجہد کے نتیجے میں کئی مفاسد کے پیدا ہونے کا امکان ہو تو اس کی گنجائش نکلتی ہے کہ بعض علمائے کرام ایسی مسلح جدوجہد سے منع کریں18۔ بالخصوص جب یہ دیکھا جائے کہ نفاذِ اسلام کے نام پر مسلح جدوجہد کرنے والوں کے ہاتھوں عام مسلمانوں کا قتلِ ناحق اور معصوم جانوں کا اتلاف شروع ہوجائے اور مسلمانوں کی املاک کی تباہی ہونے لگے تو ایسے غیر شرعی امور پر نکیر کرنا تو اصولِ اسلام سے ہے اور ایسی کسی بھی مسلح جدوجہد کی تائید کرنا جو حق اور ناحق کی تمیز سے ناآشنا ہو اور شریعت کے بیان کردہ آدابِ قتال کو خاطر میں نہ لائے، کسی بھی معتبر عالمِ دین کا فتویٰ نہیں ہوسکتا۔
حقیقت کی دنیا میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ابھی تک ہونے والی مسلح جدوجہد کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس میں شرعی حدود سے تجاوز کیا گیا ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں تو چادر وچاردیواری کی عصمت کی پامالی عام رسم اور عادت کے طور پر دیکھنے میں آئی اور اس کے مقابلے میں مجاہدین سے چند ایک واقعات اس قسم کے صادر ہوئے۔ مگر سفید لباس کے دامن پر سیاہ داغ بدنما لگتا ہے ، جبکہ سیاہ لباس تو خود کتنے ہی سیاہ دھبے چھپالیتا ہے۔
پیغامِ پاکستان کی حقیقت
شاید یہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ دعویٰ کر رہے ہیں کہ علماء کی اکثریت دوسری تعبیر کی حامل ہے جن کے یہاں موجودہ ریاستوں میں مسلح جدوجہد کے ذریعے نفاذِ شریعت کی کوشش جائز ہے، جبکہ پیغام ِ پاکستان میں ۱۸۰۰ سے زائد علمائےکرام کے دستخط ہیں جو پاکستان کے سبھی مکاتبِ فکر سے وابستہ علمائے کرام ہیں۔ اگر اسے اکثریت نہ کہا جائے تو کسے کہا جائے۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگر پیغامِ پاکستان جیسا دکھایا جاتا ہے، ویسا ہی حقیقت میں ہوتو واقعی یہ دلیلِ اکثریت ہے۔ مگر ہم نے اس دستاویز پر موجود دستخط والے حضرات علمائے کرام سے استفسار کیا، تو جواب میں ہمیں دو باتیں پہنچیں۔ ایک بڑے عالم نے یہ فرمایا کہ ہم سے جس چیز پر دستخط لیے گئے تھے، وہ یہ نہیں ہے جو پیغامِ پاکستان کی دستاویز میں چھپا ہوا ہے۔ یہ بات ان عالم نے کسی ایک فرد کے سامنے نہیں، بلکہ حدیث کے سبق میں تمام شاگردوں کے سامنے کہی۔ ایک دوسرے بڑے مفتی صاحب نے یہ فرمایا کہ ہم نے خفیہ اداروں کے سخت جبر میں دستخط کیے ہیں۔19 اب ان دو گواہیوں پر باقی تمام دستخطوں کا قیاس کرلیجیے اور جان لیجیے کہ پیغامِ پاکستان کی دستاویز میں جو کچھ درج ہے، دستخط کرنے والے علمائے کرام اس پر متفق نہیں ہیں۔یہ اس دستاویز کی حقیقت ہے۔
پاکستان کی حالیہ صورتحال اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا
وطنِ عزیز پاکستان اس وقت جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے اور معیشت واقتصاد کے میدان میں جس دیوالیہ کی طرف گامزن ہے، شدید خطرہ ہے کہ ریاستی نظام انہدام (collapse) کر جائے۔ ہم لوگ جس شام کی صورتحال دیکھ کر ڈرتے تھے کہ کہیں ملک میں خانہ جنگی بڑھی تو پاکستان کا بھی وہی حال نہ ہوجائے جو تباہ حال شام ہے، لیکن جنگ کے بغیر ہی صورتحال ویسی بنتی جارہی ہے۔ خاکم بدہن اگر خدانخواستہ اب کوئی ایک بھی قدرتی حادثہ ہوگیا تو پھر ہم ’شام‘ کو اپنے ملک میں دیکھ رہے ہوں گے۔
یہ حالات اس ملک میں اللہ کی شریعت سے دشمنی مول لینے اور اللہ کو ناراض کرنے کا نتیجہ ہیں۔ اس کا اصل ذمہ دار تو ملک پر قابض مقتدر طبقہ ہے، چاہے حکمران ہوں یا جرنیل، لیکن جب نہی عن المنکر نہ رہا اور ان ظالموں کے کرتوتوں پر انکار نہ رہا تو سنتِ کونیہ کے مطابق امتحان کی لپیٹ میں پورا ملک اور سبھی شہری آنے کو ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ] [سورۃ الأنفال:۲۵]
’’اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں صرف ان لوگوں پر نہیں پڑے گا جنھوں نے ظلم کیا ہوگا، اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘۔
اگر ملک کے تمام اہلِ دانش جمع ہوجائیں اور مل بیٹھ کر غور وفکر کریں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں انھیں کوئی دشواری نہ ہوگی کہ ان سب حالات کا ذمہ دار ملک کا مقتدر طبقہ ہے، جو نہ دینِ اسلام سے مخلص ہے اور نہ ملک وقوم سے مخلص ہے۔یہ وہ طبقہ ہے جسے مغربی طاقتیں اپنی مرضی چلانے کے لیے منتخب کرتی ہیں اور یہ لوگ اپنی دنیا بنانے کے لیے اپنی قوم اور اپنے ملک سے غداری کرتے ہیں۔ یہ کرپٹ قیادت ہی ہے جس نے آج پاکستان کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے۔ پچھتر سال کی تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، اسلامی قوانین کے اجراء کو قصداً روکا، اپنے شخصی مفادات کے تحفظ کے چکر میں ملک کی سالمیت کو ہمیشہ داؤ پر لگایا، ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے اسے عالمی طاقتوں کے در کا غلام بنایا۔ آج یہ حال ہے کہ مشرق میں پڑوس کا ملک دنیا کی تیسری عسکری طاقت بن چکا ہے، اور یہ ظالم لوگ مغربی پڑوسی کی دین پسندی کو امریکہ ومغرب کے سامنے دہشت گردی دکھا کر اپنے ملک کے لیے امداد مانگ رہے ہیں۔ اب بھی اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ یہ مقتدر طبقہ اپنی کرسی بچانے کے لیے یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی مغربی شرائط مان لے یا ایٹمی ہتھیاروں کو ان کی نگرانی میں دینے پر تیار ہوجائے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ جغرافیائی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر ملک کو دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں سرنڈر کردیا گیا۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے کہ ملک کے ان حالات کا اصل ذمہ دار مقتدر طبقہ ہے، تو اب پوری قوم اور خاصۃ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طبقے پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی روش تبدیل کرے اور اگر نہیں بدلتا تو اقتدار چھوڑ دے۔ حیرانگی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ طبقہ اپنی روش بدلنے کے بجائے نفاذِ شریعت کا نام لینے والوں کو ملک کے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور پھر بعض علمائے کرام کو بھی اس پر جمع کرلیتا ہے۔
اگر یہ مقتدر طبقہ ملک کو کرائسس سے نکالنے میں مخلص ہوتا تو ضرور درست حل کی طرف قدم بڑھاتا اور اس ملک میں ایک طرف شریعت کا عادلانہ نظام رائج کرتا اور دوسری طرف اس ملک کو بیرونی طاقتوں کے اثر سے نکال کر خود مختار بناتا۔ یہی وہ حل ہے جو پاکستان کو موجودہ کرائسس سے نکال سکتا ہے، اور یہ اسی وقت عمل پذیر ہوسکتا ہے جب زمامِ اقتدار فاسد اور کرپٹ قیادت سے چھین کر صالح قیادت کو سونپ دی جائے۔ اگر ملک کے ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں ایسی صالح قیادت موجود ہے تو اسے چاہیے کہ یہ کام کردے اور اس کے لیے جمہوری تماشوں کا انتظار نہ کرے۔ پاکستان کی افواج میں جو دین ومذہب اور ملک وقوم سے مخلص لوگ موجود ہیں، انھیں چاہیے کہ اپنے مفسد جرنیلوں سے بزورِ قوت چھٹکارا حاصل کرکے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور ملک کو درست سمت میں لے چلیں۔ اگر وہاں کوئی صالح قیادت کا اہل نہیں ہے، تو ملک وقوم کو باہر سے صالح قیادت کے آنے کی راہ ہموار کرنی چاہیے اور مجاہدین پر اعتماد کرنا چاہیے۔
پاکستان کے علمائے کرام اور اہلِ دین سے وقت کا تقاضا کیا ہے؟
پاکستان کے اہلِ دین اور خاصۃ علمائے کرام کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں اصل جنگ مغرب زدہ مقتدر طبقے اور ملک وقوم سے مخلص دینی طبقے کے درمیان ہے۔ ہمارا مقتدر طبقہ نہ اسلام سے مخلص ہے اور نہ ملک وقوم سے اور وہ اس ملک کو کفری طاقتوں کے ہاتھوں مکمل فروخت کرکے چھوڑے گا۔ اس طبقے کی خواہشات کی راہ میں اگر کوئی اصل رکاوٹ ہے، تو وہ شریعت کانام لینے والے مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں جو پاکستان کے دینی طبقے کی ’قوت‘ ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جس سے اس طبقے کو سب سے زیادہ خوف ہے، اور یہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مجاہدین کو ملک وقوم کے حق میں موذی ثابت کرتے ہیں۔یہ لوگ خود علانیہ مغرب کے آلہ کار ہیں، مگر مجاہدین کو ’سی آئی اے‘ اور ’را‘ کا خفیہ ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنی اس جنگ میں علمائے کرام کا کندھا استعمال کرتے ہیں اور ان سے مجاہدین کے خلاف فتاویٰ لیتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ ہیں جو معاشرے میں علمائے کرام کا مقام گھٹاتے ہیں، دینی تعلیمات کے معاملے میں ان کا اعتبار ختم کرتے ہیں، مدارس کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں اور علمائے کرام کو اپنی سیکولر وبے دین پالیسیوں کا پابند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ ظالم علمائے کرام کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے، مولاناسمیع الحق شہید، مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کی شہادتیں اس کی کافی دلیل ہیں اور خود حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ پر گولیاں چلانے والے کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟
اس جنگ میں اہلِ دین کی کامیابی ایک ہی صورت میں ممکن ہے، وہ یہ کہ یہ متحد رہیں اور ان میں سے کوئی بھی انجانے میں بھی دین بیزار مقتدر طبقے کا حامی نہ بنے۔ پاکستان کی سالمیت اور دفاع سے مخلص دینی طبقہ ہی ہے، خواہ علمائے کرام ہوں یا مجاہدین ہوں، اہلِ مدارس ہوں یا دینی جماعتیں۔ تعبیر اور اجتہاد کا اختلاف دینی طبقے میں موجود ہے، مگر وہ اس اختلاف کے باوجود دین کے اصول میں متفق ہیں اور وطنِ پاکستان کے حوالے سے ان کا بیانیہ ایک ہے۔ چاہیے کہ ریاست وسیاست کے حوالے سے تعبیر کے اختلاف کو اپنی ’جگہ‘ دی جائے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف ’باغی‘ یا ’ناحق‘ کا فتویٰ مت دیا جائے، کیونکہ اس انتشار کا لامحالہ فائدہ بے دین قوتوں کو حاصل ہوگا۔ اور یہ تو مغرب کی آشکارا پالیسی ہے کہ وہ دینی قوتوں میں سے اپنے حامی تلاش کرکے انھیں دوسرے بنیاد پرستوں کے خلاف کھڑا کرے۔ اس موضوع پر رینڈ کارپوریشن جیسے امریکی تھِنک ٹینک اداروں کی پالیسی رپورٹیں منشور ہیں۔
علمائے کرام کا منصب تو یہ ہے کہ متفق علیہ مناکیر پر سب مل کر نکیر کریں، خواہ منکَر کا مرتکب کوئی بھی ہو۔ پھر مناکیر بھی سب ایک درجے کی نہیں ہے اور بڑے منکر پر نکیر بھی شدید اور متاکد ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا منکَر اسلامی حکومت اور شریعت کا نفاذ نہ ہونا اور عالمی طاقتوں کی نمک خواری ہے، لہٰذا اس منکر کے مرتکب مقتدر افراد اور عناصر کے خلاف انکار ہونا چاہیے اور اہلِ وطن میں شعور بیدار کرنا چاہیے کہ وہ ایسے افراد اور عناصر پر دباؤ ڈالیں اور انھیں اپنی روش سے باز رکھنے کی کوشش کریں، اور ان کے مقابلے میں مخلصین کی حمایت کریں۔
ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر ہم وطنِ عزیز پاکستان کے حالات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پورے دینی طبقے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ کام محض چند افراد کے اسلحہ اٹھالینے سے انجام نہیں پاتا، اور نہ ہی کسی ایک جنگ اور معرکے کا نام ہے۔ یہ ہمہ گیر کام ہے اور اس کی کتنی ہی سطحیں ہیں۔ عوام میں تبلیغِ احکامِ اسلام کرنا، ریاستی اداروں کے افراد کو دین سکھانا، ریاستی اداروں میں بے دینوں کے مقابلے میں صالحین کو قوت پکڑنے کی سعی کرنا، اور ایک ایسی جہادی قوت پیدا کرنا جو پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور نفاذِ شریعت کے لیے راستہ ہموار کرے، تاکہ اس کے بل بوتے پر اقتدار ’صالح قیادت‘ کو سونپ دیا جائے جو اسلام سے بھی مخلص ہو، ملکی سالمیت اور خودمختاری کی بھی محافظ ہو اور ملک وقوم کی خدمت کے جذبے میں سچی ہو۔ یہ کام اہلِ مدارس کا بھی ہے، ریاستی اداروں کے افراد کا بھی ہے، تعلیمی اداروں اور علمائے کرام کا بھی ہے، اور نفاذِ شریعت کے لیے جمع ہونے والے مجاہدین کا بھی ہے۔ اور بے شک مجاہدین کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے کہ اسی قوت پر پاکستان کی صلاح کا دار ومدار ہے۔
مجاہدین کی ذمہ داری
مجاہدین کو اپنی قوم کے سامنے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان میں نہ صرف نفاذِ شریعت کے لیےکوشاں ہیں، بلکہ اس ملک کو ’عالمی طاقتوں‘ کی بالادستی سے نکال کر خود مختار بنانا چاہتے ہیں اور ملک وقوم کو دنیا میں باعزت بنانا چاہتے ہیں، ملکِ پاکستان اس وقت جن اندرونی وبیرونی خطرات سے دوچار ہے، مجاہدین ان سب کا ادراک رکھتے ہیں اور ان سے اپنی قوم کو نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مجاہدین اپنے شرعی اور سیاسی مواقف میں واضح ہوں۔ ان کی سیاست ’دنیوی لادین سیاست‘ کی طرح اتار چڑھاؤ اور یوٹرنز کی حامل سیاست نہ ہو، اور ان کا عمل ان کے مواقف کے مطابق ہو۔ پھر ان میں خود احتسابی کا عمل بھی موجود ہو، تاکہ اخطاء کی اصلاح ہو اور ہر عمل پہلے سے بہتر ہو۔ مجاہدین کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ملک اور قوم پر ’مسلط‘ ہونے کے لیے نہیں، بلکہ ملک وقوم کو خطرات سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ چند باتیں ہم نے اس نیت سے قلمبند کی ہیں کہ اہلِ پاکستان جن مسائل میں گھرے ہیں، اصلاح کی طرف ہم بھی چند گام اٹھانے والوں میں شریک ہوجائیں اور اصلاح جس ’اجتماعی عمل‘ کی متقاضی ہے، اس میں ہماری شرکت بھی ہوجائے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اس اصلاح کے عمل میں اپنی بساط بھر کوشش کرے اور تمام دینی قوتوں کو متحد ومتفق کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جاسکے، اور اہلِ پاکستان سمیت پوری امتِ مسلمہ کو باعزت اور مختار بنایا جاسکے اور شریعت کے عادلانہ نظام کو دنیا میں رائج کیا جاسکے۔
وما أرید إلا الإصلاح ما استطعت، وما توفیقي إلا باللہ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأمتہ وعلینا أجمعین۔
٭٭٭٭٭
1 جسے یہ طبقہ ’کلاسیکی فقہ‘ کے نام سے یاد کرتا ہے، اور اسے سابقہ زمانے کی ضرورت قرار دے کر موجودہ زمانے میں غیر مؤثر قرار دیتا ہے۔
2 دیکھیے: المدخل الفقھي العام؛ أھم المبادیٔ الأساسیۃ، المطلب الثاني قسم الحقوق العامۃ، في الحقوق الداخلیۃ
3 دیکھیے: الفقہ الإسلامي وأدلتہ؛ القسم الخامس، الباب السادس نظام الحکم في الإسلام، الفصل الرابع الدولۃ الإسلامیۃ، المبحث الأول أرکان الدولۃ الإسلامیۃ، الفرع الثالث شخصیۃ الدولۃ الإسلامیۃ
4 ’اسلامی ریاست‘ کے عنوان سے ان دونوں حضرات کی کتب دیکھی جاسکتی ہیں۔
5 مولانا ادریس کاندھلوی کے بیٹے مولانا محمد میاں صدیقی نے علامہ عثمانی کے سیاسی مکاتیب الگ سے مرتب کرکے نشر کیے ہیں، وہاں علامہ عثمانی اور مولانا مودودی کے درمیان مکاتبت دیکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت بندے کے سامنے وہ نسخہ نہیں ہے، اور بندے نے اپنے حافظے کی بنیاد پر یہ بات لکھی ہے۔
6 بصائر وعبر، ج ۲، ص ۱۱۸، مکتبہ بینات، کراچی
7 حوالہ سابقہ، ج۲، ص ۲۶
8 دیکھیے: آپ کے مسائل اور ان کا حل (جدید ایڈیشن)، ج ۸، ص ۶۳۳، مکتبہ لدھیانوی، کراچی۔ نیز دیکھیے: اربابِ اقتدار سے کھری کھری باتیں (کتاب کی حالاً عدم دستیابی کے سبب جلد اور صفحہ نمبر درج نہیں کیا جاسکتا)
9 علامہ سید سلیمان ندوی نے یاد رفتگاں میں علامہ عثمانی کے تذکرے میں اس اجلاس کی تفصیل نقل کی ہے۔دیکھیے؛ یادِ رفتگاں؛ ص ۳۹۰، ۳۹۱،مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
10 دیکھیے مکالمۃ الصدرین؛ ص ۱۳، مرتبہ مولانا طاہر القاسمی
11 تعمیرِ پاکستان اور علمائے ربانی؛ ص ۱۵۴، ۱۵۵، ادارۂ اسلامیات، لاہور
12 تذکرۃ الظفر؛ ص ۴۳۰، ۴۳۱، مطبوعاتِ علمی کمالیہ فیصل آباد
13 دیکھیے: بصائر وعبر؛ حصہ دوم، ص ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۶، ۱۵۲ تا ۱۵۵، ۳۷۱، ۳۷۲، مکتبہ بینات کراچی
14 دیکھیے: احسن الفتاوی، جلد ششم ، رفع النقاب عن وجہ الانتخاب، اسلام میں سیاست کا مقام
15 دیکھیے:آپ کے مسائل اور ان کا حل (قدیم ایڈیشن)، جلد ۸، ص ۱۸۹ تا ۱۹۶، کیا جمہوریت کو مشرف باسلام کیا جاسکتا ہے؟ مکتبہ لدھیانوی، کراچی
16 دیکھیے مجلہ سنابل، خصوصی شمارہ ’جمہوریت نمبر‘
17 علمائے کرام کے لیے اس نکتے کی وضاحت بے حد ضروری ہے۔ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حاکم کے کفر کی صورت میں خروج عند القدرۃ واجب ہے، اور اگر قدرت نہ ہو تو خروج ساقط ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا یہ سقوط علی الأبد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کفر کی حاکمیت میں مسلمانوں کو زندگی گزارنا جائز ہوگیا؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم کی معزولی تو بہرحال واجب ہے کیونکہ وہ اب مسلمانوں کا ولی الامر نہیں رہا، ہاں جب تک جنگ کی قدرت نہیں، جنگ کی قدرت حاصل کرنا واجب ہوجائے گا، یہاں تک کہ قدرت حاصل کرکے جنگ کی جائے اور ایسے حاکم کو معزول کیا جائے۔ بالعموم یہ دوسرا مطلب آج کے دور میں اوجھل ہوچکا ہے، اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ قدرت نہیں ہے، سو اب حاکم ولی الامر ٹھہرا۔ اس مسئلے کی تفصیل کا یہاں مقام نہیں، علمائے کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس شرعی مسئلے کو ضرور موضوعِ بحث بنائیں۔
18 واضح رہے کہ نفاذِ شریعت کی مسلح جدوجہد سے مخصوص حالات میں منع کرنا ایک مسئلہ ہے اور ان کے خلاف شریعت سے انکاری حکومتوں اور افواج کی حمایت کرنا دوسرا مسئلہ ہے۔ ایک سے دوسرا لازم نہیں آتا۔ہم یہاں اول کی بات کر رہے ہیں، ثانی پر انکار ہم پہلے کر آئے ہیں۔
19 ہمیں افسوس ہے کہ ہم یہاں ان حضرات علمائے کرام کے نام نہیں درج کر رہے، اورافسوس اس بات پر ہے کہ ہوسکتا ہے بہت سےلوگ ہمیں سچا نہ سمجھیں۔ مگر ہم کیا کریں کہ ہمیں حضرات علمائے کرام کی حفاظت اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہے، جبکہ دستخط لینے والے ظالموں کے یہاں ان حضرات علماء کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کے شر سے تمام مسلمانوں بالخصوص علمائے کرام کی حفاظت فرمائیں، آمین۔