بچپن سے ہی بچوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں خواب دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ خواب اور ان سے منسوب نمونہ ہائے عمل بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ بچے کے لاشعور میں پنپتی اس خواہش کو محفلوں میں بار بار پوچھے جانے والا یہ سوال مزید پختہ کردیتا ہے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے؟گھر کے بڑے بھی اسے اس حوالے رہنمائی فراہم کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں اپنے تشنہ خواب اپنے بچے کی آنکھوں میں سجا دیتے ہیں۔ بچہ سکول میں پڑھتا ہو تو دوران اسباق یا فارغ اوقات میں استاد محترم بچوں سے سوال کر ہی لیتے ہیں کہ ہاں جی میاں! بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ بچہ اپنی سمجھ اور خواب کے مطابق جواب دیتا ہے۔بچے کا اپنا انتخاب ہوتا ہے اور استاد محترم اس کی صلاحیتوں کے مطابق اس کی تربیت کرتے ہیں اور سیدھے راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ استاد اس بچے کو زمانے کا برا بھلا سکھاتا ہے۔ جب کبھی مہمان کی گھر آمد ہوتی تو چھوٹے میاں کی مہمان خانے میں طلبی ہوجاتی ۔ تعارف کے دوران مہمان ضرور یہ سوال بچے سے پوچھ لیتے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ بچہ شرماتے اور جھجکتے ہوئے ڈاکٹر، فوجی، پائلٹ، مجاہد فی سبیل اللہ یا اپنی پسند کا کوئی جواب دے ہی دیتا ہے۔بچہ خیالوں ہی خیالوں میں اسی مستقبل کو تخلیق کرتے ہوئے زندگی میں آگے قدم بڑھا رہا ہوتا ہے۔
راقم کا بچپن بھی ’بڑا ہوکر جنٹلمین بنوں گا‘، کےخواب بنُتے ہوئے گزرا۔ اٹھتے بیٹھتے بس ایک ہی خواب دیکھتے رہنے کی عادت تھی، اخباروں سے کاٹ کاٹ کے فوجی ٹینکوں کی تصاویر کبھی دیوار پر لگاتے تو کبھی کسی الماری پر۔ دل کے اندر جذبۂ جہاد کے تحت یہ خیال جاگزیں ہوگیاکہ بڑے ہوکر فوجی بننا ہے۔ پس فوج میں جاکر ٹریننگ حاصل کریں گے اور انڈیا سے جاکر لڑیں گے اور انڈیا کو تو ہم نے ناکوں چنے چبوانے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مسلمان بھائیوں پر ظلم کرتا ہےاور ہماری بابری مسجد اس نے گرائی ہے۔ہم نے اس ظلم کا بدلہ لینا ہے اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کو بچانا ہے ۔ انڈیا کی طرف مشن پر جانے کا شوق کم، بھوت زیادہ سوارہتا تھا۔جاسوسی ناول کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ لاتا۔ (جاسوسی) مشن پرجانا ہے یا فوج میں جاکر پائلٹ بننا ہے۔سنا تھا کہ پائلٹ اپنے جہازوں سے انڈیا پر بمباری کرتے ہیں ( ان دنوں صرف اپنی ہی آبادیوں پر بمباریوں کا رواج اتنا عام نہیں ہوا تھا یا پھر ہمیں معلوم نہیں تھا) اور دشمن کے طیارے مار گراتے ہیں ( گرے ہوئے جہاز کے دشمن پائلٹ واپس دینے کی روایت بھی ہمارے علم میں نہیں تھی )۔
کبھی پاکستان میں کوئی نیا میزائل بنتا تو سجدہ شکرادا کرتے ،تکبیر کے نعرے لگاتے،اور خوش ہوتےکہ آج پاکستان ترقی کرگیا ہے۔اس موقع پر ایک دلچسپ بات یاد آگئی۔جب الخالد اور ضرار ٹینک بنے، تو ہارون بھائیؒ نے مجھ سے کہا کہ الخالد ٹینک کا کامیاب تجربہ ہوا ہے ، اب پاکستان کی عسکری صلاحیت انڈیا سے بڑھ چکی ہے۔ دن بھی بچپن کے تھے سو بیٹھ کر اپنے اپنے عسکری تجزیے کرنے لگے ، یار کاش یہ فوج اس کو انڈیا پر چڑھادے اور کشمیر آزاد کروانے کے لیے اس کو لے جائے ۔ اپنی بچگانہ عقل کے مطابق اس کے استعمال کی ترتیبات بناتے بگاڑتے رہے۔ بچپن تھا، گزر گیا۔میران شاہ بازار کے جس مرکز میں ہم رہتے تھے اس کے بالکل سامنے ایک پاکستانی فوجی چیک پوسٹ نظر آتی تھی ، جس کو مجاہدین امین پکٹ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ امین پکٹ کی ٹاپ پر الخالد ٹینک کھڑا ہوا تھا۔ ایک دن ہارون بھائی میرےپاس آئے اور اس ٹینک کی جانب اشارہ کرکے کہا،جانتے ہو وہ کون سا ٹینک کھڑا ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ ہارون بھائی کہنے لگے ’یہ الخالد ٹینک ہے،جس کی تکمیل پر ہم نے خوشیاں منائی تھیں‘۔ اس پر ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بہت ہنسے۔ بعد میں انہی ٹینکوں کی تباہ کاریاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ میر علی کی جامع مسجد کی شہادت بندہ نے خود دیکھی جو کسی الخالد وضرار ٹینک کے گولے کا نشانہ بنی اور اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لےکر حاضر ہوگئی۔
جب ٹیلی ویژن پر فوجی پریڈ دکھائی جاتی تو یوں لگتا کہ ’وطن کے سجیلے جوانوں‘ کے ساتھ ساتھ ہم بھی پریڈکررہے ہیں۔ ملی نغمے ہمارے جذبے کو مزید مہمیز دیتے۔ ایک دن ہمارےعلاقے میں کوئی فوجی آیا۔ بھاگ کر اپنے گھر سے پانی کا جگ لے آئے ، یہ سوچ کر کہ وطن کی سرحدوں کا محافظ آیا ہے،پیاسا ہوگا ،وطن کی خدمت کرکے تھک گیا ہوگا۔ اس وقت ایسا لگتا تھا جیسے ہر پاکستانی فوجی انڈیا کی آنکھ میں کھٹکتا ہوا کانٹا ہے۔ہم سوچتے تھے کہ یہ فوج بنی ہی اس لیے ہے کہ ہندوستان کو تاراج کرکے ہمارا کشمیر واپس لے گی۔ ڈل جھیل میں تیرنے والی، برہنہ، سربریدہ بہنوں کی لاشوں کاہندو بنیے سے حساب لے گی ۔ بیٹوں کی جدائیوں میں تڑپتی کشمیری ماؤں کے لیے ابن قاسم کا لشکر بن جائے گی اور کوئی سپہ سالار معتصم باللہ کی طرح ابلق گھوڑے پر سوار ہوکر ان ظالموں سے ان کے ظلم کا حساب لینے پہنچ جائے گا……!مگر افسوس! اس فوج کے گھوڑے میلوں میں اور سپاہی و افسران سرکاری محفلوں میں انڈین گانوں پر لڈیاں ہی ڈالتے رہے۔خوابوں سے نکل کر جب تعبیر کی دنیا میں ہم آئے تو اس فوج کی حقیقت بھی آنکھوں کے سامنے کھلتی گئی ۔
بہرحال ہم نے تو جو بھی خواب دیکھے تھے ان کے پیچھے اسلام اور جذبۂ جہاد ہی کارفرما تھا۔ اس وقت فوجی ہی مجاہدین لگتے تھے اس لیے انہی کو نگاہوں میں بسا لیا۔ میری اس فوج سے نفرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لیے امید کی کرن، شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کرنا شروع کیا۔ مجھے اس وقت بہت شدید غصہ آیا جب اس نے ایک غیرت مند بلوچ مجاہد ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کیا، جس پر ایک امریکی جنرل نے یہ کہا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لیے اپنی ماں کو بھی حوالے کرسکتے ہیں۔ تب قوم کے ان ’سجیلے جوانوں‘ کی وجہ سے قوم کا سرشرم سے جھک گیا۔ امریکہ نے اس مرد ِمجاہد کو زہر کا انجکشن لگاکے شہید کردیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ میں نے دیکھا کہ پاکستانی فوج کی یونِٹیں الخالد وضرار ٹینک لےکر سوات وزیرستان سے بلوچستان تک چڑھائی کر رہی ہیں اور صلیبی جنگ میں صلیبیوں کے شانہ بشانہ مسلمان مجاہدین کے خلاف کھڑی ہیں۔ اپنے خوابوں میں بسنے والی فوج کو میں نے جاگتی آنکھوں سے جب بھی دیکھا تو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹتے، اپنی ہی آبادیاں اور بستیاں اجاڑتے ہوئے پایا۔ قوم کی بیٹیوں کی عصمتیں تو یہ کیا بچاتے ،الٹا اپنے گھر سے پاکیزہ عافیائیں کافروں کو اٹھا کے دے دیں۔ انڈیا سے جنگ تو دور کی بات، گرین بُک سے بطور دشمن انڈیا کا نام ہی نکال دیا۔ فوج تو اب بھی وہی ہے جس کی بیرکوں پر خوب صورت رنگو ں سے مزین عبارتیں ہیں ، فوجی گاڑیوں کے بونٹ پر شہر کے سب سے مہنگے پینٹر کے قلم سے لکھا ہوا کلمہ طیبہ چمک رہا ہے، جوان بھی وہی ہیں، چوڑے چکلے سینوں والے ۔ مگر اعمال کی کالک چہروں کی سیاہی میں کئی گنا اضافہ کرچکی ہے۔فوج تو وہی ہے ،فرق صرف اتنا ہے کہ کل ملکہ برطانیہ کا بازوئے شمشیر زن تھی اور آج امریکہ کی آلہ کار فرنٹ لائن اتحادی۔ کل اگر اس کے فوجیوں کی لاشیں تاج برطانیہ کے لیے گیلی پولی میں گرتی تھیں توآج اس کے سپاہی امریکہ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ کاکول تو آج بھی آباد ہے،بلکہ شاید پاس آؤٹ ہونے والے افسران کی تعداد بڑھ ہی چکی ہو ،مگر ان کا ہدف کشمیری و ہندی مسلمانوں کا دفاع نہیں بلکہ نشانہ بلوچستان و وزیرستان ہیں۔
آباءواجداد کسی بھی قوم کے لیےاور سپہ سالار کسی بھی فوج کے لیے فخر کی علامت ہوتے ہیں ۔ اگر قوم کے حصے میں صلاح الدین ایوبی جیسے سالار ہوں تو فتح میں بیت المقدس ہی ملا کرتا ہے، لیکن قیادت اگر یحیی خان اور جرنیل نیازی کے ہاتھ میں ہو تونوّے ہزار مسلح فوجی ہتھیار ہی ڈالتے ہیں۔
ہوسکتا ہے اس فوج کے اندر کچھ تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہوجنہوں نے میری طرح اس فوج کواسلام کی سپاہ سمجھتے ہوئے اپنے خوابوں کی دنیا آباد کی ہو۔ میرے اصل مخاطب وہی ہیں۔ میرا خواب تو چکنا چور ہوگیا اور میں اس پر شکر ادا کرتا ہوں اس رب کا جس نے بچپن کے معصوم خوابوں کی خوفناک زندہ تعبیر سے بچالیا ۔ سوچتا ہوں تو جھرجھری آجاتی ہے کہ کیا میں حزب اللہ کے بجائے حزب الشیطان کی صف میں،امام مہدی کے بجائے دجال کے لشکر میں کھڑے ہونے کا متحمل ہوسکتا تھا؟ جب پیشی ہوتی تو حوض کوثر پر اپنی جان سے زیادہ محبوب ہستی کو کیسے خون مسلم کا حساب دیتا؟ کیسے جواب دیتا؟
اگر آپ نے بھی ایسا کوئی خواب دیکھا ہے تو پلٹ آئیے! آپ کے خوابوں کی تعبیر کاکول میں نہیں ، غزوۂ ہند کے پر عزیمت لشکر میں ملے گی جو ہندو بنیے کے خلاف پھر سے اسلاف کی سنت زندہ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہواہے۔ منزل واضح ہے۔ ہمارے اصل ہیروز اویس جاکھرانی ،ذیشان رفیق،کیڈٹ عبدالودود، میجر عادل عبدالقدوس، کماندان الیاس کشمیری ہیں۔ کاکول سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد انہوں نے اس فوج کا اصل چہرہ دیکھا۔ بیج ان کے سینوں پر بھی سج چکے تھے، کیرئیر کی بلندی کو اگر وہ چھونا چاہتے تو منزل ان کے سامنے موجود تھی ، مگر وہ جان گئے کہ جس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی آنکھوں میں فوجی بننے کے خواب سجائے تھے ،وہ مقصد، اسلام کی بقا اور اس کا تحفظ اس پاکستانی فوج کا مطمح نظر نہیں۔ تبھی انہوں نے وہ رویہ اپنایا جو ان کے شایاں شایاں تھا ، اسلام کے ان ابطال نےاپنے عمل سے کفر اور کفر کے آلہ کاروں کو یہ پیغام دیا کہ یہ زمین بھی اسلام کی ہے اور یہاں پر نظام بھی اسلام کا ہوگا ۔ تاریخِ اسلام کی پیشانی پرآج بھی ان کے مجاہدانہ کارنامےثبت ہیں ،ان کاکردار و عمل اور پاکیزہ لہوآج بھی فوج کے اندر اسلام کادردرکھنے والےفوجیوں سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اگر تڑپ سچی ہے تو اللہ کے ہاتھ اپنی جان ومال کا سودا کرو اور بدلے میں اللہ کی رضا اور جنت کے قیمتی محلات پاؤ۔
٭٭٭٭٭