یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
سترہویں وجہ: اس راستے کو اپنانے والوں کی کمی
شریعت نے اکثریت (یعنی لوگوں کی کثرت) کے لیے کوئی عصمت اور تقدس اور امتیاز نہیں رکھا۔ بلکہ قرآن عظیم الشان میں اس کی اکثر مذمت ہی کی گئی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ مَا اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ (سورۃ یوسف: ۱۰۳)
’’اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ‘‘
وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ (سورۃ یوسف: ۱۰۶)
’’اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں۔ ‘‘
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ(سورۃ الانعام: ۱۱۶)
’’اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔‘‘
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ وَ اِنْ وَّجَدْنَا اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ (سورۃ الاعراف: ۱۰۲)
’’اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں (عہد کا نباہ) نہیں دیکھا۔ اور ان میں اکثروں کو (دیکھا تو) بدکار ہی دیکھا۔‘‘
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(سورۃ الاسراء: ۸۹)
’’اور ہم نے قرآن میں سب باتیں طرح طرح سے بیان کردی ہیں۔ مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا۔‘‘
وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِيْنَ(سورۃ الصافات:۷۱)
اور ان سے پیشتر بہت سے لوگ بھی گمراہ ہوگئے تھے۔
امام شوکانی فتح القدیر میں سورۃ الانعام کی مذکورہ بالا آیت ۱۱۶کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”(اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں)۔ اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو بتایا کہ اگر وہ زمین میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کی بات ماننے کی کوشش کریں گے تو یہ لوگ گمراہ کر دیں گے۔ کیونکہ حق تو صرف کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ ان میں سے وہ گروہ بھی ہے جو حق پر قائم رہے گا اسے کسی مخالفت کرنے والے گروہ کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ جیسے کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔“
مضبوط ہمت والے کو راستے میں ساتھ دینے والوں کی کمی سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ نجات پانے والوں کی کمی سے تشویش میں نہیں پڑتا۔ مخذلوں کی کثرت کی پروا نہیں کرتا۔ الٹا پھر جانے والوں کی مخالفت کا اسے غم نہیں ہوتا۔ اس کا دل کاہلی، بدفالی، آرام، سکون اور آسائش نہیں جانتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ
”خوشخبری ہے غرباء کے لیے۔“
کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أُنَاسٌ صَالِحُونَ فِي أُنَاسِ سُوءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ
”برے لوگوں کے جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ۔ جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔“(مسند احمد)
امام شاطبی اعتصام میں فرماتے ہیں:
”یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کے بارے میں سنت ہے کہ اہل حق اہل باطل کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَ مَا اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ(سورۃ يوسف:۱۰۳)
’اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ‘
وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ(سورۃ سبا:۱۳)
’اور میرے بندوں میں شکرگزار تھوڑے ہیں۔ ‘
تاکہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو جو مستقبل کی خبر دی تھی کہ اجنبیت دوبارہ لوٹے گی وہ پوری ہو۔ اجنبیت اپنوں کے کھو جانے سے یا ان کے کم ہو جانے سے ہوتی ہے۔ یہ تب ہو گا جب معروف منکر بن جائے اور منکر معروف۔ سنت بدعت بن جائے اور بدعت سنت۔“
ابن قیم نے زاد المعاد میں فرمایا:
جب منافقین اور بیمار دل والوں نے حزب اللہ کی قلت اور دشمنوں کی کثرت دیکھی تو انہیں گمان ہوا کہ غلبہ کثرت کو حاصل ہو گی۔ اور کہا:
مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِيْنُهُمْ(سورۃ الانفال: ۴۹)
’ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے ۔ ‘
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے بتایا کہ فتح ونصرت اللہ پر توکل سے حاصل ہوتی ہے کثرت عدد اور ساز و سامان سے نہیں۔ اور اللہ تعالی تو صاحب قوت ہے اسے کوئی غالب نہیں کر سکتا ۔ اور صاحب حکمت ہے اس کو کامیاب کرتا ہے جو کامیابی کا مستحق ہو اگرچہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی قوت اور حکمت نے اس پر توکل کرنے والے گروہ کی نصرت کو لازمی قرار دیا ہے۔‘‘
ابن قیم نے اپنی نونیہ میں بھی فرمایا [شعر]:
”رسول ﷺ کے فرمان کا بول بالا کرو اور انصار اور مددگاروں کی کمی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور کتاب کی نصرت کرنے والا ہے۔ اور اپنے بندے کو محفوظ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی کثرت سے نہ گھبراؤ کیونکہ یہ لوگ مکھیوں کی طرح پھوہڑوں کا ہجوم ہیں۔ کیا تم مکھیوں سے گھبراتے ہو۔“
ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابو شامہ نے ’الحوادث والبدع‘ کی کتاب میں کیا خوب لکھا ہے:
”جہاں جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم آیا ہے تو اس سے مراد حق اور حق کے پیروکاروں کے ساتھ رہنا ہے چاہے حق والے کم کیوں نہ ہوں اور ان کے مخالفین زیادہ کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ حق وہ ہے جس پر نبی ﷺ اور صحابہ کے دور والی اولین جماعت تھی۔ ان کے بعد اہل بدعت کی کثرت کا کوئی اعتبار نہیں۔“
ابن رجب نے فرمایا:
”راستے سے تمہارا دل اس لیے نہ گھبرانے پائے کہ اس پر چلنے والے کم ہیں۔“
ابو عمر اوزاعی نے فرمایا:
”تمہیں چاہیے کہ گزشتہ لوگوں کے نقش قدم پر چلو چاہے لوگ تم سے منہ موڑ لیں۔“
فضیل بن عیاض نے فرمایا:
”ہدایت کے راستے کو اپناؤ۔ اس پر چلنے والوں کی قلت سے تمہیں نقصان نہ ہو گا۔ اور خبردار گمراہی کے راستوں سے بچو۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والوں کی کثرت سے دھوکے میں نہ پڑ جانا۔“
شیخ محمد بن جمیل غازی شیخ ابن تیمیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”وہ محفلوں والے شخص نہ تھے کہ مدح و ستائش کی خطاب والقاب سے خوش ہوں۔ اور نہ انہیں پسند تھا کہ ان کے گرد پیروکار اور اتباع جمع ہوں۔ بلکہ وہ ایسے حق پرست تھے کہ جہاں حق ہوتا وہاں کے ہو جاتے۔ جس طرف حق انہیں موڑ دیتا مڑ جاتے۔ وہ سیدھے راستے پر چلنے والے تھے اور اس راہ پر چلنے والوں کی قلت سے گھبراتے نہ تھے۔ وہ ٹیڑھے راستوں سے دور ہو جاتے تھے۔ اور ہلاکت میں پڑنے والوں سے دھوکے میں نہ پڑتے تھے۔ وہ ویسے ہی تھے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ ’ملت والے ‘ ہیں’ریاست والے‘ نہیں ہیں۔“
استاد سید قطب فرماتے ہیں [شعر]:
”میرے بھائی آگے بڑھو۔ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔ تمہارے راستے کو خون نے رنگین کیا ہے۔ یہاں وہاں نہ دیکھنا۔ تمہاری نگاہ اتنی بلند ہو جتنا آسمان ۔“
بعض مجاہدین جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کے سامنے پہاڑوں کی چوٹیوں، گھاٹیوں اور وادیوں میں در بدر لوگوں کے چھوٹے سے ٹولے ہیں۔ تو اس کا دل راستے سے نا مانوس ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ کمزور پڑ جاتا ہے اور انحطاط کا شکار ہوتا ہے۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
مجاہد بھائی! اگر آپ ان معرکوں پر نظر دوڑائیں جو مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان ہوئے تو دیکھو گے کہ فریقین کبھی بھی برابر نہ تھے۔ اور میرا خیال ہے واللہ اعلم کہ قیامت تک برابر نہ ہوں گے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی اس میں کوئی حکمت ہے۔ تاکہ صفوں کو منافقین سے پاک کر دے۔ کیونکہ قلت اور کمزوری کے ساتھ جیت ویسی نہیں ہوتی جو کثرت اور قوت کے ساتھ ہو۔ اس لیے اللہ تعالی نے قلت کی تعریف کی ہے اور کثرت کی مذمت۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ(سورۃ البقرہ:۲۴۹)
’’جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسااوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ١ۙ وَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ(سورۃ التوبۃ: ۲۵)
’’خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود )اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے۔ ‘‘
اگر اس پر آپ غور کریں اور انسان کی کمزوری، اکثر بندوں کی کم صبری اور شہوتوں کا ان کے نفس پر غالب ہونے کا ادراک کر لیں تو پھر آپ کو ہلاکت میں پڑنے والوں کی کثرت پر حیرانی نہ ہوگی۔ حیرانی تو حقیقت میں ان پر ہے جو راستے پر چل کر بچ جاتے ہیں!
جیسا کہ بعض سلف نے فرمایا:
”تعجب اس پر نہیں ہے کہ جو ہلاک ہوا ہے کیسا ہوا۔ بلکہ تعجب تو اس پر ہے کہ جو بچا کیسے بچ نکلا۔“
آجری نے اجنبی کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا:
”تم اگر اسے خلوت میں دیکھو گے تو پاؤ گے کہ اس کا رونا درد بھرا ہے، آہیں لمبی ہیں، آنسو بہے جاتے ہیں۔ اگر تم اسے نہ جانتے ہو تو تم سمجھو گے کہ وہ مجنون ہے جس کا محبوب کھو گیا ہو ۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ بلکہ وہ اپنے دین پر ڈرنے والا ہے کہیں اسے نقصان نہ پہنچے۔ اگر اس کا دین ثابت رہے تو اسے دنیا کھو جانے کی پروا نہیں ہوتی۔ اس نے اپنا پورا سرمایہ اپنا دین قرار دیا ہے جس کے خسارے سے وہ ڈرتا ہے۔“
شیخ ابو محمد مقدسی امتاع النظر میں فرماتے ہیں:
”حق کی پیروی اور نصرت میں تذبذب اور ساتھ چھوڑ دینے سے بچیں۔ اس بنا پر کہ حق پر چلنے والے کم ہیں یا مخالفت کرنے والے اور ہمت پست کرنے والے بہت ہیں۔ جماعت تو ہے جو حق کے مطابق ہے چاہے اس میں صرف تم اکیلے ہو ۔ حق نہ ہی کثرت کی بنا پر جانا چاہتا ہے اور نہ افراد کی وجہ ہے۔ بلکہ حق کو جاننے سے افراد جانے جاتے ہیں۔اور یاد رکھو کہ ایسے نبی قیامت کے دن آئیں گے کہ ان کے ساتھ اتباع اور انصار میں سے صرف ایک یا دو مرد ہوں گے۔ اور ایسے نبی بھی ہوں گے جن کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہو گا۔ حالانکہ وہ نبی ہے!!
رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک اللہ کے حکم قائم کرنے والے گروہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ وَلَا مَنْ خَذَلَهُمْ
’ ان کی مخالفت کرنے والا اور ان کا ساتھ چھوڑنے والا ان کو کچھ ضرر نہ پہنچا سکے گا۔‘
تو آپ حق کی مخالفت کرنے والے یا ساتھ چھوڑنے والوں سے چاہے وہ زیادہ کیوں نہ ہوں اپنے آپ کو نقصان میں نہ ڈالو۔ اور یاد رکھو کہ آگ سب سے پہلے جن سے دہکائی جائے گی وہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ان میں وہ علماء بھی ہیں جنہوں نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ اخلاص کی شرط پوری نہ کی تھی۔ اس لیے ٹیڑھے عماموں کی کثرت سے تم راستے کے بارے میں دھوکے میں نہ پڑ جانا۔میری مراد سرکاری علماء ہیں جنہوں نے اپنے دین کو سلطان کو چند کھوٹے سکوں کے عوض بیچ ڈالا ہے۔ چنانچہ ایسے علماء نے ان حکمرانوں کی بیعت ، نصرت اور تائید کی۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کر دیا۔ اور لوگوں کے لیے دین کو خراب کر دیا۔ ایسے علماء کا کوئی اعتبار نہیں۔ اعتبار تو ان علماء کی ہے جو اپنے علم پر عمل کرنے والے ہیں۔ جو اہل کفر و طغیان سے براءت کرنے والے ہیں۔ یہ انبیاء کے وارث ہیں۔ پس ان کے راستے کو پکڑو چاہے وہ کم کیوں نہ ہوں۔جھاگ سے دھوکے میں نہ پڑ جانا۔ تعجب اس پر نہیں کہ جو ہلاک ہوا کیوں ہلاک ہوا۔ بلکہ جو بچا کیسے بچا۔“
٭٭٭٭٭