الطریق إلی التغییر
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
۲۰۱۰ء کے اواخر میں عالمِ عرب میں انقلابات کی لہر پھوٹی۔ پھر محض آٹھ دس ماہ کے اندر تیونس میں بن علی، مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں قذافی اور یمن میں علی عبد اللہ صالح کے تختے الٹ گئے۔ الجزائر و یمن میں جہادی تحریکات باقی عالمِ عرب کی نسبت مضبوط تھیں، ان کو اپنے علاقوں یا پڑوس (تیونس و مالی)میں مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یمن میں بہت سے علاقے مجاہدین کے قبضے میں نتیجتاً آئے اور بہت سے غنائم حاصل ہوئے، عوام کی کثیر تعداد نے نظامِ شریعت اور اس کے داعیوں، مجاہدینِ القاعدہ جو یمن کے ان علاقوں میں ’انصار الشریعۃ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں کی طرف رجوع کیا۔ کئی قصبوں اور شہروں میں شریعتِ مطہرہ کا عملی نفاذ ہوا۔تیونس و لیبیا میں بھی انصار الشریعۃ کے مجاہدین کا ظہور ہوا اور مصر کے صحرائے سیناء میں چند دہائیوں سے موجود مجاہدین بھی مضبوط ہوئے۔ سب سے بڑھ کر شام میں اہلِ دین کو دین پر عمل، دین کی دعوت دینے اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے کی آزادی و سہولت حاصل ہوئی۔
یہ تھے وہ حالات جن کے پیدا ہوتے ہی پاکستان میں بھی چند اہلِ دین نے عالمِ عرب کی طرز پر محنت کرنے کا ارادہ کیا۔عرب میں واقع ہونے والے انقلابات میں بظاہر ایک اہم سبب یا آلہ سوشل میڈیا بن کر سامنے ابھرا۔ مصر میں آنے والے انقلاب کو ’فیس بک ریولوشن‘ اور شام میں اٹھنے والی تحریک کو ’یوٹیوب اَپ رائزنگ‘ کہا گیا۔ اسی زمانے میں (ایک دو سال قبل)ایران میں بھی ایک تحریک اٹھی جسے بعض حلقوں میں ’Failed Twitter Revolution‘ کے نام سے یاد کیا گیا1۔
فلہٰذا سال ۲۰۱۱ء کے نصفِ اول میں القاعدہ کے مشائخ نے بھی بہارِ عرب، عرب انقلابات کی طرز پر پاکستان میں دعوتی مہمات شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس منصوبے کو الطریق إلی التغییر یعنی ’تبدیلی کا راستہ‘ کا نام دیا گیا۔ ان نئی دعوتی مہمات کی منصوبہ بندی نہایت کم وسائل کے ساتھ شروع کی گئی، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا رحم یہ ہوا کہ جس وقت اس منصوبے کا خیال مشائخِ القاعدہ کے ذہن میں آیا اور اس کام کو عملاً کیسے کیا جائے پر مشاورت آزاد قبائل کی سرزمین میں ہو رہی تھی تو اسی اثنا میں پاکستان کے شہری بندوبستی علاقوں سے اسی کام کے ایک ماہر ساتھی میران شاہ آئے۔ القاعدہ کے مشائخ کی فکری رہنمائی اور ان ساتھی (بھائی محمد عادل)کے عملی تجربات اور مشاہدات نے اس منصوبے کو نسبتاً سہل بنا دیا۔ اس منصوبے کی عمومی مسئولیت حضرت الاستاذ کے پاس تھی اور بنیادی طور پر فکری رہنمائی بھی وہی کرتے تھے اور ان سے اوپر شیخ ابو عبد الرحمٰن المغربی، فضیلۃ الشیخ ابو یحییٰ اللیبی اور فضیلۃ الشیخ ایمن الظواہری۔ اس خیال اور رہنمائی میں فضیلۃ الشیخ عطیۃ اللہ اللیبی بھی پوری طرح شریک تھے لیکن وہ اس کے باقاعدہ لانچ ہونے سے قبل ہی ۲۰۱۱ء کے نسفِ ثانی کے اوائل میں شہید ہو گئے۔ شیخ ایمن الظواہری کی اس رہنمائی اور استاذ سے تعلق کے متعلق نہایت مختصر گفتگو ’مع الأستاذ فاروق‘ ہی کی پہلے کی کسی نشست میں گزری ہے۔ استاذ کے تحت عملاً مسئولیت میرے مرشد ظہیر بھائی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تھی۔ ظہیر بھائی کے ساتھ ایک مجلسِ مشاورت بھی تھی، جسے کسی درجے میں بھائی محمد عادل کی اصطلاح میں تھنک ٹینک کہا جا سکتا ہے، ابتداءً یہ مجلسِ مشاورت اتنی باقاعدہ نہ تھی لیکن وقت کے ساتھ اس میں قدرے باقاعدگی بھی آ گئی۔ ظہیر بھائی نے مجھے بتایا کہ اس سلسلے میں ظہیر بھائی سرِ فہرست مجلہ نوائے افغان جہاد (نوائے غزوۂ ہند کا سابقہ نام)کے مؤسس مدیر اور بلند جہادی و دعوتی شخصیت حافظ طیب نواز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ کیا کرتے تھے اور ان کے علاوہ انجنیئر اسامہ سہیل اور مولانا محمد مثنّٰی حسّان سے، ساتھ ہی بھائی محمد عادل سے۔ البتہ انجنیئر اسامہ سہیل اور بھائی محمد عادل سے مشاورت مستقل بنیادوں پر خوب باقاعدگی سے ہوتی تھی۔
اس منصوبے کی حسنات میں کئی ساتھی شریک رہے۔ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً…… یہ منصوبہ ابھی تک ختم نہیں ہوا، بلکہ جاری ہے اگرچہ اس منصوبے کے براہِ راست وابستگان میں سے کئی شہید ہو چکے ہیں۔ شہیدوں میں شیخ استاذ احمد فاروق، حافظ طیب نواز، اسامہ ابراہیم غوری ، (کسی درجے میں اس منصوبے میں شامل) شیخ مصطفیٰ عبد الکریم (حسین یا مزمل بھائی، اصل نام رانا عمیر افضال تھا)، بھائی عمر دیبلی(جو منصوبے کے عملاً شروع ہوتے ہی یا شروع ہونے کے بعد ہی شہید ہو گئے)، ثاقب گیلانی وغیرہ شامل ہیں جو اپنے رب سے کیا وعدہ سچا کر گئے۔ کسی نے وزیرستان کے شوال میں امریکی ڈرون حملے میں اپنا لہو پیش کیا، کسی نے ملتان میں آئی ایس آئی کے بغل بچہ ادارے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا، کوئی زابل کے میزان میں اور ہلمند کے دیشو میں امریکی و مرتد افغانوں کے چھاپے میں رب کی لقا کو گیا، کوئی باب الاسلام کراچی کے ایک فلیٹ میں سندھ رینجرز کے چھاپے میں شہید ہوا اور کوئی پیر پنجال کے برف پوش پہاڑوں میں ہندو فوج سے لڑتا حور و قصور تک پہنچا۔ اس منصوبے کے وابستگان میں کئی آج فرنٹ لائن امریکی اتحادیوں کے زندانوں میں بند ہیں اور کئی آزاد محاذوں پر اسی دعوت کو پھر سے کھڑا کرنے کی محنت میں بقدرِ استطاعت کھپے ہوئے ہیں اور باذن اللہ منتظر ہیں کہ کب ان کی شہادت ان کے کٹے سروں کا تاج بنے گی۔
حق تو یہ ہے کہ اس منصوبے کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جائے، بلکہ اپنے مرشد ظہیر بھائی سے سنہ ۲۰۱۳ء کے اواخر میں راقم السطور نے کہا بھی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان تجربات کو قلم بند کر لوں، لیکن آج تک اس کا موقع میسر نہیں آیا۔ زیرِ نظر محفلِ استاذ کی اولین سطور میں بھی اس کا ذکر بس شروع ہی ہوا ہے۔ اللہ سے توفیق مانگتا ہوں کہ وہ اس منصوبے کے تجربے اور مشاہدے کو کسی اور تحریر میں قلم بند کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ فی الحال اس منصوبے کے جن عملی پہلوؤں سے استاذ کا تعلق رہا ان کو بقدرِ یادداشت یا ایک آدھ خط جو دستاویزی صورت میں میرے پاس موجود ہے سپردِ قرطاس کرتا ہوں، اللّٰھم وفقني!
حضرت الاستاذ، ایک نابغہ شخصیت تھے۔ داعی بھی، مجاہد بھی۔ عالم بھی، مقاتل بھی۔ خطیب بھی، ادیب بھی۔مربی بھی، مصلح بھی۔منصوبہ ساز بھی، اداری بھی۔ جانِ محفل بھی، سوز و غم بھی۔ استاذ اپنی بہت سی مصروفیات کے ساتھ جن کا کسی درجے میں ذکر راقم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس طرف بھی متوجہ رہتے تھے کہ الطریق إلی التغییر میں سرپرستی اور نگرانی کے علاوہ ان کا براہِ راست حصہ بھی ڈلتا رہے۔ سبحان اللہ! اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور دل و ذہن کی آنکھ سے ماضی میں جھانک کر استاذ کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے سراپا مصروفیت نظر آ رہے ہیں۔ اتنے کام اکٹھے کرتے رہنا خود ایک کرامت ہے، اللہ جلّ شانہٗ استاذ سے راضی ہو جائے۔
سوشل میڈیا پر کام کے حوالے سے جو فیصلے کیے گئے تو ان میں ایک یہ بھی تھا کہ مختلف ساتھی مختلف ناموں سے مختصر تحریرات یعنی بلاگز (blogs) لکھا کریں۔اسی ضمن میں ایک ہفتہ وار یا پندرہ روزہ بلاگ استاذ نے اپنے ذمے بھی لے لیا۔ اس بلاگ کا نام ساتھیوں نے مشاورت سے ’نا گفتنی‘ رکھا۔ اس خدشے سے کہ کہیں رابطے کے تعطل کے سبب تحریرات کی آمد و نشر میں تعطل واقع نہ ہو، استاذ نے شروع شروع میں اکٹھی چار پانچ تحریرات بھیج دیں۔ اس کے بعد ہر دفعہ رابطہ ہونے پر دو دو تحریرات بھجوا دیا کرتے تھے۔ استاذ کی تحریرات ’نا گفتنی‘ پر ’محمد سمیر راجپوت‘ اور ’شریعت یا شہادت‘ پر ’قاری محمد عثمان ‘ کے نام سے شائع ہوتی رہیں۔ ان بلاگوں کا سلسلہ قریباً ڈیڑھ سال جاری رہا اور غالباً استاذ کی کل درجن کے قریب تحریرات شائع ہو سکیں بعض تحریرات بعض تکنیکی اسباب سے ادارتی ٹیم کے فولڈر میں ہی جمع ہوئیں اور آج حوادثِ زمانہ کے سبب کسی کے پاس بھی موجود نہیں۔ استاذ نے ان تحریرات میں پاکستان میں قائم نظام کا فساد عقلی اعتبا ر سے اعداد و شمار اور حقائق کے ذریعے ثابت کیا۔ استاذ رحمہ اللہ کی انہی تحریرات میں سے بعض بعداً مجلہ نوائے غزوۂ ہند میں بھی موضوع کے اعتبار سے شائع ہوئی ہیں۔
استاذ ایک جہادی عالم تھے اور مقاتل جیش کے امیر بھی، فکر و منہج بیان کرنے والے بھی۔ لیکن ان تحریرات میں استاذ نے اپنا اسلوبِ قلم بالکل بدل لیا۔ استاذ کی ان تحریرات کو آج بھی کسی کو ان کے نام کے بنا دکھایا جائے تو پڑھنے والا یہ تسلیم نہ کرے کہ یہ تحریر لکھنے والے استاذ احمد فاروق ہیں۔
جہادی زندگی اور راقم السطور کو اپنے قلیل و ناقص مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوا کہ عصرِ حاضر کی جہادی زندگی، اس میں ادارتِ امور اور معمولات کی پابندی نہایت صعب ہے اور اللہ جل جلالہٗ کے فضل کے بعد اہلِ ہمت ہی کا کام ہے۔ یہاں عام زندگیوں میں دفاتر میں جس طرح نائن ٹو فائیو کا ٹائم ٹیبل ہوتا ہے اس طرح عمل نہیں ہو سکتا کہ زندگی حوادث کا نام ہے ، ایک سے ابھی نمٹ کر پوری طرح باہر نکلے نہ تھے کہ ایک اور حادثہ، کوئی سانحہ، کوئی غم سامنے کھڑا ہے۔ اس کا اکثر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پابندیٔ اوقات و معمولات مجاہدین کی زندگی میں ناپید ہو جاتی ہے جو خود ایک سانحہ ہے کہ بہر کیف مجاہدین اسی دنیائے اسباب میں جیتے ہیں اور دیگر انسانوں کی طرح ان کو بھی دن میں چوبیس گھنٹے اور ہفتے میں سات دن ہی عطا ہوئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے ایک صوفی و مربی عالمِ دین شیخ سلیمان مُولا فرماتے ہیں کہ ’صحابۂ کرام سے ان کا مال لینا آسان لیکن ان کا وقت لینا نہایت مشکل کام تھا‘۔ اسی طرح مجھے میرے مرشد ظہیر بھائی نے بتایا کہ فضیلۃ الشیخ عطیۃ اللہ اللیبی شہید نے وقت کی قدر کے حوالے سے ایک مجلس کے دوران نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پابندیٔ اوقات کے لیے باقاعدہ دفاتر (رجسٹر)مرتب کیا کرتے تھے۔ میں نے خود اپنے دو بزرگوں فاروق بھائی اور ظہیر بھائی کو دیکھا کہ وہ اس امر کی جانب متوجہ رہتے تھے۔ فاروق بھائی اپنا دن ایک نسبتاً ڈھیلے ڈھالے نظم میں گزارتے تھے، کام اور ان کے عمومی اوقات ان کی زندگی میں متعین تھے، اور اس کا ثبوت ان کی سراپا زندگی تھا اور ظہیر بھائی تو عموماً وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھتے تھے اور وقت کے بہتر استعمال کے حوالے سے ساتھیوں سے مشورہ بھی مستقل کرتے تھے۔ ہمارے شہید استاذ جو ایک ہی وقت میں اتنے کام کرتے تھے (جن میں سے کئی راقم جانتا بھی نہیں) تو اس کا سبب یہ ادارتِ اوقات و معمولات تھا۔ بہر حال اسی اصول میں استثناء ایک یہ بھی ہے کہ جہادی زندگی میں ساتھیوں اور افراد کی اہمیت کے بقدر جب جب موقع ملے تو ساتھیوں کو خوب خوب وقت بھی دیا جائے اور فاروق بھائی رحمہ اللہ اس پر بھی عامل تھے۔ اپنے انہی معمولات کی پابندی کے ساتھ استاد الطریق إلی التغییر کو وقت دے پاتے تھے۔
الطریق إلی التغییر کا ایک اہم حصہ ایک ’سینٹرل ریسورس پورٹل‘ کا قیام تھا، جس پر پاکستان میں تمام دعوتی موضوعات کے متعلق تحریری، صوتی و بصری مواد جمع کرنا تھا۔ اتنا مواد جب جمع کیا جائے تو نا محرم عورتوں کی تصاویر و ویڈیوز اور ساز کا کیا ہو؟ مجاہدین کے اعلام میں ویڈیو سازی یا پوسٹر سازی وغیرہ میں نامحرم عورتوں کی تصویروں کو دھندلا (blur) کر دیا جاتا ہے اور ساز کو یا تو بعض طریقوں سے ختم کر دیا جاتا ہے یا ساز والی ویڈیوز کو استعمال ہی نہیں کیا جاتا۔ لیکن جب ایک ’سینٹرل ریسورس پورٹل‘ بنانا ہو یعنی ’مواد حاصل کرنے کی مرکزی رسد گاہ‘ تو اس میں خواتین کی تصویروں اور ساز کے مسئلے کا حل، جوئے شیر لانے سے زیادہ گراں کام ہے۔ یوں تو یہ سینٹرل ریسورس پورٹل ایک عوامی اجتماع گاہ ہونا تھی یعنی اس کا ایڈریس پبلک ڈومین پر ہونا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کا ایڈریس مخصوص ساتھیوں ہی میں عام کرنے کا ارادہ تھا جو عموماً کسی درجے میں دینی وجہادی تربیت سے گزرے ہوئے ہوتے ہیں اور عورتوں کی تصویر دیکھنے اور ساز کے حوالے سے پہلے ہی محتاط ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی اس منصوبے کے لیے ایسی لگامیں اور حدود موجود نہیں تھیں جیسی کہ القاعدہ کے اندرونی اعلامی شعبوں میں قائم کی جاتی ہیں۔ فلہٰذا، مرشد رحمہ اللہ نے استاذ سے اس بارے میں رجوع کیا۔
الطریق إلی التغییر کے تحت انگریزی مطبوعات کا اجرا بھی ایک اہم منصوبہ تھا۔ انگریزی فعالیت میں ’The Regressor‘ کے نام سے ایک انگریزی مجلہ شروع کیا گیا، اس کے لیے کسی درجے میں ویڈیو سازی و پوسٹر سازی کی بھی ضرورت تھی۔
پھر اس سے بھی پہلے، بالکل اوائلِ سال ۲۰۱۲ء میں ’یقین‘ کے نام سے بھی ایک منصوبہ شروع کیا گیا، جس میں سرِ فہرست ویڈیو سازی اور پوسٹر سازی کا کام تھا اور اسی کی شاخ کہہ لیں یا برادر منصوبہ گمشدہ پاکستان کے نام سے بھی تھا جس کا عملاً نام ’مسنگ پاکستان‘ طے ہوا اور اسے انگریزی میں یوں لکھا جاتا’MISSIN? PAKISTAN ‘۔
ان مذکورہ منصوبوں میں ہدف یہ تھا کہ اپنی جہادی شناخت کو مخفی رکھا جائے کہ دشمن کے پروپیگنڈوں اور تبلیغات کے سبب عام لوگ واضح جہادی شناخت والی اصدارات (productions) کی طرف رجوع کرتے ہوئے جھجکتے اور گھبراتے ہیں۔ اس گھبراہٹ کا سبب اکثر دشمن کی جانب سے پکڑے جانے کا خوف نہیں ہوتا بلکہ دشمن کے پھیلائے شبہات ہوتے ہیں کہ یہ جہادی نہیں، دہشت گرد ہیں، فسادی، شدت پسند، قدامت پسند، روشنی کے دشمن، بنیاد پرست، وحشی وغیرہ۔ثانیاً واضح جہادی مواد کو دشمن کے ادارے جلدی کشف (detect) کر لیتے ہیں اور یوں منصوبے تادیر نہیں چل پاتے۔ اس لیے شناخت چھپانا اہم تھا۔ اس حوالے سے بھی سوال پیدا ہوا کہ آیا خواتین کی ایسی تصاویر جن میں خواتین کے چہروں اور ہاتھوں پیروں کے علاوہ باقی جسم مستور ہو کو بنا چھپائے نشر کیا جائے یا نہیں کہ بہت سے علماء اس کی اجازت دیتے ہیں(کہ بدقسمتی سے پوری امت میں مجاہدین کے علاوہ پہاڑ کے مقابلے میں رائی کے برابر بھی ایسے گروہ و افراد موجود نہیں جو خواتین کی تصویروں کو چھپانے کا اہتمام کرتے ہوں اور یوں یہ تصویروں کا چھپانا خود ایک نشانی ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے بھی ’دہشت گرد‘ کار فرما ہیں)۔ ہم اپنی ان ویڈیوز میں خود تو ساز نہیں ڈالیں گے لیکن وہ صوتی اثرات بھی نہیں ڈال سکتے جو مجاہدین عرف میں استعمال کرتے ہیں۔
یہ ساری باتیں استاذ کو لکھ کر بھیج دی گئیں اور چند ہفتوں (شاید آٹھ دس ہفتوں)بعد استاذ کی جانب سے جواب آ گیا۔ حضرت الاستاذ کا جواب خط و کتابت کا ایک مختصر مجموعہ تھا۔ ظہیر بھائی نے فاروق بھائی کو یہ سوالات بھی تفصیلاً بھیجے تھے اور ساتھ بھائی محمد عادل کی ترتیب کردہ رپورٹ ’پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال‘ بھی۔ بھائی محمد عادل (حفظہ اللہ من کل شر وسوء) نے یہ رپورٹ دراصل ۲۰۱۰ء میں مرتب کی تھی اور بعد میں مرشد ظہیر بھائی کی ہدایت پر اکتوبر ۲۰۱۱ء میں اس میں مزید اضافے کیے جس کا اہم تر باب ’پاکستان میں انٹرنیٹ کی تباہ کاریاں‘ کے عنوان تلے تھا۔ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کی یہ رپورٹ جو انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے مختلف حقائق پر مبنی ہے، اس قدر بھیانک ہے کہ اسے آج بھی نشرِ عام کے لیے پیش کرنا ایک صعب کام ہے (لیکن دشمنِ ازلی شیطانِ ملعون اور اس کے انسانی و جناتی چیلوں کی سازشوں کو باقاعدہ طشت از بام کرنے کا شاید تقاضہ یہی ہو کہ اس رپورٹ کو نشر کیا جائے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ آج امت کے علماء و صوفیہ اور اہلِ دین داعی حضرات اس مسئلے کا ادارک کرتے ہوئے اس مسئلے کے تدارک کی راہیں واضح کریں)۔ بہر حال، یہ سبھی مواد اور سوالات وغیرہ جو مجموعاً استفتاء بن گئے بھیجے گئے۔
حضرت الاستاذ نے ان چیزوں کا ترجمہ کر کے بیک وقت شیخ ابو یحییٰ کو بھی بھیجا اور شیخ ایمن الظواہری کو بھی۔ استاذ نے ظہیر بھائی کو جواب میں لکھا ’ پیارے بھیا!آپ نے جو شرعی سوالات پوچھے اور ساتھ جو انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں والی بھیانک فائل بھی بھیجی، اسے ترجمہ کر کے بزرگوں تک پہنچایا تھا۔ شیخ تو شہادت سے قبل جواب نہ لکھ سکے البتہ ان کی شہادت کے بعد صاحبِ صبح و قندیل حفظہ اللہ کا جواب آ گیا ہے ‘۔شیخ سے یہاں مراد شیخ ابو یحییٰ اور صاحبِ صبح و قندیل سے مراد شیخ ایمن ہیں۔ استاذ نے ترجمے کے ساتھ اپنی رائے بھی ان شیخین کو لکھ بھیجی تھی جس کو راقم اپنے الفاظ میں ذیل میں درج کرتا ہے۔
حضرت الاستاذ نے لکھا:
’’ جو سوالات اور صورتِ حال بھائی (ظہیر) نے انٹرنیٹ کے حوالے سے لکھی ہے اور جو سوشل میڈیا کے وسائل اخوان المسلمون اور لادین نوجوانوں نے عرب انقلابات کے دوران استعمال کیے ہیں تو اس سب کے متعلق میری رائے تو یہ ہے کہ یہ گناہوں کا ایک سمندر ہے۔ اور اس برائیوں اور گناہوں کے سمندر میں اپنے ساتھیوں کو کھلی چھوٹ دے دینے کے بعد میری نظر میں ان ساتھیوں کا سلامتیٔ (ایمان) کے ساتھ بچ جانا ناممکن ہے۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اس کام میں توسع اختیار نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں انٹرنیٹ پر جہادی ویب سائیٹس اور فورمز وغیرہ کے کام کو بڑھانا چاہیے اور انہی (جہادی فورمز اور ویب سائیٹس) کے ذریعے سے اپنی دعوت کے ابلاغ و توزیع میں مدد لینی چاہیے۔ میری یہ رائے اس لیے بھی ہے کہ بھائی (ظہیر) نے لکھا ہے کہ یہ کام تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب ساتھیوں کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ عورتوں کی تصویروں کو دیکھیں (اور اس میں فحش تصاویر بھی شامل ہیں) اور (ویڈیوز وغیرہ میں موجود )موسیقی بھی سنیں۔‘‘
کچھ آگے ہمارے تقی و نقی فقیہ استاذ (نحسبه كذلك) نےشیخ ( مشائخ) کے نام اپنے اس خط میں عجیب ایمانی کیفیت میں لکھا:
’’اے ہمارے محبوب شیخ!
ہمارے رب نے ہمیں صرف مقاصد کے حصول کا حکم نہیں دیا، بلکہ ان مقاصد تک پہنچنے کے وسائل بھی ہمارے لیے متعین کر دیے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس گمراہ منہج کے ساتھ ہمارے ساتھی بہت سے فوائد اور مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن جہادی تحریک احکامِ شریعت کی پابند ہے اور میری نظر میں شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، واللہ اعلم بالصواب۔
فلہٰذا، میری نظر میں، ہمیں ساتھیوں کو یہ توسع اختیار کرنے سے منع کرنا چاہیے اور انہیں تحریض دلانی چاہیے کہ وہ فقط درج ذیل وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنی دعوت کا ابلاغ کریں۔ ممکن ہے کہ اللہ تھوڑی مگر پاکیزہ محنت میں برکت عطا فرمائیں (اور وہ پھلے اور پھولے)، چاہے ہمیں ناپاک و خبیث چیزوں کی کثرت حیرت میں مبتلا کرے یا بظاہر اس میں خیر نظر آئے:
- اردو زبان میں پہلے سے موجود جہادی ویب سائیٹس، بلاگز اور فورمز کا معیاربڑھانا۔
- مزید جدید جہادی ویب سائیٹس، بلاگز اور فورمز کا اجرا۔
- نئی انقلابی (لیکن غیر جہادی)ویب سائیٹس، بلاگز اور فورمز کا اجرا جن پر نظام کے خلاف عقلی دلائل، حقائق و اعداد و شمار، عوام کی زندگیوں میں سے عام مثالیں جو عوام کی ذہنی سطح کے مطابق ہوں کا بیان کیا جائے۔
- ایسے (بصری، صوتی اور تحریری)دعوتی مواد کی تیاری اور نشر کا اہتمام جنہیں انٹرنیٹ پر پیش کیا جاسکے، لیکن یہ اصدارات موسیقی اور عورتوں کی تصاویر سے خالی ہوں۔
- ایک ایسی دعوتی یلغار جو نظام کے ظلم اور بطلان پر شرعاً و عقلاً استدلال کرے اور شریعتِ اسلامی کو متبادل نظام کے طور پر پیش کرے۔
- دعوت الی اللہ میں مشغول دیگر دینی تحریکات اور جماعتوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر تعاون و تعامل اور ان قوتوں کو اپنے ہدف کی جانب دعوت دینا اور لانا اور مشترکہ دعوتی کوششیں کرنا۔‘‘
حضرت الاستاذ نے مشائخ کو جو یہ ساری باتیں لکھیں اور اس سے قبل جو ظہیر بھائی نے استفتاء ان سے پوچھا تھا تو اس کے سبب الطریق إلی التغییرکا جو بنیادی منصوبہ طے ہوا تھا یعنی عالَمِ عربی کی طرز پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کوششیں ، تو وہ سب کا سب بدل گیا۔ اور اس بات کو استاذ نے خود بھی بیان کیا اور تاکیداً دوبارہ بھی لکھا کہ ہمیں اس (بیان کردہ)حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، نیز اس ’یقین‘ کا اظہار بھی کیا کہ اللہ ہمیں خیر عطا فرمائے گا اور ہماری اس قلیل اور پاک جد و جہد میں برکت ڈالے گا اور جو ہم دیگر وسائل میں توسع کو چھوڑ رہے ہیں اور قلیل وسائل ہی کو سببِ برکت جانتے ہیں تو اس کا سبب استاذ نے لکھا کہ ’ما نترک إلا خوفاً من سخط اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘ …… ہم ان وسائل و اسباب کو فقط اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے خوف اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔
ہمارے حالیہ موضوع سے متعلق حضرت الاستاذ کے مشائخ کے نام لکھے خط کی بات پوری ہوئی۔ اب جو جواب من جانب الأستاذ آیا تو اس کو من و عن (پروف کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ) ذیل میں درج کیا جاتا ہے، قوسین میں اضافے از جانب راقم ہیں:
’’پیارے بھیا!
شیخ (ایمن)نے یہ خط پڑھنے اور آپ کے سوالات پڑھنے کے بعد جواباً مختصر سا خط بھیج کر کہا ہے کہ وہ بندۂ فقیر کی رائے سے متفق ہیں، اوردعوت پھیلانے یا تبدیلی لانے کی خاطر ایسی وسعت اختیار کرنے کے حق میں نہیں۔نیز ہمارے شعبے کے (اس وقت مرکزی القاعدہ کے مسئولِ اعلام)مسؤول شیخ صاحب (ابو عبد الرحمٰن المغربی)سے بھی بالمشافہ اس موضوع پر بات ہو گئی تھی اور تفصیلی بحث بھی، ان کی رائے بھی تقریباً یہی تھی جو کہ میری رائے ہے لیکن وہ فیصلہ اپنے کندھے پر نہیں رکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے بات اوپر (شیخ ابو یحییٰ و شیخ ایمن کو)بھجوانے کا کہا۔ الحمدللہ اوپر سے بھی یہی جواب آ گیا اور ہمیں کسی مشتبہ چیز میں اترنے سے بچا لیا۔‘‘
اب چونکہ منصوبہ بدل گیا تو اس کے متعلق استاذ نے مزید لکھا:
’’ اب آتے ہیں آئندہ کے عملی اقدامات کی طرف۔ میں نے شیخ کے نام خط میں جو مجوزہ متبادل دائرۂ کار لکھا ہے ظاہر ہے وہ میری ناقص عقل کی پیداوار ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ گناہوں کی اس دلدل میں وسعت اختیار کرنے سے بچا جائے۔ یعنی عورتوں کی تصاویراور موسیقی کا استعمال، گندے مواد کو دیکھنے کی اجازت میں ایک عمومی وسعت لینا، خواتین کے پروفائل میں جھانکنا یا ان کی تصاویر دیکھنا…… ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے ۔ ان اقدامات سے گریز کرتے (ہوئے) ہم حکمت کے ساتھ جس حد تک اپنی دعوت کو پھیلا سکتے ہیں، پھیلانا چاہیے اور اس کے لیے نیٹ سے جس قدر فائدہ [جائز حدود میں رہ کر] اٹھانا ممکن ہے اٹھانا چاہیے۔ لیکن عملاً یہ ری ایڈجسٹڈ (readjusted) دائرہ کیا ہو گا؟ یہ آپ مجھ سے بہتر بتا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جو کام ہو سکتے ہیں ان کا ذکر میں نے عربی میں کر دیا ہے(جس کا ترجمہ نما پہلے کی سطور میں موجود ہے)، یعنی موجودہ جہادی سائیٹس و فورمز و بلاگز کو بہتر بنانا، مزید زیادہ ڈسپلنڈ (disciplined؍ منظم)قسم کی جہادی سائیٹس وغیرہ کھولنا،شرعی حدود میں رہتے رہتے جہادی چھاپ کو جس قدر چھپایا جا سکتا ہے چھپانا اور اس غیر جہادی چھاپ والے فورمز، بلاگز، آڈیو ویڈیو مواد کے ساتھ نظام پر نقد کرنا، شریعت کے نفاذ کے حق میں دعوتی مہم لانچ کرنا،وغیرہ۔
آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی بیٹھ کر سوچیے کہ اب نیا منصوبہ کیا ہو گا؟ اس شرعی چوکٹھے میں رہ کر وہ کیا آخری حد ہے جہاں تک ہم جا سکتے ہیں؟ اس کے لیے کیا افرادی ومادی وسائل درکار ہوں گے؟ نیز کیا ان حدود میں رہ کر میٹرو پراجیکٹ (الطریق إلی التغییرکا رمزی؍ کوڈ نام) کےاصل ہدف یعنی عوامی بہار لانا، اس کا حصول ممکن ہو سکے گا؟ …… میرے خیال میں شاید ایسا ممکن نہ ہو پائے، البتہ ہم یقیناً نیٹ کا استعمال اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے اس سے کہیں زیادہ کر سکتے ہیں جتنا ہم ابھی کر رہے ہیں…… اور شاید نتیجہ بس یہی نکلے کہ دعوت اگر ابھی پانچ فیصد لوگوں تک پہنچ رہی ہے تو وہ پندرہ بیس فیصد تک پہنچنے لگے…… لیکن یہ نتیجہ بھی اہم ہے۔ بہرحال، آپ کے جوابی خط اور نئے منصوبے کا انتظار ہو گا۔ ‘‘
حضرت الاستاذ کے اس خط جو دراصل فتویٰ ہے، کے بعد الطریق إلی التغییر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور کچھ منصوبے حوادثِ زمانہ کا شکار ہو گئے جن میں یقین، مسنگ پاکستان اور The Regressor شامل ہیں۔ البتہ اس فتوے کے بعد ’شریعت یا شہادت‘ نامی منصوبے کو پوری فعالیت سے شروع کیا گیا اور یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ اہلِ دین کے حلقہ جات میں فعالیت (activity) کے اعتبار سے یہ منصوبہ اردو انٹرنیٹ پر چھا گیا۔ ایک ایک پوسٹر کو دیکھنے والوں کی تعداد بعض دفعہ ڈیڑھ لاکھ افراد تک بھی پہنچی ، جبکہ کم از کم تعداد بیس ہزار اور اوسط تعداد پچاس ہزار ناظرین یا زائرین تک تقریباً چھ سال تک رہی (۲۰۱۲ء تا ۲۰۱۷ء) اور یہ منصوبہ دیگر بہت سے اہلِ دین کے لیے ایک اچھی مثال بنا۔ دشمن (سرِ فہرست آئی ایس آئی)کو بھی اس سے بغض پیدا ہوا اور اس کو چلانے والے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی کوششیں ہوئیں اور کسی درجے میں دشمن اس میں کامیاب بھی ہوا، بہر کیف جیسے ہر شئے کی عمر متعین ہے، یہ منصوبہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ ساتھ ہی انفرادی سطح پر بلاگز لکھنے بھی شروع کیے گئے اور باقاعدہ سات ساتھیوں کے بلاگ شروع کیے گئے جن میں استاذ کے بلاگ نا گفتنی ثم شریعت یاشہادت پر قاری محمد عثمان کا ذکر آ چکا، ثانیاً ظہیر بھائی نے ’انتہا‘ کے عنوان تلے ’رشید احمد‘ کے نام سے لکھنا شروع کیا،ثالثاً بھائی محمد عادل ، رابعاً بھائی محمد سعید حسن، خامساً بھائی ضرغام علی حبیب ، سادساً بھائی محمد شفاء اللہ اور سابعاً راقم السطور۔ پھر اس کاروان میں بہت سے اور ساتھی بھی شریک ہوئے جن کا تنظیم سے تعلق نہ تھا اور نہ ہی وہ یہ جانتے تھے کہ ہمارا تعلق تنظیم القاعدہ سے ہے ، ان کا ذکر یہاں انہیں خطرے میں ڈالنا ہے ، لہٰذا نہیں کیا جارہا، فجزاہم اللہ خیرا لجزاء في الدارین(حفظہم اللہ)، یہ بھائی الحمد للہ اب بھی انٹرنیٹ پر اچھی فعالیت رکھتے ہیں۔ سنٹرل ریسورس پورٹل کا منصوبہ کلیتاً بند کر دیا۔
اور اسی سب کے ذیل میں اردو زبان کی انٹرنیٹی دنیا میں ایسے انقلابی منصوبے بھی شروع کیے گئے جو اپنی شناخت میں غیر جہادی تھے۔ ان منصوبوں کا اثر (impact) اور رسوخ (outreach) لاکھوں کروڑوں تک پہنچا اور یہ منصوبے بعض مخصوص جہتوں میں انٹرنیٹ پر اردو زبان کے سب سے بڑے منصوبے بن گئے اور یہ منصوبے بحمد اللہ الواحد القہار اس قدر نمایاں و ممیز تھے کہ کوئی اور منصوبہ ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا (ان منصوبوں کی تفصیلات بھی سکیورٹی وجوہات کے سبب عام نہیں کی جا سکتیں)۔ بہر کیف، ہر عروج کو زوال ہے، كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ اور اللہ تعالیٰ عروج سے بھی آزماتا ہے اور زوال میں مبتلا کر کے بھی اور بتوفیق اللہ، ہم اپنے رب سے بہر حال و کیفیت راضی ہیں، وللہ الحمد و المنۃ!
حضرت الاستاذ نے مشائخ کے نام خط میں جن دیگر امور کی طرف توجہ دلائی تھی ان پر بحمد اللہ کام آج کامیابی سے جاری ہے اور ان کا ذکر مستقبل میں ذکر کرنے والے کریں گے، ہم رہے تو ہم اہلِ کفر کے دلوں میں ایک اور نیزہ کھبو کر اور اہلِ ایمان کو فتح کی خوش خبری سنا کر یہ ذکر کریں گے ورنہ ہمارے بعد آنے والے اور اگر اس دنیا میں اس سب کا ذکر نہ ہو سکا تو جناتِ عدن ان قصوں کا محل ہیں، برحمۃ اللہ!
حضرت الاستاذ کی ایک اور نصیحت اور حکم یعنی دیگر اہلِ دین کے ساتھ رابطہ اور تعاون تو اس پر بھی اپنی قلتِ سامانی اور غربت کے ساتھ ساتھیوں نے عمل کی کوشش کی۔ ٹھیٹھ دیوبندی حلقوں سے بھی رابطہ جڑا، تبلیغی جماعت سے وابستہ ساتھیوں سے بھی، اہلِ حدیث ساتھیوں سے بھی اور تنظیمِ اسلامی و جماعتِ اسلامی سے وابستہ ساتھیوں سے بھی، حتیٰ کہ بعض بریلوی حضرات سے بھی تعامل شروع ہوا۔ پروفیشنل دنیا میں بھی کئی لوگ جڑے ۔
الطریق إلی التغییرتا حال جاری ہے، ’ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہو گا‘ کے مصداق یہ جاری رہے گا اتمامِ نورِ لا الٰہ تک!
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 یہاں اس بات کی وضاحت شاید ضروری ہو کہ جن انقلابات کو سوشل میڈیا انقلابات کہا گیا وہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا کا کمال نہیں تھے، بلکہ سوشل میڈیا کا بھی مؤثر استعمال وہی لوگ کر سکے جو زمین پر مضبوط دعوت اور انتظام رکھتے تھے اور اس کی ایک مثال مصر میں الاخوان المسلمون ہے۔ بہر کیف سوشل میڈیا ایک نہایت طاقت ور آلے یا وسیلے کے طور پر سامنے آیا اور اگر سوشل میڈیا کو آج بھی پروپیگنڈہ ٹول اور جعلی ٹرینڈ سازی کے لیے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ اس کو معتدل آلے کے طور پر ہی رہنے دیا جائے تو یہ معاشرے کی اصل قوتوں کی نمائندگی کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔