محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’The Democracy Trap‘ کا اردو ترجمہ بطورِ مستعار مضمون پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)
تعارف
تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں ، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ نفس اور اعمالِ بد کے شر سے اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ جسے ہدایت دے دیں اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دیں، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
جمہوریت کیوں اسلام کے ساتھ میل نہیں کھاتی، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اور اب اس حقیقت میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جانا چاہیے کہ جمہوریت شرک کی ایک قسم ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا ایک حق (قانون سازی) انسانوں کو تفویض کر دیا جاتا ہے۔
یہ کتاب اختصار کے ساتھ ایسی متعدد وجوہات کا تذکرہ کرتی ہےکہ جن کی بنا پر اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اورپھر مزید ان نکات پر بھی روشنی ڈالتی ہے جن سے بعض مسلمان اُس ’’مصلحت‘‘ کی آڑ میں صرفِ نظر کر جاتے ہیں جسے وہ جمہوری نظام میں داخل ہوتے ہوئے وجہِ جواز بناتے ہیں۔
اس تحریر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ان بنیادی خرابیوں سے متعلق ہے جو جمہوریت میں بطورایک حکومتی نظام موجود ہیں، تاکہ اس کے اسلام کے ساتھ مکمل طور پر ناموافق ہونے اور غیر شرعی ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ چونکہ اس پر پہلے سے تفصیلی بحثیں موجود ہیں اس لیے یہ حصہ بنیادی طور پر ایک تنقیدی جائزے کے طور پر ہوگا۔ جبکہ دوسرا حصہ بعض لوگوں میں پائے جانے والے اس خیال کہ: ’’ بلاشبہ جمہوریت غیر اسلامی ہے، مگر اس کو اسلامی اہداف و عزائم پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ بحالتِ مجبوری اور مسلمانوں کے ضعف کےسبب اس کی اجازت ہے‘‘پر بحث و گفتگو کرتا ہے۔ مزید اس میں جمہوریت کے ان چند پہلوؤں، اس کے طریقۂ کار اور ان مضر اثرات کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جن سے اکثر مسلمان لاعلم ہو سکتے ہیں، جو یہ واضح کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ مجبوری میں جمہوریت کو اختیار کرنے کا جواز موجود ہے، تو بھی اس میں شمولیت کے نقصانات بالآخر اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ یوں یہ امر اس کو ناجائز بنا دیتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے تو بس یہی کافی ہے کہ وہ قرآن و سنت کو سمجھیں اور جس حد تک ممکن ہو، اس کے نفاذ کےلیے جدوجہد کریں۔ لیکن متعدد وجوہات کی بنا پرآج کئی مسلمان یہ سمجھتے ہوئے کہ اصل اسلامی تعلیمات آج کے جدید دور کے لیے ناقابل عمل اور غیرموزوں ہیں، قرآن و سنت کی اتباع سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دور جدید کا تو خاصہ ہی بدعنوانی ہے، سو اس کے موافق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اِن حقیقتوں کو واضح کر سکے گی اور اُن جھوٹی امیدوں کو بھی رفع کرے گی جو شیطان نے مسلمانوں کے سینوں میں بسا رکھی ہیں، تاکہ نہ صرف یہ کہ مسلمان اس جمہوری نظام کا حصہ بننے سے باز رہیں بلکہ ان کا یہ ایمان بھی مضبوط ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کا بہترین و کامل ترین راستہ ہے۔
جدیدیت تو بس ایک امتحان اور آزمائش کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ کا ہم سے وعدہ ہے کہ ہر وہ عمارت جس کی بنیاد باطل پرقائم ہو گی اس نے نیست و نابود ہو کر رہنا ہے۔یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ سود سے کمایا گیا مال ضائع ہو کر رہے گا۔ اگر ہم آج کے اس نیو ورلڈ آرڈر کے مقابلے پر نہ بھی نکلے ،تو بھی اللہ کے وعدے کے مطابق اس عمارت نے زمیں بوس ہو کر رہنا ہے۔
اللہ نے ہمیں کفار سے لڑنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ ہم اپنی کوششوں اور قوت سے انہیں شکست دیں……کہ بلاشبہ فتح تو اللہ کی طرف سے ہی آتی ہے نہ کہ ہماری قوت کے بل پر…… بلکہ اللہ نے ہمیں کفار اور ان کے مظالم کے خلاف لڑنے کا حکم ہمارے اپنے فائدے اورہمارے نفوس کی پاکیزگی کے لیے دیا ہے۔
کفر کے ساتھ مفاہمت یا سمجھوتہ کر کے اور اسے اپنا کر کبھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی، خواہ یہ مفاہمت جزوی ہو یا محض ظاہری۔ بلکہ ہمیں کامیابی صرف اسی صورت میں ملے گی جب ہم کفر کو مکمل طور پر ردکر کے، اس سے مکمل براءت کا اظہار کریں اور اسلام کو مکمل طور پر اپنا لیں۔
پہلا حصہ
اسلام
……فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ (سورۃ الغافر: ۱۲)
’’بس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے۔‘‘
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَآؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (سورۃ یوسف: ۴۰)
’’اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کرتے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالی ہی کے لیے ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
’حکم‘ جس کا ترجمہ بعض اوقات ’امر ‘اور ’فیصلہ‘ بھی کیا جاتا ہے، اس سے مراد قانون سازی یا فیصلہ سازی ہے۔ عربی زبان کے لفظ ’حکومۃ‘ کا ماخذ بھی یہی ہے۔ اللہ کے فیصلے ظاہری و غیبی ہر دو طرح کے معاملات میں سب سے برتر ہیں۔
احکامات کی تعمیل بھی عبادت ہی ہے۔
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (سورۃ الشوریٰ: ۲۱)
’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا۔ یقیناً (ان) ظالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘
اس آیت میں لفظ ’شَرَعُواْ‘، (یعنی قانون سازی) مذہب کے سیاق میں استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا اطلاق ہر طرح کی قانون سازی پر ہوتا ہےکیونکہ اسلام ایک طریقِ حیات ہے جس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ دینُ اللہ کی پیروی تو نہیں کرتےجو اللہ نے ان کے لیے نازل کیا ہے بلکہ جن و انس میں سےان کے شیاطین انہیں جو احکام دیتے ہیں، یہ ان کی اتباع کرتے ہیں۔ انہوں نے بعض چیزوں کو از خود (اپنے اوپر) حرام کر لیا جیسے بحیرہ، سائبہ، وسیلہ اور حام۔ اسی طرح انہوں نے اپنے لیے مردار جانوروں کا گوشت کھانا، جوا کھیلنا اور دیگر اقسام کی اختراعات،گمراہی اور جہالت کو اپنے لیے حلال کر لیا۔یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں انہوں نے جہالت میں از خود ایجاد کیا۔ حلال و حرام کے لیے ہر قسم کے باطل احکام گھڑے اور عبادات کے طریقے اور دیگر باطل تصورات تراشے۔‘‘
بغیر کسی واضح اور مستند الہامی علم کے حلال و حرام کے بارے میں احکامات وضع کرنا جاہلیت کی ایک صفت ہے ۔
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهاً وَاحِداً لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ التوبۃ: ۳۰)
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر ؒلکھتے ہیں:
’’عدی ، جو اپنی قوم(قبیلہ طے) کے سرداروں میں سے ایک تھے اور جن کے والد حاتم الطائی اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، مدینہ آئے۔جب لوگوں نے ان کی آمد کا اعلان کیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حال میں آئے کہ ان کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے‘۔
عدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا :’ وہ اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے‘۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
بلى انهم حرموا عليهم الحلال وأحلوا لهم الحرام فاتبعوهم فذلك عبادتهم اياه
’کیوں نہیں، وہ (علماء اور درویش) ان کے حلال کو حرام قرار دیتے اور حرام کو حلال ٹھہراتے، اور وہ (یہود و نصاری)ان کی اتباع کرتے تھے، یہی ان کی عبادت تھی‘۔‘‘
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً(سورۃ الاحزاب: ۳۶)
’’اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘
یہاں ایمان کو اللہ تعالی کے احکامات پر تسلیم و رضا کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔یہ ایمان کا جزو ہے کہ ہر قسم کے حالات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلوں کو حرف آخر مانا جائے۔ اس طرز عمل کا اطلاق ان فیصلوں پر بھی ہو جو سرے سے ہماری سمجھ سے ہی باہر ہوں۔
مثال کے طور پر جب حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے اسامہ بن زید ؓ کو اُس مہم پر روانہ کیا جس کا فیصلہ خود حضور ﷺ فرما چکے تھے۔حالانکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد متعدد عرب قبائل مرتد ہو کر باغی ہو گئے تھے۔ تو انہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض مسلمانوں نے رائے دی کہ فی الحال اس مہم کو مؤخر کر دیں، کیونکہ اس صورت میں مدینہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔
لیکن ابوبکر ؓ نے ان سب اعتراضات کو رد کرتے ہوئے آپ ﷺ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر زور دیا کیونکہ آپ ؓ کی نظر میں حضور ﷺ کا فیصلہ ہر رائے پر مقدم تھا، بے شک حالات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہو گئے ہوں۔ وقت نے آپ ؓ کے اس فیصلے کو صحیح ثابت کیا۔
حضرت علی ؓ کا یہ قول بھی اسی طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے جب انہوں نے فرمایا:
لو كان الدين بالراي لكان اسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه و قد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على ظاهر خفيه۔
’’اگر دین رائے اور قیاس پر مبنی ہوتا تو موزوں کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بہ نسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔‘‘
اگر اللہ سبحانہ وتعالی یا اس کے رسول ﷺ کسی بات کا حکم دے دیں تو ہم پر اس کی اطاعت لازم ہے، خواہ اس کی حکمت ہمیں سمجھ آئے یا نہیں۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے واضح احکامات کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دینا تو کفر ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيداً (سورۃ النساء: ۶۰)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعوی تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔‘‘
ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں:
’’آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے۔ یہ ان سب کی کی مذمت کرتی ہے جوفیصلہ کرتے ہوئے کتاب و سنت سےرجوع کرنے کے بجائے اپنی مرضی اور پسند کے کسی باطل فیصلے کو ترجیح دیں، اور یہاں پر ’طاغوت‘ سے یہی مراد ہے ۔‘‘
’طاغوت‘ کا ایک معنی وہ لوگ ہیں جواپنے فیصلوں کی بنیاد قرآن و سنت سے ہٹ کرکسی اور چیز کو بناتے ہیں۔ یہ آیت اس چیز پر مزید دلالت کرتی ہے کہ وحئ الہی کے مطابق اپنے فیصلے کرنا ایمان کا خاصہ ہے جبکہ اس سے منہ موڑنا کفر کا۔
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْماً لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (سورۃ المائدۃ:۵۰)
’’کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالی سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟‘‘
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس کی ابتدا یونان کی شرکیہ تہذیب سے ہوتی ہے، جس میں قوانین انسانی خواہشات کے مطابق مرتب کیے جاتے ہیں نہ کہ وحی الہی کےمطابق ۔ جمہوریت تو بلا شک و شبہ جاہلیت کے اندھیروں کی طرف واپسی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ (سورۃ الانعام:۱۱۶)
’’اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں وہ محض بےاصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کسی پختہ علم کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتی بلکہ وہ محض اپنے اندازوں اور قیاسوں کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں تو جہالت اور لاعلمی یہی ہے۔ عام عوام چونکہ کم علم ہوتے ہیں لہذا یہ لازم نہیں ہے کہ وہ فیصلہ سازی کے اہل ہوں۔ اسلام میں سیاست کے لیے تقوی اور راست بازی بھی مطلوب ہیں، جبکہ جمہوریت میں یہ حق صرف شہریت کی بنیاد پرہی دے دیا جاتا ہے، جس میں فاسق و فاجر دونوں کو ہی برابر حق دیا جاتا ہے۔
اس لیے یہ واضح ہونا چاہیے کہ جمہوریت شرک کی ایک قسم ہے، جہاں ایک ایسا حق جو اللہ تعالی کے لیے خاص ہے اور عبادت کا جزو ہے، وہ غیر اللہ کو سونپ دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی مجموعی خواہشات کو انتخابات کے ذریعے قانون سازی کے لیے ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اطاعت کی صورت میں ان کی عبادت کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ، صرف یہی نہیں کہ اللہ کا حق انسانوں کو سونپا جاتا ہے بلکہ جمہوریت جس طرز پر چلتی ہے، وہ بذات خود اس طریق حکومت سے متضاد ہے جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے۔
یہاں کچھ لوگ حکومت کے انتظامی اور قانونی شعبوں میں فرق کرتے ہیں، اور قانون سازی کے لیے رائے شماری کو تو شرک مانتے ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر معاملات جیسے صدر وغیرہ کے انتخاب کے لیے اس کو ٹھیک مانتے ہیں۔ جبکہ یہ درست نہیں ہے، کیونکہ یہ صدر یا حکومت کا انتظامی شعبہ ہی ہوتا جن کے ذمے مقنّنہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کو نافذ کرنا ہوتا ہے، اور اکثر جمہوریتوں میں تو انتظامیہ مقنّنہ کی طرف سے قانونی طور پر اس بات کی بھی پابند ہوتی ہے کہ وہ دستورکی پاسداری کریں۔
بعض اوقات تو صدر کے پاس ’ویٹو‘ کا اختیار بھی ہوتا ہے، جس سے وہ مقنّنہ کی طرف سے منظور شدہ کسی بھی قانون کو نافذ العمل ہونے سے روک سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون سازی کا کچھ نہ کچھ اختیار اب بھی صدر یا سربراہ حکومت کے پاس موجود ہے۔ مثال کے طور پر اگر قانون ساز ادارہ کسی ایسے قانون کو منظور کرتا ہے جو عین شرعی ہو، جیسے شراب پر پابندی کا، تو صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ ہونے سے روک دے۔
اسلامی نظام میں کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے نازل کردہ کسی قانون کو بدل سکے، کیونکہ یہاں حکومت اللہ تعالی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوتی ہے۔ یہی اسلام ہے۔حتی کہ اگر کوئی جمہوری پارلیمنٹ اور صدر یا وزیر اعظم کسی ملک کے تمام قوانین کو شریعت کے تابع کر دیں، تب بھی وہ شرک ہی رہے گا۔ کیونکہ اس صورت میں شریعت کی پاسداری اس لیے کی جائے گی کہ وہ حکومت کا فیصلہ ہے، نہ کہ اس لیے کہ وہ اللہ کا قانون ہے۔
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
اسلام کے بعض علمائے کرام کا قول ہے کہ:
ما بنیی علی باطل فھو باطل
’’جس چیز کی بنیاد باطل ہو، وہ خود بھی باطل ہے۔‘‘
جس کا آغاز صحیح منہج پر نہ ہوا ہو، اس کا انجام بھی صحیح طریق پر نہیں ہو سکتا اور کسی بھی منہج کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ اس کا کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے مطابقت رکھنا ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ ’يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ‘ وَقَالَ ’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ‘ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ.‘‘(صحیح مسلم:۱۰۱۵)
’’اے لو گو! اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک (مال) کے سوا ( کوئی مال) قبول نہیں کرتا اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’اے پیغمبرانِ کرام! پا ک چیزیں کھاؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں‘ اور فرمایا: ’’اے مومنو! جو پا ک رزق ہم نے تمہیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ‘‘۔ پھر آپﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیاجو طویل سفر کرتا ہے ، اس کےبال پرا گندہ اور جسم غبار آلود ہے ۔دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلاتا ہے (اور کہتا ہے)اے میرے رب !اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے اس کا پینا حرا م کا ہے، اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کیونکر قبول ہو گی؟‘‘
اسلام میں عملِ حکومت بھی مراسم عبودیت میں شامل ہے۔ عبادات خلوص و پاکیزگی کی متقاضی ہوتی ہیں۔ عبادت کا ایک ایسا عمل جس میں کسی بھی اعتبار سے حرام عناصر کی آمیزش ہو، اللہ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگا۔
عالم اسلام کے عظیم عالم عبداللہ بن مبارک ؒ ایک مرتبہ جہاد کی عظیم عبادت کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ راستے میں ایک چشمے کے کنارے آپؒ نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑھ کر گھوڑا اس کے ساتھ باندھا اور وضو و نماز کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ آپ کا گھوڑا کسی کی کھیتی میں منہ مار رہا تھا۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، ’’یہ اس میں سے کھا چکا ہے جو اس کے لیے حلال نہ تھی، لہذا اب اسے جنگوں میں استعمال کرنا مناسب نہیں ‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ گھوڑا کھیتی کے مالک کے حوالے کیا اور اپنے لیے ایک نیا گھوڑا خرید کر سفر پر روانہ ہوئے۔
سورۃ الکافرون کی تفسیر یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالی نے پوری ایک سورۃ اس مضمون پر نازل کردی جب قریش نے نبی ﷺ کو طاقت و اختیار میں شراکت کی پیشکش کی۔ انہوں نےکہا کہ وہ نصف وقت صرف اللہ کی عبادت کیاکریں گے اور باقی وقت اپنے بتوں کی، اور اس کے ساتھ نبیﷺ کو سیاسی قوّت و اقتدار کا مقام و عہدہ عطا کریں گے۔
یقیناً آپ ﷺ اس عہدے کا اسلام کی ترویج کے لیے بہترین استعمال کر سکتے تھے، مگر آپ ﷺ نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب مسلمان معاشی بائیکاٹ اور جسمانی تشدد سمیت مختلف مصائب میں گھرے ہوئے تھے، اور یہ پیشکش قبول کر کے آپﷺ ان کی خلاصی کروا سکتے تھے۔
اس سب کے باوجود آپ ﷺ نے انکار کیا کیونکہ اللہ کو بندگی میں پاکیزگی و اخلاص مطلوب ہے جو کہ نجاست و غلاظت سے علیحدہ ہونے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ اسی میں شامل ہو جانے سے ۔ آپﷺ نے مزید فرمایا:
الإسلام يعلو ولا يعلى عليه (البیہقیـ ۵/۱۰۶۔۱۰۸)
’’اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے، مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔‘‘
جب آپ ﷺ نفاذ و غلبۂ اسلام کے کام کے لیے اٹھے، تو آپ ﷺ نے اس کام کے لیے ایسے ساتھیوں کو تلاش کیا جو ہر حال میں اسلام کا غیر مشروط ساتھ دیتے۔ آپ ﷺ کو بنو بکر بن وائل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کی حمایت قبول کرنے کا موقع و اختیار بھی حاصل تھا، مگر ان دونوں قبائل نے اپنی حمایت و نصرت کو فارسیوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے سے مشروط کررکھا تھا۔
رسول اللہﷺ نے نصرت کی یہ پیشکشیں قبول نہیں کیں باوجود اس کے کہ اس وقت آپﷺ انتہائی مشکلات و مصائب کا سامنا کر رہے تھے ۔ حالانکہ یہ ایک بہترین موقع تھا کہ آپ ﷺ معمولی مفاہمت کے بدلے مسلمانوں کو مشکلات اور تنگ دستیوں سے نجات دلاسکتے تھے۔ مگر آپﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ انتظار فرمایا، یہاں تک کہ انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی طرف سےمکمل طور پر غیر مشروط اعانت کی پیشکش نہ آگئی۔
لہٰذا یہ پوری منطق اور یہ استدلال ہی سنت سے متصادم ہے کہ جمہوریت کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی مقاصد و اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی جائے، کیونکہ یہ ایک ایسی کوشش ہے کہ جس میں آپ ایک ایسی غیر اسلامی قوت کے تابع رہتے ہوئے خدمتِ اسلام سر انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو خود مقام و مرتبے کے اعتبار سے اسلام سے بلندتر ہے۔جب آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم مل گیا تو آپﷺ نے ہجرت فرمائی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے اصول و قوانین کا نزول شروع ہوا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم روزِ آخر تک ان قوانین کے نفاذ کی مقدور بھر کوشش جاری رکھیں اور ہجرت کا حکم بھی اُس وقت تک زندہ رہے گا ۔
اس ہجرت سے مراد دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف منتقلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ ایک ایسے خطۂ زمین کی طرف منتقل ہونا جہاں اسلام سے بالا کوئی قوت نہ ہو، اور جہاں اسلام کسی بھی دوسری قوت کے تابع نہ ہو۔ بے شک اگر کسی ملک میں اسلام انسانی حاکمیت کے تابع ہو تو اس نظام حکومت کو کسی بھی صورت میں اسلامی نہیں کہا جائے گا۔
یہاں پیشِ نظر اسلام کا نفاذ اور اس کی توسیع ہے، اور ہجرت اسلام کو قوت فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش مکہ مسلمانوں کی ہجرت کی راہ میں رکاوٹ بنتے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کفار مسلمانوں کو ان علاقوں کی طرف ہجرت سے روکتے ہیں جہاں اسلام کا غلبہ ہو۔
کامیابی اتباعِ سنت ہی سے حاصل ہو گی، کیونکہ یہ راستہ نبی آخر زماں ﷺ کا راستہ ہے۔ جو کوئی بھی اس کے علاوہ کسی راستے کا انتخاب کرے گا تو یہ راستہ اس کو ایسی منزل کی طرف لے جائے گا جو نبی ﷺ کی منزل نہ ہو گی۔
عقیدہ
یونانی اور دیگر کئی مشرکانہ دیو مالائی داستانیں خدا کی ذات کا ایسا تصور پیش کرتی ہیں کہ گویا معاذ اللہ خدا کے انسانوں کے ساتھ تعلقات ہوں اور اس سے اولادیں بھی ہوں۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کو باقی انسانوں سے زیادہ مقدس تسلیم کر لیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں انسانوں کوقانون و شریعت کا منبع و ماخذ سمجھ کر ان کی طرف رجوع کرنے کی نظریاتی داغ بیل پڑتی ہے۔
عیسائیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کو ہی خدا قرار دےکر عبد اور الٰہ کے تصور کو خلط ملط کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک دفعہ اس نظریے کو اپنا لے کہ کوئی انسان ہی خدا بھی ہے، تو پھر یہ اس کے لیے انسانوں کی بندگی کرنے کو بہت آسان کر دیتا ہے، اور اس بندگی میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ تسلیم کر لیتا ہے قانون و شرع وضع کرنے کا حق محض اللہ کا نہیں، بلکہ کسی انسان کو بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
نظریاتی سطح پر دیکھا جائے تو جمہوریت کی بنیاد شہریت کے اصول پر ہے۔ حقیقی یونانی جمہوریت میں صرف ریاست کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہوتا تھا کہ وہ سیاست میں حصہ لے سکیں، اور ایک غیر ملکی کبھی بھی شہریت حاصل نہیں کر سکتا تھا، اس بات سے قطع نظر کہ وہ یا اس کا خاندان کتنے ہی عرصے سے یونان میں کیوں نہ آباد ہو۔
آج کل کے دور میں بھی شہریت کے تصور کو جائے پیدائش یا نسلی خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مشرک کو بھی کم و بیش اتنے ہی حقوق حاصل ہوں گے جتنے کسی مسلمان کو ہیں، اور تقوی اور راست بازی کسی کے سیاسی شمولیت کے حق پر اثرانداز نہیں ہو سکتی سوائے ہر ملک کے(قابلِ ترمیم ) دستور و قانون کے مطابق بعض استثنائی صورتوں میں۔
یہ اس نقطۂ نظر کا قدرتی نتیجہ ہے کہ جو اس سوچ کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ بعض انسان طبعی و فطری طور پر دیگر سے زیادہ افضل و مقدس ہیں ۔ یہاں (یعنی تصورِ جمہوریت میں) یہ باور کرایا جا تا ہے کہ شہریوں کو غیرشہریوں پر قدرتی برتری حاصل ہے، اور اس برتری کا سبب ان کا خاندان اور وطن ہے (یعنی ان کا علاقائی یا مقامی ہونا)، نہ کہ مذہب ۔ اس کے برعکس اسلام اس چیز پر زور دیتا ہے کہ تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ کہ ہم سب اللہ سبحانہ وتعالی ہی کےیکساں طور پر غلام ہیں۔
مذہب اور کردار کے بجائے حسب نسب اور قوم و نسل کی بنیاد پر ایک مخصوص گروہ کو برتر تصور کرنا اسلام سے پہلے کے تاریک دور جاہلیت کی ایک اہم صفت رہی ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ عِنْدَ أُبَيٍّ رَجُلاً تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعَضَّهُ أُبَيٌّ وَلَمْ يُكْنِهِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، قَالَ: كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمُوهُ؟ فَقَالَ: إِنِّي لاَ أَهَابُ فِي هَذَا أَحَدًا أَبَدًا، إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَنْ تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ وَلا تَكْنُوهُ۔(ادب المفرد۔باب ۴۳۶)
’’جناب عتی بن ضمرہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی رضی للہ تعالی عنہ کے پاس ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے آپ کو جاہلیت کی طرف منسوب کر رہا تھا، سیدنا ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے صاف گالی دی اور کنایہ نہ کیا، لوگ ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے فرمایا: گویا کہ تم میری بات کو نامناسب سمجھ رہے ہو؟ پھر فرمایا: میں اس بارے میں کبھی کسی سے نہ ڈروں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص جاہلیت کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے اسے گالی دو اور کنایہ اختیار نہ کرو۔‘‘
’جاہلیت کی طرف منسوب کرنا‘ یا تَعَزَّى بِعَزَاءِ ، سے یہاں مراد تکبر سے اپنے نسب پر فخر کرنا ہے۔یہ جاہلیت کا جزو لاینفک ہے، جدھر لوگ اپنے نسب کی بنیاد پر خود کو دوسروں پر افضل سمجھیں۔
تاریخ
مغربی تہذیب کی جڑیں رومی اور یونانی تہذیب میں گڑی ہیں، اور وہ اس چیز کو فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ یورپی مؤرخین مذہبِ عیسائیت کے زوال کو ’’روشن خیالی‘‘ کا نام دیتے ہیں اور مذہب و اخلاقیات کے ترک کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسی ترکِ عیسائیت کا ایک حصہ جمہوریت کا احیاتھا۔
وہ جس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ کہ جس پر لوگوں کی خواہشات کی حکمرانی ہو وہ لامحالہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لوگ تو اپنے پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشوں کے مطابق ووٹ دیتے ہیں، اور ہر اس شخص کو منتخب کر تے ہیں جو انہیں روٹی اور تفریح فراہم کرے۔ زوال پذیر اور فضول خرچ معاشرے عوام الناس کی کبھی نہ پوری ہونے والی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں دستیاب وسائل نہایت تیزی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ بالآخر ایسی آبادیاں پُر تعیش اور مسرفانہ طرزِ زندگی کے باعث کمزور ہوجاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وسائل کی دستیابی بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔جس کا نتیجہ معاشرے کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
پہلی بڑی جمہوریت جمہوریۂ روم تھی۔ سیکڑوں سالوں کے اسراف و ضیاع پر مبنی طرزِ زندگی کا یہ نمونہ آخرکار تنزل کا شکار ہوا اور یورپ میں مزید قابلِ عمل نہ رہا۔ سماجی اور ماحولیاتی تنزل کے اس عرصے میں جمہوریت مزید قابلِ عمل نہ رہی اور اسی لیے ترک کر دی گئی۔ یورپ میں جمہوریت صرف تب ہی دوبارہ قابل عمل بن پائی جب یورپیوں نے یورپ سے باہر مختلف علاقوں پر قبضے کر انہیں اپنی نوآبادیاں بنانا شروع کیا جس سے ان کے وسائل میں اضافہ ہوا۔ اب البتہ پھر سے وہی مسرفانہ طرز زندگی جو کبھی قدیم رومی سلطنت کا خاصہ ہوا کرتی تھی، پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہے۔ کیونکہ آج انسانیت کی اکثریت رومیوں کے جانشینوں کے زیر اثر ہے۔
جمہوریت اب یورپیوں کے نسلی برتری کے دعوؤں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ شروع میں دیگر دنیا پر قبضے کرتے ہوئے یورپی اپنے مذہبِ عیسائیت کو اخلاقی جواز کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے، مگر جب انہوں نے عیسائیت کو ترک کر دیا تو پھر باقی دنیا پر قابض ہونے کے لیے نئے جواز گھڑے جس میں سائنس، عورتوں کے حقوق، اور جمہوریت بھی شامل تھے۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی برتر نظام ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایک برتر نسل مانے جائیں گے کیونکہ جمہوریت انہی کی تہذیبی روایات کی کوکھ سے نکلی ہے۔
یہ ہر اس ملک پر حملہ کر کےاپنے اس فریب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں جو جمہوری و لبرل اصولوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو، اور ہر اس ملک کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں جو ان کی پیروی کرتا ہو۔ پھر وہ جمہوریت کے برتر ہونے کے ثبوت کے طور پر ان ممالک کی سماجی اور معاشی ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہوں نے اس کو اپنایا اور اس سب کے نتیجے میں پھر اپنی تہذیب کی برتری ثابت کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وہ جمہوری برتری کے اس فریب کو تقویت دینے کے لیے اس طاقت کا استعمال کرتے ہیں جو انہوں نے خود غیر جمہوری طریقوں سے حاصل کی ہوتی ہے۔
جب دوسری اقوام ان کے سیاسی ادارے، لباس، فنِ تعمیر، اور جمہوریت کے اصولوں کی پیروی کرتی ہیں تو اس سے ان کے مقام و مرتبےکو تقویت ملتی ہے اور ایک قائد یا راہنما کے طور پردنیا میں ان کے مقام کی توثیق ہوتی ہے۔ یہ چیز پھر یورپ کی نسلی اور سماجی برتری جیسے افسانوی خیالات کی تائید کرتی ہے جو کہ دراصل یونانیوں ہی کے اس عقیدے کا تسلسل ہیں جس کے مطابق وہ تمام غیر یونانیوں سے افضل ہیں، اور ان کی اس برتری و فضیلت کا ایک سبب جمہوریت ہے۔
ظاہر ہے اس کی حقیقت ایک افسانوی خیال سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ یونان کی جمہوریت ایک بہت بڑے طبقۂ غلاماں کے کندھوں پر کھڑی تھی۔اور آج کی جدید لبرل ریاستوں کو بھی اپنا سیاسی نظام چلانے کے لیے اسی طرح ایک بڑی تعداد میں ایسی ظالم و جابر ریاستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان پر انحصار کرتی ہوں۔ ان کو ایسے ممالک سے سستے داموں وسائل درکار ہوتے ہیں جہاں مزدوروں کے کوئی حقوق نہ ہوں، جہاں کاریگروں کی اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والی تحریکوں کو بدترین تشدد اور مظالم کے ذریعے کچلا جا سکے، بالکل اسی طرح جس طرح قدیم یونانی جمہوریت میں غلاموں کو محض اپنی خواہش اور مرضی پر مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔
جب مسلمان جمہوریت میں حصہ لینے کے نقصانات و فوائد کا موازنہ کرتے ہیں تو وہ عموماً اس کے اس نقصان پرغور نہیں کرتے کہ جب وہ جمہوریت میں حصہ لیتے ہیں تو وہ اس سے یورپی و یونانی تہذیبی برتری کے سیاسی بیانیے کو تقویت پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ایک یورپی مصنف کا قول ہے کہ ’’ تقلید چاپلوسی کی اعلی ترین شکل ہے ‘‘۔ یعنی کسی کی پیروی کرنا درحقیقت یہ ہی کہنے کا ایک انداز ہے کہ ان کا طریقہ ہی صحیح یا اچھا ہے، اور اس چیز سے ان کی شان و شوکت اورطاقت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
استحکام
اہم فیصلوں پر دانا و نادان ، نیکو کار و بد کار، ہر دو طرح کے لوگوں کو مشورہ و رائے اور اپنا حصّہ ڈالنے کی اجازت دینا بالآخرسنگین ماحولیاتی نتائج ظاہر کرے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اس کے انجام پر غور نہیں کرتے کہ اگلے دس بیس سالوں میں اس فیصلے سے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔ طویل المدتی نتائج سے قطع نظروہ صرف فوری حاصل ہونے والی راحت و سکون چاہتے ہیں۔
لہذا اس چیز کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ ایسے سیاسی نمائندوں کو ووٹ دیے جاتے ہیں جو بدلے میں پیسہ فراہم کریں، قطع نظر اس بات کے کہ یہ پیسہ کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔ جمہوریت میں سیاست دان اس دباؤ میں رہتے ہیں کہ لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کا سامان کریں، جس کے نتیجے میں ان کی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں صرف اگلے انتخابات ، جو عموماً چند سالوں کی مدت میں دوبارہ آ جاتے ہیں، میں کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہیں۔
یہ سیاسی نظام انہی سیاست دانوں کو نوازتا ہے جو ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں جو وقتاً تو فوائد دے دیں لیکن مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوں۔ اس کا اطلاق نہ صرف جمہوریت بلکہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو لبرل ازم پر بھی ہوتا ہے۔جس کی بنیادی اساس ہی یہ ہے کہ حکومت کا مقصد صرف عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔
اس نظام نے یورپ میں جاگیرداری نظام کی جگہ لی۔ جس میں یہ مانا جاتا تھا کہ پادری و اشرافیہ معاشرے کی رہنمائی اور حکومت کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ یہ بڑا اہم فرق ہے کیونکہ اگر معاشرہ اس بنیاد پر قائم ہو کہ زندگی کا مقصد بندگی ہے، تو حکومت کے کہنے پر لوگ ایک بڑی بھلائی کی خاطر تکالیف جھیلنے پر راضی ہو سکتے ہیں۔
اگر معاشرہ اس بنیاد پر قائم ہو کہ حکومت کا کام ہر ممکن حد تک عوام کی خواہشات کو پورا کرنا ہے تو پھر مشکلات برداشت کرنے کے لیے کوئی رغبت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ لوگ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ جیسے ہی معاملات ان کی خواہشات کے بر عکس ہونا شروع ہوں تو وہ حکمرانوں سے جان چھڑا لیں۔
یہ چیز تصفیے کے مزاج کو جنم دیتی ہے، جہاں استعمال کے بعد چیزوں کو تلف کر دینا لوگوں کا عام مزاج بن جاتا ہے۔ پرانے لباس پر صبر اور اس کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس کو ختم کر کے نئے سے تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ازدواجی اور دیگر تعلقات بھی اسی رویے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کی خواہشات پر پورا نہیں اتر رہا تو اس سے جان چھڑا کر کسی ایسے سے تبدیل کر لیں جو پورا اترے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)