نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تاریخ کا سبق

لال قلعے سے لال قلعے تک | قسط دوم (حصہ اول)

تحکیم شریعت یا تدجین شریعت

عبید الرحمن المرابط by عبید الرحمن المرابط
23 مئی 2023
in تاریخ کا سبق, اپریل و مئی 2023
0

تحکیم شریعت یا تدجین شریعت

انسانی زندگی میں قانون کا عمل دخل

کوئی بھی انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں اصولوں اور ضابطوں کے بغیر نہیں جی سکتا۔ یہ اصول اور ضابطے چاہے ان کہے ہوں یا لکھے ہوں۔ اجتماعی حیثیت میں جب انسان چند اصولوں پر متفق ہو جاتے ہیں تو انہیں قانون کا درجہ مل جاتا ہے۔ ان قوانین کا مصدر یعنی کہ قانون ساز یا تو انسان ہوتا ہے چاہے وہ ایک حکمران کی شکل میں ہو یا پارلیمان کی شکل میں ہو ۔اور چاہے وہ خواہشات نفس کے تحت اصول وضع کرے جیسے مطلق العنان استبدادی بادشاہ کرتے تھے یا کسی انسانی نظریے کے تحت اصول وضع کرے جیسے اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظریات۔ اور چاہے یہ اصول باپ دادا سے ملنے والے چند قبائلی اور قومی رسم و رواج کے مطابق ہوں۔ بہر حال یہ سب انسان کی پیداوار ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں قانون کا مصدر خود انسان نہیں بلکہ انسان کا خالق اور رب بھی ہو سکتا ہے۔ جب ان قوانین کا مصدر ربِ انسان ہو تب ہم اس آئین کو’شریعت‘ کہتے ہیں اور اس کے تحت قوانین کو ’احکام‘ کہتے ہیں۔ جیسا آئین ہوتا ہے ویسے قوانین بنتے ہیں۔ سیکولر ’لا دین ‘ آئین کے تحت قوانین ’دینی‘ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ قوانین ’غیر شرعی‘ ہوں او ر ہم آئین کو ’شریعت ‘ کے مطابق قرار دیں۔

یہ سوال کہ کس کا حق ہے کہ وہ انسانوں کے لیے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں زندگی گزارنے کے لیے اصول اور ضابطے وضع کرے؟ خود ’الناس‘ کا یا ’رب الناس‘، ’ملک الناس‘ اور ’الہ الناس‘ کا؟ اس کا دار و مدار خاص انسان کے ’ایمان ‘ پر ہے۔ یہ کوئی سطحی اور فرعی معاملہ نہیں بلکہ کلیدی اور جوہری ہے۔ قانون سازی کا براہ راست تعلق انسان کے ایمان سے ہے۔ اور مسلمانوں کا ایمان ان پر لازم کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کو ہی اپنا قانون ساز مانیں۔ یہ بات چودہ صدیوں تک ایک عام مسلمان کے لیے غیر متنازع حقیقت تھی۔ لیکن افسوس کہ جب مسلمان مغلوب ہوئے تو کفار نے اپنے قوانین نافذ کیے۔ اور صدیوں تک ان قوانین کے تحت جینے کے سبب مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور ہو گیا کہ وہ قانون سازی میں اپنے جیسے انسانوں کو حقدار سمجھنے لگے! اور ایسا کرنے کے باوجود یہ سمجھنے لگے کہ ان کے ایمان اور اسلام میں کچھ فرق نہیں آئے گا؟

جس شریعت کا دار و مدار توحید رب باری ذو الجلال ہو، اس شریعت میں ذات کبریائی کو ماننےوالے اور نہ ماننے والے کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ حق و باطل کیسے ایک ہو سکتا ہے؟ اللہ نے کائنات کی تخلیق ہی اس لیے کی کہ انسان کو آزمائے کہ کون حق کو قبول کرتا ہے……تسلیم کرتا ہے……اسے نافذ کرتا ہے……اور کون اس کا انکار کرتا ہے۔ چنانچہ لوگ ایک ’حزب اللہ‘ میں سے ہوں گے اور یا ’حزب الشیطان‘ میں سے۔اور ان دونوں کے درمیان شریعت الٰہی میں واضح تمیز ہے۔ ان دونوں کے درمیان تناؤ، تنازع اور جنگ کا بھی ذکر ہے۔ اور جب شریعت غالب آ جائے تو ذات الٰہی کی کبریائی کے منکروں کے ساتھ برتاؤ کا بھی ذکر ہے۔ حق کی فتح یابی کے بعد بھی جس باطل زدہ کا ضمیر اتنا مردہ ہو کہ وہ حق نہ قبول کرے تو اسے شریعت میں جینے کا حق تو دیا گیا ہے لیکن شریعت کے تحت مغلوب و تابع کے طور پہ۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ کیونکہ باطل بھی جب کبھی غالب ہوا ہے تو اس نے حق اور اہل حق کو دبانے کے لیے انتہائی ظالمانہ برتاؤ کیا ہے۔ شریعت کے تحت اہل باطل کیسے جئیں اس کے اصول اٹل بھی ہیں اور مبنی بر عدل بھی۔ جبکہ باطل کے قانون کے تحت اہل حق کے لیے اصول نہ اٹل ہیں اور نہ مبنی بر عدل۔ انسانی تاریخ اس پر گوا ہ ہے۔

لیکن تعجب اہل باطل پر نہیں تعجب تو ان اہل حق پر ہے جو حق کے معاملے میں مداہنت قبول کرتے ہوئے باطل کے تحت رہنا قبول کر لیتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اہل حق بزور و زبردستی نہیں بلکہ برضا ورغبت باطل کا طوق اپنے گردنوں میں ڈالتے ہیں۔ جب ان کی اپنی سرزمین ہو۔ جہاں وہ اکثریت میں ہوں۔ جب انہوں نے وہ زمین لی ہی اس مقصد کے لیے ہو! اور یہ بھی انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسی سرزمین کو چھوڑ کر جہاں وہ اپنا حق منوا سکتے ہیں چند دنیاوی آسائشوں کے سبب اہل باطل کی اکثریت میں ان کے قوانین کے تحت جینے چلے جاتے ہیں! پھر اگر اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ حق ماننے والے یہ تمام گروہ خود پورے حق سے نکل جائیں تو انہیں تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ جب وہ دیکھیں کہ ایمان کی آخری رمق بھی ان کے دلوں سے مٹا دی جائے۔

مسلمانوں کو تاریخ میں پہلی دفعہ مغلوب اقلیت کے طور پر رہنے کا تجربہ اندلس میں کرنا پڑا۔ ہسپانوی فتوحات کے مقابلے میں اندلس میں رہ جانے والے ہزاروں مسلمانوں کو مجبورا کفریہ قوانین قبول کرنے پڑے۔ لیکن افسوس کہ رفتہ رفتہ اسی پر راضی ہو گئے کہ آئندہ نسلوں تک نہ مزاحمت کریں گے، نہ ہجرت کریں گے ، نہ آزادی لیں گے، بلکہ اسی طرح کفر کے تحت رہیں گے ۔

پھر اندلس کے دل خراش تجربے کو مغرب نے پوری اسلامی دنیا پر مسلط کیا اور شروع بر صغیر سے کیا۔ لیکن جب مغرب کا زور کچھ ٹوٹا تو مسلمانوں میں تین گروہ سامنے آئے۔ ایک وہ گروہ جو اپنے ہی وطن میں آباد تھا لیکن اس کے وطن پر ’برادران وطن‘ کفار کا غلبہ ہو گیا۔ نہ وہ مکمل آزادی لے سکا، نہ ہجرت کر سکا اور نہ کفار کا مقابلہ کر سکا۔ اس طرح اپنے وطن میں ہی مغلوب اقلیت بن گیا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جہاں اس کی اکثریت تھی۔ جہاں اسے آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی شریعت نافذ کرے۔ لیکن وہاں بھی اس نے اپنے لیے کفریہ قوانین پسند کیے! چاہے ایک حصے میں انہوں نے قوانین کو دین کے تابع ہونے سے انکار کرتے ہوئے ’سیکولر‘ قرار دیا۔ جبکہ دوسرے حصے میں کفریہ قوانین میں اسلامی شریعت کی پیوند کاری کر کے انہیں ’اسلامی‘ قرار دیا۔ اور تیسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے جو اپنے ممالک میں ظلم و ستم یا معاشی بد حالی کا نشانہ بنے جبکہ بعض کو تو محض چند اضافی دنیاوی سہولیات اور ترقی درکار تھی اس لیے وہ کافر ممالک میں ان کے باطل قوانین کے تحت رہنے چلے گئے۔ اور بہانہ یہ بنایا کہ شریعت تو دونوں جگہ نا پید ہے۔ اب پہلے اور تیسرے گروہ کی حالت ایک جیسی ہو گئی ۔ کہ وہ کافر اکثریتی ممالک میں کفریہ قوانین کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ مسلم اکثریتی ممالک میں کفریہ قوانین کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔

’لال قلعے سے لال قلعے تک ‘کی اس قسط میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے اہل باطل اپنے قوانین کے ذریعے حق کو دباتے ہیں اور اہل حق جب باطل کے قوانین قبول کر لیتے ہیں تو ان کا انجام کار کیا ہوتا ہے؟! دیکھیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا انجام بھی اندلس کی طرح ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور ابھی سے معرکۂ حق و باطل میں اپنا وزن حق کے پلڑے میں ڈالیں۔ یہ معرکہ کیسے لڑا جانا ہے تو اگلی بات ہے۔ پہلے سوچ لیں کہ معرکہ لڑنا بھی ہے کہ نہیں۔ یا یوں ہی ہنستے روتے صفحۂ ہستی سے مٹ جانا پسند ہے؟

اگلے نثرپاروں میں ہم جن قوانین کے تحت مسلمانوں کی زندگی کو دیکھیں گے ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو اندلس میں اسلام کے زوال کے آغاز میں عیسائی بادشاہت کے تحت اہل ذمہ کے طور پہ رہنے والے ’مدجن‘1 مسلمانوں پر لاگو تھے۔ اور بعض وہ ہیں جو اسلام کے خاتمے کے بعد تک عیسائی بادشاہت نے ان’موریسکوز‘2 پر لاگو کیے تھے جو ملکی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بظاہر عیسائی بن چکے تھے لیکن اکثر دل سے مسلمان ہی تھے ۔ ان ہسپانوی قوانین کی مشابہت آپ کو صرف بھارت میں ہی نظر نہیں آئے گی بلکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے قوانین بھی کچھ مختلف نہیں پائیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’قانون سازی‘ اور ’قانون کی پاسداری‘بذات خود اسلام اور مسلمانوں کےخلاف ایک حربہ اور طریقۂ جنگ بن چکے ہیں۔ کسی برے سے برے فعل کو ’قانون‘ کہہ کر اسے جائز بنا دیا جاتا ہے اور ’شریعت الٰہی‘ کو ہر مسلمان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر زندگی سے غائب کر دیا جاتا ہے۔

اسلام اور اہل ذمہ

اصل مضمون کی طرف بڑھنے سے پہلے کچھ وضاحت اسلام میں اہل ذمہ کے احکام کے بارے میں ضروری ہے۔ ہر قوم و ملت کو اپنے حدود میں رہنے والے افراد کے لیے اپنے نظریات اور روایات کے مطابق قوانین لاگو کرنا فطری اور منطقی بات ہے۔ پھر اگر توحید باری تعالیٰ اور سنت پیغمبر پاک ﷺکی علمبردار ملت اسلام کی بات ہو تو اس کی تو شان ہی نرالی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کو علم تھا کہ حق کی فتحیابی کے باوجود بھی ایسے بدبخت نفوس ہوں گے جو اپنے دلوں سے حق قبول نہ کریں گے۔ خود جزیرۂ عرب کے نجرانی نصاری ایسے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے بذات خود ان سے جزیہ وصول کر کے انہیں ذمی قرار دیا ۔ اور اللہ جل شانہ کو علم تھا کہ آئندہ بہت سے ممالک فتح ہونے والے ہیں اور وہاں کے تمام باشندے انسانی فطرت کی بنا پر دن رات میں یکدم اسلام قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ ان کے لیے اللہ تعالی نے ’ذمہ‘ کے احکام نازل کر دیے۔ دیار اسلام میں رہائش پذیر کافروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے باطل دین کی بالادستی کے لیے وطن چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہجرت کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ رہنا چاہتے ہیں تو اہل ذمہ بن کر رہیں اور جزیہ ادا کریں۔ ’ذمہ‘ کا لفظی مطلب: عہد، حق، امان اور حرمت ہے۔ اور مراد انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عہد حاصل ہے کہ ان کی جان، مال اور عزت محفوظ رہے گی اور مذہب تبدیل کرنے پر ان پر کوئی جبر نہ ہو گا۔

قرآن کریم میں ایسے اہل باطل پر جزیہ لاگو کرنے کے ساتھ ساتھ اہل ذمہ کے لیے صفت ’صاغرون‘ ذکر ہوئی ہے ۔ اردو کے مختلف تراجم میں اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مثلا : ما تحت، چھوٹے، تابع، عاجز، مغلوب ، بے قدر، ذلیل وخوار۔ پھر کئی فقہاء نے ذلت سے مراد شریعت الہی کی تابعداری لی ہے۔ اور حقیقت میں بھی شریعت میں ان کے لیے کئی خصوصی احکام موجود ہیں، مثلا: وہ معاملات میں اسلامی سزاؤں کے پابند ہیں۔ وہ بود و پاش میں مسلمانوں سے مشابہت اختیار نہیں کر سکتے۔ وہ کھلے عام صلیب ، گھنٹا بجانا وغیرہ جیسے اپنے شعائر دین ظاہر نہیں کر سکتے۔ اور نہ مسلمانوں کےبازاروں میں ایسا کاروبار کر سکتے ہیں جو مسلمانوں میں حرام ہے ۔ جیسے سودی لین دین، شراب ، خنزیر اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت ۔ دیار اسلام میں اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ مسلم افواج میں شامل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ زکاۃ نہ ادا کرنے اور دفاع میں حصہ نہ لینے کے بدلے جزیہ کی معمولی سی رقم ادا کرنا لازمی ہے۔ ان خاص احکام کے علاوہ انہیں تمام وہ حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ انہیں اپنے گھروں، محلوں اور عبادت گاہوں میں اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی تھی۔ نہ جزیہ کوئی بھاری رقم تھی جسے یہ ادا کرنے سے قاصر ہوتے ۔ اور نہ اسلام نے ایسے قوانین نافذ کیے کہ وہ اپنے دین بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ شرعی قوانین کے تحت زندگی گزارتے ہوئے اکثر کافر بلا جبر و اکراہ از خود دین اسلام کی حقانیت کے قائل ہوئے اور مسلمان ہوتے گئے۔ اور جو مسلمان نہ ہوئے وہ انہیں شرعی قوانین کے تحت برضا و رغبت اپنے معمول کی زندگی گزراتے رہے۔ نہ کسی نے احتجاج کیا نہ بغاوت کی۔ اور نہ ہی اسلام نے ان کی نجی اور مذہبی زندگی میں مداخلت کی۔ کئی مسلم ممالک میں جدوں پشتوں سے ویسے ہی بستے چلے آ رہے ہیں۔ یہ رویہ کفریہ قوانین کےتحت رہنے کے بالکل بر عکس ہے۔ چاہے وہ قدیم اندلس کے عیسائی قوانین ہوں یا مغرب کے نام نہاد حقوق انسانی پر مبنی جدید قوانین۔

لیکن جیسے اللہ جل جلالہ کی کبریائی اور عظمت نبوی ﷺکے شایان شان یہ ہے کہ ایمان کی روشنی سے محروم شخص اہل ایمان کے درمیان رہنا چاہتا ہے تو وہ اہل ایمان کے ما تحت تابع و مغلوب رہے۔ اسی طرح اللہ کی کبریائی اور عظمت پیغمبری کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ کسی شخص کے دل میں اس ایمان کا حصہ ہو اور پھر بھی وہ اس نعمت سے محروموں کے ما تحت تابع و عاجز رہے۔ اسی لیے اللہ نے دعوت، ہجرت و جہاد اور شریعت کے نفاذ کا حکم فرمایا۔ مسلمانوں پر فرض کیا کہ وہ جہاں بھی رہیں …… سرحدوں سے باہر کافر ممالک سے تعلقات سے لے کر ہر مسلمان کے اندرون خانہ تک ……تمام امور میں شریعت الہی کے پابند ہوں۔ بھلا خدائے عظیم و بر تر کی عظیم شریعت انسان کے وضع کر دہ کسی باطل قانون یا آئین کی بالادستی کیسے قبول کر سکتی ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان شریعت پر قائم رہتے ہوئے کفریہ قوانین کے تحت زندگی بسر کر سکے! یہ تو صراحتا اجتماع نقیضین ہے۔

مُدَجّن: مسلمان ذمی!

لیکن زمانے نے پھیرا کھایا۔ اور مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور ہوا کہ وہ دعوت ، ہجرت اور جہاد کے ذریعے شریعت نافذ کیا کرتے الٹا مغلوب ہوکر کفریہ قوانین کے تابع ’پر امن، تابعدار اور وفادار شہری‘ بن جائیں! ایسے شہریوں کو ہسپانوی عیسائی حکومت نے اپنا ’اہل ذمہ ‘ بنا دیا گیا تب سے انہیں ’اہل دجن‘ یا ’مدجن‘ کہا جانے لگا۔ مسلمانوں کی یہ نسل کیسے نمودار ہوئی؟ اگرچہ گزشتہ قسط میں کچھ تذکرہ گزر چکا ہے لیکن یہاں سلسلہ جوڑنے کے لیے سرسری طور پہ ذکر کرتے ہیں۔

اندلس میں اموی خلافت کے خاتمے پر طوائف الملوکی پھیل گئی اور مسلمان حکمران ایک دوسرے کے خلاف لڑنے میں مصروف ہو گئے۔ اسی وقت عیسائیوں میں صلیبی نظریات پروان چڑھ رہے تھے اور ہسپانیہ کی عیسائی بادشاہتیں مسلمان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیار اسلام پر رفتہ رفتہ قبضہ بڑھا رہی تھیں۔ اس دوران شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک میں ……جنہیں مغرب اسلامی 3کہا جاتا تھا……مرابطین کی حکومت قائم ہوئی اور ان کے امیر یوسف بن تاشفین ﷫ نے فیصلہ کیا کہ اندلس کی گرتی ہوئی اسلامی حکومتوں کو سہارا دے۔ لیکن ان حکومتوں کے درمیان اختلافات اتنے زیادہ تھے کہ اسے مجبورا انہیں اقتدار سے ہٹا کر مرابطین کی حکومت قائم کرنی پڑی۔ مرابطین کی مدد کے سبب عیسائی پیش قدمی رک گئی اور کئی اسلامی علاقے بازیاب بھی کر لیے۔ لیکن کچھ عرصے بعد مرابطین کی جگہ موحدین آگئے اور اندلس میں بھی ان کی جگہ حکومت سنبھالی لیکن وہ مرابطین جیسا استحکام نہ لا سکے۔ اندلس کے مقامی مسلم حکمرانوں کی باہمی لڑائیوں اور عیسائیوں سے دوستی کے نتیجے میں عیسائی بادشاہتوں نے ۱۲۱۲ء میں ’العقاب‘4نامی مشہور معرکے میں موحدین کو زبردست شکست دی۔ کئی تاریخ دانوں کے بقول اس معرکے میں مسلمانوں کو ایک لاکھ جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ ضرب اتنی شدید تھی کہ پورے اندلس سے ہی موحدین کا قبضہ ختم ہو گیا۔

۱۲۱۷ء اور ۱۲۵۲ءکے درمیان ہسپانیہ کے علاقے قشتالہ اور لیون5 کے بادشاہ ’فرنانڈو سوم‘نے قرطبہ سمیت اندلس کی تمام مسلم بادشاہتوں کو فتح کر لیا ۔ پیچھے صرف غرناطہ واحد خود مختار اسلامی بادشاہت رہ گئی تھی۔ مسلم عوام نے کافر قابضوں کے خلاف بھر پور مزاحمت کی لیکن اپنا اقتدار بچانے ان کے حکمرانوں نے کفار کا علانیہ ساتھ دیا۔ دوستی اور دشمنی کے معیار تبدیل ہونےکے بدولت امت مسلمہ کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کے بارے میں ہم گزشتہ قسط میں مفصل بات کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے جب تنزلی آتی ہے اور زوال کا دور ہوتا ہے تو معاملہ صرف حکمرانوں تک محدود نہیں رہتا۔ اور حکمرانوں کی لڑائی جھگڑوں میں عوام تو ویسے ہی پسے جاتے ہیں جب تک ان میں دینی حمیت اور ملی غیرت اپنے عروج پر نہ ہو۔ چنانچہ عوام میں پست ہمت اور کمزور ایمان والا ایسا طبقہ پیدا ہوا جنہوں نے کافروں کے خلاف جہاد اور مزاحمت تو چھوڑیے دار الکفر سے ہجرت بھی پسند نہ کی حالانکہ اس وقت ان کے سامنے راستے کافی حد تک کھلے تھے اور محض مغرب اسلامی ہی نہیں بلکہ خود اندلس میں غرناطہ کی آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست موجود تھی۔ لیکن انہوں نے عیسائی شاہی قوانین کے تحت کافر آقاؤں کی جاگیروں پر باج گزار کے طور پر رہنا قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ وہ دینی معاملات سمیت ہر شعبۂ زندگی میں اتنے کمزور ہو گئے کہ حکمرانوں نے ان کے سامنے دو باتوں میں سے ایک منتخب کرنے کا کہا: یا تو عیسائی بن جائیں اور یا ملک چھوڑ دیں۔ بالآخر جبری تبدیلئ مذہب اور جلا وطنی کے ذریعے سرزمین اندلس پر کوئی مسلمان باقی نہ رہا۔

اپنے آخری انجام تک پہنچنے سے پہلے ان پر امن شہریوں کے لیے ہسپانویوں نے عربی کا لفظ ’مدجن‘ استعمال کیا جو کہ بگڑ کر مغربی زبانوں میں مدجر Mudejar بن گیا۔ اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ ذلت اور رسوائی کا یہ عجیب و غریب عمل اتنے بڑے اور وسیع پیمانے پر رونما ہوا۔ عربی زبان میں مدجن’پالتو‘ یا ’سدھارے ہوئے‘ جانور کو کہتے ہیں۔ مسلم تاریخ دان ہی نہیں بلکہ مغربی تاریخ دان بھی قائل ہیں کہ یہ اصطلاح طعنے اور طنز کے طور پہ استعمال ہوئی (آج کل ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ’مسلہ‘ یا ’ملا‘ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے)۔

آغاز میں اندلس کی شمالی مسلم بادشاہتوں طلیطلہ اور اشبیلیہ کے سقوط کے نتیجے میں بے شمار مسلمان اندلس کی جنوبی مسلم بادشاہتوں یا مغرب اسلامی کی طرف ہجرت کر گئے۔ لیکن ایسے مسلمان بھی تھے جو دور دراز مسلم علاقوں کی طرف نکلنے کے بجائے قریب کی عیسائی بادشاہت قشتالہ میں پناہ لینے لگے (جیسے کہ آج کل کے مسلمان اپنے ممالک چھوڑ کر غیر مسلم ممالک چلے جاتے ہیں)۔ دوسری جانب مملکت قشتالہ نے بھی انہیں آباد کرنے کا دروازہ کھولے رکھا (جیسے بہت سی مغربی حکومتیں مسلم مہاجرین کو قبول کر لیتی ہیں) ۔ لیکن یہ کسی ہمدردی کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی مصلحت کے خاطر تھا۔ کیونکہ قشتالہ کی عیسائی آبادی انتہائی کم تھی اور انہیں اپنا ملک آباد کرنے کے لیے ہنر مند اور سستی افرادی قوت کی ضرورت تھی (مغربی حکومتیں بھی اس چیز کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ ان ممالک میں کاروبار اور رہائش کے لیے ویزہ طلب کرنے والوں میں وہ تمام شرائط ہوں جن سے ان کے قومی مفادات کو تقویت حاصل ہو اور آنے والوں کی طرف سے ممکنہ نقصانات سے بچ سکیں۔ یہاں تک کہ امارت اسلامی افغانستان کے فتح کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مغرب پرست افغانی جب نکلے تو مغربی حکومتوں نے آج تک انہیں بلا تمییز قبول نہیں کیا۔ مثلاً جرمنی نے اعلان کیا کہ وہ کئی سو افغان مہاجرین کو پناہ دے گا لیکن ترجیح ان کو دی جائے گی جو اپنے جنسی میلانات ……یعنی کہ ہم جنس پرستی……کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے!!6) ۔

ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک کے رہائشی مقامی ہوں یا مہاجر وہاں کے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے اندلس کے ان مہاجر مسلمانوں کو بھی قشتالہ کے شاہی کفریہ قوانین کی پابندی کرنی ہوتی تھی اور ظالم عیسائی بادشاہتوں میں پناہ لینے کے بدلے انہیں با ج یا ’جزیہ‘ بھی ادا کرنا ہوتا تھا(خیال رہے کہ یہ جزیہ ویسا ہلکا پھلکا نہیں تھا جیسے اسلامی شریعت میں اہل ذمہ کے لیے مقرر ہے۔ تفصیل آگے آئی گی)۔ اس ذلت ، مغلوبیت ، ما تحتی اور تابعیت کے سبب انہیں ’مدجن‘ کہا جانے لگا۔

بد قسمتی سے آغاز سے ہی اندلس میں مسلمانوں کے دو طبقے وجود میں آ گئے تھے جو ہمیں قدیم اسلامی خلافتوں کے ما تحت مفتوحہ ممالک میں نہیں ملتے۔ ایک وہ مسلمان جو عالمِ اسلام سے ہجرت کر کے اندلس میں آباد ہوئے اور ایک اندلس کے وہ مقامی باشندے جنہوں نے ان کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو یہ نظر آئے گا کہ باہر سے آنے والے اکثر مسلمان مدجن کی حیثیت سے عیسائیوں کے ما تحت رہنے کے بجائے ہجرت کر جاتے تھے۔ لیکن مقامی اندلسی مسلمانوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ تھی جو مدجن بن کر اپنے آبائی وطن اور آبائی قوم میں رہنا قبول کر لیتے تھے ۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں طبقات میں سے ایسے بھی تھے جو ہجرت کی تمنا کے باوجود قدرت نہ رکھنے کے سبب مجبوراً پیچھے رہ گئے تھے اور ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ لیکن حکمرانوں اور عوام میں دوستی اور دشمنی کے معیار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جذبہ ’حب الوطنی‘ اور ’قوم پرستی‘ کا اپنا اثر ضرور ظاہر ہوا (بالکل ویسے ہی جیسے آج کل ہند میں تمام تر مظالم کے باوجود وہاں کے مسلمان اپنے آپ کو سچے محب وطن ہندی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہندوؤں کو برادران وطن کہتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ مسلمان جو ہجرت کر کے مغربی ممالک میں آباد ہو گئے ہیں اور امریکی یا برطانوی ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’اُن‘ میں سے ہی گردانتے ہیں نہ کہ ’ہم‘ میں سے)۔

آغاز میں مدجنوں کو نسبتاً آزادی حاصل تھی۔ وہ عبادات میں اور اپنے اندرونی معاملات میں شریعت پر عمل کر سکتے تھے یہاں تک کہ ان کے باہمی فیصلوں کے لیے مسلمان قاضی مقرر تھے۔ زیادہ سے زیادہ کہیں انہوں نے اپنے ہمسائے عیسائیوں کی قشتالوی زبان اپنا لی تو کہیں اپنا لباس تبدیل کر لیا۔ البتہ ہسپانیہ کی مختلف عیسائی بادشاہتوں میں رہنے والے مدجنین کے حالات مختلف تھے۔ مثلا مملکت قشتالہ کی طرف جو ہجرت کرتا تو اسے وہاں کے عیسائی جاگیرداروں میں سے کسی کے ہاں جبری ملازم بننا پڑتا جیسے کہ ہمارے وڈیروں کے ہاں مظلوم ہاری کام کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس مملکت اراغون7 کے مقامی مسلمان اپنے گھروں ، گاؤں اور شہروں میں ہی مدجن بن گئے جہاں وہ پہلے سے آباد تھے۔ تعداد کے لحاظ سے غرناطہ اور بلنسیہ8 کے مدجنوں کے بعد سب سے بڑی آبادی اراغون میں تھی اور سب سے کم قطلونیہ9 میں رہتے تھے۔ قشتالہ کے بر عکس اراغون اور قطلونیہ میں بادشاہوں نے مدجنوں سے ان کی زمینیں اپنے نام کر لیں اور مالکوں کو کاشتکار بنا دیا۔ آغاز میں انہیں اتنا حق دیا گیا کہ مرنے کے بعد ان زمینوں پر ان کے وارثین ہی کاشت کریں گے تاکہ ان کی روٹی روزی کا سلسلہ برقرار رہے۔ اسی لیے دیگر علاقوں کے برعکس اراغون کے مدجنوں نے پائیدار مکانات تعمیر کیے جن کے فنی آثار آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

جن عیسائی مملکتوں میں مدجنوں کو شہروں میں رہنے کی اجازت تھی وہاں ان کی اکثریت ’موریریا‘10 نامی اپنے مخصوص علاقوں کے اندر رہتی تھی جہاں انہیں اپنی مسجدیں، حمام، مقبرے، حلال گوشت اور بازار کی اجازت تھی۔ ہر موریریا میں’الجماعہ‘کے نام سے ان کی انتظامیہ ہوتی تھی۔ ہر الجماعہ میں اپنے اپنے فقیہ، قاضی اور امام کے علاوہ کاتب اور امین بھی ہوتے تھے۔ امین اور کاتب بادشاہ یا جاگیردار کے ہاں مدجنوں کی نمائندگی کرتے تھے۔

دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلنسیہ کے مدجنوں عیسائیوں کے مقابلے میں اکثریت میں تھے۔ اس لیے وہاں مدجن کافی عرصے تک اپنے جداگانہ تشخص کے حامل رہے اور ان کے درمیان عربی بول چال رائج رہی ۔ اس کے باوجود اقلیتی عیسائی وقتاً فوقتاً مدجنوں کے خلاف دھاوے بولتے تھے ۔ حالانکہ کہنے کو ان مدجنوں کو بادشاہت کی طرف سے جان و مال کا ہی نہیں بلکہ ان کے شرعی قوانین کو بھی تحفظ حاصل تھا (جیسے بھارت کے قانون میں تحفظ کی ضمانت کے باوجود کشمیر میں فوج کے ہاتھوں اور بقیہ بھارت میں ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں مسلمان اپنے اکثریتی علاقوں میں بھی mob lynching سے محفوظ نہیں)۔

یہ تھے پندرہویں اور سولہویں صدی میں اندلس کے حالات ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اسی طرح کا عمل بر صغیر میں بھی دہرایا جانے لگا۔ اور برِّ صغیر کے عوام پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر براہ راست تاج برطانیہ کے شاہی قانون کے تحت جینے لگی۔ اندلس میں بھی قوانین نافذ کیے گئے اور برِّ صغیر میں بھی۔ لیکن نہ قوانین صحیح تھے اور جو صحیح تھے ان پر عمل در آمد کی نیت ہی نہ تھی۔

یہ جاننے کے لیے کہ مدجنوں کے معاہدے کس قسم کے ہوتے تھے اور ’کفریہ آئین ‘ کے تحت ’شرعی احکام ‘ کیسے نافذ رہ سکتے ہیں۔ اور ایسے ممالک میں رہنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ہے مناسب ہو گا کہ معاہدۂ غرناطہ پر نظر دوڑائی جائے کیونکہ یہ عیسائیوں کی طرف سے مدجنوں کے لیے سب سے فراخدلانہ معاہدہ تھا اگرچہ تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کے زوال کے آخری سالوں میں طے پایا تھا (فراخدلانہ اس لیے تھا کہ اندلس بھر سے مدجنوں کے علاوہ باقی ماندہ سب مسلمان سقوط غرناطہ سے پہلے یہاں جمع ہو گئے تھے۔ سقوط کے بعد عیسائی بادشاہ کو خطرہ تھا کہ اگر زیادہ زور استعمال کیا تو شدید رد عمل پیدا ہو گا)۔

غرناطہ کا آئین دجن

یہ معاہدہ اصل میں 1491 میں طے پایا اور معاہدۂ غرناطہ کے نام سے مشہور ہوا۔ جب غرناطہ کے مسلمان اس پر راضی ہو گئے کہ عیسائی بادشاہ کی اطاعت میں داخل ہوں لیکن اپنے تحفظ کے لیے کافی شرطیں منوائیں۔ معاہدے کے مطابق اگلے سال عیسائی فوج نے شہر 11کا کنٹرول سنبھال لیا جس سے اندلس میں تقریباً اسلام کی 780 سالہ حکمرانی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی (اگرچہ غرناطہ ایک وسیع ریاست تھی لیکن معاہدۂ غرناطہ سے پہلے شہر غرناطہ کے علاوہ تمام علاقے ویسے ہی عیسائیوں کے ہاتھ چلے گئے تھے)۔

امام مَقَّرِی نے اپنی کتاب12 میں لکھا ہے کہ معاہدے کی 67 شقیں تھیں جن میں سے صرف اہم شقوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ اور ہم امام مقری کی درج شدہ شقوں کو یہاں مزید اختصار کے ساتھ نقل کر رہے ہیں:

  1. غرناطہ کے ہر بڑے چھوٹے کی جان، اہل و عیال اور مال کو تحفظ حاصل ہے(ایسے دعوے تو تمام ممالک میں کیے جاتے ہیں)۔
  2. مسلمانوں کے درمیان شریعت کو ویسے ہی قائم رکھا جائے گا جیسے پہلے تھی اور کوئی شخص بھی مسلمانوں پر ان کی شریعت کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں نافذ کرے گا۔ (یہ شق پڑھ کر محسوس ہو گا کہ پاکستانی آئین پڑھ رہے ہوں!)
  3. مسلمانوں پر صرف وہ مسلمان یا یہودی والی مقرر ہوں گے جو ان کے سابقہ سلطان کی طرف سے پہلے متعین شدہ تھے (جبکہ پاکستان میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی ہندو بن سکتا ہے)۔
  4. مساجد اور اوقاف حسب سابق رہیں گے۔کسی مؤذن، نمازی، روزہ دار وغیرہ کو دینی شعائر ادا کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔ جو کسی عبادت گزار کا مذاق اڑائے گا اسے سزا دی جائے گی (توہین مذہب کی ایسی شق تو پاکستانی آئین میں بھی نہیں)۔
  5. عیسائیوں کو مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ نہ فصیل پر چڑھنے کی اجازت ہے اور نہ مسلمانوں کے گھروں میں جھانکنے کی۔
  6. مسلمان یہودیوں اور دیگر علاقوں کے اہل دجن کی طرح کوئی امتیازی لباس یا نشانی نہیں اختیار کریں گے۔ (مقصد ایسا لباس یا نشانی جس سے ان کی تحقیر ہوتی ہو)۔
  7. جو عیسائی اسلام قبول کر لے اسے دوبارہ عیسائی بنانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
  8. مسلمانوں میں سے جو عیسائیت قبول کرے اسے کئی دن تک گرفتار رکھا جائے گا تاکہ اس کا حال معلوم ہو جائے۔ اس دوران اسے مسلمان قاضی اور عیسائی جج مہیا کیے جائیں گے۔ اس کے باوجود اگر وہ مسلمان ہونے سے انکار کرے تو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ (یہ شق آج کل مذہبی آزادی کے بالکل عین مطابق اور اسلامی شریعت کے عین مخالف نظر آتی ہے)
  9. مقررہ سالوں کے لیے تمام ٹیکس معاف کیے جائیں گے اور کوئی نیا ٹیکس نہیں لاگو کیا جائے گا۔
  10. سابقہ جنگوں کے دوران کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا ہو تو اس کا مواخذہ نہ ہو گا۔ اور اس دوران عیسائیوں سے چھینا ہوا سامان بھی واپس نہ کیا جائے گا۔
  11. غرناطہ کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
  12. عیسائی علاقوں سے اگر کوئی مسلمان قیدی بھاگ کر غرناطہ میں داخل ہو جائے تو اس کے مالک سمیت کسی شخص کو اختیار نہیں کہ اسے دوبارہ واپس لے۔ بلکہ عیسائی بادشاہ مالک کو اس کی قیمت ادا کرے گا۔
  13. مسلمانوں کو عیسائی فوجیوں کی میزبانی کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
  14. عیسائی علاقوں میں سفر کے دروان مسلمانوں کی جان و مال محفوظ ہو گی۔
  15. مسلمانوں کو کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
  16. جو شخص مغرب اسلامی (شمالی افریقہ) جانا چاہے اسے منع نہ کیا جائے گا۔ مقررہ مدت تک شاہی کشتیوں پر محض کرایہ ادا کر کے منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس مدت کے بعد کرایے کے علاوہ اپنے مال کا دسواں حصہ ادا کر کے ملک چھوڑ سکتے ہیں۔
  17. تمام شرائط پر پاپائے روم سے توثیق حاصل کی جائے۔

بظاہر کوئی اس معاہدے کو دیکھے تو بعض شقیں معاصر کافر ممالک ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کے آئین سے بھی زیادہ اسلامی نظر آئیں گی۔ لیکن یہاں کئی سوال ذہن میں ابھرتے ہیں:

  • کفر کے غلبہ کے تحت شرعی احکام کے نفاذ کا کیا حکم ہے؟
  • مسلمانوں کو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے اور اسلام غالب کرنے کا حکم ہے یا محض چند شرعی احکام کی پابندی کافی ہے؟
  • جب شرعی احکام اور ملکی قوانین میں تضاد ہو تو مسلمان کے لیے کس پر عمل کرنا ضروری ہے؟
  • کیا مسلمانوں کے لیے اصلاً جائز ہے کہ وہ کفریہ قوانین کی بالادستی کے تحت رہیں؟
  • اضطراری کیفیت میں اگر بامر مجبوری غیر شرعی قوانین پر عمل کرنے کی اجازت ہو تو کیا مسلمان پر شریعت کے نفاذ کے لیے جد و جہد بھی ساقط ہو جاتی ہے؟

یہ کلیدی سوالات اس پہلو کے علاوہ ہیں کہ کفریہ قوانین بنانے والوں اور نافذ کرنے والوں کی نیت اور ارادہ کبھی یہ نہیں رہا کہ الہی شریعت من وعن اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہو۔ نہ ہسپانوی بادشاہوں کی یہ نیت تھی جیسے کہ آگے واضح ہو گا۔ اور نہ ہی آج کل مسلم و غیر مسلم ممالک کے سربراہوں کی۔ جہاں ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے لیے محدود دائرے میں ہی سہی شریعت نافذ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے جو کہ وہاں کے حالات سے واضح نظر آتا ہے۔ وہاں بنگلہ دیش کا سیکولر دستور اس بات کا سرے سے دعوی ہی نہیں کرتا ہے۔ تیسری طرف پاکستانی حکومت اپنے مزعومہ اسلامی دستور کو شریعت کے مطابق نافذ کرنے کے بجائے آئے روز شریعت کے خلاف قوانین منظور کرتی ہے۔ تو پھر محض دستور کے لکھے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

کسی سے سنا کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی حاکمیت اقرار کرنے کے بعد ریاستِ پاکستان مسلمان ہو گئی ہے ۔ اور جیسے مسلمان کلمہ پڑھنے کے بعد گناہوں کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا تو ایسے ریاست بھی۔ لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھنے کے بعد 70 سال تک مسلسل سود پر عمل کرنے کو جائز اور قانونی قرار دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وہ سود کی حرمت پر حلت کو ترجیح دے یا پسند کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور جب’شرعی عدالت‘ کا قاضی اسے فتوی بھی دے دے کہ یہ حرام ہے اسے بند کرو لیکن وہ پھر’غیر شرعی‘ ’عدالت عظمی ‘ کے جج کے پاس جا کر شرعی قاضی کا فیصلہ کالعدم قرار دے تو اسے کیا کہیں گے؟! پھر جب وہ انسان ڈھکے چھپے شرعی معاملے میں نہیں بلکہ سود جسے قطعی حرام کے بارے میں شرعی قاضی کے بجائے انگریز جج کا فیصلہ مان لے تو اسے کیا کہیں گے؟! پھر اگر زنا بالرضا پر زنا کی حد ختم کر دی جائے اور فحاشی کے دروازے کھول دیے جائیں تو اسے کیا کہیں گے؟ یہ صرف ایک شخص کے زنا کی ارتکاب کی بات نہیں ہو رہی بلکہ اگر ’شریعت‘ سے ہی اس سزا کو لغو کردیا جائے؟! پھر اگر وہ مرد ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عورت قرار دے کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرے تو اسے کیا کہیں گے؟! اور یہ سب محض کسی ایک شخص کا، ایک وقت میں ، شیطان کے وسوسے میں آنے کے سبب گناہ نہیں بلکہ جب ریاست کے آئین کے تحت ارکان شوریٰ مل کر اسے اپنی پسند ، مرضی اور ارادے سے صرف جواز کا اقرار نہیں بلکہ اسے قانون بنا دیں تو پھر بھی وہ عین شریعت کے مطابق اسلامی ریاست کہلائے گی؟ اگر کوئی مسلمان اللہ کے صریح حلال کردہ حکم کو حرام کہے اور حرام کردہ کو حلال کہے تو وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے یا نہیں؟ اور اگر ریاست جیسے حاکمیت کا اعلان کر کے اسلامی ہو جاتی ہے تو آیا صریح حرام کو حلال قرار دے کر یا حرام کو حلال قرار دے کر مسلمانی باقی رہتی ہے؟؟

اگرچہ یہ ہمارا بنیادی موضوع نہیں لیکن آج کل ’اسلامی‘ اور ’غیر اسلامی‘ ریاست کے خلاف مسلح اور غیر مسلح جد و جہد کا موضوع چھڑ گیا تو مسلمانوں کے ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا مناسب سمجھا۔ ویسے مسئلہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں۔ آپ پاکستان کے کسی عام مسلمان سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ کیا وہ پاکستانی آئین اور قوانین کو ’شرعی‘ سمجھتا ہے ؟ اور کیا اس کی نظر میں عمران خان اور شہباز شریف جیسے حکمران واجب الاطاعت شرعی اولو الامر ہیں؟

اپنے موضوع کی طرف دوبارہ لوٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اندلس کی تاریخ کے تناظر میں اللہ کی شریعت میں مداہنت کرنے اور کفریہ قوانین کے تحت زندگی گزرانے سے اسلامی معاشرہ کیسے بگڑ جاتا ہے۔ اور سوچیں آیا اللہ کی شریعت سے اعراض کے نتیجے میں بر صغیر کا انجام بھی ویسے ہو سکتا ہے جیسے اندلس کا ہوا؟

ہسپانیہ کے قوانین دجن

اس سے قبل کہ ہم معاہدۂ غرناطہ کا انجام جانیں ہسپانیہ کے مختلف علاقوں اور ادوار میں حکومت کی جانب سے مدجنوں پر نافذ شدہ چند قوانین کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ کیسے قوانین کے ذریعے معاشروں کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ شریعت کی تدجین کا عمل سقوط غرناطہ سے دو صدیوں قبل اراغون، بلنسیہ ، قطلونیہ ، قشتالہ سمیت ہسپانیہ کے دیگر علاقوں میں شروع ہو چکا تھا۔ لیکن غرناطہ کے معاہدۂ دجن کے دوران اور اس کے مکمل خاتمے کے بعد بھی ہسپانوی حکومت ایسے قوانین نافذ کرتی رہی جس سے اندلس کے باشندوں میں رہے سہے اسلام کے اثرات اور نشانیاں بھی مٹائی جا سکیں۔ اگرچہ عیسائیوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بالآخر معاہدہ ٹوٹ گیا اور اس کے نتیجے میں ہسپانیہ میں کوئی ’مدجن‘ ……یعنی کہ مسلمان اہل ذمہ…… نہیں رہا۔ کیونکہ مدجنوں کو حکم دیا گیا تھا کہ یا وہ عیسائیت قبول کریں اور یا ہجرت کر جائیں(جسے ہندوستان میں آج کل گھر واپسی کہتے ہیں)۔ ہجرت کروانے میں نہ عیسائی حکومت سنجیدہ تھی بلکہ اس میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں ڈالتی رہی۔اور نہ تمام مسلمانوں کے پاس اتنے وسائل تھے کہ وہ ہجرت کر سکیں۔ لیکن کئی مسلمان ایسے بھی تھے جو مغرب اسلامی میں معاشی پسماندگی کے سبب وسائل ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے مدجنوں کی اکثریت کو مجبورا ’بظاہر‘ عیسائی بننا پڑا۔ اور ایسے مدجنوں کو ’موریسکو‘ یعنی’چھوٹا مسلمان‘ کہا جانے لگا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عیسائی بننے کے بعد ان نئے عیسائیوں کے ساتھ سابقہ عیسائیوں جیسا سلوک کیا جاتا۔ لیکن چونکہ ہسپانوی حکومت کو علم تھا کہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ ہیں جو محض ’مجبوری‘ کے تحت عیسائی ہوئے ہیں اور ان کے دلوں میں اب بھی اسلام کی رمق باقی ہے اس لیے ان کے لیے باقی عیسائیوں کے بر خلاف مختلف قوانین جاری کیے گئے تاکہ انہیں ’سچا عیسائی‘ بنا یا جا سکے ۔ اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ان میں سے کون دل سے عیسائی ہوا ہے اور کون بامر مجبوری ’تفتیشی عدالتوں ‘ کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ ہر طریقے سے دلوں کے بھید نکالیں۔ (بالکل ویسے جیسے آج کل پاکستان کے خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر عوام کو غائب کر دیتے ہیں اور تفتیشی عدالتوں سے بڑھ کر ان کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتے ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ جیسے ہسپانیہ نے بر بنائے قانون تفتیشی عدالتیں قائم کی تھی اسی طرح پاکستان میں بھی یہ سب پاکستانی قانون کے مطابق ہوتا ہے جہاں’دہشت گردی‘ کی روک تھام کے لیے ان اداروں کو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے ہیں اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں بھی قائم ہیں)۔

یہاں معاشرے پر قوانین کے اثرات کے علاوہ یہ بھی دیکھیں گے کہ کیسے بظاہر عادلانہ قوانین جب بدنیتی کی بنا پر نافذ کیے جاتے ہیں تو خود قوانین بنانے والے ان قوانین میں پائے جانے والے سقم اور چور دروازوں سے انہیں بے اثر کر دیتے ہیں۔ تو ایسے میں اس آئین اور قانون کی کیا وقعت اور حیثیت رہ جاتی ہے۔ اور ایسی ریاست کے خلاف ہمہ گیر جد و جہد کے علاوہ بھی کوئی اور راستہ بچتا ہے۔ اور جو قوم ہمہ گیر جد و جہد سے منہ موڑتی ہے تو ٹیڑھے قانونی حربوں کو اپنانے سے اس کا بالآخر انجام کا کیا ہوتا ہے؟

مندرجہ ذیل فقروں میں مغربی کتب کے تمام حوالے شہید عکرمہ ﷫کی کتاب ’تاریخ نا تمام‘ سے لیے گئے ہیں۔ در حقیقت یہی کتاب ’لال قلعے سے لال قعلے تک‘ تحریر کرنے کا باعث بنی۔ اللہ تعالی اس کتاب کو عکرمہ بھائی کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور ہمیں بھی اجر سے محروم نہ کرے، آمین۔ یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ مضامین کا یہ سلسلہ بر صغیر میں رہنے والے تینوں مسلمان ’بھائیوں‘ کے لیے لکھے گئے ہیں۔ مشرقی ہند کے بھائی ’بنگلہ دیش‘، وسطی ہند کے بھائی ’بھارت‘ اور مغربی ہند کے بھائی’پاکستان‘ میں سے ہر کوئی اندلس کے آئینہ میں اپنے ملک کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ تینوں بھائی اندلس میں اسلام کے خاتمے کے مختلف حالات اور ادوار میں بٹ گئے ہیں۔ کوئی خاتمہ کے قریب اور کوئی ذرا دور۔ کہیں خاتمہ زور و زبردستی سے ہو رہا ہے اور کہیں رضا و رغبت سے۔

لباس و خوراک کی تبدیلی

آغاز میں مُدَجّنوں کو معاشرے کی طرف سے عمومی ہتک آمیز رویہ برداشت کرنے کے علاوہ لباس کے معاملے میں بھی ذلت اٹھانی پڑی:

”1215 میں روم میں منعقد ہونے والی چوتھی اعلی سطح کی کیتھولک کونسل نے یہ مطالبہ کیا کہ تمام عیسائی بادشاہ اپنے علاقوں میں مسلمانوں اور یہودیوں کو مجبور کریں کہ وہ جداگانہ لباس پہنیں تاکہ آسانی سے پہچانے جائیں۔ یہ مطالبہ بعد میں ہونوریس سوم اور گریگوری نہم جیسے مشہور پادریوں کی طرف سے بھی دہرایا گیا۔ ان مطالبوں پر ہسپانوی بادشاہوں نے بغیر کسی لیت و لعل کے عمل کرنا شروع کر دیا بلکہ اپنی طرف سے مزید اضافہ بھی کیا۔ 13ویں صدی میں نفاذ سے لے کر 14ویں صدی کے نصف تک مسلمانوں کو جداگانہ ظاہر کرنے کی کوششوں میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ …… مثلا اوڑھنی کے ساتھ سلی ہوئی مخصوص رنگ کی ٹوپی پہننا لازم تھی جبکہ سونے اور قیمتی جواہرات پہننے پر پابندی تھی۔ ان پر لازم تھا کہ وہ اپنی داڑھیاں لمبی چھوڑیں اور سر کے بال عیسائیوں کے طرز سے مختلف انداز میں کاٹیں ۔“13

کوئی کہہ سکتاہے کہ اسلامی خلافت میں بھی تو ذمیوں کو مختلف قسم کا لباس پہننے کا پابند کیا جاتا تھا۔ جی، ایسا ضرور تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ نہ اہل ذمہ مسلمانوں سے مشابہت اختیار کریں اور نہ مسلمان ان کی مشابہت اختیار نہ کریں ۔ ایمان کی بنیاد پر جب ایک خاندان کے افراد آپس میں جدا ہو جاتے ہیں، جب قومیں اور ملک جدا ہو جاتے ہیں تو رہن سہن کے طور طریقے بطریق اولی جدا ہوں گے۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اللہ جل جلالہ کی کبریائی اور پیغمبر آخر الزمان کی رسالت کا معترف ہو اور پھر اتنی ذلت میں گر جائے کہ تثلیث کا دعوی کرنے والا عیسائی پادری اس پر اپنے من گھڑت قوانین نافذ کرے ؟

معاہدۂ غرناطہ ٹوٹ جانے کے بعد جب ہسپانویوں کو محسوس ہوا کہ موریسکوز اپنی باقی ماندہ شناخت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو انہوں نے موریسکوز کو ’قومی دھارے‘ میں ڈھالنے کےلیے سلسلہ وار اقدامات اٹھائے ۔ چنانچہ 1511 کے فرمان میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مقامی ’عیسائی‘ لباس اختیار کریں۔ اور جو درزی عرب یا بربر طرز پر کپڑے سیتا پایا گیا اسے بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ او رخواتین کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے چہرے کھولے رکھیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر مسلمانوں کے لیے ذمیوں کی طرح مخصوص لباس پہننا توہین ہے تو اس سے زیادہ توہین اور بے عزتی یہ ہےکہ مسلم خواتین کو حجاب پہننے سے منع کیا جائے ۔ جیسے کہ آج کل بھارت میں ہو رہا ہے (ابھی ہم بھارت پر برہم تھے کہ خبر آئی کہ سعودی عرب کے حکمرانوں نے طالبات کو کمرۂ امتحان میں برقع پہننے سے منع کر دیا ہے۔ وانا للہ وانا الیہ راجعون)

بر صغیر میں دو صدیوں سے زائد فرنگی راج نے قانون ایسے بنائے کہ سرکاری ، تعلیمی اور فوجی اداروں میں مغربی لباس رائج ہوا۔ پھر اس کے بعد ذہنی غلامی اور مرعوبیت نے باقی کام تمام کر دیا۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی عام محافل میں اس شخص کی قدر زیادہ ہوتی ہے جو مغربی لباس پہنے جبکہ اپنے لباس کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اسی طرح 1501 میں فرمان جاری ہوا کہ موریسکو عیسائی قصاب سے گوشت خریدیں گے اور جو قصاب اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح کرے اسے جرمانے کے علاوہ جائیداد ضبط ہونے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کل یہی معاملہ ایک دوسرے انداز میں بھارت میں رائج ہو رہا ہے جہاں کئی ریاستوں میں قانونا گائے کا ذبح منع کر دیا گیا ہے۔ اور جہاں قانونا منع نہیں وہاں کچھ ظلم و ستم کے ذریعے اور کچھ ذہنی غلامی کے ذریعے منع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کے بعض مؤثر مسلم ادارے ’برادران وطن‘ کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے از خود گائے ذبح کرنے سے اجتناب کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

زبان اور تعلیمی قوانین

ہسپانوی غلبے کے سبب 14 ویں اور 15 ویں صدی میں مدجن رفتہ رفتہ عربی بھول کر قشتالوی زبان میں بولنے لگے البتہ اپنی ثقافت کے بعض الفاظ اس میں شامل کر لیے اور تحریر کے لیے لاطینی حروف کے بجائے عربی حروف استعمال کرنے لگے۔ اس طرح ہسپانیہ میں ’الاعجمیہ‘ Aljamiado کے نام سے ایک نئی زبان ایجاد ہو گئی۔ یہاں تک کہ دینی تعلیمات کو محفوظ کرنے کے لیے علماء مجبور ہو گئے کہ عربی کے بجائے ہسپانوی الاعجمیہ میں کتابیں لکھیں۔ مثلا 1462 میں قشتالہ کے ایک مدجن عالم عیسی شاذلی نے اپنی مشہور کتاب ’سنت کا تعارف ‘ الاعجمیہ میں لکھی۔ لیکن 16 ویں صدی کے نصف میں عربی زبان کے استعمال پر قانونا مکمل پابندی لگا دی گئی۔ (جیسے بھارت میں اب بڑی دینی جماعتیں ہندی زبان اپنانے لگی ہیں)۔

صرف زبان ہی تبدیل نہیں کی گئی بلکہ ایک نیا نظامِ تعلیم بھی متعارف کیا گیا۔ 1514 میں طلیطلہ کے پادری نے حکمرانوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کے دماغ سے اسلام مسخ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں:

  • بچوں کو 6 سے 16 سال کی عمر تک ہسپانوی زبان میں پڑھنے لکھنے کی تعلیم دی جائے۔
  • تمام بچوں کو رجسٹر کیا جائے اور ماسٹر غیر حاضری کی اطلاع گورنر کو دے تاکہ والدین سے جرمانہ وصول کیا جائے۔
  • والدین انہیں اتوار اور چھٹیوں کے دن مذہبی رسومات میں شریک کریں ۔ 14

ظاہر ہے ہسپانوی سیکھ کر نئی نسلوں نے عربی بھول جانی تھی۔ اور صرف قرآن کریم ہی سے نہیں بلکہ پورے دین سے رشتہ ٹوٹ جانا تھا۔ اس نظام میں بڑے ہو کر اگر کبھی خواہش پیدا بھی ہوئی کہ نئی نسل اپنے آباء و اجداد اور ان کے دین کے بارے میں کچھ جانے، تو اس وقت تک معرفت کے تمام ذرائع ان کے لیے اجنبی زبان میں ہونے تھے۔ اس تعلیم سے ان میں مسلمان یا عرب اور بربر سے زیادہ عیسائی اور ہسپانوی ہونے کا احساس پیدا ہوا۔ (اور یہی احساس آج مسلمانان ہند میں پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان سے پہلے اپنے آپ کو ہندی سمجھیں اور اسلام نہیں بلکہ ہندوستانی ہونے پر فخر کریں۔ یہاں تک کہ پاکستان کا بھی یہی حال ہو گیا کہ اسلام سے پہلے پاکستانی بننا ضروری لگتا ہے اور بنگلہ دیش تو پاکستان سے بھی چار قدم آگے ہے)۔

ہسپانویوں کی اس شاطرانہ چال کو برطانویوں نے 350 سال بعد بر صغیر میں استعمال کیا۔ ’سپریم کونسل آف انڈیا‘ کے برطانوی وزیر لارڈ تھوماس میکالے نے 1835 میں انڈین تعلیم کے بارے میں اپنی بدنام تحریر میں لکھا:

”ہمارے محدود وسائل کے پیش نظر ہمارے لیے نا ممکن ہے کہ ہم تمام عوام کو تعلیم دیں۔ لہذا فی الحال ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم ایسا طبقہ بنانے کی پوری کوشش کریں جو ہمارے درمیان اور ہمارے لاکھوں محکوموں کے درمیان ترجمان بن جائے۔ ایسا طبقہ جو خون اور رنگ میں انڈین ہو لیکن مزاج، خیال، اخلاق اور ثقافت میں انگریز ہو۔ اس طبقہ کو ہم یہ ذمہ داری سونپیں گے کہ وہ اس ملک کے مقامی لہجوں کو سائنس کی اصطلاحات سے بھر دیں جو مغربی مفردات سے لی گئی ہوں۔ اور انہیں درجہ بدرجہ تبدیل کر کے عوام کی اکثریت کو علم پہنچانے کا ذریعہ بنا دیا جائے۔“15

در حقیقت انگریزی تعلیم کا نظام جو میکالے کے شدید مطالبہ کے نتیجے میں آج تک پورے بر صغیر میں نافذ ہے اسے غلام ذہن کے لیے عملا واحد ’قابل افتخار‘ نظام بنا دیا گیا ہے۔ رہے دینی مدارس تو ایک طرف انہیں معاشرے کے ایک مخصوص دائرے تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ دوسری طرف جو باقی رہا ہے اس میں بھی انگریزی نظام تعلیم کی اتنی آمیزش کر دی گئی ہے کہ امتزاج کے عمل سے دین کا نکھار باقی نہ رہے۔ اور یہ ایک اصول بنا دیا کہ جس نے مغربی طرز پر تعلیم حاصل کی وہی ملازمت کے حصول یا پیشہ اختیار کرنے کے قابل ہے۔

مالی استحصال

مدجنوں پر جزیہ تو عائد ہی تھا جسے ہسپانیہ میں ’بیسنٹ‘ کہتے تھے۔ میئرسن Meyerson نامی مؤرخ کے مطابق :

”ہر مسلم گھرانہ بیسنٹ نامی ایک ٹیکس ادا کرتا تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ عیسائی معاشرے میں محکوم اور ادنی درجے کا ہے۔ اس اعتبار سے یہ جزیہ کے مشابہ تھا، یعنی کہ وہ ٹیکس جو اسلامی معاشروں میں ذمی ادا کرتے ہیں۔“16

لیکن مدجن صرف ’جزیہ‘ ہی نہیں ادا کرتے تھے بلکہ بادشاہوں کی طرف سے عائد کردہ انواع و اقسام کے ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے تھے ۔ چناچہ ایک دوسرے مؤرخ باس وِل Boswell لکھتا ہے:

”مختلف شہروں میں ٹیکس کے درمیان کافی فرق تھا جو کہ شہروں کے ’الجماعہ‘ کے ریکارڈ سے بہتر معلوم ہو سکتا ہے۔ ایامِ جنگ میں اکثر شہروں سے گھڑسواروں کے اخراجات کے لیے ’کاولریاس‘ نامی اضافی ٹیکس بھی وصول کیا جاتا تھا۔لیکن بعض ’الجماعہ‘ پر کاولریاس کا ٹیکس حالت امن میں بھی عائد ہوتا تھا۔ شاہی مُدَجّن اپنے زیر کاشت جائیدادوں پر علیحدہ سے ٹیکس بھی ادا کرتے تھے……“17

یہ ان ٹیکسوں کے علاوہ تھے جن میں یہودی، عیسائی اورمسلمان سب شریک تھے۔

قانونی خلاف ورزیاں

آپ نے قانون کی خلاف ورزیوں کی اصطلاح تو سنی ہو گی۔ آیا قانونی کی ایسی خلاف ورزیاں کے بارے میں بھی سنا ہے جو قانونی بن جاتی ہوں یا قانون کے دسترس سے ہی نکل جاتی ہوں؟ بلنسیہ میں مدجنوں پر عیسائی بلوائیوں کے دھواؤں کا عمومی ذکر تو پہلے کر چکے ہیں۔ آئیے یہاں مغربی تاریخ دانوں کی زبانی ہسپانیہ میں ہونے والی قانونی خلاف ورزیوں کے چند واقعات نقل کرتے ہیں :

”بعض دفعہ معزز عیسائی بے جا تشدد اور ظلم کے ذریعے مسلمانوں کی پوری آبادی پر دہشت پھیلاتے تھے۔ صلیبی جنگی سردار ڈی آلوس اور اس کے بیٹے ’الجماعہ‘پر بھیانک ظلم کرتے تھے اور کسی کو جرات نہ تھی کہ بادشاہ کے ہاں مدجنوں کے لیے سفارش کرے۔ وہ بری طرح مسلمانوں کی بے عزتی کرتے اور جواب دینے پر انہیں مارتے۔ جانوروں کو عیسائیوں کی زمینوں پر چرانے جیسی معمولی خطاؤں پر ایسے مارتے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح معذور ہو جاتے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی وجہ بھی ان کی مارپیٹ کرتے۔ حد تو یہ تھی کہ اس کے ایک بیٹے نے مسلمان خاتون کے گھر میں گھس کر اس سے زنا کیا ۔ اور خاتون کے لیے شہر سے منتقل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔“18

ایک جگہ نقل کیا ہے کہ:

”14ویں صدی میں یہ بہت عام بات تھی کہ مسلمان کو سینکڑوں من گھڑت توجیہات کے تحت یا حتی کہ بغیر کسی معقول وجہ کے تاوان کی خاطر یرغمال کر لیا جائے۔ اس عمل میں سرکاری اہلکار اور عام عیسائی دونوں شریک تھے۔ اٹزوینا19 میں تفتیش کے دورا ن شاہی اہلکار مسلمانوں کو الل ٹپ گرفتار کر لیتے تھے اور رہائی کے بدلے خطرناک رقم وصول کرتے تھے۔ بادشاہ کی طرف سے انہیں تب جاکر منع کیا گیا جب علاقے کے جاگیر دار نے شکایت کی کہ اغوا برائے تاوان کے خطرے سے بچنے کے لیے مُدَجّن بڑی تعداد میں ہجرت کر رہے ہیں جس سے انہیں نقصان ہو رہا ہے۔

ارندہ20 کے کمانڈر نے ایک مُدَجّن کی بیٹیوں کو گرفتار کر کے ان کے والدین کو تاوان دینے پر مجبور کیا۔ جب بادشاہ کو علم ہوا تو اس نے کمانڈر کو ایسا کرنے سے روک دیا لیکن اسے کوئی سزا نہ دی ۔ جنگوں کے دوران سپاہیوں اور سرکاری اہلکاروں کے علاوہ عام عیسائی بھی مسلمانوں کو یہ بہانہ بنا کر گرفتار کر لیتے تھے کہ وہ ’باغی‘ ہو چکے ہیں اور تاوان کی خاطر قید کیے رکھتے تھے۔ اور مقصد صاف واضح تھا۔ کیونکہ فقیر یا نا معلوم مدجنوں کے بجائے تقریبا ہمیشہ ایسے معزز اور بادشاہ کے وفادار مُدَجّنوں کو گرفتار کیا جاتا تھا جو بھاری رقم ادا کرنے کے قابل ہوتے تھے۔ پھر بادشاہ اغواکاروں کو سزا دینے کے بجائے رہائی کے بدلے مدجنوں کو تاوان کی کچھ نہ کچھ رقم ادا کرنے پر آمادہ کر لیتا تھا۔ چاہے ہر دفعہ یہ ثابت ہو جاتا ہو کہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات کے بہانے گرفتار کیا تھا۔“21

قانون میں تحفظ کے ہزار وعدے ہوں لیکن قانون نافذ کرنے کی اگر نیت ہی نہ ہو تو ایسے قوانین کی کیا حیثیت۔ پھر جب قانون بنانے والے ہی قانون شکنی کرتے ہوں تو انہیں کون منع کرے۔ گویا قانون کی یہ خلاف ورزیاں خود قانونی بن جاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اندلس کی اس حالت میں اور آج پاکستان کے فوجیوں ، وڈیروں اور بھارت کے ہندو انتہا پسندوں میں کوئی فرق نہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان سب خلاف ورزیوں کے باوجود محض قوانین پاس کرنے سے قانون ساز پاکستانی اسلامی ریاست کے شرعی حکمران اور اور انڈیا کی سیکولر ریاست کے علم بردار بن جاتے ہیں!

جبری فوجی خدمات

اسلامی خلافت میں ذمیوں کو فوجی خدمات سے مستثنی قرار دیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی عقیدہ پر ایمان لانے والے سے……چاہے وہ عقیدہ باطل ہی کیوں نہ ہو …… توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی عقیدے کے ماننے والوں کے خلاف لڑ پائے یا ان کے خلاف لڑنے والوں کے خلاف نہ ہو جائے۔ لیکن دیکھیے ہسپانیہ میں کیسے قوانین کے بہانے اہل ایمان کو اہل کفر کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے پر آمادہ کیا جاتا رہا۔ اور کیسے کفریہ قانون کے تحت رہنے والے اہل ایمان میں’ایمان‘ کی حس جاتی رہی ۔ ایک جانب ہسپانوی ریاست نے مسلمانوں پر تمام مظالم ڈھا رکھے تھے اور دوسری جانب اس ریاست کے تحت مدجن کے طور پہ رہنے والے چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے اپنی ’قومی شاہی قانونی‘ ریاست کے لیے فوجی خدمات بھی ادا کرتے تھے۔ چاہے ان کے مد مقابل اپنے ہی ’اہل ایمان‘بھائی کیوں نہ مر رہے ہوں۔ چنانچہ مغربی تاریخ دان روایت کرتے ہیں:

”ان مدجنوں کی ذمہ داریاں اراغون کے دیگر ملازموں اور غلاموں کی طرح ہوتی تھیں۔ چاہے یہ خدمات بادشاہ کے لیے ہوں، یا معززین کے لیے یا کلیسا کے لیے ……مثال کے طور پہ رکلہ22 میں بادشاہ کے مسلمان ملازم کو سال میں چھ دن عسکری خدمت انجام دینی پڑتی تھی……14ویں صدی میں ان خدمات سے مستعفی ہونے کے بدلے حکومت نقدی یا اجناس کی صورت میں ادائیگیاں وصول کرنے لگی۔ “23

یہاں تک کہ سقوط غرناطہ سے قبل غرناطہ کے مسلمانوں کے خلاف طویل عرصے پر محیط صلیبی یلغار کے دوران مُدَجّنوں کو اپنے ہم وطن عیسائیوں کی مدد کرنے کے علاوہ انہیں مسلسل رقم بھی ادا کرنی ہوتی تھی:

”…… 1484 سے 1487 تک یہودی اور مسلمان غرناطہ کی مہمات کے لیے حکومت کو ’کچھ مقدار‘ ادا کرتے تھے۔“24

فضیحت کی فہرست میں مزید اضافے کے لیے یہ بھی جان لیں کہ 14ویں صدی کے آغاز میں جب عیسائی فوج مُدَجّنوں کے علاقے میں ٹھہرتی تو انہیں فوجیوں کے لیے گھر سمیت دیگر لوازمات مہیا کرنے ہوتے تھے۔ چنانچہ مغربی روایت میں لکھا ہے:

” صرف بادشاہ یا جاگیردار کے خاندان کے لیے ہی رہائش نہیں فراہم کرنی ہوتی تھی بلکہ تمام سپاہیوں اور یہاں تک کہ ان کی عیسائی اور غیر عیسائی کنیزوں کے لیے بھی ! مُدَجّنوں کے گھروں کو ان طوائفوں سے بھر دیا جاتا تھا۔ انہیں مقامی عیسائیوں کے گھروں میں تب ہی بھیجا جاتا تھا جب مدجنوں کے گھر تنگ پڑ جاتے تھے…… بعض جگہوں پر مُدَجّنوں کے ذمے قریبی قلعے میں رہنے والے سپاہیوں کے لیے بستر اور چادریں فراہم کرنا بھی تھا۔“25

مدجن صرف مالی اور لوجسٹک مدد ہی فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ باقاعدہ عسکری خدمات بھی ادا کرتے تھے۔ جیسے کہ مغربی روایت میں آتا ہے:

” اگرچہ مسلم آبادیوں اور عیسائی قابضین کے درمیان اکثر معاہدوں میں یہ شقیں موجود تھیں کہ مسلمانوں کو فوجی خدمات سے مستثنی قرار دیا جائے گا، لیکن یہ شقیں آنے والے اداور میں تقریبا مکمل طور پہ نظر انداز کر دی گئیں……اس میں کوئی شک نہیں کہ 15ویں صدی سے قبل مسلمان سپاہیوں کو بادشاہ کی فوجی مہمات میں مدد دینے کا رواج بہت عام ہو چکا تھا۔ برنز Burns نے 13ویں صدی کے حوالے سے اس رواج کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدا پیٹر دی سریمونیوس Peter the Ceremonious کے پر دادے نے 1283 میں فرانسیسوں کے خلاف ایک جنگ میں کی جب اس نے بلنسیہ کے تمام ’الجماعہ‘سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فقیہ کی طرف سے’منتخب کر دہ‘ بہترین تیر باز اور نیزے باز دستہ فراہم کریں۔ زیورٹا Zurita کے مطابق پیٹر چہارم Peter IV کی یونین کے خلاف جنگوں کے دوران شاطبہ 26کے کمانڈروں نے بلنسیہ اور دیگر علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں مدجنوں کو اس غرض کے لیے جمع کیا……“27

یہاں تک کئی مسلمانوں واقعی یہ سمجھنے لگے کہ وطن کی خاطر عیسائی بادشاہ کے دشمنوں کے خلاف لڑنا ان پر فرض ہے:

” معلوم یہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کی طرف سے زور و زبردستی کے بغیر بھی مُدَجّن سمجھتے تھے کہ اپنے وطن کے دفاع کا کچھ بوجھ اٹھانا ان پر لازم ہے۔ بلنسیہ کے عیسائیوں اور مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر قشتالہ کے خلاف حفاظتی پہرہ شروع کیا۔ اگرچہ بادشاہ کی طرف سے ایسا کرنا منع تھا اور ایسی کارروائیوں میں ملوث پائے جانے والوں پر جرمانہ بھی عائد ہوتا تھا۔“28

اور مدجنوں کے عمائدین بادشاہ کے لیے از خود سپاہی منظم کرکے فراہم کرتے تھے:

”…… مسلم گھڑ سواروں کی فراہمی کا ذریعہ صرف ’الجماعہ‘ کی تنظیم نہ تھی۔ بے شمار معزز مُدَجّن اپنے خرچے پر چند گھڑ سواروں کا بندوبست کرتے تھے چاہے رضاکارانہ طور پہ ہو یا بر بنائے ذمہ داری ۔ فرائج نامی ایسا ایک مدجن اراغون اور بلنسیہ کی سرحدوں کی خدمت کے لیے ہمیشہ کم از کم ایک گھڑ سوار تیار رکھتاتھا……جبکہ محمد ایودمی جنگ کے آغاز سے ہی ذاتی طور پہ بادشاہ کے لیے گھڑ سوار کے طور پہ خدمت انجام دیتا تھا۔ اس ذاتی خدمت کے باوجود اسے ’الجماعہ‘کی طرف سے بھی مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ جنگی مہمات میں شرکت کرے۔ علاوہ بر آں اسے فصیل کی حفاظت اور ’الجماعہ‘کے ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا کرنا پڑتی تھیں۔ بلنسیہ کے نمایاں معزز اور مالدار سعد القفاس شاطبہ میں گھڑسواروں کے ایک دستے پر آنے والے اخراجات برداشت کرتا تھا ۔“29

یہ تو ان کا حال تھا جو خود شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بنتے تھے دوسری طرف جن مدجنوں سے غداری کا شک پڑتا تھا عیسائی ان کے اہل و عیال کو یرغمال بنا کر خدمات لیتے تھے:

”…… ان حالات میں بھرتی کیے گئے افراد کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے مُدَجّن کے بیوی بچوں کو یرغمال رکھا جاتا تھا۔“30

بتایئے کہ ان مدجنوں کی حالت میں اور آج کل تمام ممالک کفریہ میں رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے جو قوانین کے مطابق حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں یا خود فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور پھر یہ افواج مل کر اسلامی ممالک میں آ کر قتل وغارت ، لوٹ کھسوٹ اور فحش و فجور کے مرتکب ہوتی ہیں۔ اور پھر سوچیے کہ ان مسلمانوں کے درمیان کیا فرق جو اپنی ہی ممالک کی افواج میں شامل ہو کر کفار کے شانہ بشانہ اور ان کے اشاروں پر اپنی ہے ہم وطن مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں ۔ بھارتی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی افواج میں بھرتی مسلمان خود سوچ لیں! اور یہاں کے رہنے والے عوام جو دفاعی بجٹ پورا کرنے کے لیے ٹیکس ادا کرنے کے بجائے دنیا بھر کے مقروض ہو جاتے ہیں وہ کہاں تک اس گناہ میں شریک رہیں؟

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 تشریح آگے آئی گی۔

2 جنہیں موریسکو، یعنی کہ چھوٹا مسلمان کہا جاتا تھا حالانکہ وہ بظاہر عیسائی بن چکے تھے۔ عیسائی بننے کے باوجود ان کے ساتھ امتیازی سلوک اپنانے کی وجہ عیسائیوں کا خدشہ تھا کہ وہ پھر سے مسلمان نہ ہو جائیں یا بغاوتیں نہ شروع کر دیں۔

3 جس میں آج کل کا لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش اور موریطانیہ شامل ہے۔

4 عربی میں ا س کا مطلب ’گھاٹیاں‘ ہے اور مغربی تاریخ میں یہ معرکہ ناواس ڈی تولوسا Las Navas De Tolosa سے جانا جاتا ہے یعنی کہ تولوسا کی پہاڑیاں۔

5 شمالی اندلس کے علاقے قشتالہ Castille اور لیون Leon

6 شیخ مرابط حفظہ اللہ ہی کی مثال سے مربوط مثال کینڈا کا پچھلے پچاس برس میں آباد ہونا ہے جہاں مسلمان معتد بہ تعداد میں موجود ہیں۔ (مدیر)

7 Aragon

8 Valencia

9 Catalonia

10 مسلمانوں کو ہسپانوی زبان میں’مور‘ Moor کہتے تھے۔ اسی نسبت سے ان کے محلے موریریا کھلائے جانے لگے۔

11 اگرچہ غرناطہ ایک وسیع مملکت تھی لیکن شہر کا ذکر اس لیے کیا کہ حقیقت میں شہر کے علاوہ باقی تمام علاقوں پر عیسائی پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے۔

12 نفح الطيب من غصن الاندلس الرطيب (4/ 525)۔ امام مقری الجزائر کے مشہور عالم ، تاریخ دان اور ادیب تھے جو کہ 1631 ء میں وفات پائے۔

13 باس ول. P 330-331

14 (Lea, ‘1906’, Vol. 2) Ibid, 52

15 Macaulay’s Minute on Indian Education ۔

16 یہاں سے آگے تمام مغربی کتب کے حوالہ جات ہم نے برادر عکرمہ شہید کی کتاب ’تاریخ نا تمام‘ سے نقل کیے ہیں۔ ان قارئین کی آسانی کی خاطر یہاں فقط ان کے انگریزی نام ذکر کریں گے جنہیں یہ شک گزرے کہ یہ یک طرف اسلامی مصادر سے لی گئی روایات ہیں۔

Meyerson, Mark D. The Muslims of Valencia: In the Age of Fernando and Isabel: Between Coexistence and Crusade. Beverly: University of California Press, 1991, P 146

17 Boswell, John. The Royal Treasure: Muslim Communities under the Crown of Aragon in the Fourteenth Century. Connecticut:Yale University Press,1977, P 196-199

18 – باسول356-357

19 – Atzuena

20 – Aranda

21 – باسول333-334

22 Ricla

23 باسول 166-167

24 میر سن 170

25 باسول169-171

26 Jativa

27 باسول171-173

28 باسول173-174

29 – باسول 185

30 – باسول182-183

Previous Post

مع الأستاذ فاروق | ستائیسویں نشست

Next Post

کفار کے ساتھ تعلقات کی شرعی حیثیت

Related Posts

لال قلعے سے لال قلعے تک | قسط دوم (حصہ دوم)
تاریخ کا سبق

لال قلعے سے لال قلعے تک | قسط دوم (حصہ دوم)

31 جولائی 2023
أَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟!
اداریہ

أَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟!

23 مئی 2023
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!
اداریہ

اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!

23 مئی 2023
فضائلِ نماز | پانچویں قسط
تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | چوتھی قسط

23 مئی 2023
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

علاماتِ کبریٰ: [پہلی نشانی] خروجِ دجّال | دسواں درس

23 مئی 2023
عیدالفطر کی مناسبت سے امیرالمومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ کا پیغام
حلقۂ مجاہد

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزاہ نصرہ اللہ کی ہدایات……مجاہدین کے نام

23 مئی 2023
Next Post
مسلمانوں کے ساتھ موالات، کفار کے ساتھ دشمنی اور مسلمانوں کے لیے راہِ عمل!

کفار کے ساتھ تعلقات کی شرعی حیثیت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version