نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تاریخ کا سبق

لال قلعے سے لال قلعے تک | قسط دوم (حصہ دوم)

عبید الرحمن المرابط by عبید الرحمن المرابط
31 جولائی 2023
in تاریخ کا سبق, جون و جولائی 2023
0

غلبۂ کفر کے تحت شریعت کا نفاذ!

کوئی کہہ سکتا ہے کہ مندرجہ بالا کئی مثالوں میں قانون سازی کا اتنا تعلق نہیں تھا جتنا قانون کے نفاذ کا تھا۔ اگرچہ ہم یہ اشکال بھی پیش کرتے آئے ہیں کہ اول تو قوانين ہی مطابق شریعت نہیں تھے ۔ لیکن اگر دنیا کے بہترین قانون کو نافذ کرنے کے بجائے اسے توڑنے کی مبینہ کوشش ہو تو پھر کیوں مقتدرہ طاقتوں کو محض قانون لکھنے کے سبب ان خلاف ورزیوں پر معاف کیا جائے اور یہ نہ کہاجائے کہ اصل میں انہوں نے قانون لکھا ہی نہیں۔ ایسے کلمے کا کیا فائدہ اور کیا وقعت جس کے مطابق عمل کرنے کا نہ ارادہ ہو اور نہ عمل ثابت ہو۔ لیکن چلیں یہاں ہم قانون سازی کی صریح مخالفتوں کا بھی ذکر کر لیتے ہیں تاکہ اندلس میں اہل دجن کو در پیش مشکلات میں بر صغیر کے مسلمان اپنی مشکلات کو دیکھ سکیں۔ اور اندلس کے مسلمانوں کے انجام سے اپنے آپ کو بچانے کی ابھی سے کوشش شروع کر دیں۔

مکمل شریعت پر عمل درآمد کرنے میں پہلی رکاوٹ یہ بن گئی کہ شرعی قوانین کا دائرہ عائلی قوانین جیسے زندگی کے چند شعبوں تک محدود کر دیا گیا جیسے کہ موجودہ کفریہ ریاستیں ہی نہیں بلکہ اکثر مسلم قوانین کا حال ہے۔ چنانچہ مغربی روایت بتاتی ہے کہ :

”……13ویں صدی میں مُدَجّن کی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کو شاہی وکیل کی نگرانی میں دے دیا گیا۔“

پھر 1329 میں الفونسو چہارم نے عیسائی ججوں کو حکم دیا کہ وہ :

”……اپنا عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوئے مسلمان قاضی کے مشورے سے سزائیں دیں۔“

مزید یہ کہ شرعی قانون کو پھر اگر شرعی اور ملکی قوانین میں تعارض ہوتا تو ملکی قوانین کو فوقیت دی جاتی ۔ چنانچہ اراغون کے بادشاہ جیم دوم Jaime II نے :

” حکم صادر کیا کہ مسلمانوں کی جانب سے عیسائیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم کی صورت میں مسلمانوں کو اس قانون کے مطابق سزا دی جائے جس کی سزا سخت ترین ہو۔ تاکہ اُن عیسائی شکایتوں کا موقعہ ہی نہ آئے کہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے سے مسلمانوں کو انتہائی نرم سزا دی جاتی ہے…… البتہ نظر یہ آتا ہے کہ فرنانڈو کے دور میں تمام مسلمانوں کو جن پر عیسائیوں کے خلاف جرم کا الزام تھا عیسائی قانون کے مطابق سزا دی جاتی رہی۔“

مزید بر آں شرعی عدالت فیصلہ دے بھی دیتی لیکن اس کے پیچھے قوت نافذہ نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان خود شرعی عدالت کے بجائے ملکی عدالت کی طرف رجوع کرتے تھے۔

” مُدَجّن اپنے ہم مذہب افراد کے خلاف اکثر عیسائی عدالتوں میں جایا کرتے تھے تاکہ ضدی قرض دار اور دور دراز رہنے والوں کے خلاف شاہی انتظامیہ کو حرکت میں لا سکیں۔ اگرچہ قاضی کے فیصلے وکیل کی تائید کے بغیر بھی کچھ نہ کچھ وزن رکھتےتھے لیکن شاہی عدالت ہی فعال اور با اثر تھی۔“

بالفاظِ دیگر مُدَجّن خود کفار کے قانون کو بظاہر ’کارگر‘ ہونے کے سبب بہتر سمجھتے تھے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ شرعی فیصلے صادر ہو بھی جاتے تو اس وقت تک بے وقعت رہتے تھے جب تک کافر جج ان کی تائید نہ کر دیں۔

پھر مدجنوں کو ملکی عدالت سے مانوس کرنے کے لیے انصاف کی کچھ ظاہری شکلیں اپنائی گئیں اگرچہ فیصلے عیسائی قانون کے مطابق ہی ہوتے تھے:

”عدالتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی عیسائی وکیل کیا کرتے تھے۔ یہ وکیل بسا اوقات مسلمان کے لیے حمایتی کونسل کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ وکیل اپنے مسلم موکلین کے مقدمات میں لاپرواہی اس لیے نہیں برتتے تھے کیونکہ پیشے میں کوتاہی کا نتیجہ موکل کے کھو جانے میں نکلتا تھا جو کوئی نہیں پسند کرتا۔

مسلمانوں کو عیسائیوں کے خلاف الزامات لگانے پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ چنانچہ جب (ایک مدجن خاتون) ’آکسا کرسٹلی‘اپنے بیٹے کے قتل کے مقدمہ میں مدعی علیہ (صلیبی جنگی سردار) گیسپر ڈی مونسورین اور اس کے محافظین پر الزام لگانے عدالت میں حاضر نہ ہو سکی تو وائسرائے نے خاتون کی دلجوئی کے لیے ایک سرکاری افسر کو خود الجماعہ بھیجا تاکہ وہ دعوی تحریر کرے ۔“

نیز مسلمانوں کو غیر شرعی عدالتوں سے مانوس کرنے کے لیے چند مذہبی رسومات کو بر قرار رکھا گیا چنانچہ مسلمان ملکی عدالتوں میں:

” قرآن پر قسم اٹھاتے تھے۔ عدالتی کارروائی کے ریکارڈ میں مسلمانوں کے بارے میں اکثر یہ درج ملتا ہے کہ ’وہ مشرق کی سمت اپنے خدا اور محمد کے قبلے کی طرف ہو کر مڑ گئے اور وہ الفاظ دہرائے جو مور عموما قسم اٹھاتے ہوئے دہراتے ہیں‘……“

معاملہ صرف ملکی بمقابلہ شرعی قوانین کے نفاذ کا نہ رہا بلکہ رفتہ رفتہ ایسے مدجن فقیہ پیدا ہو گئے جو ملکی قوانین سے ہم آہنگی کی خاطر نئی فقہ ایجاد کرنے لگے اور پہلا ہدف اقتصادی احکام بنے۔چنانچہ مغربی روایت میں آتا ہے:

”اقتصادی قوانین کے معاملے میں شریعت سب سے زیادہ لچکدار اور مسلم قانون دان سب سے زیادہ مخترع پائے گئے ۔“

میں ’مخترع‘ کے لفظ پر زور دوں گا کیونکہ اس وقت بھی علماء ایسے حیلوں میں لگے رہے جیسے کہ ہمیں آج کل اسلامی بینکاری کے معاملے میں درپیش ہیں۔

قانونی جنسی بے راہ روی

میری کوئی اراده نہیں تھی کہ جنسی تعلقات سے متعلق قوانین کو علیحدہ سے ذکر کروں۔ لیکن اندلس کی تاریخ پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اس پہلو کو ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ مسلمانوں کو مدجن بنانے کا اور دین سے پھیرنے کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ اور اتفاقاّ گزشتہ دو سال سے دنیا بھر میں جنسی آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے۔ نو عمری میں جب قرآن کی آیات پڑھتے تھے کہ شیطان نے حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کو جب ورغلایا تو مقصد انہیں بے لباس کرنا تھا۔ اس وقت نا فہمی کی بنا پر کچھ تعجب ہوتا تھا کہ بھلا یہ کیوں۔ اور کیوں اللہ تعالی نے شیطان کی چالوں سے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تو انسانوں میں فحش اور منکرات کو پھیلانا چاہتا ہے۔ لیکن اندلس کی تاریخ اور حال کے جائزہ کے بعد یہ کوئی تعجب نہیں رہتا۔ کہ انسانیت کو تباہ کرنے کا یہ شیطان کا اولین اور کامیاب ترین حربہ رہا ہے۔ اس لیے سمجھ میں آتا ہے کہ شریعت میں پردے اور جنسی تعلقات میں احتیاط کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے۔ جبکہ ہر باطل نظام میں ا س کا الٹ ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ امت مسلمہ پر باطل کی حکمرانی کا یہ پہلو کوئی نیا نہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ ہسپانیہ کے کافر حکمرانوں نے قانون کے ذریعے کیسے مسلم مدجن معاشرے میں فحاشی کے راستے کھولے۔

اراغون اور بلنسیہ کے حکمران ایسے قوانین نافذ کرتے تھے جس سے مسلمانوں کے اخلاق تباہ ہوں اور عیسائیوں کو آزادی ملے کہ مسلمان خواتین کے ساتھ جو چاہیں کرتے پھریں۔ ملکی قانون کے مطابق اگر مسلمان مرد عیسائی خاتون کے ساتھ زنا کرتا تو دونوں کو زندہ جلاکر قتل کر دیا جاتا۔ لیکن اگر عیسائی مرد مسلم خاتون کے ساتھ زنا کرتا تو عیسائی مرد پر کسی قسم کی کوئی سزا نہ تھی جبکہ مسلم خاتون پر شرعی سزا نافذ کی جاتی ۔ لیکن یہ سزا بھی تقریبا ًہمیشہ شاہی حکمرانوں کی طرف سے تبدیل ہو جاتی اور شرعی سزا کے بجائے خاتون کو حکم دیا جاتا کہ وہ شاہی کوٹھے میں طوائف کے طور پہ کام کرے ۔ ایسا ٹیڑھا انصاف دیکھ کر انسان انگشت بدندان رہ جائے یا شرم سے ڈوب مرے!!با عزت موت کے بجائے اس خاتون کو ایسی زندگی دی جاتی ہے جس میں عمر بھر رسوائی اور بے عزتی لکھی تھی۔ اور یہ سب تاکہ عیسائی معززین کی ہوس پوری کی جا سکے۔ چنانچہ مغربی مؤرخ ذکر کرتے ہیں کہ:

”مسلم خاتون کے ساتھ زنا کرنے والے عیسائی مرد کو کوئی سزا نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن مسلمان خاتون کو سزا کے طور پہ تقریبا ہمیشہ غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ معاشرے کے کمزور افراد ، یعنی کہ مسلمان مرد اور خواتین کو ان تعلقات کی سزا دی جاتی تھی جو کہ معاشرے کے طاقتور افراد، یعنی کہ عیسائی مرد قانوناً ان سے قائم کرتے۔ مسلمان خواتین کو عیسائی خواتین کی نسبت کم سزا دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی مرد یہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی تفریح پر خود پابندی لگا دیں۔“

شریعت کو بے اثر اور بے وقعت بنا کر اس کے بدلے شاہی فرامین نافذ کرنے کی وجہ سے بھیانک قانونی نتائج برآمد ہوئے جن میں سے واضح ترین مسلمان خواتین کا یہ رویہ تھا کہ وہ سنگساری سے بچنے کے لیے شاہی کوٹھوں (قحبہ خانوں) میں غلامی اور طائفہ بازی کو ترجیح دینے لگیں:

” 14ویں صدی کی دستاویزات میں تمام مذکورہ خواتین نے (شرعی سزا کے بجائے) غلامی کو ترجیح دی۔ چنانچہ مسلمان کنیزوں کی تجارت بہت بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ بادشاہ کی ملکیت میں اتنی خواتین آ گئیں کہ اب اس کے مصاحبین میں دوڑ لگ گئی کہ وہ عیسائی مرد کے ساتھ زنا کرنے والی مسلمان خواتین پر اپنا حق جمائیں ۔ پھر اضافی کنیزوں کو بادشاہ یا تو فروخت کر کے اپنے خزانے بھرتا۔ اور یا اپنے اہلکاروں کو بطور تحفہ پیش کرتا۔ کنیزیں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ بادشاہ کو ان کے بجائے ان سے حاصل شدہ رقم کی حرص ہوتی تھی۔ خاتون جتنی کم عمر ہوتی اتنی قیمت زیادہ لگتی تھی۔“

بعض مصنفین کے مطابق :

” بلنسیہ کے سرکاری ریکارڈ میں طوائفوں کی اکثریت مسلمان تھی……“

ان واقعات سے خود واضح ہوتا ہے کہ مسلمان خواتین کے ساتھ زبردستی زنا کتنا عام ہو چکا تھا:

”مُدَجّن خاتون کے ساتھ زبردستی زنا کرنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ لیکن اس معاملے کا سب سے بھیانک پہلو غلامی کے قانون کا غلط استعمال تھا۔ بادشاہ کے دربار میں کسی معزز کو وہ مسلمان خاتون بطور غلام ملتی تھی جسے اس نے خود ہی قانون توڑنے پر آمادہ کیا ہوتا تھا۔ گویا یہ دوہرا استحصال تھا۔ 1356ء میں پیٹر نے اپنے اختیار میں ان تمام مسلم خواتین کے ’حقوق‘جنہیں عیسائیوں کے ساتھ زنا کرتے پایا گیا روضہ نامی عیسائی ڈیرے کو دے دیے ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان خواتین کو اپنی ذاتی خدمت کے لیے یا بیچنے کی خاطر بطور غلام رکھ سکتے تھے ۔ بادشاہ نے اراغون کے اعلیٰ وکیل کو ہدایت دی تھی کہ اس فیصلہ کا احترام کیا جائے۔ لیکن اگلے سال ہی اسے اپنے ہی عطیے کے قانون میں تھوڑی سی تبدیلی لانی پڑی اور خاص طور پہ ذکر کرنا پڑا کہ راہبوں کو وہ خواتین بطور غلام نہیں دی جا سکتیں جن پر انہی راہبوں کے ساتھ زنا کا الزام ہو۔

مُدَجّن خواتین کا یہ جنسی استحصال، اپنے ہولناک نتائج سمیت، اس حقیقت کی بنا پر زیادہ افسوسناک معلوم ہوتا ہے کہ اراغون کے بادشاہ کے تابع علاقوں میں طوائفیں بے تحاشا تھیں۔ دونوں مسلمان اور عیسائی ۔ 14ویں صدی کے اراغونی بادشاہوں نے طوائف بازی کو پورے اراغون، قطلونیہ اور بلنسیہ میں اجازت دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ اس کام کے لیے مخصوص محلے یا گھر مقرر کیے گئے تھے۔ طوائف کو زندگی کا ایک عام حصہ تصور کیا جاتا تھا یہاں تک کہ جنگ کے دوران کرائے کے سپاہیوں کی جانب سے طوائفوں کی رہائش گاہوں کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور خصوصا یہ کہ ایسی خواتین کو مسلمانوں کے گھروں میں رکھا جاتا تھا……“

یہاں تک کہ مسلمان مردوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا:

”مزید برآں مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی الزام لگا سکتا تھا بشمول ان عیسائی خواتین کے جو اپنی رضا سے ان کے ساتھ زنا کرتی تھیں۔ جبکہ الزام لگانے والوں کو جو اسی جرم میں شریک ہوتے تھے مکمل تحفظ حاصل تھا۔“

تاریخی دستاویزات میں صرف قوانین ہی نہیں ذکر کیے گئے بلکہ مختلف مقدمات کی تفاصیل بھی درج ہیں۔ مثلاً 23 جون 1491 کو مسلمان خاتون مریم کو بلنسیہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کے ریکارڈ کے مطابق مریم سے کی گئی تحقیق کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

”مریم اپنے شوہر محمد جاہوپی سے تنگ تھی ۔ اسے مہر بھی نقد کے بجائے اس وقت رواج کے مطابق کاغذ پر لکھے ہوئے اقرار نامے کی صورت میں دیا گیا۔ اس کی والدہ نے اسے واپس اپنے شوہر کے پاس جانے کا کہا لیکن وہ ایک مسلم دلال کے ساتھ بلنسیہ بھاگ نکلی جس نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لے گا۔لیکن بلنسیہ آنےکے بعد اس شخص نے ڈرایا کہ اگر یہاں حکومت کو معلوم ہوا تو مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی میں مشہور ایک بڑا جاگیردار لارڈ کارڈینال کے اہلکار اسے باندی بنا دیں گے اس لیے بہتر ہے کہ اسے ایک دوسرے معزز سردار ڈان الٹوبیلو کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے جو شفیق انسان ہے تاکہ وہ لارڈ کارڈینال کے ظلم سے محفوظ رہے۔ پھر دلال نے مریم کو یقین دلایا کہ اسے بیس پاونڈ کے بدلے ڈان الٹوبیلو کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہے جو اسے قحبہ خانے میں رکھے گا۔ اس نے یہ سب بامر مجبوری قبول کیا۔ بعد میں ڈان الٹوبیلو سے معلوم ہوا کہ اس نے تیس پاونڈ ادا کیے تھے۔ اسے بلنسیہ کے موریریا (مسلم محلے) کے قحبہ خانے میں رکھا گیا جہاں اسے کام کرتے ہوئےابھی دو دن ہوئے تھے ۔ وہ جو بھی کماتی ڈان الٹوبیلو کو دیتی جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی جان خلاصی کے لیے جمع کرتا رہے گا۔ مریم نے اقرار کیا کہ وہ اپنے اس اعتراف پر قائم ہےاور اپنی خواہش بھی ظاہر کی کہ وہ اپنے پرانے شوہر کے بجائے اپنی والدہ کے گھر جانا چاہتی ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مریم کو اختیار ہے وہ چاہے تو والدین یا اپنے سابقہ شوہر کے گھر چلی جائے اور چاہے تو قانونی طور پر طوائف بن جائے!! “

آپ عدالت کے اس قضیے سے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مدجنین کا غیر اسلامی قوانین کے تحت زندگی گزرانے سے ان کے معاشرے میں کتنی تنزلی واقع ہو گئی کہ مسلم علاقوں میں بھی قحبہ خانے عام ہو گئے۔ جبکہ پورے ملک میں طوائفوں کی اکثریت مسلمان خواتین بن گئیں۔

کل کا اندلس آج کا بر صغیر

اندلس کی عیسائی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے ایسے قوانین کی تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسی کہنے کو ’اسلامی ریاست‘ میں اپنے ہی مسلمانوں کو اخلاق باختہ کرنے کی سمجھ کیسے آ سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ پاکستان کے مزعومہ ’اسلامی ‘ قوانین کا جائزہ لے کر مسلم اکثریتی سیکولر بنگلہ دیش اور ہندو اکثریت ہندو پرست بھارت کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔

پاکستان بننے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد مارچ 1949 میں ایک قانون ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کو منظور کیا جس کے بل بوتے پر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا۔ گویا پہلے ڈیڑھ سال کے لیے وہ کافر تھی اور سربراہ ریاست برطانیہ کا عیسائی بادشاہ جارج ششم ہی رہا! لیکن ذرا رکیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ1949 میں ’کلمہ‘ پڑھنے سے شرعی احکام نافذ ہو گئے کیونکہ پہلا آئین تو مارچ 1956 میں بنا تھا اور جارج ششم کے مرنے کے بعد ۱۹۵۶ تک الزبتھ دوم پاکستان کی ملکہ رہی۔ اس سے پہلے تک قرار داد مقاصد منظور ہونے کے باوجود ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935‘ کا قانون ہی لاگو تھا۔ گویا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کلمہ پڑھنے کے بعد 7 سال بعد اس نے اس پر عمل کرنا قبول کیا!!تو آیا کلمہ پڑھنے کے ساتھ شریعت پر عمل سے انکار کے بعد بھی شخص مسلمان رہتا ہے؟لیکن دو سال بعد ہی اس آئین کو فوجی انقلاب کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا!! تو آیا ریاست پھر سے مرتد ہو گئی تھی؟پھر جاکر 1962 میں دوبارہ قرار داد مقاصد سمیت ایک نیا آئین مرتب کیا گیا۔ گویا تین سال بعد دوبارہ مسلمان ہو گئی۔ لیکن سال سات بعد 1969 میں اسے دوبارہ منسوخ کر دیا گیا۔ تو پھر سے مرتد ہو گئی؟بالآخر 14 اگست 1973 میں وہ آئین عملا نافذ ہوا جس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ کافی حد تک پھر سے ریاست مسلمان ہو گئی۔ لیکن 1977 میں فوجی انقلاب کے ساتھ پھر سے آئین کو معطل کر دیا گیا اور 8 سال بعد اسے بحال کیا گیا۔ اسی طرح 1999 میں فوجی انقلاب میں اسے دوبارہ معطل کر کے 3 سال بعد بحال کیا گیا!! اب سمجھ نہیں آتی کہ ریاست نے کتنی دفعہ مسلمان ہونا ہے اور کتنی دفعہ مرتد؟ اور اس ملک کو کیسے اسلامی کہہ سکتے ہیں جہاں ایک شخص آ کر کبھی کلمہ پڑھ لیتا ہے کبھی انکار کر دیتا ہے۔ کبھی معطل کر دیتا ہے۔

لیکن عجیب بات یہ ہےکہ کلمہ پڑھنے کے باوجود 30 سال بعد تک ریاست نے زنا پر وہ حد لاگو کرنے سے انکار کیا تھا جو اللہ تعالی نے مقرر کی تھی۔ اور اس کے بجائے برطانیہ سے وراثت میں ملی تعزیرات ہند 1898 ہی نافذ رہی جس کے مطابق حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے بقول ہمارے ”ملک میں زنا بالرضا جائز تھا“ !! 30 سال تک ریاست نے زنا کو جائز کر رکھا تھا لیکن اس کے اسلام پر کوئی فرق نہیں آیا؟!پھر 30 سال بعد 1979 میں حدود آرڈیننس نافذ ہونےکے بعد ریاست نے اقرار کیا کہ ہاں کلمہ کے اقرار کے بعد اب وہ شرعی حدود بھی تسلیم کرتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ 26 سال حدود کے مزعومہ نفاذ کے بعد 2006 میں ’تحفظ حقوق نسواں بل‘ کی آڑ میں ریاست دوبارہ ان سے مکر گئی!! معلوم نہیں کہ اس مسلمان کا کیا حکم ہو گا جس نے اپنی 76 سالہ زندگی میں صرف 26 سال کے لیے شرعی حدود کو تسلیم کیا ہو؟ اور خدشہ یہ ہو کہ وہ اسی انکار پر مر ہی نہ جائے۔ ظاہر ہے ہم زنا کے ارتکاب کی بات نہیں کر رہے بلکہ زنا کے حد کی انکار کی بات ہو رہی ہے۔

اب دیکھیے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی نظر میں تحفظ حقوق نسواں بل سے ریاست نے شریعت کی کون کون سی سنگین مخالفتوں کا اقرار کیا ہے:

  • ”زنا بالجبر کی جو سزا قرآن وسنت نے مقرر فرمائی ہے اور جسے اصطلاح میں حد کہتے ہیں اسے اس بل میں مکمل طور ختم کر دیا گیا ہے، اس کی رو سے زنا بالجبر کے کسی مجرم کو کسی بھی حالت میں شرعی سزا نہیں دی جا سکتی، بلکہ ہر حالت میں تعزیری سزا دی جائے گی“ اور یہ ”واضح طور پر قرآن وسنت کے احکام کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
  • حدود آرڈیننس میں ”جس جرم کو ’زنا موجب تعزیر‘ کہا گیا تھا اسے اب ’فحاشی‘ lewdness کا نام دے کر اس کی سزا کم کر دی گئی ہے اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔“ اور”اسے نا قابل دست اندازئ پولیس قرار دے کر یہ ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ کوئی شخص چار گواہوں کو ساتھ لے کر عدالت میں شکایت درج کرائے……اس طرح زنا قابل حد ثابت کرنے کے لیے طریق کار کو مزید دشوار بنا دیا گیا ہے“۔”زنا بالرضا موجب حد‘ اور ’فحاشی‘ کو نا قابل دست اندازئ پولیس قرار دے کر ان جرائم کو جو مختلف تحفظات دیے گئے ہیں وہ ان جرائم کو عملاً نا قابل سزا بنا دینے کے مترادف ہے‘‘۔
  • قاری محمد حنیف جالندھری روزنامہ اسلام میں شائع شدہ اپنے مقالے بعنوان ’تحفظ نسواں بل یا نظریات کا تصادم‘ میں اضافہ فرماتے ہیں: ”شریعت میں حد کے قیام کی شرط بلوغ ہے اور اس کا دار و مدار بلوغ پر ہے نہ کہ عمر پر، جبکہ بل میں بلوغ کی بجائے 16 سال کی عمر کو مدار بنایا گیا ہے۔ یہ خلاف شریعت ہے“۔

اس سب کا حاصل کیا؟قاری محمد حنیف جالندھری کے بقول: ”نوجوان جوڑوں کو بغیر نکاح اکٹھے رہنے کا جواز مل جائے گا۔ ان کے آپس میں تعلقات پر انتظامیہ کوئی اقدام نہیں کر سکے گی۔ حتی کہ اگر کوئی دوسرا فرد اس کی نشان دہی کرے تو الٹا اسی کو قذف کی سزا بھگتنا پڑے گی‘‘۔ گویا جیسے عیسائی بادشاہوں کی خواہش تھی کہ اندلس کے مسلمان بے راہ رو ہو کر ان کی جنسی خواہشات پوری کریں یہاں نام نہاد ’مسلم‘ حکمرانوں اور مقتدر طبقے کی خواہش ہے کہ وہ کمزور اور بے چارے عوام کےساتھ ایسا کریں۔ اس کی تائید مفتی تقی عثمانی صاحب صرف جنسی قوانین کے حوالے سے نہیں بلکہ ریاست کے پورے نظام کے حوالے سے ایسے کرتے ہیں: ”صرف حدود قوانین ہی نہیں بلکہ ملک کے پورے نظام کو با اثر اور طاقتور طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ قوانین کا استعمال کمزورں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ انہیں مزید پریشان اور زیر دست رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے‘‘!! اس کے بعد کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ریاست نے محض گناہ کا ارتکاب کیا ہے نیت اس کی اچھی ہے اور اب بھی وہ کلمہ پر قائم ہے؟

یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے معاشرے میں محض ایک دو شرعی احکام کا نقض کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مکمل شریعت کا ہی انکار ہے آئیے مفتی صاحب کے چند مزید اقوال کو دیکھتےہیں:

  • مکمل شریعت نافذ نہیں ہے: مفتی صاحب فرماتے ہیں: ”حدود کے قوانین اسلامی تعلیمات او راحکام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں یہ کل اسلام نہیں ہیں۔ ان قوانین کا نفاذ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا ایک مرحلہ تھا منزل نہیں تھی“۔ لیکن یہ مرحلہ بھی واپس کر دیا گیا۔ نیز فرماتے ہیں کہ حدود کےقوانین کے علاوہ ”تعزیرات پاکستان کو شرعی عدالت کے دائرۂ کار سے باہر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان میں پائی جانے والی خامیوں کےتدارک کے لیے کوئی تجویز نہیں دے سکتی تھی“۔ دیکھا جائے تو ہسپانوی قانون میں مدجنوں کو پاکستان سے زیادہ شریعت پر عمل در آمد کی آزادی تھی۔ کہ وہاں شریعت میں حدود اور تعزیرات سمیت فقہ کا اکثر حصہ شامل تھا۔ لیکن پاکستان میں حدود شرعی عدالت کے دائرے میں ہیں جبکہ تعزیرات ، تعزیرات ہند کے برطانوی قانون سے ماخوذ ہیں۔ اور انہیں شرعی عدالت کی دسترس سے دور رکھا گیا ۔ ہسپانیہ میں تو اتنی رعایت دی گئی تھی کہ جج مسلمان قاضی سے مشورہ کرے گا۔ جبکہ پاکستان میں قاضی کے لیے جج کو مشورہ دینا بھی ممنوع ٹھہرا ہے۔ گویا آج آئین میں حدود آرڈیننس کا نام دیکھ کر یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی مکمل شریعت بھی نافذ رہی ہے۔
  • نافذ شدہ شرعی قوانین بھی شریعت کے مطابق نہیں: پھر حدود آرڈیننس بھی مکمل شریعت کے مطابق نہ تھا اور نہ ہی شریعت کے مدعا کو پورا کرتا تھا۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں: ”کئی جج صاحبان نے حدود آرڈیننس کے بارے میں یہ تبصرہ کیا کہ اس میں فرار elopement کو جرم قرار نہیں دیا گیا۔ اس لیے یہ از خود فرار ہونے والی لڑکیوں کے حق میں ضرورت سے زیادہ نرم ہے، جس کے نتیجے میں عموماً سزائیں مرد کو ہی ہوتی ہیں اور عورت بچ نکلتی ہے۔“ مزید فرماتے ہیں کہ حدود آرڈیننس میں مذکورہ”’ زنا موجب تعزیر‘ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قرآن و سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زنا یا تو موجب حد ہے یا پھر وہ زنا نہیں……“
  • تعارض کی صورت میں غیر شرعی قوانین کو ترجیح حاصل ہے: صرف یہی نہیں بلکہ شرعی اور غیر شرعی قانون میں تعارض کی صورت میں غیر شرعی قانون کو ترجیح حاصل ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ”شروع کے سالوں میں ایسے متعدد کیس ہوئے ہیں جن میں عورتوں کو واقعۃً مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی وجہ حدود آرڈیننس کا کوئی نقص نہیں تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی ایک خلاف شرع دفع تھی“ ۔گویا کہ ترجیح غیر شرعی مسلم فیملی لاز آرڈیننس کو دی جا رہی تھی۔ لیکن تحفظ نسواں بل میں علانیہ حدود آرڈیننس کی مندرجہ دفعات یکسر ختم کر دی گئیں جیسے کہ: ”اگر کسی دوسرے قانون اور حدود آرڈیننس میں کہیں کوئی تضاد ہو تو حدود آرڈیننس کے احکام قابل پابندی ہوں گے“۔ اور یہ کہ ”اس آرڈیننس کی تشریح اور اطلاق میں اسلام کے وہ احکام جو قرآن کریم اور سنت نے متعین فرمائے ہیں بہر صورت مؤثر ہوں گے چاہے رائج الوقت کسی قانون میں کچھ بھی درج ہو“۔ اور اس طرح انسان کے مرتب شدہ قوانین اللہ کی شریعت سے بالا تر ہو گئے۔
  • حدود اللہ کو منسوخ کرنا حکومت کے ہاتھ میں: تحفظ نسواں بل میں علانیہ لکھ دیا گیا ہے کہ :” کوئی عدالت کسی کو حد کی سزا دے دے تو حکومت کو ہر وقت یہ اختیار ہے حاصل ہے کہ کہ وہ اس سزا میں تبدیل یا تخفیف کر سکے۔ یہ ترمیم قرآن وسنت کے واضح ارشادات کے خلاف ہے“۔ سوچیئے یہ کیسی ’مسلم‘ ریاست ہے جو اقرار کرتی ہے کہ انسان شریعت لغو کر سکتا ہے؟!
  • محض عملی گناہ نہیں بلکہ غیر اللہ کی شریعت کی دلی چاہت ہے: پھر جب تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے حدود آرڈیننس کو ناکارہ بنا دیا تو مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ملک میں چند افراد نے زنا کا عملاً ارتکاب کیا تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ یہ افراد الٰہی شریعت پر انگریزی قانون کو دل سے ترجیح دے رہے تھے۔ جیسے کہ مفتی صاحب فرماتے ہیں: ”جو حضرات پرانے اینگلوسیکسن قانون کو بحال رکھنا مناسب سمجھتے تھے یعنی زنا بالرضا کو قانونی جرم قرار نہیں دینا چاہتے تھے ان کے لیے کھلے بندوں یہ کہنا تو اس ملک میں مشکل تھا کہ رضا مندی سے زنا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ لیکن انہوں نے اس مطالبے کو عورت کے ساتھ نا انصافی کے خاتمے کا عنوان دے کر اعتراض کیا“، اور پھر انہوں نے اپنی دلی چاہت کو صرف اپنے حد تک ہی نہیں محدود کیا بلکہ تمام مسلمانوں پر قانوناً نافذ کر دیا! قاری حنیف جالندھری حکمرانوں کی نیت کے بارے میں کہتے ہیں: ”نسواں بل کی منظور ی در اصل پاکستان کے اندر سیکولرازم یعنی لا دیینت کے نفاذ کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد بتدریج امتناع قادیانیت، ناموس رسالت اور پاکستانی آئین میں موجود دیگر اسلامی دفعات میں حذف و ترامیم کی باری آئے گی“۔ تعجب ہے کہ اس کے بعد بھی بعض علماء کے بقول ’ریاست‘ اپنے اسلام پر قائم ہے؟!

اور جیسے قاری حنیف صاحب نے کہا حقیقت میں اس سے بڑھ کر ہو گیا کہ جس فحاشی اور زنا کا راستہ 2006 میں تحفظ حقوق نسواں کے نام سے کھولا گیا وہ اتنی بڑھ گئی کہ ایک دہائی کا عرصہ گزرا نہیں تھا کہ 2018 میں ٹرانس جینڈر (تحفظ حقوق) کے نام سے وہ ایکٹ نافذ ہوا جس کے ذریعے ریاست نے شریعت میں حرام ’ہم جنس پرستی‘ کو بھی حلال قرار دیا!! اور ہمیشہ کی طرح کفریہ قوانین قابل قبول بنانے کے لیے ناموں سے کھیلا گیا۔ پہلے خواتین کے تحفظ کے نام پر اور اب خواجہ سراؤں کے تحفظ کے نام پر ۔ اور ’مخنث‘ کی شرعی اصطلاح کے بجائے ’ٹرانس جینڈر‘ کی مغربی اصطلاح استعمال کی گئی جس سے بر بنائے خلقت پیدائشی’مخنث ‘ ہی مراد نہیں بلکہ عورتوں کے انداز اپنانے والے ’مخنث‘ مرد اور مردوں کے انداز اپنانے والی ’مترجلہ‘ عورت کو بھی حقوق دے دیے گئے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ’مخنث ‘ بننے والے مرد اور ’مترجلہ‘ عورت پر لعنت بھیجی ہے۔

شریعت میں ’مخنث‘ اور ’خنثی‘ اسے کہتے ہیں جسے بر بنائے خلقت نہ واضح طور پہ مرد قرار دیا جا سکے اور نہ واضح طور پر عورت۔ ان میں سے جس فرد کی شباہت مردوں سے ہو تو اسے مخنث اور جس کی عورتوں سے ہو اسے خنثی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ خلقت ہے جو من جانب اللہ یعنی پیدائشی ہو ۔ لیکن ٹرانس جینڈر کی حالیہ اصطلاح اس سے بہت مختلف ہے۔ ’جینڈر‘ تو صنف یا جنس کو کہتے ہیں اور ’ٹرانس‘ سے مراد تبدیل شدہ ، آر پار اور ہمہ شمول ہوتا ہے۔ 1965 میں جب امریکی ماہر نفسیات نے یہ اصطلاح استعمال کی تو اس سے مراد وہ نفسیاتی مریض تھے جو مرد ہوتے ہوئے زنانہ پن کا شکار تھے یا عورت ہوتے ہوئے مردانہ پن کا۔ جن کے لیے مخنث مرد اور مترجلہ عورت کی اصطلاح شریعت میں آئی ہے اور ان پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ لیکن شیطان نے اپنے بچاریوں کو سجھایا کہ یہ نفسیاتی مرض ، بد اخلاقی یا شیطانی خناس نہیں بلکہ ایک ’معصوم‘ فطری طبیعت ہے جو بعض مرد اور خواتین میں پائی جاتی ہے اوراس کے سبب ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا سکتا!!

ابھی تمام کافر ممالک میں ٹرانس جینڈر افراد کے تمام حقوق نہیں تسلیم کیے گئے تھے کہ بر صغیر کی ’اسلامی‘ مملکت پاکستان کو ان کی فکر پڑ گئی اور عالمی عدالت برائے انصاف کے مطابق پاکستان ان چند پہلے ممالک میں ہے جہاں ایسے قوانین تسلیم کیے گئے ہوں۔ خواجہ سراؤں کے خلاف معاشرے میں پائی جانے والی فرسودہ روایات اور ان روایات کی وجہ سے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بہانہ بنایا گیا اور اس بہانے سے ہر قسم کی ہم جنس پرستی کے سامنے دروازے کھول دیے گئے۔ در حقیقت یہ فرسودہ روایات بر صغیر کے مسلمانوں میں ہندوؤں سے آئی ہیں کیونکہ ہندومت کی پرانی کتابوں میں خواجہ سراؤوں کو ’ہیجڑا‘ کہا جاتا تھا اور انہیں ایک مخصوص طبقہ بنا کر ان کا پیشہ ناچ گانا اور فحاشی بنا دیا گیا تھا۔ بد قسمتی سے یہ ثقافت بر صغیر کے مسلم معاشروں میں بھی سرایت کر گئی۔ اور خواجہ سراؤں کو لازما بدکار سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ بر صغیر میں پائے جانے والا ہیجڑا کلچر باقی عالم اسلام میں نہیں ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں بچپن میں عمرے کے لیے گیا اور مکہ کے حرم شریف میں ایسے مرد دیکھے جن کی داڑھیاں نہیں تھی ، سر پر سرخ ٹوپیاں اور تن پر سفید لباس تھا۔ اور امام حرم کے لیے خدمت پر مامور تھے۔ میں نے تعجب سے والدین سے پوچھا کہ ان کی داڑھیاں کیوں نہیں ہیں تو انہوں نے میر ی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کنایۃً کہا کہ بیٹا یہ شادیاں نہیں کر سکتے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی ہم سرکاری سرپرستی میں ہندوؤں کے ہیجڑا کلچر کو فروغ دیتے رہے۔

اس حوالے سے اس ایکٹ کے چند نمایاں نکات درج کرتے ہیں جن پر حکم لگانے کے لیے ہمیں کسی استدلال کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر مسلمان بہتر جانتا ہے اور باتیں بھی ایسی ہیں جن کے ذکر سے شرم آتی ہے :

  • ہر شخص کو جینڈر expression یعنی ’صنفی اظہار‘کی آزادی ہے۔ جس سے مراد یہ کہ ”کوئی فرد اپنی جنس کا خود تعین کر کے اس کو کیسے ظاہر کرتا ہے یا دوسرے لوگ اس کو کیسے سمجھتے ہیں“۔
  • ہر شخص کو جینڈر identity یعنی ’صنفی شناخت‘ کی بھی آزادی ہے۔ جس سے مراد ”ایک فرد اپنے انتہائی داخلی احساس کی بنیاد پر اپنی انفرادی جنس کو مرد، عورت، دونوں، یا ان میں سے کوئی بھی نہ متعین کرنے کا فیصلہ کرے چاہے یہ اس کی پیدائشی جنس سے مطابقت رکھے یا نہ رکھے“۔
  • لہذا ٹرانس جینڈر فرد وہ ہے جو :
    • ”مخنث (خسرہ) ہو ، جس کے پیدائشی جنسی اعضاء میں یہ واضح نہ ہو کہ وہ مرد ہے یا عورت۔
    • جس کے پیدائش کے وقت تو خصیے تھے لیکن بعد میں کاٹ دیے گئے۔
    • ٹرانس جینڈر مرد، یا ٹرانس جینڈر عورت، یا کوئی ایسا فرد جس کا صنفی اظہار (جینڈر ایکسپرشن) یا صنفی شناخت سماجی اور ثقافتی توقعات کی بنیاد پر اس جنس سے مختلف ہو جو اس کی پیدائش کے وقت متعین کی گئی تھی۔ “

ایکٹ میں ذکر شدہ ان تعریفات کے مطابق دیکھیے کہ ایکٹ میں ان کے لیے حقوق کیا ہیں:

  • 18 سال سے بڑا کوئی بھی مرد اپنے آپ کو از خود عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد قرار دے سکتی ہے۔
  • 18 سال سے کم عمر فرد بھی ڈاکٹر کی رائے کے بعد ایسا کر سکتا ہے۔
  • از خود اپنی جنس متعین کرنے کے بعد اسے حق حاصل ہے کہ:
    • شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں اپنا نام اور جنس محض اپنے کہنے سے تبدیل کر دے۔
    • جنس بدلنے کے بعد وراثت میں اپنے نئے جنس کے مطابق حق حاصل کرے۔
    • اپنے آپ کو خواتین قرار دینے والے مرد ان تمام حقوق، مراعات اور سہولیات کے حقدار ہیں جو خواتین کو حاصل ہیں، مثلا : خواتین کے کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں ، پارک، غسل خانوں، پولنگ سٹیشن وغیرہ میں داخلہ اور استفادہ۔ بشمول خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے نامزد ہونا۔
    • اور اس کے بر عکس مرد بننے والی تمام خواتین کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جائے گا جو مرد کے ساتھ ہوتا ہے۔

اگرچہ ایکٹ میں یہ ذکر نہیں ہے لیکن اس سب کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مرد اپنے آپ کو خاتون قرار دے کر مرد سے شادی کر سکے گا۔ اور اسی طرح خاتون اپنے آپ کو مرد قرار دے کر خاتون سے شادی کر سکے گی!! یعنی کہ ہم جنس پرستی کی کھلی چھٹی۔ میرے خیال میں اس ایکٹ پر مزید تبصرہ کرنے کی مزید ضرورت نہیں۔

محترم قارئین واپس اپنے مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہاں اتنی تفصیل میں اس لیے نہیں گئے تھے کہ پاکستانی ریاست کی حیثیت متعین کریں۔ لیکن چونکہ آج کل یہ موضوع دوبارہ چھڑا اس لیے کچھ ذکر کر دیا۔ اصل میں تو موضوع یہ تھا کہ دیکھا جائے کہ شریعت کے بجائے غیر شرعی قوانین کے نفاذ سے مسلمان معاشرے میں بگاڑ کیسے آتا ہے یہاں تک کہ اندلس میں اسلام کا نام ونشان مٹ گیا۔ اور اگر بر صغیر میں بھی شریعت کے بجائے مسلمان غیر شرعی قوانین کے تحت رہیں تو اب تک ان کی اندلس سے مشابہ حالت کیسی بنتی جا رہی ہے۔ پھر خصوصا جنسی تعلقات سے متعلق قوانین پر کچھ زیادہ تفصیل اس لیے ذکر ہوئی کہ اول تو انسانوں کو بہکانے کا شیطان کا یہ پہلا اور کامیاب ترین حربہ ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ آج کل دنیا بھر میں جنسی بے راہ روی کا دور دورہ ہے۔ لیکن مقصد صرف اس پہلو کی قانون سازی پر روشنی ڈالنا نہ تھی بلکہ اسے مثال کے طور پر پیش کرنا تھا جس سے باقی پہلوؤں کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔ مقاصد شریعت پانچ ہیں: حفظ دین، عقل، جان، مال اور عزت ۔ گویا عزت کی حفاظت شریعت کا پانچواں حصہ ہے۔ اور اس میں گراوٹ سے باقی چار حصوں میں گراوٹ کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔

معاہدۂ غرناطہ کا انجام

سابقہ جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں عیسائیوں نے مکمل یا جزوی طور پر شرعی قوانین کو ختم کیا وہیں باقی ماندہ ادھورے قوانین نافذ کرنے میں بھی بدنیتی سے کام لیا۔ قوانین پر عمل در آمد کرنے میں حکام کی بدنیتی مسلمانوں پر ڈھکی چھپی نہیں تھی کیونکہ دو صدیوں سے ان کا یہی چلن رہا تھا۔ مملکت غرناطہ کے مسلمان بخوبی واقف تھے کہ

قشتالہ ، بلنسیہ، اراغون اور دیگر ہسپانوی علاقوں میں ان کے اہل دجن بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک برتا گیا۔ یہاں تک کہ مذاکرات کے وقت غرناطہ کے امیر ابو عبد اللہ الصغیر کو شک تھا کہ عیسائی معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔ اسی لیے مذاکرات کے آغاز میں الصغیر نے پاپائے روم کی توثیق طلب کی تھی جیسے کہ امام مَقَّری نے بھی نقل کیا ہے۔ لیکن جیسے مذاکرات آگے بڑھتے گئے اور تمام معاملات عیسائیوں کےہاتھ میں جاتے رہے اسے یہ امید بھی نہ رہی کہ پاپائے روم کی تصدیق سے کوئی فائدہ ہو گا۔ اور اسی لیے غدار امیر عبد اللہ الصغیر اپنے عوام کو اہل دجن بنا کر خود اپنے خاندان سمیت سمندر پار ہجرت کر گيا۔

خطرے کا یہ احساس محض عمائدین کو ہی نہ تھا بلکہ غرناطہ کے عوام کو بھی یقین کی حد تک حکمرانوں کی صداقت پر شک تھا۔ دوسری طرف عیسائی حکمرانوں کو بھی عوام کی طرف سے بغاوت کا ڈر تھا۔ اس لیے بھرے دربار میں بڑی تعداد میں مسلمان اور عیسائی معززین کے سامنے دستخط کرنے کے باوجود اگلے دن بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ایزابیلا نے زور و شور سے خدا کی قسمیں اٹھا کر اعلان کیا کہ :

”تمام مسلمانوں کو اپنی زمینوں پر کام کرنے کی مکمل آزادی ہو گی……وہ اپنی مذہبی عبادات کو جاری رکھ سکیں گے ۔ مساجد برقرار رہیں گی۔ اور جو مناسب سمجھے وہ اپنی جائیداد بیچ کر مغرب اسلامی جا سکتے ہیں۔“

جیسے ہسپانیہ کے سابقہ مدجنوں کے ساتھ عیسائیوں کا برتاؤ رہا کہ معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر عمل در آمد تو کجا اس کی صریح مخالفت کرتے رہے اس طرح بالآخر معاہدۂ غرناطہ کے ساتھ بھی ہونا تھا۔ اگرچہ اس میں زیادہ وقت اس لیے لگ گیا کہ ہسپانوی بادشاہ غرناطہ میں بغاوت برپا ہونے سے ڈرتے تھے کیونکہ عیسائی فتوحات کے نتیجے میں وہاں پورے ہسپانیہ سے مسلمان سمٹ آئے تھے۔ لیکن غرناطہ کے متعصب صدر اسقف خمنیس کا صبر ختم ہوتا جا رہا تھا اس لیے اس نے مسلمانوں کو ان کے مقررہ انجام تک پہنچانے کے لیے حیلے بہانے کرتا گیا۔ یہاں تک کہ 1499 میں اس کے ملازم نے شاہی منتظم الگوازل کے ساتھ مل کر ایک نو مسلم عیسائی کی بیٹی کو گرفتار کیا:

”وہ اسے (غرناطہ شہر کے ایک اہم دروازے) باب البنود سے کھینچتے ہوئے لے جا رہے تھے……جبکہ وہ چیختے چلاتے کہہ رہی تھی کہ اسے زبردستی بپتسمہ کے لیے لے جایا جا رہا ہے……چناچہ ایک ہجوم جمع ہوا اور شاہی منتظم کو برا بھلا کہنے لگا جس سے عوام اس کی ظلم کی وجہ سے ویسے ہی نفرت کرتے تھے۔ اس شخص نے متکبرانہ انداز میں جواب دیا جس سے عوام کے جذبات بھڑک اٹھے اور اس شور و غل میں سڑک پر پڑی اینٹ سے اسے قتل کر دیا گیا۔“

غرناطی مدجن خمنیس پر معاہدۂ غرناطہ کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے تھے لیکن عیسائی حکومت کی کیا مجال تھی کہ وہ اپنے پادری پر ہاتھ ڈالتی۔ چنانچہ مسلمانوں نے چالیس افراد کی شوریٰ منتخب کر کے علاقہ کا نظم و ضبط سنبھالتے ہوئے خمنیس کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ اس طرح مدجنوں اور خمنیس کے محافظین کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی جو کئی دن تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ غرناطہ کے گورنر ٹنڈیلا کو خمنیس کی مدد کے لیے آنا پڑا۔ دس دن تک غرناطہ کے سابقہ صدر اسقف ، موجودہ صدر اسقف اور گورنر ٹنڈیلا مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے۔ مسلمان یہ دلیل پیش کرتے رہے کہ:

”انہوں نے مقامی حاکم کے خلاف بغاوت نہیں کی بلکہ شاہی قانون کے تحفظ کے لیے جنگ کی ہے۔ کیونکہ یہ اہلکار معاہدےکی خلاف ورزی کر کے بے چینی پھیلا رہے تھے۔ اگر معاہدے پر عمل کیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

صدر اسقف اور گورنر طویل مذاکرات کے بعد یہ کہتے ہوئے جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ مسلمانوں کو ان کے کیے پر معاف کر دیا جائے گا اور مستقبل میں معاہدے کی پاسداری کی جائے گی لیکن گورنر کے قاتلوں کا محاکمہ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے قاضی نے ”……وعدہ کیا کہ جن افراد نے الگوازل کو قتل کیا ہے انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔“ اس طرح مسلمانوں نے اپنے ہتھیار رکھ دیے جبکہ عدالت نے الگوازل کے قاتلین میں سے چار کو پھانسی پر لٹکا کر باقی کو رہا کر دیا ۔

لیکن جلد ہی واضح ہوا کہ مذاکرات وقتی طور پہ امن قائم کرنے اور دوبارہ نظم و نسق سنبھالنے کا ایک حیلہ تھا ۔ ہسپانیہ کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا۔ اس حرکت سے خمنیس کو وہ بہانہ مل گیا جس سے غرناطہ کے نہ صرف نومسلم عیسائیوں کو بلکہ پیدائشی مسلمانوں کو بھی تفتیشی عدالت کے دائرے میں لا سکے ۔ خمنیس ہسپانوی حکام کو باور کراتا رہا کہ مسلمانوں کا یہ احتجاج بغاوت تھی۔ حقیقت میں یہ دلیل ہسپانیہ کی تمام شورشوں کو کچلنے کے لیے استعمال کی گئی۔ (بلکہ آج تک بر صغیر بھر میں حقوق کے مطالبے اور حکمرانوں کی تمام زیادتیوں کے مقابلے میں اسی دلیل کے بنا پر عوام کے خلاف قوت کا استعمال اور فوجی آپریشن کیے جاتے رہے ہیں۔چاہے وہ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کے تحفظ کے لیے حفاظتِ اسلام کا احتجاج ہو۔ بھارت میں بابری مسجد کے انہدام کے خلاف احتجاج ہو ۔ یا پاکستان میں جامعہ حفصہ کا بے حیائی کے خلاف احتجاج ہو )۔ خمنیس نے یہ دعوی بھی کیا کہ ایسی حرکت سے مسلمانوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف وزری ہوئی ہے۔ اس لیے اب معاہدہ ٹوٹ چکا ہے اور انہیں دو میں سے ایک چیز کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ یا عیسائی بن جائیں اور یا ہسپانیہ سے نکل جائیں۔ بصورت دیگر سخت سزاؤں کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور یوں ملکہ ایزابیلا اور بادشاہ فرڈیننڈ نے خمنیس کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اہل غرناطہ کی جبری تبدیلئ مذہب شروع کر دی!!

معاصر مراکشی مصنف محمد الطالب السلمی اپنے آباء و اجداد کے تذکرے پر لکھی جانے والی کتاب’ریاض الورد ‘ میں تبصرہ کرتے ہیں:

” طاغوت نے مشروط اطاعت کی شقوں کو ایک ایک کر کے توڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ پورا معاہدہ ہی توڑ ڈالا۔ مسلمانوں کی کوئی حرمت باقی نہ رہی ۔ انہیں تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ ان پر بھاری جرمانے عائد کیے گیے اور اذانوں تک سے محروم کر دیا گیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ غرناطہ شہر چھوڑ کر اطراف کے قصبوں اور دیہاتوں میں چلے جائیں۔ پھر سال 904ھ (1499ء) میں طاغوت نے عیسائی بننے یا موت کے درمیان کسی ایک انتخاب کا اختیار دیا اور انہیں اس انتخاب کے لیے صرف ایک مہینے کی مہلت دی !!“

محتر م قارئین!

یوں صدیوں سے شریعت الٰہی کے معاملے میں مداہنت اختیار کرنے اور کفریہ قوانین کے تحت جینے کے نتیجے میں اندلس کے مسلمان واقعی ’مدجن‘ بن گئے۔ میں یہاں ان ابطال کی حق تلفی نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے زوال کے اس پورے دور میں جہاد اور قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ لیکن من حیث المجموع معاشرے میں جب کفریہ قوانین کے تحت رہتے ہوئے حس ختم ہو گئی تو مسلمانوں میں اتنی سکت باقی نہ رہی کہ حق کا ساتھ دیں۔ یوں معاہدہ ٹوٹ جانے کے تقریباً ایک صدی بعد 1614 میں ہسپانوی بادشاہ نے اندلس سے اسلام کو مکمل ختم کرنے میں کامیابی کا اعلان کر دیا۔

ہم نے تاریخ اندلس عبرت کے لیے پیش کی وگرنہ قرآن کریم کی آیتیں تو مسلمان ہر روز تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا سورۃ المائدۃ میں فرمان ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ۝ وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ ۝ اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ ۝

’’اور (اے محمد ﷺ) ہم نے تم پر حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہٰذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ ‘‘

اور سورۃالنساء میں فرمان ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا ۝ فَكَيْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ثُمَّ جَاۗءُوْكَ يَحْلِفُوْنَ ڰ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّتَوْفِيْقًا ۝اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۤ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا ۝ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا ۝ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ۝

’’(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ ان کو حکم یہ گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو تم ان منافقوں کو دیکھو گے کہ وہ تم سے پوری طرح منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔ پھر اس وقت ان کا کیا حال بنتا ہے جب خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے ؟ اس وقت یہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھلائی کرنے اور ملاپ کرادینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ وہ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ساری باتیں خوب جانتا ہے۔ لہٰذا تم انہیں نظر انداز کردو، انہیں نصیحت کرو، اور ان سے خود ان کے بارے میں ایسی بات کہتے رہو جو دل میں اتر جانے والی ہو۔ اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔ نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔‘‘

٭٭٭٭٭

Previous Post

جمہوریت کا جال | دوسری قسط

Next Post

’’مسلم صہیونیت‘‘ ایک نیا ابھرتا ہوا فتنہ!

Related Posts

کہ مومنوں کے نام ہی وراثتِ زمین ہے!
اداریہ

کہ مومنوں کے نام ہی وراثتِ زمین ہے!

31 جولائی 2023
فضائلِ نماز | پانچویں قسط
تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | پانچویں قسط

31 جولائی 2023
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

علاماتِ کبریٰ: [دوسری نشانی]نزولِ عیسیٰ ﷤ | گیارھواں درس

31 جولائی 2023
سورۃ الانفال | نواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پہلا درس

31 جولائی 2023
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: انیس ۱۹

31 جولائی 2023
نشریات

تم ان کی گردنیں مارو یہ قرآں کی نصیحت ہے!

31 جولائی 2023
Next Post
’’مسلم صہیونیت‘‘ ایک نیا ابھرتا ہوا فتنہ!

’’مسلم صہیونیت‘‘ ایک نیا ابھرتا ہوا فتنہ!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version