امامِ عزیمت، امیر المجاہدین شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن رحمۃ اللہ علیہ نےبیسویں صدی کے آغاز میں جہاد و اقامتِ دین و اقامتِ خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی عالمی تحریک المعروف ’تحریکِ ریشمی رومال‘کو منظم کیا اور دس برس تک خونِ جگر سے اس کی آبیاری فرمائی لیکن دنیاوی طور پر وہ تحریک بظاہر کامیاب نہ ہوسکی اور نتیجتاً حضرت شیخ الہند اُس وقت کے ’گوانتا نامو‘ مالٹا کے جزیرے میں انگریز کی قید میں چار سال تک رہے ۔ اسی عالمِ با عمل نے ’الولاوالبراء‘ کے اہم موضوع پر جو کچھ کہا اور لکھا اُس میں سے ایک قیمتی موتی پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ والسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
نہایت ضروری ہے کہ ایک مسلمِ صادق تمام گردوپیش کے خیالات سے علیحدہ ہوکر اپنے ایمان کی قدروقیمت اور شعائرِ الٰہیہ کی عظمت اور مقاماتِ مقدسہ کے تقدس و احترام کو اچھی طرح دل نشین کرے۔ اور دروسِ ماضیہ کے ساتھ واقعاتِ حاضرہ پر ایک گہری نظر ڈالے تو اسے معلوم ہو گا کہ آج مسلمانوں کی سب سے بڑی متاعِ گراں مایہ (جس کا تحفظ ہر ایمان رکھنے والے کا اولین فرض ہے) کس طرح لوٹی جا رہی ہے اور کن کن بدعہدوں اور شرم ناک عیاروں اور روباہ بازیوں سے جزیرۃ العرب کے متعلق پیغمبرِ اسلام ﷺ (فداہ ابی و امی) کی سب سے اہم وصیت کا مقابلہ کیا جا رہا ہے1۔
اعداء اللہ نے اسلام کی عزت اور شوکت کی بیخ کنی میں کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ عراق،فلسطین اور شام جن کو صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم نے خون کی ندیاں بہا کر فتح کیا تھا پھر کفار کی حریصانہ حوصلہ مندیوں کی جولانگاہ بن گئے۔ پیرہنِ خلافت کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ خلیفۃ المسلمین جس کی ہستی سے تمام روئے زمین کے مسلمانوں کی ہستیوں کا شیرازہ بندھتا تھا اور جو بحیثیت ظِلُّ اللہ فِی الْاَرض ہونے کے آسمانی قانون کا رائج کرنے والا اور مسلمانوں کے حقوق و مصالح کا محافظ اور شعائر اللہ کی صیانت کا ضامن اور کلمۃ اللہ کی رفعت و سربلندی کا کفیل تھا وہ بھی بے شمار دشمنوں کے نرغے میں پھنس کر بے دست و پا ہو چکا۔
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الأیام صرن لیالیا
رسول اللہﷺ کا جھنڈا (خاکم بدہن) سرنگوں ہوا جا رہا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ، سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم کی روحیں اپنی خواب گاہوں میں بے چین ہیں۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے غیرت و حمیت مفقود ہورہی ہے۔ جو جرأت اور دینی حرات ان کی میراث تھی وہ انہوں نے غفلت اور تعیش کے نشے میں دوسروں کے حوالے کر دی ہے۔
یہی نہیں کہ اس مصیبت کے وقت ایک مسلمان نے مسلمان کی مدد نہیں کی، بلکہ قیامت تو یہ ہے کہ کفار کی موالات و اعانت اور وفاداری کے شوق میں ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کی گردن کاٹی۔ بھائی نے بھائی کا خون پیا اور دشمنوں کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے اپنے ہاتھ اپنے ہی خون میں رنگے۔
اے فرزندان ِ اسلام اور اے محبان ِملت!
آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہے کہ جس برقِ مسلم سوز نے ان بلادِ اسلامیہ کے خرمنِ آزادی کو جلایااور خلافتِ اسلامیہ کے قصر کو آگ لگائی۔ اس کا اصلی ہیولا عربوں اور ہندوستانیوں کے خونِ گرم سے تیار ہواتھا اور جس دولت سے نصاریٰ ان ممالکِ مقدسہ میں کامیاب ہوئے اس کا بہت بڑا حصہ بھی تمہارے دست و بازو سے کمایا ہوا تھا۔
پس کیا اب بھی کوئی ایسا پلید اور غبی مسلمان پایا جاتا ہے جس کو نصاریٰ کے موالات و مناصرت کے نتائجِ قطعیہ معلوم نہ ہوئے ہوں اور ایسی تشویش ناک حالت میں جبکہ ڈوبتا ہوا آدمی ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے وہ اس فکر میں ہو کہ کوئی صورتِ موالات کے جوازنکالے۔
اے میرے عزیزو!
یہ وقت استحباب اور فرضیت کی بحث کا نہیں بلکہ غیرتِ اسلامی اور حمیتِ دینی سے کام لینے کا ہے۔ کہیں علمائے زمانہ کا چھوٹا بڑا اختلاف تمہاری ہمتوں کو پست اور تمہارے ولولوں کو پژمردہ نہ کر دے۔ میں تم سے محض اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ تم اپنے دشمنوں کے بازوؤں کو قوی مت بناؤ اور حق تعالیٰ شانہٗ کے ان ارشادات پر نہایت مستعدی اور جواں مردی اور اخلاصِ نیت سے عمل کرو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ(سورۃ المائدہ:۵۱)
’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور مددگار مت بناؤ۔ وہ آ پس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان کو دوست اور مددگار بنائے ، وہ بھی ان میں سے ہے۔‘‘
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ (سورۃ آل عمران: ۲۸)
’’مسلمانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مومنین کے سوا کافروں کو اپنا دوست یا مددگار بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کو اللہ سے کچھ سروکار نہیں۔‘‘
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِيْـمَۨا الَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا (سورۃ النساء:۱۳۸-۱۳۹)
’’ان منافقین کو دردناک عذاب کو خوشخبری سنا دو جو مومنین کے سوا کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں ۔کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ تمام تر عزت اللہ کے لیے ہے۔‘‘
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا (سورۃ النساء:۱۴۴)
’’اے ایمان والو! مومنین کے سوا کافروں کو اپنا یار و مددگار مت بناؤ۔ کیا تم لینا چاہتے ہو اپنے اوپر اللہ کا الزام صریح؟‘‘
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورۃ المائدہ:۵۷)
’’اے ایمان والو!تم ان اہل کتاب اور کافروں کو اپنا یار و مددگار مت بناؤ جنہوں نے بنا لیا ہے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم مومن ہو۔‘‘
تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْالَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِـــطَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ (سورۃ المائدہ:۸۰-۸۱)
’’ان میں بہت سے تم ایسے دیکھو گے جو رفیق بنتے ہیں کافروں کے۔ بے شک بُرا ہے جو آگے بھیجا ہے انہوں نے خود اپنے لیے کہ اللہ کا غضب ہے ان پر اور وہ ہمیشہ عذاب میں ہیں۔ اور اگر یقین رکھتے وہ اللہ پر اور نبی پر اور اس پر جو نبی کی طرف اتارا گیا توکافروں کو رفیق نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے نافرمان ہیں۔‘‘
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ يُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ المجادلۃ:۲۲)
’’نہیں پاؤ گے تم کسی قوم کو جو یقین رکھتی ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر کہ وہ دوستی کرے ان سے جنہوں نے مقابلہ کیا اللہ کا اور اس کے رسول کا اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا اور اپنی روح سے ان کی مدد فرمائی اور ان کو داخل کرے گا باغ بہشت میں جس کے نیچے بہتی ہیں نہریں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش۔ یہ جماعت ہے اللہ کی، یاد رکھو کہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔‘‘
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ (سورۃ الممتحنہ:۱)
’’اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو رفیق مت بناؤ۔ پیغام بھیجتے ہو تم ان کی طرف دوستی کا حالانکہ وہ منکر ہوتے ہیں اس سچائی سے جو تمہارے پاس پہنچی ہے۔‘‘
اس مضمون کی آیات قرآن مجید میں بکثرت ہیں، جن کا استیعاب مقصود نہیں۔ مگر اس قدر واضح رہے کہ اولیاء کا ترجمہ جو ہم نے دوست اور مددگار سے کیا ہے اس کا ماخذ امام ابن جریر طبریؒ اور حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ اور امام فخر الدین رازیؒ وغیر ھم اکابر مفسرین کی تصریحات ہیں۔ ہماری غرض صرف اس قدر ہے کہ ترکِ موالات کے تحت میں جیسا کہ ان کی مدد کرنا داخل ہے اسی طرح ان سے امداد لینا بھی ہے۔ لہٰذا مدارس میں جو امداد گورنمنٹ سے لی جاتی ہے اور جو وظائف طلبہ وغیرھم کو ملتے ہیں وہ سب قابلِ ترک ہیں۔ اور اس ترکِ موالات میں طلبہ اپنے والدین کی اجازت کے محتاج نہیں ہیں بلکہ ان کا حق ہے کہ وہ ادب اور تہذیب کے ساتھ اپنے والدین کو بھی ترکِ موالات پر مستعد بنائیں۔ اس وقت یہ خلجان بعض طلبہ کو پیش آرہا ہے جوکہ عہدِ نبوت میں بھی بعض مومنین کو پیش آیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ مبارک میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کفار سے بالکل علیحدگی اور قطع تعلق کس طرح ہو سکتا ہے، اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنے ماں باپ اور اپنے بھائیوں اور اپنے خویش و اقارب سب سے چھوٹ جائیں گے، ہماری تجارتیں تباہ ہو جائیں گی، ہمارے اموال ضائع ہو جائیں گے اور ہماری بستیاں اجڑ جائیں گی۔ اس کا جواب حق تعالیٰ نے یہ عنایت فرمایا:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ (سورۃ التوبہ:۲۴)
’’کہہ دو کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جو تم کو پسند ہیں، اگر یہ سب تم کو اللہ اور اللہ کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو منتظر رہو تاکہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو اور اللہ دستگیری نہیں کرتا اس قوم کی جو نافرمان ہو۔‘‘
کبھی دل میں یہ وسوسہ گزرتا ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ تحریکات جو ملک میں پھیل رہی ہیں، ناکام ہوئیں اور گورنمنٹ اپنی ضد پر اڑی رہی تو ہم کو سخت ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس طرح کے خیالات اُس زمانے میں بھی پیش کیے گئے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ:
يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاىِٕرَةٌ
یعنی منافقین کہتے ہیں کہ ہمارے یہود کے ساتھ دوستانہ تعلقات اس لیے ہیں کہ زمانے کی گردش سے کہیں محمد رسول اللہﷺ کے ارادے ناکام ہوں اور یہود غالب آجائیں تو اس وقت ہمارے لیے بڑی مصیبت کا سامنا ہو گا۔
اس کے جواب میں حق تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا:
فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ (سورۃ المائدہ:۵۲)
’’تو قریب ہے کہ لے آئے اللہ فتح یا کوئی اور بات اپنے پاس سے، پھر منافقین ان خیالات پر نادم ہوکر رہ جائیں جو ان کے دلوں میں مکنون ہیں۔‘‘
پس اے عزیز بھائیو!
تم اللہ پر بھروسہ کرکے اور اس کی رسی کو مضبوط تھام کر اپنے عزم پر قائم رہواور موالاتِ نصاریٰ کو ترک کرو اور اپنی استطاعت کے موافق جو خدمت گزاری اسلام اور اہلِ اسلام کی کرسکتے ہو، (کر گزرو)کہ اب وقت درگزر کا نہیں۔
اب میری التجا ہے کہ آپ سب حضرات بارگاہِ رب العزت میں نہایت صدقِ دل سے دعا کریں کہ وہ ہماری قوم کو رسوا نہ کرے اور ہم کو کافروں کا تختۂ مشق نہ بنائے اور ہمارے اچھے کاموں میں ہماری مدد فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین.
آپ کا خیر اندیش
بندہ محمود عفی عنہٗ
۱۶ صفر ۱۳۳۹ھ بمطابق ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء
(مدرسۃ العلوم کے طلبہ کے استفسار کے جواب میں، صفر ۱۳۳۹ھ)
٭٭٭٭٭
1 الله اكبر! قارئينِ كرام! غور فرمائیے کہ حضرت شیخ الہند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جزیرۃ العرب سے متعلق اہم وصیت یعنی ’’أخرجوا المشرکین من جزیرۃ العرب‘‘ …… مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دو…… کا اس وقت کے حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کا بیان ۱۹۲۰ء میں کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ شیخ الہند ہمیں جسے فریضے کی جانب آج سے ایک سو تین برس قبل متوجہ کروا رہے تھے اس فریضے کی فرضیت آج کتنی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے، خاص کر کہ جب جزیرۃ العرب ہی کیا، مکہ و مدینہ، عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں کے گھیرے میں ہیں اور فحاشی و عریانی کا ننگا ناچ حرمین شریفین کے گرد برپا ہے!!! (ادارہ)