افغانستان: امارتِ اسلامی نے ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی
امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیرِ انصاف مولوی عبدالحکیم شرعی نے کابل میں اپنی وزارت کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر روک دی گئی ہیں۔
وزیرِ انصاف نے کہا کہ اس وقت تمام قوانین اسلامی شریعت کی روشنی میں مرتب کیے ہیں، شریعت میں سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش اور حیثیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ تباہی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ہے، سیاسی جماعتیں ملک کے مفاد میں نہیں ہیں، نہ ہی عوام ان کی تعریف کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ اعلان رسمی طور پر امارت کے قیامِ نو کے دو سال بعد کیا گیا ہے لیکن دو سال سے ملک بھر میں عملاً اسی پالیسی کا نفاذ رہا ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اکثر سیاسی رہنما جو دو دہائیوں سے امریکی کٹھ پتلی حکومت کا حصہ رہے اور اس عرصہ میں مسلمان عوام و مجاہدین پر ڈھائے جانے والے مظالم میں شریک اور نظامِ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے، ان سب کے اختیارات کو محدود کیا گیا۔
طالبان حکومت نے اپنے قیام کے ساتھ ہی عفوِ عام (یعنی عام معافی) کے اعلان کے ساتھ ان ظالم رہنماؤں کو بھی معافی دی، لیکن اب ان کی حیثیت ایک عام افغان شہری سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہی۔
وزیرِ انصاف کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو حقیقتاً شریعت میں اس طرح کی سیاسی جماعتوں اور سیاست کی دوڑ میں ملک و عوام کے وسائل ہڑپ کرجانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تو کفار کے بنائے گئے جمہوری نظام کو کھڑا کرنے اور مسلمان عوام کو حقیقی جدوجہد سے ہٹا کر چند مصنوعی نعروں اور ایوانوں تک پہنچنے کی رسّاکشی میں الجھانے کے لیے ان سیاسی جماعتوں کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ شریعت میں اس کی کوئی ضرورت ہے نہ ہی گنجائش!
یہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ملک و قوم کے مفاد کے بجائے اپنے مفاد کی خاطر کافر امریکہ کی غلامی جیسے ہر عمل کے لیے تیار رہتے ہی۔ اور یہ جماعتیں کافر کے بنائے جمہوری نظام کی بقا اور سلامتی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں بھی اسی جمہوری نظام کی رسّا کشی کا کھیل سات آٹھ دہائیوں سے جاری ہے۔ عوام کو حقوق دلانے اور ملکی ترقی کے نعروں کی آڑ میں ملک و قوم کا اربوں روپیہ انہی سیاست دانوں نے ہڑپ کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔ یہ سیاست دان کروڑوں اربوں کے کاروبار کے مالک ہیں جبکہ عوام کا حال یہ ہے کہ دن بدن حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
ان سیاست دانوں کی بدعنوانی اور بدکرداری بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں تاحال شریعت کی راہ میں رکاوٹ یہی سیاست دان اور پاکستان کی فوج ہے جو کافروں کے عطا کردہ اس نظامِ جمہوریت کی محافظ ہے۔
اگر مملکتِ خداداد پاکستان کے اسلام پسند عوام حقیقت میں ایک اسلامی فلاحی نظام کی خواہاں ہیں تو انہیں اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی حکمتِ عملی اور جدوجہد سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور کفر کے غلام ان سیاست دانوں اور فوج کے خلاف دعوت و جہاد کے میدان میں نکل آنا چاہیے۔
یہی راستہ امتِ مسلمہ کے عروج، مسلمانوں کی عزت اور اسلامی سرزمینوں کی بازیابی سمیت غزوۂ ہند اور بیت المقدس کی فتح کا راستہ ہے۔ ان شاء اللہ!
بھارت: ایودھیا میں شہید کی جانے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کے افتتاح کی تاریخ کا اعلان
بھارتی ریاست اترپردیش میں ایودھیا کے مقام پر شہید کی جانے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کے افتتاح کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔
اعلان کے مطابق مندر کا افتتاح ۱۴ سے ۲۰ جنوری ۲۰۲۴ء کے درمیان کیا جائے گا جس میں وزیر اعظم مودی خصوصی شرکت کرے گا۔
اسی موقع پر بھارتی وزیرِ داخلہ امِت شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی رام مندر کا خواب پورا کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بابری مسجد کو ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ہندو انتہا پسندوں نےحکومتی سرپرستی میں شہید کیا تھا اور اس جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کیا تھا۔
موجودہ وزیر اعظم مودی نے اپنے دورِ حکومت میں اس مندر کا سنگِ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر میں براہِ راست ہدایات دیتا رہا ہے۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی جان، مال، عزت، املاک حتیٰ کے عبادت گاہیں بھی اس ہندُتوا دہشت گرد حکومت اور اس کے بلوائیوں سے محفوظ نہیں رہی ہیں۔ بابری مسجد تو ایک بڑا واقعہ تھا، اس کے علاوہ کتنی ہی مساجد کو قرآن پاک کے نسخوں سمیت جلایا گیا اور شہید کیا گیا۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس آج بھی وقت ہے کہ وہ اس حکومت اور اس کی دہشت گرد تنظیموں کی حقیقت کو پہچانتے ہوئے اپنی صفوں کو منظم کریں اور گائے اور بندر کے پجاری ان بزدلوں کو انہی کی زبان میں جواب دینے کی تیاری کریں۔
٭٭٭٭٭