نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | چھٹی قسط (آخری)

شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی by شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی
31 اگست 2023
in تزکیہ و احسان, اگست 2023
0

بابِ سوم: خشوع خضوع کے بیان میں (گزشتہ سے پیوستہ)

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺصحابہؓ کے پاس تشریف لائے، اور ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم بھی ہے اللہ جل شانہٗ نے کیافرمایا؟ صحابہؓ نے عرض کیاکہ اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں، حضور ﷺنے اہتمام کی وجہ سے تین مرتبہ یہی دریافت فرمایا، اورصحابۂ کرامؓ یہی جواب دیتے رہے، اس کے بعد ارشادہوا کہ: حق تعالیٰ شانہٗ اپنی عزت اور اپنی بڑائی کی قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ جو شخص ان نمازوں کواوقات کی پابندی کے ساتھ پڑھتارہے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا، اور جو پابندی نہ کرے گا تو میرا دل چاہے گارحمت سے بخش دوں گا؛ ورنہ عذاب دوں گا۔(معجم کبیر، حدیث: ۱۰۵۵۵، ج۱۰ ص ۲۸۱)

۳۔  عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ مَایُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ خَابَ وَخَسِرَ؛ وَإِنْ اِنْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَۃٍ قَالَ الرَّبُّ: اُنْظُرُوْا! هَلْ لِعَبْدِيْ مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَیُکَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ، ثُمَّ یَکُوْنُ سَائِرُ عَمَلِہٖ عَلیٰ ذٰلِكَ. (ترغیب)

’’نبیٔ اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیاجائے گا، اگر نمازاچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب ہوگا اور بامراد، اور اگرنماز بے کار ثابت ہوئی تو وہ نامراد، خسارے میں ہوگا۔ اور اگر کچھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشاد خدا وندی ہوگا کہ: دیکھو! اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کوپورا کردیاجائے؟ اگرنکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی، اس کے بعد پھراسی طرح باقی اعمال: روزہ، زکوۃ، وغیرہ کا حساب ہوگا‘‘۔

فائدہ:اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ آدمی کو نفلوں کاذخیرہ بھی اپنے پاس کافی رکھنا چاہیے کہ اگرفرضوں میں کچھ کوتاہی نکلے تو میزان پوری ہوجائے، بہت سے لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ’’اَجی! ہم سے فرض ہی پورے ہوجائیں توبہت غنیمت ہے، نفلیں پڑھنا تو بڑے آدمیوں کا کام ہے‘‘، اس میں شک نہیں کہ فرض ہی اگر پورے پورے ہوجائیں توبہت کافی ہے؛ لیکن ان کابالکل پورا پورا ادا ہوجاناکون سا سہل کام ہے؟ کہ ہر ہر چیز بالکل پوری ادا ہوجائے، اور جب تھوڑی بہت کوتاہی ہوتی ہی ہے تو اس کے پورا کرنے کے لیے نفلوں بغیر چارۂ کار نہیں۔

ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون زیادہ وضاحت سے آیا ہے، ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے عبادات میں سب سے پہلے نماز کوفرض فرمایا ہے، اور سب سے پہلے اعمال میں سے نماز ہی پیش کی جاتی ہے، اور سب سے پہلے قیامت میں نماز ہی کاحساب ہوگا، اگرفرض نمازوں میں کچھ کمی رہ گئی تو نفلوں سے اس کوپوراکیاجائے گا، اور پھر اس کے بعد اسی طرح روزوں کا حساب کیا جائے گا،اور فرض روزوں میں جوکمی ہوگی وہ نفل روزوں سے پوری کردی جائے گی، اور پھر زکوۃ کا حساب اسی طریقے سے ہوگا، ان سب چیزوں میں نوافل کو ملاکر بھی اگر نیکیوں کاپلہ بھاری ہوگیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہوجائے گا؛ ورنہ جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔خود نبیٔ اکرم ﷺکامعمول یہی تھا کہ جوشخص مسلمان ہوتا سب سے اول اس کو نماز سکھائی جاتی۔

۴۔  عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ قُرَطٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَوَّلُ مَایُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَلصَّلَاۃُ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِہٖ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِہٖ.(رواہ الطبراني في الأوسط)

’’ نبیٔ اکرم ﷺکاارشاد ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کاحساب کیا جائے گا، اگر وہ اچھی اور پوری نکل آئی توباقی اعمال بھی پورے اتریں گے، اور اگر وہ خراب ہوگئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے‘‘۔

حضرت عمرؓنے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک اعلان سب جگہ کے حکام کے پاس بھیجا تھا کہ سب سے زیادہ مُہتَم بالشان چیز میرے نزدیک نماز ہے، جوشخص اس کی حفاظت اور اس کا اہتمام کرے گا وہ دین کے اور اجزاء کابھی اہتمام کرسکتا ہے، اور جو اس کوضائع کردے گا وہ دین کے اور اجزاء کو زیادہ برباد کردے گا۔

فائدہ: نبیٔ اکرم ﷺکے اس پاک ارشاد اورحضرت عمرؓ کے اس اعلان کامنشا بظاہر یہ ہے جودوسری حدیث میں آیا ہے کہ شیطان مسلمان سے اس وقت تک ڈرتا رہتا ہے جب تک وہ نماز کا پابند اور اس کواچھی طرح اداکرتارہتا ہے؛ کیوں کہ خوف کی وجہ سے اس کو زیادہ جرأت نہیں ہوتی؛ لیکن جب وہ نمازکوضائع کردیتا ہے تو اس کی جرأت بہت بڑھ جاتی ہے، اور اس آدمی کے گمراہ کرنے کی امنگ پیداہوجاتی ہے، اورپھربہت سے مُہلِکات اور بڑے بڑے گناہوں میں اس کو مبتلا کردیتا ہے۔ (منتخب کنزُالعُمَّال)

اور یہی مطلب ہے حق سبحانہ وتقدس کے ارشاد: ﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ﴾

کا، جس کابیان قریب ہی آرہا ہے۔

۵۔  عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ أَبِيْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَسْوَأُ النَّاسِ سَرَقَۃً اَلَّذِيْ یَسْرِقُ صَلَاتَہٗ، قَالَوْا: یَارَسُوْلَ اللہِ! وَکَیْفَ یَسْرِقُ صَلَاتَہٗ؟ قَالَ: لَایُتِمُّ رُکُوْعَهَا وَلَاسُجُوْدَهَا.(رواہ الدارمي)

’’ نبیٔ اکرم ﷺکاارشاد ہے کہ بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جونماز میں سے بھی چوری کرلے، صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! نماز میں سے کس طرح چوری کرے گا؟ ارشاد فرمایاکہ اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح نہ کرے‘‘۔

فائدہ:یہ مضمون کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے، اول توچوری خود ہی کس قدر ذلت کی چیز ہے، اور چور کو کیسی حقارت سے دیکھاجاتا ہے! پھرچوری میں بھی اس حرکت کوبدترین چوری ارشاد فرمایا ہے کہ رکوع سجدے کواچھی طرح نہ کرے۔

حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺنے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور یہ ارشادفرمایا کہ اس وقت علم دنیا سے اٹھ جانے کاوقت (منکشف ہوا)ہے، حضرت زیادؓ صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ! علم ہم سے کس طرح اٹھ جائے گا؟ ہم لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں اور اپنی اولاد کوپڑھاتے ہیں! (اور وہ اسی طرح اپنی اولاد کو پڑھائیں گے اور سلسلہ چلتا رہے گا)حضورﷺنے فرمایا: ’’میں تو تجھے بڑا سمجھ دار خیال کرتا تھا، یہ یہود ونصاریٰ بھی تو توراۃ انجیل پڑھتے پڑھاتے ہیں، پھر کیا کارآمد ہوا‘‘؟۔ ابودرداءؓ کے شاگردکہتے ہیں کہ میں نے دوسرے صحابی حضرت عبادہؓ سے جاکر یہ قصہ سنایا، انہوں نے فرمایا کہ ابودرداء سچ کہتے ہیں، اور میں بتاؤں کہ سب سے پہلے کیا چیز دنیا سے اٹھے گی؟ سب سے پہلے نماز کاخشوع اٹھ جائے گا، تودیکھے گا کہ بھری مسجد میں ایک شخص بھی خشوع سے نماز پڑھنے والا نہ ہوگا۔(مستدرک، حدیث: ۳۳۸، ج۱ ص۱۷۹)

حضرت حذیفہؓ جو حضورﷺ کے راز دار کہلاتے ہیں، وہ بھی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے نماز کا خشوع اٹھایا جائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۵۹۵ )

ایک حدیث میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ اس نماز کی طرف توجہ ہی نہیں فرماتے جس میں رکوع سجدہ اچھی طرح نہ کیا جائے۔

ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ آدمی ساٹھ برس تک نمازپڑھتا ہے؛ مگر ایک نمازبھی قبول نہیں ہوتی، کہ کبھی رکوع اچھی طرح کرتا ہے توسجدہ پورا نہیں کرتا، سجدہ کرتاہے تو رکوع پورانہیں کرتا۔

حضرت مُجدِّد اَلفِ ثانی نَوَّرَاللہُ مَرقَدَهٗ نے اپنے مکاتیب میں نماز کے اہتمام پر بہت زور دیا ہے، اور بہت سے گرامی ناموں میں مختلف مضامین پربحث فرمائی ہے، ایک گرامی نامے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’سجدے میں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانے کااور رکوع میں انگلیوں کوعلاحدہ علاحدہ کرنے کااہتمام بھی ضروری ہے، شریعت نے انگلیوں کوملانے کاکھولنے کا حکم بے فائدہ نہیں فرمایا ہے‘‘، یعنی ایسے معمولی آداب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اسی سلسلے میں تحریرفرماتے ہیں: ’’نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدے کی جگہ نگاہ کاجمائے رکھنا، اور رکوع کی حالت میں پاؤں پرنگاہ رکھنا، اور سجدے میں جاکر ناک پر رکھنا،اور بیٹھنے کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع کو پیدا کرتاہے، اور اس سے نماز میں دل جمعی نصیب ہوتی ہے، جب ایسے معمولی آداب بھی اتنے اہم فائدے رکھتے ہیں توبڑے آداب اور سنتوں کی رعایت تم سمجھ لو کہ کس قدر فائدہ بخشے گی!‘‘۔

۶۔  عَنْ أُمِّ رُوْمَانَ –وَالِدَۃُ عَائِشَۃَ– قَالَتْ: رَاٰنِيْ أَبُوْبَکِرٍ الصِّدِّیْقِ أَتَمَیَّلُ فِيْ صَلَاتِيْ، فَزَجَرَنِيْ زَجْرَۃً کِدْتُّ أَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاتِيْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ فِيْ الصَّلَاۃِ فَلْیُسْکِنْ أَطْرَافَہٗ، لَایَتَمَیَّلُ تَمَیُّلَ الْیَهُوْدَ، فَإِنَّ سُکُوْنَ الْأَطْرَافِ فِيْ الصَّلَاۃِ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ. (در)

’’حضرت عائشہؓ کی والدہ ام رومانؓ فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نمازپڑھ رہی تھی، نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی، حضرت ابوبکرصدیقؓ نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں (ڈر کی وجہ سے) نماز توڑنے کے قریب ہوگئی، پھرارشادفرمایا کہ میں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز کوکھڑا ہو تو اپنے تمام بدن کوبالکل سکون سے رکھے، یہود کی طرح ہلے نہیں، بدن کے تمام اعضا کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونے کا جزوہے‘‘۔

فائدہ:نماز کے درمیان میں سکون سے رہنے کی تاکید بہت سی حدیثوں میں آئی ہے، نبیٔ اکرم ﷺکی عادت شریفہ اکثر آسمان کی طرف دیکھنے کی تھی کہ وحی کے فرشتے کاانتظار رہتاتھا، اور جب کسی چیز کاانتظارہوتا ہے تواس طرف نگاہ بھی لگ جاتی ہے، اسی وجہ سے کبھی نماز میں بھی نگاہ اوپر اٹھ جاتی تھی، جب ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَ﴾ نازل ہوئی تو پھر نگاہ نیچے رہتی تھی۔ صحابہؓ کے متعلق بھی حدیث میں آیا ہے کہ اول اول ادھر ادھر توجہ فرمالیا کرتے تھے؛ مگراس آیت شریفہ کے نازل ہونے کے بعد سے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ (أخرجہ ابن جریر فی تفسیر ھذہ الآیۃ)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اسی آیت شریفہ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ جب نماز کو کھڑے ہوتے تھے توکسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے، ہمہ تن نماز کی طرف متوجہ رہتے تھے، اپنی نگاہوں کوسجدے کی جگہ رکھتے تھے، اوریہ سمجھتے تھے کہ حق تعالیٰ شانہٗ ان کی طرف متوجہ ہیں۔(در منثور)

حضرت علیؓ سے کسی نے دریافت کیاکہ خشوع کیاچیز ہے؟ فرمایا : خشوع دل میں ہوتا ہے(یعنی دل سے نماز میں متوجہ رہنا)، اور یہ بھی اس میں داخل ہے کہ کسی طرف توجہ نہ کرے۔ (مستدرک، ج۲ ص۴۲۶)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: خشوع کرنے والے وہ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور نمازمیں سکون سے رہنے والے ہیں۔(أخرجہ ابن جریر فی تفسیر ھذہ الآیۃ)

حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک مرتبہ ارشادفرمایا کہ نفاق کے خشوع سے اللہ ہی سے پناہ مانگو، صحابہؓ نے عرض کیا: حضور! نفاق کا خشوع کیاچیز ہے؟ ارشادفرمایا: ظاہر میں توسکون ہو اوردل میں نفاق ہو۔ (شعب الایمان، حدیث: ۶۵۶۸)

حضرت ابودرداءؓ بھی اس قسم کاایک واقعہ نقل فرماتے ہیں، جس میں حضورﷺ کایہ ارشادنقل کیا کہ نفاق کاخشوع یہ ہے کہ ظاہربدن توخشوع والا معلوم ہو اور دل میں خشوع نہ ہو۔ (شعب الایمان، حدیث: ۶۵۶۷)

حضرت قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ دل کا خشوع اللہ کاخوف ہے اورنگاہ کو نیچی رکھنا۔(أخرجہ ابن جریر)

حضورﷺ نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں داڑھی پرہاتھ پھیر رہا ہے، ارشادفرمایا: اگراس کے دل میں خشوع ہوتا تو بدن کے سارے اعضاء میں سکون ہوتا۔ (نوادرالاصول للحکیم الترمذی، ۲: ۲۰۸ )

حضرت عائشہؓ نے حضورﷺسے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ یہ شیطان کا نماز میں سے اچک لینا ہے۔(بخاری، باب الاذان، حدیث: ۱۵۱)

ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ جولوگ نماز میں اوپر دیکھتے ہیں وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں؛ ورنہ نگاہیں اوپر کی اوپر ہی رہ جائیں گی۔(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، حدیث: ۹۱۲)

بہت سے صحابہ اور تابعین سے نقل کیا گیاہے کہ ’’خشوع‘‘ سکون کانام ہے، یعنی نماز نہایت سکون سے پڑھی جائے۔

متعدد احادیث میں حضورﷺکاارشاد ہے کہ نماز ایسی طرح پڑھاکرو گویایہ آخری نماز ہے، ایسی طرح پڑھاکرو جیسا وہ شخص پڑھتاہے جس کو یہ گمان ہو کہ اس وقت کے بعد مجھے دوسری نمازکی نوبت ہی نہ آئے گی۔(جامع الصغیر)

۷۔  عَنْ عِمْرَانِ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّﷺعَنْ قَوْلِ اللہِ تَعَالیٰ ﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ فَقَالَ: مَنْ لَمْ تَنْهَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ فَلَاصَلَاۃَ لَہٗ.(أخرجہ ابن أبي حاتم وابن مردویہ، کذا في الدرالمنثور)

’’حضورِ اقدس ﷺ سے کسی نے حق تعالیٰ شانہٗ کے ارشاد:﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَتَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (بے شک نمازروکتی ہے بے حیائی سے اور ناشائستہ حرکتوں سے) کے متعلق دریافت کیا، تو حضور ﷺنے ارشادفرمایا کہ: جس شخص کی نماز ایسی نہ ہو اور اس کوبے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں سے نہ روکے، وہ نماز ہی نہیں‘‘۔

فائدہ: بے شک نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے،اور اس کواپنی اصلی حالت پر پڑھنے کا ثمرہ یہی ہے کہ وہ ایسی نامناسب باتوں سے روک دے، اگر یہ بات پیدا نہیں ہوئی تونماز کے کمال میں کمی ہے۔

بہت سی حدیثوں میں یہ مضمون وارد ہواہے، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں گناہوں سے روک ہے، اورگناہوں سے ہٹانا ہے۔

حضرت ابُوالعالِیۃؓ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہٗ کے ارشاد: ﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْهیٰ﴾ کامطلب یہ ہے کہ نماز میں تین چیزیں ہوتی ہیں: اخلاص، اللہ کا خوف اور اللہ کاذکر؛ جس نماز میں یہ چیزیں نہیں وہ نماز ہی نہیں۔ اخلاص نیک کاموں کاحکم کرتا ہے، اور اللہ کاخوف بری باتوں سے روکتا ہے، اور اللہ کاذکر قرآن پاک ہے، جومستقل طور پر اچھی باتوں کاحکم کرتاہے اوربری باتوں سے روکتاہے۔

حضرت ابنِ عباسؓ حضورِ اقدس ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ جو نماز بری باتوں اورنامناسب حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز بجائے اللہ کے قرب کے، اللہ سے دوری پیداکرتی ہے۔

حضرت حسنؓ بھی حضورِ اقدس ﷺسے یہی نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز اس کوبری باتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں، اس نماز کی وجہ سے اللہ سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابنِ عمرؓنے بھی حضورِ اقدس ﷺ سے یہی مضمون نقل فرمایا ہے۔

حضرت ابن مسعودؓ حضورِ اقدس ﷺ کاارشادنقل کرتے ہیں کہ جو نماز کی اطاعت نہ کرے اس کی نماز ہی کیا! اور نمازکی اطاعت یہ ہے کہ بے حیائی اور بری باتوں سے رکے۔

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا رہتا ہے اورصبح ہوتے چوری کرتا ہے، حضورﷺنے فرمایا: اس کی نماز اس کو اس فعل سے عن قریب روک دے گی۔ (دُرِّمنثور) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بری باتوں میں مشغول ہو تو اس کو اہتمام سے نماز میں مشغول ہوناچاہیے، بری باتیں اس سے خود ہی چھوٹ جائیں گی، ہر ہر بری بات کے چھڑانے کااہتمام دشوار بھی ہے اور دیر طلب بھی، اور اہتمام سے نماز میں مشغول ہوجانا آسان بھی ہے اور دیر طلب بھی نہیں،اس کی برکت سے بری باتیں اس سے اپنے آپ ہی چھوٹتی چلی جاویں گی۔ حق تعالیٰ شانہٗ مجھے بھی اچھی طرح نمازپڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

۸۔  عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ طُوْلُ الْقُنُوْتِ. (أخرجہ ابن أبي شیبۃ ومسلم والترمذي وابن ماجہ)

’’حضورِ اقدس ﷺ کاارشاد ہے کہ افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی لمبی رکعتیں ہوں‘‘۔

مجاہدؒ کہتے ہیں: حق تعالیٰ شانہٗ کے ارشاد: ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾ (اور نماز میں) کھڑے رہو اللہ کے سامنے مؤدب، اس آیت میں رکوع بھی داخل ہے اورخشوع بھی، اور لمبی رکعت ہونا بھی، اور آنکھوں کوپست کرنا، بازوؤں کوجھکانا (یعنی اکڑ کے کھڑانہ ہونا)،اوراللہ سے ڈرنابھی (شامل ہے، کہ لفظ ’’قنوت‘‘ میں –جس کا اس آیت میں حکم دیاگیا– یہ سب چیزیں داخل ہیں)۔حضورِ اقدس ﷺکے صحابہؓ میں سے جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہوتا تھا تواللہ تعالیٰ سے ڈرتاتھا اس بات سے کہ ادھر ادھر دیکھے، یا(سجدے میں جاتے ہوئے) کنکریوں کو الٹ پلٹ کرے، (عرب میں صفوں کی جگہ کنکریاں بچھائی جاتی ہیں)،یاکسی لغو چیز میں مشغول ہو، یا دل میں کسی دنیاوی چیز کاخیال لائے؛ ہاں! بھول کے خیال آگیا ہوتودوسری بات ہے۔

فائدہ: ﴿قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾کی تفسیر میں مختلف ارشادات وارد ہوئے ہیں: ایک یہ بھی ہے کہ ’’قٰنِتِینَ‘‘ کے معنیٰ چپ چاپ کے ہیں، ابتدائی زمانے میں نماز میں بات کرنا، سلام کا جواب دینا، وغیرہ وغیرہ امورجائز تھے؛ مگر جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تونماز میں بات کرنا ناجائز ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدس ﷺ نے اس بات کا عادی بنا رکھا تھا کہ جب میں حاضرہوں تو گو حضورﷺ نماز میں مشغول ہوں میں سلام کرتا، حضورﷺ جواب دیتے، ایک مرتبہ میں حاضرہوا، حضورﷺ نمازمیں مشغول تھے، میں نے حسب عادت سلام کیا، حضورﷺنے جواب نہیں دیا، مجھے سخت فکر ہوا کہ شاید میرے بارے میں اللہ جل شانہٗ کے یہاں سے کوئی عتاب نازل ہوا ہو،نئے اور پرانے خیالات نے مجھے گھیر لیا، پرانی پرانی باتیں سوچتا تھا، کہ شاید فلاں بات پر حضورﷺ ناراض ہوگئے ہوں، شاید فلانی بات ہوگئی ہو، جب حضورﷺنے سلام پھیر لیا توارشاد فرمایا کہ: حق تعالیٰ شانہٗ اپنے احکام میں جوچاہتے ہیں تبدیلی فرماتے ہیں،حق تعالیٰ شانہٗ نے نماز میں بولنے کی ممانعت فرمادی، اوریہ آیت تلاوت فرمائی، اورپھر ارشادفرمایا کہ نماز میں اللہ کے ذکر، اس کی تسبیح، اس کی حمدوثنا کے سوا بات کرنا جائز نہیں۔

مُعاوِیہ بن حَکَم سُلَمِیؓ کہتے ہیں کہ جب میں مدینۂ طیبہ مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوا تو مجھے بہت سی چیزیں سکھائی گئیں، من جملہ ان کے یہ بھی تھا کہ، جب کوئی چھینکے اور ’’الحمد للہ‘‘ کہے تو اس کے جواب میں ’’یرحمك اللہ‘‘ کہناچاہیے، چوں کہ نئی تعلیم تھی، اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں نہ کہناچاہیے، ایک صاحب کو نماز میں چھینک آئی، میں نے جواب میں ’’یَرْحَمُكَ اللہُ‘‘ کہا، آس پاس کے لوگوں نے مجھے تنبیہ کے طور پر گھورا،مجھے اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں بولنا جائز نہیں؛ اس لیے میں نے کہا: ہائے افسوس! تمہیں کیا ہوا کہ مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو؟ مجھے اشارے سے ان لوگوں نے چپ کرادیا، میری سمجھ میں تو آیا نہیں؛ مگر میں چپ ہوگیا، جب نمازختم ہوچکی تو حضورِ اقدس ﷺ نے (میرے ماں باپ آپ پر قربان) نہ مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا؛ بلکہ ارشادفرمایا کہ نماز میں بات کرنا جائز نہیں، نمازتسبیح وتکبیر اور قراء ت قرآن ہی کاموقع ہے، خداکی قسم! حضور ﷺ جیسا شفیق استاذ نہ میں نے پہلے دیکھا، نہ بعد میں۔

دوسری تفسیر حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ، ’’قٰنِتِیْنَ‘‘ کے معنیٰ ’’خَاشِعِینَ‘‘ کے ہیں، یعنی خشوع سے نماز پڑھنے والے، اسی کے موافق مجاہدؒ یہ نقل کرتے ہیں جو اوپر ذکرکیاگیا کہ، یہ سب چیزیں خشوع میں داخل ہیں، یعنی لمبی لمبی رکعات کاہونا، اورخشوع خضوع سے پڑھنا، نگاہ کو نیچی رکھنا، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضور اقدس ﷺ رات کوجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواپنے کو رسی سے باندھ لیاکرتے، کہ نیند کے غلبے سے گر نہ جائیں، اس پر ﴿مَا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقیٰ﴾ (طٰہٰ) نازل ہوئی۔

اور یہ مضمون توکئی حدیثوں میں آیا ہے کہ حضورﷺ اتنی طویل رکعت کیاکرتے تھے کہ کھڑے کھڑے پاؤں پر ورم آجاتا تھا، اگرچہ ہم لوگوں پر شفقت کی وجہ سے حضورﷺنے یہ ارشادفرما دیا کہ: جس قدر تحمل اور نباہ ہوسکے اتنی محنت کرناچاہیے، ایسا نہ ہوکہ تحمل سے زیادہ بار اٹھانے کی وجہ سے بالکل ہی جاتا رہے۔ چنانچہ ایک صحابی عورت نے بھی اسی طرح رسی میں اپنے کو باندھنا شروع کیا، تو حضورﷺ نے منع فرمادیا؛ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ تحمل کے بعدجتنی لمبی نماز ہوگی اتنی ہی بہتر اور افضل ہوگی۔ آخر حضورﷺ کااتنی لمبی نماز پڑھناکہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا تھا کوئی توبات رکھتا ہے! صحابۂ کرامؓ عرض بھی کرتے کہ سورۂ فتح میں آپ کی مغفرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمالیا ہے، تو حضورﷺ ارشاد فرماتے: پھر میں شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں!

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضوراقدس ﷺ نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سینۂ مبارک سے رونے کی آواز (سانس رکنے کی وجہ سے) ایسی مسلسل آتی تھی جیسا چکی کی آواز ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایسی آواز ہوتی تھی جیسا کہ ہنڈیا کے پکنے کی آواز ہوتی ہے۔(ترغیب)

حضرت علی فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں میں نے حضورﷺ کودیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کھڑے نمازپڑھ رہے تھے، اور رو رہے تھے، کہ اسی حالت میں صبح فرمادی۔

متعدد احادیث میں ارشاد ہے کہ: حق تعالیٰ شانہٗ چند آدمیوں سے بے حدخوش ہوتے ہیں، من جملہ ان کے وہ شخص ہے جو سردی کی رات میں نرم بستر پر لحاف میں لپٹا ہوا لیٹا ہو، اور خوب صورت دل میں جگہ کرنے والی بیوی پاس لیٹی ہو، اور پھرتہجد کے لیے اٹھے اور نماز میں مشغول ہوجائے، حق تعالیٰ شانہٗ اُس شخص سے بہت ہی خوش ہوتے ہیں، تعجب فرماتے ہیں، باوجود عالم الغیب ہونے کے فرشتوں سے فخر کے طور پر دریافت فرماتے ہیں کہ اس بندے کوکس بات نے مجبور کیا کہ اس طرح کھڑا ہوگیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: آپ کے لطف وعطایا کی امید نے اور آپ کے عتاب کے خوف نے، ارشاد ہوتا ہے: اچھا! جس چیز کی اس نے مجھ سے امید رکھی وہ میں نے عطا کی، اور جس چیز کا اس کو خوف ہے اس سے امن بخشا۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی بندے کو کوئی عطا اللہ کی طرف سے اس سے بہتر نہیں دی گئی کہ اس کو دو رکعت نماز کی توفیق عطا ہوجائے۔

قرآن وحدیث میں کثرت سے وارد ہوا ہے کہ فرشتے ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں، احادیث میں آیا ہے کہ ایک جماعت ان کی ایسی ہے جو قیامت تک رکوع ہی میں رہے گی، اور ایک جماعت اسی طرح ہر وقت سجدے میں مشغول رہتی ہے، اور ایک جماعت اسی طرح کھڑی رہتی ہے، حق تعالیٰ شانہٗ نے مؤمن کے لیے یہ اکرام واعزازفرمایا کہ ان سب چیزوں کامجموعہ اس کو دو رکعت نماز میں عطا فرمادیا؛ تاکہ فرشتوں کی ہرعبادت سے اس کو حصہ مل جائے، اورنماز میں قرآن شریف کی تلاوت ان کی عبادتوں پر اضافہ ہے۔ اور جب یہ فرشتوں کی عبادتوں کامجموعہ ہے تو انہی کی سی صفات سے اس میں لطف میسر ہوسکتا ہے؛ اسی لیے حضورﷺ کاارشاد ہے کہ: نمازکے لیے اپنی کمر اور پیٹ کو ہلکا رکھا کرو۔ (جامع الصغیر)

کمر کو ہلکا رکھنے کایہ مطلب ہے کہ، بہت سے جھگڑے اپنے پیچھے نہ لگاؤ، اورپیٹ کوہلکارکھنا ظاہر ہے کہ زیادہ سیر ہوکر نہ کھاؤ، اِس سے کاہلی، سستی پیدا ہوتی ہے۔

صوفیا کہتے ہیں کہ نماز میں بارہ ہزار چیزیں ہیں، جن کوحق تعالیٰ شانہٗ نے بارہ چیزوں میں مُنضَم فرمایا ہے، ان بارہ کی رعایت ضروری ہےتاکہ نمازمکمل ہوجائے، اور اس کا پورا فائدہ حاصل ہو۔ یہ بارہ حسب ذیل ہیں: اول علم، حضورﷺ کاارشاد ہے کہ علم کے ساتھ تھوڑا ساعمل بھی جہل کی حالت کے بہت سے عمل سے افضل ہے۔(مسلم، باب صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۵۶)

دوسرے: وضو، تیسرے: لباس، چوتھے: وقت، پانچویں: قبلے کی طرف رخ کرنا، چھٹے: نیت، ساتویں: تکبیر تحریمہ، آٹھویں: نماز میں کھڑا ہونا، نویں: قرآن شریف پڑھنا، دسویں: رکوع، گیارہویں: سجدہ، بارہویں: التحیات میں بیٹھنا؛ اور ان سب کی تکمیل اخلاص کے ساتھ ہے۔پھر ان بارہ کے تین تین جزو ہیں:

اول علم کے تین جزو یہ ہیں: فرضوں اور سنتوں کوعلاحدہ علاحدہ معلوم کرے۔ دوسرے یہ معلوم کرے کہ وضو اور نماز میں کتنی چیزیں فرض ہیں؟ کتنی سنت ہیں؟تیسرے یہ معلوم کرے کہ شیطان کس کس مکر سے نمازمیں رخنہ ڈالتا ہے۔

اس کے بعد وضو کے بھی تین جزو ہیں: اول یہ کہ دل کو کینہ اورحسد سے پاک کرے جیسا کہ ظاہری اعضا کوپاک کررہاہے۔ دوسرے: ظاہری اعضا کو گناہوں سے پاک رکھے۔ تیسرے: وضو کرنے میں نہ اسراف کرے نہ کوتاہی کرے۔

پھر لباس کے بھی تین جزو ہیں:اول یہ کہ، حلال کمائی سے ہو۔ دوسرے یہ کہ، پاک ہو۔ تیسرے: سنت کے موافق ہو، کہ ٹخنے وغیرہ ڈھکے ہوئے نہ ہوں، تکبر اور بڑائی کے طور پر نہ پہنا ہو۔

پھر وقت میں بھی تین چیزوں کی رعایت ضروری ہے: اول یہ کہ، دھوپ، ستاروں وغیرہ کی خبر گیری رکھے؛ تاکہ اوقات صحیح معلوم ہوسکیں، (اورہمارے زمانے میں اس کے قائم مقام گھڑی گھنٹے ہوگئے ہیں)۔ دوسرے، اذان کی خبر رکھے۔ تیسرے، دل سے ہر وقت نماز کے وقت کا خیال رکھے، کبھی ایسا نہ ہو کہ وقت گزرجائے، پتہ نہ چلے۔

پھرقبلے کی طرف منہ کرنے میں بھی تین چیزوں کی رعایت رکھے: اول یہ کہ، ظاہری بدن سے ادھر متوجہ ہو۔ دوسرے یہ کہ، دل سے اللہ کی طرف توجہ رکھے، کہ دل کا کعبہ وہی ہے۔ تیسرے، مالک کے سامنے جس طرح ہمہ تن متوجہ ہوناچاہیے اس طرح متوجہ ہو۔

پھرنیت بھی تین چیزوں کی محتاج ہے: اول یہ کہ، کون سی نمازپڑھ رہاہے؟ دوسرے یہ کہ، اللہ کے سامنے کھڑاہے اور وہ دیکھتا ہے۔ تیسرے یہ کہ، وہ دل کی حالت کوبھی دیکھتا ہے۔

پھر تکبیر تحریمہ کے وقت بھی تین چیزوں کی رعایت کرنا ہے: اول یہ کہ، لفظ صحیح ہو۔ دوسرے، ہاتھوں کوکانوں تک اٹھائے، (گویا اشارہ ہے کہ اللہ کے ماسوا سب چیزوں کو پیچھے پھینک دیا)۔ تیسرے یہ کہ، اللہ أکبر کہتے ہوئے اللہ کی بڑائی اور عظمت دل میں بھی موجود ہو۔

پھر قیام یعنی کھڑے ہونے میں بھی تین چیزیں ہیں: اول یہ کہ، نگاہ سجدے کی جگہ رہے۔ دوسرے، دل سے اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال کرے۔ تیسرے، کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ جوشخص نماز میں ادھر ادھر متوجہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص بڑی مشکل سے دربانوں کی منت سماجت کرکے بادشاہ کے حضور میں پہنچے، اورجب رسائی ہو اور بادشاہ اس کی طرف متوجہ ہو تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے، ایسی صورت میں بادشاہ اس کی طرف کیاتوجہ کرے گا!

پھر قرأت میں بھی تین چیزوں کی رعایت کرے: اول، صحیح ترتیل سے پڑھے۔ دوسرے، اس کے معنیٰ پر غور کرے۔ تیسرے، جوپڑھے اس پرعمل کرے۔

پھر رکوع میں بھی تین چیزیں ہیں: اول یہ کہ، کمر کو رکوع میں بالکل سیدھا رکھے، نہ نیچا کرے نہ اُونچا، (علما نے لکھاہے کہ سر اورکمر اورسرین، تینوں چیزیں برابر رہیں)۔ دوسرے، ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر چوڑی کرکے گھٹنوں پر رکھے۔ تیسرے، تسبیحات کو عظمت اور وقار سے پڑھے۔

پھر سجدے میں بھی تین چیزوں کی رعایت کرے: اول یہ کہ، دونوں ہاتھ سجدے میں کانوں کے برابر رہیں۔ دوسرے، ہاتھوں کی کہنیاں کھڑی رہیں۔ تیسرے، تسبیحات کوعظمت سے پڑھے۔

پھر بیٹھنے میں بھی تین چیزوں کی رعایت کرے: اول یہ کہ، دایاں پاؤں کھڑاکرے اور بائیں پر بیٹھے۔ دوسرے یہ کہ، عظمت کے ساتھ معنیٰ کی رعایت کرکے تشہد پڑھے، کہ اس میں حضور اقدس ﷺپر سلام ہے، مؤمنین کے لیے دعا ہے۔ پھر فرشتوں پراوردائیں بائیں جانب جو لوگ ہیں ان پر سلام کی نیت کرے۔

پھراخلاص کے بھی تین جزوہیں: اول یہ کہ، اس نماز سے صرف اللہ کی خوش نودی مقصود ہو۔ دوسرے یہ سمجھے کہ، اللہ ہی کی توفیق سے یہ نماز اداہوئی۔ تیسرے، اس پر ثواب کی امید رکھے۔

حقیقت میں نماز میں بڑی خیر اور بڑی برکت ہے،اس کاہر ذکر بہت سی خوبیوں کو اور اللہ کی بڑائیوں کو لیے ہوئے ہے، ایک سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ ہی کودیکھ لیجیے جوسب سےپہلی دعا ہے، کہ کتنے فضائل پر حاوی ہے۔

سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ:یااللہ! تیری پاکی کابیان کرتاہوں کہ توہرعیب سے پاک ہے، ہر برائی سے دور ہے۔ وَبِحَمْدِكَ: جتنی تعریف کی باتیں ہیں اورجتنے بھی قابل مدح امور ہیں، وہ سب تیرے لیے ثابت ہیں اورتجھے زیبا۔ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ: تیرانام بابرکت ہے، اور ایسا بابرکت ہے کہ جس چیز پر تیرا نام لیاجائے وہ بھی بابرکت ہوجاتی ہے۔ وَتَعَالیٰ جَدُّكَ: تیری شان بہت بلند ہے، تیری عظمت سب سے بالاتر ہے۔ وَلَاإِلٰہَ غَیْرُكَ: تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، نہ کوئی ذات پرستش کے لائق کبھی ہوئی، نہ ہے۔

اسی طرح رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ میرا عظمت اوربڑائی والارب ہر عیب سے بالکل پاک ہے۔ اس کی بڑائی کے سامنے اپنی عاجزی اور بے چارگی کااظہار ہے، کہ گردن کابلند کرنا غرور اور تکبر کی علامت ہے، اور اس کا جھکادینا نیازمندی اور فرماں برداری کااقرار ہے، تو رکوع میں گویا اس کااقرار ہے کہ، تیرے احکام کے سامنے اپنے کوجھکاتاہوں، اور تیری اطاعت اور بندگی کواپنے سر پر رکھتاہوں، میرا یہ گناہ گار جسم تیرے سامنے حاضر ہے اورتیری بارگاہ میں جھکا ہوا ہے، توبے شک بڑائی والا ہے، اور تیری بڑائی کے سامنے میں سرنگوں ہوں۔

اسی طرح سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ میں بھی اللہ کی بے حد رفعت وبلندی کا اقرار ہے، اور اس بلندی کے ساتھ ہر برائی وہر عیب سے پاکی کا اقرار ہے، اپنے اس سر کو اس کے سامنے ڈال دینا ہے جو سارے اعضا میں اشرف شمار کیاجاتا ہے، اور اس میں محبوب ترین چیزیں:آنکھ، کان، ناک، زبان ہیں؛ گویا اس کا اقرار ہے کہ میری یہ سب اشرف اور محبوب چیزیں تیرے حضور میں حاضر اور تیرے سامنے زمین پر پڑی ہوئی ہیں، اس امید پر کہ تومجھ پرفضل فرمائے اوررحم کرے، اور اس عاجزی کاپہلا ظہور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑے رہنے میں تھا، اس پرترقی اس کے سامنے سر جھکادینے میں تھی، اوراس پر بھی ترقی اس کے سامنے زمین پر ناک رگڑنے اور سر رکھ دینے میں ہے، اسی طرح پوری نمازکی حالت ہے۔ اورحق یہ ہے کہ یہی اصلی ہیئت نماز کی ہے، اور یہی ہے وہ نماز جو دین ودنیا کی فلاح وبہبود کا زینہ ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ اپنے لطف سے مجھے اورسب مسلمانوں کو اس پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اورجیسا کہ مجاہدؒ نے بیان کیا ہے، فقہائے صحابہ کی یہی نماز تھی، وہ جب نمازمیں کھڑے ہوتے تھے اللہ سے ڈرتے تھے۔

حضرت حسنؓ جب وضو فرماتے توچہرے کارنگ متغیر ہوجاتا تھا، کسی نے پوچھا: یہ کیابات ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ: ایک بڑے جبار بادشاہ کے حضور میں کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے، پھر وضو کرکے جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ فرماتے:

إِلٰهِيْ! عَبْدُكَ بِبَابِكَ، یَا مُحْسِنُ! قَدْ أَتَاكَ الْمُسِيْئُ، وَقَدْ أَمَرْتَ الْمُحْسِنَ مِنَّا أَنْ یَّتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِيْئِ، فَأَنْتَ الْمُحْسِنُ وَأَنَا الْمُسِيْئُ، فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِیْحِ مَا عِنْدِيْ بِجَمِیْلِ مَا عِنْدِكَ یَا کَرِیْمُ!

’’یااللہ! تیرابندہ تیرے دروازے پر حاضر ہے، اے احسان کرنے والے اور بھلائی کا برتاؤ کرنے والے! بداعمال تیرے پاس حاضر ہے، تونے ہم لوگوں کویہ حکم فرمایا ہے کہ اچھے لوگ بروں سے درگزرکریں، تواچھائی والا ہے اور میں بدکار ہوں، اے کریم! میری برائیوں سے ان خوبیوں کی بدولت جن کا تو مالک ہے، درگزر فرما‘‘۔ اس کے بعد مسجد میں داخل ہوتے۔

حضرت زین العابدینؒ روزانہ ایک ہزاررکعت پڑھتے تھے، تہجد کبھی سفر یاحضر میں ناغہ نہیں ہوا، جب وضو کرتے توچہرہ زرد ہوجاتاتھا، اور جب نماز کو کھڑے ہوتے تو بدن پر لرزہ آجاتا، کسی نے دریافت کیا توفرمایا: کیاتمہیں خبر نہیں کہ کس کے سامنے کھڑاہوتاہوں؟ ایک مرتبہ نماز پڑھ رہے تھے کہ گھر میں آگ لگ گئی، یہ نماز میں مشغول رہے، لوگوں نے عرض کیا تو فرمایا: دنیا کی آگ سے آخرت کی آگ نے غافل رکھا۔ آپ کاارشاد ہے کہ مجھے تکبر کرنے والے پر تعجب ہے، کہ کل تک ناپاک نطفہ تھا، اور کل کو مردار ہوجائے گا پھرتکبر کرتاہے! آپ فرمایا کرتے تھے: تعجب ہے! لوگ فنا ہونے والے گھرکے لیے توفکر کرتے ہیں، ہمیشہ رہنے والے گھر کی فکر نہیں کرتے۔ آپ کا معمول تھاکہ رات کوچھپ کرصدقہ کیاکرتے، لوگوں کویہ بھی خبر نہ ہوتی کہ کس نے دیا۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو سو گھر ایسے نکلے جن کاگزارہ آپ کی اعانت پر تھا۔ (نُزہَۃُ البَساتین، ص:۱۲۱)

حضرت علی کرّم اللہ وجہہٗ کے متعلق نقل کیاگیا ہے کہ جب نمازکاوقت آتا تو چہرے کا رنگ بدل جاتا، بدن پرکپکپی آجاتی، کسی نے پوچھا تو ارشادفرمایا کہ: اس امانت کے ادا کرنے کاوقت ہے جس کو آسمان وزمین نہ اٹھاسکے، پہاڑ اس کے اٹھانے سے عاجز ہوگئے، میں نہیں سمجھتا کہ اس کو پورا کرسکوں گا یانہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ جب اذان کی آواز سنتے تواس قدر روتے کہ چادر تر ہوجاتی، رگیں پھول جاتیں، آنکھیں سرخ ہوجاتیں، کسی نے عرض کیاکہ ہم تو اذان سنتے ہیں؛ مگر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، آپ اس قدرگھبراتے ہیں؟ ارشادفرمایا: ’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مؤذن کیاکہتا ہے تو راحت وآرام سے محروم ہوجائیں اور نیند اڑ جائے‘‘، اس کے بعد اذان کے ہر ہرجملے کی تنبیہ کو مفصل ذکر فرمایا۔

ایک شخص نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ذوالنون مصریؒ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی، جب انہوں نے ’’اللہ أَکبر‘‘ کہا تو لفظ’’اللہ‘‘ کے وقت ان پر جلال الٰہی کا ایسا غلبہ تھا گویا ان کے بدن میں روح نہیں رہی، بالکل مبہوت سے ہوگئے، اور جب ’’أکبر‘‘ زبان سے کہا تو میرادل ان کی اس تکبیر کی ہیبت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ (نُزہَۃُ البَساتین، ص:۲۶۷)

حضرت اویس قرنیؒ–مشہور بزرگ اور افضل ترین تابعی ہیں– بعض مرتبہ رکوع کرتے اور تمام رات اسی حالت میں گزار دیتے، کبھی سجدے میں یہی حالت ہوتی، کہ تمام رات ایک ہی سجدے میں گزار دیتے۔ (نُزہَۃُ البَساتین، ص:۱۹۷)

عصامؒ نے حضرت حاتم زاہد بلخیؒ سے پوچھا کہ آپ نمازکس طرح پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ جب نمازکاوقت آتا ہے، اول نہایت اطمینان سے اچھی طرح وضوکرتاہوں، پھر اس جگہ پہنچتا ہوں جہاں نمازپڑھنا ہے، اور اول نہایت اطمینان سے کھڑا ہوتا ہوں، گویاکعبہ میرے منہ کے سامنے ہے، اور میرا پاؤں پل صراط پر ہے، دا ہنی طرف جنت ہے، بائیں طرف دوزخ ہے، موت کافرشتہ میرے سر پر ہے، اور میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے، پھر کوئی اور نماز شاید میسر نہ ہو، اور میرے دل کی حالت کو اللہ ہی جانتاہے، اس کے بعد نہایت عاجزی کے ساتھ ’’اَللہ أَکبَر‘‘ کہتا ہوں، پھرمعنیٰ کوسوچ کرقرآن پڑھتاہوں، پھر تواضع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں، عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں، اور اطمینان سے نماز پوری کرتاہوں، اس طرح کہ اللہ کی رحمت سے اس کے قبول ہونے کی امید رکھتاہوں، اور اپنے اعمال سے مردود ہوجانے کاخوف کرتا ہوں۔ عِصامؒ نے پوچھا: کتنی مدت سے آپ ایسی نماز پڑھتے ہیں؟ حاتمؒ نے کہا: تیس برس سے، عِصام ؒ رونے لگے کہ مجھے ایک بھی نماز ایسی نصیب نہ ہوئی۔ کہتے ہیں کہ حاتمؒ کی ایک مرتبہ جماعت فوت ہوگئی جس کابے حد اثر تھا، ایک دوملنے والوں نے تعزیت کی، اس پر رونے لگے اورفرمایا: اگر میرا ایک بیٹا مرجاتا تو آدھا بلخ تعزیت کرتا–ایک روایت میں آیاہے کہ دس ہزار آدمیوں سے زیادہ تعزیت کرتے–، جماعت کے فوت ہونے پر ایک دو آدمیوں نے تعزیت کی، یہ صرف اس وجہ سے کہ دین کی مصیبت لوگوں کی نگاہ میں دنیا کی مصیبت سے ہلکی ہے۔

حضرت سعیدبن المُسَیِّبؒ کہتے ہیں کہ بیس برس کے عرصے میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اذان ہوئی ہو اورمیں مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہوں۔

محمدبن واسعؒ کہتے ہیں کہ مجھے دنیامیں صرف تین چیزیں چاہییں: ایک ایسادوست ہو جو میری لغزشوں پر متنبہ کرتا رہے، ایک بقدر زندگی روزی جس میں کوئی جھگڑا نہ ہو، ایک جماعت کی نماز ایسی کہ اس میں جو کوتاہی ہوجائے وہ تو معاف ہو، اور ثواب جو ہو مجھے مل جائے۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجَرَّاحؓ نے ایک مرتبہ نماز پڑھائی، نماز کے بعد فرمانے لگے: شیطان نے اس وقت مجھ پرایک حملہ کیا، میرے دل میں یہ خیال ڈالا کہ میں افضل ہوں؛ (اس لیے کہ افضل کوامام بنایاجاتاتھا)،آئندہ کبھی بھی نماز نہیں پڑھاؤں گا۔

مَیمون بن مِہرانؒ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لے گئے توجماعت ہوچکی تھی، إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا، اورفرمایا : اس نماز کی فضیلت مجھے عراق کی سلطنت سے بھی زیادہ محبوب تھی۔

کہتے ہیں کہ ان حضرات کرام میں سے جس کی تکبیر اولیٰ فوت ہوجاتی، تین دن تک اس کا رنج کرتے تھے، اور جس کی جماعت جاتی رہتی سات دن تک اس کاافسوس کرتے تھے۔ (اِحیاء العُلوم)

بکر بن عبداللہؒ کہتے ہیں: اگر تواپنے مالک، اپنے مولیٰ سے بلاواسطہ بات کرناچاہے تو جب چاہے کرسکتاہے، کسی نے پوچھا کہ: اس کی کیاصورت ہے؟ فرمایا: اچھی طرح وضو کر اور نماز کی نیت باندھ لے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: حضورﷺ ہم سے باتیں کرتے تھے اور ہم حضور ﷺ سے باتیں کرتے تھے؛ لیکن جب نماز کاوقت آجاتا تو ایسے ہوجاتے گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں، اور ہمہ تن اللہ کی طرف مشغول ہوجاتے۔

سعید تَنوخیؒ جب تک نمازپڑھتے رہتے مسلسل آنسوؤں کی لڑی رخساروں پرجاری رہتی۔

خَلف بن ایوب سے کسی نے پوچھا کہ یہ مکھیاں تم کو نماز میں دِق نہیں کرتیں؟ کہنے لگے: میں اپنے کو کسی ایسی چیز کا عادی نہیں بناتا جس سے نماز میں نقصان آئے، یہ بدکار لوگ حکومت کے کوڑوں کو برداشت کرتے رہتے ہیں، محض اتنی سی بات کے لیے کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا متحمل مزاج ہے، اور پھر اس کوفخرِیہ بیان کرتے ہیں، میں اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہوں اور ایک مَکھی کی وجہ سے حرکت کرنے لگوں!

’’بَهجَۃُ النُّفُوس‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک صحابی رات کونمازپڑھ رہے تھے، ایک چور آیا اور گھوڑا کھول کر لے گیا، لے جاتے ہوئے اس پرنظر بھی پڑگئی؛ مگرنماز نہ توڑی، بعد میں کسی نے کہا بھی کہ آپ نے پکڑنہ لیا؟فرمایا: جس چیز میں میں مشغول تھا وہ اس سے بہت اونچی تھی۔

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا توقصہ مشہور ہے کہ جب لڑائی میں ان کے تیر لگ جاتے تووہ نماز ہی میں نکالے جاتے، چنانچہ ایک مرتبہ ران میں ایک تیر گھس گیا، لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی، نہ نکل سکا، آپس میں مشورہ کیا کہ جب یہ نمازمیں مشغول ہوں اس وقت نکالا جائے، آپ نے جب نفلیں شروع کیں اور سجدے میں گئے توان لوگوں نے اس کو زورسے کھینچ لیا، جب نمازسے فارغ ہوئے تو آس پاس مجمع دیکھا، فرمایا: کیا تم تیر نکالنے کے واسطے آئے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: وہ تو ہم نے نکال بھی لیا، آپ نے فرمایا: مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔

مُسلِم بن یَسارؒ جب نماز پڑھتے تو گھر والوں سے کہہ دیتے کہ تم باتیں کرتے رہو، مجھے تمہاری باتوں کاپتہ نہیں چلے گا۔

ربیعؒ کہتے ہیں کہ میں جب نماز میں کھڑا ہوتاہوں مجھ پر اس کافکر سوار ہوجاتا ہے کہ، مجھ سے کیاکیاسوال وجواب ہوگا۔

عامر بن عبداللہؒ جب نمازپڑھتے تو گھر والوں کی باتوں کی تو کیا خبر ہوتی، ڈھول کی آواز کابھی پتہ نہ چلتاتھا، کسی نے ان سے پوچھا: تمہیں نماز میں کسی چیز کی بھی خبرہوتی ہے؟ فرمایا: ہاں! مجھے اس کی خبر ہوتی ہے کہ ایک دن اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہوناہوگا، اوردونوں گھروں :جنت یادوزخ میں سے ایک میں جانا ہوگا، انہوں نے عرض کیا: یہ نہیں پوچھتا، ہماری باتوں میں سے کسی کی خبر ہوتی ہے؟ فرمایا: مجھ میں نیزوں کی بھالیں گھس جائیں یہ زیادہ اچھاہے اس سے کہ مجھے نماز میں تمہاری باتوں کا پتہ چلے۔ ان کایہ بھی ارشاد ہے کہ اگر آخرت کامنظراس وقت میرے سامنے ہوجائے تو میرے یقین وایمان میں اضافہ نہ ہو، (کہ غیب پر ایمان اتنا ہی پختہ ہے جتنا مشاہدہ پر ہوتا ہے)۔

ایک صاحب کا کوئی عضو خراب ہوگیا تھا، جس کے لیے اس کے کاٹنے کی ضرورت تھی، لوگوں نے تجویزکیاکہ، جب یہ نماز کی نیت باندھیں اس وقت کاٹناچاہیے، ان کوپتہ بھی نہ چلے گا؛ چنانچہ نمازپڑھتے ہوئے اس عضو کو کاٹ دیا گیا۔

ایک صاحب سے پوچھا گیا : تمہیں نماز میں دنیا کابھی خیال آجاتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہ نماز میں آتا ہے نہ بغیرنماز کے۔

ایک اور صاحب کاقصہ لکھا ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا: تمہیں نماز میں کوئی چیز یاد آجاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نمازسے بھی زیادہ کوئی محبوب چیز ہے جو نماز میں یاد آئے!

’’بَهجَۃُ النُّفُوْس‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ کی خدمت میں ایک شخص ملنے کے لیے آیا، وہ ظہر کی نماز میں مشغول تھے، وہ انتظار میں بیٹھ گیا، جب نماز سے فارغ ہوچکے تو نفلوں میں مشغول ہوگئے، اورعصر تک نفلیں پڑھتے رہے، یہ انتظار میں بیٹھا رہا، نفلوں سے فارغ ہوئے تو عصر کی نماز شروع کردی، اور اس سے فارغ ہوکر ذکر میں مشغول ہوگئے، اورمغرب تک مشغول رہے، پھر مغرب کی نمازپڑھی اورنفلیں شروع کردیں، عشاء تک اس میں مشغول رہے، یہ بے چارہ انتظار میں بیٹھا رہا، عشاء کی نمازپڑھ کر پھرنفلوں کی نیت باندھ لی، اورصبح تک اس میں مشغول رہے، پھر صبح کی نماز پڑھی اور ذکر شروع کردیا، اوراد و وظائف پڑھتے رہے، اسی میں مصلے پر بیٹھے بیٹھے آنکھ جھپک گئی، تو فوراً آنکھوں کو ملتے ہوئے اٹھے، استغفاروتوبہ کرنے لگے، اور یہ دعا پڑھی: أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَیْنٍ لَّاتَشْبَعُ مِنَ النَّوْمِ (اللہ ہی سے پناہ مانگتاہوں ایسی آنکھ سے جونیند سے بھرتی ہی نہیں)۔

ایک صاحب کاقصہ لکھاہے کہ وہ رات کوسونے لیٹتے توکوشش کرتے کہ آنکھ لگ جائے؛مگر جب نیند نہ آتی تو اٹھ کرنماز میں مشغول ہوجاتے، اورعرض کرتے: ’’یااللہ! تجھ کو معلوم ہے کہ جہنم کی آگ کے خوف نے میری نیند اڑا دی‘‘، اوریہ کہہ کر صبح تک نماز میں مشغول رہتے۔

ساری رات بے چینی اور اضطراب یاشوق و اشتیاق میں جاگ کر گزار دینے کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحاطہ ممکن نہیں، ہم لوگ اس لذت سے اتنے دور ہوگئے ہیں کہ ہم کو ان واقعات کی صحت میں بھی تردد ہونے لگا؛ لیکن اول تو جس کثرت اور تواتر سے یہ واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان کی تردید میں ساری ہی تواریخ سے اعتماد اٹھتا ہے، کہ واقعے کی صحت کثرت نقل ہی سے ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو آئے دن دیکھتے ہیں جو سنیمااور تھیٹر میں ساری رات کھڑے کھڑے گزار دیتے ہیں، کہ نہ ان کو تعب ہوتا ہے نہ نیند ستاتی ہے، پھر کیاوجہ کہ ہم ایسے معاصی کی لذتوں کایقین کرنے کے باوجود ان طاعات کی لذتوں کاانکار کریں!؛ حالانکہ طاعات میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے قوت بھی عطا ہوتی ہے، ہمارے اس تردد کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ، ہم ان لذتوں سے ناآشنا ہیں! اور نابالغ، بلوغ کی لذتوں سے ناواقف ہوتا ہی ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ اس لذت تک پہنچا دیں تو زہے نصیب۔

آخری گزارش

صوفیا نے لکھا ہے کہ نمازحقیقت میں اللہ جل شانہٗ کے ساتھ مناجات کرنا اورہم کلام ہونا ہے، جوغفلت کے ساتھ ہوہی نہیں سکتا، نماز کے علاوہ اور عبادتیں غفلت سے بھی ہوسکتی ہیں، مثلاً زکوۃہے، کہ اس کی حقیقت مال کاخرچ کرنا ہے، یہ خود ہی نفس کو اتنا شاق ہے کہ اگر غفلت کے ساتھ ہو تب بھی نفس کو شاق گزرے گا، اسی طرح روزہ، دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا، صحبت کی لذت سے رکنا، کہ یہ سب چیزیں نفس کو مغلوب کرنے والی ہیں، غفلت سے بھی اگر متحقق ہوں تو نفس کی شدت وتیزی پر اثر پڑے گا؛ لیکن نمازکا معظم حصہ ذکر ہے، قراء ت قرآن ہے، یہ چیزیں اگر غفلت کی حالت میں ہوں تو مناجات یاکلام نہیں ہیں، ایسی ہی ہیں جیسے کہ بخار کی حالت میں ہذیان اوربکواس ہوتی ہے، کہ جو چیزدل میں ہوتی ہے وہ زبان پر ایسے اوقات میں جاری ہوتی ہے، نہ اس میں کوئی مشقت ہوتی ہے نہ کوئی نفع، اسی طرح چونکہ نمازکی عادت پڑگئی ہے؛ اس لیے اگرتوجہ نہ ہو تو عادت کے موافق بلاسوچے سمجھے زبان سے الفاظ نکلتے رہیں گے، جیسا کہ سونے کی حالت میں اکثر باتیں زبان سے نکلتی ہیں، کہ نہ سننے والااس کو اپنے سے کلام سمجھتا ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے، اسی طرح حق تعالیٰ شانہٗ بھی ایسی نماز کی طرف التفات اور توجہ نہیں فرماتے جو بلاارادہ کے ہو؛ اس لیے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وسعت وہمت کے موافق پوری توجہ سے پڑھی جائے؛ لیکن یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اگر یہ حالات اورکیفیات –جوپچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں– حاصل نہ بھی ہوں، تب بھی نماز جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے۔ یہ بھی شیطان کاایک سخت ترین مکر ہوتا ہے، وہ یہ سمجھائے کہ بری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے، یہ غلط ہے، نہ پڑھنے سے بری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے؛ اس لیے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے، حتیٰ کہ علما کی ایک جماعت نے اس شخص کے کفر کافتویٰ دیا ہے جو جان بوجھ کر نمازچھوڑ دے، جیسا کہ پہلے باب میں مفصل گزرچکاہے؛ البتہ اس کی کوشش ضرور ہونا چاہیے کہ، نماز کا جو حق ہے اور اپنے اَکابر اس کے مطابق پڑھ کر دکھا گئے ہیں، حق تعالیٰ شانہٗ اپنے لطف سے اس کی توفیق عطا فرمائیں، اور عمر بھر میں کم از کم ایک ہی نماز ایسی ہوجائے جو پیش کرنے کے قابل ہو۔

اخیر میں اس امر پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ، حضرات محدثین کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسع ہے اورمعمولی ضعف قابل تسامح، باقی صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں، اورظاہر ہے کہ تاریخ کادرجہ، حدیث کے درجے سے کہیں کم ہے۔

وَمَا تَوْفِیْقِيْ إِلَّابِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ. ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْراً کَمَاحَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ، وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا، أَنْتَ مَوْلٰنَا، فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾. وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِ الْأَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ، وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ وَأَتْبَاعِهِمْ وَحَمَلَۃِ الدِّیْنِ الْمَتِیْنِ، بِرَحْمَتِكَ یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

تمت بالخیر!

٭٭٭٭٭

Previous Post

علاماتِ کبریٰ: [تیسری نشانی]یاجوج اور ماجوج | بارہواں درس

Next Post

لِغــيرِ اللّــه لَـن نركـع!

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

14 مارچ 2025
Next Post
لِغــيرِ اللّــه لَـن نركـع!

لِغــيرِ اللّــه لَـن نركـع!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version