یاجوج ماجوج دو قبیلے ہیں۔ آیا یہ انسان ہیں یا کوئی اور مخلوق؟ کیا یہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں؟ یقیناً یہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور انسان ہی ہیں۔ اس کی دلیل بخاری شریف کی ایک حدیث ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ يَا آدَمُ! …… أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ۔ قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ،…… فَاشْتَدَّ ذَلِکَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّنَا ذَلِکَ الرَّجُلُ؟ قَالَ أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفًا وَمِنْکُمْ رَجُلٌ۔
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم ! دوزخ میں بھیجنے کے لیے لوگوں کو نکال۔ (آدم علیہ السلام) عرض کریں گے: کس قدر؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے ۔ صحابہ کو یہ امر بہت گراں گزرا اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (وہ ایک آدمی) ہم میں سے کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تمہیں خوش خبری ہو کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں ایک فرد ہوگا ۔‘‘
چونکہ انسانوں میں سے ایک گروہ جہنم میں جائے گا اور ایک جنت میں یعنی آدمؑ کی اولاد میں سے کچھ حصہ جنت میں جائےگا اور کچھ حصہ جہنم میں جائے گا۔ پس اللہ رب العزت تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ کردو۔جہنمیوں کو ایک طرف علیحدہ کردو۔ آدمؑ نہیں جانتے ہوں گے کہ کون کون لائق جہنم ہے لہٰذا وہ اللہ رب العزت سے دریافت فرمائیں گے کہ دوزخی کون ہیں؟ میری اولاد میں سے کتنے ہیں جو جہنم میں جائیں گے؟اللہ رب العزت فرمائیں گے کہ ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ صحابہ بہت حساس تھے۔ جب انہوں نے حدیث کے یہ الفاظ سنے تو ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا۔ وہ خاموش ہوگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی محسوس کی اور فرمایا کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار (بعض روایات میں نوسوننانوے) اور تم میں سے ایک۔ اور ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج اور ماجوج کو اگر کسی گروہ میں شامل کیا جائے تو وہ اس کی تعداد بہت بڑھا دیں گے۔تناسب ہمیشہ ان کی وجہ سے بڑھے گا کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔وہ اس قدر تیزی سے بڑھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی ایک مرے گا تو اپنے پیچھے ایک ہزار وارث چھوڑ جائے گا۔مگر یہ حکایت کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ ان کی کثرت کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن شریف میں بھی فرمایا ہے:
﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ﴾ (سورة الأنبياء:۹۶)
’’ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے ۔‘‘
ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگی گویا وہ ہر سمت سے امڈے چلے آرہے ہوں گے ۔ اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان ہوں گے اور آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے کیونکہ اللہ رب العزت آدمؑ کو حکم فرمائیں گے کہ اپنی اولاد میں سے جہنمیوں کو علیحدہ کریں۔
بعض دیگر احادیث دیکھتے ہیں جن میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ ہے۔ یہ اگلی حدیث مسلم شریف کی ہے:
إِذْ أَوْحَی اللَّهُ إِلَی عِيسَی إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَی الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَی بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ کَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ حَتَّی يَکُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِکُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَکُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّی يَتْرُکَهَا کَالزَّلَفَةِ
’’ پس اسی دوران حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائیں گے کہ تحقیق میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ پس آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لیے طور [فلسطین] کی طرف لے جائیں [اللہ رب العزت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو متنبہ فرمائیں گے کہ میری اس مخلوق کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا لہٰذا اہل ایمان کی حفاظت کی غرض سے انہیں فلسطین لے جائیں] اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے نکل پڑیں گے، ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبریہ[فلسطین] پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور ان کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھا [ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگی کہ وہ ہرچیز کھا اور پی جائیں گے، یہاں تک کہ اس پورے دریا کا پانی پی کر ختم کردیں گے]اور اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ محصور ہوجائیں گے، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لیے بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لیے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج اہل ایمان کا اس قدر سخت محاصرہ کریں گے کہ ان کے پاس کچھ بھی وسائل اور خوراک باقی نہ بچے گی۔ یہاں تک کہ بیل کا سر، جسے آج کل ہم کھاتے بھی نہیں ہیں بلکہ پھینک دیتے ہیں، وہ سامان خوراک کی قلت کی وجہ سے سو دینار سے بھی زیادہ قیمتی ہوجائے گا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سو دینار بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی] پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے [یہ کیڑا ایک وبا کی طرح ہوگا کہ جس سے پوری کی پوری قوم، وہ دونوں قبیلے یک لخت مر جائیں گے مگر مسئلہ پھر بھی مکمل طور پر حل نہیں ہوگا]، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی علامات اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی [یاجوج و ماجوج کے مرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی جب فلسطین سے باہر نکلیں گے تو پوری زمین یاجوج و ماجوج کے مردہ جسموں کی باقیات اور بدبو سے بھری ہوگی۔ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگی کہ بالشت بھر جگہ بھی ان کے وجود سے خالی نہ ہوگی اور تمام فضا ان کے مردہ جسموں کی بدبو سے متعفن ہوگی]۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی دعا کریں گے [یاجوج و ماجوج اپنی زندگی میں بھی اہل ایمان کے لیے مصیبت تھے اور مرنے کے بعد بھی ہوں گے] تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کرلے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے وہ انہیں پھینک دیں گے پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کوئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ ) اوٹ مہیا نہیں کرسکے گا۔ وہ زمین کو دھوکر شیشے کی طرح (صاف) کر چھوڑے گی۔‘‘
ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے :
يَحْفِرُونَهُ کُلَّ يَوْمٍ حَتَّی إِذَا کَادُوا يَخْرِقُونَهُ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا فَيُعِيدُهُ اللَّهُ کَأَشَدِّ مَا کَانَ…
’’ یاجوج ماجوج اس دیوار کو روزانہ کھودتے ہیں جب وہ اس میں سوراخ کرنے ہی والے ہوتے ہیں تو ان کا بڑا کہتا ہے چلو باقی کل کھول دینا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردیتے ہیں ……‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں یاجوج و ماجوج کے اس دیوار یا سد اور رکاوٹ کو کھودنے کا ذکر فرماتے ہیں۔ ہم قرآن کی ان آیات سے بھی گزرتے ہیں جن میں اس سد کا ذکر ہے۔ قرآن ہمیں ہزاروں سال پہلے گزرنے والے ذوالقرنین کا قصہ بتاتا ہے۔ ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا جو اتنا طویل عرصہ پہلے گزرا کہ لکھی ہوئی انسانی تاریخ میں اس کا ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ وہ ا س دور میں پوری زمین یا زمین کے تمام آباد حصے کا بادشاہ تھا۔ کہتے ہیں کہ اسی سے اس کا نام ذوالقرنین پڑگیا یعنی دو سینگوں والا، دو سینگ یعنی مشرق و مغرب، اس کی حکومت شرق و غرب میں پھیلی ہوئی تھی۔ اللہ رب العزت نے قرآن عظیم الشان میں ذوالقرنین کا قصہ تین حصوں میں بیان فرمایا ہے ، ایک جب اس نے مغرب کی سمت دورہ کیا، پھر جب وہ مشرق کی سمت گیا اور تیسرا جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان کی زمین میں پہنچا۔ یہاں وہ ایک ایسی قوم سے ملا جو بولنا نہیں جانتی تھی یا ذوالقرنین ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے، لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا (جو کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے)، انہوں نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں)، سد بند باندھنے کو کہتے ہیں، چونکہ انہوں نے ان دونوں قبیلوں کی شکایت کی تھی کہ یہ ہماری زمین میں فساد پھیلارہے ہیں لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے اور ان کے بیچ ایک بند باندھ دیں، ایک رکاوٹ کھڑی کردیں جو ہمیں ان کے شر سے محفوظ کردے ، قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًاعَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ، ذوالقرنین نے کہا : مَا مَكَّــنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ، اللہ نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے، سو مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے، فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ البتہ تم افرادی قوت کے ذریعے میری مدد کرو۔ اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ۭ حَتّٰى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ۭ حَتّٰى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا، پھر انہوں نے خام لوہے کا مطالبہ کیا اور پھر اس کے ذریعے انہوں نے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا راستہ پاٹ دیا۔ پھر انہوں نے اسے اس قدر تپانے کا حکم دیا کہ وہ پگھلنے لگا، پھر انہوں نے اس کے اوپر پگھلا ہوا سیسہ یا تانبا انڈیل دیا۔ جب آپ لوہے کو سیسے یا تانبے سے ملاتے ہیں تو آپ کو پیتل یا کانسی حاصل ہوتی ہے جو کہ تنہا لوہے کی نسبت زیادہ مضبوط ہے۔ اس بارے میں آرا کا اختلاف ہے کہ قطر کا معنی یہاں سیسہ ہے یا تانبا۔ بہرحال انہوں نے اس مرکب سے وہ راستہ بند کردیا۔انہوں نے ناصرف وہ راستہ بند کیا بلکہ اسے مہر بند بھی کردیا، seal کردیا۔ جب آپ کہتے ہیں ’ردم الارض‘ تو اس کا معنی زمین کو مہر لگا کر بند کرنا۔ یہ ایک افقی رکاوٹ تھی جو اوپر سے کھلی تھی ، یعنی وہ اس پر چڑھ کر اسے پار کرسکتے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان بسنے والی قوم نے تو ذوالقرنین سے صرف ایک دیوار کا مطالبہ کیا تھا مگر ذوالقرنین نے احسان کرتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یاجو ج ماجوج کو زمین والوں سے بالکل کاٹ دیا، یہی وجہ ہے کہ آج ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے اور نہیں جان سکتے کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ زیر زمین کہیں بند ہیں اور ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مدینہ کے مشرق کی سمت کہیں ہیں۔ ذوالقرنین نے اس خوبی سے اپنا کام کیا کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی کوئی ان کا شائبہ بھی نہیں پاسکا۔ مگر ساتھ ہی ذوالقرنین نے کہا کہ گو میں نے اپنا کام پختہ طریقے سے کیا ہے مگر جب اللہ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو یہ اس قدر مضبوط رکاوٹ بھی ریت کی دیوار ثابت ہوگی۔ یہ پورا قصہ ہمیں سورہ کہف میں ملتا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ دیکھ لیتے ہیں:
’’انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج زمین میں بہت فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کو کچھ خراج ادا کریں کہ اس کے عوض آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں؟ اس نے کہا: جو کچھ مجھے دے رکھا ہے اس میں میرے رب نے وہ بہت بہتر ہے، البتہ تم لوگ میری مدد کرو قوت (محنت) کے ذریعے۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔ لاؤ میرے پاس تختے لوہے کے، یہاں تک کہ جب اس نے برابر کردیا دونوں اونچائیوں کے درمیان (کی جگہ) کو اس نے کہا : اب آگ دہکاؤ یہاں تک کہ جب بنا دیا اس نے اس کو آگ (کی مانند) اس نے کہا : لاؤ میرے پاس میں ڈال دوں اس پر پگھلا ہوا تانبا اب نہ تو وہ (یاجوج ماجوج) اس کے اوپر چڑ ھ سکیں گے اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکیں گے۔ اس نے کہا کہ یہ رحمت ہے میرے رب کی اور جب آجائے گا وعدہ میرے رب کا تو وہ کر دے گا اس کو ریزہ ریزہ اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے ۔‘‘ (سورۃ الکہف ۹۴تا۹۸)
ہم دوبارہ حدیث کی طرف لوٹتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَحْفِرُونَهُ کُلَّ يَوْمٍ حَتَّی إِذَا کَادُوا يَخْرِقُونَهُ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا فَيُعِيدُهُ اللَّهُ کَأَشَدِّ مَا کَانَ حَتَّی إِذَا بَلَغَ مُدَّتَهُمْ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَی النَّاسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّهُ وَاسْتَثْنَی قَالَ فَيَرْجِعُونَ فَيَجِدُونَهُ کَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَکُوهُ فَيَخْرِقُونَهُ فَيَخْرُجُونَ عَلَی النَّاسِ فَيَسْتَقُونَ الْمِيَاهَ وَيَفِرُّ النَّاسُ مِنْهُمْ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ فِي السَّمَائِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدِّمَائِ فَيَقُولُونَ قَهَرْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا مَنْ فِي السَّمَائِ قَسْوَةً وَعُلُوًّا فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَهْلِکُونَ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ تَسْمَنُ وَتَبْطَرُ وَتَشْکَرُ شَکَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ
’’ یاجوج ماجوج اس دیوار کو روزانہ کھودتے ہیں جب وہ اس میں سوراخ کرنے ہی والے ہوتے ہیں تو ان کا بڑا کہتا ہے چلو باقی کل کھول دینا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی مدت پوری ہوجائے گی اور اللہ چاہے گا کہ انہیں لوگوں پر مسلط کرے تو ان کا حاکم کہے گا کہ چلو باقی کل کھول دینا اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہے گا۔ [ضمناً یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یاجوج ماجوج نے اس دیوار میں ایک سوراخ کر لیا تھا۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے کہ یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں ایک شگاف پیدا ہوگیا ہے‘۔اور پھر ایک دن آئے گا کہ وہ اسے مکمل طور پر ڈھا دیں گے]، اس طرح جب وہ دوسرے دن آئیں گے تو دیوار کو اسی طرح پائیں گے جس طرح انہوں نے چھوڑی تھی اور پھر اس میں سوراخ کرکے لوگوں پر نکل آئیں گے، پانی پی کر ختم کردیں گے اور لوگ ان سے بھاگیں گے پھر وہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے جو خون میں لت پت ان کے پاس واپس آئے گا۔ اور وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو بھی دبالیا اور آسمان والوں پر بھی چڑھائی کردی۔ ان کا یہ قول ان کے دل کی سختی اور غرور کی وجہ سے ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردیں گے جس سے وہ سب مرجائیں گے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کر موٹے ہوجائیں گے اور مٹکتے پھریں گے اور ان کا گوشت کھانے پر اللہ تعالیٰ کا خوب شکر ادا کریں گے ۔‘‘
یاجوج ماجوج کے حوالے سے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ اب کہاں ہیں ، وہ اس زمین کے اوپر بسنے والی آبادی کا حصہ بہرحال نہیں ہیں اور وہ ایسی مخلوق ہیں جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ کیونکہ بہت سے لوگ کہتے ہیں فلاں قوم یاجوج ماجوج ہوسکتی ہے یا فلاں قوم یاجوج ماجوج ہوگی، سبحان اللہ ! مثلاً The 700 Club والا پیٹ رابرٹسن ، جو ایک evangelist ہے۔ عہد نامہ قدیم (تورات) میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، اہل کتاب کے صحیفوں میں یہ بات موجود ہے اور وہ اس سے واقف ہیں۔ جب روس ٹوٹا اور مسلمان ریاستوں نے آزادی حاصل کی تو ان میں سے بعض کے پاس جوہری ہتھیاروں کے ذخائر تھے۔ پیٹ رابرٹسن The 700 Club میں دنیا کا ایک بڑا سا نقشہ لایا اور ان مسلمان ریاستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، یہ نیچے اتریں گے اور ایران کے تعاون سے پوری دنیا کو تباہ کردیں گے۔یہ آسمانی پیشین گوئی ہے کہ مسلمان ہی یاجوج ماجوج ہیں‘۔مکمل خرافات۔ اب مسلمان یاجوج ماجوج بن گئے!! نیز مسلمان بھی کہتے ہیں کہ فلاں قوم یاجوج ماجوج ہے اور فلاں یاجوج ماجوج ہوسکتے ہیں، یہ سب غیب کا حصہ ہے۔
علامات کبریٰ میں سے تیسری علامت کا بیان یہاں ختم ہوا۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم