الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ و تعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
﴿كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ﴾
صدق اللہ مولانا العظیم،رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ
اللہ سبحا نہ و تعالیٰ فرماتے ہیں كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ’’جس طرح تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا‘‘، خطاب ہے رسول اکرمﷺ کی طرف۔ کل کی آیات میں ہم نے یہ بات پڑھی تھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ غزوہ بدر پر تبصرہ فرماتے ہوئے اہل ایمان کی کچھ صفات بیان فرماتے ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں کہ اگر مومنین کی جماعت میں پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو درست فرما دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرماتے ہیں۔ جن جگہوں پہ ایک مسلمان کو یا مسلمانوں کو بحیثیت ِ مجموعی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کی ضرورت ہوتی ہےاس میں میدانِ جہاد سرفہرست ہے۔ جہاں کافروں سے ، اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ ہوتا ہے۔ تو پہلے سورت کے ابتدا میں وہ صفات بتادی گئیں جن سے اللہ کی نصرت حاصل کی جاتی ہے، اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ بعینہٖ غزوہ پر تبصرہ فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں: كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ’’جس طرح تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا‘‘، یعنی جس طرح ان صفات کو اختیار کرنے والے پہ ، وہ صفات جو سورت کی ابتدا میں ذکر کی گئیں؛ جس طرح ان صفات کو اختیار کرنے پر آگے جو انعامات ذکر ہوئے تھے، مغفرت کا ملنا ، درجات کا ملنا ، اللہ کی رضا کا ملنا…… جس طرح اُن صفات پہ اُن انعامات کا مرتب ہونا حق ہے، اسی طرح تیرا تیرے گھر سے نکالے جانا، رسول اللہ ﷺ کا صحابہ سمیت گھر سے نکالا جانا، یہ بھی ایک حق مقصد کے لیے تھا، یہ بھی ایک حق غرض کے لیے تھا، دین کی تقویت اور دین کی سربلندی کے لیے تھا، اللہ کی رضا کے لیے تھا اور موافقِ شریعت تھا؛ یعنی شریعت کے مطابق ایک کام کروانے کے لیے تھا۔ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ لیکن مومنوں کا ، بلا شبہ مومنوں کا ایک گروہ جو ہے وہ نا پسند کر رہا تھا۔ اس کے اوپر یہ شاق گزر رہا تھا، مشکل گزر رہاتھا اس راستے میں نکلنا۔ کیوں مشکل گزر رہا تھا؟ مسلمان اصلاً نکلے تھے کفار کے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کے لیے اور ظاہر سی بات ہے وہ کوئی مسلح قافلہ نہیں تھا وہ غیر مسلح قافلہ تھا اور اس کے پاس کوئی طاقت و قوت نہیں موجود تھی اور وہاں بہت بڑی مقدار میں غنیمت ملنے کا امکان نظر آرہا تھا؛ تو اس لیے مسلمان بالاصل نکلے تھےاور تیاری بھی تھوڑی تھی ۔ کل تین سو تیرہ کے قریب، مختلف روایات میں مختلف تعداد آتی ہے، لیکن تقریباً تین سو تیرہ کے قریب افراد تھے اور ستّر کے لگ بھگ سواریاں تھیں اور اسلحہ بھی بہت محدود سا تھا۔ تو تھوڑی سی تیاری کے ساتھ نکلے تھےمقابلہ کرنے کے لیےکیونکہ سامنے ایک غیر مسلح چیز تھی،اور کسی بہت بڑی جنگ کا امکان نہیں تھا۔لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کو کچھ اور مطلوب تھا۔اللہ نےاس کارخ ایک بھر پور جنگ کی طرف پھیر دیا اور قافلے کے لیے نکلنے والے لشکر کوآگے ایک ہزار کفار کے تیار اور سازو سامان کے ساتھ لدے ہوئے لشکر سے مقابلہ کرنا پڑا تو اس لیے اللہ تعا لیٰ فرماتے ہیں: وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ جن کو یہ مشکل گزرا، جن پہ بھاری گزرا، جن کے لیے، چونکہ وہ ذہناً کچھ اور سوچ کے نکلے تھے گھر سے، تو آگےجب کفار کے لشکر سے مقابلہ پڑ گیا تو مشکل گزرا۔
مفسرین یہاں پر لکھتے ہیں اور خود قرآن کی آیت بھی آگے یہی بات بتلاتی ہے کہ مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے یا کہہ لیں کہ دو آرا یا دو رویے مسلمانوں میں پائے جاتے تھے۔ ایک وہ کہ جنہوں نے اس تبدیلی کو کھلے دل سے قبول کیا اور ابتدائی مرحلے سے ہی جو اس پر خوش اور راضی تھے کہ جہاں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ لے جائیں اور جہاں اللہ کے نبیﷺ ہمیں لے جائیں وہاں ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔ دوسرا وہ گروہ جس کو ابتدا میں دشوار لگا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کی سکینت کے لیے اسباب نازل فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قدموں کو جما دیا تو بالّآخر وہ بھی اتنا ہی جم کر لڑے۔ تو یہ دو گروہ مسلمانوں کے، یا ان کے دو رویے، اِس ابتدائی آزمائش کے مرحلے میں سامنے آئے۔
یہاں پر ایک ضمنی بات یہ کہ ہم نے کہا کہ مسلمان نکلے تھے کفار کے قافلے پر حملہ کرنے کے لیے جو حضرت ابوسفیان ؓ، جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، کا تجارتی قافلہ تھا جو شام کی طرف گیا تھا اور وہاں سے واپس آرہا تھا اور ساز و سامان سے، جو اُن کی سال بھر کی کمائی تھی جو شام سے تجارت ہوئی تھی اور تجارت کا جو حاصل تھا وہ لے کر واپس آرہا تھا تو اس کے اوپر حملہ تھا۔ تو اس واقعے کے اندر دلیل ہے اس بات کی یا رد ہے ان لوگوں کی باتوں کا جو نائن الیون جیسی کارروائیوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تو، ان کی اصطلاح میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملٹری ٹارگٹ نہیں تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر تو ایک تجارتی مرکز تھا یا ایک غیر ملٹری ( عسکری ) مرکز تھا تو اس کو کیوں ہدف بنایا گیا؟ تو اُس کو ہدف اسی لیے بنایا گیا کہ اللہ کے نبی ﷺ کی سنت ہے کفار کی معیشت پہ ضرب لگانا اور اُن کی معیشت کے خلاف اقدامات اٹھانا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جو کارروائیاں کی گئیں، غزوہ بدر سے بھی پہلے، رسول اکرم ﷺ نے سرایا بھیجے، دستے بھیجے تو ان سب کے سب کا بنیادی ہدف ایک ہی تھا اور وہ کفار کے تجارتی روٹ بلاک کرنا تھا اور ان کی تجارتی شہ رگ کو پکڑ کر ان کی معیشت کو تنگ کرنا تھا۔ یہ وہ ہدف تھا جس کو سامنے رکھتے ہوئے کارروائیاں ہورہی تھیں اور یہ قافلے کوئی جنگجو قافلے نہیں تھے۔ ان میں سے کئی قافلے ایسے بھی تھے کہ جن کے ساتھ کوئی بھی حفاظت کرنے والا نہ تھا۔ بعض قافلوں کے ساتھ کوئی ایک مسلح بندہ موجود تھا لیکن صحابہؓ نے ان پہ حملے بھی کیے، ان قافلوں کی حفاظت کرنے والے مشرکین کو قتل بھی کیا اور ان سے وہ مال بھی چھینا۔ تو اس لیے یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ جنگ کا ایک مستقل جزو ہے کہ دشمن کا ، کفار کا جو معاشی بازو ہے، معاشی کمر ہے اس کے اوپر ضرب لگائی جائی اور اس کی معاشی قوت کو توڑا جائے۔ یہ حال پہلے بھی رہا اور آج بھی جنگ میں بنیادی چیز یہی ہوتی ہے ۔ روس اگر بیٹھا تو اس وجہ سے نہیں کہ اس کے پاس ٹینک ختم ہوگئے تھے یا اس کے پاس ہوائی جہاز ختم ہوگئے تھے۔ وہ اس لیے بیٹھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی معیشت کو تڑ وا دیا۔ جب روس کی معاشی کمر ٹوٹ گئی تو وہ ساری قوت اس کے کسی کام کی نہ رہی۔ آج امریکہ بھی اگر پیچھے ہٹ رہا ہے تو اسی لیے کہ وہ معاشی بحران کا شکار ہے۔ معاشی طور پر یہ جنگ اس پراتنی بھاری پڑرہی ہے کہ مزید اس کو جاری رکھنا اس کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ اسی لیے وہ عراق سے نکلا ہے اور افغانستان سے نکلنے کی تیاریاں جاری ہیں اور یہ بھی بات ذہن میں رکھی جائے کہ یہ تو ایک عسکری پہلو سے بات ہے، شرعی پہلو سے بات کریں تو مسلمانوں کے یہاں ، یعنی ہمیں جو اللہ کے دین نے جو اصطلاحات دی ہیں اس میں سویلین( عوامی) اور ملٹری ( عسکری) کی اصطلاحات جس طرح مغرب میں استعمال ہوتی ہیں اور اسی طرح ان کے اثر سے ہمارے معاشرے میں بھی پھیل گئی ہیں، یہ اصطلاح ہمارے ہاں نہیں موجود۔ ہمیں شریعت نے جو تقسیم دی ہے وہ اہل حرب اور غیر اہل حرب کی دی ہے۔ حربی کافروں کی اور غیر حربی کافروں کی اور حربی کافروں میں بھی آگے اہل قتال اور غیر اہل قتال کی تقسیم دی ہے۔
اہل قتال ہمارے ہاں کس کو کہا جاتا ہے؟ اہل قتال سے مراد ہے ہر وہ حربی کافر جو عاقل، بالغ ، مرد ہو ،چاہے اس نے ہتھیار اٹھائے ہوں یا نہ اٹھائے ہوں ہمارے خلاف۔ چاہے اس نے فوج کی وردی پہنی ہو یا نہ پہنی ہو۔ ہر عاقل ، بالغ، کا فر حربی مرد، یہ صفات جس کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ صرف صلاحیت ہونے کی وجہ سے ، جسمانی صلاحیت اگر اس کے اندر موجود ہے، طاقت موجود ہے تو شرعاً وہ اہل قتال کی تعریف میں داخل ہے اور اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے ، جب بنی قریظہ کے ساتھ معاملہ آیا تو آپ ﷺ کے حکم سے، بعض روایات کے مطابق چار سو اور بعض روایات کے مطابق سات سو یہودی قتل کیے گئے اور دس دس کو لے کے جایا جاتا اور قتل کیا جاتا۔ صحابہ کرامؓ ان کو قتل کرتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دیکھا جاتا کہ جس کے بھی بال نکل آئے ہیں ، جو بھی بالغ ہو گیا ہے اس کو علیحدہ کرکے قتل کردیا جاتا اور جو اس سے چھوٹا ہوتا اس کو چھوڑ دیا جاتا۔ تو اس مسئلے میں جمہور علما کی رائے یہ ہے کہ جو بھی عاقل، بالغ، حربی کافر مرد ہوگا اس کو مارنا یا اس کے خلاف جنگ کرنا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، جو اہل قتال نہیں ہیں حربی کافروں میں سے، وہ یا خواتین ہیں یا بیشتر فقہا کے نزدیک اتنا بوڑھا شخص جس میں لڑنے کی طاقت باقی نہ بچی ہو اور غیر بالغ چھوٹے بچے۔ تو یہ تعریف ذہن میں واضح رہے۔ ہم جنیوا کنوینشن کی اصطلاحات کے پابند نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ہمارا دین ہے، ہماری شریعت ہے جو ہماری رہنمائی کرتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ کس کو مارنا ہے اور کس کو نہیں مارنا ، جنگ کیوں کرنی ہے اور کیوں نہیں کرنی۔ ان سب امور میں ہم شریعت سے پوچھتے ہیں۔ تو سویلین اور ملٹری کی جو اصطلاح ہے یہ ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے ہاں جو اصطلاح ہے وہ اہل قتال اور غیر اہل قتال کی ہے؛ اہل قتال کی تعریف آپ کو بتادی۔ اس لیے کفار کے علاقوں میں، مثلاً امریکہ میں جو بھی عاقل ، بالغ مرد پایا جاتا ہے، جو استطاعت رکھتا ہے قتال کرنے کی، استطاعت رکھنے سے مراد یہ ہے ، امام سرخسیؒ نے تفصیل بھی بتائی ہے اس کی کہ اس کا دایاں بازو اگر کام کرتا ہے اور بایاں مفلوج ہے تو یہ بھی استطاعت رکھنے والوں میں شامل ہوگا۔ لیکن دایاں مفلوج ہے اور بایاں کام کرتا ہے تو یہ استطاعت رکھنے والوں کی تعریف سے خارج ہوگا۔ اسی طرح کوئی اندھا ہے تو وہ استطاعت رکھنے والوں کی تعریف سے خارج ہوگا۔ لیکن جو صحیح الجسم ہے، استطاعت رکھتا ہے لڑنے کی ان میں سے، تو وہ فوج میں ہو یا فوج سے باہر ہو ، وہ کوئی تقویت ان کو دے رہا ہو یا نہ دے رہا ہو، اس کو مارنا شرعاً جائز ہے۔ آگے یہ حکمت عملی یا strategy کا مسئلہ رہ جائے گا کہ ان میں سے کس کو مارنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے اور کس کو مارنے سے نہیں ہوتا۔ لیکن اصلاً ، شرعاً اس کو مارنا جائز ہے۔ تو یہ تعریف ذہن کے اندر رہنی چاہیے اور یہ بہت سے اعتراضات جو ہمارے درمیان اٹھتے ہیں اس کا سبب ہی یہ ہے کہ ہم نے سنت کی طرف لوٹ کے اور شریعت کی طرف لوٹ کر نہیں پوچھا۔ شریعت سے نہیں پوچھا بلکہ ہم نے جو میڈیا میں بات سنی اور جو شبہات سنے اسی کو دہرانا شروع کردیا اور وہی باتیں زبان پر آنے لگیں۔
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو آپ کے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ پہ یہ چیز بھاری گزری (یا ان کو نا پسند رہا)‘‘،
﴿يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ﴾
’’وہ حق کے معاملے میں آپ سے جدال کرنے لگے، اس کے بعد کہ اس کا حق ہونا ان پہ واضح ہوچکا تھا، گویا کہ ان کو موت کی طرف کھینچ کے لے جایا جارہا ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے یہ چیز دیکھ رہے ہیں‘‘۔
تو یہ رویہ تھا کہ جس کے اوپر اللہ تعالیٰ نے پکڑ فرمائی کہ جب یہ بات معلوم تھی کہ قافلے کے لیے نکلنا بھی ایک حق مقصد ہے اور کفار کے لشکر سے لڑنا بھی ایک حق مقصد ہے، دونوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوتے ہیں، اور اگر اللہ نے ایک سے پھیر کے حالات ایسے بنائے کہ تمہیں دوسری کی طرف جانا پڑگیا تو ایک مومن سے مطلوب یہ تھا یا مثالی رویہ اس کا یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس کو خوشی خوشی قبول کرتا کہ اگر قافلے سے چھوٹ کے اللہ نے ایک اور طرف پھیر دیا ہمارا رُخ، لیکن ہم جہاد کی حالت میں ہیں اور ہم اللہ کی رضا کی حالت میں ہیں اس لیے خوشی خوشی اس کو قبول کرتا، اور اس میں کوئی نقصان آتا، کوئی آزمائش آتی تو خوشی خوشی راضی ہوتا لیکن بعض لوگ اے نبیﷺ ! آپ سے بحث کرنے لگے، آپ سے جدال کرنے لگے اور یہ چاہنے لگے کہ ہم واپس لوٹ جائیں اور ہمیں (جنگ کا )سامنا نہ کرنا پڑے۔
تو پیارے بھائیو! جہاد کے اندر بہت دفعہ یہ معاملہ پیش آتا ہے کہ ہم کچھ منصوبہ بندی کرتے ہیں، کفار کچھ اور منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن نہ ہمارا منصوبہ چلتا ہے نہ کافروں کا منصوبہ چلتا ہے، منصوبہ وہ چلتا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو منظور ہوتا ہے۔ عام حالات میں بھی یہی ہے، جہاد سے باہر بھی، اصل تو فیصلہ وہی ہے جو اللہ کی قضا و قدر ہے، وہی ہوکر رہتا ہے،لیکن جہاد میں یہ چیز کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے کہ اس کا سٹیئرنگ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس کے فیصلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ بہت دفعہ کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں مجاہدین، کفار کے تھنک ٹینک اپنی جگہ بیٹھ کر منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں لیکن حالات کسی تیسرے رُخ پہ چلے جاتے ہیں جو نہ وہ چاہ رہے ہوتے ہیں نہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں اللہ کی کچھ حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ تو مجاہدین کا، جب ایک بار انہوں نے اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کردیا، تو اُن کا رویہ یہی ہونا چاہیے کہ گویا انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کو دین کے لیے پیش کردیا۔ اب اللہ کے دین کا تقاضہ ان کو کہیں بھی لے جائے، کسی بھی رُخ پہ لے جائے، اُن کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ کسی بھی قسم کا کام ان کے سامنے یکایک کھڑا ہوجائے، جس کے لیے وہ ذہناً نہیں تیار تھے ، جب وہ ان کے سامنے آجائے اور وہ کام جہاد ہی کا ہو اور شرعاً جائز اور مطلوب کام ہو، تو مشکل بھی ہو تو اس کے لیے وہ تیار ہوں۔تو یہ مختلف مراحل ہیں جس سے اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کو گزارتے ہیں۔ ایک مرحلہ مثال کے طور پہ نائن الیون سے قبل کا مرحلہ تھا۔ پانچ چھ سال اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی امارت عطا کیے رکھی۔ ایک مجاہد آرام سے رات کو اپنے گھر والوں کو گاڑی میں بٹھا کر تنہا افغانستان کے ریگستانوں میں گھنٹوں چلتا تھا اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہوتا تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ معسکرات کھلے ہوئے تھے۔ تربیتیں جاری تھیں۔ ساری دنیا سے مجاہدین بھی آرہے تھے۔ علما آتے تھے، آکر وفود کے وفود مل کر واپس جاتے تھے۔ دعوت کا، تیاری کا، جہاد کا بھرپور مرحلہ تھا جو اللہ نے عطا کیا۔ لیکن پھر حالات کسی اور طرف پھرے اور اللہ تعالیٰ نے پھیرے ، اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ ساری کی ساری امارت دنوں کے اندر گری، سقوط ہوا، نکلنا پڑا، شہادتیں ہوئیں اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ کئی مجاہدین سالوں تک ایک کمرے سے باہر نہیں نکل سکے پاکستان پہنچنے کے بعد، اور کئی مجاہدین ایسے تھے جو کبھی ایک گھر سے دوسرے گھر کبھی دوسرے سے تیسرے گھر ، کبھی تیسرے سے چوتھے …… تو اس پہ دل میں تنگی نہیں آنی چاہیے۔ یہ ایک مرحلہ تھا، اللہ تعالیٰ کو پہلے وہ منظور تھا پھر اللہ کو یہ مطلوب تھا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت تھی اس سارے میں۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے کتنے اس سے فوائد و برکات نکالے ، اگرچہ آزمائش آئی، اگرچہ مشکل مرحلہ تھا لیکن پاکستان کے معاشرے میں کتنے لوگ جہاد سے جڑے ہی اس وجہ سے کہ ان کے گھروں میں مجاہدین رہے تھے، ان کے گھروں میں مہاجرین ، عرب ہوں یا غیر عرب ، وہ گزرے تھے ، وہ رہے تھے ، ان کا وقت وہاں گزرا تھا۔ تو ان کی سیرتوں کو قریب سے دیکھ کے، ان کے ساتھ زندگی گزار کے وہ لوگ ، پورے کے پورے گھرانے جہاد سے جڑ گئے۔ پھر وہ مرحلہ بھی ختم ہوا؛ آزمائش مزید بڑھی یعنی گرفتاریاں شروع ہوئیں اور وہاں سے پھر نکل کے مجاہدین نے وزیرستان کا، اور قبائل کی طرف رخ کیا۔ وہ بھی ایک آزمائش کا مرحلہ تھا اور وہاں سے ایک اور مرحلہ شروع ہوا لیکن پہلے کی آزمائش کی نسبت کم تھا۔ ایک دفعہ پھر سے جہاد کو منظم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ مجاہدین کی تشکیلات پھر سے شروع ہوئیں۔ معسکرات پھر سے کھلے اور پھر سے ایک تیاری کا عمل جاری ہوگیا۔ اب آگے ہمارے لیے کیا چیز تیا ر ہے اس مرحلے کے بعد؟ یہ اللہ بہتر جانتے ہیں؛ مجاہدین نہیں جانتے اور نہ کافر جانتے ہیں۔ کیونکہ ان دس سال میں بھی وہ کچھ اور منصوبہ رکھ کے افغانستان آئے تھے۔ ہم نے تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے ایسے حالات بنائے کہ جو نہ ان کے ذہن میں تھے نہ اُن کے ذہن میں۔ ابتدائی مرحلہ افغانستان کا ایسا ہی تھا ۔ بیشتر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن دس سال بعد الحمدللہ مقابلہ ہو بھی رہا ہے اور امریکہ مذاکرات کے لیے منّت بھی کررہا ہے مجاہدین کی کہ بیٹھیں اور ہم سے بات کریں۔ تو آگے کیا ہونا ہے یہ بھی ہم نہیں جانتے۔ مجاہد کا کام یہ ہے، اُس سے مطلوب رویہ یہ ہے کہ وہ حق معاملے میں جھگڑا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کو تکوینی طور پہ کسی بھی سمت لے جائیں، کسی بھی حالات میں اس کو مبتلا کریں، جب تک وہ جہاد کے رستے پہ ہے،خوشی خوشی اس کو قبول کرے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آیت کے مفہوم کو سمجھنے،اور ان کے مطابق اپنے اعمال کو در ست کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی