یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
بیسویں وجہ: کمزور ارادے اور کم ہمت والوں سے دوستی
نبی اکرم ﷺ نے دوست کے اختیار اور چناؤ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلْ
”انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر کوئی غور کرے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کر رہا ہے۔“ [مسند احمد]
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السَّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِيرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَکَ وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً وَنَافِخُ الْکِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً
”نیک ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال خوشبو والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے۔ پس خوشبو والا یا تو تجھے کچھ ویسے ہی عطا کر دے گا یا تم اس سے خرید لو گے۔ نہیں تو تمہیں اس سے عمدہ خوشبو ہی سونگھنے کو ملے گی۔ جبکہ بھٹی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا، نہیں تو تمہیں بدبو سونگھنے کو ہی ملے گی۔“ [صحیح مسلم]
پست ہمت عزم ہی نہیں کر پاتا۔ اسے صرف اپنی دنیا سے غرض ہوتی ہے۔ اس کی ہمت اسے صرف رذیل امور کے لیے تیار کرتی ہے۔ استاذ سید قطبؒ تفسیر فی ظلال القرآن میں فرماتے ہیں:
”ممکن ہے کہ جو اپنے لیے جیے وہ آرام سے جی لے، لیکن وہ چھوٹا ہی جیتا ہے اور چھوٹا ہی مرتا ہے۔ البتہ جو بڑا ہوتا ہے اور بڑی ذمہ داری اٹھاتا ہے، تو اسے نیند سے کیا کرنا؟ اور اسے آرام سے کیا کام؟ اسے گرم بستر، پُرسکون زندگی اور آرام دہ نیند کی پرواہ نہیں!۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حقیقت کو بیان کیا اور اس کا اندازہ لگایا۔ چنانچہ جب حضرت خدیجہؓ نے انہیں تسلی دی اور آرام کرنے کا کہا تو انہوں نے فرمایا: نیند کا دور گزر گیا اے خدیجہ! حقیقت میں نیند کا دور گزر گیا۔ آج سے رات جاگنے، تھکن اور لمبے اور سخت جہاد کے علا وہ کچھ نہیں رہا۔“
شریر اور گناہ گاروں کی صحبت اس شخص کی صحبت کی طرح ہے جس نے اپنے آپ کو بھی گمراہ کیا اور اپنے ساتھ دوسرے کو بھی گمرا ہ کیا۔ کیونکہ برا ساتھی ایسے بیماری لگاتا ہے جیسے خارشی اونٹ تندرست کو خارش لگا دیتاہے۔ سو اونٹوں میں صرف ایک خارشی اونٹ داخل کر دو۔ کیا باقی محفوظ رہیں گے یا خارش میں مبتلا؟ کیونکہ مرض ایک دوسرے سے منتقل ہوتا ہے۔ لیکن تندرستی منتقل نہیں ہوتی۔ ایک خراب سیب کو ٹھیک سیب کی ٹوکری میں رکھ دو۔ کیا ٹھیک سیب خراب کو ٹھیک کریں گے، یا خراب سیب ٹھیک کو خراب کرے گا۔ اسی طرح ایک خبیث شخص کو دس صالح افراد کے درمیان میں رکھو تو سارے خراب ہو جائیں گے۔
[اشعار کا نثری ترجمہ]
کسی انسان کے بارے میں پوچھنے کے بجائے اس کے دوست کے بارے میں دریافت کرو۔ ہر دوست اپنے دوست کی پیروی کرتا ہے۔ اگر تم کسی قوم کے ساتھ رہو تو ان میں سے بہترین کی صحبت میں رہو۔ نہ کہ برے کے ساتھ کہ تم بھی ہلاکت میں پڑ جاؤ۔
ایک اور شاعر نے کہا: [اشعار کا نثری ترجمہ]
فاسق کی صحبت ہرگز اختیار نہ کرنا۔ کتنے ایسے صالح ہیں جنہوں نے فاسق سے دوستی کی تو خراب ہو گئے۔ ایک انسان کا دوسرے پر قیاس کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے پہنچانے جاتے ہیں۔
آپ اپنے ہم رنگ کے ساتھ رہا کریں۔ کیا آپ نے ایسے کبوتر کو دیکھا ہے جو کوّوں کے ساتھ اڑتا ہو؟! کیا آپ نے ایسے کتے کو دیکھا ہے جو ہرن کے ساتھ پھرتا ہو؟! اگر ایسا نظر بھی آئے تو اس لیے کہ وہ ہرن کو کھانا چاہتا ہے۔ اس لیے تم اپنی طرح کے دیندار اور متقی شخص کے ساتھ چلا کرو۔ اگر تم برے لوگوں کے ساتھ پھرو گے تو وہ تم کو ہلاک کر دیں گے۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کم ہمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَلٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْـتَـطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ۚ يُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ ۚ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
’’اگر مالِ غنیمت سہل الحصول اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا تو تمہارے ساتھ (شوق سے) چل دیتے۔ لیکن مسافت ان کو دور (دراز) نظر آئی (تو عذر کریں گے)۔ اور خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو آپ کے ساتھ ضرور نکل کھڑے ہوتے۔ یہ (ایسے عذروں سے) اپنے تئیں ہلاک کر رہے ہیں۔ اور خدا جانتا ہے کہ جھوٹے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ: 42)
سید قطبؒ فرماتے ہیں:
”اگر معاملہ دنیا کے ساز و سامان میں سے کسی سہل الحصول سامان کے بارے میں ہوتا۔ یا مختصر اور محفوظ سفر کا ہوتا تو یہ لوگ تمہارے پیچھے چل دیتے۔ لیکن معاملہ تو ایسے لمبے راستے کا ہے جسے دیکھ کر کم ہمت اور پست حوصلے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ ایسی خطرناک جد و جہد ہے جس سے لاغر روحیں اور ڈرپوک دل گھبرا جاتے ہیں۔ یہ اونچا افق ہے جس کے پانے سے چھوٹے لوگ اور کمزور ساخت والے نیچے رہ جاتے ہیں۔
ایسے بہت لوگ ہوتے ہیں جو با عزت افق کی طرف چڑھنے والے راستے پر سے گِر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت ہیں جنہیں لمبا راستہ بہت کٹھن معلوم ہوتا ہے، اس لیے وہ قافلہ چھوڑ جاتے ہیں اور اس کے بجائے گھٹیا سامان اور پست اہداف کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں ہر زمانے اور ہر جگہ میں انسانیت بخوبی جانتی ہے۔“
امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
”یہ جان لو کہ ہر کوئی دوست بنانے کے قابل نہیں ہوتا۔ دوست میں ایسی ممتاز صفات اور خوبیاں ہونی چاہیے جن کے سبب اس کی صحبت میں رغبت پیدا ہو۔“
امام ابن حزمؒ مداواۃ النفوس میں فرماتے ہیں:
”اپنے آپ کو صرف اس میں جھونکو جو تمہاری جان سے اعلیٰ ہو۔ اور یہ صرف اللہ ر ب العزت کی خاطر ہو سکتا ہے۔ چاہے وہ حق کی طرف دعوت ہو، یا اس کی حرمتوں کی حفاظت ہو۔ یا تم پر واقع ایسی ذلت کو رفع کرنا جو تمہارے خالق نے تم پر لازم نہیں کی، یا مظلوم کی نصرت ہو۔
جو اپنی جان کو دنیا کے سامان کے بدلے خرچ کرتا ہے وہ ایسا ہے جیسے کوئی یاقوت کو کنکریوں کے بدلے فروخت کرے۔“
[اشعار کا نثری ترجمہ]
میں نے ہزاروں عمارتوں کو دیکھا ہے کہ گرانے والے کے ہوتے ہوئے قائم نہیں رہیں۔ تو ایسی عمارت کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کے گرانے والے ہزاروں ہوں۔
عمارت کب مکمل ہو سکتی ہےجب تم اسے بنا رہے ہو اور دوسرا گرا رہا ہو۔
ابن الجوزیؒ صید الخاطر میں فرماتے ہیں:
”تم ایسے مرد بنو کہ جس کے پاؤں زمین پر ہوں، لیکن ہمت آسمانوں تک پہنچی ہو۔ اگر تم تمام عالموں اور زاہدوں سے آگے نکل سکو تو نکل جاؤ۔ وہ بھی تو مرد تھے اور تم بھی مرد ہو۔
جو بھی نیچے بیٹھا رہا وہ اپنی پست ہمتی اور گھٹیا پن کی وجہ سے بیٹھا۔
جان لو کہ تم دوڑ کے میدان میں ہو۔ اور وقت ایک دوسرے سے چرائے جاتے ہیں۔ کاہلی میں نہ پڑے رہو۔ جو بھی کھویا جاتا ہے وہ کاہلی کی سبب ہی کھویا جاتا ہے۔ اور جو بھی پایا جاتا ہے وہ جدو جہد اور عزم سے پایا جاتاہے۔
ہمت دلوں میں ایسے ابلتی ہے جیسے دیگ ابلتے ہیں۔“
حضرت عمرؒ بن عبد العزیز نے فرمایا:
”میری جان بے تاب جان ہے۔ تم نے دیکھا کہ میں مدینہ کے لڑکوں کی طرح ایک لڑکا تھا۔ پھر میں علم، عربی زبان اور شعر کے لیے بے تاب ہوا۔ چنانچہ میں نے اس میں سے اپنی حاجت اور چاہت پوری کی۔ پھر جب مجھے اقتدار ملا تو میرا نفس پوشاک، آسودہ زندگی اور خوشبوؤں کے لیے بےتاب ہوا۔ تو تم میرے خاندان اور حتیٰ کہ دیگر خاندانوں میں ایسے کسی کو نہ جانتے ہو گے جو ایسا خوش حال ہو جیسا کہ میں تھا۔ پھر میری جان آخرت اور انصاف پر کاربند رہنے کے لیے بے تاب ہوئی۔ اور مجھے امید ہے کہ آخرت میں جس چیز کے لیے میں بے تاب ہوں وہ مجھے مل جائے۔“
٭٭٭٭٭