الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
دعوت اُسی ایماں کی طرف کیوں نہیں دیتے؟
اسلام وہ دینِ کامل ہے،جسے اللہ وحدہٗ لا شریک نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔حق صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے ۔کفر کے تمام عقائد و تصورات،اقدار وقوانین اور اس پر مبنی نظامِ حیات___ اس حق کے مقابلے میں بے اصل ہیں،مردود ہیں،باطل ہیں، چاہے ان کے پیچھے صدیوں کی تحقیقات،تجربات وروایات اور کتنے ہی عبقریوں کی عرق ریزیاں کیوں نہ ہوں ۔ بھلا ایک حقیر سی بوندسے پیدا ہواانسان جسے نہ دنیا میں اپنی آمد(پیدائش) پر کوئی اختیار تھا،جو نہ یہاں سے اپنی روانگی(موت) روکنے پر قادر ہے،اسے بیچ کے سارے عرصے کے لیے پوری نوعِ انسانی کے لیے خیر وشر، فلاح و ترقی ،فوز و کامرانی کے تصورات وضع کرنے پر قادر کیسے مان لیا جائے؟یہی معاملہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مقابل انسانی وضعی قوانین کا بھی ہے۔جب انسان خالق نہیں، ربّ نہیں___اسے الٰہ اور حاکم کیسے تسلیم کر لیا جائے؟
درست اور نادرست کے پیمانے وہی برحق ہیں جنھیں فاطر السمٰوٰتِ والارض نے پیدا فرمایا ہے،جس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہمارے دل و دماغ اور سب صلاحیتیں ہیں۔اس نے ہی دنیا اور اس کی اشیاء کو ہمارے لیے برتنے کی چیزیں بنایا ہے،زوال ان کا مقدر ہے۔پھر اس دنیا کو جنت کیسے مان لیا جائے؟
پس وہ لوگ جو گونگے ،بہرے،اندھے ہیں،جو سب سے بڑھ کر خسارے میں رہنے والے ہیں،جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی کے لیے بھٹک کر رہ گئیں،جن کے لیے روزِ قیامت میزان تک قائم نہ کی جائے گی___ اور جن کے دو ڈھائی سو سالہ علمی ، تمدنی ، فکری،سائنسی، عمرانی و سیاسی انقلابات و ترقیات کی کل حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ: وَقَدِ مْنَآ اِلٰی مَاعَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَائً ا مَّنْثُوْرًا (الفرقان: ۲۳) ’’اور دنیا میں جو یہ لوگ عمل کر گئے ہیں،ان کی طرف ہم متوجہ ہوں گے اور ان کو اس طرح رائیگاں کر دیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول‘‘___ تو ان جاہلوں کو یہ اختیار کیسے دے دیا جائے کہ وہ کامیابی کے ان اصولوں کو ردّ کر دیں جو اور کسی نے نہیں،خود خالقِ ارض و سماوات نے انسان کو عطا کیے اور جنھیں کائنات کے افضل ترین انسانوں نے دنیا والوں تک پہنچایا؟
قرآنِ مجید صراحت کے ساتھ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے، انھوں نے کن بنیادوں پر انسان کو مخاطب کیا؟خیر و شر کے کیا پیمانے دنیا کے سامنے پیش کیے ؟ کن چیزوں کو انسانیت کے اصل مسائل قرار دیا،اور ان کا کیا حل پیش کیا؟آدمِ ثانی،اور زمین میں بھیجے گئے سب سے پہلے رسول سیّدنا نوح علیہ السلام کے الفاظ میں اس دعوت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے،آپ ؑ نے فرمایا:
یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُبِیْنٌاَنِ اعْبُدُوااللّٰہَ وَا تَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًی اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُلَوْکُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورۃ نوح:۲۔۴)
’’اے میری قوم!میں تمھیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں(ا ور کہتا ہوں) کہ تم اللہ کی عبا دت کر وا ور اس سے ڈرو ا ور میری اطاعت کرو تووہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا ا ور تم کووقتِ مقرر(یعنی وقت ِ موت تک) مہلت دے گا۔ یقیناً اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتاہے توٹالا نہیں جاتا۔ کاش تم(ان باتوں کو) سمجھتے‘‘۔
توحید، رسالت اورآخرت __ _ یہ دعوت کے وہ بنیادی موضوعات ہیں جو زمانے کی تبدیلی کے باوجود بدل نہیں سکتے ۔ سب انبیاء علیہم السلام نے انھی بنیادی عقائد کو ذہنوں میں راسخ کرایا، انسانوں کو اللہ کی توحید کے اقرار اور طاغوت سے انکار کی طرف بلایا۔اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کو مقصدِ زندگی ٹھہرایا ،اپنی ا طاعت اور اللہ کے دین پر عمل (دین کی اقامت ) کی دعوت دی ، اس اطاعت و عدم اطاعت کے انجام سے آگاہ کیا اور پوری شدت سے انذار و تبشیر (ڈرانے اور خوشخبری دینے والے) کا یہ کام کیا۔آخرت کے عذاب اور ثواب کی طرف متوجہ کرنا ا ن کا اتنا نمایاں وصف تھا کہ قرآن نے ان کو بنیادی طور پر’’مبشرّین‘‘ ا ور ’’منذرین‘‘ قرار دیا۔
ان برگزیدہ ہستیوں نے دنیا والوں کوسمجھایا کہ غیب کی جو خبریں ہم لائے ہیں ان کو مِن و عن قبول کرکے ہمارے پیچھے پیچھے چلنے کے سوا کامیابی اور نجات کا کوئی تصور نہیں۔منصبِ نبوت کے عالی منصب حاملین ___نوح ، ہو د ، صالح ، شعیب ، لوط علیہم ا لسلام یا کسی بھی اور نبی نے اپنی قوموں کو( اپنے مادی مسائل کے حل کے لیے ) حقوق کی جدوجہد کی نہیں بلکہ( حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بابت) فرائض کی بجا آوری اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے کی دعوت دی۔ دنیا کی محبت کو انسانوں کے دلوں سے نکالنے کی سعی کی۔ لذتوں اور راحتوں کا اصل گھر دارِ آخرت کو قرار دیا۔ دنیا کی زندگی اور سامان کو ’’ مَتَاعُ الْغُرُوْر‘‘ا ور ’’ مَتَاعٌ قَلِیْل‘‘کہا ہی نہیں بلکہ دلوں میں اس کا یقین بٹھا یا،اور اس یقین پر مبنی طرزِ حیات پر اپنے پیرو کاروں کو کاربند کیا۔ حق کے ان رازدانوں نے فوزو فلاح کاجو تصور بنی آدم کے سامنے پیش کیا،اسے ہمارے لیے قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَاِ نَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِوَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَاالْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (اٰلِ عمران:۱۸۵)
’’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے،اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو تو جو شخص جہنّم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو دراصل وہ کامیاب ہو گیااور دنیاوی زندگی توکچھ بھی نہیں مگر دھوکے کا سودا ہے۔‘‘
اس منزلِ مقصود کو سب سے بڑھ کر پانے والے خود انبیاء علیہم السلام ہیں___ ان میں سے کوئی آگ میں ڈالا گیا اور کامران ہوا،کسی کی گردن کاٹ دی گئی اور کامیاب ٹھہرا،کوئی جلا وطن رہا اور بامراد ہوا۔اسی طرح ان کے پیروکار ___ جن کے جسموں پر لوہے کی کنگھیاں پھیر کر گوشت اور ہڈیاں جدا کی گئیں، جوآروں سے چیرے اور آگ کی خندقوں میں پھینکے گئے لیکن دین پر جمے رہے تو وہ پورے پورے کامیاب رہے۔لیکن وہ جواِن کے مقابل ہوئے ___ نفع و نقصان کے پیمانے بنانے والے ___تو چاہے وسائلِ دنیا سے لدے تھے،خزانوں کے مالک تھے،ترقیات میں غرق اور اقتدار سے بہرہ مندتھے ،وہ سبھی اور ان کے کاسہ لیس ناکام ہیں،نامراد ہیں اور گھاٹے میں ہیں۔
فلاح وخسران کا یہ عقیدہ جوہمارا دین ہمیں دیتا ہے ہر زمانے کے انسان کے لیے ہے۔ اس کے ہدف کو حاصل کرنے والے مُفْلِحُوْن ___ یعنی آخرت میں اپنی منزلِ مراد اور دنیا میں اس کے لیے مطلوب راہِ ہدایت کے پانے والے ہیں۔جب کہ اسے کھونے والے خٰسِرُوْن ___ دنیا میں سعادت اور آخرت میں نجات سے محروم ہیں۔ یہی سعادت و شقاوت انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ(ایشو) ہے،جسے جاہلی تہذیب اپنے لائحۂ عمل کی تنفیذ کے ذریعے ہماری نگاہوں سے اوجھل کرانا چاہتی ہے،جب کہ ہمارے لیے اس کی تذکیر(یاد دہانی) سے ادنیٰ غفلت برتنا بھی موت ہے،کیو نکہ اس کو فراموش کرنا عہدِالست کے ازلی تقاضوں کو فراموش کرنا ہے۔
جہاں تک بات ہے دنیا کی نعمتوں، رزق اور وسائلِ رزق کی، تو اللہ کی کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جب انسانوں کو اللہ کے دین کی دعوت دی تو ان نعمتوں، (رزق، قوت اور ان کے وسائل )کو تقویٰ، استغفار و توبہ، آیاتِ الٰہی کی پیروی و اقامت، اور شریعت کی پابندی سے مشروط کیا۔اپنی قوموں کو باور کرایا کہ اگر تم یہ سب کچھ کروگے تو ہم نہیں ___ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ سب نعمتیں عطا فرمائے گا۔رحمن و رحیم ربّ کی یہ سنت قرآنِ حکیم میں مختلف پیرایوں میں بیان کی گئی ہے :
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق:۲۔۳)
’’اورجواللہ کا تقویٰ اختیارکرے گا اللہ اس کے لیے ( تنگی اور مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گاا ور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو گا ۔‘‘
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف۷:۹۶)
’’ا ور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے ا ور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمیں کی برکتیں کھول دیتے۔‘‘
رہا یہ سوال کہ کفار پر وسائلِ دنیا کی بارش کیوں ہے؟ تو ہمارے رزّاق ربّ نے ہمیں بتایاہے کہ ان ناشکروں کو جتنے وسائل اور سامانِ زندگی میسر ہیں یہ ان کے حق میں نعمتیں سرے سے ہیں ہی نہیں بلکہ یہ آہستہ آہستہ بربادی کی طرف لے جانے والے (استدراج کے) پھندے ہیں۔یہ ترقی نہیں بلکہ ڈھیل دینے (املاء) کی سنّت ہے جو کافروں کے حق میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔ اصل میں تویہ وسائل ان کے حق میں عذاب کے ذرائع ہیں،جن کے ذریعے اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں توفیق اور نجات کے راستے سے روکتا ہے،اور مبتلائے مصیبت رکھتا ہے:
فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَ لَا اَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْھَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ (سورۃ التوبۃ:۵۵)
’’پس ان کے اموال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔اللہ توصرف یہ چاہتاہے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے ان کو دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور جب ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں۔‘‘
مشینی زندگی،ذ ہنی اضطراب،لا علاج بیماریاں،اقتصادی غیر یقینی،معاشی ناہمواری،تکنیکی حوادث، خودکشی،بے انتہا جرائم ، غلاظت واخلاق باختگی، خاندانی انتشار ___ اور تنہائی! یہ سب ان کے لیے دنیاوی عذاب نہیں تو اور کیا ہے؟اور جو جسمانی و ذ ہنی عذاب، اولاد کے ہاتھوں ان کفار کو جھیلنا پڑتا ہے اس کا تو تصور ہی تکلیف دہ ہے۔کفار سے دنیاوی عذاب کے یہ وعدے دائمی ہیں۔اہلِ بصیرت کو ان کا مبتلائے عذاب ہونا صاف نظر آتا ہے :
وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِہِمْ حَتّٰی یَأْتِیَ وَعْدُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (سورۃ الرعد:۳۱)
’’اورہمیشہ کافروں پر ان کے اعمال کے بدلے آفت آتی رہے گی یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی،یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے۔یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کی تمام چیزیں بنی آدم کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ مومن کے لیے یہ اسباب نعمت اور فضل ہیں،اور’’حیٰوۃ طیبۃ ‘‘بسر کرنے کا ایک توشہ ہیں ۔ان کو جائز ذرائع سے حاصل کرنا اور اپنی ذات،اہل و عیال ،اللہ کے بندوں پر اور فی سبیل اللہ خرچ کرناعبادت ہے۔ دنیا کی یہ نعمتیں اگر انسان کو حاصل ہوں تو ان کے بارے میں جو رویہ اختیار کرنے کی قرآن ہدایت دیتا ہے۔اس کی ایک جھلک یہ ہے:
وَابْتَغِ فِیْمَا اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنِ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ (سورۃ القصص:۷۷)
’’ا ور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر، اور جس طرح ا للہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، تو بھی (لوگوں کے ساتھ ) ا سی طرح احسان کر۔‘‘
ہمارے مالک نے دنیاوی نعمتوں کو محمود قرار دیتے ہوئے بھی انہیں زندگی کا مطلوب ِ اصلی بنا لینے اور ان کے معاملے میں ’’التَّکَا ثُر‘‘ ’’زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی چاہت‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کو مذموم ٹھہرایا اور اس رویے کو غفلت کا سبب قرار دیا(اور ظاہر ہے غفلت کوئی معمولی چیز نہیں)۔اللہ عزو جل نے حیاتِ دنیا کو ترجیح دینا___ اُن لوگوں کی بنیادی صفات میں سے قرار دیا جو یہاں اللہ کے تابع بن کر رہنے کے بجائے سرکشی کی زندگی اختیار کرتے ہیں:
فَاَمَّا مَنْ طَغٰی وَاٰثَرَالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰی (سورۃ النّٰزعٰت:۳۷۔۳۹)
’’جس شخص نے(حق سے) سرکشی کی ہو گی اور (آخرت کا منکر ہوکر)دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی،سو دوزخ (اس کا)ٹھکانا ہوگا۔‘ ‘
ترجیح کہتے ہی اسے ہیں کہ خیالات کہیں مرتکز ہو جائیں۔زبان پھر اسی کے تذکروں میں مگن رہتی ہے، توانائیاں اسی کے حصول میں صرف ہوتی ہیں،وقت وہیں کھپتا ہے،پیسہ اسی پر لگتا ہے۔ پس اگر ان سب جانی ،مالی اور اوقاتی وسائل اور خود دعوت کا رخ دنیا کے اسباب کی طرف ہو تو ترجیح دنیا ہی ہو گی،ا ور اس کی زد کسی شے پر پڑے گی تو وہ آخرت کی تیاری(اور اس کی طرف دعوت) ہو گی:
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُخَیْرٌوَّاَبْقٰی (سورۃ الأعلٰی: ۱۶۔ ۱۷) ’’مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہترہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘بندۂ مومن راہِ آخرت کا مسافر ہے۔اس کے پاس مالِ دنیا کا ہونا بجائے خود مذموم نہیں۔کیونکہ یہ پاکیزہ مال اس کے لیے دست ِ سوال سے بچاؤ ،حقوق کی ادائیگی، فرائض کی بجاآوری،پاکیزہ نعمتوں کے حصول، جمعیت ِقلب، فراغت ِ معاشی ،پرورشِ اولاد، صدقہ و خیرات ، فروغِ دعوت، اور توفیقِ جہاد کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے :
((نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْئِ الصَّالِحِ)) (احمد،مسند الشامیّین)
’’نیک آدمی کے لیے نیک مال کیا ہی اچھی چیز ہے۔‘‘
لیکن نیک کمائی کی اتنی اہمیت کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی فرمائی کہ زندگی کی ساری توانائیوں کو رزق کے حصول کی کوشش میں کھپا نہ دیں۔ امام ابنِ ما جہ ؒ نے اپنی سنن میں باب ’’الا قتصاد في طلب المعیشۃ‘‘کے تحت آپ ؐ کی یہ حدیثِ مبارکہ نقل فرمائی ہے:
(( اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ۔فَاِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَھَا، وَاِنْ اَبْطَأَ عَنْھَا۔فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَجْمِلُوْا فِی الطَّلَب۔خُذُوْا مَا حَلَّ، وَدَعُوْا مَا حَرُمَ)) ( سنن ابنِ ماجۃ، کتاب التجارات )
’’اے لوگو! اللہ سے ڈر و ا ور رزق کو اجمالاً تلاش کرو (یعنی میانہ روی سے) کیونکہ بے شک کوئی فرد اس وقت تک ہر گز نہیں مر سکتاجب تک کہ وہ اپنا رزق مکمل نہیں کر لیتا، اگرچہ اس کے ملنے میں اسے تاخیر ہو جائے۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ا ور رزق کو اجمالاً طلب کرو ، جو حلال ہو اسے لے لو ا ورجو حرام ہو اسے چھوڑ دو ۔‘‘
مال اوراونچے ’ اسٹیٹس ‘کی حرص جو انسان کو دنیا میں غرق کر دیتی ہے ، اور دین کو اس کی نگاہ اوراس کے عملی رویوں میں ہلکا بنا دیتی ہے ،کپڑے چادر کا بندہ اور نام و نمود کا پجاری بنا دیتی ہے ۔ اس کے بھیانک نتائج شمار سے باہر ہیں۔ ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوامع الکلم کے ذریعے امتیوں کو ا س حرص کے شر سے آگاہ فرمایا،ارشاد ہے:
((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ اُرْسِلاَ فِیْ غَنَمٍ بِاَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہٖ)) (الترمذي،ابواب الزھد)
’’دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ ان کے لیے اتنے تباہ کن نہیں ہوتے جتنی تباہ کن آدمی کی، مال اور بلندی و برتری (اسٹیٹس) کی حرص اس کے دین کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘
ایک اور موقع پر آپ ؐ نے حبِّ دنیا کی ہلاکت آفرینیوں کا بیان ان الفاظ میں فرمایا:
((……فَوَ اللّٰہِ مَا الْفَقْرَ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنِّیْ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُبْسَطَ الدُّنْیَا عَلَیْکُمْ کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوْھَا کَمَا تَنَافَسُوْہَا وَتُہْلِکَکُمْ کَمَا اَہْلَکَتْہُمْ)) (مسلم،کتاب الزہدوالرقائق)
’’……پس اللہ کی قسم مجھے تم پر فقر مسلط ہونے کاڈر نہیں ہے بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا تم پر اسی طرح وسیع کر دی جائے جس طرح تم سے پچھلے لوگوں پر کی گئی تھی ،پھر تم اس میں اسی طرح باہم مسابقت کرنے لگو جیسے کہ تم سے پچھلے لوگوں نے کی تھی،اور پھر وہ تمہیں اسی طرح ہلاک کر دے جس طرح اُس نے انھیں ہلاک کیا تھا۔‘‘
اسلام کی ان حیات آفریں تعلیمات کی پہلی مخاطب اہلِ ایمان کی وہ نسل تھی جس نے ایمانیات اور اعمال کا سبق براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ِ با برکت میں رہ کر سیکھا تھا۔وحیٔ الٰہی کی آیات اترتی رہیں اور انھیںؓ ان کے اصلی گھر کی طرف متوجّہ کرتی رہیں۔وہی گھر جہاں سے بنی نوع انسان کے ماں باپ آدم و حوا کو شیطان نے نکلوایا تھا اور ان کی نسل کو بہکانے (اور اس گھر میں واپس نہ جانے دینے ) کی قسم کھائی تھی ۔صحابۂ کرام ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لگاتار تئیس برس تک قرآنِ حکیم کی آیات ___نمازوں میں،نشست و برخواست میں، خطبوں میں اور نزولِ وحی کے موقعوں پرسنتے رہے۔ انؓ کے عقائد و اعمال، عادات و اخلاق کا تواتر کے ساتھ تزکیہ ہوتا رہا،کتاب اور حکمت کی تعلیم جو اول روز سے شروع ہوئی اور’’ اَللّٰہُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی‘‘ کے الفاظ کہنے تک جاری رہی،اس ساری سعی کا حاصلِ حصول اس کے سوا اور کیا تھا کہ ___دنیا سے جو جائے جنت کو جائے ،کامیاب ہو جائے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭