الحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد. اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
’’ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ۔‘‘
تفرقہ ایک مصیبت ہے!
مجاہدین کے لیے اس دور میں، اور امت کے لیے ہردور میں، جو ایک بہت مشکل مرحلہ، جو ایک بہت بڑی تحدید رہی ہے وہ ہے تفرقہ۔ تفرقہ ایسی چیز ہے جو بنی بنائی امت کو اور بنی بنائی سلطنت کو توڑ دیتا ہےاور اس کا مسئلہ عجیب ہے کہ یہ جس نام پر بھی ہو، نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ تفرقہ دنیاوی ہو، کسی دنیاوی نعرے پرہو تو اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا اور تفرقہ کسی دینی نعرے پر ہو تو اس کا بھی نتیجہ وہی نکلے گا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا:
﴿وَأَطِيعُوا اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا﴾ (سورۃ الانفال: ۴۶)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرواور تنازع نہ کرو تو (ورنہ) تم ناکام ہوجاؤگے۔‘‘
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو تنازع کرتے، وہ ناکام ہوتے۔ تنازع کرنے والا تو ظاہر ہے کہ کوئی ایک طبقہ ہوتا ہے تو ان کو ناکام ہونا چاہیے تھا، لیکن جن کا کوئی قصور نہیں ہے، جنہوں نے تنازع کیا ہی نہیں، ناکام وہ کیسے ہورہے ہیں؟ تفرقہ ایسی ہی چیز ہے کہ صرف کرنے والوں پر اثر نہیں ڈالتا، جنہوں نے نہیں کیا، ان پر بھی اثر ڈالتا ہے۔انجام، قرآن کریم دونوں کا ایک ہی بیان کررہا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو نعرہ لے کر تم نکلے ہو، جو دعوت لے کر تم نکلے ہو، اس کے لیے ایک شرط ہے۔ جَمِيعًا کی قید لگائی ہے، وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا یہ اعتصام بِحبلِ اللہ، جمیعاً ہوسکتا ہے، اس کے بغیر نہیں ہوسکتا، فرداً فرداً نہیں ہوسکتا، الگ الگ رہ کر نہیں ہوسکتا۔ جب تک امت ایک امت نہیں بن جائے گی، فروعی اختلافات کو بھلا نہیں دیا جائے گا، تب تک حبلُ اللہ کو پکڑا نہیں جاسکتا۔ یہ حبلُ اللہ کیا ہے؟ یہی شریعت ہے، یہی کتاب اللہ ہے جس کے نفاذ کے لیے آپ حضرات نکلے ہیں۔
ہردور کے اندر مختلف نعروں سے، مختلف ناموں سے امت میں تفرقہ ڈالا گیا۔ اس دور میں جب روس کے آنے کے بعد جہاد شروع ہوااور امت دوبارہ جہاد پر آئی ، دنیا کے مختلف خطوں سے مسلمان اٹھ اٹھ کر جہاد میں آنے لگے اور اللہ نے اس فریضے کو دوبارہ زندہ کردیا، آپ دیکھتے ہیں کہ اس وقت جہاد کا ایک نعرہ تھا، امت کی بیداری کا ایک نعرہ تھا، تو سب اس پر جمع ہونے لگے۔ جیسے جیسے جہاد پنپتا گیا، ویسے ویسے کفر کی تشویش بھی بڑھتی چلی گئی، چنانچہ انہوں نے وہی پرانا حربہ پھر استعمال کیاکہ مجاہدین کو، اس جہاد کو مختلف ناموں میں، مختلف دینی ناموں کے ساتھ تقسیم کرنا چاہا۔ اب اگر ہم تقسیم ہوجائیں اور اپنے اپنے عَلم بلند کرنے لگیں تو پھر دین کا عَلم پیچھے رہ جائے گا۔ دیکھیے! جہاد کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاد، جیسا کہ آپ نے جانا کہ پورے دین کا محافظ ہے ، پورے دین کے احیا کا سبب ہے، تو جو دین کا مزاج ہے وہ اس جہاد کا بھی مزاج ہے۔ جس طرح دین بغیر متحد ہوئے قائم نہیں ہوسکتا، اسی طرح یہ جہاد بھی بغیر متحد ہوئے نہیں چل سکتا۔ لہٰذا مجاہدین اگر اس فکر میں ڈوبے ہوں، جہادی فکر ان پر غالب ہو اور امت کو امت بنانے کی فکر ان پر غالب ہو تو وہ تفرقہ بازی سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں کمی ہو، اس تصور میں کمی ہو تو تقسیم ہونے کے لیے چھوٹے چھوٹے نعرے بھی بہت بڑے بن جایا کرتے ہیں۔ تقسیم کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی آپ تنازع کھڑا کرلیں، وہ اتنا بڑا نظر آئے گاکہ آپ کو لگے گا کہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ تو اس وقت یہ ہے۔ جہاد، رباط، کفر کو ختم کرنا…… یہ تو بعد کی باتیں ہیں، سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے۔شیطان اس بات کو اس طرح مزین کرکے رکھ دیتا ہے کہ لوگ اور عقلیں اس کے اندر گھستی چلی جاتی ہیں اور امت کہیں اور رہ جاتی ہے۔اس لیے قرآن کریم نے قید لگائی کہ یہ مقصد متحد ہوکر حاصل ہوسکتا ہے، الگ الگ رہ کر حاصل نہیں ہوسکتا۔
مجاہدین کو اپنی صفوں میں مسلکی تعصبات کو ہوا دینے والی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے
جو دشمنانِ اسلام ہیں، جو جہاد کے دشمن ہیں انہوں نے اس جہاد پر مختلف نام چسپاں کرنے کی پوری کوشش کی ہےکہ کسی کو کوئی نام دے دیں، کسی کو کوئی نام دے دیں، حالانکہ جہاد ایک ہی ہے۔اس کا مقصد ایک ہے اور اس کا نتیجہ بھی ایک ہی نکلتا ہے، کفر کے غلبے کا ٹوٹ جانا اور اسلام کا غالب آجانا۔ لیکن جب اس پر مختلف لیبل چسپاں کردیے جائیں گے تو اب یہ امت کا تصور ختم ہوجائے گا، وہ ایک طبقہ بن جائے گا…… وہ دینی نام پر ہو، کسی طبقاتی نام پر ہو یا کسی علاقائی نام پر ہو یا کسی اور نام پر ہو…… تو ہمیں اس باب میں بہت محتاط رہنا ہے۔ یہ حساسیتیں امت میں ہمیشہ رہی ہیں، ویسے بھی جو مذہبی وابستگی ہوتی ہے اس میں ایک عقیدت غالب ہوتی ہے، یہ حنفی ہے، یہ سلفی ہے، یہ شافعی ہے، یہ حنبلی ہے…… اور اپنے اس خطے میں لے لیں…… امت کو مختلف ناموں سے تقسیم کیا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل کو اتنا بڑا بنا کر پیش کردیا کہ بڑے بڑے باصلاحیت لوگ اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ جو عقائد متفقہ تھے، جو مسائل متفقہ ہیں، نہ متکلمین کا ان میں اختلاف ہوگا نہ ہی فقہاء کا اختلاف ہوگا، نہ محدثین کا اختلاف ہوگا…… اس سے دور کردیا اور فروعی اختلافات کو اتنا بڑا بنا کر پیش کردیا کہ گویا سب سے بڑا معرکہ تو یہ ہے۔ اس لیے آپ حضرات کو اس میں بہت کوشش کرنی ہے کہ جہادی صفوں میں کوئی دینی ایسا نعرہ جو آپ کی صفوں کو تقسیم کردے ، وہ حیات اور ممات کے نام پر ہو، وہ سلفیت اور حنفیت کے نام پر ہو، یا وہ علاقائی نام پر ہو، علاقائی کا خطرہ ذرا مجاہدین میں کم ہوتا ہےکہ وہ اس بت کو توڑ کر آتے ہیں لیکن یہ خطرات موجود رہتے ہیں اور اس کی باقاعدہ دشمن کی طرف سے کوشش کی جائے گی، آپ کی صفوں میں ایسے لوگ داخل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ان کو بڑا بنا کر پیش کردیں، ان مباحث کو آپ کی صفو ں میں اٹھائیں اور پھر میں نے کہا کہ ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ امت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔
دیکھیے! اپنے حالات کو سمجھنے کے لیے تاریخ ایک آئینہ ہوتی ہے۔ تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیجیے، کسی بھی نام پر کسی بھی نعرے پر جب امت میں اختلاف پیدا کیا گیا تو اس سے امت کو فائدہ ہوا یا نقصان ہوا؟غلبہ کس کا ہوا؟ کس کو فائدہ پہنچا؟…… وہ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ چونکہ اپنے دور میں سب انہی مباحث کے اندر شامل ہوجاتے ہیں تو وہ بہت بڑی بات لگتی ہے۔ آپ حضرات نے کتب فقہ پڑھی ہیں، احناف کے زیادہ اختلافات آپ کی کتابوں میں کس سے آتے ہیں؟ شوافع سے! ایک دور جو مناظروں کا گزرا اس کی تاریخ آپ کو معلوم ہےکہ کتنا سخت رویہ ایک دوسرے کے بارے میں ہوتا تھااور سخت زبان استعمال ہوتی تھی، بہت بہت غلط باتیں ایک دوسرے کی جانب منسوب کردیتے تھے، لیکن آج شوافع اور احناف کا اختلاف زمین پر نہیں ہے تو آج آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی شوافع کی برائی بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ ایک دور تھا جو گزر گیا، اب ایک علمی بحث رہ گئی ہے صرف ، وہ آپ جانتے ہیں کہ ان کے اپنے دلائل، احناف کے اپنے دلائل، ایک علمی چیز رہ گئی، علمی بحث رہ گئی۔ لیکن اس دور میں سلفیت اور حنفیت کو اتنا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کردیا کہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے، جب تک یہ حل نہیں ہوگا امریکہ کو شکست نہیں ہوگی، پہلے اس کو حل ہونا چاہیے۔ حالانکہ جتنے بھی مسائل ہوتےہیں، جیسے ہم نے شوافع اور احناف کی مثال دی ، علمی مسائل ہیں۔ طرز استدلال آپ کو معلوم ہے اصول دونوں کے آپ کو معلوم ہیں لیکن اس کو اتنا بڑا بنا کر پیش کیا گیا۔ باقاعدہ ریاستوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی گئی، ادارے بنائے گئےمناظرہ سازی کے تاکہ یہ امت کہیں جڑ نہ جائے۔ ان اختلافات سے ہٹے گی تو پھر ظاہر ہے کہ کفر کی طرف اس کی توجہ جائے گی۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ ایجنسیوں کے بڑے بڑے سربراہ علماء کے پاس باقاعدہ اس لیے جاتے ہیں کہ آپ نے تو عقیدہ چھوڑ دیا اپنا ، یعنی ان کو ورغلاتے ہیں کہ آپ نے مناظرہ چھوڑ دیا گویا آپ نے اپنا عقیدہ چھوڑ دیا، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا عقیدہ کہاں چھوڑا؟ مناظرے چھوڑے ہیں! تو یہ پالیسی ہے باقاعدہ ریاستوں کی کہ وہ امت کو ان ناموں میں تقسیم کریں۔
مجاہدین کی دعوت پر کسی خاص مسلک کی چھاپ نہیں ہونی چاہیے
جہاد میں اگر ایک چیز ایسی آگئی…… مجاہدین نے اپنے اوپر اگر ایک لیبل ایسا لگا لیا …… دیکھیے! آپ کہیں سے آئے ہیں، یہ کہیں سے آئے ہیں، یہ کہیں سے آئے ہیں (حاضرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا)…… جتنے بھی جہادی جماعتوں کے بڑے ہوتے ہیں ان کے بارے میں اتنا تو معلوم ہوتا ہی ہے کہ ان کا مسلک یہ ہے، یہ ایک الگ چیز ہے، ایک ہے اپنی دعوت میں ان مباحث کو شامل کرلینا۔ آپ کی جہادی دعوت ہے، اس جہادی دعوت کے اندر ان مباحث کو آگے لے آنا جو اختلافی مباحث ہیں، اس سے پھر آپ پر لیبل لگتا ہے اور یہ لیبل جو لگتا ہے یہ حقیقی لیبل لگتا ہے۔ جب آپ نے ایسا لیبل اپنے اوپر لگا لیا اور دوسروں کے لیے اپنے ہاں آپ نے جگہ ہی نہیں رکھی ، اپنے آپ کو صرف ایک طبقے میں آپ نے سمیٹ لیا تو بتائیں دوسرا کیوں آئے گا آپ کے پاس؟ وہ پھر اپنی جماعت بنائے گا اور اس طرح پھر مسلکوں کے نام پر اپنی اپنی جماعتیں بن جائیں گی اور جتنی دوریاں ہوں گی اتنے ہی حالات خطرناک ہوں گےاور اس کا نقصان آپ کے جہاد کو ہوگا۔نہ آپ کا جہاد کامیاب ہوگا نہ ان کا جہاد کامیاب ہوگا، وہ (دشمن) پھر غالب آجائیں گے۔ اس لیے جہاد کی اہمیت جب آپ سمجھ گئے تو اس کے مقام کو بھی سمجھیے کہ یہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ جس سے چاہے کام لے لے، جس کے ہاتھ میں چاہے عَلَم دے دے ، اور جس کو اللہ نے دے دیا یہ امانت ہے اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے۔ جتنے اہل سنت والجماعت کے طبقات ہیں ، ان سب کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ اپنی دعوت پر کوئی ایسی چھاپ نہ لگنے دے جس سے دوسرے متنفر ہوکر بھاگ جائیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ یہ آسانی سے ہوسکتا ہے۔
روس دور میں بھی دیکھ لیجیے شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ نے جو طرز اختیار کیا دعوت کا کیا، اس میں آپ کو کوئی چھاپ نظر آتی ہے، جہاد کے علاوہ؟ اول تا آخر کسی بچے سے بھی پوچھ لیں تو وہ کہے گا کہ یہ مجاہد تھا۔کیونکہ ان کی دعوت میں درد ہی درد ہے، امت کا درد ہے، امت کی بات ہے، امت کی بات کرتے ہیں وہ کسی ایک طبقے کی بات نہیں کرتے ، وہ کسی ایک خطے کی بات نہیں کرتے، وہ کسی ایک مکتبِ فکر کی بات نہیں کرتے ۔ اس کے بعد شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی آپ دعوت کو دیکھیے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا اس میں کوئی خاص چھاپ نظر آتی ہے؟ یا ان کو صرف ایک خاص مکتب فکر نے مانا اور ان کے مخالفین نے نہیں مانا؟نہیں! ان کی دعوت میں عمومیت ہے۔ انہوں نے نظام کفر کے خلاف بات کی اور امت کو بحیثیت امت اس کے مقابلے کھڑا ہونے کی دعوت دی تو مخاطب نے وہی سمجھا جو انہوں نے سمجھانا چاہا۔ دیکھیے مخاطب غلط نہیں سمجھتا ۔ جو آپ سمجھانا چاہتے ہیں مخاطب وہی سمجھتا ہے ، جو دعوت امت کو انہوں نے دی امت نے وہی سمجھا، اس کو ایک مجاہد جانا، تو سلفی ہو یا حنفی ہو، حنبلی ہو یا شافعی ہو مالکی ہوسب نے ان سے محبت کی۔ سب نے، جس کی جو استطاعت تھی، ان کے سامنے پیش کردیا۔اسی طرح امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا طرز آپ دیکھیے، انہوں نے سب کو ایک جان کیا۔ شریعت کو نافذ کیا اور سب کو ایک جان کیا۔ ان کے پاس سب موجود تھے۔ جو ایک افغانی کا مقام تھا وہی ایک پاکستانی کا مقام تھا ، جو ایک حنفی کا مقام تھا وہی ایک سلفی کا بھی مقام تھا ۔ سب کے لیے وہی آزادیاں جہاد کے بارے میں ، سب کے لیے وہی سہولیات، وہی خدمت، تو امت نے بھی ان کو اسی طرح جانا، سلفیوں نے بھی ان کو اسی طرح دیکھااور حنبلیوں نے بھی ان کو اسی طرح دیکھا۔ حنفیوں نے امیر المومنین کہا تو سلفی بھی امیر المومنین کہنے میں پیچھے نہیں رہے۔یہ ہے میری مراد کہ جہاد کی دعوت پر آپ کی کوئی خاص چھاپ نہیں لگنی چاہیے۔ لوگ آپ کو امت کا درد رکھنے والا ایک داعی ایک مجاہد ، جو امت کو جمع کرنا چاہتا ہےاس نظام کفر کے خلاف، سمجھیں گے تو ان شاء اللہ پھر ہر جگہ سے آپ کے پاس لوگ آئیں گے۔آپ کی دعوت میں بھی اور آپ کے مراکز اور آپ کی جماعت کے اندر بھی وہی ماحول ہونا چاہیے۔ ہر مجاہد کو پتا ہونا چاہیے کہ ان اختلافات کی جماعت کے اندر گنجائش نہیں ہے۔ ان مباحث کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر جو بھی آپ کے پاس آئے گا وہ کہے گا کہ ہاں! ان کا اول و آخر غم کیا ہے؟ اعلائے کلمۃ اللہ! اور یہ اعلائے کلمۃ اللہ کو کسی خاص مکتب فکر میں خاص نہیں کرتے کہ بس عَلم ان کے پاس ہوگا تو یہی اہل حق ہیں اور باقی سارے ایسے ہی ہیں……خود بخود امت آپ کو پہچان جائے گی اور اصل تو آپ کا اللہ ہے جو آپ کے دلوں سے واقف ہے، جب وہ تعصب پاتا ہی نہیں آپ کے دل میں تو آپ کی دعوت کا ضرور مخاطب پر اثر ڈالے گا۔
اگر اس چیز سے ہم بچ سکے…… تفرقوں سے……اور اپنی دعوت کو ہم اپنے پہلے والوں کی طرز ہی پر لے کر چلتے رہے ، اپنی جماعت کو ہم اسی طرز پر لے کر چلتے رہے تو ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ پھر ضرور کامیاب کرے گا۔
وہ جماعت نہیں پنپ سکتی جو ایک مکتب فکر میں اپنے آپ کو محدود کرلے
یہ بہت نازک مسئلے ہوتے ہیں اور اس میں دشمن باقاعدہ کوشش کرتا ہے ، محنت کرتا ہے آپ کو توڑنے کے لیے ۔ کبھی بھی کوئی چنگاری چھوڑ دے گا، کبھی یہ بھڑک گئے کبھی وہ بھڑک گئے۔ بھڑکنا نہیں ہے۔ باقی رہے مسائل تو آپ کو معلوم ہے کہ ساری علمی باتیں ہیں۔ اور جب مناظرہ بازی شروع ہوتی ہے تو جو عدل ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ یعنی جہاں بھرا مجمع ہو، ہزاروں لوگ ہوں تو کون کس کی بات مانے گا؟ لیکن وہ جب دور گزر جاتا ہے، جیسا کہ ہم نے کہا، اپنے استادوں سے ہی آپ پوچھ لیں کہ اس میں شوافع کا مسلک کیسا ہےتو وہ آپ کو صحیح صحیح علمی دلائل کے ساتھ بات بتا دیں گے۔ لیکن اگر یہی مناظرے شروع ہوجائیں تو بالکل معاملہ بدل جاتا ہے۔یہ دور ہمارے خطے میں مناظرہ بازی کا پیدا کیا گیا ہے۔ مدارس کے اندر ماحول بنایا گیا ہے باقاعدہ کہ طلبہ اور ان کی صلاحیتیں آپس ہی میں لڑتی رہیں، نظام کفر کی طرف ان کی توجہ بالکل نہ جائے، اس لیے آج حیات و ممات کا مسئلہ ہو، سلفیت و حنفیت کا مسئلہ ہو ، لگتا ہے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا درد تو یہ ہے ۔ ایک ساتھی تھے انہوں نے امت کے حوالے سے ایک مضمون لکھا اور اپنے مدرسے میں جہاں پرچے نکلتے ہیں (نوٹس بورڈ)وہاں لگا دیا تو اس پر ہنگامہ ہوگیا۔ تو وہاں جو ذمہ دار تھے انہوں نے کہا کہ کیا یہ سیاست پر لکھتے رہتے ہو، یہ اتنے اتنے بڑے مسئلے امت میں ہیں،( یہی فرقوں کا انہوں نے ذکر کیا کہ) ان پر نہیں لکھتے؟یعنی امت کا مسئلہ چھوٹا ہے اور یہ جو داخلی مسائل ہیں یہ بڑے ہیں۔ تو اگر یہ ماحول بنا دیا جائے، آپ اگر دس پندرہ دن ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں مناظرہ بازی ہوتی ہے تو دماغ خراب ہوجائے گا۔آپ بھی اس میں پڑ جائیں گے۔ تو باقاعدہ ہمارے مدارس کواس میں ڈالا گیا ہے۔ ایجنسیاں دونوں طرف فنڈنگ کرتی ہیں ، اِدھر بھی ایجنسیاں فنڈنگ کرتی ہیں اور اُدھر بھی کرتی ہیں، عَلم طاغوت ہی کا بلند ہورہا ہے، لیکن نام کیا ہے کہ دونوں نے حق کا علم اٹھایا ہوا ہے کہ جیسے یہ جیت گئے تو دنیا میں حق غالب آجائے گا اور وہ جیت گئے تو دنیا میں حق کو غالب کردیں گے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو پیسہ، جو وقت اور جو صلاحیتیں امت کی لگ رہی ہیں اس سے عَلمِ کفر ہی بلند ہورہا ہے۔اس لیے جہادی صفوں میں…… جہادی مزاج اس کو قبول ہی نہیں کرتا…… ایسی جماعت کبھی پنپ نہیں سکتی …… جہاد کا مزاج اس کے بالکل الٹ ہے، جہاد امت کو جوڑتا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی نام پہ آپ جوڑ نہیں سکتے امت کو کیونکہ اس میں جو تقسیم ہوتی ہے وہی مقدم ہوتی ہے تو دوسرا آپ کے ساتھ کیسے آسکتا ہے؟ مدارس کی بات آپ کرلیں اگر، کوئی اور میدان لے لیں آپ، سیاست کا بے شک میدان ہو اس میں بھی سب کی اپنی اپنی ہوں گی۔ اس لیے ایک بہت بڑا خطرہ اس وقت جہاد کو یہ بھی ہے کہ مجاہدین کی صفوں میں دینی نام کے ساتھ انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دے دی وہ جس مسلک سے بھی تعلق رکھتا ہے ، اہل سنت والجماعت کے کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اب اس کو مضبوط کرنا ہے۔ دیکھیے! اتحاد کے بارے میں کیسی کیسی احادیث آئیں، وہ جو فاسق و فاجر امراء کی اطاعت کی آئی وہ اسی لیے آئی ہے کہ ان کا جو نقصان ہوتا ہے وہ انفرادی ہوتا ہے اور جڑنے کے بدلے جو فائدہ ہوتا ہے وہ امت کا اجتماعی ہوتا ہے اس لیے ناگوار چیزوں کو برداشت کرنے کی پیشین گوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی اور تاکید بیان فرمائی کہ یہ امت ٹوٹ نہ جائے۔ آپ جب تاریخ پڑھتے ہوں گے پہلے تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ فتوحات کرتے ہوئے جارہے تھے اور پیچھے سے پیغام آگیا امیر کا کہ واپس آجاؤ۔ اور معلوم بھی ہے کہ امیر اچھا سلوک نہیں کرے گا، ہم سوچتے تھے کہ فتح کرلیتے، بات نہ مانتے، لیکن اب سوچتے ہیں کہ اگر یہ رِیت پڑ جاتی امت کے اندر کے امیر سے نکل کر ایک نئی جماعت بنا لینا، تفرقہ کا آغاز ہوجاتا تو شاید پھر اسلام آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ پھر ہر خطے کا امیر اور والی آزاد ہوجاتا اور اسی دینی نام پر ہی آزاد ہوجاتا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیاتاکہ فوائد آگے جاکر امت کو ملیں۔ تو تفرقہ کسی بھی نام پہ خطرناک ہے اور جہاد کا مزاج اسے قبول نہیں کرتا ہے۔ وہ جماعت نہیں پنپ سکتی جو کسی ایک مکتبِ فکر میں اپنے آپ کو محدود کرلے اور حق کو اسی کے ساتھ خاص کرلے کہ بس! اہل حق تو یہ ہیں ۔ حق کاعَلم بلند ہوگا تو بس میری جماعت کے ذریعے ہی ہوگا، میرے مکتب فکر کے ذریعے ہوگا باقی کسی کے ذریعے نہیں ہوگا…… ایسا جہاد نہیں چل سکتا۔یہ ساری امت ہے، اس سب نے کلمہ پڑھا ہے، فروعی اختلافات کے باوجود وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں۔ فقہی اختلافات کے باوجود نہ حنفیوں نے شوافع کو کبھی امت سے خارج کیا اور نہ شوافع نے حنفیوں کو کبھی امت سے خارج کیا ۔ اس لیے اللہ جس سے چاہے اپنے دین کا کام لے لے۔ ہمیں حق کو دیکھنا ہے۔ ہم اپنے اپنے مکتبِ فکر کے نعرے لگائیں تو دین کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ بتائیں! اور کیا دین کو ڈھانے والے ہمارے ہی مکتبِ فکر کے لوگ نہیں ہیں بہت سے؟ یعنی کوئی بھی تصور کرلے، شافعی ہو حنفی ہو سلفی ہو…… اپنی ہی صفوں میں کیسے کیسے لوگ موجود ہیں جو کفر کے آلۂ کار بن گئے۔ جہاد کے خلاف لکھتے ہیں۔ ساری زندگی انہوں نے لگائی کہ کہیں یہ امت امت نہ بن جائے اور کافروں کو کوئی خراش نہ پہنچ جائے ، اتنے درد میں کافروں کے وہ گھلے جاتے ہیں ۔ تو دیکھیے ! حق کا عَلم اصل ہے۔ دین کا عَلم ہے اسے سب کو مل کر اٹھانا ہے۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا …… کسی بھی نام پر تفرقہ نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی نام پر اختلاف نہیں ہونا چاہیے ورنہ آپ کے جہاد کو، آپ کے کاز کو اس کا نقصان پہنچے گا۔ہمیشہ اس چیز سے باخبر رہیں کہ کہیں اس کی گنجائش نہ رہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ سارے مسائل ہم ہی حل کرکے جائیں گے، علمی مسائل۔ دوسرا یہ کہ علمی مسائل حل کرنے کے لیے بہت سے لوگ موجود ہیں ، ان کا کام ہی یہ ہے۔ ہم کس کام کے لیے آئے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے اس دین میں الحمد للہ کہ حق چیزیں معلوم نہ ہوں ۔ یعنی وہ کیا متفقہ عقائد ہیں جن پر ساری امت متفق ہے اور جو اختلاف بھی ہیں، علمِ کلام کے اختلاف بھی آپ دیکھیں تو وہ بھی آپ کے سامنے ہے، علماء نے اس کی وضاحت کی ہے کہ کون سے کس درجہ کے ہیں، کون سے نزاعِ لفظی ہیں کون سے کیسے نزاع ہیں اس کی بھی وضاحت کردی ہے تو کوئی ایسا ابہام بھی نہیں ہے الحمدللہ دین کی ان چیزوں کے اندر۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ چیزیں پھر بہت آسان ہیں ۔ اس چیز کی ہمیں بالکل گنجائش نہیں دینی ہے۔ ویسے تو الحمدللہ مجاہد عموماً جہاد ہی کی نیت سے آتا ہے، اور جہادی فکر ہی اس پر غالب ہوتی ہے ، لیکن کبھی کبھی مثلاً مناظرے کے میدان سے آگیا ہو، اور بعض دفعہ مزاجوں کا بھی مسئلہ ہوتا ہے ، کسی کے مزاج میں سختی ہوتی ہے بعض چیزوں کے اندر تو وہ اس طرح کی چیزیں کرنے لگتے ہیں۔ تو ان کو سمجھانا ہے۔ اگر سمجھ دار ہوں تو علمی بات ان سے کرنی ہے اور اس کے نقصانات ان کو سمجھانے ہیں کہ ان چیزوں کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ ورنہ تو بڑا بنانے کے لیے میں چھوٹا سا مسئلہ آپ سے بیان کروں اولیٰ اور غیر اولیٰ میں، دس منٹ میں وہ ایسا مسئلہ بن جائے گا کہ دنیا کا سب سے بڑا اور امت کا سب سے بڑا مسئلہ وہی بن جائے گا، اولیٰ اور غیر اولیٰ کا…… عقائد تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ ایسی چیز ہوتی ہے۔
اس لیے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک مجاہد سمجھیں اور اس پوری امت کو اپنا سمجھیں ۔ اہل سنت والجماعت کے جتنے بھی طبقات ہیں ، جتنے بھی مکاتب فکر ہیں ان کو اپنا سمجھیں اور ہمیشہ سب کو لے کر چلنے کی تڑپ ہونی چاہیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی فکر ہونی چاہیے پھر اللہ تعالیٰ اس جہاد کے اثرات بہت تیزی کے ساتھ اس دنیا میں پھیلائے گا ۔ کفر یہ کوشش کرے گا کہ آپ کو مختلف ناموں میں تقسیم کردے ، یہ چھاپ ہم پر لگا دے، اپنی دعوت میں بھی اور اپنی جہادی صفوں کے اندر بھی ان چیزوں کی ہمیں کوشش کرنی ہے۔ حساسیتیں ہیں یہ، نزاکتیں ہیں، جلدی ان میں تنازعات پیدا ہوجاتے ہیں ، جذباتیت آجاتی ہے لیکن سمجھ داری سے کام لیا جائے تو ہرچیز کو اس کی جگہ پر رکھا جاسکتا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭