بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم، أما بعد
خبر یہ ہے کہ ……بیس سال پہلے ، شہرِ کراچی سے جوبہن ’ لاپتہ‘ ہوگئی تھیں، وہ جنہیں ’اپنوں‘نے خود ہی ’غیروں‘ کے ہاتھ بیچ دیاتھا …… آج اُن ’لاپتہ ‘ بہن کا ایک دفعہ پھر ’پتہ ‘معلوم ہواہے ،اور وہ یہ کہ وہ آج بھی امریکہ میں ہیں …… ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑی ہوئی …… لاغرجسم ، تھکی ہوئی آنکھوں ، زخمی چہرے ، ٹوٹے دانتوں اور پھٹے کپڑوں کے ساتھ ……وہاں کے ایک انتہائی بدنام زمانہ جیل میں زندگی کی شامیں گزاررہی ہیں اور اس حال میں کہ روز مرتی ہیں اورروز جیتی ہیں ۔ ان کی بہن محترمہ فوزیہ صدیقی صاحبہ اور محترم مشتاق احمدخان صاحب نے ان کی یہ کیفیت خود دیکھی اور ان کی فریاد بھی براہ راست ہی ان سے سنی ۔ فریاد کس کی ہے اور کس قسم کی ہے؟ کن کن ظالموں اور دشمن کے خلاف ہے اور کن تک پہنچانے کے لیے ہے ؟! یہ سب سوالات دل دہلانے ،خون کھولانے اور روح تڑپانے والے ہیں۔ آج ہماری سوچ بطورِ امت ’پرانی ‘نہیں رہی …… سود وزیاں کے پیمانے ’ترقی ‘کرگئے اور عزت و ذلت کے معیار اب پہلے والے نہیں رہے ، ورنہ یہ فریاد اگر اس دور میں بھجوائی جاتی جب ایمانی غیرت اور اسلامی اخلاق مسلمانوں کی شناخت ہوا کرتے تھے تو پوری کی پوری امت میں کہرام مچ جاتا، باپ اپنی بیٹیوں اور بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ نظریں نہ ملاپاتے،یہ واقعہ ہی امت کی زندگی و موت کا سوال بن جاتا اورکیاحکام اورکیا رعایا، کیاخواص اور کیاعوام سب اپنی بہن کا انتقام لینے اور اسے واپس لانے کے لیے مرنے مارنے پرتیار ہوجاتے ……جس امت کے نبیﷺ اپنے ایک صحابی کے انتقام کی خاطر اُس وقت موجود پوری امت سے موت پر بیعت لیتے ہیں اورصرف یہ نہیں،پھر سات آسمان اوپر سے خود اللہ رب العزت بھی اس کی تعریف میں کتاب اللہ کی آیات بھیجتے ہیں …… یہ کیسے ہوسکتاتھا کہ اُس نبی ﷺ کی پیروی کرنے والے اپنی بہن کی ایسی فریادسنتےاور کوئی ٹس سے مس نہ ہوتا!! تصور کیجیے، اپنے دین پر فخر کرنے والی اس بہن پر، جو قرآن کی حافظہ ہے اور امت کا درد رکھنے والی ہے …… کیاکیا مظالم ڈھائے جارہے ہیں ؟ پھر ایک دن ، یا ایک ہفتہ اور ایک ماہ نہیں ، ایک سال یا دوتین سال بھی نہیں، بیس سال سے یہ ظلم کی اس چکی میں پِس رہی ہے ،اور آج بھی اتناسارا عرصہ زیرِ ظلم رہ کر اور اپنی یہ فریاد ہم مسلمانوں کے نام بھجواکر ……وہ محفوظ نہیں ہوئی ، اسے چین نہیں ملا…… بلکہ دکھ درد، آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ ایک بار پھر اُسے اُس عقوبت خانے میں لوٹادیاگیاکہ جوخود امریکیوں کے ہاں بھی ظلم کے لحاظ سے معروف ِزمانہ ہے۔
عافیہ بہن کی اس فریاد کاآج ایک بار پھر اس طرح منظر عام پر آنا بے وجہ نہیں، اللہ کے ہاں اس کی یقیناً کوئی حکمت ہوگی کہ وہ حکیم وقدیر رب بعض اوقات اپنے ایک بندےکو آزمائش میں مبتلا کرتاہے مگراُس ایک کے ذریعے دیگر سب لوگوں کا امتحان لے لیتاہے، آزمائش میں مبتلا وہ بندہ فی الحقیقت اللہ کا محبوب ولی ہوتاہے، اس آزمائش سے اللہ اس کو اپنی قربت و محبت عطا کرتاہےمگر دوسرے اس مظلوم کو دیکھ کر کیا موقف اپناتے ہیں ، ظلم روکنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ ذرائع استعمال کرتے ہیں جن سے مظلوم کی واقعی مددہو سکے یا اپنی زندگی میں مگن رہ کر محض تبصروں پر اکتفا کرتے ہیں ، اسی سےان دوسروں کا اللہ کے ہاں نجات یا پکڑ کا فیصلہ ہوتاہے ۔ اللہ شکور اور وَدود ذات ہے ، وہ اپنے ساتھ محبت و اخلاص اور اپنی خاطر اعمال و قربانی کی قدر کرتاہے اور ایسی کہ جس کا کوئی تصور نہیں کرسکتاہے ،لہٰذا عافیہ کامیاب ہے ،اسے اللہ دنیا وآخرت دونوں میں ان شاء اللہ بہت کچھ دیں گے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ ’اگر کوئی مومن روزِ پیدائش سے لےکر( بڑھاپے کی )آخری عمر تک اللہ کی اطاعت میں منہ کے بل گھسیٹا گیا ہوتوروزمحشر اللہ کے ہاں اپنا اکرام و انعام دیکھ کر وہ اپنی اُس خطرناک ترین آزمائش کو بھی حقیر سمجھے گا‘1…… پریشانی ہماری ہے ، خطرناک آزمائش ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ہےکہ یہ ہمارے ایمان و اخلاص کا امتحان ہے ، ہم سے جب اللہ اپنی اس محبوب بندی اور اپنے رسول ﷺ کی اس عظیم امتی کی عزت وناموس کے متعلق پوچھے گاتو ہم کیاجواب دیں گے ؟
ایسا بھی نہیں کہ پاکستان سے عافیہ بہن کی رہائی کے لیے کوششیں نہیں ہوئیں…… ریلیاں نکلیں، قراردادیں پاس ہوئیں، امریکی حکام کو خطوط لکھے گئے، قانونی چارہ جوئی بھی ہوئی ……، غالباً کوئی ایک بھی ایسا جمہوری ، قانونی اور پرامن ذریعہ نہیں چھوڑا گیاکہ جس سے امریکیوں تک اپناغم وغصہ یامنت سماجت نہ پہنچائی گئی ہو، مگر سب بے سود رہا ، ظالم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، الٹا اس کے ظلم ،عناد اور تکبر میں اضافہ ہوا ، ایسے میں اب کیاکیاجائے؟ کیاہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھاجائے کہ جو ذمہ داری تھی وہ ہم نے پوری کردی ہے اور آگے اب ہمارے ذمہ کچھ نہیں؟ ظلم ہوتا رہے اور ہم مطمئن ہوجائیں کہ ہم تواپنا فرض ادا کرچکے ہیں؟ یا مصلحت پسندی، عیش کوشی اور وہن کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایمانی غیرت کی پکار پر لبیک کہی جائے اور ببانگ دہل پکارا جائے کہ نہیں!اصل فرض کی ادائیگی ابھی قرض ہے ہم پر اور وہ یہ کہ ظالم اگر صرف قوت کی زبان جانتاہے اور عقل و دلیل کی زبان نہیں سنتا ، حق دار کو حق نہیں دیتا تو پھراس کے سامنے منت سماجت کرنا، مطالبات کی تکرار کرناا اور عدل وانصاف کی بات سمجھانا مسئلے کا حل نہیں،بلکہ اس ظالم کاہاتھ مروڑنا اور قوت ہی کی زبان بول کر اس کاتکبر توڑنا مظلوم کی مدد کا اصل طریق ہواکرتاہے۔ یہی اس دنیاکا اصول ہےاور یہ ہر اُس جگہ کا اصول ہے جہاں غیرت وحمیت نامی حِس مردہ نہیں ،زندہ ہو اور یہی وہ راستہ ہے کہ جس پر قدم رکھنا محض مستحب نہیں ہے کہ اس پر ہم چلے تو ثواب ملے گا اور نہیں گئے توعقاب نہیں ہوگا ، نہیں یہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرض کیاہے،اللہ کی تنبیہ ہے کہ اگر مظلوم کی مدد نہیں کروگے ، کفر و ظلم کاراستہ اگر زورِ ایمان سے نہیں روکوگے تو دنیا میں فتنہ و فسا د ہوگا اور زمین پر یہ زندگی عذاب بن جائے گی ۔
اللہ رب العزت نے اس امت پر جہادو قتال کے میدان میں اترنا فرض کردیاہے،فرمایا ، اگر چہ طبیعتوں کے لیے یہ آسان نہیں ، تمہیں یہ ناگوار ہے ،مگر ضروری نہیں کہ جو تمہیں ناگوار ہو ، وہ حقیقت میں بھی باعث ِ خیر نہ ہو، اور جو تمہیں اچھا لگتاہو وہ انجام میں بھی اچھا ہو، نہیں! دنیا سے ظلم وعدوان کوختم کرنا اور عدل وانصاف رائج کرنا، غیر اللہ کی قوت و شوکت کوتوڑکر اللہ رب العزت کے کلمے کوسربلندکرنا اور شیطان کی حکمرانی کے مقابل رحمان کی رِٹ قائم کرنا……یہ سب ضروری ہیں اور یہ سب کام باطل کے دانت کھٹے کیے بغیر نہیں ہوسکتے ہیں۔ حق غالب کرنے کے لیے اہل حق کو باطل کی طاقت کے خلاف لڑنا پڑےگا ۔پھر سبحان اللہ! اللہ کی حکمت دیکھیے کہ جو امر اللہ نے شرعی طور پر فرض کیاہے ، تکوینی طورپر بھی اللہ نے نظام حیات ایسا بنایاہے کہ اُس امر پر عمل کیے بغیر متعلقہ مقصد ومنزل نہیں ملا کرتی ۔ فتنہ وفساد اور ظلم و استبداد کاخاتمہ کوئی لاکھ نام نہاد ’پرامن‘ راستوں سے کرنا چاہے ، نہیں کرسکتا ۔اس دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کا دین غالب اگر ہوا اور کفر و فساد کا قلع قمع اگر ہوا ہے تو یہ جہاد و قتال کے میادین میں اترنے سے ہوا ہے ، نہ محض دعوت وتبلیغ سے یہ مقصد حاصل ہوسکا اور نہ ہی جہاد و قتال کو باہر رکھتے ہوئے کسی اور ’پرامن‘ راستے سے یہ ہوا۔ باطل کے خلاف حق کی تلواریں چلی ہیں توتب ہی جاکر بڑے بت گرے ہیں اور ’جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً‘ ارشاد ہوا ہے۔
یہی اصول آج عافیہ صدیقی کے قضیے میں بھی اللہ ہمیں دکھارہاہے، وقت کے امام ِ کفر نے ہماری بہن وبیٹی کو اغوا کیا ،وہ آخری حد تک مظالم اس پر ڈھارہاہے اور ان مظالم کی روداد بھی خفیہ نہیں ، پوری امت تک پہنچ رہی ہے ،پھر امت کی طرف سے اس کی رہائی کے لیے کوششیں بھی ہوئیں، مگرجس کوشش کی کماحقہٗ ضرورت ہے، جو بطورِفرد بھی اور بطورِ امت بھی ہم پر فرض ہے اور جس کو قرآن میں باقاعدہ نام کے ساتھ ذکر کیاگیا ہےاور اہل ایمان کوجھنجھوڑا گیاہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی خاطر نہیں لڑتے ہو جبکہ وہ کمزور و مظلوم مرد، خواتین اور بچے چیخ چیخ کر اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! نکال ہمیں اس بستی سے کہ جس کے باسی ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی مدد و نصرت کرنے والے کو بھیج تاکہ ہمیں اس ظلم سے نجات ملے2،افسوس ہے کہ اس فرض کی طرف نہ صرف یہ کہ ہم متوجہ نہیں ہوتے ہیں، بلکہ اس سے انکار کرکے ایسے راستوں کو مستقل حل سمجھ بیٹھے ہیں جن سے مظلوم پر ظلم میں اضافہ اور ظالم مزید قوی ہورہاہے۔
دکھ تو یہ ہے کہ اس فرض کی طرف جب بلایا جاتا ہے اورعرض کیاجاتاہے کہ یہ راہ اپنا ئے بغیر ظالم کوظلم سے نہیں روکا جاسکتاہے، اللہ کا دین زمین پر حاکم نہیں ہوسکتاہےاور دوسروں کو خیر وفلاح دینے والی ذمہ داری نبھانا تو دور کی بات خود مسلمان قوم کا بھی بطورِ مسلمان رہنا مشکل ہوجاتاہےاور یہ بات بتانے سے بھی پہلے……جب بصد احترام عرض کیاجاتاہے کہ شریعت کا حکم ہے ، اللہ کی کتاب ، رسول اللہﷺ کی سیرت اور فقہائے امت کا سیکڑوں سالہ علمی ذخیرہ کہتاہے کہ اس نظام ظلم اور اس کو چلانے والے اَئمۂ کفر کے خلاف میدان ِ جہاد میں اترنا فرض ہے اور اس فرض کو ترک کرنے سے قوم ِمسلم کی غلامی، رسوائی اور گمراہی لازم آتی ہے ،تو ان شرعی ، عقلی اور تاریخی حقائق پر مبنی موقف کو جذباتیت کہہ کر رد کر دیاجاتاہے اور بتایاجاتاہے کہ جہاد یقیناً فرض ہے ، کتاب اللہ اور نبی کریم ﷺ کی سنت میں بھی اس کے احکام بلاشبہ موجودہیں ، کون اس سے انکار کرسکتاہے؟ مگر اب کازمانہ تبدیل ہوگیا ہے،اب سروں کے کاٹنے کا نہیں گننے کا دور ہے،اب مسائل جنگ سے نہیں مذاکرات اور افہام و تفہیم سےحل ہوتے ہیں ، اب اپنے حقوق جمہوری اور قانونی راستوں سے لیے جاتے ہیں،جبکہ یہ لڑنے جھگڑنے کی باتیں اب پرانی ہوگئی ہیں ، یہ باتیں آج جہاد نہیں دہشت گردی سمجھی جاتی ہیں ……یہ سن کر ہمیں یہ کہنے میں تردد نہیں رہتا کہ اس انداز سے فرضِ جہاد کی تاویل ، بلکہ مخالفت کرنے میں یا تو خود ان اختلاف کرنے والوں کے ہاں ہی محض جذبات سے کام لیاجاتاہے، خود یہ حضرات ہی نہ ٹھنڈے دل و دماغ سےسوچتے ہیں ، تحقیق و عمل کی نیت سے پڑھتے ہیں اور نہ ہی سر کی آنکھوں سے نظام ِدنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں ، یادوسری صورت میں یہ سوچتے، پڑھتے اور مشاہدہ بھی کرتے ہیں مگر تجاہل عارفانہ سے کام لےکر آنکھیں بند کرتے ہیں اور ایک ایسے راستے پر اصرار کرنے لگتے ہیں کہ جس کے بارے میں خوداس کی طرف دعوت دینے والوں کے علم میں بھی ہے کہ اس کاانجام اظہارِ دین (اسلام کا غلبہ) اور ظلم کاخاتمہ نہیں ہے ،اس لیے کہ شرعاً ، عقلاً اور تاریخی طورپر کسی ایک لحاظ سے بھی یہ بات ماننے والی نہیں کہ اسلام کفر کے ’رجسٹرڈ‘ اور طواغیتِ عالم کے ’ منظورِ نظر‘ راستوں سے کبھی غالب ہوا ہے، اور خود ظالموں ہی کے کھینچے گئے خطوط پر چل کر ظلم سے کبھی نجات ملی ہے۔جن راستوں سے یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر لانے کی بات کرتے ہیں اور شرعی نصوص کی تاویل کرکے انہیں عین مطلوبِ شریعت ثابت کرتے ہیں ، یہ راستے شرعاً کیسے جائز ہوئے جبکہ ان پر چل کرخیر وشر کی تعریف ہی بدل جاتی ہے اور کھلم کھلا دینی ثوابت اور شرعی مفاہیم کی قربانی دینی لازم ہوجاتی ہے۔
ہم تسلیم کریں کہ اللہ کا یہ دین غلبہ چاہتاہے، ہم اپنی جان، اولاد ا ور تحریک پربھی اس کوغالب کریں اور پھر بندگان خدا کو اللہ کے ساتھ جوڑنے اور ان کے اوپر سے غیراللہ کی حاکمیت ختم کرنے کی خاطر دشمنان دین کا زور توڑنا بھی اپنے لیے لازم سمجھیں ،اور یہ وہ مقصد ہے کہ جس کے لیے میادین قتال وجہاد میں اترنا شریعت نے فرض کیاہے ۔ پس اس فرض کو ہم کسی نہ کسی درجہ میں ادا کریں، اپنی دعوت وتحریک سے اس کو اداکرنے والوں کی تائید کریں اور میدان ِ جہاد میں اس کو تقویت دیں……مگر اس فرض کوناقابل عمل بناکر ہم ایسے کسی راستے کو متبادل نہ بتائیں جو باطل کے مقابل اہل حق کی قوت کو کمزور کرتاہو، انہیں قدم قدم پر شرعی احکامات چھوڑنے پر مجبورکرتاہو اور جس کا مغربی استعمار کی آمد سے پہلے تک پوری اسلامی تاریخ میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ہمیں ماننا چاہیے کہ عافیہ صدیقی جیسے مظلومین کی رہائی کافرض صرف اُس وقت ہی ادا ہوسکتا ہے جب امریکہ کے ساتھ اُسی زبان میں بات کی جائے جس کا وہ حق دار ہے ، وہ زبان کہ جس پر عمل کرکے ’’فُكُّوا الْعَانِيَ‘‘3 کے امر پر عمل ہوسکے اور نتیجے میں ہمارے اسیران ِ اسلام کی زنجیریں واقعی توڑی جاسکیں ۔ بےشک فراعنۂ عصر کی طاقت بڑی ہے اور امت مسلمہ مغلوب ہے ، مجاہدین ِ امت بھی کمزور ہیں مگر اسی میں تو آزمائش ہے کہ اسی سے اللہ نے کھرے کھوٹے کو جداکرنا ہے۔اللہ رب العزت کفر کی طاقت کا زور توڑنے کے لیے اہل ایمان کولڑنے کا امردیتاہے اور دلاسہ دیتاہے کہ اگر تم میدان میں اترتے ہو، جہاد و قتال کے مصائب پر صبرکرتے ہوم تو متکبرین کا کبر و زور توڑنا پھر میرے ذمہ ہے کہ میں (اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ) سخت قوت والا اور شدیدانتقام لینے والاہوں ۔ فرمایا: ﴿فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا﴾ 4۔
احتجاج اور مظاہروں کے ہم مخالف نہیں ، بالخصوص جب یہ ظالموں کے خلاف نفرت کے اظہار اور مزاحمت کی تحریک اٹھانے کا ایک وسیلہ ہوں ،مگر ضروری ہے کہ ان مظاہروں کو قوم کو اٹھانے اور بیدار کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جائے ، نہ کہ ان کے ذریعے الٹا ظالموں سے ان کی توجہ پھیردی جائے اور عوام کو دوبارہ سرابوں کے پیچھے لگاکر ایک اور ظلم ڈھایاجائے ۔ قوم کوبتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا یہ ملک آزاد نہیں ، غلام ہے، یہ ان جرنیلوں کے زیر تسلط ہے جواس قوم کے محافظ اور خیرخواہ نہیں ،بلکہ سات سمندر پارعالم کفر کے امام امریکہ کے غلام ہیں اوران کی اس غلامی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری بہن بیٹی امریکیوں کی جیل میں بدترین مظالم سہہ رہی ہے ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیےکہ اقوام تب ہی بیدار ہوتی ہیں جب دوست ودشمن اورغم خوار وغدار میں تمیز شروع کریں ، اگر آج بھی ہم اس نظام کا دجل وفساد نہ سمجھ سکیں اور نظام کی جگہ چہروں کی تبدیلی سے ہی دھوکہ کھانے لگیں تو یہ اس بات کی نشانی ہوگی کہ اس قوم کی قسمت میں ابھی مزید ٹھوکریں اور مظالم بھی ہیں ، اس لیے کہ ہم اب بھی بیدار نہیں ہیں ، بلکہ ہم بیدار ہونا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں یہ حقیر مگر مکاردنیا ایسی دکھائےجیسی کہ یہ ہے اور اس کے خوف و محبت کو ہمارے دلوں سے نکال باہر کرے، اللہ ہمیں اپنے جنود میں شامل فرمائے اور اپنے دشمنوں کو نشان عبرت بنانے میں ہمیں استعمال کرے۔ اے اللہ! اس امت کی ہر اسیر بیٹی اور بیٹے کو رہائی عطا فرما اور مجاہدین کی مددفرما کہ تیرے نبیﷺ کی کمزور و مظلوم امت کی وہ مدد کرسکیں،آمین یا رب العالمین!
وآخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین
[بشکریہ: ادارہ السحاب برِّ صغیر]
٭٭٭٭٭
1 «لَوْ أَنَّ رَجُلًا يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ مِنْ يَوْمِ وُلِدَ إِلَى أَنْ يَمُوتَ هَرَمًا فِي مَرْضَاةِ اللهِ لَحَقَّرَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» المعجم الكبير
2 اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا﴾
3 ’’قیدیوں کو چھڑاؤ!‘‘(صحیح بخاری)
4 ’’ لہٰذا ( اے پیغمبر) تم اللہ کے راستے میں قتال کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت۔ ‘‘ (سورة النساء: ۸۴)