وطنِ عزیز پاکستان کے وجود میں آنے کی بنیاد کلمۂ طیبہ تھی، یعنی کرۂ ارض پر ایک ایسے زمین کے ٹکڑے کا حصول جہاں مسلمان اللہ وحدہ لاشریک کے نازل کردہ شرعی نظام تلے زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے حصول کے لیے علمائے کرام اور مسلمان عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ ہمارے آباؤاجداد نے لاکھوں قربانیاں پیش کیں، راستے کے مصائب کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کا کٹنا اور ان سے جدائی تو گوارا کی لیکن مشرک ہندوؤں کے زیر تسلط کفر و شرک کے نظام تلے زندگی گزارنا گوارا نہ کیا……!
لاکھوں قربانیوں کا نذرانہ دیا گیا اور لاکھوں ماؤں بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئیں، نتیجتاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل و کرم فرمایا اور ہمیں ایک ایسے وطن سے نوازا جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے ، الغرض اس کے رہنے والے باسیوں پر اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا۔ مگر کیا ہم نے اس مالکِ دو جہاں کا شکر ادا کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نظام کو نافذ کیا…؟ جس مقصد کے لیے یہ ملک وجود میں آیا، جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں پیش کیں…؟
یقیناً بالکل نہیں…!
بدقسمتی سے ۷۶ سال بیت چکے مگر اسلام کے نام پر لیے گئے اس ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکا۔
دراصل پہلے دن سے ہی اس ملک پر سیکولر اور دین بیزار طبقہ مسلط ہو گیا۔ علمائے کرام اور اسلام سے والہانہ محبت کرنے والی عوام کو دھوکا دیا گیا اور اس ملک میں بھی انگریز کا بنایا ہوا جمہوری نظام ہی رائج کیا جو آج تک نافذ ہے…!
ملکِ خداداد میں جہاں بیش بہا معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، انسان کی بقا اور بنیادی ضرورت، پانی، جس پر کسی ملک کی زراعت کا انحصار ہوتا ہے اور زراعت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، خوش قسمتی سے وطنِ عزیز اس نعمت سے مالا مال ہے، مزید یہ کہ زرخیز زمین ہونے کے ناطے زراعت میں خودکفیل بھی۔
مگر توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ کیا آج ہمارا ملک ترقی کی طرف رواں ہے یا زوال کی طرف؟ یقیناً وطنِ من آج معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف بے روزگاری میں مستقل اضافہ نظر آتا ہے۔
ذیل میں دی گئی صورتحال یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان مستقل مہنگائی کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے مگر اس ظالم و جابر، عوام دشمن سرمایہ دارانہ جمہوری نظام سے خلاصی اور وطنِ عزیز کی فلاح سوائے شریعتِ اسلامی کے نفاذ کے اور کچھ نہیں۔
بجلی
بجلی کی بڑھتی ہوئی ہو ش ربا قیمتوں کی وجہ سے ہمارا ملک مستقل عوامی مظاہروں کا سامنا کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف روز بروز روپے کی قیمت میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سالِ گزشتہ کی بجلی کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ۲۰۲۲ء تا ۲۰۲۳ء میں بجلی ۲۴ روپے ۸۴ پیسے فی یونٹ تھی جبکہ نیپرا نے ۴ روپے ۹۶ پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا، جس کے ساتھ بجلی بڑھ کر ۲۹ روپے ۷۸ پیسے فی یونٹ ہو گئی۔ یاد رہے کہ اس قیمت میں ٹیکس شامل نہیں، جبکہ متفرق ٹیکس کے ساتھ بجلی تقریباً ۵۰ روپے فی یونٹ پڑ جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ قیمت پچھلے چند ماہ سے ڈبل ہے۔ بجلی کی اس ریکارڈ قیمت کی بنیادی تین وجوہات ہیں
- روپے کی قدر میں کمی
- بجلی کی فروخت میں گراوٹ
- ادائیگی کی صلاحیت کا نہ ہونا
مزید یہ کہ نیپرا نے بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کا بل وفاق میں بھیجا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ظلم بالائے ظلم یہ کہ ریڈیو کی فیس بھی ان بجلی کے بلوں میں شامل کر دی ہے جو کہ ۱۵ روپے ہے اور اس کے علاوہ ٹی وی لائسنس کی فیس بڑھا کر ۵۰ روپے کر دی گئی ہے۔
پیٹرول
تیل کی عالمی منڈیوں نے خام تیل کی فی بیرل قیمت ۸۸ ڈالر سے بڑھا کر ۹۳ ڈالر کر دی ہے، جس سے پاکستان اور دیگر ممالک کو دھچکا لگا۔ فی بیرل ۵ ڈالر اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی قیمت میں بھی کمی آئی۔ آئے روز پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے لوگ پریشان اور دلبرداشتہ نظر آتے ہیں۔ ذیل میں گزشتہ چند سالوں کا مختصر خاکہ پیش ہے۔
۲۰۲۰ء میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت ۱۱۹ روپے تھی، ۲۰۲۱ء میں ۱۲۳ روپے جبکہ ۲۰۲۲ء میں ۱۵۹ روپے ہوئی۔ ستمبر ۲۰۲۳ء تک پیٹرول کی قیمت ۲۶۲ روپے تک پہنچ چکی تھی۔ ستم حکومت کی طرف سے اس میں ۴۳ روپے کا مزید اضافہ کیا گیا جس کے بعد پیٹرول کی قیمت بڑھ کر ۳۰۵ روپے فی لیٹر ہو گئی۔ جبکہ نصف ستمبر تک اس میں ۲۶ روپے کا مزید اضافہ کیا گیا اور یہ قیمت بڑھ کر ۳۳۱ روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بہت سی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور مزید بند ہونے کو ہیں۔
اشیائے خوردو نوش
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان پچھلے کئی سالوں سے گندم برآمد کرنے کی بجائے درآمد کر رہا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد گندم کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بیس کلو کے تھیلے پر ۱۰۰ روپے کا اضافہ ہوا ہے، اس طرح پاکستان میں ایک کلو آٹا تقریباً ۱۵۰ سے ۱۶۰ روپے ہو چکا ہے، جبکہ پہلے ۱۰۷ روپے فی کلو تھا۔
پاکستان میں گیس کی سپلائی بھی اچھی نہیں۔ غیر اعلانیہ بندش یا پریشر میں کمی معمول کی بات ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اگر تندور سے روٹی خریدیں تو ایک روٹی ۲۵ روپے سے ۳۰ روپے کی ہے۔ پاکستان میں گندم کے بحران اور اس کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ آمدورفت کے مسائل، ذخیرہ اندوزی اور حکومت کا آٹے کی ملوں کو گندم بروقت سپلائی نہ کرنا ہے، جبکہ وزراء مسئلے کو حل کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح چینی رواں ماہ کے شروع میں ۱۰۰ روپے فی کلو تھی، جو ستمبر کے اواخر میں ۲۰۰ روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ مہنگی چینی فروخت ہونے کی ایک وجہ مافیا کا چینی کی ذخیرہ اندوزی کرنا اس کے علاوہ اسی سال دو لاکھ پچاس ہزار ٹن چینی برآمد کرنا ہے۔
قرضے بمع سود
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۲۳ء میں حکومت کی جانب سے لیے گئے مجموعی قرض ۶۰۸ کھرب ۳۹ ارب روپے ہے، جس میں مقامی قرض ۳۸۸ کھرب ۸ ارب روپے جبکہ بیرونی قرض۲۲۰ کھرب ۳ ارب روپے ہے۔ یاد رہے کہ اس سال بیرونی سرمایہ کاری میں ۷۷ فیصد کمی آئی۔
اسی طرح مالی سال ۲۰۲۲ء میں ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات میں ۱۱۸کھرب ۵۰ ارب کا اضافہ ہوا تھا۔ مالی سال ۲۰۲۱ء میں مجموعی قرض اور واجبات ۴۵۶ کھرب ۷۰ ارب روپے تھے جبکہ مالی سال ۲۰۲۳ء میں یہ بڑھ کر ۵۵۴ کھرب ۸۰ ارب روپے ہوگئے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے ۷ ارب کے لگ بھگ قرضے مانگ رکھے ہیں۔ جس کے جواب میں ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے ملک پر مزید پابندیاں عائد ہونگی، مزید ٹیکس لاگو کیے جائیں گے اور قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہو گا جو کہ اس ملک کی بقا کے لیے مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو مالی سال ۲۰۲۲ء میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے طور پر ۱۵ ارب ۷ کروڑ ۱۰ لاکھ روپے ادا کرنے پڑے، جو کہ گزشتہ مالی سال میں ۱۳ ارب ۴۲ کروڑ ۴۰ لاکھ ڈالر تھے۔ اس کی تقسیم سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے ۱۲ ارب ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ ڈالر بطور اصلی قرض جبکہ ۲ ارب ۹۷ کروڑ ۸۰ لاکھ ڈالر بطورِ سود ادا کیا۔ سود اصلی رقم کا ۲۵ فیصد تھا۔ ایک طرف ملک کی خستہ حالت ہے اور دوسری طرف بے چارے عوام کو نچوڑ کر جو پیسے حاصل ہوتے ہیں وہ بھی اکثر سود کی نظر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی تباہی اور بربادی کی بڑی وجہ یہی سود ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ہر ہر بات پر کامل یقین ہے۔ قرآن کریم میں ارشادہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ: ۲۷۸، ۲۷۹)
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اگر تم واقعی مؤمن ہو تو سود کا جو حصہ بھی کسی کے ذمے باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔ پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو، اور اگر تم سود سے توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ، تمہارا حق ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
ہمارے ملک کے سابقہ صدر صاحب علمائے کرام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ سود کے بغیر کوئی چارہ نہیں، سود کے حوالے سے کوئی گنجائش نکالیں۔
اس سے ہمارے دین بیزار حکمرانوں کی دینی و اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگا لیں۔ ہمارے ملک میں بد امنی اور خاص طور سے فحاشی و عریانی اور جنسی زیادتیوں کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہو یا سندھ کی کوئی یونیورسٹی، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ یعنی جنہوں نے ملک کی نوجوان نسل کی تربیت اور رہنمائی کرنی تھی، وہی ڈاکو اور رہزن نکلے، یعنی اب استادوں سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ایک بہت بڑا منظم مافیا ہے جو پورے ملک میں فحاشی و عریانی کا دھندہ سنبھالے ہوئے ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج ملک کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ قانون اور عدل نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور ہر شعبے میں جنگل کا قانون ہے۔
دین بیزار،ہوس کے پجاری اور لالچی حکمرانوں نے ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو جتنے بھی سیاستدان آج تک میسر آئے وہ دین سے کیا مخلص ہوتے وطن سے بھی بے وفا اور دغاباز نکلے۔ صرف اپنے بینک بیلنس اور مراعات کی فکر میں غرق رہے۔ اپنے غیر دانشمندانہ اور غلط اقدامات سے پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں لا پھنسایا کہ جس سے نکلنا اب ان میں سے کسی کے بس میں نہیں۔
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دینے والے جاہل، نااہل، بوٹ مار فوجی افسر نے ایک کریہہ کاروبار کی شروعات کی، جس کو بیان کرتے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان کے ہر باضمیر فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، اور وہ تھا اپنے ہی پڑوسی اسلامی ملک کے خلاف کفار کو اپنے اڈے فراہم کرنا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو کفار کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض بیچ ڈالنا۔ اور پھر فخر سے بتانا کہ اس کے عوض ڈالر لیے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
۲۲ سال قبل پاکستان آج کے پاکستان سے کہیں بہتر ، خوشحال اور کسی حد تک خودمختار بھی تھا۔ جبکہ ہمارے پڑوس میں ہمارے ہی بھائیوں پر آگ اور بارود کی بارش تھی۔ ایک ایسا سلسلہ جو پورے بیس سال تک جاری رہا۔ ہمارے افغان بھائیوں پر ایک تباہی تھی، بربادی تھی۔ مگر ایک مشہور مقولہ ہے کہ اللہ کے کام میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ آج ۲۳ سال بعد کا منظر نامہ بالکل مختلف ہے۔ امریکہ کے اتحادی پاکستان (فوج اور حکومتی ادارے) کا حال اور درگت ان کے آقا امریکہ سمیت پوری دنیا کے سامنے ہے۔ سپر پاور امریکہ (جو معاشی و اقتصادی طور پر کمزوری کا شکار ہے) پوری دنیا سے اپنے پاؤں سمیٹتا، اپنے آپ کو بجاتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر بات کریں اپنے پاکستان کے اقتصاد کی تو بھلا وہ کون سی ڈھکی چھپی ہے۔ صاف عیاں ہے کہ اللہ کا عذاب ہے جس میں پوری پاکستانی قوم گھر چکی ہے۔ وہ فصل جو نالائق فوجی حکمرانوں نے بوئی تھی، آج کٹنے کو تیار ہے ، اور اس کا خمیازہ غریب پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
زیادہ دور نہیں ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ جب پاکستان کے دین بیزار اور بوٹ مار طبقے نے اپنے بحر و بر اپنے آقا امریکہ کے لیے مسخر کر دیے کہ جس طرح وہ چاہیں افغان بھائیوں کو چیریں پھاڑیں، مسلمان بہنوں کی عزتوں سے کھیلیں، مکانات اور چلتے کاروبار کو تباہ و برباد کردیں، صرف اس لیے کہ افغانستان میں کچھ اللہ کے دین کے انصار اسلام کا اصلی چہرہ نمایاں کر رہے تھے اور وہاں شریعت محمدی ﷺ کی برکات کا ظہور ہو رہا تھا۔ یقیناً کفر کو یہ بات نہ بھائی، مگر پاکستان کے حکمران خود کفر کے فرنٹ لائن اتحادی قرار پائے۔ تو بس پھر وہی ہونا تھا جو ازل سے ہوتا آرہا ہے، یعنی حق و باطل کی جنگ میں، بار ہا باطل ہی کی ہوا اکھڑتی ہے۔ اور پاکستان چونکہ امریکہ کا اتحادی تھا تو یہ ذلت و رسوائی( دنیاوی و اخروی) پاکستان کے مقدر میں نظر آرہی ہے۔ اگر ہم نے بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ نہ کی اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو شریعت کے تابع نہ کیا اور اسلام کے اس قلعہ کو شریعت محمدی ﷺ سے مزین اور مضبوط نہ کیا تو ہم خود اس قلعہ کو ڈھانے والے ہوں گے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کو اللہ تعالیٰ نے کفر کے مقابلے میں شریعت و جہاد پر ڈٹے رہنے کے نتیجے میں جس طرح بیس سالہ جنگ اور پھر مذاکرات میں فتح مبین سے نوازا، وہیں آج پوری دنیا شاہد ہے کہ قلیل وقت میں معاشی و اقتصادی میدان میں بھی فتح ان ہی کی منتظر ہے ان شاءاللہ۔
یہ شریعت ہی کی برکات ہیں کہ افغانستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ یقیناً یہ اللہ ہی کی طرف سے نصرت ہے کہ اللہ رب العزت نے طالبان کو اقتصادی میدان میں بھی سرخرو فرمایا۔ طالبان نے کسی (آئی ایم ایف وغیرہ) کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے، بلکہ محض اللہ کی ذات پر توکل کے بعد اپنے ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے کام کا آغاز کر دیا۔ اور اب دوسال بعد اسلامی امارت آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
امارت اسلامیہ کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ چیدہ چیدہ اقدامات درج ذیل ہیں:
- خالص اسلامی شرعی بنیادوں پر ملک کے تمام شعبہ جات کو ڈھالنے کی کوشش کی گئی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر محض اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی۔
- امن و امان کی صورتحال بہتر کی گئی۔
- عدل و انصاف قائم کر کے دکھایا اور سستا اور فوری انصاف فراہم کیا گیا۔
- معاملات میں شفافیت ، مقتدر اشرافیہ، کرپٹ ، غلام ذہنیت اور ظالم افراد کا خاتمہ کیا اور عوام کی امیدوں پر پورا اترے۔
- اشیائے خورد و نوش اور دیگر مصنوعات کی طے شدہ قیمتوں کو یقینی بنایا۔ بلیک مافیا، ذخیرہ اندوزوں کا مارکیٹ پر اثر و رسوخ بہت حد تک کم کر دیا۔
- ترقیاتی کام مثلاً صنعتیں، ڈیم، پکی سڑکیں، پل وغیرہ درجنوں کی تعداد میں نئے اسکولوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔
- معدنیات اور دیگر ملکی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ملکی سطح پر بہت ساری چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ مثلاً قالین، ادویات، زرعی آلات، گھی، اور مشروبات وغیرہ۔ اس کے علاوہ تیل نکالنے کے حوالے سے کام تیزی سے شروع ہے۔
- کان کنی کے معاہدوں کے ذریعے سے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا گیاہے۔
شریعت محمدیہ ﷺ پر عمل، جامع حکمت عملی، عزمِ مصمم، سستا و فوری انصاف، جبکہ عوام کو ساتھ ملا کر چلنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ:
- آج افغان کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم، جبکہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ مثلاً پاکستان اور انڈیا۔ افغان کرنسی پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں چار گنا بڑھی ہے۔
- افغانستان میں مجموعی طور پر گزشتہ سال کے مقابلے میں بارہ فیصد مہنگائی میں کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں افغانوں نے ۲۰ سال بعد سکھ کا سانس لیا ہے۔
- افغانستان جیسا ملک آج الحمدللہ ۲ ارب سے زیادہ کی برآمدات کر رہا ہے جو طالبان قیادت کے فہم و فراست پر دلیل ہے۔
ان تمام معاملات سے یہ بات عیاں ہے کہ اگر شرعی بنیادوں پر، اخلاص، دیانتداری، فہم و فراست اور جامع حکمت عملی سے کوئی کوشش کی جائے، بھلے افراد و وسائل کتنے قلیل ہی کیوں نہ ہوں اور پوری دنیا آپ کے مد مقابل کھڑی ہو، اللہ کی مدد و نصرت اور کامیابی ضرور اس ملک کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ آج امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان کے لیے (جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا) ایک سوالیہ نشان ہے، جسے بنے ہوئے ۷۶ سال بیت چکے، مگر آج تک شرعی نظام نافذ نہ ہو سکا۔ امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان کے لیے نشانِ راہ اور فلاح و کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔
اس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ہم بھی کسی کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے علمائے کرام اور صالح دین دار لوگوں کی قیادت میں شریعت محمدی ﷺ کو اس ملک میں نافذ کرنے کی سعی کریں۔
اگر شریعت پر عمل نہ ہو، ذہن کفار کے غلام ہوں، علمائے کرام اور دیندار صالح قیادت کی بجائے بدمعاش اور نااہل افراد کے ہاتھ ملک کی ضمامِ کار آئے تو پھر آپ کتنے ہی (پی ایچ ڈی) اور تجربہ کار مشیروں کو فوج در فوج بٹھالیں مگر اس ملک کا مقدر تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔ محب وطن اہل پاکستان کو چاہیے کہ وہ علمائے کرام اور دیندار صالح قیادت کا ساتھ دیں تاکہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے، اس وطن عزیز میں اسلامی نظام نافذ کیا جا سکے۔
٭٭٭٭٭