قوم اپنے غم غلط کرنے کو موبائل کی اسکرینوں پر آتے مناظر سے دل بہلاتی ہے۔ حقیقت کی دنیا میں بھی بہت سے مناظر، ملک و قوم، اور عالمی سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جرائم کے مناظر جابجا کیمرے کی آنکھ محفوظ کر لیتی ہے اور پھر وہ وائرل ہو جاتے ہیں۔ انسان شکر ادا کرتا ہے کہ میں محفوظ ہوں!
یہ منظر دیکھیے:ایک سنسان سڑک پر عورت جا رہی ہے۔ اچانک موٹر سائیکل سے ایک ڈاکو وارد ہوتا ہے۔ دوسرا قریب سے نمودار ہوتا ہے۔ عورت کو ایک نے مضبوطی سے پکڑا، منہ پر ہاتھ رکھا، دوسرے نے فوری اسے طلائی زیورات سے محروم کیا۔ نقدی، موبائل چھینا۔ لات مار کر زمین پر گرایا اور موٹر سائیکل پر سوار یہ جا وہ جا!
یہ منظر دیکھ کر ہمیں آئی ایم ایف کا طریقِ واردات تازہ ہو گیا۔ بے یار و مددگار عوام سنسان کر دی گئی شاہراہ پر تپتی دوپہر میں بے آسرا چل رہے ہیں۔ حکومت کی مدد سے اچانک حملہ آور ہو کر جمع پونجی سے محروم کر کے لات مار کر زمین پر گرا چھوڑ کر بے رحمی سے اموال سمیٹ کر نکل جانا۔ منہ پر ہاتھ رکھ دینا کہ آواز بھی نہ نکالے۔ عوام کی جیب حکومت اور آئی ایم ایف نے مل کر خالی کر دی، پھاڑ ڈالی۔ مراعات یافتہ جج، جرنیل، افسر شاہی جیسے طبقات پر نوازشات اس لوٹ کے مال کی بندر بانٹ سے مزید بڑھا دی گئ ہیں۔ عوام چاروں شانے چت بجلی، پیٹرول، اشیائے ضروریہ کی لات کھا کر زمین پر ادھ موئے پڑے ہیں۔ نگران وزیر اعظم عوام کو بہلانے، لارے لپے لگانے کو ہماری جیبوں سے ٹھنڈے ٹھار کیے گئے شاندار ماحول میں میٹنگیں کرتے، لنچ ڈنر (بھی ہمارے ٹیکسوں سے) اڑاتے ہیں۔ نکل کر ہمیں ہری جھنڈی دکھا دیتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے آگے اُف نہیں کر سکتے۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت، نگران عبوری ہو یا نام نہاد جمہوری یا آئی ایم ایف کے مقامی سہولت کار، شراکت کار لٹیرے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی گماشتے ہیں۔ ان کا نام اشرف غنی ہو، پرویز اشرف، کاکڑ یا کچھ اور۔ ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتے ہیں۔
آئی ایم ایف کو ان سبھی کے (حکمرانی میں شریک جج، جرنیلوں سمیت) اربوں کے اکاؤنٹ، اللے تللے، عیاشیاں، مراعات دکھائی نہیں دیتے۔ عوام کو سستی دال کھاتے دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں اور اس پر ٹیکس عائد کرواتے ہیں۔ یہ ریموٹ کنٹرول غلامی خوفناک تر ہے جو ہمارے جمعہ بازاروں کے ریٹ طے کرتی ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم سے لے کر فیشن شوز تک کنٹرول کرتی ہے۔ کس کی بولتی کب بند کی جائے گی۔ آواز کا بٹن بھی برطانیہ، امریکہ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ الطاف حسین کی کڑک چمک گرج برس چکی اور پھر یکایک سانپ سونگھ گیا! عوام کٹھ پتلی تماشا دیکھنے پر مامور ہیں۔ دل بہلانے، ولولے بھگارنے کو کرکٹ ٹیموں سے کام لیا جاتا ہے۔ بھارت یہاں بھلے ہار جائے۔ جوان کہیں میدانِ کرکٹ چھوڑ کر میدانِ جہاد کا رخ نہ اختیار کر لیں۔
استعماری تسلط دنیا بھر میں آج بھی ’آن لائن‘ چل رہا ہے جسے ہم بھگت رہے ہیں۔ مغربی افریقہ میں پے درپے بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے پس پردہ بھی عالمی طاقتوں کا وہاں وسائل کا استحصال اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ساتھ مل کر عوام کو بدترین معاشی کسمپرسی میں دکھیلتے چلے جانا ہے۔ مالی، برکینا فاسو اور گنی کے بعد نائیجر اور اب گیبون میں تختے الٹے گئے۔ (نائیجر میں مسلم آبادی 95.51%، اور مالی میں 95%ہے۔ برکینا فاسو میں 63.8% اور گنی میں 46% ہے۔) نائیجر کے یورینیم اور معدنی وسائل فرانس نائیجر کی حکومتوں سے مل کر لوٹتا رہا ہے۔ گھر فرانس کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی، کہہ کر عوام بپھر اٹھے۔ کیونکہ نائیجر کی آبادی دنیا میں دبلے پتلے، کمزور اور غریب ترین ہونے میں سر فہرست ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں شاید دوسرے نمبر پر لا کھڑا کرنے پر کمر بستہ ہے!
ملکی مناظر جہاں ایک طرف بلوں کی چیخ و پکار اور ہڑتالوں کے ہیں، وہاں نگران وزیر اطلاعات پنجاب کی طرف سے تھیٹروں میں فحش رقص و سرود کا سخت نوٹس لینے کی خبر بھی ہے۔ روشن خیالوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ورنہ اب تو عرصہ دراز سے پاکستان میں کوئی چیز بھی بے حیائی، فحاشی کے زمرے میں نہیں آتی۔ فنکارائیں، آرٹسٹ، سلیبرٹیاں ہوتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ جو دین ایمان حیا کو لطیفہ بنا کر تمسخر و استہزا کرنے کا فن ہو چکا۔ چھاپا پڑا تو ۱۰ رقص کی محافل کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کیا گیا۔ جب تک تھیٹر یہ عہد نامہ نہ دیں کہ وہ پاکستانی اقدار اور ثقافت و اخلاقیات کو ترویج دیں گے۔ حالانکہ جب سرکاری سطح پر آزادیٔ کشمیر پر فلمیں اور رقص تیار کر کے قوم کی نذر کیے جاتے ہیں، کرکٹ کی فتوحات قدر اور ثقافت بن گئیں، اس میں چیئر گرلز ناچتی، اٹھلاتی، ماڈل گرلز مٹکتی اسکرینوں پر دکھائی جاتی رہیں تو یہی سب ذرا زیادہ کھل کر تھیٹر میں ہونے لگا۔ سیکولر طبقے نے ناراضی برسائی۔ اسے عوام کی آزادیٔ اظہار پر قدغن قرار دیا جو گورے کے بنائے ڈراما ایکٹ (۱۸۷۶ء) کے تحت ہوا۔ اندازہ کیجیے، آج پاکستانی آزاد قوم ۱۸۷۶ء کے گورے حکمرانوں سے زیادہ روشن خیال ہو چکی۔ آزادی رقاصہ کی آزادیٔ اظہار تک جا پہنچی۔ جسٹس (ریٹائرڈ) بھنڈر نے اسی سلسلے میں سخت مذمتی نوعیت کا فیصلہ ۲۰۰۸ء میں صادر کیا تھا کہ:
’’یہ نہایت افسوس ناک ہے کہ اس نوعیت کی سستی تفریح ایک اسلامی ملک میں فراہم کی جائے جہاں لاکھوں دین پسند لوگوں کے جذبات و احساسات مجروح ہوں۔ اسٹیج ڈراما صرف غیر مہذب، غیر شائستہ، اخلاق سے عاری لوگوں کو خوش کرتا ہے۔ پختہ سیرت و کردار کا باعزت انسان یوں بیہودگی، بے حیائی، فحاشی کی نمائش اور ترویج پسند نہیں کر سکتا۔‘‘
یہ فیصلہ حق گوئی میں روشن خیالوں کے زخموں پر آج بھی نمک چھڑکتا ہے۔
ایک امید کی کرن نظر آتی ہے، سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تیل گیس کے وافر وسائل موجود ہیں۔ حصول اور پیداوار کے مراحل سے گزرنے کے لیے یہ توجہ، محنت، امانت و دیانت طلب ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت پیدا نہیں کرتا! ہمارے پاس قبل از آزادی دور کے ہنر مند و درد مند موجود تھے، جنہوں نے ایٹم بم کا معجزہ کر دکھایا تھا۔ اس پر پھر انہیں قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ اگلی نسل کو سبق مل گیا۔ خبردار! آئندہ ایسی جرأت نہ کرنا۔ کھیلو، کودو، ناچو گاؤ، عشق عاشقی کر لو، ملک گورے کی بھیک پر پلے گا۔ سو اب رونا کیسا؟ ہم آئینہ دکھائیں گے تو شکایت بھی ہو گی اور چبھن بھی۔ افغانستان نے خود کفالت کے لیے محیر العقول کارنامہ کر دکھایا ہے۔آمو دریا سے نہر نکالی ہے جو صحرا میں ایشیا کی طویل ترین نہر ہوگی۔ ساری دنیا سے جنگوں میں نبردآزما ہوتے ملک نے محدود ترین وسائل میں کسی سے ایک پائی قرض، امداد، تکنیکی مدد، ماہرین، مشیر لیے بغیر (امانت و دیانت کے بل پر) یہ کام کر دکھایا ہے۔ (۲۸۵ کلومیٹر طویل، ۱۵۲ میٹر چوڑائی ، ۸۔۵ میٹر گہرائی) پچھلی تمام حکومتوں نے افغانستان کی اس دیرینہ ضرورت کو نظر انداز کیے رکھا۔ (ہمارے کالا باغ ڈیم کی مانند) اب پوری دنیا جس حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں، ان پڑھ گردانتی، تحقیر و تمسخر کی نوک پر لیے رہتی ہے، اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر انگلیاں چبا رہی ہے۔
شاندار زبردست تفاصیل کا یہ محل نہیں مگر یہ معجزے سے کم نہیں کہ کس تکنیکی مہارت (افغان انجینئر، افغان کنٹریکٹر، ماہرین تعمیرات و ارضیات) سے پورا پراجیکٹ بھرپور کامیابی اور ولولے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کام کرنے والے حکومتی کارکردگی، پشت پناہی، بروقت اور معقول ادائیگی کی بھرپور تعریف کرتے ہیں۔ مدرسۂ رسالت سے تعلیم یافتگان(بغیر اعلیٰ مغربی یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کے) ملک اور عوام کی ترقی و خوشحالی میں دن رات جتے ہوئے ہیں۔ معیشت (سود سے پاک)، ورلڈ بینک کے مطابق مستحکم ہے۔ ڈالر کمزور افغانی مضبوط ہے۔ مہنگائی کی شرح قابو میں ہے۔ اشیائے ضروریہ کے کارخانے خاموشی سے لگ رہے ہیں۔ بڑھک بازی نہیں ہے۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز کا منظر ہے۔ ہمارے ہاں نہ محمود نمازی ہے نہ ایاز۔ دونوں کرپشن کی صف میں کھڑے ہیں۔اس سے بے برکتی تو ہو گی۔ سبق سیکھنے کو بہت کچھ ہے!
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں!
٭٭٭٭٭