نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | تیسویں نشست

معین الدین شامی by معین الدین شامی
14 جولائی 2025
in صحبتِ با اہلِ دِل!, جولائی 2025
0

عفان غنی شہید رحمۃ اللہ علیہ[۱]

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

قارئین کی محبت و مستقل اصرار، موصول ہونے والے خطوط، تبصروں اور میسجز نے مجبور کیا کہ اس سلسلۂ مع الأستاذ فاروق کو جاری و ساری رکھا جائے۔ اللہ پاک سے خیر کا سوال ہے اور دعا ہے کہ وہ ہماری نیتوں کو خالص فرمائے اور شر و امورِ شر کو ہم سے دور فرما دے، آمین!

پچھلی محفلِ استاذ میں وعدہ کیا تھا کہ آئندہ محفل میں ریحان بھائی کا ذکر کروں گا۔ جس طریقے سے سلسلۂ مع الأستاذ کو چلایا ہے تو اسی اسلوب سے ریحان بھائی کا ذکر بھی کر دیتا ہوں، یعنی واقعاتی ترتیب سے، لیکن نہایت مختصر۔

محفلِ استاذ کی شروع شروع کی نشستوں میں کہیں لکھا تھا کہ فاروق بھائی سے تیسری ملاقات جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے ایک نواحی گاؤں میں ہوئی تھی۔ اس گاؤں کا نام ’مانا‘ تھا، مانا پشتو زبان میں سیب کو کہتے ہیں۔ فاروق بھائی جب ہمارے مرکز میں آئے تو ان کے ساتھ ایک اور نوجوان ساتھی بھی تھے۔ یہ ساتھی ریحان بھائی تھے۔ پہلی ملاقات تھی، کچھ تکلف تھا اور اس ملاقات میں غم کی ایسی خبر ملی تھی کہ ’تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے‘ کہ مثل باقی دنیا سب بھولی ہوئی تھی۔ یہ خبر محمد خالد (ابنِ خالد خواجہ صاحب) کی شہادت کی خبر تھی۔ بچپن کے ایک دوست و واقف کار، ہم مکتب (school fellow) کی شہادت کی خبر، ایسی خبر جس کا ذکر اب پندرہ سولہ سال بِیت جانے کے بعد بھی ہر دفعہ یاد کرنے پر ایسے تازہ ہو جاتا ہے جیسے ابھی ہی کا واقعہ ہو۔ لہٰذا ریحان بھائی سے علیک سلیک سے بڑھ کر کوئی بات نہ ہوئی۔ بعد میں ساتھیوں سے ہم نے ریحان بھائی کا ذکرِ خیر کئی بار سنا لیکن شاید اگلے سات آٹھ ماہ ریحان بھائی سے مزید ملاقات کی نوبت نہ آئی۔

ہم اواخرِ اکتوبر یا اوائلِ نومبر ۲۰۱۰ء میں شمالی وزیرستان کے علاقے لواڑہ سے وانا کی طرف عازمِ سفر ہوئے، براستہ دتہ خیل و شوال۔ شوال سے انگور اڈہ پہنچے، اس واقعے کا ذکر پہلے کسی محفلِ استاذ میں گزر چکا ہے۔ انگور اڈہ سے وانا کی طرف ایک کچا راستہ جاتا ہے، جو منڈاؤ کے علاقے سے گزرتا ہے۔ منڈاؤ بڑا ہی سخت پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں کی کچی سڑک انتہائی کھڑی چڑھائی ہے، اور ہمارے معاملے میں سخت ڈھلان کہ ہم اونچائی سے نیچائی کی طرف اتر رہے تھے۔ ہم ڈالے میں سوار تھے یعنی ٹویوٹا ہائیلکس نوے کی دہائی کا شروع شروع کا کوئی ماڈل اور ریحان بھائی اس کو چلا رہے تھے۔ یہ ریحان بھائی سے میری دوسری ملاقات تھی۔عام سڑک پر ریحان بھائی کیسی گاڑی چلاتے تھے اس کا تو معلوم نہیں، لیکن منڈاؤ کی پہاڑیوں پر جیسے انہوں نے گاڑی چلائی وہ واقعی مہارت یا ضرورت سے زیادہ شجاعت کی متقاضی تھی اور وقت بھی رات کا تھا۔

وانا میں ہمارا نیا مرکز شین ورسک کے علاقے میں تھا، فاروق بھائی کی ذاتی رہائش بھی اسی احاطے میں تھی اور اس کا ذکر بھی سابقاً گزر چکا ہے۔ اس مرکز کا نام ساتھیوں نے حنین مرکز رکھا تھا۔ یہاں گاہے ریحان بھائی سے تھوڑی تھوڑی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر ہم اعظم ورسک چلے گئے، وہاں مرکز میں، میں اکیلا ہوتا تھا تو ریحان بھائی اکثر رات میں وہاں آ جایا کرتے تھے۔ ادیب تو میں نہیں تھا، لیکن اردو زبان سے لگاؤ بچپن سے تھا اور مادری زبانی بھی اردو ہے، اگرچہ پدری زبان نہیں ہے تو اسی ذوق کو دیکھ کر ریحان بھائی اعظم ورسک مرکز میں شروع شروع کی ملاقاتوں میں ہی میرے لیے اردو کی مشہور لغت ’فیروز اللغات‘ کا نسخہ خرید کر بطورِ تحفہ لائے۔ یہ اوائل ۲۰۱۱ء کی بات ہے، شاید جنوری یا فروری کی۔ یہیں ریحان بھائی سے تعلق دوستی والا ہو گیا۔

ریحان بھائی کا اصل نام عفان غنی تھا۔ ان کے والد کا نام عثمان غنی تھا جو ایک اعلیٰ گریڈ کے سرکاری افسر تھے۔ ریحان بھائی کے سگے چچا پاکستان کے مشہور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ شخصیت ہیں جن کا نام سلمان غنی ہے۔ اسی طرح ان کے ایک اور رشتے کے چچا سجا د میر ہیں، وہ بھی مشہور صحافی ہیں۔ ریحان بھائی کی پھوپھیاں عاصمہ غنی اور عافیہ غنی ایک سیاسی مذہبی جماعت سے وابستہ تحریکی خواتین ہیں اور ان کی سگی خالہ عامرہ احسان صاحبہ ہیں جو فاروق بھائی رحمہ اللہ کی والدہ ہیں اور ہمارے قارئین کے لیے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں، ایک داعیہ و بلند پایہ مربیہ خاتون ہیں۔ ریحان بھائی کی پیدائش ۱۹۸۸ء کی تھی، ابتداءً ریحان بھائی راولپنڈی میں رہے اور لڑکپن و جوانی ان کی لاہور میں گزری۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کی رہائش تھی۔ یو ای ٹی (University of Engineering and Technology) لاہور سے انہوں نے مکینیکل انجنیئرنگ میں بیچلرز کیا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں ان کو فاروق بھائی کے سب سے چھوٹے بھائی جو ریحان بھائی سے دو سال چھوٹے تھے، جن کا نام راجہ محمد حمزہ تھا اور ہم انہیں حمزہ راجہ کے نام سے جانتے و پکارتے تھے نے دعوتِ جہاد دی تھی۔

حمزہ راجہ بھی راقم کے ہم مکتب تھے، حافظِ قرآن تھے اور سکول میں اپنی غیرت و حمیتِ ایمانی کے لیے معروف تھے۔ انہوں نے سکول میں اپنے بہت سے ہم صنفوں (class fellows) کو جہاد کی دعوت دی۔ دراصل انہی کے ایک ہم صنف طارق خان بھٹنی بھائی تھے، جن کو حمزہ راجہ بھائی نے جہاد کی دعوت دی۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں قائم الفوز اکیڈمی زیرِ سرپرستی محمد خان منہاس صاحب میں، جب ڈاکٹر ارشد وحید رحمۃ اللہ علیہ کا ایک درسِ قرآن ’جہاد کی فرضیت‘ رکھوایا گیا تو ان طارق خان بھٹنی بھائی کو حمزہ راجہ بھائی ہی اس درس میں شرکت کے لیے لے گئے۔ طارق خان بھائی اس درس سے بہت متاثر ہوئے ۔ راقم الحروف کو بھی جہاد کی دعوت دینے والے طارق خان بھٹنی بھائی ہی ہیں، جنہوں نے بعداً ۲۰۰۸ء کے نصفِ آخر میں مجھے صائم الدہر بھائی (حفظہ اللہ)سے ملوایا۔ طارق بھائی میرے استاد بھی تھے اور میرے محسن بھی، ہم گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر کاغذ پر افغانستان میں موجود امریکی فوج اور ان کے گرد حفاظتی حصار بنائے افغان ملی فوج کے کیمپوں کے نقشے بناتے اور ان کیمپوں پر حملے کرنے کے طریقے سوچا کرتے، اسلامی انقلاب اور جہاد و شہادت کا ذکر کیا کرتے، لیکن للأسف، اعلیٰ تعلیم اور حسین کیرئیر کے خواب انہیں ۲۰۰۹ء میں کینیڈا لے گئے اور پھر وہ اس ’نئی دنیا‘ میں جا کر بس جانے والوں میں سے ہو گئے، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون! حمزہ راجہ بھائی بعداً ۲۰۰۸ء کے نصفِ اول میں انگور اڈہ میں مجاہدین کےایک مرکز میں امریکی ڈرون حملے میں شہید ہو گئے اور اسی بمباری میں ان کے ساتھ کراچی کے عبد السلام (تنویر) بھائی بھی شہید ہوئے۔ حمزہ بھائی کا لاشہ ہوا میں بکھر گیا اور ان کو وہ موت حاصل ہوئی جس کی تمنا ہر گھر سے نکلنے والا مجاہد کرتا ہے، اے کاش کے یہی شہادت ہمیں بھی اپنی آغوش میں لے لے۔

ریحان بھائی نے مجھے بتایا کہ حمزہ نے جب مجھے جہاد کی دعوت دی تو میں سب سے زیادہ جس چیز سے متاثر ہوا وہ حمزہ بھائی کا فرضیتِ جہاد کے لیے بار بار قرآن کی آیات بطورِ دعوت و دلیل پیش کرنا تھا۔ اس وقت ریحان بھائی پر دنیا داری کا غلبہ تھا۔ لیکن حمزہ بھائی کی دعوت نے ان کا دل اللہ سے جوڑ دیا اور بس چند نشستوں کے بعد وہ عفان سے ریحان ہو گئے۔ اوائل ۲۰۰۸ء میں ریحان بھائی نے ہجرت کی اور مارچ ۲۰۰۸ء میں انہوں نے وانا کے اسی اولاً مذکور مضافاتی علاقے مانا میں دورۂ تاسیسیہ یا بنیادی تدریب (basic training) کی، ان کے شرکائے دورہ میں شہید عبد الاحد بھائی اور شہید ہشام گل بھائی بھی تھے، کئی اور ساتھی بھی تھے جن میں چند ابھی حیات ہیں۔

تدریب کے بعد سال یا کچھ زیادہ یا کم کا عرصہ ریحان بھائی نے مختلف جہادی تشکیلات میں گزارا، پھر ۲۰۰۹ء میں اپنے گھر گئے، ۲۰۱۰ء میں پھر آئے اور تا دمِ شہادت میدان ہی میں رہے۔

ریحان بھائی کے گھرانے کا صحافتی پس منظر، ریحان بھائی کا سیاسی امور پر تبادلۂ خیال اور ان کی غم گساری و دوستی یاری کی صفت نے مجھے ان کا اور ان کو میرا دوست بنا دیا۔پھر معلوم ہوا کہ ریحان بھائی اور راقم ہم قوم بھی ہیں اور ان کے آباء اپنے علاقوں میں نمبر دار رہے تھے اس لیے چودھری کہلاتے تھے ۔ ریحان بھائی مزاجاً و طبعاً قائد آدمی بھی تھے، شمعِ محفل بھی، جانِ محفل بھی اور اپنا قومی تعارف بیان بھی کیا کرتے تھے۔ ریحان بھائی کا تعلق پنجاب کی مشہورقوم آرائیں سے تھا۔ ان کا پورا نام چودھری عفان غنی تھا۔

۲۰۱۱ء کے وسط میں ریحان بھائی کو شمالی وزیرستان کے علاقے سپین قمر میں امیرِ تشکیل بنا کر بھیجا گیا۔ ریحان بھائی نے اس ’خط‘ پر رہتے ہوئے امریکی فرنٹ لائن اتحادی فوج کے خلاف دسیوں کارروائیوں میں بطورِ قائد حصہ لیا اور کئی کارروائیوں میں ساتھیوں کی تشکیلات کیں۔ بعض کارروائیاں تو شجاعت و بہادری کی تجسیم تھیں۔ ریحان بھائی ہی کی تشکیل کردہ (planned)ایک کارروائی میں ، مجھے ایک ساتھی جو میرا دوست بھی ہے اور ہم عمر بھی اور فاضل عالم بھی، جو خود اس خط پر ان دنوں موجود تھا نے بتایا کہ ایک دفعہ انہوں نے دشمن کی ایک چوکی کی تفصیلی ریکی (Recon) کی اور معلوم ہوا کہ دشمن کے فوجی کچھ لمحوں کے لیے چوکی کو خالی چھوڑ کر جاتے تھے۔ ساتھی دشمن کے انہی چند لمحوں کے منتظر رہے۔ جیسے ہی دشمن کے فوجی چوکی سے باہر نکلے تو یہی واقعہ سنانے والا ساتھی، چوکی کے اندر گھس گیا اور چھپ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد پانچ یا چھ فوج چوکی میں داخل ہوئے، جیسے ہی یہ فوجی داخل ہوئے تو اس ساتھی نے اپنی کلاشن کوف سے ان فوجیوں پر دھاوا بول دیا اور یہ سب کے سب فوجی وہیں ڈھیر ہو گئے۔ اسی محاذ پر حضرت الأمیر مولانا عاصم عمر سنبھلی، خود فاروق بھائی، میجر عادل عبد القدوس خان اور دیگر نامی حضرات نے شرکت کی۔ بہت سے اور سعید و شہید ساتھی بھی اس محاذ پر موجود رہے۔ اسی محاذ پر ہمارے اعلام کے ایک سینئر ساتھی نے بھی وقت گزارا اور ادارہ السحاب کی دستاویزی فلم ’جاء الحق وزہق الباطل‘ (منشور ستمبر ۲۰۱۲ء) کے لیے مختلف مجاہد ساتھیوں کے انٹرویوز ریکارڈ کیے جو اس مذکورہ فلم کا حصہ ہیں اور کئی اور جگہوں پر بھی وہ ویڈیو کلپس نشر ہوتے رہے ہیں یا بعض اب تک ارشیفِ مجاہدین (Archive) کا حصہ ہیں۔ اسی محاذ کی کچھ یادیں ادارہ السحاب برِّ صغیر نے قریباً دو سال قبل ’جہادی یادیں (۱۴): وزیرستان (علاقۂ محسود) کے ایک محاذ کی حسین یادیں‘ کے نام سے بھی نشر کی ہیں۔

۲۰۱۱ء میں اس محاذ کے بعد ریحان بھائی کے ساتھ مجھے کئی ہفتےگزارنے کا موقع ملا اور اس کے بعد ریحان بھائی میران شاہ میں فاروق بھائی کے مجموعے کے انتظامی مسئول مقرر کر دیے گئے۔

ریحان بھائی تنظیم القاعدہ کے عربی و عجمی مشائخِ جہاد کی خدمت میں بہت عرصہ جتے رہے۔ جہاد اور پھر جہاد میں امورِ اداری و انتظامی ایک نہایت کٹھن کام ہوا کرتا ہے۔لوگوں اور ساتھیوں سے تعامل جہاں انسان کو بہت کچھ معاشرتی و سیاسی لحاظ سے سکھاتا ہے تو انسان کے نفس کو توڑ کر اس کا تزکیہ بھی کرتا ہے۔ ریحان بھائی کو سفرِ جہاد میں بہت سی مشکلات بھی پیش آئیں، جن میں وہ نتیجتاً کامیاب ہی رہے، ان شاء اللہ۔

۲۰۱۲ء میں راقم مرشد اسامہ ابراہیم غوری، جن کو بلا تکلف ظہیر بھائی لکھنا میرے لیے آسان ہے، کے ساتھ پاکستان کے شہروں میں دعوتی و اعلامی تشکیل پر چلا گیا، وزیرستان سے نکلتے ہوئے جس ساتھی سے آخری ملاقات ہوئی وہ ریحان بھائی تھے۔ پھر پاکستان جا کر ریحان بھائی سے کچھ کچھ خط و کتابت ہوتی رہی۔ ۲۰۱۳ء کے وسط میں راقم کو ایک عسکری تشکیل پر وزیرستان و افغانستان کے علاقے پکتیکا جانے کا موقع ملا۔ اس تشکیل میں بھی کئی شب و روز ریحان بھائی کے ساتھ میران شاہ میں گزرے۔یہی وہ ملاقات ہے جس کا ذکر پچھلی محفلِ استاذ میں ہوا تھا۔

میں عبد الودود بھائی اور طیب بھائی رحمہما اللہ کے کمرے میں تھا جب ریحان بھائی مجھے لینے کے لیے آ گئے۔ دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوئے۔ میں اٹھا، ریحان بھائی سے بغل گیر ہو گیا اور یہ معانقہ نجانے کتنی دیر تک جاری رہا۔ اس وقت چند ماہ کا ہجر ہم پر گراں گزرتا تھا اور وصالِ یار پر ہم بے دم ہو جاتے تھے، اور اب حالت یہ ہے کہ ہجرِ یار میں کئی کئی سال بِیت جاتے ہیں اور کچھ ہجر تو ہم کو ایسے لاحق ہیں جن میں شامِ وصال نجانے کب، کہاں اور کیسے آئے، نہیں معلوم! اللھم لا سھل إلا ما جعلتہ سھلاً وأنت تجعل الحزن إذا شئت سھلاً، آمین!

معانقہ ختم ہوا تو ریحان بھائی نے کہا کہ چلیں چلتے ہیں۔ میں نے اپنا سامان اٹھایا اور ان کے ساتھ اسی دم وہاں سے نکل آیا، بعداً معلوم ہوا کہ منزل فاروق بھائی کی جائے قیام ڈوگہ تھی، شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ کمر کے پاس۔ ایک ڈالے، ٹویوٹا ہائیلکس میں بیٹھے اور روانہ ہوئے، اب راقم کو صد فیصد یاد نہیں ہے کہ گاڑی کا ڈرائیور کون تھا ، شاید مولانا صابر تھےاور اگلی سیٹ پر کون تشریف فرما تھا صحیح سے یاد نہیں، بہر کیف ہم دونوں پیچھے بیٹھے۔ ریحان بھائی نے سب سے پہلے میرے قلمی نام ’معین الدین شامی‘ کے بارے میں پوچھا کہ بھئی یہ نام کیوں؟ میں نے وجہ بتائی کہ یہ نام مرشد ظہیر بھائی نے رکھا ہے، پھر یہی نام معروف ہو گیا۔ نجانے کن کن قصوں کے ساتھ یہ سفر جاری رہا اور ہم خدمتِ استاذ میں پہنچ گئے۔ استاذ سے اس ملاقات کا ذکر اگلی باقاعدہ کسی نشست میں بعون اللہ کریں گے۔

ہم اسی ڈوگہ والے گھر میں بیٹھے تھے، ساتھ میں ریحان بھائی اور مولانا صابر صاحب (شہید)تھے۔فاروق بھائی گھر سے آم لے آئے۔ ساتھی آم کھانے میں مصروف ہو گئے۔ سب نے محسوس کیا کہ مولانا صابر صاحب کچھ خفا خفا ہیں۔ مولانا صابر صاحب بڑے اصول پسند آدمی تھے اور غصے کے تیز بھی تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ وہ اپنے غصیلے مزاج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے، بہر کیف غصہ کر جایا کرتے تھے۔ فاروق بھائی نے مولانا صابر صاحب کو مخاطب کیا اور مزاحاً قدرے رعب سے آواز کو ذرا موٹا کر کے بولے ’مولانا! څو شوہ؟‘ (مولانا! کیا ہوا؟)۔ مولانا صابر بولے ’ساتھی گاڑی لے جاتے ہیں اور پھر واپس لاتے ہیں تو مرمت بھی نہیں کرواتے ایسے ہی گیراج میں کھڑی کر دیتے ہیں، ابھی گاڑی واپس آئی ہے تو اس کا فریم ٹوٹا ہوا تھا‘۔ اشارہ ریحان بھائی کی طرف تھا۔ فاروق بھائی ہلکا سا مسکرا دیے۔ ریحان بھائی کو فاروق بھائی نے مشائخ میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا، وہ علاقہ پہاڑی تھا اور گاڑی کا راستہ وہاں نہیں تھا، وہیں کسی گھاٹی یا چٹان سے گاڑی اتارتے ہوئے گاڑی کچھ پھسلی تھی اور جھٹکے کے سبب اس کا فریم یعنی شاسی (chassis) کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا اور گاڑی کوئی اور نہیں ایک ڈالا ہی تھا۔ نجانے وہ کیسا دشوار گزار راستہ ہو گا اور جھٹکا بھی نجانے گاڑی کو کیسا شدید لگا ہو گا کہ گاڑی کا شاسی ہی کا ایک حصہ ٹوٹ گیا!

مولانا صابر صاحب تو اپنی اصول پسندی کے سبب خفا تھے جو اپنی جگہ درست اور دوسری طرف ریحان بھائی کی قربانی بھی ہےکہ شہرِ لاہور کا ایک جدید لڑکا اور کہاں وزیرستان کے دشوار گزار پہاڑ و درے اور اس میں جہاد کے لیےکسی کی خدمت کے لیے گاڑی چلانا۔

فاروق بھائی ان دنوں ’بے گھر‘ تھے، وہ اور ان کی اہلیہ، ان کے کپڑوں وپڑوں کا بیگ، ایک موبائل کچن جس میں ایک چھوٹا گیس سیلنڈر و اسی سیلنڈر کے سر پر لگنے والا چولہا، کچھ برتن وغیرہ، وہ سامان جو بنجو (کرولا سٹیشن ویگن، ۹۰ء کی دہائی کا ماڈل) کی ڈگی میں آ جائے۔ اب کے ہم جب ڈوگہ میں تھے تو فاروق بھائی نے اپنے اس مکان میں جانا تھا جہاں وہ آخری بار باقاعدہ گھر بسائے ہوئے تھے۔ یہ مکان شمالی وزیرستان کے علاقے مائزر میں تھا۔ فاروق بھائی نے ریحان بھائی کو ڈالا لانے کو کہا، وہ لائے، اور فاروق بھائی مع اہلِ خانہ اس پر سوار ہوئے اور میں بھی۔ میں گاڑی کی اگلی مسافر سیٹ پر بیٹھا، ریحان بھائی گاڑی چلا رہے تھے اور فاروق بھائی مع اہلِ خانہ پیچھے۔

سفر شروع ہوا شام کا وقت تھا۔ مختلف امور پر بات چیت شروع ہو گئی۔اسی بات چیت میں ہماری منزل یعنی مائزر میں فاروق بھائی کا مکان آ گیا۔ فاروق بھائی نے اپنی اہلیہ کو اندر سامان سمیٹنے کو بھیجا اور خود آہستہ آہستہ سامان باہر نکالنے لگے۔ فاروق بھائی سامان نکالتے اور ریحان بھائی اور میں سامان اٹھا کر ڈالے کے پچھلے حصے میں رکھتے جاتے۔ اسی میں شاید ایک دو گھنٹے لگ گئے۔ سامان سارا رکھا گیا، پھر باندھا گیا اور ہم دوبارہ وہاں سے چل پڑے۔ مزید چند گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم دتہ خیل کے قریب ’نوا اڈہ‘ پہنچے۔ فاروق بھائی نے جس نئے علاقے میں منتقل ہونا تھا، اس کے بارے میں ریحان بھائی نے شفر (codes) میں بذریعہ مخابرہ (واکی ٹاکی وائر لیس)ساتھیوں سے پوچھا کہ وہاں ڈرون وغیرہ کی صورتِ حال کیسی ہے۔ جواباً معلوم ہوا کہ وہاں ڈرون کافی ہے۔اس وقت نوا اڈہ میں بھی ڈرون تھا۔ لہٰذا کچھ انتظار کے بعد فیصلہ ہوا کہ رات یہیں نوا اڈہ میں گزاری جائے۔ وہیں ایک ہوٹل تھا، اس میں پیچھے کی طرف رہائشی کمرے تھے، انتہائی خستہ حال۔ فاروق بھائی مع اہلِ خانہ وہاں چلے گئے اور ریحان بھائی اور میں اس ہوٹل کے ریستوران والے حصے میں آ گئے۔ رات بہت ہو چکی تھی، شاید بارہ بج رہے تھے یا اس سے زیادہ۔ ہوٹل میں بھی سوائے خشک روٹی کے اور کچھ نہیں تھا۔ وہی خشک روٹی ریحان بھائی نے کچھ لی اور جا کر فاروق بھائی کو دے دی۔ تھوڑی دیر بعد فاروق بھائی نے مجھے بلایا۔ اسی خشک روٹی میں سے کچھ مجھے دی اور ساتھ میں انناس کا ایک کین (can) دیا اور کہا کہ آپ دونوں روٹی اور انناس کھا لیں۔ اب یاد نہیں کہ ہم نے وہ کھایا یا نہیں، گرمی تھی، اور کسی نہ کسی طرح ہم نے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو ریحان بھائی نے مجھے اسی ہوٹل پر چھوڑا اور فاروق بھائی کو لے کر کسی اور طرف روانہ ہو گئے۔

ریحان بھائی کا کافی ذکر ابھی باقی ہے۔ فی الحال محفلِ استاذ یہیں روکتا ہوں، اللہ سے توفیق کا سوال ہے کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھنے اور خیر سے اختتام تک پہنچانے والا بنائے، آمین۔

وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.

وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اکتیسویں نشست

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط
الدراسات العسکریۃ

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

14 جولائی 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version