یہ تحریر شیخ ابو محمد مصری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عمليات 11 سبتمبر: بين الحقيقة والتشكيك‘‘ سے استفادہ ہے، جو ادارہ السحاب کی طرف سے شائع ہوئی۔ باتیں مصنفِ کتاب کی ہیں، زبان کاتبِ تحریر کی ہے۔ کتاب اس لحاظ سے اہمیت سے خالی نہیں کہ اس میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے، کیونکہ اس کے مصنف خود ان واقعات کے منصوبہ سازوں میں سے ہیں۔ شیخ ابو محمد مصری شیخ اسامہ بن لادن کے دیرینہ رفقاء اور تنظیم القاعدہ کے مؤسسین میں سے ہیں اور بعداً تنظیم القاعدہ کے عمومی نائب امیر رہے یہاں تک کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے آپ کو محرم ۱۴۴۲ ھ میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مجلّے میں کتاب کا انتہائی اختصار سے خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے، تاہم اسلام اور جہاد سے محبت رکھنے والے قلم کاروں سے کتاب کا کامل اردو ترجمہ اردو داں مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی دہائی ہے۔(ادارہ)
القاعدہ کی افغانستان میں منتقلی
تنظیم کی افغانستان منتقلی کے بعد تورا بورا کی پہاڑیوں پر کئی مشاورتی مجالس ہوئیں جن میں امریکی اہداف کے حوالے سے مشورہ کیا جاتا تھا کہ کون کون سے اہداف اہم ہیں۔ تاہم یہ امکانیات کی فراہمی تک محض مشاورت ہی تھی۔ تنظیم کے افغانستان کی طرف منتقل ہونے کے بعد خالد شیخ محمد (مختار بلوچی) کے جذبات تازہ ہوگئے اور انہوں نے پھر سے شیخ اسامہ کے پاس آنا شروع کردیا اور شیخ اسامہ پر اپنے منصوبے کے لیے زور دینے لگے۔ ان کا منصوبہ وہی تھا کہ امریکی طیاروں کو اغواء کرکے قیدیوں کی رہائی کے مطالبات رکھے جائیں اور نہ ماننے پر ان طیاروں کو فضا میں تباہ کردیا جائے۔ حقیقت میں فضا میں ہی امریکہ کی طرف سے مطالبات کے مان لینے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، اور یوں یہ کارروائی ابتداء سے ہی گویا استشہادی کارروائی تھی۔ خالد شیخ محمد اس سوچ کے بہت حامی تھے، پھر بالخصوص انھیں تو پہلے بھی کامیاب تجربہ تھا جب انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے فلپائن میں امریکی جہازوں میں مائع دھماکہ خیز مواد داخل کردیا تھا جو ’’منیلا کی کارروائی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ خالد شیخ محمد دوبارہ سے کارروائی کا امکان دیکھ رہے تھے۔ تنظیم کی قیادت نے ان کی اس سوچ کو رد نہیں کیا، مگر ان کی رائے تھی کہ اس سوچ میں تبدیلی لائی جائے اور ان جہازوں کو ایسا اسلحہ بنادیا جائے کہ جس سے امریکہ کی مرکزی عمارتوں پر حملہ کردیا جائے۔
یہ منصوبہ اسی وقت کامیاب ہوسکتا تھا جب ان جہازوں کو وہی ہواباز اڑائیں جو ہمارے اپنے ہوں۔ لہٰذا اب یہ طے پایا کہ ایسے استشہادی جہاز ران فراہم کیے جائیں جو امریکہ کی زمین پر ہی جہازوں کو ہائی جیک کریں اور پھر انھیں متعین اہداف سے ٹکرا دیں۔ یہ ۱۹۹۸ء کے نصف کی بات تھی۔ پھر جب تنظیم نے اسی سال کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں کو نشانہ بنایا، تو اس کے بعد عدن (یمن)1 اور امریکہ دونوں میں عسکری کام کی تیاری ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
اب اکثر مشاورتی مجالس دو موضوعات کی بابت ہونے لگیں۔ اوّل یہ کہ استشہادی ہواباز کیسے فراہم کیے جائیں اور دوم یہ کہ کون سے اہداف متعین کیے جائیں۔ اہداف کے تعین میں یہ بات طے پائی کہ اہداف اقتصادی، عسکری اور سیاسی اہمیت کے حامل ہونے چاہییں۔ اسی ضمن میں درج ذیل اہداف سامنے آئے؛ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتیں، وائٹ ہاؤس، کانگریس، پنٹاگون، اور اقتصادی اہمیت کی حامل شیکاگو اسٹاک ایکسچینج کی عمارت۔ اسی طرح ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ ایک ہی وقت میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں موجود اقتصادی اہمیت کی عمارتوں کو نشانہ بنایا جائے۔ لیکن یہ رائے اس بنا پر رد کردی گئی کہ اس میں کام کا بہت زیادہ پھیلاؤ تھا، جبکہ ہم ابھی امریکہ کے خلاف جہاد کی ابتداء کر رہے تھے تو ایسے میں ہم نہیں چاہتے تھے کہ سب طرف آگ پھیلادی جائے۔
[افغانستان میں تنظیم کے کام پر مزید بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس سے قبل ہونے والی تنظیم کی سیاسی ودعوتی محنت پر بات کرلی جائے۔]2
خرطوم سے سیاسی و دعوتی معرکہ کا آغاز
جہاں تک سیاسی سطح پر تنظیم کی محنت کا تعلق ہے تو یہ خرطوم کے زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی جب تنظیم نے عرب دنیا میں امریکہ کے آلۂ کاروں اور بالخصوص ان کے سرخیل سعودی عرب کے حکمرانوں کی حقیقت واضح کرنے کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ یہ سعودی حکمران وہ تھے جن کا خمیر برطانوی کوکھ سے اٹھا اور پھر امریکہ کی غلامی کی طرف منتقل ہوگیا، یہاں تک کہ یہ عرب دنیا میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ بن گئے۔
’ھیئۃ النصیحۃ والإصلاح‘ کا قیام
جس زمانے میں تنظیم نے ’ھیئۃ النصیحۃ والإصلاح‘ قائم کی تو یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی بھی سعودی عرب کی حکومت پر تنقید کرنے کی جسارت نہ کرتا تھا، الا معدودے چند کے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سعودی حکمرانوں کا خطے پر اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا اور انھوں نے دین کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا کہ وہ حرمین شریفین کے خدام ہیں، اہل سنت کے علمبردار ہیں۔ وہ اسلامی ممالک میں بڑی تعداد میں علماء ودعاۃ پر بہت انعام واکرام کرتے اور مساجد بنواتے، تاکہ اس طرزِ تعامل سے وہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں۔ ان کا گمان تھا کہ یوں وہ مسلمان عوام کو دھوکہ دے سکیں گے، اور وہ بھول گئے تھے کہ ایک دن آئے گا کہ ان کا مکروہ چہرہ مسلمانوں کے سامنے آجائے گا اور اس وقت ہر عام وخاص جان لے گا کہ جہادی تحریکات کی نظر بہت گہری تھی، ان کا تجزیہ قابلِ اعتبار اور ان کی بات درست تھی۔3
اس زمانے میں تنظیم نے کئی بیانات جاری کیے جن میں سعودی حکومت کے مکروہ کردار کو واضح کیا اور ان کی مغربی غلامی پر مبنی سیاست کے پول کھولے۔ ذیل میں ہم بعض کا ذکر کر رہے ہیں تاکہ قارئین کے سامنے اس زمانے میں تنظیم کی سیاسی محنت کا نقشہ واضح ہوجائے۔
تنظیم نے ۲۷ ذو الحجہ ۱۴۱۴ھ بمطابق ۷ جون ۱۹۹۴ءکو ھیئۃ النصیحۃ والإصلاح کی طرف سے بیان نشر کیا جس کا عنوان تھا: ’السعودیۃ تنصر الشیوعیین في الیمن‘۔ اس میں جنوبی یمن میں کمیونسٹ جماعت کی تائید کے سعودی رسمی بیان پر بات کی اور بتایا کہ اب جبکہ یمن میں اسلامی دعوت پھیل گئی ہے اور پورا یمن متفق ہو رہا ہے، سعودی حکومت اس اسلامی دعوت کے پھیلاؤ سے خائف ہے اور اسے خدشہ ہے کہ کہیں انتخابات4 کے ذریعے اسلام پسند یمن پر قابض نہ ہوجائیں۔ چنانچہ سعودی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے یمن کی کمیونسٹ جماعت سے تعاون کا اعلان کیا ہے اور یمن کی تقسیم کی تائید کی ہے۔ یہ کام امیر سلطان بن عبد العزیز کی زیر سرپرستی یمن سے متعلق معاملات کی خاص کمیٹی کے ذریعے کیا گیا، اور یہ بادشاہ فہد کی مسلمانوں کی مصالح سے ’متصادم سیاست‘ کے موافق تھا، جس نے ۹۰ء کی دہائی کی ابتداء میں سوویت یونین کو چار بلین ڈالر کی امداد فراہم کی تاکہ وہ اقتصادی بحران سے نکل سکے جس کا سامنا اسے افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں کرنا پڑا، الجزائری نظامِ حکومت کو ۲ بلین ڈالر کی امداد فراہم کی تاکہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کا راستہ روکے، شام کی نصیری حکومت کو تین بلین ڈالر کی امداد فراہم کی تاکہ وہ شام میں برپا اسلامی تحریک کو تباہ کرسکے۔
تنظیم نے بیان میں واضح کیا کہ
’’سعودی حکومت کی اس حرکت کا نتیجہ مسلمان عوام کے درمیان اختلاف پیدا کرنا، خطے میں خانہ جنگی کو ہوا دینا، یمنی مسلمانوں کی کمیونسٹوں کے ہاتھوں تذلیل کروانا، مسلمانوں کی دشمن عالمی طاقتوں کو مسلمانوں کے معاملات میں دخیل کرنا اور ایسے عمل کا ارتکاب کرنا ہے جس کا ردِّ عمل خود سعودیہ اور اس کے حلیفوں کے لیے بھی ناپسندیدہ ہوگا اور جس کے نتیجے میں کشمکش پورے جزیرہ عرب میں پھیل جائے گی اور اس کا وبال اسی پر پڑے گا جس نے چنگاری لگائی ہے۔ لہٰذا تنظیم علمائے صادقین اور داعیان کرام سے التماس کرتی ہے کہ وہ اس سازش اور اس کے پیچھے موجود افراد کو مسلمان عوام کے سامنے بے نقاب کریں اور وہ امت اور مسلمان عساکر کو ایسے حکمرانوں کے اسلام مخالف کاموں اور کمیو نسٹوں کے تعاون میں اطاعت کا حرام ہونا بیان کریں۔ ‘‘5
جب علماء وداعیان کرام نے سعودی حکومت کی جنوبی یمن سے متعلق مکروہ پالیسی کوواضح کیا اور حکمرانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی پالیسی درست کریں اور علماء وطلبہ کی کثیر تعداد میدان میں نکل آئی، تو تنظیم نے علماء وداعیان کرام کی اس تحریک کی تائید میں بیان جاری کیا اور انھیں تحریض دلائی کہ وہ اپنی مساعی جاری رکھیں، اگرچہ اس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ تنظیم نے یہ بیان ۱۱ صفر ۱۴۱۵ھ بمطابق ۱۹ اگست ۱۹۹۴ءکو جاری کیا اور اس کا عنوان تھا: ’علماء القرآن في مواجھۃ الطغیان‘۔ اس بیان میں کہا گیا کہ:
’’یہ جری مواقف اور اس پر حاصل شدہ عوامی تائید اس بات کا اعلان ہے کہ نظامِ حکومت جو ان علماء ودعاۃ کے خلاف بہتان طرازی کر رہا ہے، وہ سب بے فائدہ ہے۔ یہ مواقف اس بات کی دلیل ہیں کہ آج بھی امت میں ایسے علماء موجود ہیں جو حکمرانوں کے مقابل امام مالک، امام احمد، امام ابن تیمیہ اور امام عز الدین بن عبد السلام رحمہم اللہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسلمان عوام کا ان علماء کے گرد جمع ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی نظامِ حکومت کے ساتھ اختلاف محض ایک ایسے گروہ کا نہیں ہے جو معاشرے سے کٹا ہو، بلکہ یہ اختلاف بہت گہرا ہے، اس کا موضوع اسلامی عقیدہ وشریعت ہے اور اس کا تعلق نظامِ حکومت کے فساد سے ہے۔ ‘‘
پھر جب سعودی حکومت نے وائٹ ہاؤس میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے اشارے پر … جو جزیرہ عرب میں اسلامی بیداری سے خوف کھانے لگے … ان علماء وداعیان کرام کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو تنظیم القاعدہ نے ۸ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ بمطابق ۱۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا: ’السعودیۃ تسفر عن محاربتھا للإسلام وعلمائہ‘۔ اس بیان میں کہا گیا کہ :
’’ہم ھیئۃ النصیحۃ والإصلاح کی طرف سے ان جرائم کی مذمت کرتے ہیں اور ان جرائم کو حکومت کی طرف سے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف صریح جنگ سمجھتے ہیں، اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کسی بھی اسلام مخالف سیکولر حکومت سے مختلف نہیں۔ یہ جرائم دراصل حکومتی گروہ کی طرف سے اسلامی بیداری اور اس کی قیادت کوروکنے کے لیے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ حکومت راست گو اہلِ حق علماء ودعاۃ کا سامنا نہیں کرسکتی اور ان کے موقف کا کوئی شرعی وعقلی جواب نہیں رکھتی۔ یہ جرائم اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سعودی حکمران اور اس کا ٹولہ خارج سے آنے والے اوامر کا تابعِ محض ہے کہ علمائے حق کا خون بہایا جائے اور مظلوموں کو کچلا جائے۔ اور آخری بات یہ کہ یہ جرائم دشمنانِ اسلام یہود ونصاریٰ کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری سازشوں کی کھلی کڑی ہیں، اور یہ اہلِ ایمان کے مقابلے میں کفار کے ساتھ دوستی ومناصرت ہے جو کھلی گمراہی اور خسارہ ہے۔‘‘
بیان کے آخر میں سعودی حکمرانوں کو اس بات سے بھی ڈرایا گیا تھا کہ اگر انھوں نے اپنی مکروہ سیاست جاری رکھی تو قریب ہے کہ جزیرہ عرب کے مسلمانوں میں بیداری مزید بڑھے گی اور وہ اپنے حقوق اور مقدسات کے دفاع کے لیے میدان میں آجائیں گے، جو بالآخر یہودیوں کے لیے ایک خطرہ بن جائے گا۔
پھر جب سعودی حکومت نے مزید دین دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے اس اصلاحی تحریک سے وابستہ علماء ودعاۃ اور طلبہ کو گرفتار کرنا شروع کردیا اور اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے اصلاح کی آواز کو تشددسے دبانا شروع کردیا، تو تنظیم نے سعودی حکومت کے ان اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا پیغام نشر کیا۔ ۱۱ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ کو جاری بیان بعنوان: ’لا تعطوا الدنیۃ في دینکم‘ میں کہا گیا:
’’سرزمینِ وحی پر بسنے والے اسلام کے جوانو! آرام کا وقت گیا اور عمل کا وقت آگیا ہے، عزیمت اور اللہ پر توکل کرکے نکلو، اس سعودی نظام نے دعوتِ اصلاح اور علماء کے خلاف اپنے عساکر کو بھیج کر توحید کے منافی عمل کا ارتکاب کیا ہے اور سب سے بڑی حماقت اور تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، جس کا بھیانک نتیجہ یہ عنقریب خود بھگتیں گے۔ اللہ کی قسم! یہ فتح وتمکین کے سفر کی ابتداء ہے، امام ابن تیمیہ کا فرمان ہے: ’جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کے غلبے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو کھڑا کردیتے ہیں جو دین کے خلاف مقابلے میں نکلتے ہیں، پھر انہیں کچل کر اللہ حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کردیتے ہیں‘۔‘‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا:
’’حکومت اور عوام کے درمیان یہ معرکہ انجانی غلطی نہیں ہے، بلکہ سوچی سمجھی چال ہے کہ مسلمان عوام کے دل میں موجود اسلامیت کو کچل دیا جائے۔ پس اپنے دین کے مقابلے میں کمتر پر راضی نہ ہوں، اور جو کوئی جنت کا طالب ہو تو سنتِ الٰہی ہے کہ اس پر آزمائش آتی ہے۔ بس اللہ کے حکم پر عمل کریں، حق کو کھل کر بیان کریں اور اس نظام کے باطل ہونے کا بیان جہاد باللسان کے ذریعے کریں، یہاں تک کہ لوگ جان لیں کہ آپ صحیح دین کی حق بات کر رہے ہیں۔‘‘
سعودی حکومت نے اصلاح کے داعی علماء وطلبہ کو جیلوں میں ڈالا اور تشدد کا نشانہ بنایا، اور دوسری طرف مسلمان عوام کو دھوکہ دینے کے لیے بعض علماء ودعاۃ پر مشتمل ایک کمیٹی بنام ’المجلس الأعلی للشؤون الإسلامیۃ‘ قائم کی اور اسے ذمہ داری سونپی کہ وہ اصلاح کےعمل کا جائزہ(سعودی حکومت کی منشا کے مطابق) لے۔ اس کمیٹی کی صدارت وزیرِ دفاع سلطان بن عبد العزیز اور وزیرِ داخلہ نایف بن عبد العزیز کو سونپی گئی اور یہ دونوں لوگ ہی اسلام اور علمائے اسلام سے عداوت میں مشہور تھے۔ چنانچہ تنظیم نے اس کمیٹی کی حقیقت واضح کرنے کے لیے بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا: ’المجلس الأعلی للضرار‘۔ اور بیان میں کہا کہ:
’’اس کمیٹی کا ایسے وقت میں وجود میں آنا ہی اس کے مقصد کو واضح کرتا ہے کہ اس کا مقصد مملکت میں اسلام کی حقیقی دعوت کو روکنا اور اس کی جگہ بادشاہوں کے دین کو رائج کرنا ہے، کیونکہ ان دونوں اشخاص کی تاریخ اسلام اور علماء ومشائخ کے خلاف بغض وعداوت سے بھری ہوئی ہے۔ کیسے کوئی عاقل انسان مان سکتا ہے کہ جن لوگوں کا کردار ہی اسلام دشمنی پر مشتمل ہے، انھیں اسلام کی خدمت کے لیے سامنے لایا جائے۔ پھر کمیٹی کے اختیارات غیر محدود ہیں، تاکہ مملکت میں کسی بھی قسم کی اصلاح کی دعوت ان کے اختیار سے باہر نہ ہوسکے، اور یوں علماء کی عام کمیٹی اور مفتی عام کے اختیارات بھی ان سے سلب کرکے کمیٹی کو دے دیے گئے ہیں۔‘‘
[شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے بعض فتاویٰ کے حوالے سے تنظیم کے بیانات]67
اس کے بعد جب اسلام اور مملکت کے حوالے سے بعض فتاوی شیخ عبد العزیز بن باز سے منسوب نشر ہونے لگے تو تنظیم نے ان تمام فتاویٰ کے حوالے سے بھی شرعی موقف واضح کیا۔
- الف) جب مملکت نے سودی بینکوں کو قائم کیا تو تنظیم نے واضح کیا کہ سودی عمل کرنا اگرچہ حرام ہے، مگر سودی عمل کا قانون بنانا، حرام کو حلال کرنا ہے، اور یہ معاملہ صرف معاصی (گناہ) کا نہیں، بلکہ ایمان وکفر ہے، جیسا کہ فتویٰ میں اسے صرف معصیت سے تعبیر کیا گیا تھا۔
- جب بادشاہ فہد نے ہنستے چہرے کے ساتھ ساری دنیا کے سامنے اپنے گلے میں صلیب لٹکائی تو ہر طرف سے مسلمانوں نے ایک مسلمان کے صلیب لٹکانے کے حکم کی بابت علماء سے استفتاء شروع کردیا ۔ اس پر شیخ بن باز نے فرمایا کہ اس طرح کا عمل ایمان وکفرسے تعلق نہیں رکھتا، اور ایسے نوازل (جدید معاملات) میں عذر دیا جانا چاہیے۔ اس فتویٰ پر غیرت مند مسلمان بہت غضبناک ہوئے۔ اس موقع پر تنظیم نے شیخ ابن باز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ:
’’جب بادشاہ نے اپنے گلے میں صلیب لٹکائی اور ساری دنیا کے سامنے خوشی سے ہنستے ہوئے یہ عمل کیا، تو آپ نے اس کے اس عمل کی تاویل کی اور اس کی شناعت کے باوجود اس کے لیے جواز بیان کیا، حالانکہ بظاہر بادشاہ نے یہ فعل اپنی رضا اور جانتے بوجھتے اپنے اختیار سے کیا ہے، تو کیسے کفر نہ ہوا۔‘‘
- پھر جب شیخ بن باز نے اپنامشہور خطرناک فتویٰ دیا، جس میں سعودی حکام کو عراق کی طرف سے ’موہوم‘ جنگ کے خطرے میں اپنے ملک کے دفاع کی خاطر کفار سے مدد لینے کو مطلق جائز کہا تھا اور استعانت بالکفار کے مسئلے میں فقہاء کی بیان کردہ قیود وشروط کا اعتبار تک نہ کیا تھا،تو تنظیم نے کھل کر اس فتویٰ کی غلطی بیان کی اور شدت سے اس کے بھیانک نتائج کی مذمت کی کہ اس فتویٰ کے نتیجے میں کفار کی افواج کو حرمین میں داخلے کا موقع مل جائے گا اور انھیں حرمین سے دوبارہ نکالنے کے لیے ایک طویل جنگ کرنی پڑے گی، اور پورا ملک ان کے اثر تلے دب جائے گا۔ افسوس کہ حرمین کا آج یہی حال ہے۔
- پھر خلیج کی جنگ میں کویت کی آزادی کے نام پر صلیبی صہیونی اتحادی افواج نے سعودی حکومت کی مدد سے جنگ شروع کی تو شیخ ابن باز نے اس کا بھی جواز بیان کیا۔ تنظیم نے اس کی بھی مذمت کی اور واضح کیا کہ استعانت بالکفار اگرچہ عند الضرورہ جائز ہے، مگر اس کی شروط وقیود ہیں، جبکہ ہمارے حالات میں اس فتوی کے نتیجے میں مسلمانوں کا تقدس پامال ہوا اور ان کے مقدسات کی بے حرمتی ہوئی۔
- پھر جب شیخ ابن باز نےفلسطین پر قابض یہودی سلطنت کے ساتھ مطلق صلح کے جواز کا فتوی دیا ، جس کی توقع شاید خود اسرائیل بھی نہیں کر رہا تھا، تو تنظیم نے اس کے ردِ عمل میں ۲۷ رجب ۱۴۱۵ھ بمطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۹۴ء کو بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا: ’رسالۃ مفتوحۃ إلی ابن باز ببطلان فتواہ بالصلح مع الیھود‘۔ اس بیان میں کہا گیا:
’’آپ کا فتویٰ مسلمانوں کو اشتباہ میں ڈالنےوالا ہے کیونکہ اس میں ایسا اجمال اور ایسا عموم ہے جس سے گمراہ مفہوم نکلتا ہے۔ یہ فتویٰ تو کسی مبنی بر انصاف صلح کی بابت بھی ٹھیک نہیں، کجا کہ یہ یہود کے ساتھ ہونے والی جعلی صلح پر دلیل ہو جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی خیانت ہے۔ اسے تو کوئی عام مسلمان بھی تسلیم نہیں کرسکتا، کجا یہ کہ آپ جیسا عالمِ دین تسلیم کرلے جو اپنی قوم اور امت کے لیے غیرت رکھتا ہے۔ جو کوئی امت سے متعلق بڑے خطیر مسائل میں فتویٰ دینے کے منصب پر فائز ہو تو اس پر واجب ہےکہ وہ ان فتاویٰ کے عواقب کا اچھا علم رکھتا ہو اور ان کے نتیجے میں وقوع پذیر مفاسدکو بخوبی جانتا ہو۔‘‘
- تاہم جب شیخ ابن باز نے اس کے بعد اپنے فتویٰ پر اصرار کیا اور …اپنے غلط نقطۂ نظر کی وجہ سے… یہود کے ساتھ صلح کے جواز کو تفصیلاً بھی بیان کردیا تو تنظیم نے اس فتویٰ اور مسلمانوں کو کفار کے سامنے جھکانے کے ایسے دیگر فتاویٰ کے رد میں تاخیر نہ کی۔ اس موقع پر جاری بیان میں کہا گیا کہ:
’’جب آپ کے سابقہ فتویٰ سے مسلمانوں اور بالخصوص فلسطین کے مظلوم مردوں، عورتوں، بچوں اور مجاہدین کو حیرانگی ہوئی کہ آپ نے عرب حکمرانوں کی خائن سیاست کو شرعی لبادہ پہنایا اور انھیں جواز دیا کہ وہ یہود سے صلح کرلیں جس کا مطلب یہود کو فلسطین کی زمین پر ابدی قبضے کا حق فراہم کرنا ہے، ایسے میں سعودی مملکت میں بھی اور اس سے باہر بھی اہلِ علم نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور امت کو توقع تھی کہ آپ اپنے اس فتویٰ سے رجوع کرلیں گے۔ لیکن سب ہی اس وقت حیران ہوگئے جب آپ نے نہ صرف اپنے فتویٰ پر اصرار کیا، بلکہ اس میں یہود کے ساتھ صلح سے متعلق موضوع پر ایسی تفصیل بیان کی جس کی توقع تو یہود اور ان کے آلہ کار بھی نہیں کررہے تھے۔ ایسے میں ہم نے ضروری سمجھا کہ اس فتویٰ پر اجمال سے چند نقاط ضرور بیان کریں۔ اول یہ کہ آپ نے جو دلائل بیان کیے ہیں، ان کا حاصل صرف یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ ’شرائط‘ کی موجودگی میں صلح کرلینا جائز ہے۔ جبکہ اہلِ علم نے واضح کردیا ہے کہ فلسطین سے متعلق ہونے والی صلح میں ایسی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ بلکہ اس صلح کی تمام شرائط تو وہ ہیں جو یہود نے لگائی ہیں۔ اس میں یہود کے مقابل دوسری طرف کا گروہ سیکولرمرتد حکامِ عرب کا ہے، اور معاہدے کی شق سے واضح ہے کہ یہ یہود کو فلسطین کی زمین پر دائمی حقِ قبضہ کی فراہمی اور جہاد کی معطلی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کا اجماع اس پر قائم ہے کہ مرتد کو مسلمانوں پر کوئی ولایت نہیں اور مسلمانوں کی ایک چپہ بھر زمین پر بھی کافروں کو قبضہ نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ اجماعِ مسلمین کے مطابق یہ صلح باطل ہے۔ دوم یہ کہ فتویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ اس وقت مسلمان ضعف کا شکار ہیں اور ضعف میں صلح کا معاہدہ کرنا جائز ہے، تو یہ بھی باطل ہے۔ کیا ایک ارب سے زائد مسلمان جو ہر قسم کے وسائل رکھتے ہیں اور اہم اسٹریٹیجک مقامات کے حامل ہیں، وہ فلسطین میں پچاس لاکھ یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان آج عسکری ومادی طور پر کمزور ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں امام ابن تیمیہ جیسے علماء اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے حکام نہیں ہیں۔‘‘ 8
[مملکتِ سعودیہ میں غیر شرعی قوانین کے اجراء کی بابت تنظیم کا بیان]9
مملکتِ سعودیہ میں غیر شرعی قوانین کے حوالے سے تنظیم نے واضح اور صریح موقف اختیار کیا اور ۵ ربیع الاول ۱۴۱۶ھ بمطابق ۳ اگست ۱۹۹۵ء کو ایک بیان جاری کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ انسانوں کے بنائے قوانین کا اجراء کفر بواح ہے جو اسلام سے خارج کرنے والا ہے، اور ان قوانین کے قانون ساز زمینی الٰہ ہیں جو انسانوں کے لیے قانون بناتے ہیں جس کی اللہ نے کوئی اجازت نہیں دی۔ اس بیان میں بادشاہ فہد بن عبدالعزیز کومخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ :
’’تم نے اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف قوانین بنائے ہیں، جبکہ قرآن وسنت کے متواتر نصوص اور علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے بھی اللہ کے احکام کے مخالف وضعی انسانی قوانین کا ماننا اپنے لیے جائز کیا تو وہ اسلام سے خارج کافر ہے۔‘‘
اس بیان میں اس نقطے پر تفصیلی دلائل ذکر کیے گئے تھے اور کفر کے بعض دیگر افعال کا بھی ذکر تھا جس کا ارتکاب سعودی حکام کر رہے تھے۔
سعودی نظامِ حکومت کی خامیوں کے اظہار میں تنظیم کی کامیابی
سوڈان میں قیام کے اس عرصے میں تنظیم اس حد تک تو کامیاب ہوئی کہ اس نے سعودی مملکت میں بہت سے علماء ودعاۃ تک ایک واضح پیغام پہنچادیا جو سعودی حکام کے اقدامات کے حوالےسے ابھی شک میں مبتلا تھے، اور تنظیم نے ان کے سامنے واضح کردیا کہ یہ حکام درحقیقت امریکہ ویہود کے حامی ہیں اور ان کے ساتھ خفیہ طور پر اتحاد واتفاق کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ آج تو یہ تعلقات اعلانیہ استوار کیے جارہے ہیں، اور حکامِ عرب کی ان تصریحات سے جہادی تحریکات کا کام آسان ہوگیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انھیں اپنی امت میں ان حکام کی حقیقت واضح کرنے کے لیے بہت محنت صرف کرنی پڑتی۔
سوڈان میں تنظیم نے جتنے سال بھی گزارے، اس عرصے میں امریکی مفادات کو ضرب لگانے کی ضرورت پر بحث ضرور رہی، مگر اس وقت رکاوٹیں بہت زیادہ تھیں۔ تنظیم کی سوڈان میں موجودگی کی وجہ سے وہاں کی حکومت کو عالمی وعلاقائی سطح پر شدید پابندیوں کا سامنا تھا۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے وہاں کی اقتصادی حالت کو بہت نقصان ہورہا تھا، جیسا کہ سوڈان کے حکومتی مسؤولین بتاتے تھے۔
اسی طرح عالمی وعلاقائی طاقتوں نے جنوبی سوڈان میں علیحدگی پسند لیڈر ’جون قرنق‘ کی طرف امداد کاہاتھ بڑھا رکھا تھا، اس کے لیے عرب ممالک کھلے تھے اور مال واسلحہ کی بھرپور کمک جاری تھی۔ اس کی فوج کو سوڈان کی فوج کے مقابلے میں عسکری طور پر قوی کیا جارہا تھا، جو پہلے سے پابندیوں کی وجہ سے ضعف کا شکار تھی۔ اسی طرح مغربی سوڈان میں ’دارفور‘ کے صوبے میں حکومت مخالف گروہوں کی تائید بھی عالمی ومقامی طاقتوں کی طرف سے کی جارہی تھی، اور مشرق میں ’کسلا‘ کے صوبے میں حکومت سے مزاحم گروپوں کو قوی کیا جا رہا تھا۔ مشرق کے گروپوں کے لیے خاص طور پر ’اریٹیریا‘ نے اپنی پشت کھول رکھی تھی، جہاں ان کے پاس محفوظ پناہ گاہ تھی اور وہاں سے یہ علیحدگی کی تحریک چلا رہے تھے۔ ان مخالف گروپوں کا ارادہ تھا کہ وہ مشرقی سوڈان میں الگ ریاست قائم کریں، جس کا دار الحکومت بحیرۂ احمر کے ساحل پر واقع ’پورٹ سوڈان‘کے شہر کو بنایا جائے،جو سوڈان کی واحد بندر گاہ ہے۔یوں ’خرطوم‘ کو اور سوڈانی حکومت کے تابع بعض دیگر صوبوں کو ساری دنیا سے کاٹ دیا جائے، اور اس حکومت کو ایک ایسی نئی حکومت کے قیام پر مجبور کیا جائے جو عالمی ومقامی طاقتوں بشمول سعودی عرب کےمفاد میں ہو ۔
یہ وہ اسباب تھے جن کے سبب تنظیم کے لیے سوڈان کی زمین سے امریکی مفادات پر ضرب لگانا انتہائی دشوار تھا۔ سوڈان کی حکومت ردِ عمل کو برداشت کرنے سے عاجز تھی اور تنظیم کے پاس کوئی دوسری جائے پناہ نہ تھی، لہٰذا اس مرحلے پر تنظیم نے صرف اہداف کے ترصد پر ہی اکتفا کیا، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا۔ اس ترصد میں بنیادی کردار قائد انس اللیبی شہید کا رہا جو امریکی قید خانوں میں تعذیت کے سبب شہید ہوگئے۔ آپ سافٹ ویئر انجینیر تھے، اور تنظیم میں شعبہ دستاویزات کے مسؤول تھے۔ آپ بارود کے ماہر تھے اور انگریزی واطالوی زبان سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔
چنانچہ سوڈان میں قیام کے دوران زیادہ تر مجالس امریکی مفادات پر ضرب لگانے پر سوچ وبچار تک ہی محدود تھیں۔ اسی ضمن میں استفادے کی نیت سے شیخ اسامہ بن لادن صومالیہ سے سوڈان آنے والے مجاہدین سے خاص طور ملتے اور امریکیوں کے خلاف صومالیہ میں کیے جانے والے کاموں کی رپورٹ سنتے، یہاں تک کہ تنظیم کے عسکری مسؤول شیخ ابو حفص الکومندان(عاطف) کے پاس جو بھی رپورٹیں پہنچتی تھیں، وہ سب بھی شیخ اسامہ تک پہنچائی جاتی تھیں۔
پھر جب سوڈان کی حکومت پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا تو انھوں نے عالمی ومقامی طاقتوں کے بعض مطالبات ماننے پر اتفاق کرلیا اور عمر البشیر کی حکومت نے تنظیم سے درخواست کی کہ وہ سوڈان سے چلے جائیں۔
سوڈان سے نکل کر افغانستان پہنچنے پر امریکی مفادات پر ضرب لگانے کا کام عملاً شروع ہوا، اور وہاں پہنچ کر سب سے پہلے شیخ اسامہ نے جزیرہ عرب پر مسلط امریکی افواج کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا عنوان تھا: ’إعلان الجھاد علی الأمریکیین المحتلین لبلاد الحرمین‘۔ اس بیان میں اول اسلام کے خلاف صلیبی دشمن کے بغض کو بیان کیا گیا تھا جس کے سبب مشرق ومغرب میں وہ مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں، حتی کہ معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل تک سے نہیں چوکتے۔ پھر امت کی حالت پر بات تھی کہ کس طرح علماء ودعاۃ کو گرفتار کیا جاتا ہے اور انھیں قتل کیا جاتا ہے۔ اور کہا گیا تھا کہ اب مجاہدین کے پاس ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آگئی ہے جہاں سے وہ امت پر سے ظلم کو رفع کرنے کی محنت شروع کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد سعودی حکومت کے دینی انحراف اور مادی فساد کا بیان تھا، جس پر وہاں کی کبار شخصیات بھی تحفظات رکھ رہی تھیں۔ ۱۴۱۱ھ میں علماء، دعاۃ، عمائدین اور تاجروں کا ایک وفد بادشاہ فہد کے پاس گیا اور اس بابت نصیحت کی، مگر حکومت کی طرف سے ان نصیحتوں کو مذاق میں اڑایا گیا اور درباری علماء کا ٹولہ جمع کرنا شروع کردیا۔ دوسری مرتبہ ۱۴۱۳ھ میں پھر ایک وفد بادشاہ سے ملا اور اسے نصیحت کی کہ کس طرح حرام وحلال میں حکومت خلافِ شریعت کا مرتکب ہورہی ہے، میڈیامنکرات کو رواج دے رہا ہے اور جھوٹ کو سچ اور جھوٹوں کو سچا دکھا رہا ہے، عوام پر ٹیکس لگا کر ان پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے، خارجی سیاست میں دشمنانِ دین کے منصوبوں کو عملی کیا جا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے ساتھ خذلان کا معاملہ کیا جار ہا ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ اس نصیحت کا جواب بھی حکومت کی طرف سے تشدد کے ساتھ دیا گیا اور علماء اور دیندار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور تعذیب کا نشانہ بنایا گیا، اور امریکیوں کو چھوڑ کر فوج وپولیس کو اپنے ہی مسلمانوں سے الجھا دیا گیا۔ بیان میں مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ اصل دشمن امریکی ہیں اور اس وقت بڑے دشمن امریکہ کو سرزمین حرمین سے نکالنے کے ہدف پر مسلمانوں کو اکھٹا ہونا چاہیے اور نظام کے ضرر کو برداشت کرنا چاہیے۔ کیونکہ شریعت کا قاعدہ ہے کہ جب کئی واجبات اکھٹے جمع ہوجائیں تو اہم ترین واجب کو مقدم کیا جائے گا، اور بڑے دشمن ’امریکہ‘ کو دفع کرنا اہم ترین واجب ہے۔ بیان کے آخر میں مسلمانوں کو اس خدشے سے ڈرایا گیا تھا کہ اگر اس واجب کے ادا کرنے میں ہم نے تاخیر کی تو جس طرح فلسطین کی مقدس زمین ہم سے چھن گئی، حرمین کے مقدسات بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے چلے جانے کا خطرہ ہے، اور تاکید کی گئی تھی کہ تمام مسلمان اس وقت اپنی جدوجہد کو صلیبی وصہیونی اتحاد کے خلاف جہاد پر جمع کردیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 اشارہ ہے عدن کے ساحل کے قریب امریکی بیڑے ’یو ایس ایس کول‘ پر استشہادی کارروائی کی طرف جو اللہ کے فضل سے ۲۰۰۰ء میں عمل پذیر ہوئی۔ (کاتب)
2 بین القوسین عبارت خود کاتب کی ہے، تاکہ مضمون کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ مصنف نے کتاب میں اسی ترتیب سے گفتگو کی ہے۔ (کاتب)
3 اللہ تعالیٰ شیخ ابو محمد پر رحم فرمائیں کہ ان کی بات کیسی درست ثابت ہوئی اور آج مسلم دنیا کی سبھی اسلامی تحریکات موجودہ سعودی حکومت کی گمراہی اور مغربی آلہ کاری کے حوالے سے متفق ہیں۔ (کاتب)
4 اگرچہ ہم اس انتخاباتی فکر سے متفق نہیں ہیں جو غلبہ اسلام کے درست طریقِ کار کو نقصان پہنچاتا ہے۔
5 یہاں بیانات کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے، بیانات کے اقتباسات کے لیے اصلی کتاب کی طرف مراجعت کیجیے۔ (کاتب)
6 یہ عنوان اصلِ کتاب میں نہیں ہے، بلکہ تسہیل کی خاطر ہم نے لگایا ہے۔ (کاتب)
7 تنظیم کی ادبیات میں علمائے کرام، خاص طور پر کبار علمائے کرام جن کی حیثیت مسلمانوں میں مسلّم ہو، کے احترام پر ہمیشہ زور دیا جاتا ہے۔ البتہ علمائے کرام کے ایسے فتاویٰ جو حکام کے باطل اقدامات کو شرعی جواز دینے پر مبنی ہوں، اور جن کے خلاف دیگر اہلِ حق علمائے کرام کے فتاویٰ موجود ہوں، تو ایسے فتاویٰ کی تردید کرنا اور مسلمانوں کو ان کے مفاسد سے بچانا بھی تنظیم کی ادبیات کا خاصہ ہے۔ یہی اہل السنہ والجماعہ کا اعتدال ہے، کہ علمائے کرام کا احترام بھی ضروری ہے اور شریعت اسلامیہ کی غلط فتاویٰ سے صیانت بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنظیم نے شیخ ابن باز کی شخصیت پر کبھی تضلیل وتبدیع کے اوصاف منطبق نہیں کیے، تاہم ان کے غلط فتاویٰ کا رد ضرور کیا ہے۔ (کاتب)
8 اس بیان میں مزید بھی کئی باتیں تھیں جو قارئین اصل بیان کی طرف مراجعت کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بیان انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
9 یہ عنوان بھی اصلِ کتاب میں نہیں، ہم نے تسہیل کی غرض نے لکھا ہے۔ (کاتب)