نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اوکاڑہ ملٹری فارم تنازع – فوج کی ہوس و استحصالی نفسیات کا آئینہ

حذیفہ خالد by حذیفہ خالد
10 نومبر 2023
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, اکتوبر و نومبر 2023
0

شہر لاہور سے کچھ ۱۳۰ کلومیٹر دور ۱۷ ہزار ایکڑ پر پھیلے کھیت کھلیانوں پر لاکھوں مزارعین ایک صدی سے کاشتکاری کرتے آرہے ہیں، اس زمین پر ۱۹ گاؤں ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر گندم، مکئی اور چاولوں کی کاشت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں یہ کسی بڑے زمیندار کی زمین پر کام نہیں کررہے بلکہ یہ ان زمینوں پر کام کرتے ہیں جس کو پاکستانی فوج اپنی ملکیت بتاتی ہے۔

یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر کس طرح پاکستانی فوج ان زمینوں کی مالک بنی؟

اوکاڑہ کے ملٹری فارمز کی شروعات ہوتی ہے بیسویں صدی کے اوائل سے جب برطانوی راج نے مشرقی پنجاب کے باسیوں کو اوکاڑہ ہجرت کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہاں زراعت شروع کی جاسکے۔ اوکاڑہ اس وقت جنگل بیابان تھا جس کو بعد میں برطانوی راج نے راوی اور ستلج دریا سے نہر نکال کر زراعت کے لیے ہموار کیا۔ اوکاڑہ میں کسانوں کو بٹائی نظام کے تحت کام کرنے کا کہا گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جو فصل کاٹیں گے اس کا ایک حصہ برطانوی راج کو دیں گے اور دوسرا حصہ خود رکھیں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقے کا شمار برٹش انڈیا کے زرخیز ترین علاقوں میں ہونے لگا۔ برطانوی راج نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ زرخیز ہونے کے بعد یہ زمینیں ان کے نام کردی جائیں گی، مگر یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا اور تقسیم ہند کے بعد یہ نظام پاکستانی فوج کے ذیلی ادارے ملٹری فارمز کے حوالے کیا گیا۔ معاملات اسی طرح چلتے رہے لیکن پھر سن ۲۰۰۰ء میں ملٹری نے ایک نیا نظام متعارف کروایا جسکے تحت مزارعین کو بٹائی کے بجائے نقدی دینے کا کہا گیا۔ اس بدلتی صورتحال پر ایک محقق ایمون مرفی نے لکھا کہ یہ نیا معاہدہ کسانوں کو ٹھیکیداری ملازمین میں تبدیل کرنے جارہا تھا۔ اس نئے معاہدے کی ایک شق کے مطابق اگر فارمز کی اراضی دفاعی ضروریات کے لیے درکار ہوئی تو مزارعین کو 6 ماہ کے اندر زمین خالی کرنا ہوگی۔ جبکہ ایک اور شق میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت میں زمینوں کے مالکانہ حقوق مزارعین کو نہیں دیے جائیں گے۔ اس نئے نظام کے تحت کنٹریکٹ کی میعاد پوری ہونے پر مزارعین سے زمینیں خالی بھی کروائی جاسکتی تھیں۔ کسانوں نے یہ نیا نظام ماننے سے انکار کردیا اور یوں ملکیت یا موت کا نعرہ لگا کر ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد تھا کہ جن زمینوں پر وہ کام کرتے آئے ہیں ان کے مالکانہ حقوق بھی انہی کو ملیں۔مہر عبدالستار اس تحریک کے متعلق بتاتے ہیں:

’’انجمن مزارعین پنجاب گزشتہ ۲۰ سال سے مزارعین کے مالکانہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کررہی ہے جب یہ کنٹریکٹ پالیسی یہاں پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو ردعمل میں علاقے کے حالات تبدیل ہوگئے بےبسی کا عالم تھا لوگ پریشان تھے کہ مستقبل میں ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارا تو روزگار بھی متاثر ہورہا ہے اور ہمارے جو وراثتی حقوق ہیں وہ بھی متاثر ہورہے ہیں اور زمینوں پر نسل درنسل کاشتکاری کا جواز ہے وہ بھی ختم ہورہا ہے تو لوگوں کی بےبسی کو دیکھتے ہوئے پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ بھی خدمت خلق ہے تو لوگوں کو استحصال سے بچانے کے لیے جدوجہد کی جائے۔‘‘

جہاں اس نئے معاہدے کو لے کر ملٹری اپنی ضد پر اڑی رہی وہیں مزارعین نے اس کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا آغاز کیا اس تحریک نے مسیحی اور مسلمان دونوں مذاہب کے مزارعین میں اتحاد قائم کردیا جو ایک حیرت انگیز بات تھی۔

حالات اس نہج پر کیسے پہنچے؟ آئیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔

مظاہروں کا آغاز ۸ اکتوبر ۲۰۰۰ء سے ہوا جب تقریباً ایک ہزار کسانوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر پرامن دھرنا دیا۔ دو دن بعد یہاں رینجرز طلب کر لی گئی، رینجرز اہلکاروں نے نہتے کسانوں پر گولیاں برسائیں جس سے کئی لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ اگست ۲۰۰۲ء اور مئی ۲۰۰۳ء میں تین تین ماہ کے لیے اوکاڑہ کا محاصرہ کیا گیا، جس کے دوران مزارعین کا رابطہ دیگر علاقوں سے ٹوٹ گیا، حتیٰ کہ اشیائے خوردونوش اور ادویات کی دستیابی سمیت پانی کی فراہمی بھی بند کردی گئی جس کی وجہ سے فصل کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی اثناء میں ریاست مزارعین کو نیا معاہدہ ماننے پر مجبور کرتی رہی۔ جب ملک کے چند باضمیر لوگوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اوکاڑہ کا دورہ کیا تاکہ حالات جانے جاسکیں ۔ ایچ آرسی پی کا کہنا تھا کہ دسیوں مزارعین کے اہل وعیال کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا جسے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں قلمبند کیا ہے ۔

’’رینجرز نے ۵ کسانوں سمیت محمد اقبال نامی ایک دودھ فروش کو حراست میں لیا جس نے ادارے کو بتایا ہمیں میجر طاہر ملک نامی افسر کے سامنے پیش کیا گیا جس نے ہم سے پوچھا کہ ہم نے کنٹریکٹ کے پیسے کیوں جمع نہیں کروائے؟ ہم نے انہیں جواب دیا کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے۔اس کے بعد اس افسر نے ہمیں برہنہ کروایا اور ہم کو مار لگوائی یہاں تک کہ ہم لہولہان ہوگئے۔‘‘

۲۰۱۴ء میں یہ تنازع اتنا بڑھا کہ پاکستانی فوج ٹینکوں سمیت اوکاڑہ ملٹری فارمز میں داخل ہوئی اور طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں چک ۱۵ کے نور محمد کمبوہ مارے گئے اور کئی گرفتاریاں کی گئیں۔ اپریل۲۰۱۶ء میں انجمن مزارعین کے روحِ رواں مہر عبدالستار کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور اسی طرح انہوں نے بھی صعوبتیں برداشت کیں۔ بذریعہ پمفلٹس اور اشتہارات پروپیگنڈہ کروایا گیا اور اعلی حکام کو رپورٹیں ارسال کی گئیں کہ مہر عبدالستار کے القاعدہ اور ’را‘ سے رابطے ہیں۔ دو مرتبہ ہائی سکیورٹی جیل بھیجا گیا اور دونوں مرتبہ تین تین ماہ کے لیے بیڑیاں لگوائی گئیں اور چوبیس گھنٹے بیڑیوں میں ہی رکھا جاتا۔ بیڑیاں کھلوانے کے لیے انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو سپریم کورٹ میں لڑنا پڑا۔ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بنائے گئے اور اسلحے اور گرنیڈ اور غیر ملکی کرنسی کی برآمدگیاں ڈالی گئیں۔ ریاستی اداروں نے صرف کسانوں اور انکی انجمن کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کے ہمدردوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ایسے ہی ایک ہمدرد صحافی حسنین رضا ہیں جنہوں نے نہ صرف خود دو سال قید میں گزارے بلکہ ان کے والد کو بھی اوکاڑہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رپورٹ کرنے کے جرم میں قید میں ڈالا گیا، جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ بھی ضائع ہوگئی ۔ اپنے والد کی وفات کے بعد حسنین رضا نے رپورٹنگ شروع کی اور ان کے خلاف بھی اس ایشو پر خبر لگانے کے جرم میں دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹی گئی۔ بقول حسنین رضا ایک خبر لگانے پر ۶ صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بھی بنا۔ دورانِ قید انہیں آٹھ فٹ کے سزائے موت کے ایک سیل میں رکھا گیا اور ساتھ ہی ایک اہلکار بھی کھڑا کر دیا جو انہیں بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ کھانے کے نام پر مرچوں کا سالن اور سخت گرمیوں میں گرم پانی دیا جاتا تھا۔ سردیوں میں پتلا کمبل یا چادر دی جاتی تھی یا پھر میرے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر کہا جاتا تھا کہ مختلف جانوروں کی آوازیں نکالو۔ قید کے دوران انھیں پتہ چلا کہ ان کے بھائی کو میونسپل کے محکمے سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ حسنین کی دو بہنیں محکمۂ تعلیم میں ملازمت کرتی ہیں انھیں بھی مسلسل ہراساں کیا گیا، لعن طعن کی گئی اور بات یہاں تک آ گئی کہ انھوں نے محکمہ چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن ان کی والدہ نے ایسا نہ کرنے دیاـ

انجمن مزارعین پنجاب نے اپنی آواز کو بااثر حلقوں تک پہنچانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ۔ ایک پلیٹ فارم انہیں پی ٹی ایم کی صورت میں ملا جب ۲۰۱۸ء میں پی ٹی ایم لاہور میں ایک ریلی کا انعقاد کررہی تھی ۔اس موقع پر چک12/4L کی بتُول بی بی نے نیوز رپورٹر کو بتایا کہ وہ اپنی فصلوں کو بچانے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔اس تحریک میں شامل لوگ پاکستانی فوج سے اپنے حقوق اور بالخصوص اپنی زمین مانگ رہے ہیں۔ بتول بی بی نے کہا :

’’ہمارے آباؤ اجداد سیدھے لوگ تھے جو برطانوی راج کے دور سے ان زمینوں پر کھیتی باڑی کر رہے تھے۔ وہ اپنی زمینوں پر اُگائی ہوئی گندم بغیر کسی حیل و بحث کے بٹائی کے طور پر دے دیا کرتے تھے۔ لیکن ۲۰۰۱ءمیں ہم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ ہماری زمین ہے اور اس پر اگائی ہوئی گندم بھی ہماری ہے۔ اگر ہم یہ سب اٹھا کر فوج کو دے دیں گے تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟‘‘

تنازع کے نتیجے میں انیس سو لوگوں کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں مردوں سمیت خواتین بھی گرفتار ہوئیں ہیں۔ چک ۱۲ سے اب تک ۱۵ خواتین کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں۔بتُول بھی کئی بار گرفتار ہوئیں اور ساتھ ہی اپنے گھر والوں کو گرفتار ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ بقول بتول:

’’ہم خواتین اپنے مردوں کے سامنے آ جاتی تھیں تاکہ فوج اور پولیس جب دھاوا بولیں تو پہلے ہمیں لے کر جائیں۔ اس کے نتیجے میں کئی خواتین کی زبردستی طلاق کروائی گئی تاکہ وہ شرمندگی کے مارے گھر بیٹھ جائیں۔‘‘

اس تنازع کے سماجی اثرات یہ نکلے کہ ایک وقت میں مزارعین کی کئی لڑکیوں کی طلاق کروائی گئی تاکہ وہ شرمندگی سے گھر بیٹھ جائیں۔ اس بارے میں بتول نے کہا:

’’جب ہمارے داماد جیل کاٹ کرگھر واپس آئے تھے تو انھیں پکڑ کر زبردستی طلاق ناموں پر دستخط کروائے گئے جس سے لڑکیاں گھر بیٹھ گئیں۔‘‘

بتول نے بتایا کہ جب پولیس اور فوج نے سنہ ۲۰۱۴ء میں ان کے گاؤں کا گھیراؤ کیا تب انہوں نے اگلے گاؤں پیغام پہنچا دیا تھا۔

’’ہم نے انہیں کہہ دیا تھا کہ ہمارے گاؤں کی جانب مت آنا چاہے ہم زندہ رہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ہم سب خواتین ڈنڈے لے کر باہر نکل گئیں۔ کسی کا بازُو ٹُوٹا کسی کا سر پھٹا۔ فرق یہ تھا کہ ان کے پاس اسلحہ تھا اور ہمارے پاس ڈنڈے۔ جب ہم اتنی حد تک لڑ سکتے ہیں تو اتنی آسانی سے اپنی زمین بھلا کیوں دیں گے۔‘‘

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور حقوق خلق پارٹی کےصدر فاروق طارق کے مطابق:

’’جنرل مشرف کی آمریت کو چیلنج کرنے والی یہ پہلی عوامی تحریک تھی۔ یہ لوگ جلسے جلوس کرتے تھے، سڑکوں پر آتے تھے جو فوج، رینجرز اور پولیس کو نہیں پسند تھا۔اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی کئی بار پامالی بھی کی گئی۔ اوکاڑہ ملٹری فارم پر جب جرنیلوں سے ہمارے مذاکرات ہوئے تو انہوں ے کہا اس زرعی زمین پر ہمارا حق ہے۔ ہم نے جواب دیا کہ اگر کھیتی باڑی آپ نے کرنی ہے تو اپنے جہاز اور توپیں ہمارے حوالے کردیں۔‘‘

مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کے حق میں بیانات بھی دیے گئے لیکن وہ سب زبانی جمع خرچ ہی تھا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اوکاڑہ کے کسانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی زمین ان سے کوئی نہیں چھین سکے گا لیکن یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔

مزارعین وزیرِ اعظم عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں دیے گئے بیانات بھی یاد کرتے ہیں۔ خاص طور سے ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات کے دوران دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اوکاڑہ کے مزارعین کو حقِ ملکیت دیں گے۔ مزارعین کو یہ جدوجہد کرتے ہوئے دو دہائیاں بیت گئی ہیں، مہر عبدالستار عدالتوں سے خود کو بے گناہ ثابت کرواچکے ہیں، لیکن یہ جدوجہد تاحال کامیاب نہیں ہوئی اور لوگ ابھی بھی خوف میں مبتلا ہیں کہ کبھی بھی سکیورٹی ادارے دوبارہ کسانوں اور مزارعین پر کریک ڈاون کریں گے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مزاحمت کا بہرحال ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۱۹ءکی ابتدا میں فوج کو مجبوراً کہنا پڑا کہ وہ ان زمینوں کی ملکیت نہیں چاہتی بس کنٹرول ان کے پاس ہے، ملکیت پنجاب حکومت کی ہے۔ فوج کی طرف سے موجود نمائندے نے ۳۱ دسمبر کو اسلام آباد میں نیشنل کمیشن آف ہیومن رایٹس میں اوکاڑہ ملٹری فارمز کے حوالے سے ہونے والی ایک سماعت میں بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج اوکاڑہ ملٹری فارمز کی ملکیت چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’فوج کے پاس صرف زمین کا کنٹرول ہے۔‘‘ یہ دوسرا موقع تھا کہ مزارعین اور فوج کے ترجمان آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ اس سے قبل فروری ۲۰۱۷ء میں نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس میں اوکاڑہ انتظامیہ کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فوج اور مزارعین کے درمیان تمام تجاویز پر بات چیت کے بعد معاہدہ جلد طے پا جائے گا لیکن اس کے باوجود بہت سے کسان بٹائی دینے پر راضی نہیں ہوئے اور معاملہ جوں کا توں رہا۔ سال ۲۰۱۷ء کے اُس معاہدے پر ۱۲۵۰ دستخط ہونے تھے لیکن اتنے ظلم و جبر، گرفتاریوں، مقدمات اور ’جبری طلاقوں‘ کے سبب صرف ۱۲۶ دستخط ہی ہوپائے۔ کسانوں کی اکثریت اس معاہدے کے خلاف ہی رہی۔ صحافی وکالم نگار محمد حنیف نے لکھا:

’’پنجاب میں اچھی زمینوں کا کال ہے۔ افسران کی اگلی نسلوں کو دیے جانے والے پلاٹوں اور مربعوں کے لیے یہ زمین بہت ضروری تھی۔ پھر بھی فوج ۱۷ سال کی کوششوں کے باوجود مزارعوں سے قبضہ نہیں چھڑوا سکی۔ وسطی پنجاب کے لیے ملکیت یا موت کا نعرہ کچھ زیادہ ہی انقلابی تھا لیکن مزارعین کی مجبوری اور اس مجبوری کی وجہ سے بھڑکے ہوئے جذبات کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایک میلی دھوتی اور صافے میں ملبوس ۸۵ سالہ مزارع نے بتایا کہ وہ جب بچہ تھا تو یہ زمین جنگل تھی اور اس نے اپنے باپ دادا کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے اسے قابلِ کاشت بنایا تھا۔ اب ایک میجر ریٹائر ہوتا ہے تو اسے پلاٹ مل جاتا ہے اور یہ مجھے میرے کچے گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘

اوکاڑہ ملٹری فارمز کے تنازع کو اتنی تفصیل سے بیان کرنے کا سبب فوج کی ذہنیت اور نفسیات بتانا بھی تھا بالخصوص ان لوگوں کو جو اس فوج کے ظلم و استحصال کا حل پرامن (بےضرر) مزاحمت بتاتے ہیں۔ جس فوج کو تمام صوبائی حکومتیں آنکھیں بند کرکے لاکھوں ایکڑ زمین ایک اشارے پر نواز دیتی ہیں وہ فوج ان زمینوں کے قبضے کے لیے پستی کی کس حد تک چلی جاتی ہے۔ اور پھر ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ ریاست صنعتکاری کو فروغ دینے کے نام پر کوڑیوں کے مول (تقریباً مفت ہی) زمینیں سرمایہ کاروں کو الاٹ کردیتی ہے اور وہ نام نہاد سرمایہ کار بجائے فیکٹری لگانے کے اس زمین کو کچھ عرصہ رکھ کر کروڑوں کے منافع پر بیچ ڈالتے ہیں۔ جب یوں مفت زمینیں منظور نظر پراپرٹی مافیا کو بیچی جاسکتی ہیں تو ان کسانوں کو کیوں نہیں دی جاسکتیں جو ایک صدی سے ان زمینوں پر کاشتکاری کررہے ہیں؟

شریعت کا اس تنازع کے معاملے میں کیا حکم ہے ؟ علماء اور مفتیان کرام کو چاہیے کہ وہ اس کا حکم بیان کریں۔ شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق ؒایک مضمون ’’اہل پاکستان ؛ ایک فیصلہ کن دوراہے پر‘‘ میں مردہ زمین کی آبادکاری کے متعلق لکھتے ہیں :

’’شرعی نظام معاشرے کے عام افراد کو سوال کی ذلت سے بچانے، محنت سے حاصل کردہ کمائی کی عادت ڈالنے اور اس کی معاشی تنگی دور کرنے کے لیے حدیث نبوی ﷺّ میں مذکور یہ عظیم اصول دیتا ہے کہ:

من احیا ارضا میتتہ فھی لہ

جس کسی نے مردہ زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کی ہوگئی۔ (ابوداود، باب فی احیاء الاموات )

پس اسلامی نظام اقتصاد میں جو شخص بھی کسی غیر مملوکہ بنجر زمین پر محنت کرکے اسے آباد کرے خواہ وہاں فصل کاشت کرے یا رہائش کے لیے کمرے وغیرہ بنائے تو وہ زمین اس کی ملکیت ٹھہرے گی۔ گویا یہ حدیث زمین کو آباد کرنے کی شرط لگا کر زمینوں پر ناحق قبضے کا راستہ بھی بند کرتی ہے اور دوسری طرف ہر فرد کو محنت کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ایک وسیع موقع بھی فراہم کردیتی ہے۔ اب ہر فرد کو اس کی محنت کے بقدر حصہ ملے گا جو شخص جتنی زیادہ محنت کرکے جتنی بڑی غیر مملوکہ زمین آباد کرنا چاہے شرعا اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘

اللہ تعالی اہالیان پاکستان کو اس جبر و استحصال کے نظام کے خلاف اور اس نظام کی محافظ فوج کے خلاف کھڑے ہونے کی توفیق عنایت فرمائیں تاکہ اگر ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں اس ظلم سے محفوظ ہوکر اسلامی شریعت کے پاکیزہ نظام کی بہاریں دیکھ سکیں،آمین۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی حمایت کی حقیقت

Next Post

یہودیت کا جال

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
اے علمائے امت! کہیں قافلہ چھوٹ نہ جائے

یہودیت کا جال

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version