امتِ مسلمہ پر مشرق سے مغرب تک ایک نظر دوڑا لیجیے۔ آپ کو ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ ہے کفار کا مسلمانوں پر براہ راست یا بالواسطہ (indirect) ظلم و ستم ڈھانا۔ مسلمان مغرب میں مراکش سے لے کر فلسطین، کشمیر، ہند و برما، وزیرستان و مشرقی ترکستان تک آپریشنز، قید و بند اور قتل و غارت کا شکار ہیں۔ ان مختلف خطوں میں ڈھائے جانے والے مظالم میں بنیادی اور واضح وہ ہیں جو براہ راست کفار کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔ جیسے فلسطین پر صہیونی یہودیوں کا ظلم، کشمیر و ہند میں بھارتی ہندوؤں اور ان کی پشت پناہ ہندو انتہا پسند حکومت کے مظالم یا مشرقی ترکستان کے مسلمانوں پر چینی ملحدین کی طرف سے ڈھائے جانے والا ظلم۔ اب یہ تو واضح ہے کہ ہماری حکومتیں مقامی طور مسلمانوں کے ساتھ برپا ظلم کو تو ظلم ہی نہیں سمجھتیں کیونکہ اس کو تو برپا ہی انہوں نے خود کیا ہوا ہے لیکن جب اصلی کافر مسلمانوں پر ظلم کررہا ہو تو وہاں چند مجبوریوں اور مفادات کی خاطر ان کو ظلم کے خلاف کچھ لفظی بیان بازی کرنی پڑتی ہے۔ حق تو یہ تھا کہ ’’مسلمان حکومتیں اور ان کی مسلمان افواج ‘‘ مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لیے عملی اقدام اٹھاتیں لیکن اس کے لیے شرط وہی ہے جواس جملے میں پہلے بیان ہوا کہ ’’مسلمان حکومت اور مسلمان فوج‘‘۔ تو یہ حق تو ادا نہیں کیا جارہا البتہ جو لفظی ہمدردی اور حمایت کی جاتی ہےاس کی حقیقت کیا ہے ؟ ان شاءاللہ آج اس کی اصلیت پر بات کریں گے۔
عمومی طور پر ہمارے ہاں جب کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم کی بات کی جاتی ہے تو وہ چند امور سے مشروط ہوتی ہے۔ جس میں عالمِ کفر کے مفادات کے بعد سب سے پہلا نمبر قومی مفاد کا آتا ہے۔ قومی مفاد کا مطلب تو آپ جانتے ہی ہوں گے ’’ جرنیلی مفاد‘‘ کیونکہ یہا ں اصل قوم تو فوج ہی ہے اور اس کے اختیارات چند جرنیلوں کے پاس ہیں۔ ہمارے ہاں آپ کشمیر میں ہندو کے ظلم کے خلاف ایک حد تک’’جس کا تعین جرنیل کرتے ہیں‘‘ صرف بات کرسکتے ہیں۔ اس ہی طرح آپ فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے یہودی مظالم کے بارے میں صرف بات کرسکتے ہیں لیکن بالکل اس سے ملتی جلتی صورتِ حال سے دوچار مشرقی ترکستان کی مسلمان قوم سے آپ حمایت اس طرح نہیں کرسکتے جس طرح صرف لفظی طور پر کشمیری و فلسطینی مسلمانوں سے کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ قومی ’’جرنیلی‘‘ مفادات۔ تو پہلی بات لفظی حمایتی بیانات کے بارے میں یہ واضح ہوگئی کہ یہ حمایتی بیانیے ہمارے قومی ’’جرنیلی‘‘ مفادات کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں۔
دوسری بات ان لفظی بیانیوں کے بارے میں یہ ہے کہ اس میں حمایت کی مقدار اور اس کے حدود بھی ان کے اپنے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ مطلب مظلوم سے اگر لفظی بھی حمایت کی جائے تو وہ ایسے کرنی چاہیے جیسے مظلوم کو مطلوب ہو لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے اور حمایت وہ کی جاتی ہے جو ان ’’ جرنیلوں ‘‘ کو مطلوب ہو۔ ظاہر ہے وہ اس سے زیادہ تو بول نہیں سکتے جس کی ان کو ان کے آقاؤں ’’امریکہ و دیگر مغربی ممالک‘‘ نے اجازت دی ہو۔ اس کی تازہ و واضح مثال مسلمانوں پر یہودی ظلم کے مخالف فلسطینی قضیے کے بارے میں ان کا رسمی موقف ہے۔ پاکستان کا موقف بھی وہی اقوامِ متحدہ کی طرح دو قومی ریاستوں کے وجود کا ہے۔ یہ آپ نیٹ پر سرچ بھی کرسکتے ہیں بلکہ یہی بیان پاکستان کے جرنیل نواز عبوری وزیر اعظم نے حال ہی میں دیا۔ جبکہ فلسطینی مسلمانوں کا مطالبہ و جدوجہد یہ ہے کہ اسرائیل نام کی کوئی ریاست ہے ہی نہیں ۔ بلکہ یہ مکمل قبضہ ہے اور یہ پورا ملک فلسطین ہی ہے۔ تو یہ بھی واضح ہوا کہ موجودہ مسلم ریاستوں کا فلسطین کے ساتھ بیانات کی حد تک حمایت وہ حمایت نہیں جو بیانات کی حد تک بھی فلسطینیوں کو مطلوب ہو۔
تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہ جو لفظی حد تک نامکمل بیانات ہیں وہ بھی غبارے میں ہوا کی حد تک محفوظ ہیں۔ جیسے غبارے کو کانٹا لگنے سے ہوا نکل سکتی ہے یہ لفظی بیانیے بھی اس ہی طرح بدل سکتے ہیں۔ آپ حال ہی میں سعودی عرب و پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں یا اس پر گرم کیے گیے میڈیائی ماحول کو دیکھ لیجیے جو حماس کے حملوں کی دھول میں اس ہی میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیا جس ہی نے یہ ماحول گرم کیا ہوا تھا۔ سعودی عرب و اسرائیل کے مابین تو رسمی وفود کا آنا جانا ہوا۔ اسرائیلی وزیر برائے سیاحت ’’حائیم کاٹز ‘‘ نے ستمبر کے مہینے میں ریاض کا دورہ کیا اور اس ہی طرح سعودی ایمبیسیڈر ’’ نائف السدیری‘‘ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ جبکہ اسرائیلی کے عہدہ دیدار کا بیان ہے کہ سعودی سمیت چھ سات مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔ جس کے بعد سے میڈیا میں یہ سرگوشیاں تھی کہ اس میں ایک ملک پاکستان ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہو یا نہ ہو جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے ہیں لیکن ایک بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنے کے لیے باقاعدہ ذہن سازی کی جارہی ہے اور اس کے تانے بانے اسٹیبلشمنٹ سے ملتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے کی موجودہ لہر مشرف دور ہی میں تازہ ہوئی جب مشرف نے ۲۰۰۵ میں امریکی دورے کے دوران صہیونی وفد سے ملاقات کی اور ان سے تعلقات میں بہتری کے وعدے کیے۔ اس کے فورا بعد ترکی میں اسرائیلی و پاکستانی وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی اس کی اہم کڑی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک وہی ایک لابی’’اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی‘‘ اس مشن میں سرگرم ہے۔ سال ۲۰۲۱ء میں پی ٹی وی کے صحافی ’’احمد قریشی‘‘ کا، جس کو مشرف دور میں پروان چڑھایا گیا تھا، ایک پاکستانی و امریکی وفد کے ساتھ اسرائیل جانا ہو ا، اس کے بعد مشرف کے چہیتے ، مشرف دور کے وزیر برائے ترقی ، بعد کے پی سی بی چئیرمین ڈاکٹر نسیم اشرف کی سربراہی میں پاکستانی و امریکی شہریوں کا دورہ ٔ اسرائیل۔ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ وفود کس کی ایما و اجازت پر یہ دورے کررہے ہیں؟
اس کا جواب اس تحقیق سے مل جاتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ صرف سفارتی تعلقات کی بحالی میں یہ ذہن سازی نہیں ہورہی بلکہ دفاعی تعلقات میں بھی کافی پیش رفت ہوچکی ہے ۔جس سے اصل محرک کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستانی افواج نے پچھلے کچھ سالوں میں معمول کےخلاف صہیونی اسرائیلی افواج کے ساتھ کئی فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔ اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں؟ جی ہاں اس ہی اسرائیل کے ساتھ جس کو پاکستان رسمی طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ جن بحری جہازوں نے سمندر کی طرف سے غزہ کے محصور مسلمانوں کا محاصرہ توڑنا تھا وہ سال ۲۰۲۲ء میں انٹر نیشنل میریٹائم ایکسرسائز (IMX)میں اسرائیلی افواج کی شانہ بشانہ مشقیں کررہے تھے، جن جنگی فریگیٹس نے فلسطینی مسلمانوں کے لیے ضروری امدادی اشیاء جیسے خوراک و ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا وہ سال ۲۰۲۱ء میں ایکسر سائز سی بریز (Sea breeze) میں اسرائیلی بحریہ کے ساتھ مصروفِ تعاون تھے، جن ہوائی جہازوں نے قدس و غزہ کی حفاظت کرنی تھی وہ سال ۲۰۱۶ء میں ایکسر سائز ریڈ فلیگ (Aerial)میں اسرائیلی افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں کرکے اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار رہے تھے۔
تو یہ ہے شاخِ نازک پر کھڑا مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمارے جرنیلی حکومت کا ادھورا لفظی حمایتی بیانیہ جو کسی بھی وقت دھڑام سے مکمل گر سکتا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ پالیسی صرف ہم سے زمینی مسافت پر دور مظلوم فلسطین و اقصیٰ سے نہیں بلکہ اپنی شہ رگ کہلانے والے کشمیر کے ساتھ بھی معاملہ سو فیصد یہی ہے۔ آج جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو خبر موصول ہوئی کہ کشمیر ی جہادی تنظیم جیشِ محمد ﷺ سے تعلق رکھنے والے کمانڈر شاہد لطیف جو کشمیر میں ۱۶ سال قید رہ چکے ہیں کو ڈسکہ پنجاب میں ایک اور ساتھی کے ساتھ ’’ نا معلوم‘‘ افراد نے ٹارگٹ کلنگ کرکے شہید کر دیا(انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے راولپنڈی اور راولا کوٹ کشمیر میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی مجاہدین تھے جنہوں نے جہاد ِ کشمیر میں پاکستانی پالیسی’’ جرنیلی مفادات‘‘ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا لیکن پھر بھی۔ LOC پر باڑ لگانے کی اجازت دینا، مجاہدین کو روکے رکھنا، کشمیریوں کو تنہا چھوڑنا، پھر کشمیر کے اندر موجود مقامی مجاہدین کی جاسوسی کرکے ان کے رپورٹ بھارتی فوج کو دینا، یہ سب کافی نہیں تھا کہ اب ان لوگوں کو بھی بھارت کی خوشنودی کے لیے قتل کیا جا رہا ہے جو کبھی ماضی میں اس جہاد سے منسلک رہے؟
کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قتل RAW کروارہی ہے جس کا ISI کے ساتھ تعلق نہیں۔ تو جواب ہے کہ اگر RAW راولا کوٹ، راولپنڈی، ڈسکہ پنجاب اور کراچی تک اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے تو پھر تو ISI کو RAW کو اپنا پورا ملک حوالے کر دینا مبارک ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی ایسی حمایت کریں جو اللہ کو مطلوب ہو، جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور جو اپنی مفادات سے ماورا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا﴾
اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ تم کیوں ان مظلوم مسلمانوں کی نصرت میں ’’قتال‘‘ نہیں کررہے۔ کیا جواب دیں گے اس پہلے سے لکھے ہوئے سوال کا؟
میرے پاکستانی بھائیو! فلسطینیوں کی حمایت ہونی چاہیے لیکن اس طرح جیسے اللہ کو مطلوب ہے اور یہ ہمارے مقتدر ’’ جرنیل طبقے ‘‘ کو منظور نہیں۔ اس لیے اگر فلسطین کی وہ حمایت کرنی ہے ، وہ مدد کرنی جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، جو خود فلسطینی مسلمانوں کو مطلوب ہے، جس سے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرایا جاسکتا ہے تو اس مقامی امریکی غلام جرنیلوں اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ یہ نجات صرف ایک طریقے سے حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ ہے ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘۔ ہاں اس عمل سے ہم اپنے ملک کا اختیار، وسائل کا اختیار، اس جنگی سامان کا اختیار جو اس وقت اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں مصروف ہیں ، ان خائن و امریکہ غلام جرنیلی طبقے سے لے کر مخلص اور امت کے ساتھ ہمدرد قیادت کے ہاتھوں میں تھما سکتے ہیں۔
منزل تک اگر کوئی راہ جاتی ہوئی دکھ رہی ہے تو بس یہی ہے!
٭٭٭٭٭