میں جب بھی نعمان کو دیکھتا ہوں تو میرے دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے، رات گئے یہ بات زمیندار خدا بخش نے اپنے بیوی سکینہ سے کہی تو وہ ٹھنڈی آہ بھر کر کچھ دیر خاموش ہوگئی، پھر کہنے لگی تو چنتا نہ کر نعمان دے ابا؟ میری مان! کل تو اس کو چک نمبر سولہ کے مولوی عبدالغفار کے پاس لےجا، وہ کوئی نہ کوئی اس مسئلے کا حل نکال لے گا۔ میں نے رب نواز کمار کی بیوی سے سنا ہے کہ وہ بڑا پہنچا ہوا بندہ ہے، اس کے پاس جا کر دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔ تو فکر نہ کر اللہ خیر کرے گا، تو اب سوجا۔
خدا بخش زمیندار جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں میں سے ہر چیز سے نواز رکھا تھا، چار خوبصورت بیٹے ایک محبت کرنے والی بیوی، دو سوہنی بیٹیاں۔ وہ جانتا تھا بیٹیاں رب کی رحمت ہوا کرتی ہیں۔ دنیا کی ہر نعمت اس کے پاس تھی۔ گاؤں کی جامع مسجد میں وہ دن کی پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اور ہر سال اپنی فصل کی سب سے پہلے زکوٰۃ ادا کرتا۔ زمیندار اللہ تعالیٰ کا بار بار شکر بھی ادا کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا بندہ رب کا دیا ہوا کھائے، اس کی نعمتوں کا لطف اٹھائے، اور اگر اسی رب کی بندگی نہ کرے تو بڑی نا انصافی والی گل ہوتی ہے۔
اس کی بیوی سکینہ کا گاؤں نزدیک ہی تھا جس کو وہ تیس سال قبل اپنے گھر ویاہ کے لایا تھا۔ زمین میں دانہ بو کر فصل اگانا اور قریبی منڈی میں جا کر بیچ دینا اور پھر سے زمین کو کاشتکاری کے قابل بنا کر اگلی فصل کی تیاری میں جت جانا؛ یہ اس کو اپنے آباء واجداد سے ورثے میں ملا تھا۔
شادی کے بعد اللہ نے اس کو یکے بعد دیگرے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ کب کونپلیں پھوٹیں، کب دیکھتے ہی دیکھتے تن آور درخت بن گئے۔ بیٹے گویا اپنے باپ کا عکس تھے۔ اب اس کے چاروں بیٹے کڑیل جوان ہوگئے تھے۔ اس نے نزدیکی پنڈ میں جا کر بڑے دونوں بیٹوں کے لیے رشتے بھی مانگے، جو انہوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ کچھ دن بعد بارات نے ان کو لے کر آنا تھا۔ الغرض اس کے گھر میں سکھ اور چین ہی تھا۔ مگر اس کو کو کئی دنوں سے بس ایک ہی فکر دیمک کی طرح کھائے جا رہی تھی۔ وہ یہ کہ اس کا چھوٹا بیٹا نعمان آج کل کسی گہری سوچ وفکر میں گم سم رہتا تھا۔ نہ اس کو زمینوں کے معاملات سے دلچسپی تھی۔ بس مسجد کا ہو کر رب سے چپکے چپکے کچھ مانگتا اور اس کے حضور آہ وزاریاں کرتا رہتا۔ باپ سے اس کی یہ حالت چھپی نہ رہ سکی۔ پہلے پہل تو اس نے سوچا بچہ ہے، سنبھل جائے گا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نعمان کی خاموشی کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ باپ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے اسی سلسلے میں اپنے کچھ یاروں دوستوں کے ساتھ مشورہ بھی کیا مگر کسی کی بات اس کے دل کو نہ لگی۔ آج رات جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سکینہ کو بتائی تو وہ کہنے لگی؛ سوہنا پتر ہے، کہیں اللہ لوک نہ ہوں۔ وہ مولوی بڑی سرکار ہے، وہ دعا کرے گا، کچھ وظائف بتائے گا، مسئلہ حل ہو جائے گا۔
نمازِ عصر کے بعد گاؤں کے بڑے سے میدان میں جوانوں کا اکٹھ ہوجاتا۔ کوئی لنگوٹ کَس کر کبڈی کھیلتا تو کوئی والی بال۔ گاؤں کے نوجوان بدلتی رتوں میں نت نئے فیشن اپناتے۔ کبھی لٹھ مار کے چلتے تو کبھی مختلف رنگوں کی اجرک کندھوں پر سجائے ٹولیوں کی صورت گھومتے۔ بیلی نعمان کو اپنے ساتھ چلنے کا کہتے مگر آج کل وہ انکار کردیتا۔ یار بیلی زبردستی اس کو اپنے ساتھ کھیل کے میدان میں لے جاتے، وہ کھیلتا تو سہی مگر خیالوں ہی خیالوں میں کہیں اور نکل جاتا۔ وہ جان گیا تھا کہ ہمارا میدان یہ نہیں ہے جہاں ہم نے کھپنا اور تھکنا ہے۔ امت کے مقبوضات کی آزادی کے لیے گاؤں کے ان میدانوں کو ویران ہونا پڑے گا۔
نمازِ فجر کے لیے جب خدابخش اٹھا تو دیکھا کہ اس کا بیٹا نعمان بھی جاگ رہا ہے۔ اس کی آنکھیں اور چہرے کی طمانیت بتارہی تھی کہ رات اس نے مصلے پر رب کے حضور رازونیاز کرتے ہوئے گزاری ہے۔ بے اختیار اس کا جی چاہا کہ اس کو سینے سے لگالے اور کہے؛ میرے دل کے ارمان! مجھے بتا تجھے کس کی نظر لگ گئی؟ کیوں آباد دنیا میں ویران ویران گھومتا ہے؟
نعمان نے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت چاہی؛ السلام وعلیکم بابا! میں آجاؤں؟ یہ آواز سن کر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا وہ کہنے لگا؛ آجاؤ پتر! ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔ نعمان اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تو خدا بخش بولا؛ میں نے سوچا کہ چک سولہ کے مولوی عبدالغفار کے پاس چلتا ہوں کام ہے۔ سوچا تجھے بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ شاباش پتر! تیاری کرلے، جب تک میں گاڑی نکالتا ہوں۔
جب وہ گاڑی لے کر نکلا تو نعمان بھی آگیا۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ مولوی صاحب مسجد میں بیٹھے لوگوں کو درسِ قرآن دے رہے تھے۔ مولوی صاحب نے مسجد میں جب نووارد کر دیکھا تو حلقۂ قرآن کو مختصر کردیا اور ایک بچے کو گھر سے چائے لانے کا اشارہ دے دیا۔
مولوی صاحب ایک بارعب شخصیت تھے۔ نورانی چہرہ، متبسم گفتگو کرنے والے۔ پہلی نظر میں ہی ایک درویش صفت انسان دکھتے تھے۔ خدا بخش نے مولوی صاحب کو جب گفتگو کرتے دیکھا تو اسے یوں لگا کہ جیسے کوئی شفیق بزرگ بول رہا ہو۔
درس سے فراغت کے بعد مولوی صاحب کہنے لگے؛ بتائیے جی! کس سلسلے میں آنا پڑا؟ زمیندار نے نعمان کو باہر بھیج دیا اور پھر اپنی بپتا شروع کردی۔ زمیندار رو رو کر کہنے لگا؛ مولوی صاحب! میرے چاند کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ ہنستا مسکراتا میرا نعمان کہیں کھوگیا ہے۔ مجھے لوکی کیندے نیں پتر تے جادو ہوگیا یے (مجھے لوگ کہتے ہی کہ تیرے بیٹے پر جادو ہوگیا ہے)۔ مولوی صاحب نے اطمینان سے اس کی روداد سنی۔ لڑکا اتنے میں چائے لے کر آگیا۔ انہوں نے باہر بیٹھے نعمان کو بھی اندر بلا لیا۔ سب نے مل کر چائے پی۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے نعمان سے علیحدگی میں گفتگو شروع کی۔ جب نعمان سے مجلس کا اختتام ہوا تو مولوی صاحب فرطِ محبت سے اٹھے اور خدا بخش کو گلے لگا کر کہنے لگے؛ تجھے مبارک ہو خدا بخش! جا اپنے مقدر تے خوشیاں منا، یہ پوری طرح صبغتہ اللہ کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ تو ہن میری اک گل سن وے زمیندار آ پتر نوں روکیں ناں تے تنگ وی ناں کر (جاؤ اپنے مقدر پہ خوشیاں مناؤ، میری ایک بات سنو تم اس کو روکنا نہیں اور نہ ہی تنگ کرنا)، جا تیری مراد پوری ہوگئی۔
خدا بخش واپس آگیا۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مولوی صاحب نے جو بھی باتیں کہیں تھیں، وہ اس کے اوپر سے گزر گئی تھیں۔ بس دو باتیں یاد تھیں؛ صبغتہ اللہ اور روکیں ناں۔
دوپہر کا وقت تھا۔ چارسو لہلاتے ہوئے گندم کے سنہری خوشے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے۔ فصل کی کٹائی کے دن قریب ہی تھے۔ کڑکتی دھوپ میں خدا بخش اپنے ڈیرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک مزارعہ اسلم ہانپتا کانپتا پہنچا اور ایک ہی سانس میں کہنے لگا؛ زمیندار صاحب! اپنی گندم کی فصل میں بیلوں کی جوڑی گھس گئی ہے، اس نے فصل کا کافی نقصان کردیا ہے۔ ہم لوگ نکالنے کی کوشش کر کر کے تھک گئے ہیں مگر بیل فصل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ خدا بخش نے یہ بات سنتے ہی جوتی پہنی اور کھیتوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ اردگرد کام کرتے لوگوں کو بھی اس نے بلالیا۔ سبھی نے ڈنڈے مار مار کر بیلوں کی اس منہ زور جوڑی کو بالآخر فصلوں سے نکال ہی دیا۔
تھکن سے چور خدابخش واپس آکر اپنی چارپائی پر دوبارہ بیٹھ گیا اور اپنی چادر سے پسینہ پونچھنے لگا۔ ندی سے نعمان وضو کرکے اپنے باپ کی طرف آیا اور آکر چارپائی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا؛ بابا! تھوڑی دیر پہلے فصلوں کی طرف لوگوں کا شور تھا، کیا وجہ تھی؟ خدابخش نے جواب دیا؛ پتر! پکی ہوئی گندم کی فصل میں منہ زور بیلوں کی جوڑی گھس گئی تھی، سب مل کر اس کو نکال رہے تھے۔ نعمان بولا؛ بابا جان! ان منہ زور بیلوں کو گندم کی اسی پکی ہوئی فصل میں رہنے دیتے تو اتنی تھکن نہ ہوتی۔ خدا بخش کہنے لگا؛ پترا! اگر ان منہ زور جانوروں کو فصلوں میں رہنے دیں تو یہ فصلیں اجاڑ کر دکھ دیں اور لوگوں کو گندم کا ایک دانہ بھی نہ ملے اور سبھی فاقوں مر جائیں۔ نعمان کہنے لگا؛ بابا! جب منہ زور جانور فصلیں اجاڑنے لگ جائیں تو جواں پتروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہیں۔ جب وحشی دریچوں تلک آجائیں تو ماؤں کے راج دلاروں کے لیے گھر میں بیٹھنے سے زیادہ چوڑیاں پہن لینا بہتر ہوتا ہے۔
خدا بخش کو یوں لگا جیسے سالوں کا بوجھ ایک جھٹکے سے اس کے کندھے سے اتر گیا ہو۔ وہ سرشاری کے عالم میں اٹھا اور کہنے لگا؛ ہاں پترا! تو ٹھیک کہتا ہے، جب وحشی دریچوں تلک آجائیں تو بہنوں کے آنچلوں اور دوپٹوں کو صافی نہیں بنایا جاتا اور نہ بہنوں کو ڈالروں کے عوض بیچا جاتا ہے۔ تُو ٹھیک کہتا ہے پترا جب طوفان آئے تو سر کو جھکانے کے بجائے اس سے ٹکرایا جاتا ہے۔
اس کو چک سولہ کے مولوی کی بات آج سمجھ آگئی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور بیٹے سے لپٹ گیا اور کہنے لگا؛ جا پتر جا! تیرا رب راکھا۔ چھیتی جا وحشی گھروں کو نہ روند دیں۔ جلدی جا پتر! تیرا رب راکھا، جلدی جا پتر! تیرا رب راکھا۔ وہ یہ کہتا رہا…… اس کو پتہ ہی نہ چلا کب اس نے مقبوضہ سرزمینوں پہ قابض درندوں کو نکالنے کے لیے، کب اس نے مقبوضہ مقدسات کی بازیابی کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑے کو روانہ کیا، کب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
٭٭٭٭٭