یومِ قیامت کی بعض تفصیلات
قیامت کا دن اگرچہ ایک دن ہی ہوگا مگر بہت پر ہیبت دہشت ناک دن ہوگا۔ یہاں ہم اس دن کی دہشت اور خوف کی کچھ علامات بیان کریں گے۔وہ علامات کے جن کے ذریعے ہمیں اس دن کی کٹھنائیوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
- اللہ رب العزت نے یوم قیامت کو ایک عظیم دن ، ثقیل دن اور مشکل دن کہہ کر بیان کیا ہے۔ یہ یوم قیامت کی وہ تعریفیں ہیں جو رب العزت نے خود بیان فرمائی ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ (سورۃ المطففین: ۴،۵)
’’ کیا ذرا بھی خیال نہیں کرتے یہ لوگ کہ بےشک وہ اٹھائے جانے والے ہیں ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لیے، وہ دن کہ کھڑے ہوں گے لوگ رب العالمین کے حضور‘‘۔
اور اللہ رب العزت نے اسے یوم ثقیل یعنی بوجھل، بھاری دن کہہ کر بیان فرمایا۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَهُمْ يَوْمًا ثَــقِيْلًا ﴾ (سورۃ الدھر: ۲۷)
’’ یہ لوگ تو بس دنیا سے دل لگائے ہوئے ہیں، اور اپنے آگے (آنے والے) ایک بھاری دن کو (بالکل) چھوڑے ہوئے ہیں‘‘۔
اور اللہ رب العزت نے اسے ’عسیر‘یعنی مشکل دن کہہ کر بھی بیان فرمایا ہے:
﴿فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ٘عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ ﴾ (سورة المدثر: ۹،۱۰)
’’ تو وہ دن بہت سخت دن ہوگا۔ کافروں پر وہ ہلکا نہیں ہوگا۔ ‘‘
- یوم حشر کی ہیبت اور مشقت کی ایک اور علامت، کہ یہ دن پرہول ہوگا، خوف سے پر ہوگا۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ﴾ (سورۃ الحج: ۱،۲)
’’ اے لوگو ! تقویٰ اختیار کرو اپنے رب کا ‘ یقیناً قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا، جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن (حال یہ ہوگا کہ) بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور (دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ) ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے ‘‘۔
تصور کریں کہ ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اوراسی حالت میں اسے پھینک دے گی، حاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی اور لوگ اس طرح بھاگ رہے ہوں گے گویا کسی نشے کی وجہ سے مدہوش ہوں مگر وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اس دن کی ہیبت ان کے ہوش اڑائے ہوئے ہوگی۔
اس قدر خوف اور ہیبت ہوگا اس دن کہ ظالم بس یک ٹک اوپر کی جانب دیکھ رہے ہوں گے گویا وہ سکتے میں ہوں، نہ ان کی آنکھیں گردش کرتی ہوں گی اور نہ ہی وہ پلک جھپکتے ہوں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ﴾(سورة إبراهيم: ۴۲،۴۳)
’’ اور اللہ کو اس سے بےخبر ہرگز مت سمجھ، جو کچھ (یہ) ظالم لوگ رہے ہیں۔ انہیں تو بس اس روز تک وہ مہلت دیئے ہوئے ہے جس میں نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی۔ وہ دوڑ رہے ہوں گے، اپنے سراٹھا رکھے ہوں گے، ان کی نظران کی طرف واپس نہ آئے گی اور ان کے دل بدحواس ہوں گے ‘‘۔
اللہ رب العزت ظالموں کا ذکر فرما رہے ہیں۔ ان کے دل خالی ہوں گے یعنی اس قدر ہلکے ہوں گے کہ اڑے جاتے ہوں گے اور اچھل کے حلق میں آگئے ہوں گے۔
ہم اللہ رب العزت سے استدعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو اس روز امن اور سلامتی عطا فرمائے۔
- یوم حشر کی ہیبت اور شدت کی اگلی علامت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہمارے جتنے بھی قریبی اور مضبوط رشتے ہیں، وہ تمام رشتے اور تعلقات جو انسان کو اس کے معاشرے میں مضبوط کرتے ہیں، والدین، بیوی، بھائی بہن، دوست…… قیامت کے دن ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا۔ وہ وقت اس قدر مشکل اور سخت ہوگا کہ یہ تمام رشتے اور تعلقات غائب ہوجائیں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ﴾ (سورة المؤمنون:101)
’’ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس روز نہ ان کے درمیان رشتے ناطے رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا‘‘۔
اس روز کوئی اپنے کسی رشتے دار اور تعلق دار کو نہیں پوچھے گا۔ دنیا کے تمام رشتے اور تعلق صور پھونکنے کے ساتھ ہی اپنی حیثیت کھو دیں گے، کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا اور کوئی اپنے سوا کسی دوسرے کی فکر نہیں کرے گا۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُيَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيه ِوَأُمِّهِ وَأَبِيه ِوَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ﴾ (سورۃ عبس: ۳۳ تا ۳۷)
’’ تو جب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز) ۔ اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے۔ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہوگی جو اسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی ‘‘۔
آپ اپنے بھائی سے بھاگیں گے ، آپ اپنے باپ اور ماں سے بھی بھاگیں گے اور اپنی بیوی بچوں سے بھی کیونکہ آپ کو صرف اپنی فکر لاحق ہوگی۔
- اس روز کے خوف و خطر کی چوتھی نشانی کافر کی یہ حرص ہے کہ وہ سزا سے بچنے کے لیے اپنے بدلے کچھ بھی دے ڈالے، وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگا۔ وہ کافر جو اللہ کی خاطر ایک روپیہ تک دینے کو تیار نہ ہوتا تھا، حتی کہ ایک لفظ بھی اللہ کے لیے کہنے کو تیار نہ ہوتا تھا …… اس روز کچھ بھی دے دینے کو تیار ہوگا۔ وہ دنیا و مافیھا دینے کو تیار ہوگا بشرطیکہ اسے سزا سے بچا لیا جائے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ (سورة يونس: 54)
’’ اور اگر ہر ہر ظالم کے پاس دنیا بھر کا (زرومال) ہو تو بھی اسے فدیہ میں دے دینا چاہے گا اور (اول اول) عذاب دیکھیں گے تو پشیمانی کو چھپائیں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر ظلم (ذرا) بھی نہ کیا جائے گا‘‘۔
تصور کریں اس شخص کا کہ پوری زمین جس کی ملکیت ہو اور وہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے وہ سب کچھ دینے کو تیار ہو۔ نا صرف یہ کہ وہ اس زمین کے بقدر سب کچھ دے ڈالنے کو تیار ہوں گے بلکہ جہنم کی آگ اور سزا سے بچنے کے لیے وہ اس سے دو گنا دینے کوبھی تیار ہوں گے۔اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ﴾ (سورة الرعد: 18)
’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں ، یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے‘‘۔
جہنم کی سزا سے بچنے کے لیے وہ ہر چیز کا دوگنا دینے کو تیار ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ﴾ (سورة آل عمران:91)
’’ ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے گو فدیے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے تکلیف دینے والا عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں ‘‘۔
تصور کریں کہ انسان کے پاس اگر سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہو تو وہ اسے صدقے میں دینے پر تیار نہیں ہوتا۔قیامت کے دن جب حقیقت سامنے آجائے گی ــ یہی تو مسئلہ ہے کہ ہم حقیقت سے ناواقف ہیں، ہم تو خواب کی کیفیت میں جی رہے ہیں، جیسے سلف میں سے کسی نے کہا کہ ’لوگ سورہے ہیں اور وہ اس وقت نیند سے جاگیں گے جب انہیں موت آجائے گی‘۔ ہم نیند کے عالم میں ہیں۔ بےشک ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں مگر ہم پھر بھی سوئے ہوئے ہیں اور ناواقف ہیں۔ ہم نے بہت کچھ روک رکھا ہے، ہم صدقات، اعمال صالحہ اور حسنات کو چھوڑے بیٹھے ہیں جبکہ قیامت کے دن جب کافر معاملے کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا تو وہ پوری دنیا تاوان میں دینے کو تیار ہوجائے گا، جبکہ آج اللہ رب العزت نے انسان سے اس کا مطالبہ نہیں کیا اور اسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ارشاد فرمایا:
يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَی لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْئٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَقُولُ أَرَدْتُ مِنْکَ أَهْوَنَ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَا تُشْرِکَ بِي شَيْئًا فَأَبَيْتَ إِلَّا أَنْ تُشْرِکَ بِي (صحیح بخاری)
’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب پانے والے سے پوچھے گا : اگر تمہیں روئے زمین کی ساری چیزیں میسر ہوں تو کیا تم ان کو فدیہ میں (اس عذاب سے نجات پانے کے لیے) دے دو گے؟ وہ کہے گا: ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تجھ سے اس سے زیادہ آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تو میرے ساتھ شرک پر مصر رہا‘‘۔
اللہ فرمائے گا کہ دنیا میں نے تو میں نے تجھ سے بہت کم کا مطالبہ کیا تھا، صرف اتنا ہی کہا تھا کہ لاالہ الا اللہ کہو، نماز پڑھو، روزہ رکھو، صدقہ و خیرات دو او رامت مسلمہ کی خیرخواہی کرو…… دنیا میں تو سونے سے بھری پوری دنیا دینے کا مطالبہ نہ تھا جبکہ آج تم اپنی جان بچانے کو وہ سب بھی دینے کو تیار ہو!!!مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ ہم آج کل کرکے ٹالتے رہتے ہیں اور اگر توجہ سے قرآن ہم پڑھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آگ میں جانے والوں میں سے بیشتر افراد کی چیخ و پکار محض اس وجہ سے ہوگی کہ وہ ٹال مٹول کرتے رہے اور وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کافر صرف مادی منافع تاوان میں دینے کو تیار نہ ہوگا بلکہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍۢ بِبَنِيْهِ وَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِيْهِ وَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُـــــْٔوِيْهِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ ثُمَّ يُنْجِيْهِ ﴾ (سورۃ المعارج: ۱۱ تا ۱۴)
’’ اس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘ اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا ‘اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ (فدیہ) اس کو بچا لے ! “۔
ہم یہ آیات پڑھتے ہیں مگر ان کا اثر نہیں لیتے۔ ان پر غور کریں، ان پر ایسے سوچیں گویا آپ اپنے بچوں بارے سوچ رہے ہیں، تصور کریں کہ آپ اپنے تمام بچوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں ایک عمارت میں بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیتے ہیں اور وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے بھڑکتے شعلوں سے جلتے بھنتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے رہتے ہیں…… انسان قیامت کے دن بعینہ یہی کرنے کو تیار ہوگا۔ ہم اپنے ہی بچوں کا آگ کا ایندھن بنانے پر راضی ہوں گے، نہ صرف بچوں کو بلکہ اپنے والدین کو، اپنے بھائیوں کو ، اپنے تمام مال و اسباب کو اور اپنی پوری برادری کو، اور ہم سونے سے بھری پوری دنیا بھی دے ڈالنے کو تیار ہوں گے …… کیوں؟ اپنے آپ کو جہنم کی آگے سے بچانے کے لیے، اپنی خلاصی کے لیے اور وہ بھی جہنم کی محض ایک جھلک دیکھ لینے کے بعد۔ جہنم کا ایک نظارہ انسان کی تمام سوچ اور فکر کی تبدیلی کا باعث بن جائے گا اور ہم کچھ بھی اور سب کچھ اس سے بچنے کے لیے دے ڈالنے کو تیار ہوجائیں گے اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب دیکھ رکھا تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا (سنن دارمی)
’’ اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رونے لگو ‘‘۔
جب ہم جان لیں گے تب ہم دنیا میں ٹھٹھے نہیں لگاتے رہیں گے۔ حسن بصری ایک مرتبہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو مزے سے قہقہے لگا لگا کر ہنس رہا تھا، حسن بصری نے اس سے پوچھا کہ کیا تجھے اللہ رب العزت نے جہنم سے نجات کی خوش خبری دے دی ہے؟ اس نے کہا: نہیں! پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا اللہ رب العزت نے تمہیں جنت میں داخلے کی ضمانت دے دی ہے؟ اس نے کہا نہیں! انہوں نے کہا کہ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ٹھٹھے لگارہے ہو اور عیش کررہے ہو؟ اگر یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی خاطر ہم اپنے والدین، اپنی بیوی، اپنے بچوں تک کو تاوان میں دینے کو تیار ہوں گے تو پھر اس دنیا میں ہمیں اس کی کچھ فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرنی چاہیے، کچھ نہ کچھ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم جتنی بھی کوشش کریں گے وہ کافی نہیں ہوسکتی، وہ مطلوب کے مقابلے میں قلیل ہی رہے گی۔ ایک صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے:
لَوْ أَنَّ رَجُلًا يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ مِنْ يَوْمِ وُلِدَ إِلَى أَنْ يَمُوتَ هَرَمًا فِي مَرْضَاةِ اللهِ لَحَقَّرَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (المعجم الكبير)
’’ اگر کسی آدمی کو اس کی پیدائش کے دن سے بڑھاپے میں اس کی موت تک ایک ایک لمحہ رضائے الٰہی میں منہ کے بل گھسیٹا جاتا رہے تب بھی قیامت کے دن وہ اسے کم تر اور حقیر سمجھے گا۔ ‘‘
پیدائش کے دن سے موت کے دن تک سجدے کی حالت میں نہیں، ذکر کی حالت میں بھی نہیں بلکہ منہ کے بل گھسیٹے جانا…… سوچیے ذرا! اسّی یا نوّے برس تک منہ کے بل گھسیٹے جانا اللہ رب العزت کی راہ میں…… اور جب قیامت کا دن حقیقت کے لبادے میں آموجود ہوگا تو یہ تمام برس اور ان کی مشقت انسان کی نگاہ میں حقیر معلوم ہوگی…… جب قیامت حقیقت بن کے سامنے آجائے گی……، یہی وجہ ہے کہ لفظ ’حق‘ کن چیزوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، موت حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں……یہ سب حقائق ہیں۔
- اس دن کے دہشت ناک ہونے کی ایک وجہ اس کی طوالت بھی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿…فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ ﴾ (سورۃ المعارج :۴)
’’ …ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ‘‘۔
یوم حشر ایک دن ہی ہے مگر ہمارے نزدیک وہ اس لیے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی طوالت پچاس ہزار برس کے برابر ہے۔ ایک دن پچاس ہزار برس کے برابر طویل۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت سے دعا مانگتے ہیں کہ ہماری زندگی کا بہترین دن وہ ہو جس دن ہم تجھ سے ملاقات کریں…… کیوں! کیونکہ وہ ایک دن ہی پچاس ہزار برس کے برابر طویل ہوگا۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا…﴾ (سورۃ النازعات: ۴۶)
’’ جس دن وہ اسے دیکھیں گے… ‘‘۔
آج وہ ہمارے سامنے نہیں ہے لہٰذا ہم اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اسے ہلکا لیتے ہیں، لیکن جب ہم یوم حشر کو دیکھیں گے تو کیا ہوگا؟ اللہ رب العزت ہمارے لیے وہ بیان فرما رہے ہیں جو ابھی پیش نہیں آیا اور جس نے مستقبل میں یقیناً پیش آنا ہے۔ قرآن ہمارے سامنے ماضی کی باتیں بھی بیان کرتا ہے اور مستقبل کی منظر کشی بھی کرتا ہے، اس طرح گویا یہ سب کہا جاچکا ہو اور یہ سب پیش آچکا ہو۔ اللہ رب العزت قرآن پاک میں ہمارے سامنے بعض مکالمے بیان فرماتے ہیں، بعض اہل جنت کے ساتھ ہونے والے اور بعض جہنمیوں کے ساتھ ہونے والے تاکہ ہمیں آگاہ فرمائیں کہ مستقبل میں کیا پیش آنے والا ہے۔ لہٰذا اللہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ کیا ہوگا جب لوگ یوم قیامت کو یوم حشر کو اپنی آنکھوں کے سامنے حقیقت بنا دیکھ لیں گے؟ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا ﴾ ( سورۃ النازعات: ۴۶)
’’ جس دن کہ اس کو دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے‘‘۔
جب وہ یوم حشر کو دیکھ لیں گے تو انہیں سمجھ میں آئے گا کہ دنیا کی زندگی کس قدر مختصر تھی۔ یوم حشر کی صرف صبح ایک ہزار برس سے زیادہ طویل ہوگی۔ ہم پچاس ہزار برس طویل دن کی بات کررہے ہیں، یعنی پانچ سو صدیاں، پانچ ہزار دہائیاں…… اس قدر طویل ہوگا وہ دن…… اور یہ دنیا جس میں ہم وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی ہمیں خواہش ہے اور اسی کے لیے ہم کوشش اور محنت کرتے ہیں، اسی کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں…… دنیا کی یہ زندگی اس روز بس ایسی معلوم ہوگی گویا ایک دوپہر یا ایک صبح…… جیسے چائے کا یا دوپہر کے کھانے کا وقفہ…… بس یہ اتنی ہی سی ہے۔یہ اس دنیا کی حقیقت ہے۔ یہ دنیا جس لائق ہے اس سے کہیں زیادہ ہم اس دنیا میں کھپا رہے ہیں ۔ کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے مگر یہی حقیقت ہے۔ ہمارا دعوی ہے کہ ہم دنیا کے لیے اس قدر محنت کرتے ہیں جس کی وہ سزاوار ہے اور آخرت کو اتنا دیتے ہیں جو اس کے لائق ہے۔ یہ درست ہے کہ مومن اللہ سے مانگتا ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ…… مگر اس کا کوئی تناسب بھی تو ہونا چاہیے۔ دونوں کو اتنا ہی حصہ ملنا چاہیے جتنا ان کا حق ہے۔ ہم دنیا میں کتنا رہ سکتے ہیں؟ ایک سو سال! اور یوم قیامت کتنا طویل ہے؟ پچاس ہزار سال، ان کے مابین ایک تناسب بنائیں اور پھر ہر ایک کو اس کا حق دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کررہے تھے تو فرمایا، ’’دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا وقت تمہیں یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اس قدر محنت کرو جس قدر تم نے وہاں رہنا ہے‘‘، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو بالکل ترک کردو مگر اسے اتنا ہی دو جتنا وقت تم نے اس میں رہنا ہے۔ تم نے اس دنیا میں ساٹھ، ستر یا اسّی سال رہنا ہے تو بس اتنا وقت اس دنیا کو دو جس میں اس ساٹھ ستر سال کی تیاری ہوجائے، اور گر تم نے آخرت میں لامتناہی وقت کے لیے رہنا ہے تو اسے اتنا وقت دو جتنا وہاں کی تیاری کے لیے ضروری ہے…… اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کررہے ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ ﴾ (سورۃ الروم: ۵۵)
’’ اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم لوگ قسم کھابیٹھیں گے (کہ) ہم لوگ تو ایک ساعت سے زیادہ رہے ہی نہیں۔ اسی طرح یہ لوگ الٹے چلتے رہتے تھے‘‘۔
وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں گھنٹہ بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے کیوں؟ کیونکہ انہیں یوم حشر میں ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے تین سو چار سو پانچ سو برس گزر چکے ہوں گے تو اس حال میں انہیں دنیا کی زندگی محض لمحے بھر یا گھنٹہ بھر کی ہی محسوس ہوگی۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭