نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پہلی قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

منصور شامی by منصور شامی
30 جنوری 2024
in اُسوۃ حسنۃ, جنوری 2024
0

زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید ﷫ کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ ﷫ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مجلے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو کھڑی قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)


مقدمہ

[از مفتی محمد متین مغل]

سیرت کا مفہوم

سیرت کا لفظی مطلب ہے :چلنے کا مخصوص انداز وطریقہ،لیکن شریعت کی اصطلاح میں اس کا عمومی استعمال غزوات اور اس سے متعلقہ واقعات و احکام میں ہوتا ہے،جیسے مناسک کا مطلب عبادت و قربانی ہے،لیکن اصطلاحِ شرع میں اس کا عمومی استعمال حج سے متعلقہ امور میں ہوتا ہے۔1

سِیَر؛ سیرت کی جمع ہے،اس کے لغوی معنی ہیں:سوانح ،وہ احوال جو زندگی میں پیش آتے ہیں،اور اصطلاحی معنی ہیں:اسلام کا حربی نظام،جہاد کے بھی اصطلاحی معنی یہی ہیں،امام بخاری نے یہ لفظ جہاد کے ہم معنی استعمال کیا ہے،امام ترمذی رحمہ اللہ نے صرف ’ابواب السیر ‘کہا ہے،اور امام بخاری نے دونوں کو جمع کیا ہے۔2

گوکہ لفظ سیرت کا استعمال رسول اللہ ﷺ کی پوری حیاتِ مقدسہ کے لیے بھی ہوتا ہے،اور حیاتِ مقدسہ کے احوال پر مشتمل کتابوں کو بھی سیرت کا نام دیا گیا،یہ کتب عربی اور اردو دونوں زبانوں میں موجود ہیں۔ البتہ محدثین کتبِ حدیث میں اور فقہاء بھی اپنی تالیفات میں کتاب الجہاد کے لیے کتاب السیر والمغازی کا عنوان باندھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدنی زندگی (جس میں احکام بکثرت نازل ہوتے رہے اور آخرکار دین کو مکمل کردیا گیا) میں رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا سب سے نمایاں اجتماعی پہلو ’جہا دفی سبیل اللہ‘ ہے۔ چنانچہ غزوات (یعنی وہ جنگیں جس میں رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے) کی کم ازکم تعداد انیس (۱۹) ہے اور یہ حضرت زید بن ارقمؓ کا قول ہے،اور سرایا (جن جنگی دستوں کے ساتھ رسول اللہﷺ تشریف نہیں لے گئے) کی کم ازکم تعداد پینتیس(۳۵) ہے اور یہ ابن عبد البر سے منقول ہے3۔ یہ کل چوّن (۵۴) جنگیں بنتی ہیں۔ربیع الاوّل یکم ہجری سے لے کر سنِ وصال گیارہ ہجری کے ماہ ِ ربیع الاول تک مدنی زندگی کی کل مدت ایک سو بیس (۱۲۰)ماہ [دس سال]بنتی ہے،اس کا مطلب ہے کہ ہر دوماہ بعد ایک جنگی دستہ روانہ کیا گیا۔جبکہ غزوات کی تعداد کے بارے میں مشہور قول ستائیس (۲۷) غزوات کا ہے،جس سے کل جنگوں کی تعداد باسٹھ (۶۲) بنتی ہے،یعنی ہر دوسرے مہینے جہاد ی لشکر کی روانگی۔ اللہ اکبر!

اور اگر سرایا کی بابت ابن جوزی کے قول چھپن (۵۶) سرایا کو لیا جائے تو کل جنگیں تراسی (۸۳) بنتی ہیں،یعنی ہر چالیس دن[چلے] کے بعد صحابہ کرام ؓ کا ایک جہادی لشکر مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتا تھا۔

اورآپ ﷺ کی یہ سب سرگرمی آپ کا فرضِ منصبی اور آپ ﷺ کے ’رحمۃ للعالمین‘ ہونے کا ہی ایک مظہر تھی ،کہ انسانیت کے دشمن اللہ کے باغیوں کا زور توڑ دیاجائے(حتیٰ لاتکون فتنۃ)،اسی لیے فرمایا:

أنا محمد وأحمدأنا رسول الرحمةأنا رسول الملحمة4

ترجمہ: میں محمد واحمد ہوں،اور میں رحمت والا اور خونریزجنگوں والا رسول ہوں۔

حضرت امام بخاری کی دقتِ نظر اور مزاجِ شریعت سے آشنائی کی داد دیجیے کہ آپﷺ کے مرضِ وفات اور وصالِ مبارک کاذکر بھی کتاب المغازی میں لائے ہیں ،یہ بتانے کے لیے کہ آپﷺ کی پوری مدنی زندگی قتال و غزوات سے عبارت تھی اور قیصر وکسریٰ کے نام آپﷺ کے دعوتی خطوط کا ذکر بھی کتاب المغازی میں کرکے حضرت امام بخاری ؓ نے دعوت وجہاد (بالخصوص جب کسی متکبر وسرکش کو دعوت دی جائے ) کا باہمی ربط سمجھا یا ہے ۔

لہٰذا سیرت یا دعوت ِ دین کا تصور جہاد کے بغیر یا جہاد میں من چاہی تاویلات کے ساتھ، سراسر استشراقی و قادیانی تصور ہے،جس کا اسلامی تاریخ و ذخیرۂ علم میں کوئی وجود نہیں،اسکولوں میں پڑھائی جانے والی سیرت کی کتب بالعموم اسی ناقص اور مسخ شدہ تصور کی چھاپ لیے ہوتی ہیں،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معتبر علماء کی تحریر کردہ کتبِ سیرت بچوں کو سبقاً سبقا ًپڑھائی جائیں، مثلا:مولانا ادریس کاندھلوی کی سیرت المصطفیٰ اور مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی الرحیق المختوم (اردو)۔

اور اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ سیرت ِ رسول ﷺ کے جلسوں میں سوائے جہاد کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے،سو ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم دین کو پورا پورا لیں،انفرادی و اجتماعی ہردوسطح پر اسی کی تبلیغ ،تعلیم ،تنظیم اور تنفیذ کی کوشش کریں۔

چونکہ جہاد و سیرت باہم مترادف ہیں،اس لیے ان سطور کے مقصودِ اصلی (غزوات سے نکلنے والے فکری ،منہجی، فقہی اور حکمتِ عملی کے نکات واحکام ) سے پہلے اس جہاد کی ہی کچھ تعریف وضاحت کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

’’جہاد کے لغوی معنی ہیں : کسی کام میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا ،اور اصطلاحی معنی ہیں:اللہ کے دین کا بول بولا کرنے کے لیے کفار سے لوہا لینا[جنگ کرنا]،اپنے خون کا آخری قطرہ بہانا۔5

قرآنِ کریم میں لفظِ جہاد کااستعمال:

جہاد کے لغوی معنی جد وجہد اور مشقت اٹھانے کے ہیں،اور قرآنِ کریم میں یہ لفظ کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور کہیں اصطلاحی معنی میں،جہاں صرف لفظِ جہاد یا اس کے بعد ’فی ‘ ہے اور اس کے بعد کلمہ’ اللہ‘ یا’اللہ‘ کی طرف لوٹنے والی ضمیر ہے تو وہاں لغوی معنی مراد ہے،جیسے:

وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ

ترجمہ: اللہ کے دین کے لیے تن توڑ محنت کرو جیسا کہ اس کے لیے محنت کرنے کاحق ہے۔[الحج]

یہاں عام[لغوی] مراد ہیں اور :

والذین جاھدوا فینا

ترجمہ: جو لوگ ہمارے دین کے لیے جان توڑ محنت کرتے ہیں[العنکبوت]

ان جگہوں میں مفسرین لفظ ’دین‘ محذوف مانتے ہیں،ای جاھدو ا فی دین اللہ اور جاھدو افی دیننا۔

اور جہاں جہاد کے بعد ’فی سبیل اللہ ‘ آیا ہےوہاں اصطلاحی معنی مراد ہیں،سورہ توبہ میں جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے قرآنِ کریم کے پہلے مترجم حضرت شاہ عبد القادرصاحب رحمہ اللہ نے اور ان کی اتباع میں حضرت شیخ الہند قدس سرہ نے ’لڑنا‘ترجمہ کیا ہے، مگر تبلیغی جماعت والے ان آیات کو بھی عام کرتے ہیں،بلکہ اپنے ہی کام کو اس کا مصداق بتاتے ہیں، یہ کسی طرح درست نہیں،اگر اس طرح ہر جگہ لفظوں کے لغوی معنی لیے جائیں گے تو نماز،زکوٰۃ ،روزے اور حج بھی ختم ہوجائیں گے،صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں: دعا،زکوٰۃ کے لغوی معنی ہیں:صفائی، صوم کے لغوی معنی ہیں: رکنا اور حج کے لغوی معنی ہیں:قصد کرنا، پس ارکانِ اربعہ ختم،حالانکہ یہ الفاظ لغوی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں، مگر جہاں اصطلاحی معنی ہیں وہاں اصطلاحی معنی ہی مراد لینے ہوں گے، اسی طرح جہاد ایک اسلامی اصطلاح ہے،حدیث کی کتابوں میں ’ابواب الجہاد‘آتے ہیں،وہاں یہی اصطلاحی معنی مراد ہوتے ہیں،اور فقہ میں ’کتاب السیَر ‘آتی ہےوہاں بھی یہی معنی مراد ہوتے ہیں، پس قرآن وحدیث میں ہر جگہ عام معنی مراد لینا اور دین کے لیے ’کسی بھی محنت ‘ کو ’جہاد‘ کہنابلکہ ’اپنے ہی کام ‘کو جہاد کہنا یہ نصوص میں تحریف ہے،لوگوں کو اس سے بچنا چاہیے۔

جہاد کا مقصد:

اسلام میں جہاد کے دو مقصد ہیں:

اول: کفر کی شوکت توڑنا اور فتنہ فرو کرنا۔

دوم:اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرناْ۔

’’دین پھیلانا‘‘ جہاد کا مقصد نہیں، پس جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہےیہ قطعاً غلط ہے،اللہ کا ارشاد ہے:

لااکراہ فی الدین

ترجمہ: دین کے معاملے میں زور جبر نہیں۔[البقرۃ]

کوئی شخص اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہے تو اس کے لیے پوری آزادی ہے،مگر اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون چلنا چاہیے، یہ جہاد کا بنیادی مقصد ہے اور پروپیگنڈے کا جواب یہ ہے کہ اگر جہاد کایہ مقصد ہوتا کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایاجائے تو جزیہ کا حکم نہ ہوتا،جنگ کے وقت کافروں کے سامنے تین باتیں پیش کی جاتی ہیں: اسلام لے آؤ،ورنہ جزیہ ادا کرو،ورنہ لڑو،اگر جہاد کامقصد بزورِ شمشیر مسلمان بنانا ہوتا تو جزیہ کا حکم نہ ہوتا۔6

[یہاں سے شیخ منصور شامی کا مقالہ شروع ہوتا ہے]

تمہید

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وآلہ وصحبہ ومن تبعہم باحسان الیٰ یوم الدین،وبعد:

رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی اتباع کا وجوب

اللہ تعالیٰ کی ہم پر بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے حبیب ﷺ کو رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ،جو خوشخبری بھی سناتے ہیں اور خبردار بھی کرتے ہیں،سیدھا راستہ دکھاتے ہیں اور جہنم کے راستے سے بچاتے ہیں،ارشادِ باری ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(آل عمرآن)

ہمارے آقا حضرت محمد بن عبد اللہ ﷺ کی پوری زندگی ،آپ کے جملہ افعال واقوال اور حرکات وسکنات ہدایت کا روشن چراغ تھیں ،ہیں اور تاصبحِ قیامت رہیں گی۔

آپ ﷺ نے پوری امت کو خیر پہنچانے اور شر سے بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام بلاکم وکاست پورا پورا پہنچا دیا اور امانت کا حق ادا کردیا۔

کلمۂ شہادت کا دوسرا جز آپﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور اس کی گواہی دینا ہے،آپﷺ کی رسالت کو جانے، مانے اور اس کا اقرار کیے بغیر کسی کا ایمان معتبر نہیں،سچے دل سے اس کی گواہی دینا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔

آپﷺ کی رسالت و ختمِ نبوت پر ایمان لانے کی وجہ سے ہم مسلمانوں پر آپﷺ کے بہت سے حقوق و واجبات ہیں،جو آپﷺ کی شانِ عالی کے مطابق ہیں،ان میں سرِ فہرست آپﷺ کی محبت اور ایسی اطاعت و اتباع ہے کہ دل میں آپﷺ کی سنتوں اور آپ کی لائی شریعت کے احکام کی بابت ذرہ برابر تنگی،شک اور اعتراض باقی نہ رہے۔

اپنی محبت کی بابت خود آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے: (تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں)۔

اور یہ بھی ارشاد فرمایا: (یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس (مزہ) پائے گا، اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور جس کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ ہی کے لئے کرے اور کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو)۔ (صحیح بخاری ،کتاب الایمان)

محبت کا یہ کامل درجہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا،خوئے تسلیم ورضا کے حامل کم ہی لوگ اسے پانے میں کامیاب ہوتے ہیں،حبِّ رسالت کا یہ رتبہ خالص توحید والوں کوہی نصیب ہوتا ہے۔

[ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں!]

تمام مسلمانوں بالخصوص مجاہدین کے لیے سیرت کو جاننے کی اہمیت

یقینا ہر دعویٰ ثبوت کے لیے دلیل مانگتا ہے،حبِ رسالت کا جذبہ بھی دل میں پنہا ں ہوتا ہے، سو اس دعوے کے اثبات کے لیے بھی دلیل کی ضرورت ہے،اور یہ دلیل خواہش و عقل کی غلامی سے نکل کر اپنے آپ کو آپﷺ کی مطلق وکامل غلامی میں دے دینا ہے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا

نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر ِتسلیم خم کردیں۔

حبِ رسول ﷺ اور اتباعِ اسولﷺ کے لیے آپﷺ کے لائے دین وپیغام کو سمجھنا ضروری ہے،آپ ﷺ کی زندگی کے واقعات،صلح و جنگ کا طریقہ، دعوت وجہاد کااسلوب،آپ ﷺکا حلیہ مبارک اور عاداتِ شریفہ،آپ ﷺ اور آپﷺ کی قوم کے احوال،آپ ﷺکے آبائی وطن اور آپﷺ کے بچپن کے حالات وغیرہ۔۔ان سب کو جاننا ضروری ہے۔[عموما کتبِ سیرت میں یہی موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں،ان واقعات سے نکلنے والے احکام کے لیے الگ سے کتابیں لکھی گئی ہیں] جب بھی انسان کسی صاحبِ علم وفضل کی سیرت کا گہرائی سے مطالعہ کرتاہے تو اس کے دل پر صاحبِ سیرت کی محبت و عظمت نقش ہوجاتی ہے اور وہ بھی اُس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب عام آدمی کی سوانح پڑھنے سے اتنا زیادہ اثر ہوتا ہے تو خود ہی سمجھ لیں کہ کُل اولادِ آدم کے سردار حضرت محمد رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ پڑھنے والے کو کیسے خزانوں اور پاکیزہ جذبات سے مالامال کردے گا!

سچا مومن تو آپﷺ کی محبت میں آپﷺ کی اتباع کی خاطر آپﷺ کی سیرت کے مہکتے گلستاں سے زیادہ سے زیادہ خوشہ چینی کا متمنی ہوتا ہے، اس سے حبِ رسول ﷺ،تعظیمِ رسولﷺ کے جذبات کو مہمیز ملتی ہے،ایک مسلمان کے لیے بہت بڑی محرومی کی بات ہے کہ وہ اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی سیرت سے لاعلم و جاہل ہو۔

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے فہم اور اس پر عمل پیرا ہونے کی بابت مجاہد و غیر مجاہد کا فرق

ایک عام مسلمان بھی آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کا علم حاصل کرنے کا محتاج ہے، لیکن اہلِ جہاد کے لیے اس کی ضرورت دوچند ہے؛ کیونکہ انہوں نے اللہ کے دین اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کے دفاع کا بیڑا اٹھا رکھا ہے،اور اپنے قلم وتلوار سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تاریخ ِ انسانی کی سب سے بڑی جنگ سے گزررہے ہیں،آزمائش کی بھٹی میں تپ رہے ہیں، پے درپے مصائب سے دوچار ہیں،لیکن یہ سب تکلیفیں اور آلام نصرتِ الٰہی کا پیش خیمہ ہیں۔ان شاء اللہ

البتہ اس راہِ پرخار پر چلنے کے لیے زادِ سفر بھی ضروری ہے اور نمونۂ عمل بھی،تاکہ صحیح راستے پر درست سمت سفر جاری رہے۔کیونکہ دشمن ہر طرح کے حربے آزماتا ہے،مجاہدین کو ان کے موقف سے ہٹانے کے لیے ترغیب و ترہیب ،سختی و نرمی،جنگ ومذاکرات کا سہارا لیتا ہے، اس سے بھی کام نہ بنے تو بزدلی ،بے حمیتی اور مداہنت کو حکمت ،مصلحتکا نام دے کر مجاہدین کے خلاف رائے عامہ کو بھڑکاتا ہے۔ غرض شیاطینِ انس وجن ہر دن سازش کا ایک نیا جال بُن کر لاتے ہیں۔

ان کڑے حالات میں رسول اللہﷺ اور آپ کے پیارے صحابہ کی سیرت مجاہدین کے لیے تسلی اور تشجیع کاباعث ہوتی ہے،صبر وثابت قدمی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر قربانی کے واقعات آج بھی مجاہدینِ اسلام کا حوصلہ بڑھاتے ہیں،چنانچہ وہ ہر مصیبت کو ہنس کر جھیل لیتے ہیں۔واقعات سے تربیت و تشجیع کا طرز خود قرآن سے ثابت ہے،ارشادِ باری ہے:

وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ

(اور ( اے پیغمبر) گزشتہ پیغمبروں کے واقعات میں سے وہ سارے واقعات ہم تمہیں سنا رہے ہیں جن سے ہم تمہارے دل کو تقویت پہنچائیں۔)

ایک لمحے کے لیے غور کیجیے !مسلمان پہلے کم ،کمزور ،بے سروسامان اور بے آسرا تھے،سارا عرب بشمول اپنے قبیلے قریش کے‘ ان کا مخالف تھا،لیکن پھر صبرِ پیہم اور مسلسل قربانیوں کے نتیجے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوگیا،اللہ کا کلمہ بلند ہوا اور فتحِ مبین حاصل ہوئی،ارشادِ باری ہے:

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ

(اور وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے، تمہیں لوگوں نے (تمہاری) سرزمین میں دبا کر رکھا ہوا تھا، تم ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک کرلے جائیں گے۔ پھر اللہ نے تمہیں ٹھکانا دیا، اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط بنا دیا، اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا، تاکہ تم شکرو کرو۔ )

یہ ایمان افروز واقعات مجاہدین کی تمام تر بے سرو سامانی کے باوجود اُن میں امید کی ایک تازہ روح پھونک دیتے ہیں،اگر چہ مجاہدین کا ساتھ دینے والے آج بھی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں،کفر اپنے مرتد غلاموں سمیت ان کے خلاف برسرِ جنگ ہے،لیکن انہیں یقین ہے کہ اللہ جل جلالہ نے جس طرح گذشتہ مومنوں کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کیا،ان کے ساتھ کیے اپنے وعدے کو بھی پورا کرے گا۔

سیرت کا مطالعہ بندۂ مومن کو دورِ رسالت میں لے جاتا ہے ،جہاں وہ تمام واقعات کو اپنے اوپر گذرتا ہوا محسوس کرتا ہے،خوشیوں پر خوش اور غموں پر غمگین ہوتا ہے، مجاہدین دوسروں سے بڑھ کر اس ’زندہ صحبت‘ کا شعور رکھتے ہیں، کیونکہ مجاہدین کی زندگی رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگی کا حقیقی پرتو ہے۔سیرتِ رسول ﷺ کا ورق ورق اللہ کے راستے میں قربانیوں، ہجرت و جہاد کے واقعات ،شہداء کے مشک بار لہو، زخمیوں کی تکالیف اور قیدیوں کی آزمائش کی سچی داستانوں سے عبارت ہے۔

سو جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے سیرتِ رسولﷺ کی درست حقیقت تک پہنچ ہی نہیں سکتے، ان کا فہمِ سیرت مسخ شدہ نہ بھی ہو تو کم از کم ناقص ضرور ہوتا ہے۔الا من رحم اللہ

بھلا جو شخص موت سے ترساں ،دنیا پر سو جان سے شیدا اور آسائش کا خوگر ہو وہ صبر و ثابت قدمی،صدق ویقین ،مومنوں سے محبت اور کا فروں سے دشمنی جیسے حقائق کو کیونکر سمجھ سکتا ہے!حالانکہ یہی تو حید کی حقیقت بھی ہے اور سیرت کا نمایاں ترین پہلو بھی۔

[بقول شاعر:

تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا

مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزہ دیا]

سو جہا د سے پیچھے بیٹھ رہنے والے(جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں ) یہ بات سن لیں کہ زمین سے چپک کر اور جہاد کے میدانوں سے فرار اختیار کرنے کے ساتھ وہ کبھی بھی سیرتِ رسولﷺ کو نہیں اپنا سکتے،اپنے جوہرِ ایمان کو چمکانے اور تقویٰ کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ’کرہ لکم‘ کے مصداق اس کانٹوں بھرے راستے پر چلنا ضروری ہے،ورنہ ان کا حبِ رسولﷺ کا دعویٰ محض جھوٹ کا پلندہ ہی شمار ہوگا۔

جہاد ہی کا راستہ توحید کا بھی واضح راستہ ہے،رسول اللہ ﷺ کی زندگی [جس کا ایک نمایاں پہلو جہاد ہے]اسی توحید کا عملی نمونہ ہے،توحید مجمعوں سے کیے جانے والوں خطابوں اور درسگاہوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کانام نہیں ،بلکہ تو حید تو یہ ہے کہ پوری زندگی اللہ جل جلالہ کے لیے ہوجائے،خواہ اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ارشادِ باری ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

کہہ دو کہ : بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

[بقول شاعر:

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

 

مقصدِ تحریر

ہم اپنے معزز قارئین کی خدمت میں گلستانِ سیرت کے چند پھول پیش کررہے ہیں،درجِ بالا سطور مقدمہ و تمہید ہیں،اس تحریر میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ سیرت کا جو پہلو ہماری آج کی ’زمینی حقیقت ‘ پر منطبق ہوتا ہو تو اس کی عملی تطبیق کریں،اپنی بساط کی حد تک شرعی اور تاریخی دلائل بھی ہم نے جمع کیے ہیں۔

ہمارا مقصود بندۂ مومن کو سیرتِ رسول ﷺ سے روشناس کرانا ہے،تاکہ بلند اخلاقی قدروں سے وہ اپنے کردار کو اُجلا کرے،زمینی حقائق اور اپنے گرد وپیش کفار کے ہتھکنڈوں سے واقف ہو اور ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی سیکھ لے،نورِ سیرت سے اس کے سامنے راستہ روشن ہوجائے،دشمن کے دام میں پھنسنے اور ان کے کھودے گڑھے میں گرنے سے محفوظ ہوجائے۔

ان اوراق میں ہمارا مقصود سیرت کے تمام واقعات کا احاطہ کرنا نہیں،نہ یہ چنداوراق اس کے متحمل ہیں،بلکہ ہم سیرت کے انہی ابواب پر پڑاؤ ڈالیں گے جن کا تعلق ہماری زمینی صورتحال [یا بالفاظِ دیگر یوں کہیے کہ ہمارے مبارک جہاد ] سے ہے،سو ہم انہی سنگ میلوں پر ٹھہریں گے اور سیرت سے استفادے کی کوشش کریں گے۔

اللہ جل جلالہ ہمیں صحیح معنوں میں سنت و سیرت سے استفادہ کرنے والا بنادے [اور ہمارے بےجان الفاظ میں روح پھونک دے ۔] آمین۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 ردالمحتار [فتاویٰ شامی]

2 تحفۃ القاری ،اردو شرح صحیح بخاری،ج ۶،ص ۱۸۸،از مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ

3 سیرت المصطفیٰ ،مولاناادریس کاندھلوی

4 حدیث نمبر؛ 2702 الجامع الصغیر مع شرحہ فيض القدير للمناوي (11/ 114)

5 بذل الجہد فی قتال الکفار لاعلاءکلمۃ اللہ تعالیٰ[عمدۃ القاری]

6 [تحفۃ القاری اردو شرح صحیح بخاری ،ج۶،ص ۱۸۹۔۱۹۰ از مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ]

Previous Post

موت وما بعد الموت | پندرھواں درس

Next Post

تقویٰ کے انعامات | پہلی قسط

Related Posts

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط

14 جولائی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط

9 جون 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

25 مئی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | ساتویں قسط

31 مارچ 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چھٹی قسط

15 نومبر 2024
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

30 جولائی 2024
Next Post
تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط

تقویٰ کے انعامات | پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version