نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

فلسطین میں دہشت گردی کے جدِّ امجد

وسعت اللہ خان by وسعت اللہ خان
26 مئی 2025
in طوفان الأقصی, اپریل و مئی 2025
0

’سوائے اسرائیل کے سب دہشت گرد ہیں‘۔ بھلے وہ پی ایل او تھی یا اب حماس اور حزب اللہ سمیت درجنوں تنظیمیں۔ مگر کوئی نہیں بتاتا کہ موجودہ اسرائیلی فوج دراصل ستتر برس پہلے تین دہشت گرد مسلح تنظیموں (ہگانہ، ارگون، لیخی) کو جوڑ کر بنائی گئی۔ چنانچہ اسرائیلی فوج نے فلسطین اور لبنان میں جو کچھ کیا یا کر رہی ہے وہ اس کے ڈی این اے میں کم از کم ایک صدی سے شامل ہے۔ ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج کے عسکری شجرے کو دیکھا جائے تاکہ روزِ اول سے جاری اس اسرائیلی دعوے کی پرکھ ہو سکے کہ ’’ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) دنیا کی سب سے مہذب سپاہ ہے‘‘۔

ہگانہ

سب سے پہلے سب سے اہم دہشت گرد تنظیم ہگانہ کا تعارف ہو جائے۔ ہگانہ عبرانی میں دفاع کو کہتے ہیں۔

بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں بار گیورا اور پھر ہش مور کے نام سے فلسطین میں دو مسلح ملیشیائیں قائم کی گئیں۔ ان میں شامل رضاکار جز وقتی تھے اور تعداد بھی محض چند سو تھی۔ ان کا بنیادی کام اپنی اپنی آباد کار بستیوں کی چوکیداری تھا۔ ۱۹۲۰ء میں یروشلم کے محلے نبی موسیٰ اور ۱۹۲۱ء میں جافا شہر میں عرب اور یہودی آباد کاروں میں جھڑپیں ہوئیں۔

چنانچہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کے نگراں ادارے جیوش ایجنسی کی تائید سے یہودی آبادیوں کے جامع تحفظ کے لیے ہگانہ ملیشیا تشکیل دی گئی۔ اس میں یروشلم کو عثمانی سپاہ سے چھیننے والی برطانوی فوج کے جیوش لیجن کے سابق فوجی بھی شامل تھے ۔ہگانہ کا پہلا کمانڈر یوسف ہیخت بھی ۱۹۱۹ء میں پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد توڑی جانے والی جیوش لیجن کا اہلکار تھا۔

۱۹۲۹ء میں الاقصی کمپاؤنڈ میں عبادت اور ہیکلِ سلیمانی کی دیوارِ گریہ تک راستے کے تنازع پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان یروشلم میں ایک اور بڑا بلوہ ہوا۔ چنانچہ جسمانی طور پر صحت مند تمام جوانوں اور ادھیڑ عمر آباد کاروں پر لازم ہوا کہ وہ ہگانہ کے کارِ محافظت میں ہاتھ بٹائیں۔

مشرقی یورپ میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی پولینڈ میں تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ۱۹۱۸ء میں جو نئی پولش ریپبلک قائم ہوئی اس پر صہیونیوں کا گہرا اثر تھا۔ صہیونی قیادت اور پولش حکومت اس نکتے پر متفق تھے کہ زیادہ سے زیادہ پولش یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنی چاہیے۔ ۱۹۳۱ء اور ۳۷ء کے درمیان لگ بھگ دس ہزار یہودی آباد کاروں نے پولش کیمپوں میں عسکری تربیت حاصل کی۔ اس دورانیے میں پولش حکومت نے جیوش ایجنسی کے تعاون سے ستائیس سو پچاس (۲۷۵۰)ماؤزر رائفلیں اور ریوالور ، سوا دو سو (۲۲۵)آر کے ایم مشین گنیں، دس ہزار دستی بم اور بیس لاکھ گولیاں مختلف راستوں اور ذرائع سے فلسطین سمگل کیں۔

۱۹۳۶ء تا ۳۹ء کے تین برسوں میں عرب آبادی برطانیہ کی دوغلی پالیسی کے خلاف اجتماعی طور پر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس وقت فلسطین میں ایک لاکھ برطانوی فوجی تھے۔ ہگانہ ملیشیا کے دس ہزار مسلح محافظوں اور چالیس ہزار ریزرو ارکان نے فلسطینیوں کی تحریک کچلنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔

اس دوران نہ صرف جیوش سیٹلمنٹ پولیس قائم ہوئی بلکہ ایک برطانوی حاضر سروس کرنل اورڈے ونگیٹ نے ہگانہ کے رضاکاروں کو نائٹ اسکواڈ قاتل دستوں کے طور پر منظم کیا۔ یہ دستے عرب بستیوں پر شب خون مارتے ، عرب کسانوں کو اغوا کر کے لے جاتے اور معلومات کے حصول کے لیے شدید ٹارچر کرتے، گھر اور زرعی املاک جلاتے۔ تربیت یافتہ نشانچی ان عربوں کو قتل کرتے جو برطانیہ کے نزدیک باغی قرار پائے تھے۔ یہ قیمتی تجربات یہودی ملیشیا کے ارکان کو ۱۹۴۷،۴۸ء کے خون خرابے میں بہت کام آئے۔

ہگانہ اور برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ کے مابین فاصلہ تب پیدا ہونے لگا جب ۱۹۳۹ء میں سرکارِ انگلشیہ نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا۔ اس کے تحت بے چین عرب اکثریت کی تالیفِ قلب کے لیے فلسطین میں یہودی آباد کاروں کے داخلے کو عارضی طور پر محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر ستمبر میں ہٹلر کے پولینڈ پر حملے کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔

ہگانہ کی سرپرست جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے اس موقع پر برطانیہ کی جنگی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم ہٹلر کے خلاف ایسے لڑیں گے جیسے کوئی وائٹ پیپر (یہودی پناہ گزینوں کے کوٹے سے متعلق) جاری ہی نہیں ہوا۔ اور پھر ہم اس وائٹ پیپر کے خلاف ایسے لڑیں گے جیسے جنگ ہوئی ہی نہیں‘‘۔

بظاہر برطانیہ کی عسکری حمایت کے باوجود جیوش ایجنسی اپنے اصل کام سے غافل نہیں رہی۔ ہگانہ میں پالماخ کے نام سے لگ بھگ دو ہزار پروفیشنل لڑاکوں کا ایلیٹ فوجی یونٹ قائم کیا گیا اور دورانِ جنگ ایک لاکھ مزید یہودیوں کو یورپ سے اسمگل کیا گیا۔ یہ تعداد قانونی ہجرت کے لیے برطانوی حکومت کے طے کردہ کوٹے سے تین گنا زائد تھی۔

برطانوی حکام نے غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل ہونے والے سیکڑوں یہودیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ہگانہ نے اٹھارہ سو یہودیوں کو ماریشس منتقل کرنے والے ایک بحری جہاز ایس ایس پیٹریا کو مسلح حملے میں ڈبو دیا۔ اس واردات میں دو سو سڑسٹھ(۲۶۷) افراد ہلاک اور ایک سو بہتر(۱۷۲) زخمی ہوئے۔ متاثرین میں اکثریت یہودیوں کی تھی۔

دوسری جانب بن گوریان نے ہٹلر سے لڑنے والی برطانوی فوج میں فلسطین میں آباد یہودیوں کو بھرتی کرنے کی بھی حمایت کی اور یوں برطانوی فوج کا جیوش بریگیڈ وجود میں آیا۔ یہ بریگیڈ شمالی افریقہ اور اٹلی کے محاذوں پر لڑا۔ جیوش بریگیڈ کو جنگ کے خاتمے کے اگلے برس ۱۹۴۶ء میں توڑ دیا گیا۔ تب تک تیس ہزار یہودی آبادکار باقاعدہ جنگی تجربہ حاصل کر چکے تھے۔ یہ تجربہ تب بہت کام آیا جب برطانیہ نے جنگ کے خاتمے کے بعد بھی یورپ سے یہودیوں کی فلسطین بڑی تعداد میں منتقلی محدود رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی۔

چنانچہ تین بڑی مسلح یہودی تنظیموں (ہگانہ، ارگون اور لیخی) نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے جیوش ریزسٹنس موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد بنایا اور عربوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے خلاف بھی بھرپور غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز ہوا۔ اس کا مقصد برطانیہ کو ایک یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ جلد از جلد پورا کرنے کے لیے دباؤ میں لانا تھا۔

پلوں، ریلوے لائنوں اور تھانوں پر دہشت گرد حملے شروع ہو گئے۔ جافا کے مرکزی پولیس اسٹیشن سے بارود سے بھری ایک گاڑی ٹکرا دی گئی (یہ مشرقِ وسطی میں پہلا خود کش حملہ تھا)۔ برطانوی ریڈار سسٹم پر حملے ہوئے تاکہ ان کشتیوں کو بر وقت شناخت نہ کیا جا سکے جو یہودیوں کو بھر بھر کے فلسطینی ساحل پر چوری چھپے اتار رہی تھیں۔ اس پورے آپریشن کی کمان ہگانہ کے ایلیٹ فوجی یونٹ پالماخ کے ہاتھوں میں تھی۔

۱۹۴۶ء میں ہگانہ کی افرادی قوت برطانوی انٹیلی جینس ذرائع کے مطابق پچھتر ہزار (۷۵۰۰۰)نفوس پر مشتمل تھی۔ اس فورس کو چھ بریگیڈز میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں جنگی تجربات سے مالا مال تیس ہزار سابق فوجی شامل تھے۔

ہگانہ نے بندوقوں اور مشین گنوں کا ایمونیشن تیار کرنے کے لیے ایلون نامی یہودی بستی میں امریکی یہودیوں کے چندے اور تکنیکی معاونت سے خفیہ فیکٹری بھی قائم کی۔ اس وقت مشرقِ وسطی میں موجود برطانوی فوج کے بعد ہگانہ سب سے طاقتور فوجی تنظیم بن چکی تھی۔ اس کا عسکری بجٹ ۱۹۴۶ء میں چار لاکھ ڈالر تھا جو اکتوبر ۱۹۴۷ء تک تین اعشاریہ تین ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس عرصے میں فلسطینی عرب اپنے دفاع کے لیے محض ستر ہزار ڈالر تک چندہ کر پائے۔

جیسے ہی نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔ وہاں موجود ہر یہودی زن و مرد پر لازم ہو گیا کہ وہ آخری فیصلہ کن لڑائی کی خاطر بھرتی کے لیے رپورٹ کرے۔ ہگانہ ایک پیرا ملٹری تنظیم سے ایک غیر اعلانیہ پروفیشنل فوج کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ آئیزک رابین، موشے دایان ، ایریل شیرون ہگانہ کے نوجوان کمانڈروں میں شامل تھے۔

چودہ مئی ۱۹۴۸ءکو جب ڈیوڈ بن گوریان اسرائیلی مملکت کے قیام کا اعلان کر رہے تھے، تین لاکھ سے زائد فلسطینیوں سے شہروں اور قصبوں کو بندوق کی نوک پر خالی کروایا جا چکا تھا۔ دیگر ساڑھے چار لاکھ فلسطینیوں کو اگلے دو ماہ تک جاری پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران نکال دیا گیا۔ اس دوران دیر یاسین سمیت کئی دیہاتوں کی پوری پوری آبادی قتل کر دی گئی۔ ہگانہ کو جون ۱۹۴۸ء میں وجود میں آنے والی اسرائیل ڈیفنس فورس میں ضم کر دیا گیا۔

ارگون

جس طرح ہر بنیادی نظریے کا مقصد مشترک ہونے کے باوجود رفتہ رفتہ شخصی و فکری اختلافات گروہ بندی اور چشمک میں بدلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح صہیونی نظریے کے ساتھ بھی ہوا۔

صہیونیت کا بنیادی ہدف تو فلسطین میں ایک یہودی مملکت کا قیام تھا مگر کچھ صہیونی یہ مقصد خالص سیاسی جدوجہد سے حاصل کرنے کے حق میں تھے۔ اس گروہ کو ایک مشترکہ عرب یہودی مملکت کا تصور بھی قبول تھا۔

ان کے برعکس بہت سے سوشلسٹ نظریات سے متاثر صہیونی فلسطین کی یہودی پرولتاریہ (مزدور کسان ) کو سیاسی ، معاشی و مزاحمتی شعور سے لیس کر کے منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ وہ قابض طاقت (برطانیہ ) اور اکثریتی طبقے ( عرب ) سے نمٹنے کے لیے سیاست و مزاحمت پر مبنی راستہ اختیار کرنے کے حامی تھے۔ ان لیبر یا سوشلسٹ صہیونیوں نے جذباتی حکمتِ عملی کے بجائے منظم ادارہ سازی پر توجہ دی۔

یورپی یہودیوں کی منصوبہ بند فلسطین نقل مکانی کے لیے جیوش ایجنسی اور زمینیں خریدنے کے لیے جیوش نیشنل فنڈ تشکیل دیا۔ محنت کشوں کو طبقاتی و سیاسی طور پر منظم رکھنے کے لیے ہستار دوت لیبر یونین اور سیاسی جماعت مپائی اور یہودی بستیوں کے دفاع کے لیے ہگانہ نام سے مسلح ملیشیا قائم کی۔

مگر ہگانہ میں شامل کچھ کمانڈر سمجھتے تھے کہ محض سیاسی جدوجہد ، معاشی خود مختاری اور دفاعی حکمتِ عملی سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کے لیے اکثریتی آبادی ( عرب ) کو بزور نکالنا اور مارنا بھی پڑے تو جائز ہے۔

حتیٰ کہ قابض طاقت ( برطانیہ ) سے بھی لڑنا پڑ سکتا ہے۔ اس ترمیم پسند نظریے کو بڑھاوا دینے میں نمایاں نام جواں سال پولش یہودی رہنما زیو جیبوٹنسکی کا ہے۔ وہ سوشلسٹ صہیونیوں کو سبزی خور رہنما ہونے کا طعنہ دیتے تھے اور ایک طے شدہ سرحد میں قید ہونے کے بجائے اردن تا بحیرہ روم کا خطہ یہودی مملکت کا آسمانی حق سمجھتے تھے۔

۱۹۲۹ء میں یروشلم میں عربوں اور یہودیوں کے مابین پر تشدد جھگڑے کے نتیجے میں ہگانہ کے اندرونی اختلافات بڑھ گئے۔ کچھ کمانڈروں کا خیال تھا کہ ہگانہ کی عسکری پالیسی اگر جارحانہ دفاع پر مبنی ہو تو اسے عرب اور مقامی برطانوی انتظامیہ زیادہ سنجیدگی سے لے سکتی ہے۔ جب کہ بن گوریان وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ وقت جارحانہ حکمتِ عملی یا کھلم کھلا یہودی مملکت کے قیام کا نعرہ لگانے کا نہیں۔ اس سے مسائل بڑھیں گے اور دشمن چوکنا ہو جائیں گے۔ مگر فکری خلیج بڑھتی چلی گئی۔

جیبوٹنسکی کے نظریاتی ترمیم پسند گروہ نے ہگانہ سے علیحدہ ہو کر اپریل ۱۹۳۱ء میں ارگون کے نام سے نیم فوجی تنظیم قائم کی اور مرکزی صہیونی قیادت سے بالا بالا اپنے تنظیمی و عسکری فیصلے کرنے شروع کیے۔

ارگون کی افرادی قوت ابتدا میں لگ بھگ دو ہزار تھی۔ نئے ریکروٹوں کو ان کے ذاتی پس منظر کی کڑی چھان بین کے بعد شامل کیا جاتا۔ ڈسپلن اور رازداری پر نہایت زور تھا۔ ابتدائی چار ماہ نظریاتی تربیت ہوتی۔ ریکروٹ کی صلاحیت اور رجحان دیکھ کر چھوٹے ہتھیاروں اور دستی بموں کے استعمال ، سگنل کوڈنگ ، جاسوسی اور مزید باصلاحیت ارکان کو بم سازی اور بھاری ہتھیاروں کی تربیت یہودی آبادیوں میں قائم خفیہ مراکز ، بیابانوں اور سنسان ساحل کے علاوہ بیرونِ ملک (پولینڈ ) میں بھی دلوائی جاتی ( جب تک مسولینی نے ہٹلر سے اتحاد کا فیصلہ نہیں کیا تب تک ارگون اپنے ارکان کو فوجی تربیت کے لیے اٹلی بھی بھیجتی رہی )۔

ہتھیار مقامی برطانوی انتظامیہ کے اسلحہ خانوں سے چوری کیے جاتے اور بیرونِ ملک ( پولینڈ ) سے بھی اسمگل ہوتے۔ بہت سے ارکان کو مقامی پولیس میں بھی بھرتی کروایا گیا جو ارگون کے کان ، ناک ، آنکھ کا کام کرتے تھے۔ پیسے کی کمی پورا کرنے کے لیے بینک لوٹنے سے بھی دریغ نہ کیا جاتا۔

ارگون اپنے ارکان سے توقع کرتی تھی کہ وہ بظاہر نارمل زندگی گزاریں مگر اشارہ ملتے ہی مسلح مشن کے لیے بھی تیار رہیں۔ ارگون نے اپنے خفیہ سیل یورپ تا امریکہ اور شنگھائی تک منظم کیے۔ ان کا کام لابنگ ، پروپیگنڈہ ، یہودی کمیونٹیز کو فلسطین ہجرت پر قائل کرنا اور با اثر و دولت مند یہودی کاروباریوں سے چندہ جمع کرنا تھا ( ہگانہ ملیشیا بھی یہی طریقے استعمال کرتی تھی )۔

جوں جوں جرمن یہودیوں پر عرصہِ حیات تنگ ہونے کی خبریں آنے لگیں ارگون کی بے صبری بھی بڑھتی چلی گئی اور اس نے برطانیہ پر یہودی پناہ گزینوں کے لیے فلسطین کے دروازے پوری طرح کھولنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی سوچ کے تحت عرب آبادیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری تنصیبات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر ہگانہ اور ارگون نے ہٹلر کے خلاف برطانیہ کی عارضی حمایت کا اعلان کیا اور برطانوی فوج میں فلسطینی یہودیوں کی بھرتی کی اس امید پر حوصلہ افزائی کی کہ برطانیہ اس حمایت سے متاثر ہو کر یہودیوں کی فلسطین میں آمد کا کوٹہ محدود کرنے اور عربوں سے زمین خریدنے پر پابندی ختم کر دے گا۔

تاہم جب ارگون کو اندازہ ہوا کہ برطانوی انتظامیہ عربوں کی بے چینی میں بڑھاوے کے خدشے کے پیشِ نظر اس پالیسی کو شاید برقرار رکھے تو ۱۹۴۴ء میں ارگون نے برطانیہ سے تعاون کی پالیسی ختم کر دی۔ ارگون کے چوالیس سالہ فکری گرو زیو جیبوٹنسکی کے ۱۹۴۰ء میں اچانک انتقال کے بعد تنظیمی قیادت پولینڈ سے ہجرت کرنے والے مینہم بیگن کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔

فروری ۱۹۴۴ء کے بعد ارگون نے برطانوی سرکاری دفاتر اور مواصلاتی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ سرکار نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر کے سیکڑوں انتہا پسندوں کو فلسطین بدر کرنا شروع کیا۔ ہگانہ نے ان گرفتاریوں میں برطانوی انتظامیہ سے مخبرانہ تعاون کیا۔ جیوش ایجنسی اور ورلڈ جیوش کانگریس نے بھی ارگون کی کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ برطانیہ کہیں یہودی وطن کے قیام کے وعدے سے بالکل ہی ہاتھ نہ اٹھا لے۔

جولائی ۱۹۴۵ء میں برطانیہ میں چرچل کی جگہ لیبر پارٹی کی حکومت آئی تو ہگانہ کی قیادت نے نئی حکومت سے یہودی پناہ گزینوں کی فلسطین آمد اور زمین کی خریداری پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ برطانویوں نے گول مول جواب دیا۔

چنانچہ تین یہودی انتہا پسند مسلح تنظیموں ( ہگانہ ، ارگون ، لیخی ) نے اختلافات وقتی طور پر بالائے طاق رکھ کے جیوش ریزسٹنس موومنٹ کے نام سے مسلح اتحاد تشکیل دیا اور منظم دہشت گردی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ برطانیہ نے تین دہشت گردوں کو مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی۔ اس کے بدلے دو برطانوی فوجیوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ملیں۔ ان واقعات کے بعد برطانیہ نے فلسطین چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ دہشت گرد حکمتِ عملی کی بہت بڑی جیت تھی۔

مارچ ۱۹۴۷ء میں جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کی سربراہی میں ایک خفیہ اجلاس میں عربوں کی نسلی صفائی میں تیزی لانے کی اصولی منظوری دی گئی۔ ارگون نے عرب اکثریتی شہر جافا کی ناکہ بندی کر لی۔ برطانوی دستوں نے عرب آبادی کو بچانے کے بجائے غیر جانبداری اختیار کی۔ چنانچہ دو ہفتے کے محاصرے کے بعد مسلح یہودی دستے جافا میں داخل ہو گئے اور عرب آبادی کی بے دخلی شروع ہو گئی۔

اس کے بعد ٹرانس اردن سے متصل فلسطینی سرحدی گاؤں دیر یاسین کا سانحہ رونما ہوا جہاں ہگانہ کی خاموش رضامندی سے ارگون اور لیخی کے دہشت گردوں نے لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر کے پورا گاؤں جلا دیا۔ یہ خبر پھیلتے ہی فلسطینی ہجرت میں مزید تیزی آتی چلی گئی۔

اسرائیل کے قیام کے بعد ارگون کی قیادت نے وزیرِ اعظم بن گوریان کی حکومت کی جانب سے غیر مسلح ہو کر خود کو نوزائیدہ اسرائیلی فوج میں ضم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ سرکاری دستوں اور ارگون کی مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔ البتہ ستمبر ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیلی فوج نے یروشلم میں ارگون کا مرکزی دفتر گھیر لیا تو مسلح قیادت نے تنظیم توڑ کر خود کو اسرائیلی فوج میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔

جنوری ۱۹۴۹ء میں پیرس میں ارگون نے اپنا یورپی مرکز اپنی سیاسی شاخ ہیروت کے حوالے کر دیا گیا۔ ہیروت ۱۹۶۷ء کے بعد لیخود پارٹی بن گئی۔مینہم بیگن ، آئزک شمیر اور نیتن یاہو اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے وزیرِ اعظم بنے۔

لیخی

.1920ء میں بن گوریان کی رہنمائی میں تشکیل پانے والی سب سے بڑی مسلح ملیشیا ہگانہ کو آپ اعتدال پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔ ۱۹۳۱ء میں ہگانہ سے جنم لینے والی ارگون ملیشیا کو آپ شدت پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔ البتہ ارگون کے پیٹ سے ۱۹۴۰ء میں جنم لینے والی ملیشیا ’’لیخی‘‘ کو آپ صہیونی داعش کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ آپ کیا کہیں گے خود لیخی کی قیادت سینہ ٹھونک کے کہتی تھی کہ ہاں ہم دہشت گرد ہیں ( دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی غالباً واحد اعترافی مثال ہے )۔

لیخی کا باضابطہ نام ’’تنظیم برائے آزادیِ اسرائیل‘‘ تھا۔ نظریاتی اعتبار سے ارگون اور لیخی کا ایک ہی گرو تھا یعنی زیو جیبوٹنسکی۔ دونوں تنظیموں کا اس پر اتفاق تھا کہ فلسطین دراصل یہودیوں کا آبائی وطن ہے۔ یہاں بسنے والے عرب اور برطانیہ دونوں غاصب ہیں ۔

ہگانہ کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ سیاسی انگلیوں سے گھی نہ نکلے تو دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا جائز ہے۔ ارگون کا خیال تھا کہ سیاست اور دہشت گردی کو ہم قدم ہونا چاہیے۔ جب کہ لیخی کا نظریہ یہ تھا کہ مسلح جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ایک نظریہ ایک جماعت ایک مملکت۔ فرد کی وفاداری خاندان سے بھی پہلے مملکت اور اس کے نظریے کے ساتھ ہونا لازم ہے۔ یعنی لیخی کا نظریہ ہرزل کی صہیونیت ، مسولینی کی فسطائیت اور نازیوں کی نسل پرستی کا آمیزہ تھا۔

لیخی یا سٹیرن گینگ کی بنیاد اگست ۱۹۴۰ء میں ارگون کی فوجی ہائی کمان سے الگ ہونے والے ابراہام سٹیرن نے رکھی۔ سٹیرن کو یہ اختلاف تھا کہ جس برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے یہودیوں کے قومی وطن کا وعدہ کیا اسی برطانیہ نے گزشتہ برس (۱۹۳۹ء) یہودیوں کی فلسطین آمد کو انتہائی محدود کرنے اور نئی زمینوں کی خریداری پر غیر معینہ پابندی لگائی ہے۔

یوں برطانیہ ہمارا عربوں سے بھی بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اس منافق کو نیچا دکھانے کے لیے نازیوں جیسے کھلے دشمن سے مدد مانگنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ فلسطین کی برطانوی انتظامیہ سے کسی بھی طرح کا تعاون صہیونیت کے حتمی مقصد سے غداری ہے۔ جہاں ہگانہ اور ارگون نے عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کا نازی جرمنی کے خلاف عارضی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا وہیں لیخی نے اپنی مسلح کاروائیاں جاری رکھیں۔

اسرائیلی مورخ عربوں کو یہود دشمن ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جنگِ عظیم سے قبل فلسطینی رہنما حاجی امین الحسینی نے برلن میں ہٹلر سے ملاقات کی اور ہٹلر کو اکسایا کہ اگر تم نے یہودیوں کو نکال دیا تو وہ سب فلسطین آ جائیں گے۔ چنانچہ انہیں یورپ میں ہی ختم کر دو۔ عرب تمہارے ہم قدم برطانیہ اور فرانس کو مشرقِ وسطی سے اکھاڑ پھینکنے میں تمہارا ساتھ دیں گے۔

مگر یہودی مورخوں کی اکثریت یہ اعتراف کرتے ہوئے شرماتی ہے کہ لیخی کے سربراہ ابراہام سٹیرن نے بیروت میں متعین نازی سفیر کو خط لکھا کہ اگر جرمنی اپنی یہودی آبادی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم انہیں فلسطین منتقل کرنے کے کام میں نازیوں سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اس عددی طاقت کے بل پر فلسطین میں ایک یہودی مملکت قائم کر پائیں گے۔ اس تعاون کے بدلے ہم نازیوں سے برطانیہ کو شکست دینے میں تعاون کریں گے۔

لیخی کی قیادت نے دوسرا خط استنبول میں جرمن سفارتخانے کو بھیجا۔ مگر دونوں خطوط کا برلن کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

لیخی کے نسلی نظریاتی لٹریچر میں جگہ جگہ یہودیوں کو عظیم اور عربوں کو غلام قوم سے تعبیر کیا گیا۔ یعنی ایک خالص یہودی مملکت میں اگر عرب رہنا چاہیں تو انہیں محدود حقوق کے ساتھ رہنا ہو گا تاکہ وہ خود سری سے باز رہیں۔( گویا لیخی کا نظریہ اپنے جوہر میں نسل پرست نازی نظریے کا صہیونی چربہ تھا )۔

عالمی صہیونی کانگریس اور جیوش لیگ نے لیخی کو بظاہر دہشت گرد اور مہم جو قرار دیتے ہوئے عاق کر دیا۔ ہگانہ اور ارگون کے برعکس لیخی اگرچہ چند سو انتہا پسندوں پر مشتمل تھی، مگر اس کی خونخوار حکمتِ عملی بے لچک تھی۔ اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے بینک لوٹنا اور دولت مند یہودیوں سے رقم نکلوانا بھی ایک انقلابی فعل تھا۔ ۱۹۴۰ء سے ۴۲ء کے درمیان دو بینکوں کا لوٹا جانا ریکارڈ کا حصہ ہے۔

جنوری ۱۹۴۲ء میں لیخی کے دہشت گردوں نے برطانوی خفیہ پولیس کے سربراہ کو تل ابیب کے نزدیک ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں دو یہودی اہل کاروں سمیت تین پولیس والے ہلاک ہو گئے۔ برطانوی حکام نے ہگانہ کی مخبری پر لیخی کے اشتہاری رہنما ابراہام سٹیرن کو فروری ۱۹۴۲ء میں پولیس مقابلے میں مار دیا۔ سٹیرن کی موت کے بعد لیخی کی قیادت تین رکنی کمیٹی نے سنبھالی۔ ان میں سے ایک رکن کا نام ایتزاک شمیر تھا (۱۹۷۸ء میں مینہم بیگن کی حکومت نے ابراہام سٹیرن کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ جس گھر میں سٹیرن کو گولی ماری گئی وہ میوزیم بنا دیا گیا )۔

لیخی نے ۱۹۴۲ء تا ۴۸ءبیالیس حکام کو قتل کیا۔ ان میں نومبر ۱۹۴۴ء میں قاہرہ میں متعین برطانوی سفارت کار لارڈ میون سے لے کر اسرائیل کے قیام کے بعد مقرر ہونے والے اقوامِ متحدہ کے صلاح کار کاؤنٹ برناڈٹ کا ستمبر ۱۹۴۸ء میں یروشلم میں دن دہاڑے قتل بھی شامل ہے۔

برطانیہ نے لارڈ میون کے قتل کے الزام میں لیخی کے دو دہشت گردوں ایلیاہو بیت زوری اور ایلیاہو حاکم کو قاہرہ میں پھانسی دے دی۔

( اسرائیل کے قیام کے بعد دونوں قاتلوں کے باقیات کو اسرائیل لا کر فوجی اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے اور ان کا نام ان ’شہدا‘ میں شامل کیا گیا جنہوں نے اسرائیل کی آزادی کے لیے جان دی )۔

لیخی کے دہشت گردوں نے ۱۹۴۶ء میں لندن کے کولو نیل کلب پر بم حملہ کیا۔ چرچل ، ایٹلی اور اینتھنی ایڈن سمیت برطانیہ کے اکیس سیاستدانوں کو لیٹر بم بھیجے۔ خوش قسمتی سے کوئی لیٹر بم نہ پھٹا۔ جنوری ۱۹۴۷ء میں یروشلم میں برطانوی پولیس اسٹیشن سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا گیا ( یہ دنیا کا پہلا ٹرک بم تھا )۔اس واقعہ میں چار پولیس والے ہلاک اور لگ بھگ ایک سو چالیس زخمی ہوئے۔فروری ۱۹۴۸ء میں قاہرہ حیفہ ریلوے لائن پر بارودی سرنگ پھٹنے سے اٹھائیس برطانوی فوجی ہلاک اور پینتیس زخمی ہوئے۔ یکم مارچ ۱۹۴۸ء کو بن یمینہ قصبے کے قریب ایک اور ٹرین کو نشانہ بنایا گیا۔ اس میں چالیس سویلین ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے۔

اپریل ۱۹۴۸ء میں دیر یاسین گاؤں میں ڈھائی سو فلسطینیوں کے قتل میں بن گوریان کی ملیشیا ہگانہ بلاواسطہ اور مینہم بیگن کی ارگون ملیشیا اور ایتزاک شمیر کی لیخی ملیشیا براہ راست ملوث تھی۔

ستمبر ۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کاؤنٹ برناڈٹ کے قتل کے بعد بن گوریان حکومت نے بظاہر لیخی ملیشیا کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم کر دیا۔ مگر برناڈوت کے تمام قاتل کچھ ہی عرصے میں عدالتوں سے بری ہو گئے۔ان میں سے ایک گیولا کوہن ۱۹۴۹ء میں پہلی اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کا رکن منتخب ہوا۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

غزہ، مجھے معاف کر دو

Next Post

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں!

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں!

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version