نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چھٹادرس

احمد فاروق by احمد فاروق
30 مارچ 2024
in حلقۂ مجاہد, مارچ 2024
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿ فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ؀ ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ؀ ﴾ (سورۃ الانفال: ۱۷، ۱۸ )

صدق اللہ مولانا العظیم، رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ، پس تم نے ان کو قتل نہیں کیا، وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ، بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا، وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ اور جب تم نے پھینکا تو تم نے نہیں پھینکا ، وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ بلکہ اللہ نے پھینکا۔

مومن، مجاہد کی کامیابی اللہ کا فضل و احسان ہے

یہ سورۂ انفال چل رہی ہےاور غزوہ بدر کے پس منظر میں، ہم نے جیسا کہ پہلے کہا، یہ آیات نازل ہوئیں۔ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فتح کے بعد مسلمانوں کو عاجزی اور تواضع اختیار کرنا سکھلائی ان آیات مبارکہ میں اور یہ ادب سکھایا کہ فتح کو اپنی طرف منسوب نہ کریں۔ یہ نہ کہیں یا یہ بلندوبانگ دعوے نہ کریں کہ انہوں نے اپنی قوت سے یا اپنی طاقت سے دشمن کو توڑا اور اس کو شکست دی بلکہ اس کو اللہ کی طرف پھیریں اور اللہ کے سامنے سر جھکائیں اور شکر ادا کرنے والے بنیں۔ تو عاجزی ویسے تو ہر مومن کے لیے مطلوب ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی محبوب صفات میں سے ہے اور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ من تواضع للہ رفعہ اللہ ، جو اللہ کی خاطر عاجزی اختیار کرے اللہ اس کو بلند فرما دیتے ہیں۔ اور اس کے برعکس تکبر کبر یا اپنی بڑائی اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض صفت ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر موجود ہو، تکبر موجود ہو۔ تو ہر مسلمان کے لیے تکبر سے بچنا اور عاجزی اختیار کرنا یہ صفت مطلوب ہے لیکن مجاہدین کو اس کی تلقین بطور خاص کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے یا ہر اس شخص کو کہ جس کے پاس قوت ہو، وہ صاحب اقتدار و اختیار ہو یا وہ مسلح قوت رکھتا ہو، اس کے لیے اس تاکید کی بطور خاص ضرورت پیش آتی ہے اس لیے کہ اس کے پاس وہ اسباب اور ذرائع ہیں جن کی وجہ سے وہ خود کو بڑا تصور کرسکتا ہے یا جن کے ذریعے، اگر وہ اصلاح کے راستے سے ہٹ جائے تو، وہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی بجائے اپنے آپ کو بلند کرنے یا اپنا آپ بلند کرنے میں مگن ہوسکتا ہے۔ تو اس لیے اس کو بطور خاص عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اور واضح طور پہ اس کے ہاتھ سے چھین لی گئی یہ چیز کہ تم نے نہیں قتل کیا ……حالانکہ انہوں نے جنگ لڑی ،شہادتیں دیں، زخمی ہوئے صحابہ، اپنا سب کچھ کھپایا …… اس کے بعد بھی…… اور اتنی سخت جنگ کے اندر کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوئی معمول کی کارروائی تھی کہ جس کے اندر تھکنا نہیں پڑا یا محنت نہیں کرنی پڑی۔ نفسیاتی طور پہ بھی سخت آزمائش تھی ۔اسلام کی پہلی بڑی جنگ تھی جو یوں آمنے سامنے ہو رہی تھی ۔تو اتنی سخت جنگ کے بعد، قربانیوں کے بعد، اتنی زبردست آزمائش سے گزرنے کے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ پھر بھی کہتے ہیں کہ تم نے نہیں قتل کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا؛ جو ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تو اس پہ خوشی مناتے مناتے اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر ادا کرو اس کے اوپر اور اسی طرح جو ریت پھینکی جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ عریش میں، یعنی جو چھپر آپ کے لیے بنا یا گیا تھا، اس میں بیٹھ کر اللہ کے حضور دعائیں کر رہے تھے، سجدے میں گرتے، کبھی اٹھتے، اٹھ کے ہاتھ پھیلا کے دعا کرتے اور پھر دعائیں کر کے اٹھے اور زمین سے ریت کی ایک مٹھی بھری اور شاھت الوجوہ کہہ کر اس کو مشرکین کی طرف پھینکا ، احادیث میں آتا ہے، جیسا کہ مفسرین نے بھی لکھا ہے کہ مشرکین میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا کہ جس کی آنکھ اور منہ میں اس ریت کے ذرات، فقط اس ایک مٹھی ریت کے ذرات نہ پہنچے ہوں۔تو یہ معجزہ تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے وہاں ظاہر فرمایا۔ یہ نصرت تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرما دی کہ یہ جو معجزہ آپ کے ہاتھ پہ ظاہر ہوا اور یہ جو اللہ کی طرف سے نصرت ہوئی یہ بھی آپ کی اپنی قوت و طاقت سے نہیں بلکہ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے، اللہ کی مدد و نصرت سے ہوئی ۔اصل میں یہ ریت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پھینکی ؛یعنی اللہ تعالیٰ نے پہنچایا اس کو اس جگہ تک جس جگہ تک آپ پہنچانا چاہتے تھے ۔ اور اس کے بعد یہ ریت جب ان کی آنکھوں اور منہ میں داخل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا، ان کو لڑنے میں بھی دشواری پیش آئی اور پوری جنگ کی فضا اس ایک مٹھی کے بعد الٹ گئی اللہ کے فضل اور اللہ کے احسان سے۔

انسان کس کی خاطر لڑتا ہے؟

تو پیارے بھائیو ! جنگ میں یہی دو چیزیں ہو سکتی ہیں جن کی خاطر انسان لڑے ۔ ایک یہ راستہ ہے کہ انسان اپنی بڑائی کے لیے یا جس تنظیم کے ساتھ وہ لڑ رہا ہے اس کی بڑائی کے لیے یا جس امیر کے تحت وہ لڑ رہا ہے اس کی بڑائی کے لیے یا جس قوم کے ساتھ مل کے وہ لڑ رہا ہے، جس قوم کا خود وہ جزو ہے اس کی بڑائی کے لیے یا ان دنیاوی چیزوں کی بڑائی کی خاطر اور ان کو اونچا کرنے کے لیے انسان لڑتا ہے، ان کے اعلاء کے لیے انسان لڑتا ہے اور یا انسان اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نام کو اونچا کرنے کے لیے ،لا الہ الا اللہ کو غالب کرنے کے لیے لڑتا ہے۔

نیت درست نہ ہو تو جہاد فساد میں تبدیل ہوسکتا ہے

تو جو پہلی چیز کی خاطر لڑا، دنیا کے کسی بھی مفاد کی خاطر لڑا اور اللہ کے سوا کسی اور کا نام بلند کرنے کی خاطر لڑا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں بات واضح فرما دی ہے کہ

﴿تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾(سورة القصص . آیت83)

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ ،یعنی وہ آخرت کا گھر ہے جو ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے، ان لوگوں کو دیں گے اس گھر کے اندر مقام، ابدی گھر کی نعمتوں سے ان لوگوں کو لطف اندوز ہونے کا موقع دیں گے جو لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ زمین میں بلندی نہیں چاہتے، اپنی بلندی کے لیے ،اپنے آپ کو اونچا کرنے کے لیے، اپنا نام عالی کرنے کے لیے نہیں لڑ رہے، وَلَا فَسَادًا اور نہ زمین میں فساد مچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تو جو اس خاطر لڑے گا اس کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں اور جو اس خاطر لڑے گا کہ اس نے اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے ،اللہ کے دین کو بلند کرنا ہے ،چاہے اس کی خاطر وہ مٹ جائے، اس کی تنظیم مٹ جائے ،اس کا سب کچھ اس راستے کے اندر کھپ جائے …… اس کو اس کی فکر نہ ہو تو یہ وہ جہاد ہے جس کو رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ

’’جس نے اس خاطر جنگ کی کہ اللہ کا کلمہ سر بلند ہوجائے تو وہ ہی اللہ کے راستے میں لڑنے والا ہے‘‘۔

تو جہاد میں اس تاکید کی ضرورت پیارے بھائیو اس لیے ہے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں شہرت کا آنا جس میں انسان کا مشہور ہونا جس میں اس کی تنظیم کا پھیلنا ،پھلنا پھولنا، یہ سب چیزیں فطرتا ًہورہی ہوتی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے انسان، ایک مجاہد بچ سکتا ہے۔ جو بھی جہاد کے راستے میں نکلتا ہے؛ ایک عام مجاہد بھی ہو ،ایک دائرے میں وہ بھی اپنے گھر والوں کی نگاہ میں ،اپنے دوستوں کی نگاہ میں، جاننے والوں کی نگاہ میں، وہ ایک عام سا مجاہد بھی ہو تو بہت بڑی شخصیت بن جاتا ہے ۔وہ گھر کو واپس لوٹتا ہے تووہ اس کو سر پہ بٹھاتے ہیں، اس کو غیر مرئی سی مخلوق سمجھتے ہیں اور جس معاشرے میں وہ گھومتا پھرتا ہے اسلحہ لے کے وہاں پہ بھی، یعنی محاذ کے علاقے میں، وہاں پہ بھی اس کو عزت حاصل ہوتی ہے، وہاں بھی اس کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔اسی طرح جیسے جیسے جہاد کے سفر میں اس کا وقت گزرتا چلا جاتا ہے ،جیسے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے کوئی کام لیں ،کارنامہ اس کے ہاتھ سے کوئی سر انجام پائے، کفر کو کوئی ضرب اس کے ہاتھ سے لگے ،اس کی کوئی بات یا کوئی کارروائی کفر پہ کوئی اثر چھوڑے تو خود بخود اس کا نام بلند ہوتا جاتا ہے۔ تو یہ شہرت کا چلے آنا جہاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔اس کو نہیں انسان روک سکتا۔ اسی طرح اگر کچھ مجاہدین کسی تنظیم یا تحریک یا کسی جماعت کی صورت میں لڑ رہے ہیں تو جیسے جیسے ان کا سفر آگے بڑھے گا اور ان کو فتوحات ملیں گی وہ جماعت بھی خود بخود مشہور ہوگی، بلند بھی ہوگی اس کا نام بھی پھیلے گا لیکن یہیں پہ ایک نازک سی لائن ہے اس چیز میں کہ یہ خودبخود چیزیں آپ کی طرف آرہی ہوں اور آپ کا قصد یا ارادہ یہ نہ ہو آپ کا مقصد یہ نہ ہو کہ میں ان چیزوں کی خاطر لڑوں بلکہ اللہ کی طرف سے آ رہی ہوں، آپ کی نیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف ہے تو اس چیز میں اور اس چیز میں کہ انسان اس کو مقصود بنالے، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح کہ جیسے ایک بہت عبادت گزار شخص ہو نمازوں کا اہتمام کرتا ہو، اپنی عبادات کو چھپانے کی بھی کوشش کرتا رہے اور وہ اللہ اور بس اللہ کی طرف متوجہ ہو لیکن لوگوں میں اس کی شہرت آہستہ آہستہ پھر بھی پھیل جائے کہ بڑا عبادت گزار آدمی ہے، تو اس شہرت پھیل جانے میں تو اس بے چارے کا قصور نہیں ہے۔ اس پہ کوئی پکڑ اور مؤاخذہ نہیں ہوگا ۔پکڑ اس بات پہ ہوگی کہ تمہاری نیت کیا تھی ؟تم اس شہرت کے لیے یہ عبادت کررہے تھے یا تم اللہ کے لیے عبادت کر رہے تھے؟ تو جہاد میں یہ چیز، شہرت کا جو پہلو ہے ،لوگوں کےہاں چرچا ہونےکا جو پہلو ہے، لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہونے کا جو پہلو ہے اور حتی کہ اس سے آگے بڑھ کے مال آنے کا جو پہلو ہے، غنیمت کی صورت میں آتا ہے، فے کی صورت میں آتا ہے ،یہ سارے پہلو باقی عبادات کی نسبت شاید کئی گنا زیادہ ہیں ۔یہاں پہ اس لیے جتنا زیادہ اہتمام ایک مجاہد کو کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو اللہ کی طرف پھیرے رکھے اور نام بلند بھی ہو تو اس کو اس سے کوئی غرض نہ ہو، وہ اپنی بلندی کے لیے نہ لڑے۔ اس کی تنظیم کا نام اونچا ،اس کی تحریک کا نام اونچا، اس کے امیر کا نام اونچا ہو، خود اس کا نام اونچا ہو، یہ وہ حقیر اغراض نہ ہوں جن کی خاطر وہ اپنی جان ہتھیلی پہ لیے پھر رہا ہو…… کیونکہ اس کا نتیجہ آخرت میں بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ وہ ہر دم اپنی توجہ کو اللہ کی طرف مبذول رکھے ۔تو یہ ایک مستقل محنت ہے۔ جو شخص بھی اس راستے میں آئے گا ،جب تک اللہ اس کو شہادت نصیب نہیں فرماتے، جب تک یہ فریضہ جاری ہے ،تب تک ہر دن اس کو اس پر محنت کرنی ہے۔ لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہونے کی خاطر یا اللہ کے نام کے سوا کسی اور نام کو بلند کرنے کی خاطرکہیں میرا جہاد نہ ہو جائے۔ تو یہ باریک سی اس کے اندر ایک لائن ہے جس کو اگر ملحوظ نہ رکھا گیا تو جہاد فساد میں تبدیل ہوجاتا ہے، عبادت جو ہے وہ بعض اوقات کفر و شرک میں تبدیل ہوسکتی ہے جب غیراللہ اس کا مقصود بن جائے۔ تو اتنا خطرناک معاملہ ہے جس کے اوپرمستقل محنت اور ایک مجاہد کو ہر وقت توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

مجاہد متواضع ہو

ایک یہ کہ مقصد درست ہو اور دوسرا جس طرح ہم نے کہا مجاہد تواضع اختیار کرنے والا ہو۔ جب اس کو فتوحات ملیں جب اس کو کامیابیاں ملیں تو وہ انبیاء علیہم السلام کا اسوہ اپنے سامنے رکھے کہ ہمارے سامنے امام الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے ۔فتح کے دن ،فتحِ مکہ کے دن جب تقریبا بائیس سال کی مستقل محنت کے بعد زبردست آزمائشوں کے بعد تیرہ سال مکہ میں ظلم و ستم سہنے کے بعد او ر اس کے بعد مدینہ آنے کے بعد بھی مشرکین مکہ کے مستقل حملےہوتے ہیں، ان سب کو سہنے کے بعد جب بالآخر اللہ تعالیٰ مکہ کے اندر فتح نصیب فرماتے ہیں،ایک ایسا دن کہ جس کا بہت سے لوگ شاید تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک دن ایسا بھی آنا ہے کہ وہی لوگ جن کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا ، پتھر سینے پر رکھ کے جن کو اذیت دی جاتی تھی، جہاں اللہ کے نبی ﷺ پہ تھوکا جاتا تھا، آپ کے اوپر اوجھڑیاں پھینکی جاتی تھیں اور کوئی بچانے والا نہیں ہوتا تھا…… کوئی حمایت کرنے والا نہیں ہوتا تھا……ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کے وہاں پہ داخل ہوں گے اور کسی کے اندر جرأت نہیں ہوگی کہ مقابلے کے لیے سامنے آئے ۔تو اس دن ہونا کیا چاہیے تھا؟ اگر دنیاوی پیمانوں سے دیکھیں تو پتا نہیں کتنی بڑی بڑی پریس ریلیزز جاری ہوتیں،بڑے بڑے اشتہارات لگتے، بل بورڈ زاور سائن بورڈ لگتے…… کیا فتوحات ہوئیں، کیا قصیدے پڑھے جاتے، ……لیکن اللہ کے نبی ﷺ اس حالت میں مکہ کے اندر داخل ہوتے ہیں کہ آپ کا سر مبارک عاجزی کے مارے جھکا ہواہے؛ اس حد تک جھکا ہوا ہے کہ گھوڑے کی زین سے آپ کی داڑھی مبارک چھو رہی ہے،آنکھوں سے مستقل آنسو جاری ہیں اور زبان پہ یہ کلمات ہیں: الحمد للہ الذی نصر عبدہ و عز جندہ و ھزم الاحزاب وحدہ او کما قال علیہ الصلوۃ والسلام ، تمام تعریف اس رب کے لیے ہے کہ جس نے اپنے اس غلام کی، اپنے اس بندے کی نصرت کی اور جس نے اپنی جند کی اپنے لشکر کی مدد فرمائی، جس نے تمام لشکروں کو تنہا شکست دی؛ ہم نے نہیں شکست دی!تو یہ وہ اسوہ ہے جو ایک مجاہد سے مطلوب ہے ۔ جتنی بڑی اللہ سبحانہ تعالیٰ رفعت عطا فرمائیں، جتنی بڑی کامیابی اللہ عطا کریں، اتنا وہ اللہ کے سامنے جھکے ،اتنا وہ اللہ کے احسانات کے بوجھ تلے دبا چلا جا رہا ہو۔ تو یہ کہ کوئی بڑے دعوے نہیں ہوئے۔ کوئی اعلانات نہیں ہوئے ۔کوئی نعرے نہیں لگے بلکہ ایک عاجزانہ انداز ہے جس کے ساتھ فتح ِ مکہ کے دن مسلمان مکہ کے اندر داخل ہوتے ہیں۔

تو پیارے بھائیو!

یہ وہ عاجزی ہے جو رسول اکرم ﷺنے سکھائی۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سورۃ البقرہ میں جس طرح آتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کا کام لیا۔ کعبہ کی تعمیر کا کام لیا۔ وہ عبادت گاہ جہاں پہ ہماری ایک نماز اجر میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہوتی ہے۔ جو پوری امت کا دل ہے۔ جس نے آنے والی صدیوں تک تا قیامت امت کا دل رہنا تھا ۔عبادت کا مرکز رہنا تھا۔ توحید کا مرکز رہنا تھا۔ اتنا بڑا کام ان سے لیا گیا ۔ اللہ فرماتے ہیں: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ اور جب حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اللہ کے گھر کی بنیادیں کھڑی کر رہے تھے،اس کو تعمیر کررہے تھے ، تو تعمیر سے فارغ ہوکے زبان پہ کیا دعا تھی؟ دعا یہ نہیں تھی کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا ، ہم نے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ، بلکہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، اے ہمارے رب! تو ہم سے یہ (خدمت) قبول کرلے، بے شک تو سننے والا اور علم رکھنے والا ہے ۔تو عاجزی کا درس تھا جو دیا کہ اتنا بڑا کام ہونے کے بعد بھی اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ،اللہ سے یہی دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بس قبول کر لے۔ یہی خدشہ لگا ہوا ہے کہ پتا نہیں اللہ کے ہاں قبول ہوا یا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں سبق دلایا، وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ ،تم پہلے نہیں ہو جو جہاد کررہے ہو۔تم سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزرے ،یہ انبیا کی سنت ہے ؛انبیاء کی سنت ہے جہاد کرنا؛ کتنے ہی نبی ایسے گزرے جن کے ساتھ مل کے ربانیوں نے، رب والوں نے جہاد کیا۔ ہر دور میں انبیاء نے ،اللہ والوں نے اور ان کے پیروکاروں نے جہاد کیا؛ نہ صرف جہاد کیا بلکہ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا، اللہ کے راستے میں جو آزمائشیں یا تکلیفیں سختیاں آئیں ان کے سامنے نہ ہمت ہاری، نہ کمزور پڑے، نہ سست ہوئے۔اس راستے میں قربانیاں دینے کے بعد، جہاد کرنے کے بعد ،ان کی زبان پہ کیا تھا؟ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ،ان کا قول بس اتنا سا ہی تھا ،منہ پہ یہی بات آتی تھی ، رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ، اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ،اس عبادت کے دوران ہم سے جو تجاوز ہوگیا ،جو ہم زیادتی کر گئے ،اے اللہ! اس سے در گزر فرما دے ،اے اللہ! ہمارے قدموں کو جما دے اور کافروں پہ تو ہمیں نصرت عطا فرما دے۔

تو پیارے بھائیو!

ایک عاجز شخصیت ہے جو ایک مجاہد سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ورنہ قوت اگر بے قید ہوگئی ،قوت رکھنے والا شخص اللہ سے بے خوف ہوگیا تو پھر وہ فرعون بنتا ہے ،پھر وہ نمرود بنتا ہے، پھر وہ زمین میں فساد مچاتا ہے۔ ہم تو نکلے اس لیے ہیں کہ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کریں۔ خود بھی اللہ کے غلام بنیں، انسانیت کو بھی اللہ کی غلامی میں داخل کریں ۔لیکن جب انسان تکبر میں آتا ہے، جب انسان رب سے غافل ہوتا ہے ،اللہ کے سوا کسی اور چیز کو بلند کرنے لگتا ہے، تو پھر معاملہ وہ ہوتا ہے حضرت عمر ؓ نے جس طرح ذکر کیا کہ وہ لوگ جن کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، تم ان کو غلام بنانے چلے ہو۔ انسان پھر ایک فساد کو دور کر کے دوسرا فساد کھڑا کردیتا ہے اور ایک کی غلامی سے نکال کہ انسانوں کو دوسرں کی غلامی میں ، اپنی غلامی میں داخل کر دیتا ہے۔ لوگوں کو اپنے احکامات پہ چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔تو یہ شریعت کا مقصود نہیں ہے ۔شریعت کو ایسی دنیا نہیں مطلوب ہے۔ اسلام کو دنیا کا ایسا نقشہ نہیں مطلوب ہے جہاں ایک فرعون کی جگہ دوسرا فرعون ،جہاں ایک قیصر کی جگہ دوسرا قیصر آجائے اور وہ لوگوں کو اپنا غلام بناتے ہوں ،اپنے احکامات کے سامنے جھکاتے ہوں۔ سب ایک رب کے سامنے جھکتے ہوں ۔خلیفہ سے لے کے ایک عام آدمی تک سب اللہ کے احکامات کے سامنے جوابدہ ہوں اور سب اس کے احکامات کے آگے اپنی زندگیاں گزارتے ہوں ۔تو یہ وہ تواضع ہے اور وہ عاجزی ہے جو ایک مسلمان اور ایک مجاہد کے اندر ہونی چاہیئے ؛مسلمانوں کے سامنے کندھے جھکے ہونے چاہییں۔اپنے بڑوں کے سامنے ،اپنے گھر والوں کے سامنے ، اپنے والدین کے سامنے ، علماء کرام کے سامنے ،ان سب کے سامنے کندھے جھکے ہونے چاہییں اور ان کا مقام اور مرتبہ پہچاننا چاہیئے اور یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم جو کچھ ہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے ہیں اور جب اللہ سے منہ پھیرا جب اللہ کی یاد میں کمی کی ،پیروں تلے زمین کھینچ لی جائے گی ،نہ دنیا ہاتھ آئے گی اور نہ آخرت۔

مجاہد کو جہاد میں اتارنے کا مقصد کیا ہے؟

اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا۔ تم نے پھینکا تو تم نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پھینکا؛ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا تو سوال پھر یہاں پہ یہ پیدا ہوتا ہےاگر قتل بھی اللہ نے کیا ،اگر ریت بھی اللہ نے پھینکی، آج تک اس کے بعد جو کچھ بھی پھینکا جا رہا ہے، وہ تیر پھینکا جا رہا ہے، وہ میزائل پھینکا جا رہا ہے، وہ گولی پھینکی جارہی ہے، ……جو چیز بھی کفار کی طرف رمی کی جارہی ہے وہ ہم نہیں کررہے وہ تو اصل میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے انجام پارہا ہے تو پھر ہمیں جہاد میں اتارنے کا کیا مقصد ہے ؟ اس کا مطلب ہے اللہ تنہاہی کافروں کو شکست دے سکتے ہیں ھزم الاحزاب وحدہ، اس نے سارے لشکروں کو تنہا شکست دی؛اس کو نہ میری حاجت ہے نہ آپ کی حاجت ہے ۔پھر مسلمانوں کو جہاد کا مکلف ٹھہرانے ،ان کو جہاد کا حکم دینے کا مقصد کیا ہے ؟ اللہ فرماتے ہیں: وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا یہ اس لیے تاکہ مؤمنوں کو آزمائش سے اچھی طرح گزارا جائے۔ تو یہ وہ مقصود ہے جس کی خاطر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد میں اتارا کہ ہماری آزمائش ہو، امتحان ہو ، امتحان بھی تکلیف دینے کی غرض سے نہیں ہے؛ امتحان اس غرض سے ہے کہ اللہ کے عدل کا یہ تقاضا ہے کہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں انسان کو امتحان سے گزارا جائے، اس کی قابلیت سامنے آئے ۔جس میں خیر ہے ، اس کی خیر سامنے آئے ۔جس میں شر ہے اس کا شر سامنے آئے۔ تاکہ جب وہ اندر کی چھپی ہوئی خیر سامنے آئے گی تو اس کے اوپر قیامت کے دن ثواب مرتب ہوگا اس کی روشنی میں یا اس کے مطابق اللہ سبحانہ تعالیٰ جزا عطا کریں گے ۔جس شخص کے اندر خیر ہو وہ خیر نکلے ہی نہ کبھی، تو عدل کے خلاف ہے کہ اس کو عمل خیر کیے بغیر ہی اس کی جزا دے دی جائے ۔تو یہ امتحان ہے اور صرف امتحان نہیں، اللہ کہتے ہیں، بَلَاءً حَسَنًا، اللہ تعالیٰ اچھی طرح گزاریں گے بھی تمہیں اس سے۔ تمہیں وہ اسباب دیں گے ،تمہاری مدد کریں گے ،قدم جمائیں گے، جس کے ذریعے سے تم اس آزمائش سے اچھی طرح گزرو ، لیکن آزمائش ضروری ہے۔

دیکھیں !بہت بڑا فرق ہےایک مومن کی نگاہ سے جنگوں کو جس طرح دیکھا جارہا ہے اور ایک کافر کی نگاہ میں؛ ظاہری نگاہ سے دیکھیں تو جنگ شاید انسانی زندگی کا یا انسانی معاشروں کا سب سے زیادہ کھینچنے والا اور پر کشش پہلو ہوتا ہے ۔پر کشش اس اعتبار سے کہ وہ اپنے اندر مگن کر لیتا ہے۔ کسی نے صرف پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے قصے پڑھے ہوں ،کسی نے پرانی اسلامی جنگیں، اسلامی تاریخ کی جنگوں کے قصے پڑھے ہوں ،وہ انسان کو اپنے اندر جذ ب کرلیتی ہیں، کھینچ لیتی ہیں بالکل انسان کی توجہ۔ کروڑوں انسان جو ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ کروڑوں کی زندگیوں پر اثرات ہوتے ہیں ۔علاقے فتح ہو رہے ہوتے ہیں۔ اموال کے ڈھیر ہیں جو ہاتھوں میں آ رہے ہوتے ہیں۔ ریاستیں اٹھ اور گر رہی ہوتی ہیں ۔یعنی وہ ایک صحیح معنوں میں، جس کو انسانی زندگی کے ڈرامے کا عروج کہا جاسکتا ہے، وہ جنگ کے موقع پہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔تو بڑی بڑی قوتیں ٹکراتی ہیں۔ سالوں کی تیاریوں، دہائیوں کی تیاریوں کے بعد بالآخر ایک دوسرے کے اوپر وار کرتے ہیں، چالیں چلتے ہیں۔ایک صرف دوسری جنگ عظیم کو اٹھا کے دیکھ لیں، کس طرح یورپ، کہ ملک کے ملک، جن کا آج تصور ہی نہیں ہے کہ جن کے ساتھ کوئی جنگ چھیڑ سکتا ہے، دنوں میں فتح ہوتے جاتے ہیں۔ دنوں کے اندر جرمنی نے پوری صفائی کر دی ۔ عجیب کہانی ہوتی ہے۔خود مسلمانوں کی فتوحات کے قصے پڑھیں تو اسی طرح ڈھیر لگ جاتا ہے؛ جو بڑے بڑے نامور دشمن ہوتے ہیں اس وقت کی سپر طاقتیں ہوتی ہیں، ریت کی دیوار کی طرح گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس سارے شور ،ہنگامے میں جو کہ چالیس ملک ادھر سے آئے اپنی پلاننگ کی، نیٹو کانفرنس ہوئی ، بون کانفرنس ہوئی ، لندن کانفرنس ہوئی ،شکاگو کانفرنس ہوئی ، ان کے تھنک ٹینکس نے بیٹھ کر بڑے منصوبے بنائے،نئی اسٹریٹجی لائے اورنئی چال چلی…… تو یہ لگتا ہے جو اس کے اندر اترا ہے وہ خود ایک پوری دنیا ہے۔ جو اس کام میں مشغول ہے ساری دنیا سے غافل ہوجاتا ہے۔ اللہ کہتے ہیں جو تم جس کھیل تماشے کو تم سب کچھ سمجھ رہے ہو نا اللہ کے نزدیک کچھ اور ہی مقصود ہے۔ اللہ کو اس اکھاڑ پچھاڑ سے کیا چیز مطلوب ہے ؟تم میں سے آزمائش کرنا ؛ جیسا سورہ آل عمران میں اللہ فرماتے ہیں ویتخذ منکم شہداء یہ جو پورا اسٹیج سجتا ہے اس میں اللہ کو کچھ اور چیز مطلوب ہے ۔اللہ تم میں سے شہداء چن رہے ہوتے ہیں۔ اللہ اپنے محبوب بندوں کا چناؤ کررہے ہوتے ہیں۔ اللہ اہل خیر کی خیر واضح کر رہے ہوتے ہیں۔ ایمان والے کتنے بھائی ایسے ہیں جو اگر جہاد میں نہ آتے تو کبھی بھی وہ اس مقام اور رفعت تک نہ پہنچ پاتے ۔کبھی خود ان کو بھی نہیں پتا تھا کہ اللہ نے ان کے سینے میں کیسی قوتیں اور طاقتیں رکھی ہیں؟ اللہ نے ان کو کیسی صلاحیتوں سے نوازا ہے ؟ جہاد کا میدان جو رجال کا میدان ہے، جہاں مردانگی کا پتا چلتا ہے ، وہاں ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ تو اہل خیر کی خیر سامنے آتی ہے اور سر کشوں، کافروں، طواغیت کا کفر سامنے آتا ہے۔ امریکہ کی گندگی تب ہی پوری طرح کھلی جب جنگ میں اترا؛ تبھی گوانتاناموبے بنا ۔ جب جنگ میں اترا تو اس کے بعد ابوغریب سامنے آیا، اس کے بعد لوگوں کے سامنے ان کی غلاظت آناشروع ہوئی۔ آپ ستمبر ۲۰۰۱سے پیچھے لوٹ جائیں۔ ہمارے معاشروں میں ،ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں میں ہمارے عام معاشروں میں کتنے لوگ ایسے تھے جو امریکہ سے محبت کرنے والے تھے ۔اس کی اقدار سے واقعتاً مرعوب تھے اور جو اس کے چہرے کو واقعتا ًبڑا خوشنما سمجھتے تھے لیکن اللہ نے اس جنگ کے ذریعے ان کی سرکشی، ان کا طغیان ان کا کفر، ان کی غلاظت کھول کے، اللہ واضح کرکے لے آیا ، تو یہ اللہ کی طرف سے یہ ابتلا ہوتی ہے تو یہ جہاد ہے اس میں دونوں جانب کی ابتلا ہورہی ہوتی ہے۔ دونوں کی آزمائش ہورہی ہوتی ہے ۔

مجاہدین کی مثال لیں؛ بعض چھوٹے چھوٹے ساتھی ہوتے ہیں، ایک ساتھی ایوب رحمہ اللہ کی مثال لیں جب وہ آیا پہلی مرتبہ تو اسلام آباد کا ایک نرم ونازک سا نوجوان تھا جو سردیوں کے موسم میں پہنچا ۔دیکھ کے ہی میں نے دل ہی دل میں کہا کہ بھائی! پتا نہیں یہ آکیسے گیا ہے ؟ آنے کے بعد یہ کیسے سفر کرے گا ؟ اس موسم میں اس نے پہاڑوں میں جانا ہے ، وہاں جا کے اس نے تدریب بھی کرنی ہے اور آگے بھی برف پڑنے کا موسم قریب ہے…… دیکھنے میں یہی لگتا تھا کہ اس بے چارے کا گزارہ مشکل ہے اور وہی بھائی اگلی گرمیوں کے اندر آتا ہے تو جہاں باقی ساتھی کوئی چار کارروائیاں کر کے آرہا ہے ،کوئی پانچ کارروائیاں کر کے آرہا ہے، اور اس کو آئے ابھی آدھا موسم ہوا تو مجھے کہتا ہے کہ سینتیس کارروائیاں میں اب تک کرچکا ہوں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس سے کام لینا مطلوب تھا ، تو اللہ اس کے اندر چھپی ہوئی شجاعت (سامنے )لے کے آئے ۔یہاں تک کہ انصار بھی اسے پسند کرتے تھے اورمقامی مجاہدین بھی اسی کو اپنے ساتھ کارروائیوں میں لے کے آئیں۔ گولے گر رہے ہوں ،گولیاں برس رہیں ہوں، وہ ڈرتا نہیں تھا ، خوف نہیں کھاتا تھا۔ اس کے اندر کیا چیز چھپی ہوئی تھی ؟ اللہ نے اس جنگ کے میدان میں ، اس آزمائش کی بھٹی سے گزار کے ، اس خیر کو سامنے لے کے آئے ۔تو یہ ایک اللہ کا اپنا نظام ہے ۔ اللہ کی کچھ اپنی حکمتیں ہیں۔ اللہ کے کچھ اپنے منصوبے ہیں جن کی تکمیل ہو رہی ہوتی ہے ۔ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں فلاں تنظیم یا فلاں قوم اس ملک سے سے ٹکرا رہی ہے ، اس میں ظاہری جو کھیل تماشا ہے ، یہ صرف کھیل ہے اور اس سے اللہ کو کچھ اور چیزیں مطلوب ہیں ۔اللہ حالات کو مخصوص سمت میں ، جو اللہ کے قضاء وقدر میں ، جو اللہ کے تکوینی ارادوں میں لکھے ہیں ، اللہ اس سمت لے کر جارہے ہوتے ہیں۔

تو پیارے بھائیو!

یہ سارا کچھ اس لیے ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تنہا کافروں کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں، میری اور آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ ہمارے لیے شرف ہے۔ ہمارے اوپر اللہ کا حسان ہے کہ اللہ تعالیٰ امریکہ جیسے مفسد ، اللہ کے سرکش طاغوت کو تڑوانے میں ہمارا کہیں اس قافلے میں نام لکھ لیں جس کے ہاتھ سے کام لیا گیا ، یہ ہمارے اوپر اللہ کا احسان ہوگا ۔ ورنہ اللہ کو میری اور آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کا احسان تھا ان سب مسلمانوں پہ جن سے اللہ نے روس کو تڑوانے کا کام لیا اور جن سے آئندہ جو طاغوت ابھی باقی ہیں ان کو تڑوانے کا کام لیں گے ۔یہ اللہ کا ان لوگوں پر احسان ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرف دیا ، فضل ان کے اوپر کیا، ان سے اتنی بڑی عبادت لے لی اور اللہ سے ڈرنا بھی چاہیے کہ اگر ہم اللہ کو ناراض کریں تو جس رب نے یہ احسان کیا وہ واپس بھی چھین سکتے ہیں اپنا تحفہ، یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی۔ تو اللہ تعالیٰ اس سارے سے گزارتے ہیں کہ ہماری آزمائش ہو۔ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ یقینا ً اللہ تعالیٰ سننے والے اور علم رکھنے والے ہیں ۔

اللہ رب العزت غنیٌ عن العالمین ہیں

تو پیارو ! یہی بات یہاں ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سےاور آپ سے غنی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ عنکبوت میں فرماتے ہیں:

وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ ، جو جہاد کر رہا ہے بس اپنے لیے کر رہا ہے ، إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ سارے جہانوں سے غنی ہیں ۔ اللہ کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کو نہ تنظیم القاعدہ کی ضرورت ہے نہ اللہ تعالیٰ کو تحریک طالبان کی ضرورت ہے، نہ اللہ تعالیٰ کو امارت اسلامیہ افغانستان کی ضرورت ہے ……اللہ تعالیٰ کے ہاں ان چیزوں پہ کچھ بھی نہیں کھڑا ہوا۔ بڑی بڑی تحریکیں اسلامی تاریخ میں آئیں اور مٹ گئیں۔ بڑے بڑے نام آئے ،بڑے بڑے علماء ،بڑے بڑے جرنیل آئے ، اور مٹ گئے؛ اللہ کا نام باقی ہے، وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ایک اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ جس نے ،اللہ کا چہرہ ہے جس نے ،باقی رہنا ہے۔ تو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جہاد میں ہم بعض اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اگر فلاں چلا گیا تو یہ چیز گر جائے گی ،اگر ہم نہ رہے تو پتا نہیں کیا ہوگا……کچھ نہیں ہوگا! اللہ تعالیٰ ابا بیلوں سے اپنا کام لے لیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہاتھیوں کو تباہ کرنے کے لئے چھوٹے پرندے بھیج دیتے ہیں۔ اللہ مکڑیوں سے، ہواؤں سے، سمندروں سے اپنا کام لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے بھی محتاج نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہیں رب الاسباب ہیں ان کا ایک حرف کُن کافی ہے ان فیصلوں کو نافذکرنے کے لیے۔

تو میرے پیارے بھائیو!

یہ بات ذہن میں رہے کہ جو جہاد کررہا ہے وہ اپنے لیے کررہا ہے ۔ بالاصل وہ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کر رہا ہے اور یہی بات کافروں کو پتا ہونی چاہیے کہ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شاید شیخ اسامہ ؒشہید ہوگئے تو بات ختم ہوجائے گی۔ شیخ زرقاوی ؒشہید ہوگئے تو بات ختم ہوجائے گی۔ فلاں شخصیت کو مار دیا تو بات ختم ہوجائے گی۔ اس سے یہ دین نہیں رکتا ہے، يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ یہ چاہتے ہیں اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (سورة التوبہ:۳۲) اور اللہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ اللہ ضرور اپنے دین کو غالب کر کے رہیں گے ، اس نور کو پورا کر کے رہیں گے ،چاہے کافروں کو ناگوار گزرے۔تو یہ ان کی پھونکوں سے نہیں رکے گا۔ بڑے بڑے ہتھیار لا لا کے، بڑی بڑی کمپنیز ،ان کی نت نئی مشینریاں، future weapons اور کیا کیا چیزیں تیار کر کر کے میدان میں اتار رہے ہوتے ہیں اور ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والوں اور مختلف چینل پہ ان کی نئی نئی ایجادات دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو رہی ہوتی ہیں…… اور اللہ کہتے ہیں کہ پھونکیں ہیں بس…… اور اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے ان پھونکوں سے کچھ بھی نہیں ہونے لگا۔ تو یہ ذہن میں ہمارے بھی ہونا چاہیے اور اگر ہمارا دشمن عقل وفہم رکھتا تواس کے بھی ذہن میں ہونا چاہیے تھا۔

شیطان کی چال کمزور ہے

ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ،اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے مدد تو تمہارے لیے ہی ہے؛جس کا ہم نے پچھلی آیتوں میں بیان پڑھا، وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ اور اللہ تعالیٰ کافروں کی چال کو کمزور کرنے والے ہیں؛ تو یہ ایک ذہن میں رکھنے والی بات ہے۔ شیطان کی چال کمزور ہے إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا(سورۃ النساء:۷۶)شیطان ،جو ان سب کا باپ ہے،جو ان سب کا بڑا اور گورو اور سربراہ ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی چال بھی کمزور ہے اور کافروں کی بھی؛ گو کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (سورۃ ابراہیم:۴۶) کہ وہ ایسے ایسے مکر کرتے ہیں کہ پہاڑ اس سے ٹل جائیں۔ لیکن اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔یعنی پورے شیاطین ہیں جو ذہنی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ذہنوں کو انہوں نے اپنے فارغ کیا ہوا ہے، ان کو لاکھوں ڈالر تنخواہ ملتی اس لیے ہے ماہانہ بنیادوں پہ کہ وہ کسی تھنک ٹینک میں بیٹھ کر سوچیں، اورشیطانی ایجنڈے کو آگے لے کے جائیں، دین کو مٹانے کے لیے نئی سازشیں نئی چالیں ،نئے انداز ، نئے روپ جو ہیں وہ اختیار کرکے وار کریں اور حملے کریں لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ چالیں جو ہیں ان کی وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کمزور کرنے والے ہیں۔ بظاہر پہاڑوں کو گرادینے والی جو چالیں ان کی نظر آتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ایسے علاج کرتے ہیں کہ انہی کی چال انہی پر واپس لوٹ جاتی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کی مددونصرت فرماتے ہیں؛ ورنہ جس طرح ہم نے پچھلے درس میں بات کی کہ مادی اعتبار سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا ہمارا اور ان کا۔ اللہ تعالیٰ ان کی چالوں کو ان پر نہ الٹائیں تو ہمارے پاس وہ تناسب ہے ہی نہیں ان کے ساتھ مقابلے کے لیے…… یعنی ہمارے پاس اتنے بندے شاید لڑنے کے لئے نہیں موجود ہیں جتنے ان کے بندے بیٹھ کے سوچ وفکر کے کام پہ لگے ہوئے ہیں ۔تو منصوبہ بندیاں جس سطح پہ ان کی ہورہیں ہیں ہم کہاں کر سکتے ہیں اس سطح کی منصوبہ بندی! وسائل میسر ہی نہیں ہیں ہمارے پاس ۔ تو وہی بندہ جس نے سوچنا ہے اسی نے عملی ترتیبیں بھی بنانی ہیں، اسی نے آپریشنل اور تنظیمی کام بھی کرنے ہیں، اسی نے اپنے روز مرہ کے مسائل بھی بھگتانے ہیں، اسی نے اپنی جان کی بھی حفاظت کرنی ہے،اسی نے اپنے لیے خندق بھی کھودنی ہے، اپنے گھر کو بھی سیدھا کرناہے…… یہ سارے کام اسی ایک بندے نے کرنے ہوتے ہیں تو وہ کیسے کرے گا؟ کون سی منصوبہ بندی اس کے لیے ممکن ہے؟ اس کی نسبت وہ ایک بندہ ہے جو کسی ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھا ہے ،گاڑی اس کو گھر سے لے جاتی ہے، وہاں ڈراپ کرتی ہے ،اس کو سارے وسائل میسر ہیں، پرنٹرز ہیں اسکینرز ہیں، پاور پوائنٹ پریزنٹیشن چل رہی ہے، ٹیبل سجے ہوئے ہیں اور بہترین براڈ بینڈ انٹر نیٹ کنکشن اس کو میسر ہے ……سارے وسائل اسے میسر ہیں ، لہذا وہ سوچ بھی سکتا ہے ،ریسرچ بھی کر سکتا ہے، غور بھی کرسکتا ہے…… سکون بھی میسر ہے…… تو اللہ تعالیٰ ہیں جو ان کی چالوں کو واپس پلٹاتے ہیں۔ آپ ان کی صرف رینڈ کارپوریشن کی رپوٹیں پڑھنا شروع کریں تو ویسے ہمت ہار جائیں گے آپ کہ ہم کیا کریں اس سب کا؟ کہ تہذیبی طور پہ بھی آپ پہ حملہ ،علمی طور پر آپ کی بنیادیں گرانے کے لیے پورے منصوبے، اور ایک نہیں ہر چوتھے دن آٹھویں دن کوئی نئی رپورٹ آئی ہوتی ہے کہ اس کا یہ کرو، اس کا وہ کرو، ادھر سے حملہ کرو ،ادھر سے حملہ کرو، عسکری طور پہ آپ پہ ضربیں لگانے کے لیے اورمعاشی طور پہ…، وہ جو قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ ان کے اوپر خرچ کرتے ہیں ان کو بکھیر دو ،ان کو پیسے جمع کرنے کا موقع ہی نہ ملے؛ تو ہمارے مالی وسائل خشک کرنے کے کیا کیا منصوبے…… وہ یہ سارے منصوبے بتا رہے ہوتے ہیں جن کو پڑھنے کی ہمارے پاس فرصت نہیں ہے…… مقابلہ تو اس سے آگے کی بات ہے۔ تو یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہیں جو ان کی چالوں کو واپس ان پہ دفع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی چالیں انہی پہ الٹاتے ہیں اور اللہ ہی ہیں جو ہمارا دفاع کرتے ہیں اور اللہ ہی ہیں جو ہماری مدد ونصرت کرتے ہیں ۔

تو پیارے بھائیو!

اس کا احساس ہو ۔ اس احسان کا احساس ہو ۔اللہ کے سامنے جس طرح اللہ کے نبی ﷺ مکہ میں جھکتے ہوئے داخل ہوئے، (ایسے ہی) ہماری گردن اٹھنی نہیں چاہیئے احسانات کا شکر ادا کرتے کرتے کہ کیسے اس نے سکینت دی ہے، کیسے دلوں کو ثبات دیا ہے، کیسے کافروں کی چالوں کو ان پر الٹایا ہے ۔امریکہ کی ناک رگڑوائی ہے عراق کے اندر؛ پریشرکو کر جتنی مائنوں نے ان کا کباڑہ کر دیا ہے کہ جس کا وہ علاج نہیں کرسکے تو یہ اللہ کا فضل ہے ۔ایک افغانی جس کی تعلیم ان کی تعلیم سے میچ نہیں کرتی؛ وہ اپنے پتا نہیں کتنے کورسز کرواتے ہیں؛ دعویٰ کرتے ہیں امریکی کہ اگر عراق یا افغانستان کے اندر مجاہدین نئی مائن ایجاد کرتے ہیں، تو چوبیس گھنٹے کے اندر ہمارے بارود کے شعبے کے کورس میں اس کا نسخہ شامل ہوچکا ہوتا ہے کہ اس کا توڑ کیسے کرنا ہے ۔تو ان سارے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود وہ پریشر ککر ابھی بھی زندہ باد ہے اور وہ ابھی بھی ساری کی ساری ان کی چیزوں کو الٹا دیتا ہے ،اللہ کی مدد سے…… انسان کی قوت سے نہیں۔اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے اوپر حقیقی ایمان مجھے اور آپ کو نصیب فرمائیں اور اللہ تعالی کافروں کی بھی حقارت اور ذلت اور چھوٹا پن ہمارے سینوں کے اندر راسخ کردیں اور یہ جو رعب اس امت کے اوپر کفار نے جھوٹے طریقے سے مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اللہ اس مرعوبیت کے مرض سے ہمیں نجات دیں۔ اللہ ہمیں اپنے دین پہ فخر کرنے والا اپنے ایمان پہ فخر کرنے والا قرآن پہ فخر کرنے والا مسلمان مجاہد ہم سب کو بنا دیں آمین۔

صلی اللہ علی نبینا محمد وسلم تسلیما کثیرا

سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

٭٭٭٭٭

Previous Post

الشیخ المجاہد خالد باطرفی ﷬کا سانحۂ ارتحال

Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھبیس (۲۶)

Related Posts

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
Next Post
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھبیس (۲۶)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version