نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

اُمیدِ مغفرت و رحمت

شاہ حکیم محمد اختر by شاہ حکیم محمد اختر
30 مارچ 2024
in تزکیہ و احسان, مارچ 2024
0

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ

فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا1

وَقَالَ تَعَالٰی اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ2

وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ الْمُفَتَّنَ التَّوَّابَ3

تعمیرِ حال اور تعمیرِ مستقبل کا سامان

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے رب سے مسلسل مغفرت مانگتے رہو۔ یہ مسلسل کا لفظ میں نے کیوں استعمال کیا؟ کیونکہ اِسْتَغْفِرُوْا امر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے اور مضارع کے اندر تجددِ استمراری کی خاصیت ہوتی ہے یعنی باربار اس کام کو کیا جائے۔ عربی قواعد (گرامر) کی رو سے فعل مضارع میں دو زمانے پائے جانا لازم ہے، ایک زمانہ حال اور دوسرا زمانہ مستقبل، تو معنیٰ یہ ہوئے کہ موجودہ حالت میں بھی ہم سے مغفرت مانگو اور آئندہ بھی مانگتے رہنا، لہٰذا یہ آیت دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی موجودہ حالت میں بھی اور آئندہ حالت میں بھی لیکن اللہ ایسا کریم مالک ہے جس نے اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کا حکم دے کر ہمارا حال بھی بنا دیا اور مستقبل بھی بنا دیا۔ واہ! کیا شان ہے مالک کی کہ تعمیرِ حال اور تعمیرِ مستقبل دونوں کا سامان اس آیت میں اپنے کرم سے نازل فرما دیا کہ موجودہ حالت میں تم سے کوئی خطا ہو جائے تو ہم سے معافی مانگ لو اور اگر آئندہ بھی ہوجائے تو نااُمید نہ ہونا ہم سے معافی مانگ لینا۔ اور یہاں ’ربّ‘ کیوں نازل کیا کہ پالنے کی محبت ہوتی ہے، جیسے اماں ابا سے معافی کی بچوں کو جلد اُمید ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں ربّ نازل فرما کر بتا دیا کہ اپنے پالنے والے سے نااُمید نہ ہونا، میں تمہارا پالنے والا ہوں اور پالنے والا جلد معاف کرتا ہے لہٰذا مغفرت مانگتے رہو، بخشش مانگتے رہو اور بخشش مانگنے میں مزہ بھی تو ہے، مغفرت مانگنے کا الگ مزہ ہے۔

گناہ کی دو تکلیفیں

گناہ کرنے سے بندے کو، عاشق باوفا کو دو تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ غم ہوتا ہے کہ مجھ سے کیوں نالائقی ہوئی اور میں نے اپنے پالنے والے کو کیوں ناراض کیا۔ دوسرا ہر گناہ سے روح کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ گناہ سے بندہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔ ماں باپ سے دوری باعثِ غم ہے یا نہیں؟ تو اصلی پالنے والا تو اللہ ہے۔ اس حقیقی پالنے والے کی دوری سے کس قدر غم ہوگا جبکہ ماں باپ اصلی پالنے والے نہیں، متولی ہیں۔ پالنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو متولی بنایا گیا ہے، اگر ماں باپ ہی اصلی پالنے والے ہوتے تو ان کے مرنے کے بعد بچے کو مرجانا چاہیے تھا، ماں باپ کی موت کے بعد بچوں کی موت لازمی ہوتی لیکن جب ماں باپ نہیں ہوتے تو بھی تو بچہ پل جاتا ہے کیونکہ اصلی پالنے والا تو زندہ ہے لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے یتیم بچے اپنے ماں باپ کے زمانۂ پرورش سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی پرورش پا جاتے ہیں۔

گناہ کی تکلیفوں کا مداوا

تو اللہ تعالیٰ نے ربّ نازل فرمایا کہ اگر تم سے نالائقی ہوگئی اور گناہ سے تم کو دو غم ہوئے، ایک تو میری ناراضگی کا غم اور دوسرا تمہاری روح کو تکلیف ہوئی کہ اپنے پالنے والے سے الگ ہوگئے۔ جیسے لائق بیٹا ماں باپ سے جدا ہوتا ہے تو اسے غم ہوتا ہے تو میں لفظ ’ربّ‘ نازل کر رہا ہوں کہ دیر نہ کرو، اپنے پالنے والے سے معافی مانگ لو، تو اللہ تعالیٰ نے ہماری دونوں تکالیف دور کرنے کا اس استغفار میں انتظام فرما دیا کہ معافی مانگ کر تم اپنے پالنے والے سے پھر قریب ہوجاؤ گے۔ گناہ سے جو دوری ہوئی تھی استغفار کی برکت سے تمہاری دوری حضوری سے بدل جائے گی، اور گناہ سے تمہاری روح کو جو پریشانی اور بے قراری تھی جب استغفار کرو گے، اللہ سے مغفرت کی بھیک مانگو گے، اپنی بخشش مانگو گے، تو کیا ہوگا؟ وہ پریشانی سکون سے بدل جائے گی، کیونکہ ہر نیکی اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہے اور ہر گناہ اللہ تعالیٰ سے دور کرتا ہے۔ نافرمانی کا اللہ تعالیٰ سے دور کرنا یہ کون سی ایسی باریک بات ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ ہر بندہ جانتا ہے کہ گناہ سے اللہ تعالیٰ سے دوری ہوجاتی ہے، لہٰذا اِسْتَغْفِرُوْا نازل فرمایا کہ اے میرے بندو! مجھ سے معافی مانگتے رہو فی الحال بھی اور آئندہ بھی یعنی فی الحال بھی اُمید دلا دی اور مستقبل کی بھی اُمید دلا دی کہ اگر آئندہ بھی تم سے کوئی خطا ہو جائے تو معافی مانگ لینا کیونکہ مضارع کے اندر حال اور استقبال دونوں زمانے ہوتے ہیں اور ربّ نازل کرکے اور زیادہ اُمید دلا دی کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں، پالنے والا جلد معاف کر دیتا ہے اور گناہ سے جو تکلیف اور جو دوری ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اُسے لذت سے بدل دیا کہ جب کہو گے اے میرے پالنے والے! تو کیا قرب نہیں ہوگا؟

استغفار سے لفظ ربّ کا ربط

بچہ جب کہتا ہے کہ ابّا معاف کردو تو کیا وہ ابّا سے قریب نہیں ہو جاتا؟ جو صاحبِ اولاد ہیں ان سے پوچھو کہ اگر اولاد ابّا نہ کہے خالی یہ کہے کہ معاف کر دیجیے تو ابا کو مزہ نہیں آئے گا لیکن جب بچہ یوں کہتا ہے کہ اے ابا! اے میرے ابو! اے میرے بابا! مجھے معاف کر دیجیے تو کیا ابا کے لفظ سے ابا کے دل پر کیفیت طاری نہیں ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دریا میں طوفان اور جوش لانے کے لیے یہاں ربّ نازل کیا اور اپنے بندوں کو سکھایا کہ ہم سے یوں کہو کہ اے میرے پالنے والے! مجھ کو معاف کر دیجیے، مجھ سے نالائقی ہو گئی، اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اپنے پالنے والے سے معافی مانگو۔

مغفرت کا غیر محدود سمندر

اور آگے فرمایا اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا یعنی اللہ تعالیٰ صرف بخشنے والا ہی نہیں ہے، بہت زیادہ بخشنے والا ہے یعنی اللہ تعالیٰ غافر نہیں ہے، غَفَّارْ ہے، مغفرت کا بحر ذخار ہے کہ اگر سارے عالَم کو بخش دے تو اس کی مغفرت کے غیر محدود سمندر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یَا مَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُ اے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جو سورج کی طرف تھوکتا ہے تو اس کا تھوک اس کے ہی منہ پر گرتا ہے۔ اللہ تو بڑی شان والا ہے، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ گناہوں سے ہم کو ہی نقصان پہنچتا ہے لہٰذا سرورِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو سکھا رہے ہیں کہ یوں کہو یَا مَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُ اے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا، وَلَا تَنْقُصُہُ الْمَغْفِرَۃُ اور بندوں کو معاف کرنے سے اس کی مغفرت کچھ کم نہیں ہوتی۔ اس کے خزانۂ مغفرت میں کوئی کمی نہیں آتی، فَاغْفِرْلِیْ مَا لَا یَضُرُّکَ تو میرے ان گناہوں کو آپ معاف کر دیجیے جن سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہم لوگ تو دوسروں کو معاف کرنے میں اس لیے دیر کرتے ہیں کہ ہم کو نقصان پہنچتا ہے، یہ دلیل اس کے اندر پوشیدہ ہے، وَھَبْ لِیْ مَالَا یَنْقُصُکَ4 جس چیز کے دینے سے آپ کے خزانے میں کمی نہیں آتی وہ مغفرت کا خزانہ ہم کو دے دیجیے۔

حدیث اَللّٰھُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ کی عاشقانہ شرح

اور کیوں دے دیجیے؟ ایک مقام پر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ایک اور خوبی اور ایک اور صفت کا واسطہ دے کر سکھایا کہ اس طرح بھی معافی مانگو اَللّٰھُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ اے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور بہت کریم ہیں یعنی نالائقوں کو بھی معاف کرنے والے ہیں۔ جو اس درجہ نالائق ہو کہ گناہ کرتے کرتے اس قابل ہوگیا ہو کہ معافی کے قابل بھی نہ رہا ہو، ایسوں کو بھی مہربانی سے محروم نہ کرنے کا نام کرم ہے، لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہ سکھایا کہ عَفُوٌّ کے بعد کَرِیْمٌ بھی کہو کہ اے اللہ! اگرچہ ہم اپنی مسلسل نالائقیوں سے، مسلسل بے وفائیوں سے اور بے غیرتی کے اعمال سے آپ کے منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرما دیں لیکن آپ کریم ہیں اور کریم کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو نالائقوں کو بھی اپنی مہربانی سے محروم نہ کرے، اس لیے آپ ہم پر رحم فرما دیجیے، اپنے کرم سے ہم کو محروم نہ کیجیے کیونکہ آپ کریم ہیں اور کریم نالائقوں کو بھی محروم نہیں کرتا۔

حق تعالیٰ کا محبوب عمل

اور صرف یہی نہیں کہ آپ بہت معافی دینے والے کریم ہیں بلکہ تُحِبُّ الْعَفْوَ اپنے معاف کرنے کے عمل کو آپ بہت محبوب رکھتے ہیں یعنی جب آپ کسی بندے کو معافی دیتے ہیں تو آپ کو یہ عمل بہت پیارا، بہت محبوب ہے۔ سبحان اللہ! یہ کس کا جواب ہے؟ مخلوق کا جواب ہے کہ ہم لوگ اپنے ستانے والے کو جب معاف کرتے ہیں تو ہمیں مزہ نہیں آتا، دل میں دکھن رہتی ہے لیکن پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ کے مزاج مبارک، مزاجم عظیم الشان، مزاج عالی شان کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ دیکھیے! کسی شیخ کا مزاج معلوم کرنا ہو تو شیخ کے مقرب سے پوچھتے ہیں کہ شیخ کیا چیز پسند کرتے ہیں؟ بادشاہ کا مزاج معلوم کرنا ہو تو بادشاہ کے مقرب سے پوچھتے ہیں تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی اللہ تعالیٰ کا مقرب اور پیارا نہیں۔ پس سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حق تعالیٰ کا مزاج شناس دونوں جہانوں میں کوئی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے مزاجِ مبارک، مزاجِ عظیم، مزاجِ عالی شان کو جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں دونوں جہانوں میں کوئی نہیں جانتا لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کے مزاج سے اُمت کو باخبر فرما رہے ہیں کہ تمہارے پالنے والے کا یہ مزاج ہے اور ہمیں سکھا رہے ہیں کہ اللہ میاں سے ایسے مانگو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ5 اے اللہ! آپ معاف کرنے کو محبوب رکھتے ہیں، اے اللہ! جب آپ کسی کو معاف کرتے ہیں تو معاف کرنے سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ اپنے بندوں کو معافی دینا آپ کو نہایت محبوب ہے اور محدث عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ کتنا پیارا کیا اَیْ اَنْتَ تُحِبُّ ظُھُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِكَ6 اپنے بندوں پر جب اپنی مغفرت کی صفت ظاہر کرتے ہیں اور ان کو معافی دیتے ہیں تو یہ عمل آپ کو نہایت محبوب ہے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی کا صیغہ ارشاد نہیں فرمایا، حال کا صیغہ ارشاد نہیں فرمایا، مضارع کا صیغہ ارشاد فرمایا جس میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جانا لازم ہے تو معنیٰ یہ ہوئے کہ آپ کی یہ خوبی ہے کہ موجودہ حالت میں بھی معاف کرنے کے عمل سے آپ کو محبت ہے اور آئندہ بھی بندوں کو معاف کرنا آپ کو محبوب ہے۔ آپ کی یہ صفت حالیہ بھی ہے، مستقبلہ بھی کیونکہ آپ لازوال ہیں تو آپ کی ہر صفت بھی لازوال ہے جو کبھی آپ سے زائل نہیں ہوگی لہٰذا اس وقت بھی معافی دے دیجیے، آئندہ بھی معاف کر دیجیے۔

آہ! کیا پیارا عنوان ہے؟ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم سب کی جانیں فدا ہوں کہ معافی کا کیسا پیارا مضمون عطا فرمایا کہ تُحِبُّ الْعَفْوَ آپ جب کسی کو معافی دیتے ہیں تو اس عمل کو آپ بہت محبوب رکھتے ہیں یعنی اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کرنا آپ کو بہت ہی پیارا، بہت ہی محبوب ہے جیسے کسی کو شکار محبوب ہوتا ہے تو چار بجے رات ہی کو اُٹھ کر کوئی جال لے کر مچھلی کا شکار کرتا ہے، کوئی ہرن کا شکار کرتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ صاحب آپ کو کون سا شکار محبوب ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کو کون سا شکار محبوب ہے؟ ہم گناہ گاروں کو معاف کر دینا۔ دوستو! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ کیسا کریم مولیٰ ہم سب کو ملا ہے۔

دوستو! بخاری شریف کی حدیث ہے جس کا ترجمہ اختر کر رہا ہے۔ آہ! کیا پیارا عنوان سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ اے اللہ! جب آپ کسی کو معاف کرتے ہیں تو معاف کرنے میں آپ کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی بلکہ معافی دینا آپ کا محبوب عمل ہے تو اس کام کو آپ خود محبوب رکھتے ہیں اور محبوب عمل کو جاری کرنے کے لیے کوئی میدان کوئی فیلڈ تو ہونی چاہیے، لہٰذا ہم گناہ گار اپنے گناہوں کا اعتراف، اپنے گناہوں پر ندامت و استغفار و توبہ کی گٹھڑی لے کر خود حاضر ہوئے ہیں کہ فَاعْفُ عَنِّیْ ہم گناہ گاروں کو معاف فرما کر اپنا محبوب عمل ہم پر جاری کر دیجیے اور ہمارا بیڑا پار کر دیجیے اور فَاعْفُ عَنِّیْ میں فا تعقیبیہ ہے کہ جب گناہ گار بندوں کو معافی دینا آپ کا محبوب شکار ہے، ہم گناہوں کے شکار ہیں، ہمیں معاف کرکے شکار کر لیجیے، معاف کرنا آپ کا محبوب عمل ہے تو پھر دیر نہ کیجیے، جلدی سے ہم کو معاف کر کے اپنا محبوب عمل کر لیجیے، ہم تو آپ سے آپ کا محبوب عمل مانگتے ہیں لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فا تعقیبیہ لگا دی کہ اے اللہ! جلد معاف کر دیجیے، معاف کرنے میں دیر نہ کیجیے کیونکہ معاف کرنا آپ کو خود محبوب ہے، لہٰذا جلد کرم فرمائیے اور ہمیں معاف کر دیجیے۔

فرضیتِ تقویٰ کا عاشقانہ راز

اللہ تعالیٰ نے اپنے مزاجِ الوہیت کی بزبانِ نبوت سارے عالَم کو اطلاع کر دی کہ اے گناہ گارو! کیوں گھبراتے ہو مجھے معاف کرنا محبوب ہے، گناہ پر تم جری تو نہ ہو، گناہ پر بہادری مت دکھاؤ کیونکہ گناہ میری ناراضگی اور غضب کا بھی سبب ہے اور گناہ سے تم مجھ سے دور ہو جاؤ گے اور ہم تم کو دور کرنا نہیں چاہتے، اس لیے تقویٰ فرض کرتے ہیں۔ تقویٰ کے فرض ہونے کا راز اللہ تعالیٰ عطا فرما رہے ہیں کہ جانتے ہو کہ میں تم پر تقویٰ کیوں فرض کر رہا ہوں؟ اس لیے کہ ہر گناہ بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتا ہے اور شیطان سے قریب کرتا ہے، گناہ کر کے تم ہم سے دور ہو جاؤ گے اور ہم تم کو اپنی ذات سے دور نہیں کرنا چاہتے، ہم تمہاری دوری کو پسند نہیں کرتے، جب ماں باپ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد ان سے دور ہو تو میں تو ماں باپ کی رحمت کا خالق ہوں ، ساری دنیا کے ماں باپ کو رحمت بھیک میں دیتا ہوں تو میں کیسے پسند کروں گا کہ میرے بندے مجھ سے دور رہیں، میری محبت چاہتی ہے کہ میرے بندے مجھ سے قریب رہیں لہٰذا تقویٰ کا حکم، گناہ چھوڑنے کا حکم اس لیے دیتا ہوں کہ تم ہم سے دور نہ رہو، ہم تمہیں اپنے قریب رکھنا چاہتے ہیں۔

مغفرت سے طلبِ رحمت کا ربط

پھر بھی اگر خطا ہو جائے اور تقویٰ ٹوٹ جائے تو پھر معافی مانگو، اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کا حکم بتا رہا ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی جب ہی تو معافی مانگنے کا حکم دے رہے ہیں لہٰذا کہو رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ اے پالنے والے! مجھے معاف کر دیجیے تو لفظ رَبَّا میں بہت عظیم الشان لطف ہے اور معافی مانگنے میں عجیب مزہ ہے، معافی مانگنا بڑا مزیدار عمل ہے، اس کا مزہ کچھ نہ پوچھو لیکن جب مغفرت مانگو تو رحمت بھی مانگو۔

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ7 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا کہ قُلْ اے نبی! آپ فرمائیے، پڑھتے رہیے، اس وقت بھی پڑھیے، آئندہ بھی پڑھتے رہیے، تمام زندگی پڑھتے رہیے، یہ قُلْ کا ترجمہ ہے۔ وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ اے ہمارے پالنے والے! ہم کو بخش دیجیے۔ وَارْحَمْ اور رحم بھی کر دیجیے۔ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ اور آپ بہترین رحم کرنے والے ہیں۔

تو مغفرت کے بعد رحمت کو کیوں نازل فرمایا؟ اس کا جواب علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں دیا کہ مغفرت کے بعد رحمت کا ایک خاص ربط ہے۔ مغفرت کے معنیٰ ہیں بِسَتْرِ الْقَبِیْحِ وَاِظْھَارِ الْجَمِیْلِ8 اللہ تعالیٰ جب معاف فرما دیتے ہیں تو اس کی برائیوں کو چھپا دیتے ہیں اور نیکیوں کو ظاہر فرما دیتے ہیں اور رحمت کے معنیٰ ہیں اَیْ تَفَضَّلْ عَلَیْنَا بِفُنُوْنِ الْاٰلَاءِ مَعَ اسْتِحْقَافِنَا بِاَفَانِیْنِ الْعِقَابِ9 اب ہمارے اوپر اے اللہ! طرح طرح کی نعمتیں برسا دیجیے کیونکہ آپ نے ہمیں معاف کر دیا، ہم کو بخش دیا، باوجود اس کے کہ ہم اَفَانِیْنِ الْعِقَابِ کے مستحق تھے۔ فَنْ کی جمع فُنُوْنْ اور فُنُوْنْ کی جمع اَفَانِیْنْ جو ہم طرح طرح کے عذابوں کے مستحق تھے تو جب ہم نے معافی مانگ لی اور آپ نے ہم کو بخش دیا تو اب ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازش کیجیے۔ اس نالائق بندے کو جو طرح طرح کے عذاب کا مستحق تھا اب اس پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دیجیے۔ یہ تفسیر روح المعانی پیش کر رہا ہوں جو عربی زبان میں ہے، اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ دیکھیے! جب بچہ ابّا کو راضی کر لیتا ہے کہ ابّا معاف کر دو تو ابّا مسکرا دیتا ہے اور بچہ علامت سے سمجھ جاتا ہے کہ اب ابّا نے معاف کر دیا تو پھر ابّا سے کہتا ہے کہ ابّا پیسہ دیجیے، لڈو دیجیے، ٹافی دیجیے، جس درجے کا بچہ ہوتا ہے اسی درجے کی درخواست کرتا ہے، اگر نادان بچہ ہے تو ٹافی ہی پر رہے گا، اور اگر سمجھ دار ہے تو لڈو مانگے گا، اور سمجھ دار ہے تو موٹر مانگے گا، اور سمجھ دار ہے تو بلڈنگ مانگے گا، اور سمجھ دار ہے تو کارخانہ مانگے گا جس طرح ہر بچے کی مانگ الگ ہوتی ہے اسی طرح ہر بندے کی درخواست الگ ہوتی ہے، بندہ جتنا اللہ کو پہچانتا ہے، جتنا اللہ والا ہوتا ہے اس کی درخواست بھی اتنی ہی بلند ہوتی ہے۔

رحمت کے چار معنیٰ

حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے رحمت کی چار تفسیر کی ہیں کہ اے اللہ! اب جب ہم نے آپ سے معافی مانگ لی تو چار قسم کی رحمت عطا فرمائیے:

۱) توفیق طاعت و فرماں برداری دے دیجیے۔ ۲) فراخیٔ معیشت۔ میری روزی بڑھا دیجیے۔ گناہ کی وجہ سے جو روزی میں برکت نہیں تھی، اب روزی میں برکت ڈال دیجیے۔ ۳) بے حساب مغفرت کا فیصلہ فرما دیجیے۔ ۴) دخولِ جنت۔ جنت میں داخلہ دے دیجیے۔ یہ چار معنیٰ ہیں رحمت کے۔

گناہوں کے نقصانات

اس کے بعد جو دوسری آیت میں نے تلاوت کی تھی اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ10 اب اگر کوئی گناہوں پر جرأت کرتا ہے، اللہ سے معافی نہیں مانگتا تو اللہ سے ڈرو، وہ تمہارے گردے بے کار کر سکتا ہے، تمہیں کینسر میں مبتلا کر سکتا ہے، تمہاری روزی سے برکت اُٹھا سکتا ہے، سارے عالَم کو تمہارے لیے عذاب بنا سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو بیوی بچے بھی نافرمان ہو جاتے ہیں، عزیز و اقارب بھی دشمن ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ گھوڑا گدھا بھی اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے سارا جہان اس کا نافرمان ہو جاتا ہے۔ ایک اللہ والے بزرگ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو میری بیوی بھی نافرمان ہوجاتی ہے، میرے بچے بھی مجھے ستاتے ہیں، میرا گھوڑا بھی خلاف چلتا ہے اور میرا گدھا بھی نافرمان ہو جاتا ہے۔ یہ وہ دنیاوی حکومت نہیں ہے کہ پاکستان میں جرم کرکے برطانیہ یا امریکہ میں جاکر سیاسی پناہ لے لی۔ اللہ کا مجرم کہیں سیاسی پناہ نہیں پا سکتا کیونکہ سارے عالَم میں خدا ہی کی حکومت ہے، اسی کی زمین ہے، اسی کا آسمان ہے، لہٰذا جلدی توبہ کرلو، معافی مانگ لو، تب چین پا جاؤ گے۔

عظیم الشان ذکر

استغفار کرنا، اللہ کو راضی کرنا، معافی مانگنا بہت بڑا ذکر ہے۔ جو اپنے مالک کو راضی کر لے وہ اصلی ذاکر ہے۔ اسی لیے میں نے یہ آیت تلاوت کی کہ اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ اگر توبہ کرکے مالک کو خوش کرلو، معافی مانگ لو تو تمہارے قلب کو چین آئے گا کیونکہ ذکر سے دل کے چین کا واسطہ اور رابطہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے سینے میں دل ہم نے بنایا ہے لہٰذا اس دل کو چین صرف ہماری یاد ہی سے ملے گا اور نافرمانی اور گناہ سے تم بے چین اور پریشان رہو گے۔ بے چینی کا سبب گناہ ہے لہٰذا اس کا علاج یہی ہے کہ استغفار کرکے تم ہم کو راضی کرلو۔ یہ بہت بڑا ذکر ہے۔ اس سے بڑا ذکر کیا ہوگا کہ تم اپنے مالک کو راضی کر لو لہٰذا اس آیت کی تلاوت کی یہ وجہ تھی کہ استغفار بہت بڑا ذکر ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ جلدی استغفار اور جلدی توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر تم اللہ تعالیٰ کو خوش کردو۔ یہ بہت بڑا ذکر ہے، اس کی برکت سے تم چین و سکون پا جاؤ گے ورنہ کہیں سکون نہیں پاؤ گے۔ ؎

دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار
دل بیاباں ہوگیا عالَم بیاباں ہوگیا

جب دل تباہ ہوتا ہے تو سارا عالَم اندھیرا لگتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو گے تو ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل باغ و بہار ہو جائے گا، چین آجائے گا اور جب دل میں چین ہوتا ہے تو سارے عالَم میں چین نظر آتا ہے، جب دل غم زدہ ہوتا ہے تو سارے عالَم میں غم نظر آتا ہے۔ یہ آنکھیں تابع دل ہیں، بصارت تابع بصیرت ہے یعنی قلب کا جو حال ہوگا آنکھ کا وہی حال ہوگا۔ اگر دل خوش ہے تو ہر طرف خوشی نظر آئے گی اور اگر دل میں غم ہے تو ہر طرف غم نظر آئے گا، اور اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ اور ذکرکی برکت سے دل میں چین آئے گا تو سارے عالَم میں آپ کو چین ملے گا، بال بچوں میں بھی سکون سے وہ آدمی رہتا ہے۔ اور جس کا دل گناہوں سے پریشان رہتا ہے وہ اپنی بیوی سے بھی لڑتا ہے، بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہے، ہر شخص سے الجھتا ہے کیونکہ اس کا دل معتدل اور نارمل نہیں ہے، مثل پاگل ہو جاتا ہے۔ پاگل آدمی ہر ایک کو ستاتا ہے، پاگل کا کیا بھروسہ۔ یاد رکھو! جو عقل کا خالق ہے، جب اس کو راضی کرو گے تو عقل ٹھیک رہے گی ورنہ جو جتنا گناہ کرتا ہے عقل خراب ہوتی چلی جاتی ہے اور عقل کی خرابی سے آدمی پاگل ہوتا ہے اور پاگل نہ خود چین سے رہتا ہے نہ چین سے رہنے دیتا ہے۔

توبہ کرنے والا بھی اللہ کا محبوب ہے

بعض گناہ گاروں کو شیطان بہکاتا ہے، مایوس کرتا ہے کہ تم سے اللہ تعالیٰ کیسے محبت کرے گا کہ تم نے تو دھندہ بنا رکھا ہے گناہ کا اور دھندہ بھی کیسا جو کبھی مندا نہیں ہوتا، تو کیسا بندہ ہے تُو؟ اس کا جواب سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ الْمُفَتَّنَ التَّوَّابَ11 اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے اور آئندہ بھی محبوب رکھے گا اس بندے کو جو مومن ہے اور کیسا مومن ہے اَلْمُفَتَّنْ جس سے بار بار گناہ ہو جاتا ہے، فتنۂ گناہ میں باربار مبتلا ہوتا ہے مگر ایک خوبی اس میں ایسی ہے جو سبب ہے اس کی محبوبیت کا اور وہ اس کی فائنل رپورٹ ہے، وہ کیا ہے؟ اَلتَّوَّابْ وہ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی ہے، اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگتا ہے، گناہ کر کے خوش نہیں ہوتا، پچھتاتا ہے کہ آہ! میں نے کیوں اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، اس لیے نادم ہو کر دل کی گہرائی سے توبہ کرتا ہے اور توبہ کی چار شرطوں کے ساتھ توبہ کرتا ہے۔

توبہ سے محبوبیت کی ایک عجیب تمثیل

گناہ سے فوراً بھاگ جاتا ہے، گناہ سے علیحدہ ہو کر فوراً توبہ کرتا ہے، اگرچہ باربار فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے لیکن توبہ صادق کی برکت سے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔ جب بندے نے توبہ کی کہ اے اللہ! مجھ سے غلطی ہوگئی، معاف کر دیجیے، اس حرام مزے سے میں سخت نادم و شرمندہ ہوکر معافی چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ فوراً معاف فرما دیتے ہیں۔

توبہ کی شرطیں یہ ہیں:

۱) گناہ سے الگ ہوگیا۔

۲) شرمندہ ہوگیا، دل کو دُکھ پہنچ گیا کہ آہ! میں نے کیوں گناہ کیا؟ قلب میں ندامت پیدا ہوگئی۔

۳) آئندہ کے لیے پکا ارادہ کرتا ہے کہ اے اللہ! اب آپ کو آئندہ کبھی ناراض نہیں کروں گا، اگرچہ دل کہتا ہے کہ تو پھر کرے گا لیکن دل کی بات نہ ماننے کا عزم رکھتا ہے، اگرچہ شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تُو پھر مبتلا ہوگا، شیطان یہ وسوسہ ڈالے تو کہہ دو کہ اگر دوبارہ گناہ کر بیٹھوں گا تو پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگوں گا، ان کے در کے علاوہ اور کوئی در بھی تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق توبہ دے کر اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کر دیتا ہے، اگرچہ جانتا ہے کہ یہ ظالم پھر گناہ کرے گا۔ اس حدیثِ پاک کی شرح کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے ان بندوں کو جو باربار گناہ کے فتنے میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر توبہ بھی زبردست کرتے ہیں۔

ندامت کے آنسوؤں کی کرامت

جو بندے تَوَّابْ ہیں، کثیر التوبہ ہیں یعنی بہت زیادہ روتے ہیں، بہت زیادہ اللہ سے معافی مانگتے ہیں، ان کے یہ آنسو اللہ کے خزانے میں جمع ہو جاتے ہیں، ایسا بندہ کبھی رائیگاں نہیں ہوگا، ان شاء اللہ، چاہے شیطان و نفس اس کو گناہوں کے جنگل میں اللہ سے کتنا ہی دور لے جائیں لیکن وہ جو پہلے اللہ تعالیٰ سے رویا تھا کہ اے اللہ! میری حفاظت کرنا، گناہوں سے مجھے ضائع نہ ہونے دینا اس کے وہ سابقہ آنسو اللہ کی بارگاہ میں محفوظ تھے، اللہ تعالیٰ ندامت کے ان آنسوؤں کو رائیگاں نہیں کرتا، پھر ان آنسوؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندے کو تلاش کرتی ہے کہ اے فرشتو! میرا بندہ مجھ سے بہت دور ہو گیا، تم جا کے پھر اس کے دل میں توفیق ڈالو کہ توبہ کر کے پھر میرے پاس آجائے لہٰذا جو لوگ روتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنی حفاظت میں رکھنا، ہمیں ضائع نہ ہونے دینا، خاتمہ ہمارا ایمان پر کرنا اور ہمارے گناہوں کو معاف کردیجیے، ایسے رونے والے بندے ضائع نہیں ہوتے۔ ان شاء اللہ ان کا خاتمہ خراب نہیں ہوگا، جس کا خاتمہ خراب ہوتا ہے اس کو رونے کی توفیق نہیں ملتی۔ اسی لیے محدثین نے لکھا ہے کہ ابلیس کو کبھی اپنے گناہ پر ندامت نہیں ہوئی، اس ظالم نے ہمیشہ اَنْظِرْنِیْ کہا کہ مجھے مہلت دیجیے، میں آپ کے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ یہ ظالم اگر اُنْظُرْ اِلَیَّ کہہ دیتا کہ مجھ پر ایک نظر ڈال دیجیے تو معاف ہو جاتا، لیکن اُنْظُرْ اِلَیَّ نہیں کہا اَنْظِرْنِیْ کہتا رہا کہ مہلت دیجیے تاکہ میں آپ کے بندوں کو بہکاتا رہوں، اس کو اُنْظُرْ اِلَیَّ کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ یہ مردود تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت مانگنے کی توفیق نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ جس کو مقبول رکھتا ہے اس کو نظر عنایت مانگنے کی توفیق دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غلطی ہوگئی، نالائق ہوں مگر آپ کا ہوں، آپ ہی ہمارے واحد خدا ہیں، آپ کا دروازہ چھوڑ کر کہاں جاؤں کہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ اگر گناہ گاروں کا الگ خدا ہوتا، نیک بندوں کا الگ خدا ہوتا تو وہاں چلا جاتا لیکن آپ ہی ایک خدا ہیں، نیکوں کے بھی آپ خدا ہیں اور گناہ گاروں کے بھی آپ ہی خدا ہیں لہٰذا آپ کا دروازہ نہیں چھوڑوں گا، اگر گناہ نہیں چھوٹتے تو آپ کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اگر باربار گناہ ہوتے ہیں تو باربار توبہ کرتے رہو، ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ پکی توبہ کی توفیق دے دے گا کہ میرا بندہ ہمیشہ رو رو کے مجھ سے معافی مانگتا ہے تو ان کو بھی رحم آجائے گا کہ لاؤ! اب اس ظالم کو گناہ کرنے ہی نہ دو۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہمت اور ایسی توفیق دے گا کہ ان شاء اللہ پھر مرتے دم تک ایک گناہ بھی نہیں کرو گے لیکن ہمارا کام رونا ہے، روتے رہو، روتے رہو، روتے رہو، یہاں تک کہ ان کو رحم آجائے، خوب سمجھ لو یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، اس میں نااُمیدی نہیں، یہاں اُمیدوں کے ہزاروں آفتاب روشن ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

٭٭٭٭٭


1 سورۃ نوح: ۱۰

2 سورۃ الرعد: ۲۸

3 مشکوٰۃ المصابیح: ۱/۲۰۶، باب الاستغفار والتوبۃ، المکتبۃ القدیمیۃ

4 شعب الایمان للبیھقی: ۵/۴۶۵، (۷۳۰۵) ھذا دعاء ابی بکر الساسی، فصل فی قراءۃ القراٰن بالتفخیم، دارالکتب العلمیۃ، بیروت

5 جامع الترمذی: ۲/۱۹۱، باب من ابواب الدعوات، ایج ایم سعید

6 مرقاۃ المفاتیح: ۴/۳۲۱، باب لیلۃ القدر، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان

7 سورۃ المؤمنون: ۱۱۸

8 روح المعانی: ۳/۷۱، البقرۃ(۲۸۶)، دار احیاء التراث، بیروت

9 روح المعانی: ۱۱/۴۲، ذُکر تفسیرہ فی سورۃ التوبۃ(۱۱۷)، دار احیاء التراث، بیروت

10 سورۃ الرعد: ۲۸

11 مشکوٰۃ المصابیح: ۱/۲۰۶، باب الاستغفار والتوبۃ، المکتبۃ القدیمیۃ

Previous Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | تیسری قسط

Next Post

کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

14 مارچ 2025
Next Post
کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟

کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version