یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
اکتیسویں وجہ: مخلوق سے خوف و ڈر
اس حالت میں اس کا مراقبہ، خوف، اور امید و رجاء مخلوق کی طرف پھر جاتی ہے۔ شیطان اسے ہر کام اور ہر حرکت کے بارے میں وسوسے میں مبتلا کرتا ہے۔ کہ اس کی پوچھ گچھ ہو گی اور سرزنش کی جائے گی۔ نتیجتاً وہ بہت سے صالح اعمال چھوڑ دیتا ہے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے اجتناب کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نفس اس حالت سے مانوس ہو کر اس میں ڈھل جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا چہرہ کبھی بھی اللہ تعالی کی خاطرمتغیر نہیں ہوتا!
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ ۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورۃ آل عمران: ۱۷۵)
”یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔ “
امام ابن القیم فرماتے ہیں:
’’جب بندہ ایسے دیکھے گویا اس کی پیشانی اور تمام مخلوق کی پیشانیاں اللہ وحدہ کے قبضے میں ہیں، اللہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے، تو اس کے بعد یہ بندہ مخلوق سے نہیں ڈرتا۔ اور نہ ہی ان سے امیدیں باندھتا ہے۔ اور نہ انہیں آقاؤں کا مرتبہ دیتا ہے۔ بلکہ انہیں مجبور و مملوک غلام سمجھتا ہے۔ جن میں کوئی اور تصرف کر رہا ہے۔ کوئی اور ان کے معاملات کو دیکھ رہا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو ایسی نگاہ سے دیکھے تو اپنے رب کی جانب محتاجی اور ضرورت مندی اس کی ایک لازمی صفت بن جاتی ہے۔ اور جب لوگوں کو ایسی نگاہ سے دیکھے تو ان کا محتاج نہیں رہتا۔ اور ان سے امیدیں اور آرزوئیں نہیں باندھتا۔ اس طرح اس کی توحید، توکل اور عبودیت سب کا سب سیدھا اور درست ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہود نے اپنی قوم سے فرمایا:
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (سورۃ ھود: ۵۶)
’میں اللہ پر جو میرا اور تمہارا (سب کا) پروردگار ہے، بھروسہ رکھتا ہوں، (زمین پر)جو چلنے پھرنے والا ہے اس کی پیشانی اس کی گرفت میں ہے۔ بےشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے۔‘‘‘
امام ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں:
”کوئی شخص غیر اللہ سے تب ہی خوف کھاتا ہے جب اس کے دل میں مرض ہو۔ جیسے کہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے بعض والیوں کی جانب سے ڈر لاحق ہونے کی شکایت کی۔ تو انہوں نے فرمایا: ’اگر تم تندرست ہوتے تو کسی سے نہ ڈرتے‘۔ مقصد یہ ہے کہ تمہارا ڈر اس لیے ہے کہ تمہارا دل تندرست نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے کہ وہ حزب شیطان سے خوف نہ کھائیں۔ بلکہ صرف اللہ وحدہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں۔ اسی لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ ۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورۃ آل عمران: ۱۷۵)
’یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔ ‘
یعنی شیطان تمہیں اپنے پیروکاروں سے ڈراتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا جس سے ہمیں متنبہ کرنا بھی مقصود ہے:
وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ (سورۃ البقرۃ: ۴۰)
’اور مجھی سے ڈرتے رہو۔‘
اور فرمایا:
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (سورۃ المآئدۃ: ۴۴)
’ تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا ۔‘
اسی طرح فرمایا:
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّــةٌ ڎ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ۤ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۰)
’ (یہ تاکید) اس لیے (کی گئی ہے) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں، (وہ الزام دیں تو دیں) سو ان سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا۔‘
نیز ارشاد باری ہے:
اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ (سورۃ المآئدۃ: ۳)
’ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔‘
اور فرمایا:
اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰه(سورۃ التوبۃ: ۱۸)
’اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکواة دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘
نیز فرمایا:
الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ (سورۃ الأحزاب: ۳۹)
’اور جو اللہ کے پیغام (جوں کے توں)پہنچاتے اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ‘
مزید ارشاد باری ہے:
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ (سورۃ التوبۃ: ۱۳)
’ بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی)ابتدا کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے ۔‘‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فتاوی میں یہ بھی فرمایا:
”یہ بات لازماً معلوم ہونی چاہیے کہ مخلوق کی رضامندی چاہنا دو وجوہات کی بنا پر نہ عقل کی رو سے اور نہ ہی دین کی رو سے مناسب ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ: یہ نا ممکن ہے۔ جیسے کہ اما م شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’لوگوں کی رضامندی ایسا مطلوب ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوتا‘۔ پس تمہیں چاہیے کہ وہ بات اختیار کرو جس میں تمہاری بھلائی اور درستگی ہو۔ اور اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے اسے چھوڑ دو اور اس میں اپنے آپ کو نہ تھکاؤ۔ دوسر ی وجہ یہ کہ: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی کی جستجو کریں۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ ۚ وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ (سورۃ التوبۃ: ۶۲)
’مومنو! یہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کر دیں۔ حالانکہ اگر یہ (دل سے) مومن ہوتے تو اللہ اور اس کے پیغمبر خوش کرنے کے زیادہ مستحق ہیں۔ ‘
اور ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے ڈریں ، اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورۃ آل عمران: ۱۷۵)
’تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔‘
اور فرمایا:
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (سورۃ المآئدۃ: ۴۴)
’ تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا ۔‘
نیز ارشاد فرمایا:
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ (سورۃ النحل: ۵۱)
’اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے۔ تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔ ‘
اور یہ بھی فرمایا:
وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ۠وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ (سورۃ البقرۃ: ۴۱)
’اور جو کتاب میں نے (اپنے رسول محمدﷺ پر) نازل کی ہے جو تمہاری کتاب تورات کو سچا کہتی ہے، اس پر ایمان لاؤ اور اس سے منکرِ اول نہ بنو، اور میری آیتوں میں (تحریف کر کے) ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو، اور مجھی سے خوف رکھو ۔ ‘
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے خوف کھائیں اور لوگوں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں۔ لوگوں پر نہ اپنے دلوں سے اور نہ اپنے اعضاء سے ظلم کریں۔ اور اپنے دل اور اعضاء سے ان کے حقوق ادا کریں۔ اور اس کے برعکس اللہ کے معاملے میں ان سے نہ ڈریں۔ اور ان کے ڈر سے وہ چھوڑ دیں جسے چھوڑنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔ جو اس طریقہ پر کار بند رہا انجام کار اسی کا ہے۔ جیسے کہ سیدہ عائشہ نے حضرت معاویہ کو لکھا:
’اما بعد، جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کی رضا طلب کرے اس سے اللہ بھی ناراض ہوں گے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیں گے۔ لوگوں میں اس کی تعریف کرنے والا بھی اس کی مذمت کرنے لگے گا۔ جبکہ جو شخص لوگوں کو ناراض کرتے ہوئے اللہ کی رضامندی طلب کرے گا اس سے اللہ بھی راضی ہو جائیں گے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیں گے۔‘
پس مومن کی سوچ اور اس کا ہدف بس صرف اپنے رب کو راضی کرنا ہوتا ہے اور اللہ کے غصے سے بچنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی شخص کے لیے انجام کار بہتر ہو گا۔ اور اللہ کے سوا نہ کوئی چارہ ہے اور نہ طاقت۔‘‘
فَلَيْتَكَ تَحْلُو وَالحَيَاةُ مَرِيرَةٌ
وَلَيْتَكَ تَرْضَى وَالأَنَامُ غِضَابُ
وَلَيْتَ الَّذِي بَيْني وَبَيْنَكَ عَامِرٌ
وَبَيْني وَبَينَ العَالَمِينَ خَرَابُ
إِذَا نِلْتُ مِنْكَ الْوُدَّ فَالكُلُّ هَينٌ
وَكُلُّ الَّذِي فَوْقَ التُّرَابُ تُرَابُ
کاش زندگی کی کڑواہٹ میں تیری مٹھاس پا لوں
کاش تو راضی ہو جائے گرچہ مخلوق نالاں ہو
کاش جو میرے اور تیرے درمیان ہے ، شاد و آباد رہے
اور جو میرے اور جہان والوں کے درمیان ہے ، خراب و برباد ہو
اگر تجھ سے مجھے مودت حاصل ہو گئی تو باقی ہر چیز ہیچ ہے
جبکہ اس (فانی) مٹی پر جو کچھ ہے وہ بالآخر (فانی) مٹی ہی تو ہے 1
٭٭٭٭٭
1 یہ اشعار ابو فراس حمدانی نے اپنے چچا زاد سیف الدولہ حمدانی کے لیے کہے ما سوائے آخری بیت کو جو کہ متنبی کا ہے(دیکھیے: دیوان أبی فراس الحمدانی، ص27) ۔ ان اشعار کے بارے میں امام ابن القیم نے فرمایا: ”اس شخص نے یہ کہہ کر انتہائی بے ادبی کی کیونکہ اس نے یہ اشعار ایسے مخلوق کے لیے کہے جو نہ اس کے لیے اور نہ اپنے لیے کسی ضرر یا فائدہ کا مالک ہے“۔ مقصد یہ ہے کہ یہ اشعار صرف اللہ عز و جل کے لیے سزاوار ہیں۔ (دیکھیے کتاب: منازل الحور العین، فی قلوب العارفین، برب العالمین، ص47) ۔ عربی کتب میں ان کا استعمال محبت الہی کے لیے اتنا غالب ہو گیا کہ اب ان اشعار کا اصل ہی لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکا ہے۔ یہاں فاضل مصنف نے صرف پہلا اور آخری بیت ذکر کیا تھا۔ ہم نے فائدے کے لیے تینوں ابیات ذکر کر دیے۔ (مترجم)