نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

امت کی زبوں حالی اور ہماری بے حسی

اریب اطہر by اریب اطہر
31 مارچ 2025
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, مارچ 2025
0

جہاد کی نسبت کے سبب حلقۂ احباب گنتی کے افراد پر مشتمل رہ جانا ، آج کے دور میں ہر مجاہد ہی مشاہدہ کرتا ہے۔ آپ کبھی دوست، رشتہ دار، عزیز و اقارب کی آنکھ کا تارا ہوا کرتے تھے اور یک دم سب کے لیے اجنبی بن جائیں تو دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کیفیت سے لامحالہ ہر اس شخص کو گزرنا ہی ہے جو اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے راہ جہاد کو اختیار کرے گا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مِلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‌‌‌‏ إِنَّ الدِّينَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْحِجَازِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا، ‌‌‌‌‌‏وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّينُ مِنَ الْحِجَازِ مَعْقِلَ الْأُرْوِيَّةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ، ‌‌‌‌‌‏إِنَّ الدِّينَ بَدَأَ غَرِيبًا وَيَرْجِعُ غَرِيبًا، ‌‌‌‌‌‏فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي ،‌‌‌‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‌‌‌‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

’’عمرو بن عوف ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ایک وقت آئے گا کہ) دین اسلام حجاز میں سمٹ کر رہ جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور یقیناً دین حجاز میں آ کر ایسے ہی محفوظ ہوجائے گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر محفوظ ہوجاتی ہے ١ ؎، دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں جائے گا، خوشخبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیدا کردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں ۔ ‘‘

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وضاحت١ ؎، :کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بارش کا بادل پہاڑ کی نچلی سطح پر ہوتا ہے تو بکری پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر خود کو بارش سے بچا لیتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بکری پہاڑ کی نشیبی سطح پر ہو اور برساتی پانی کا ریلا آ کر اسے بہا لے جائے اور مار ڈالے اس ڈر سے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اس طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں سے اپنے کو محفوظ کرلیتی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ،‌‌‌‏ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،‌‌‌‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‌‌‌‏ عَنْ أَبِي إِسْحَاق،‌‌‌‏ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ،‌‌‌‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‌‌‌‏ قَالَ:‌‌‌‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا،‌‌‌‏ وَسَيَعُودُ غَرِيبًا،‌‌‌‏ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ،‌‌‌‏ قَالَ:‌‌‌‏ قِيلَ:‌‌‌‏ وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ:‌‌‌‏ النُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ.

’’عبداللہ بن مسعود ﷜ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا: غرباء کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں۔‘‘ ١ ؎ 1

وضاحت: ١ ؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر ﷢ وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہوگئے تھے اس لیے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔

حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ عَوْفٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَهُ طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ فَقِيلَ مَنْ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أُنَاسٌ صَالِحُونَ فِي أُنَاسِ سُوءٍ كَثِيرٍ مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ

’’حضرت ابن عمرو ﷜ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس موجود تھے آپ ﷺ فرمانے لگے کہ خوشخبری ہے غرباء کے لیے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا برے لوگ کے تم جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔‘‘2

راقم کی سابقہ زندگی کے کئی سال ایسے کاموں میں گزرے جن کا تعلق ملازمت اور کاروبار سے تھا۔ دفتری و کاروباری خطوط نویسی ، مارکیٹنگ اور دیگر کئی امور میں دوست احباب مجھ سے مدد لیا کرتے تھے اور اب بھی کبھی کبھار انہیں ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔ راہ جہاد اختیار کرنے کے بعد یہی میرے باقی ماندہ تعلقات کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنا رہا۔ اب چونکہ یہ تعلقات برقرار ہیں تو میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ اس تعلق کو دعوت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔ اپنے دوسرے دوست احباب اور رشتہ داروں کی بھی خبر گیری کی جائے ۔ یہ ترکیب میرے ذہن میں اس وقت آئی جب مولانا عاصم عمر ﷫کی کتاب دعوت خلافت اور منہج رسول ﷺ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کیا ہی عمدہ کتاب ہے جس کا ایک ایک لفظ علم و حکمت کے موتی سموئے ہوئے ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’دعوتی میدان میں سرگرم مجاہدین کو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہنا چاہیے جب وہ اپنی دعوت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاسکیں۔ اس کی ایک مثال حضرت یوسف ﷤ کا واقعہ ہے جب آپ نے جیل میں موجود قیدیوں کو اس وقت دعوت دی جب قیدی آپ ﷤سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آئے تھے۔‘‘

اس کتابچے کو ادارہ حطین کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں اس وقت کے مدیرِ حطین (استاد احمد فاروقؒ) لکھتے ہیں:

’’دعوت دین کو پھیلانا اور اللہ کے کلمے کو سربلند کرنا جہاد کا اساسی مقصد ہے۔ ہر مجاہد ایک ہی وقت میں مقاتل مجاہد بھی ہوتا ہے اور دنیا والوں کے نام ایک پیغام کا حامل داعی بھی۔ پھر قتال کے لیے شریعت نے الگ آداب سکھلائے ہیں اور دعوت کے لیے الگ۔ دعوت و قتال کے آداب سے واقفیت اور ان کی پابندی ہی اس بات کی ضمانت ہوسکتی ہے کہ مجاہدین فی سبیل اللہ اپنے کٹھن سفر کے دوران کسی بھی لمحے شریعت کے احکامات کی سرمومخالفت نہ کریں اور ان کی وہ تحریک دنیا میں بھی وہ مطلوبہ نتائج پیدا کرے جو ہر اہل ایمان کی دل کی ٹھنڈک کا باعث بنیں۔ اسی لیے مجاہدین کو بالخصوص اس کتابچے کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے اور ان نبوی آداب سے اپنی سیرتوں کو مزین کرنا چاہیے۔ ہم خصوصیت سے مجاہدین کے ذمہ داران، ان کے میڈیا سے متعلق شعبہ جات کے اراکین ، ان کے مقررین و خطباء ، مصنفین و ادباء ، مربیین و علماء، نیٹ کی دنیا میں دعوت دینے میں مصروف گمنام سپاہیوں اور میدان عمل میں سینہ بہ سینہ دعوت منتقل کرنے والے مجاہد بھائیوں سے درخواست کریں گے کہ اس کتاب کو دل کی آنکھوں سے پڑھیں اور اپنے علمی و عملی نصاب میں شامل کریں، تاکہ احیائے خلافت اور نفاذ شریعت کی داعی یہ مبارک تحریک رب کی رضا اور اس کی مدد و نصرت اور اہل ایمان کی تائید و قبولیت حاصل کرسکے۔‘‘

ایک چیز جس نے مجھے ہمیشہ مضطرب رکھا ہے وہ اپنے ان عزیز و اقارب کا اپنی روزمرہ کی زندگی میں کسی روبوٹ کی مانند جتے رہنا اور خود کو انفرادی اعمال تک محدود کرنا ہے۔ اور یہ کچھ انوکھا نہیں ہے، ہمارے معاشرے کی اکثریت اسی پر عمل پیرا ہے۔ باقی دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ غزہ کے مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہے یا پاکستان میں ہی کیا کچھ ہورہا ہے؟ کون مسائل کا ذمہ دار ہے؟ اس کے حل کے لیے کوشش کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف راغب کرنے کے لیے اور توجہ دلانے کے لیے میں موقع کی تلاش میں ہوتا ہوں۔ جواب میں کبھی کوئی اپنے مسائل کا رونا روتا ہے تو کبھی کوئی ناراضگی کا اظہار کردیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر کسی نے اپنی سہولت اور پسند کے مطابق ایک خول ترتیب دے کر خود کو اس میں مقید کرلیا ہے۔ ایک خول سیاسی ہے، یعنی جنہوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کے نظریات کے مطابق ہی سب کچھ سمجھنا ہے ۔ اس سیاسی جماعت سے باہر وہ کسی چیز کو سمجھنے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ایک عزیز کو میں نے بہانوں سے حالات حاظرہ پر بات کرنے کے لیے ان سے پوچھا کہ خبریں پڑھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فورا جواب دیا نہ ہی نیوز چینل دیکھتا ہوں اور نہ ہی اخبار پڑھتا ہوں۔ یہ تو وقت کا ضیاع ہے۔ اپنے اس مؤقف کو انہوں نے کچھ اسلامی رنگ بھی دینے کی کوشش کی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ بطورِ امت یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہے؟ اگر ہم سب دوسرے مسلمانوں سے لاتعلق ہوگئے ان پر ہونے والے ظلم سے لاتعلق رہیں تو کیا یہ امت کے تصور کی نفی نہیں ہوئی؟ اور عقلی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو امت کی فکر کرکے ہم کسی پر احسان نہیں کررہے ہوتے بلکہ اس کا ہماری اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں بھی کردار ہوگا۔

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ قَالَ حُذَيْفَةُ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ قِيلَ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مَنْ اتَّقَى الشَّرَّ وَقَعَ فِي الْخَيْرِ

’’حضرت حذیفہ ﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ ﷢ ان سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں ان سے شر کے متعلق پوچھتا تھا کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا جو شخص شر سے بچ جاتا ہے وہ خیر ہی کے کام کرتا ہے۔‘‘3

حذيفة بن اليمان قال : ما من صاحب فتنة يبلغون ثلاثمائة إنسان إلا ولو شئت أن أسميه باسمه واسم أبيه ومسكنه إلى يوم القيامة ! كل ذلك مما علمنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قالوا : بأعيانها ؟ قال : أو أشباهها يعرفها الفقهاء أو قال العلماء ، إنكم كنتم تسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وأسأله عن الشر ، وتسألونه عما كان وأسأله عما يكون.(نعيم)

’’ حذیفہ بن یمان ﷜سے روایت ہے کہ میں قیامت تک فتنہ برپا کرنے والے ہر شخص کا نام اور ان کے والد اور علاقہ کا نام لے کر بتاسکتا ہوں اگرچہ ان کی تعداد تین سو تک پہنچ جائے، یہ سب اس لیے ممکن ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بتلایا ہے لوگوں نے عرض کیا کہ کیا ان کو متعین کرکے بتلایا ہے تو فرمایا ان کے مشابہ جس کو فقہاء یا علماء پہچان لیں گے تم تو رسول اللہ ﷺ سے خیر کی باتیں دریافت کرتے تھے اور میں شر کے متعلق دریافت کرتا تھا اور تم دریافت کرتے جو حالات پیش آچکے اور میں دریافت کرتا جو حالات پیش آنے والے ہیں ان کے متعلق۔ ‘‘4

آج ہم اپنے اطراف سے لاتعلق خود کو ایک خول میں بند کرکے اور انفرادی اعمال میں مشغول رہ کر سمجھتے ہیں کہ ہم برائیوں سے بچیں رہیں گے؟ جبکہ اصولی طور پر ہمیں معاشرے کی ہر برائی پر کڑھنا چاہیے، اس کے خاتمے کی فکر کرنی چاہیے، نہ کہ ہم برائیوں اور فتنوں کو بروقت پہچاننے سے بھی قاصر رہیں۔ خبروں اور حالات حاضرہ سے دور رہنے والے اپنی روٹین کی زندگی میں مگن ایک سکول ٹیچر سے میں نے پوچھا کہ آج کل پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں منشیات بالخصوص آئس کا نشہ عام ہوگیا ہے کیا آپ طلباء کی اور ان کے والدین کی اس حوالے سے کونسلنگ اور رہنمائی کرتے ہیں کہ کیسے اس نشے سے طلباء کو بچایا جائے؟ تو ان کا جواب تھا: آئس کیا ہوتا ہے؟ جب میں نے انہیں آئس ڈرگ کے متعلق تفصیلات بتائیں کہ یہ نشہ بچوں میں اس طرح پھیلایا گیا ہے کہ امتحانوں میں اس کے استعمال سے انہیں نیند نہیں آئے گی، وہ ابتدائی طور پر خود کو بہت چست اور چاق و چوبند تصور کریں گے، لیکن پھر بہت جلد وہ اس نشے کا شکار ہوکر ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔ اس نشے کا عادی شخص ہر دوسرے شخص حتیٰ کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ میں نے انہیں جب گزشتہ چند سالوں میں شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس دکھائیں کہ کس طرح درجنوں واقعات میں آئس نشے کے عادی مرد یا عورت نے اپنے والدین، بہن بھائیوں، شوہر یا بیوی کو قتل کر ڈالا، تو یہ خبریں دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے باتوں باتوں میں مجھ سے ذکر کیا کہ ان کا بچہ (میرے اندازے کے مطابق اس کی عمر بمشکل چار یا پانچ سال ہوگی) محلے کی دکان پر چیز لینے جاتا ہے اور اکثر وہیں بیٹھ جاتا ہے۔ پہلے میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مناسب نہیں۔ موجودہ حالات میں یہ اصولی طور پر غلط ہے تو انہوں نے دلیل دی کہ وہ اس نوجوان کو ذاتی طور پر بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کی باتوں سے مجھے کچھ اندازہ ہوگیا کہ چونکہ وہ خبروں سے دور رہتے ہیں لہذا روز شائع ہونے والی خبروں سے ناواقف ہیں کہ آئے روز بچے گم ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی چند روز بعد لاش ملتی ہے۔ ایک دن موقع پا کر ان سے میں نے اعداد و شمار اور چند کیسز کی تفصیلات شئیر کردیں جو بچوں کے جنسی استحصال کے متعلق تھیں۔ ایک واقعہ گلگت کا تھا جس میں ایک چھوٹی سی دکان پر آنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی، پھر بلیک میل کیا جاتا۔ متاثرہ بچوں کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ تھی۔ ان صاحب کو میں نے قصور سکینڈل کی بھی تفصیلات بتائیں جس میں سالوں تک سینکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان منظم گروہوں کے علاوہ اب ایسے کیسز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جہاں بمشکل بالغ ہونے والے بچوں نے چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنادیا۔ اب ان صاحب کو میری باتیں سمجھ میں آگئیں۔ یہاں میں نے فقط دو ایشوز کا تذکرہ کیا۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں ایسے لاتعداد مسائل ہیں۔ صرف اور صرف اپنی زندگی میں مگن رہنے کے اصول پر مبنی معاشرے نے بظاہر خود کو تکلیفوں پریشانیوں سے دور رکھنا چاہا، لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ وہ خود فتنوں اور برائیوں کو بروقت پہچاننے کی صفت سے محروم ہو کر ان برائیوں کا آسان شکار ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ قَالُوا لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ

’’حضرت تمیم داری ﷜سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دین تو سرا سر خیرخواہی کا نام ہے، صحابہ ﷢نے پوچھا یا رسول اللہ! ﷺ کس کے لیے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘5

المؤمن أخو المؤمن لا يدع نصيحته على كل حال. (ابن النجار عن جابر) .

’’مومن مومن کا بھائی ہے جو اس کی خیرخواہی سے کبھی نہیں اکتاتا۔‘‘ (ابن النجار، عن جابر)6

ایک لمحے کو ٹھنڈے دل سے ہم سوچیں تو صحیح کہ اس بے حسی اور مادیت پرستی کی زندگی نے کیا ہمیں چین سکون اور سکھ دے دئیے ہیں یا فقط سراب اور عارضی اور دھوکے کی زندگی پر ہی راضی ہیں؟ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے متعلق فکرمندی تو ہمارا پہلا قدم ہے اگر ہم بطور امت اس سے ہی محروم ہیں تو پھر کونسی خیر باقی ہے اب ہم میں؟ یعنی بغیر قربانی تکلیف کے بھی ہم ایک کام کے لیے تیار نہیں چہ جائیکہ ہم اپنے فرض کی ادائیگی میں اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا کر آخرت کو ترجیح دینے والے بن جائیں۔ ظاہری نظر سے دیکھیں تو مادیت پرستی پر مبنی زندگی سہل نظر آتی ہے جہاں سب خواہشیں پوری ہورہی ہوں اور اللہ کے دین کے لیے اپنا جان مال لگانا تکلیفوں بھری زندگی نظر آتی ہے لیکن اصلاً یہ نظر کا دھوکہ ہے کہ جب تک آپ دنیا کے لیے جیتے ہیں تو ایک نہ ختم ہونے والے خواہشات کے تسلسل کے اسیر ہیں۔ جہاں ہر وہ خواہش جو پوری نہ ہوسکے آپ پر بوجھ بنتی ہے، تکلیف دیتی ہے اور اگر اس دنیا کی حقیقت سے انسان واقف ہوجائے تو پھر زندگی بس سہل اور آسان ہے ۔

محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری ﷫فرماتے ہیں :

 ’’حق تعالیٰ نے تو اسلام اور صرف اسلام کی نعمت کو آخری نعمت فرمایا تھا اور یہ صاف وصریح اعلان ہوچکا تھا کہ اس کے سوا کوئی رشتہ ورابطہ، کوئی دین ومسلک قابل قبول نہ ہوگا، نجات اسی دینِ اسلام میں ہے اور اسی دینی رابطہ میں فلاح وسعادت ہے۔ باقی تمام راستے شقاوت وہلاکت اور تباہی وبربادی کے راستے ہیں اور یہ ابدی اعلان آج بھی حق تعالیٰ کے آخری پیغام میں کیا جارہا ہے:

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔   (آل عمران:۸۵)

’اور جو کوئی چا ہے سوااسلام کی حکم بر داری کے اور دین سو اس سے ہر گز قبول نہ ہوگا۔‘‘‘

٭٭٭٭٭


1 تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الإیمان ١٣ (٢٦٢٩)، (تحفة الأشراف: ٩٥١٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٣٩٨)، سنن الدارمی/الرقاق ٤٢ (٢٧٩٧) (صحیح) قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: ١٧٥ )

2 مسند احمد حدیث نمبر: 6362

3 مسند احمد 22304

4 رواہ ابونعیم ، کنزالعمال: 31304

5 مسند احمد 16334

6 کنزالعمال: 688

Previous Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | قسط سوم

Next Post

حال میں پاکستان میں علمائے کرام کی شہادتیں

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post

حال میں پاکستان میں علمائے کرام کی شہادتیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version